ماننا پڑتا ہے کہ یہ امریکی جو بھی کرتے ہیں کمال کا کرتے ہیں۔ سیکھو سیکھو امریکا سے کچھ سیکھو ۔۔۔ امریکا والے یونہی ہر کسی کے دل میں جوتوں سمیت نہیں اترے ہیں بلکہ ان کو دل میں اترنے کے ’’سارے راستے‘‘ معلوم ہوتے ہیں، پشتو کے ایک شاعر یونس خلیل کا ایک شعر ہے
مسکتیوب او پسرلے خو دواڑہ یودی
دلتہ غونڈ دے پہ یو زائے کے ھلتہ خور دے
ترجمہ : یعنی تیری مسکراہٹ اور بہار دونوں ایک ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ایک ہی جگہ سمٹ آئی ہے اور وہاں پھیل گئی ہے، اب تک ہمارا خیال تھا کہ روشن روشن پاکستان خالص ہماری یعنی حکومتوں اور لیڈروں کا کارنامہ ہے لیکن اب پاکستان میں جو کچھ ’’شائبہ خوبی امریکا‘‘ بھی ہے۔۔ کیوں کہ آج تک ہم نے جتنے بھی لوگوں کو دیکھا ہے جن کا جائز یا ناجائز کوئی بھی تعلق امریکا سے رہا ہے وہ واقعی خوش حال ہو چکے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش حال بنا رہے ہیں، خوش حالی لانے کی بات تو حق ہے۔ اپنی بدحالی دیکھ کر اکثر جی میں آتا ہے کہ
یارب اندر کنف سایہ آں سرو بلند
گر من سوختہ یکدم بنشینم چہ شود
ترجمہ : یا خدایا اگر اس سرو بلند قامت کی چھاؤں کے ایک کنارے پر مجھ سوختہ جاں کو بھی دو گھڑی بیٹھنے کا موقع مل جائے تو کیا ہو جائے گا، چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سابق ڈینگی مچھر کو تو آپ جانتے ہیں کہ انتہائی جذباتی آدمی ہے ایک دن اپنے ارد گرد چند لوگوں کو تیز رفتاری سے خوش حال ہوتے دیکھا تو خودکشی کرنے پر تل گیا، وہ تو اچھا ہے کہ بروقت کوئی آلہ خودکشی دستیاب نہیں تھا ریل کی پٹڑی دور تھی رسی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور بجلی اپنے میکے گئی ہوئی تھی مجبوراً آدھی خودکشی پر اکتفا کر کے اپنا منہ سر پٹنے لگا، پوچھا بھئی یہ سلسلہ کیا ہے ۔۔۔ بولا ۔۔۔ کیا یہ خودکشی کا مقام نہیں ہے کہ جن کو کل کوئی ’’خرولا‘‘ پر بھی لفٹ دینے کو تیار نہیں تھا وہ آج کرولا میں اڑتے پھر رہے ہیں وہ بھی صرف ہم پر دھول اڑانے کے لیے ۔۔۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے آنسوؤں کو ہاتھوں میں جمع کر رہا ہے ۔۔۔ پوچھا ۔۔۔ یہ کیا ۔۔۔ بولا چلو بھر پانی جمع کر رہا ہوں تمہارے ڈوب کر مرنے کے لیے ۔۔۔ یونہی طرم خان بنے پھرتے رہتے ہو کاغذوں کو سیاہ کر کر کے انگلیاں فگار اور خامہ خوں چکاں کر لیا اگر کسی این جی او میں گھس کر چوکیدار بھی بن جاتے تو آج یوں قرض خواہوں اور مصیبتوں سے ’’لکا چھپی‘‘ نہ کھیل رہے ہوتے، ساتھ ہی ہمارا بھی حلق تر ہو جاتا اندر ہی اندر تو ’’قلندر‘‘ کی یہ بات ہمیں پانی پانی کر رہی تھی لیکن اپنی ’’نااہلی‘‘ کو خودداری کے ذریعے چھپانے میں ہمیں عمر بھر کا تجربہ ہے، چند بھاری بھرکم کتابی بلکہ ’’کالماتی‘‘ الفاظ بول کر ہم نے اسے قائل کر لیا کہ یہ این جی اوز وغیرہ تو ہمارے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں کہ ہم اقبال کے مرد مومن ہیں اپنی خودی کو بلند رکھتے ہیں شکر ہے کہ اسے مرزا محمود سرحدی کے ان شعروں کا پتہ نہیں تھا کہ
ہم نے اقبال کا کہا مانا
اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
پھر پینترا بدل کر بولا ۔۔۔ ایک تو یہ امریکی لوگ میری سمجھ میں نہیں آئے۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور جذباتی ہو کر غیر پارلیمانی زبان پر اتر آتا اور بہت سارے لوگوں کے استحقاق مجروح کرتا ہم نے بریک ڈال کر روکنے کی کوشش کی لیکن ہم یہ بھول گئے تھے کہ وہ قہر خداواندی ہے جو روکنے کی کوشش کو اپنی طاقت بنا کر اور بھی رواں ہو جاتا ہے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اپنی گفتگو کو ہائی اسپیڈ میں ڈال کر دو چار لیٹر ڈیزل خرچ کرنے کے بعد بولا ۔۔۔ تم تو اپنے آپ کو بڑا پھنے خان سمجھتے ہو بتاؤ آخر امریکا والوں کے ہاں ڈالر پیڑوں پر اگتے ہیں اپنے ہاں کا سب کچھ سنوار لیا ہے، امریکا کو انھوں نے فردوس گم گشتہ بنا لیا ہے جو ہمارے غم میں مبتلا ہو کر یہاں ’’ڈالر باری‘‘ کرتے ہیں کیوں آخر کیوں؟ ثواب دارین کے لیے، کار خیر کے لیے؟ انسانیت کے ناطے؟ ہماری خالہ پھوپھی کے بھائی ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ جب قہر خداوندی کی گفتگو میں سوالیہ نشانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ تو ایسے مواقع پر جواب دینے کے بجائے چپ سادھ کر خود کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کرنا چاہیے کیوں کہ وہ دراصل سوال اس لیے نہیں کرتا کہ اس کا جواب اسے چاہیے ہوتا ہے بلکہ ’’جواب‘‘ اس کے دماغ میں پک چکا ہوتا ہے۔
سوال تو محض ایک ڈھکن کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ جواب ابل ابل کر خوب زور دار ہو جائے اور پھر بھلا اس کا جواب ہم دے بھی کیا سکتے ہیں کہ امریکا کے سر پر کس بھینسے نے پاؤں رکھا ہے کس بھڑ نے اسے کاٹا ہے اور کس ڈاکٹر نے نسخے میں لکھا ہے کہ اپنے بچوں کے منہ نوالا چھین کر یہاں لاؤ اور آنکھیں بند کر کے یہاں وہاں بے تحاشا پھینکتے چلے جاؤ۔ ۔۔۔ اس احتیاط کے ساتھ کسی کا بھلا ہر گز ہونے نہ پائے اور برا ہی برا ہوتا چلا جائے، ہر شخص کرپٹ ہو جائے ہر بندہ چور بن جائے اور ہر آدمی بھکاری بن جائے، ’’نہفتن آں دیگ‘‘ کا وقت ہو چکا تھا پریشر ککر کی سیٹی بجنا شروع ہوئی، بولا صرف اور صرف اس لیے کہ یہاں کا معاشرہ کرپٹ، بے ایمان اور مفت خوروں سے بھر جائے ’’کام‘‘ کرنا بھول جائے بھیک کو اپنا پیشہ بنا لے ۔۔۔ اور نکھٹو پن کو اپنا وطیرہ سمجھ لے ۔۔۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکیوں جیسے لائق فائق حساب دان نکتہ دان ہوشیار سمجھ دار اپنے ڈالروں کو یوں ضائع کریں کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کے ذیلی اہل کار ان کے ڈالروں کو کس طرح ضائع کرتے ہیں ۔۔۔ خوب جانتے ہیں کیوں کہ یہی تو وہ چاہتے ہیں
سب سمجھے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں