کابل … میرا محبوب شہر جہاں رہنے والوں اور پھر ان کے دنیا میں بکھرجانے کا ملال دل سے آج تک نہ گیا۔ بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت تھا جب میں اس وقت کے افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی مہمان ہوئی، پندرہ روز کے اس سفر میں یہ دیکھا کہ وہ کابل جس کے خربوزوں کو ہندوستان میں بادشاہ بن جانے والا بابرکس بے قراری سے یاد کرتا تھا، اسی کابل کے ثمر بار پیڑوں کو جنگ کی آگ چاٹ گئی تھی۔ قندھار اس سے کہیں زیادہ تباہ حال تھا۔ ڈاکٹر نجیب ابھی موجود تھے، شمال میں احمد شاہ مسعود کی عملداری تھی۔ شوروی رخصت ہوچکے تھے لیکن اقتدار کی طمع، دین کے نام پر اپنی دکانداری چمکارہی تھی۔ واپسی بوجھل دل کے ساتھ ہوئی لیکن اس وقت اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ کابل، قندھار، قندوز، مزار شریف اور ہلمند وہرات بھی کچھ دنوں میں سفاکی سے خاک میں ملائے جائیں گے۔
اس سفر کو اب 25 برس ہوچکے۔ ڈاکٹر نجیب دار پرکھینچے گئے، احمد شاہ مسعود بارود سے اڑائے گئے، روسی گئے، طالبان آئے اور گئے اور پھر امریکی اور ان کے حلیف ملکوں کے سپاہی آن پہنچے اور اب وہ مبارک گھڑی آئی ہے کہ وہ رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔یہ 2014ہے اور واشنگٹن پوسٹ کے مطابق افغانستان پر قابض امریکی فوج اپنے پیچھے 800 مربع میل کا ایسا علاقہ چھوڑ کر جارہی ہے جہاں بارودی سرنگوں، زندہ دستی بموں، غیر استعمال شدہ توپ کے گولوں کے انبار ہیں۔ یہ وہ ’بارودی باغ‘ ہے جو اب تک درجنوں افغان بچوں کی جان لے چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں نے اس علاقے کو ان مہلک ہتھیاروں سے صاف کرنے کی کوشش کی لیکن وہ یہاں سے صرف 3فیصد بارود صاف کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے 2 سے 5 برس درکار ہوں گے۔
ان بری خبروں کے درمیان بہت سی اچھی خبریں ہیں۔ ان میں سب سے اہم خبر یہ ہے کہ صدر کرزئی کا 12 سالہ دورِ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ وہ لوگ جو افغانستان کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے بہت مایوس تھے اور جن کا خیال تھا کہ طالبان کی موجودگی میں ان کا منعقد ہونا ایک کار محال ہے، ان کے اندیشے اور ان اندیشوں کی روشنی میں کیے جانے والے تمام تجزیے اور تبصرے سر کے بل کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ ووٹ ڈالنے والوں کی انگلیاں کاٹ دینے کی جو دھمکیاں دی گئی تھیں، ان سے سہم کر لوگ گھروں میں بیٹھیں گے لیکن لوگوں نے نہ صرف ووٹ ڈالے بلکہ انگلی پر لگی ہوئی سیاہی کو گواہ بناکر تصویریں اتروائیں جو ٹیلی وژن پر دکھائی گئیں اور اخباروں میں بھی شایع ہوئیں۔
تمام دھمکیوں اور افواہوں کے باوجود لوگوں کی بہت بھاری تعداد گھروں سے نکلی اور پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں جس کی وجہ سے پولنگ کے وقت میں ڈیڑھ گھنٹے کی توسیع کرنی پڑی۔ خواتین نے بھی بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے اور طالبان کی ہر دھمکی کو ہنسی میں اڑا دیا۔ 2014 کے ان انتخابات میں 1 کروڑ 15 لاکھ ووٹر تھے جن کے لیے 60 ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ ووٹ ڈالنے والوں کا مجموعی تناسب 60 فیصد سے زیادہ رہا۔ انتخابات کے دوران طالبان نے کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر حملے بھی کیے۔ ان حملوں کو پسپا کیا گیا اور ان میں 89 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا جب کہ افغان نیشنل آرمی کے 7 اہلکار اور صرف 4 شہری ہلاک ہوئے۔
5 اپریل کو ہونے والے ان صدارتی انتخابات میں صوبائی کونسلوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے۔ 323 افغان خواتین نے ان میں حصہ لیا اور آزادانہ اپنی انتخابی مہم چلائی۔ ان میں افغانستان کی پہلی خاتون گورنر حبیبہ سرابی کے علاوہ متعدد نوجوان اور بزرگ سیاستدان خواتین شامل تھیں۔
ایک ایسا ملک جہاں ہر طرف تشدد اور دہشت کا راج تھا، جہاں طالبان کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت کے کافرانہ نظام کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی طرف کسی بھی پیش رفت کو برداشت نہیں کریں گے، اسے پوری قوت سے کچل دیں گے، وہاں دنیا نے دیکھا کہ افغان عوام نے اپنا فرمان، ووٹ کے ذریعے نافذ کردیا اور یہ بات ثابت کردی کہ ان کی غالب اکثریت جمہوریت، آزادی اور اپنے شہری حقوق کی طلب گار ہے۔ وہ تبصرہ نگار اور تجزیہ کار جو یہ سمجھ رہے تھے کہ حامد کرزئی کے نام سے افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہے اور امریکی افواج کی رخصت کے ساتھ ہی پورے ملک پر طالبان کا قبضہ ہوجائے گا، وہ اب سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ افغانستان کی حقیقی صورت حال سے وہ اتنے ناواقف کیوں تھے۔ انھوں نے یہ اندازہ کیوں نہیں لگایا تھا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان میں جمہوری اداروں کے مستحکم ہونے کا عمل جاری ہے، ریاستی ادارے فعال ہیں، افغانستان کی ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل فوج شورش اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد مقامی مسلح گروہوں سے نمٹ لے گی۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات جن میں یوں تو 8امیدواروں نے حصہ لیا لیکن جو 3 افراد سب سے مضبوط اُمیدوار سمجھے جارہے تھے، ان میں سے 2 سابق وزرائے خارجہ اور 1 سابق وزیر خزانہ تھے۔ اب جب کہ انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آگئے ہیں، ان کے مطابق سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کے صدر بننے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ افغانستان میں پُرامن انتخابی عمل کی عالمی برادری نے بھرپور حمایت کی اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں پاکستان کی عدم مداخلت نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس انتخابی عمل میں ووٹ کی پرچی نے بندوق کی گولی کو شکست دے دی ہے۔ یہ کاغذ کی جیت اور بارود کی ہار ہے۔
پُرامن انتخابات کے انعقاد پر پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نے افغان حکومت اور عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جمہوریت کا جو سفر جاری ہے، یہ انتخابات اس حوالے سے ایک تاریخی لمحہ ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی انتقالِ اقتدار پُرامن طور پر ہوگا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری نے بھی بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے والے افغان عوام کو دلی مبارکباد دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان میں جمہوریت کا یہ سفر خوش اسلوبی سے جاری رہے گا۔ امریکی صدر اوباما نے اسے افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات افغانستان میں جمہوریت کے تسلسل کی علامت ہیں۔
یہاں افغان میڈیا کا بطور خاص ذکر ہونا چاہیے جس نے ان انتخابات میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انتخابی مہم سے ذرا پہلے اور اس مہم کے دوران وہ افغان میڈیا جسے ہم میں سے اکثر بزعم خود ’نوزائیدہ‘ سمجھتے ہیں، اس نے افغان تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر جس قومی ذمے داری کا مظاہرہ کیا، کاش ہمارا میڈیا بھی اس سے کچھ سیکھ سکے۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ہم بیشتر صدارتی امیدواروں کی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ زیادہ خوش گمان نہیں تھے، اس کے باوجود ہم یہ جانتے تھے کہ ہمیں ان انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے اپنی جان لڑا دینی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اُمید کا راستہ ہیں۔ انھیں ان تمام خطرات کا اندازہ تھا جو طالبان کی طرف سے لاحق تھے۔ یہ خطرات حقیقت بن کر اس وقت سامنے آئے جب طالبان نے سرینا ہوٹل پر حملہ کیا اور 9 افراد ہلاک کردیے۔ ان میں کابل کی صحافی برادری کا رکن سردار احمد، اس کی بیوی اور 2بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے نے افغان صحافیوں کو ہلا کر رکھ دیا اور تب ان سب نے ایک اجتماعی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ 15دنوں تک طالبان کے تمام بیانات اور ان کی جاری کردہ خبروں کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔
افغان صحافیوں کے ذمے دارانہ رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن علاقوں میں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب نسبتاً کم تھا، یا جہاں تشدد کی وارداتیں ہوئی تھیں، ان خبروں کو انھوں نے اس وقت تک ٹیلی وژن یا ریڈیو سے نشر نہیں ہونے دیا جب تک کہ ووٹ ڈالنے کا وقت ختم نہیں ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب نے طے کرلیا تھا کہ ہم کسی بھی منفی خبر کو اس وقت تک سامنے نہیں آنے دیں گے جب تک انتخابی عمل مکمل نہ ہوجائے تاکہ ووٹ ڈالنے والوں پر کسی نوعیت کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ افغان میڈیا سے وابستہ لوگوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے ملک میں جمہوریت کے لیے ایک شاندار کردار اد اکیا، ورنہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا ،کاروبار تو وہ بھی کرسکتے تھے۔
آخر میں افغان پارلیمنٹ کے ایک رکن کا یہ دلچسپ بیان بھی پڑھ لیجیے کہ افغانیوں نے ان لوگوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کردیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں جمہوریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلا شبہ افغان انتخابات ووٹ کی فتح اور گولی کی شکست ہیں۔ یہ امر طے ہے کہ 21 ویں صدی میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور فوجی طالع آزمائی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔