بجلی کی فراہمی ایک اتنا بڑا عوامی مسئلہ بن گیا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں جس طرح ایوب خان کی حکومت آٹے کی گرانی پر بے سُدھ ہو گئی تھی اسی طرح ہماری یہ نوزائیدہ حکومت بجلی کی نایابی پر رخصت ہو سکتی ہے کیونکہ ایک تو بجلی سب سے بڑا ذریعہ روز گار دوسرے شدید گرمی اس طرح اس کی نایابی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے مگر ایک بات جو سرکاری سطح پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ لاہور میں وزیر اعظم کے رائے ونڈ اور وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عملاً مستثنیٰ ہیں۔
اول تو یہاں بجلی کا فول پروف متبادل نظام قائم کیا گیا دوسرے سرکاری سطح پر جنریٹر بھی موجود ہیں جو ایک اشارے پر رواں ہو جاتے ہیں اور اندھیروں کو روشنیوں پر بدل دیتے ہیں اور گرمی کو بھی غائب کر دیتے ہیں۔ خبر کے مطابق جن لوگوں کو ملک چلانا ہے اور کاروبار حیات کو رواں رکھنا ہے ان کے ہاں بھی یہ شریفانہ انتظام موجود ہے۔ اب رہے بے خبر عوام تو وہ جانیں اور ان کے ووٹ اور یہ ان کے ساتھ مدتوں سے ہوتا آیا ہے۔ جب بھی الیکشن ہوتا ہے تو عوام کے گلے شکوے شروع ہو جاتے ہیں کہ ہمارے نمایندے ہمیں ملتے ہی نہیں۔ میں نے ایک نمایندے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ عوام کے کام کرانے کے لیے ہمیں جن لوگوں سے ملنا ہوتا ہے وہ ہمیں نہیں ملتے چنانچہ ہم عوام کو نہیں ملتے۔
سمجھدار ووٹروں کو بتا بھی دیتے ہیں اور جو سمجھدار نہیں ہے انھیں جلسوں جلوسوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مدتوں بعد ان دنوں پھر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پیر کا گھر بجلی کے چراغوں سے ہے روشن لیکن مرید بے چارے کو تو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں ہے۔ مٹی کا دیا مجھے ان دنوں ہمیشہ یاد آ رہا ہے۔ تارے میرے کا تیل مٹی کے دیے میں ڈال دیا جاتا۔ اس کے بیچ میں روئی کی وٹ رکھ دی جاتی اور اسے آگ لگا کر ہوا سے محفوظ کسی جگہ رکھ دیا جاتا۔ یوں یہ دیا اندھیروں سے لڑتا رہتا اور اسی کی روشنی میں گھر کا سلسلہ چلتا رہتا بلکہ طالب علم بھی اسی دیے کی روشنی میں پڑھا کرتے۔ کئی سی ایس پی بڑے فخر سے کہا کرتے کہ ہم دیے کی روشنی اور ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھے ہیں اور آج کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔
بہر حال زمانہ گزر گیا عوام جائیں بھاڑ میں اب آج کی دنیا اس کی ہے جس کا حکم چلتا ہے اور بجلی والے خواہ خود کو آگ لگا دیں ان کے گھروں کو بجلی سے محروم نہیں رکھ سکتے اس سلسلے میں ایک کارنامہ لاہور کی سب سے بڑی عمارت اور سب سے بااثر عمارت گورنر ہائوس میں سرانجام دیا گیا ہے۔ گورنر ہائوس سے باہر عوام کو بجلی میسر نہیں۔ گورنر صاحب نے حکم دیا ہے کہ گورنر ہائوس میں بھی بجلی نہیں ہو گی اگر ہو گی تو اتنی جو کسی اجلاس اور سرکاری کام کی وجہ سے ناگزیر ہو گی۔
گورنر ہائوس میں بجلی زیادہ تر روشنی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اس کے استعمال کو کم از کم کیا جا سکتا ہے۔ ایک بلب ایک پنکھا اور اسی طرح بجلی سے چلنے والی کوئی ایک آدھ ضروری چیز۔ درست کہ گورنر صاحب اور ان کی فیملی لندن میں رہے لیکن سب کا جم پل تو گائوں کا ہے۔ وہ گورنر ہائوس کو اپنا گائوں والا گھر بنا کر خوش ہو سکتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو فخر کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ ان کے بزرگ نے اپنا اصل فراموش نہیں کیا اور گورنر ہائوس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ مجھے ایک خطرہ ہے کہ اگر رائے ونڈ میں یہ گستاخانہ خبر پہنچی تو کہیں گورنر صاحب کو جھاڑ نہ پڑ جائے کیونکہ سرکاری سطح پر یہ گستاخی عام نہیں ہوا کرتی لیکن چوہدری سرور صاحب نے گورنری کی عزت رکھ لی۔ اب میں یہاں پرانے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کی سادگی کا حوالہ نہیں دینا چاہتا جن کے ہاں تو کسی اونچی جگہ پر بیٹھنا بھی خطرناک تھا کیونکہ جو فرش پر بیٹھتے ہیں وہ گرتے نہیں ہیں۔
لاہور کے گورنر ہائوس کے عملے میں کوئی ایسا صاحب ذوق ضرور ہو گا جو لوڈشیڈنگ والے گورنر ہائوس کے روز و شب کی کہانی لکھ سکے گا۔ میرے خیال میں بجلی سے محروم یا بجلی کو رضا کارانہ استعمال نہ کرنے والا گورنر ہائوس ان دنوں یعنی لوڈشیڈنگ کے دنوں میں بھی قائم رہے گا اس کے در و دیوار سلامت رہیں گے اور ان کے اندر کام کرنے والے بھی خیریت سے رہیں گے۔ گورنر ہائوس کی زندگی میں یہ دن یاد گار رہیں گے۔ انھیں تاریخی بھی کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔
ہمارے ہاں تاریخی دنوں کا ایک سلسلہ جاری ہے کسی ٹی وی چینل پر کسی جرنیل اور وہ بھی آئی ایس آئی کا سربراہ کو مجرم بنا کر دکھایا گیا۔ یہ ادارہ اس قدر بارعب ہے کہ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ بھارت کے ایک سفر میں ان کا ہمسفر ایک بھارتی افسر تھا۔ باتوں باتوں میں ان سے پوچھا کہ آپ پاکستان کی کس چیز سے ڈرتے ہیں۔ اس کا فوری جواب تھا ایف 16 جہازوں اور آئی ایس آئی سے ابھی پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا۔ جب آئی ایس آئی سے ڈرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ کسی بھی وقت کچھ کر سکتی ہے۔ کوئی ایسی کارروائی جس کا فوری جواب نہیں ہوتا۔
بات تاریخی دنوں کی ہو رہی تھی۔ ہمارے اوپر بیٹھے بٹھائے ایک اور افتاد آن پڑی ہے کہ ہم پولیو کا انسدادی ٹیکہ لگوائے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ ہم جب یہ ٹیکے لگانے والوں پر کتے چھوڑ دیں گے۔ ورکروں کو گولی مار دیں گے اور یہ سب اس لیے کریں گے کہ کہیں آپ اس مہلک مرض سے بچ نہ جائیں۔ آپ کی صف میں دوسرے ممالک بھی آپ کی طرح کے بدقسمت ملک ہیں کچھ افریقہ کے اور کچھ ایشیا کے بھی۔ ہمارے ہاں ہمارے دشمنوں نے یہ کارروائی کی ہے جن کے ساتھ ہم دوستی کی زبردست فکر میں ہیں کیونکہ امریکا یہی چاہتا ہے اور کمزور اور بزدل ملکوں میں وہی ہوتا ہے جو امریکا چاہتا ہے۔ بہر حال اب آپ باہر جائیں تو ٹیکہ لگوا لیں۔ ورنہ گھر پر آرام کریں۔