Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22348

مگر جو دل دھڑکتے ہیں!

$
0
0

شہد کی تیاری بہت محنت طلب کام ہے ، بہت سی مکھیاں لگا تار دن رات کام کرتی ہیں تب شہد وجود میں آتا ہے۔ کسی ایک پھول میں رس کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے اس لیے مکھیوں کے بے شمار پھولوں سے رس جمع کرنے کے بعد شہد کی قابل لحاظ مقدار تیار ہوتی ہے نصف کلو شہد تیار کرنے کے لیے شہدکی مکھیوں کو مجموعی طور پر تین لاکھ میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایک مکھی کی عمر چند مہینے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے کوئی ایک مکھی تنہا شہد تیار نہیں کر سکتی خواہ وہ اپنی عمر کا ہر لمحہ پھولوں کا رس جمع کرنے میں لگا دے، اس مشکل کا حل شہد کی مکھیوں نے اجتماعی کوشش میں تلاش کیا یعنی جو کام ایک مکھی نہیں کر سکتی اس کو لاکھوں مکھیاں ملکر انجام دیتی ہیں جو کام ان کے لیے ناممکن ہے وہ اس وقت ممکن بن جاتا ہے جب کرنے والے بہت سارے ہوں ۔شہد کی تیاری مکھیوں کے مل جل کر کام کرنے میں ہمارے لیے سبق موجود ہے اللہ تعالی چاہتا تو وہ شہد کے بڑے بڑے ذخیرے رکھ دیتا جس طرح زمین میں پیٹرول اور پانی کے بڑے بڑے ذخیرے رکھ دیے ہیں لیکن اللہ نے شہد کی تیاری کے پیچیدہ نظام کے ذریعے ہمیں بہت اہم سبق دیاہے۔ انسانی زندگی میں کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو ایک انسان تنہا انجام نہیں دے سکتا ایسی صورت میں ہمارے لیے شہد کی مکھیوں کی مثال موجود ہے۔ اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو جابجا ہمیں ایسی مثالیں ملیں گی جس میں مسلمانوں نے مل جل کر کام کر کے ایک دوسرے کا ساتھ دیکر مشکل حالات کا سامنا کیا جب قریش مکہ نے بنو ہا شم کا بائیکاٹ کیا اور انہیں ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں رہنا پڑا تو سارے خاندان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔

خندق کی جنگ میں ہمیں پھر مل کر کام کرنے کی روایت نظر آتی ہے اور سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے مواخات مدینہ کی ہے کہ جب مہاجرین مکہ بے سرو سامانی کی حالت میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انصارِ مدینہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور حضورﷺنے ان کو بھائی بھائی بنا دیا اور حضورﷺنے بھی خدا کے حکم کے مطابق ہمیشہ اتفاق میل جول اور محبت و الفت کے ساتھ بھائی بھائی بن کر بسر کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو ہم اچھی زندگی گزار سکتے ہیںاور تاریخ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ عداوتوں اور آپس کی نا اتفاقیوںکی وجہ سے گھر اور خاندان ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں ،لڑائی جھگڑے اور فساد کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا ہمیشہ اس کی انتہا تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔

اتفاق کی مثال اس عمارت کی سی ہے جس میں ایک اینٹ دوسری اینٹ سے ملکر مضبوط ہو جاتی ہے اور آخر میںدیوار بن کر ایک بڑا شاندار قلعہ بن جاتا ہے اسی طرح اگر ہم مل کر رہیں گے تو مضبوط ہوں گے اور باہر کے طوفانوں کا مقابلہ کر سکیں گے ۔یہی حال ہے کہ آج کل ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس حوالے سے اگر ہم تاریخ کی طرف دیکھیں توآجکل کی ہماری کمزوری صرف اور صرف ہماری آپس کی نااتفاقیوں کی وجہ سے ہے جس سے بیرونی ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں مزید کمزور کرنے میں سر گرم عمل ہیں ۔اتحاد و اتفاق کی کئی ایسی مثالیں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے اتفاق کرنے پر مجبور کرتی ہیں مثلاًاس بوڑھے باپ کی مثال جو اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر مرگ پہ تھا اور ایک چیز جس سے وہ بہت پریشان تھا وہ یہ کہ اس کے سات بیٹے تھے جو کہ ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے ایک دن اس نے ان سب کو بلایا اورہر ایک کو ایک ایک لکڑی لانے کو کہا۔سب لے کر حاضر ہو گئے تو انہیں توڑنے کوکہا تو ہر ایک نے آسانی سے اپنی اپنی لکڑی توڑ دی اور پھر سب کو آپس میں ملا کر توڑنے کوکہا سب نے باری باری زور لگایا مگر کوئی بھی لکڑی نہیں توڑ سکا تو پھر والد نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا اگر تم بھی ان الگ الگ لکڑیوں کی طرح رہو گے تو ہر کوئی تمہیں آسانی سے توڑ سکے گا اگر ان لکڑیوں کی طرح آپس میں اتفاق کر کے ایک ہو جائوگے تو تمہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکے گی۔اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور پاکستان کی ترقی میں ایک دوسرے کی مدد کریں نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف ہو کر پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بنیں اور جمہوریت کے دعویدار لیڈروں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ پہلے جمہوریت کو سمجھ جائیں اور اس کے بعد جمہوریت کا نعرہ لگائیں اور اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مشکلات ،پر یشانیاں ، دکھ ،مسائل تو ہر ملک میں ہیں لیکن ان لیڈروں کو چاہیے کہ عقلمندی اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کا سہارا بن کر مسائل کا سامنا کریں کیونکہ ہم سب پاکستانی ہیں اس ملک میں ہمارے مسائل ایک ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

ـِ اگرچہ مختلف ہیں بولیاں پانچ صوبوں کی
مگر جو دل دھڑکتے ہیں وہ سارے ایک ہیں

آج ہر فرد اتحاد پر بول رہا ہے لکھ رہا ہے مگر کہیں بھی اتحاد قائم نہیں کیوں آج قومیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہی ہیں ؟ کیوں آدمی آدمی کا دشمن بن گیا ہے ؟کیوں ہر انسان خود غرض ہو گیا ہے ؟اس کی وجہ کیا ہے؟جس طرح ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے اسی طرح اتحاد کی بھی قیمت ہے لوگ اتحاد تو چاہتے ہیں لیکن اتحاد کی قیمت نہیں دینا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ کہیں اتحاد قائم نہیں ہوتا ۔اتحاد کے لیے جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ قیمت صبر اور برداشت ہے جب ہم صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ۔جیسے جیسے دنیا چھوٹی ہوتی جا رہی ہے یہ بنیادی بات ہے کہ لوگوں کو مل کر کام کرنا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف ہو کر یہ ایک سیاسی لیڈر کی نا اہلی ہے اور نہ یہ اسلامی جذبہ ہے ۔

ہم بحیثیت مسلمان ایک دوسرے کے لیے دل کو صاف رکھیں مثبت سوچیں تو دنیاوی زندگی میں بھی اتفاق و محبت اور روحانی بلندی بھی نصیب ہوگی ۔بالکل اسی طرح ہم اپنے ذہن کو ،دل کو حسد ، غیبت، لڑائی جھگڑوں سے پاک رکھیں گے تو دنیاوی اور روحانی ترقی کرسکیں گے اور اخوت کو قائم کر تے ہوئے اسلام کی واضح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے ۔

تاریخ اسلام کے سرسری مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق اور اخوت کے اسلامی اصولوں کو بروئے کار لا کر دنیا پر حکومت کی تھی جیسا کہ علا مہ اقبال اپنے اشعار میں کہتے ہیں

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی

اجتماعیت سے ہم کٹھن سے کٹھن حالات کا سامنا کر سکتے ہیں جس طرح سے پانچ انگلیاں آپس میں مل کر ایک بہت بھاری وزن اٹھا سکتی ہیں جب کہ ایک انگلی یہ کام نہیں کر سکتی۔

شری ہر دیو سنگھ المست انگریزی اور پنجابی زبان کے شاعر اپنے ایک گیت میں موٹر کے پرزوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ اے پرزوں ! تم اپنے انجن کے ساتھ جڑے رہو اسی میں تمہاری قیمت ہے اگر تم اپنے انجن سے الگ ہو گئے تو یاد رکھو کہ اس دنیا میں بیکار لوہے کے بھائو بِکو گے ۔

جو فرد اتحاد کے بندھن سے الگ ہو جائے وہ بس ایک فرد ہے اس کی مثال اس پرزے کی سی ہے جو اپنے انجن سے الگ ہو گیا ہو اس بات کو علامہ اقبال اپنے شعر میں اس طر ح کرتے ہیں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ بھی نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22348

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>