Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22348

حالات اب بھی بہتر ہوسکتے ہیں!…

$
0
0

کچھ تلخ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر شتر مرغ ریت میں منہ چھپا کر یہ سمجھنے لگے کہ طوفان کا خطرہ ٹل گیا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا، لہذا حقائق کا سامنا کرنے اور فرار کا راستہ نہ اختیار کرنے میں ہی بہتری ہے۔ جب ہم میں حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہو گی تو مسائل کے حل کے لیے بھی نت نئے طریقے نکل آئیں گے۔ اس کے برعکس، اگر فرار کا راستہ اختیار کیا جائے گا تو مسائل حل ہونے کی بجائے مسلسل پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔ بعد میں ایک ایسا مرحلہ آئے گا کہ ‘درد بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی‘ والی صورتحال نمایاں ہو جائے گی۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ زندہ قومیں تلخ حقائق کا سامنا کرتی ہیں اور پھر پہلی فرصت میں مسائل کے اسباب تلاش کر کے مرض کا دائمی علاج کرتی ہیں اور اسی میں ان کی کامیابی کا راز پنہاں ہوتا ہے۔

پاکستان، دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس کے قیام کے 66 برس بعد بھی آج تک لوگ اس بات پر بحث کرتے آ رہے ہیں کہ ملک کا وجود رہے گا کہ نہیں؟ آخر موجودہ غیر یقینی صورتحال کا اصل ذمے دار کون ہے؟ کیا وہ حکمران ہیں جو قیام پاکستان کے بعد یعنی پہلے دس پندرہ برسوں کے دوران خاص طور پر اقتدار میں رہے اور قومی سطح پر کوئی غیر جانب دار اور قابل قبول عام انتخابات بھی نہیں کرا سکے۔ اس کے علاوہ مارچ 1956ء سے پہلے، آئین بھی نہیں دے سکے یا پھر موجودہ دور کے حکمران جو اس خوبصورت اور وسائل سے مالامال ملک کو اب تک سنبھال نہیں سکے ہیں یا پھر دونوں ادوار کے حکمران؟

ہم روزمرہ زندگی میں جس سے بھی ملتے ہیں وہ اپنے معاملات کی تکمیل کی راہ میں چھوٹی بڑی رکاوٹیں پیش آنے پر فورا اس خوبصورت ملک کے خلاف غیر ضروری طور پر بولنا شروع کر دیتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران، اس ملک کے نظام کو دائمی بنیادوں پر بہتر بنانے کے لیے کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے ہیں۔

میں سنگاپور کی ایک خوبصورت شام کو، مشہور آرچرڈ روڈ کا اکیلا سیر کر کے لطف اندوز ہو رہا تھا، جہاں پر بڑے بڑے شاپنگ سینٹر موجود ہیں جو رنگ برنگی روشنیوں میں خوبصورت اور دلفریب منظر پیش کر رہے تھے تو اچانک ایک اجنبی شخص نے میرا راستہ روکا۔ میں سنگاپور تو کئی مرتبہ گیا ہوں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی اجنبی نے میرا راستہ یوں روکا ہو، چنانچہ میرا وقتی طور پر پریشان ہونا فطری عمل تھا۔ اس شخص نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ کو میرا ملک سنگاپور کیسا لگا؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’بہت خوبصورت، صاف ستھرا اور ویل آرگنائزڈ (منظم)‘‘ وہ شخص اپنے ملک کی، کسی اجنبی سیاح طرح کی تعریف سن کر پھولے نہیں سمایا اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلتا بنا۔

میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ آخر کار سنگاپور میں وہ کونسی بات ہے جو ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ سنگاپور کا وجود تو دنیا کے نقشہ پر ایک نقطہ کے برابر ہے، اگر کوئی شخص ہمت کرے تو دو گھنٹوں میں سنگاپور کو پیدل کراس کر سکتا ہے۔ سنگاپور تو دنیا کی دوسری مصروف ترین بندرگاہ رہا ہے اور خریداروں کی جنت بھی کہلاتا ہے لیکن ہمارا ملک تو قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ ہمارے یہاں تو چار موسم، سمندر، دریا، پہاڑ، بندرگاہیں، تیل، گیس، زراعت، معدنیات، کوئلے کے عظیم ذخائر، سونے اور تانبے کی دنیا کی پانچویں بڑی کان وغیرہ موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں لیکن پھر بھی ہمارا ملک غیر یقینی سیاسی اور اقتصادی صورتحال سے عرصہ دراز سے دوچار ہے جب کہ سنگاپور میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ہم تو پہلے ہی ناکام ریاست کے زمرے میں آ چکے ہیں، جس کا اہم سبب ہمارے پاس گڈ گورننس اور قانون کے احترام کا فقدان ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کیں۔ اگر کسی حکمران نے ایسی کوششیں کی بھی تو آنے والے حکمرانوں نے ان پر پانی پھیر دیا اور اسی طرح ہم اس نقطے پر واپس لوٹ آئے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ خالی باتوں سے کبھی روم کا شہر تعمیر نہیں ہو سکتا ۔

یہ افسوسناک بات ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ملکی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے روز بروز مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم سب مل کر ملک کے اندر بہتری پیدا کرتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں ایک ڈر سا موجود رہتا ہے کہ کہیں آنے والوں برسوں میں مذکورہ صورتحال ناقابل واپسی نقطہ پر پہنچ نہ جائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہماری آیندہ نسلیں ہمیں ہرگز معاف نہیں کر پائیں گی۔ ہم کم سے کم اتنا تو کر سکتے تھے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچا لیتے مگر بدقسمتی سے ایسی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔

لوگ تو پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت کو بْرا بھلا کہتے رہے ہیں ، لیکن بعد میں نواز لیگ کا حکمرانی کا دور آیا تو لوگ گیارہ مہینوں کے قلیل عرصے کے اندر ہی ہاتھ پرہاتھ ملنے لگے یعنی مایوس ہو گئے ہیں۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، کچھ صدیاں پہلے برطانیہ میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا لیکن جدوجہد کے بعد انھوں نے ایک واضح نظام تخلیق کیا اور آج برطانیہ گڈ گورننس اور جمہوریت کے حوالے سے سب کے لیے ایک مثال ہے جب کہ برطانیہ کی پارلیمینٹ، دنیا کی ساری پارلیمینٹ کی ماں کہلاتی ہے۔ چین، جو کبھی افیمی قوم کہلاتی تھی، ہم سے دو برس بعد یعنی 1949ء میں آزاد ہوا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا مستحکم ملک بن گیا ہے لیکن ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جو 66 برس گزرنے کے بعد بھی اپنے وجود کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22348

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>