ایک ’’سابق‘‘ وزیر نے موجودہ ’’لاحق‘‘ وزیر اعلیٰ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ’’بے اختیار‘‘ وزیراعلیٰ ہیں اگرچہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ سیاست میں کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی کیونکہ ’’سابق لوگ‘‘ ہمیشہ ’’لاحق‘‘ لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں اور اس لیے کہتے رہتے ہیں کہ جو سابق ہے وہ بھی کبھی لاحق تھا اور جو لاحق ہے اسے بھی ایک سابق ہونا ہی ہوتا ہے یعنی ساس بھی کبھی بہو تھی اور بہو کو بھی ساس بننا ہوتا ہے، ایک بڑا ہی مزیدار ٹپہ یاد آیا ،
دا سنگ چہ تہ ئے داسے زہ وم
چہ سنگہ زہ یم داسے بہ تہ بہ شے مئینہ
یعنی جیسے آج تم ہو ویسا ہی کبھی میں بھی تھا اور جیسا آج میں ہوں ویسا ہی تم کو بھی ایک دن ہونا ہے، لیکن پھر بھی نہ جانے یہ ’’سابق‘‘ لوگ ’’لاحق‘‘ لوگوں کے بارے میں وہ کچھ کہتے رہتے ہیں جو کبھی ان ’’لاحقوں‘‘نے ان سابقوں کے بارے میں کہا ہوتا ہے کیونکہ اصل میں یہاں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی، سابق ہی ’’اولون‘‘ بھی ہوتے ہیں اور ’’اولون‘‘ ہی سابق ہوتے ہیں یعنی کبھی امی جان کی باری اور کبھی باباجان کی سواری۔
لیکن سیاست میں معاملہ اس کے الٹ ہوتا ہے، کوئی بھی کسی کی ’’باری‘‘ آنے پر چپ نہیں رہتا، بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے چاہے کچھ بھی نہ بول رہا ہو۔یہ سابق ہمیشہ لاحقوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو یاد دلاتے رہیں کہ ہم بھی یہاں موجود ہیں۔
اب یہ کیا بات ہوئی کہ موجودہ لاحق وزیراعلیٰ بے اختیار ہیں، ارے سابق صاحب اسی بے اختیاری نے تو ہماری ریڑھ ماری ہے۔ چلیے ایک مثال دیتے ہیں، کھیتوں میں اکثر کاشت کار لوگ جب جانوروں کو گھاس یا برسیم کے کھیت میں کھلانا چاہتے ہیں، وہ چارے کے کھیت میں ایک کیل ٹھونک کر اسے باندھ دیتے ہیں اور رسی اتنی رکھتے ہیں کہ جانور اس مخصوص دائرے سے باہر منہ ماری نہ کرے اور اپنی رسی کی لمبائی جتنے دائرے چرتا رہے لیکن بعض اوقات جب رسی اور دائرہ ذرا کم ہوتا ہے بلکہ اکثر کم رکھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ لمبی رسی سے بڑا دائرہ بنے گا اور کہیں جانور زیادہ برسیم کھا کر ’’اپھارے‘‘ کا شکار نہ ہو جائے۔
اس ڈر سے رسی اکثر چھوٹی اور دائرہ تنگ رکھا جاتا ہے لیکن جانور کو تو چرنا ہوتا ہے، اپنا پیٹ بھرنا ہوتا ہے اس لیے وہ اس دائرے کا چارہ چر چر کر جڑوں تک چباجاتا ہے، ایسا کہ کئی کئی ہفتوں تک کھیت سوکھا اور بنجر رہ جاتا ہے، اس لیے ہوشیار اور تجربہ کار لوگ رسی نہایت ناپ تول کر رکھتے ہیں تاکہ زیادہ چر کر اسے اپھارہ بھی نہ ہو جائے اور کم دائرے میں چارے کی جڑیں تک نہ چپائے، اب ذرا سابق صاحب کا لاحق صاحب کے بارے میں دیا ہوا بیان من ہی من دہرا دیجیے ۔۔۔ لاحق وزیراعلیٰ بے اختیار وزیراعلیٰ ہیں اب ہم نہ تو ’’سابقون‘‘ میں ہیں نہ ’’اولون‘‘ میں اس لیے کہہ نہیں سکتے کہ کیا واقعی ایسا ہے، سابقون کی باتیں اولون ہی جانیں یا سابق جانے اور لاحق جانیں لیکن اتنا ہمیں پتہ ہے کہ سابق صاحب کے دور میں جو لاحق وزیراعلیٰ تھے وہ بے اختیار بالکل نہیں تھے ۔
ان کے ایک لاحق پی اے تھے جو بڑے ہی ’’معصوم‘‘ تھے اتنے معصوم کہ الیکشن کمیشن میں تحریری طور پر ببانگ دہل اعلان کرتے تھے کہ اتنے اتنے کروڑ اس نے کہاں کہاں لگائے جب کہ وہ کسی قسم کے منتخب بھی نہیں تھے، خیر وہ تو اچھے وقتوں کی بات ہے، یہاں پر اب دوسرے قسم کے کھیتوں اور جانوروں کی بات آجاتی ہے کہ وہ پورے ریوڑ کو کھیت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ریوڑ دوڑ پھر کر سارے کھیت کو گنجا کر دیتا ہے اور خود بھی ’’اپھارے‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔
اکثر جانور زیادہ ٹھونسنے سے یا تو مر جاتے ہیں یا بیمار پڑ جاتے ہیں اور ان سابق صاحب کے دور میں ایسا ہی ہوا تھا بے چارے کتنے جانور تھے اور ہیں جو اپھارے کا شکار ہو کر کام سے گئے، اب اگر سابق صاحب کی بات سچ ہے اور لاحق صاحب کے گلے میں رسی ہے وہ کیل سے بندھے ہوئے ہیں تو بھی کھیت کی شامت آئے گی کیوں کہ کم دائرے میں کسی چارے کی جڑیں تک باقی نہیں رہیں گی اور اگر ان کے ’’لاحق‘‘ بااختیار تھے تو پورے کھیت کو گنجا کر گئے اور باقی جوچارہ بچا تھا وہ کھانے کے لائق ہی نہیں رہا تھا، مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں نقصان کھیت ہی کو ہونا ہے چاہے کوئی کھلا چرے یا بندھا ہوا بقول اس دو بیویوں کے شوہر کے کہ
بیخ دے اوزی یو تربلہ
نہ آشہ خہ دہ نہ گلہ
یعنی خدا دونوں کو غارت کرے نہ ’’آشہ‘‘ اچھی ہے اور نہ گلہ
کھیتوں کے لیے یکساں سابق ہو کہ لاحق ہو
وہ ’’جلوت‘‘ جانانہ بہ ’’خلوت‘‘ جانا نہ
ویسے کبھی سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ لوگ بھی ’’بیان‘‘ کا شغل کرنے کے لیے کیا کیا اور کہاں کہاں سے موضوعات ڈھونڈ نکالتے ہیں کیونکہ سیاست میں بیان بازی ہی تو لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ خدا نخواستہ یہ مشغلہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے تو لاچار کیا کریں گے، یک گو نہ ’’بے تکی‘‘ مجھے دن رات چاہیے ویسے بھی جو ہمیشہ کوئی ٹپہ کوئی چار بیتہ کوئی غزل گاتے رہتے ہیں ان سے توقع تو ہوتی ہے کہ
کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج ’’سابق‘‘ بیاں سرا نہ ہوا
ویسے ہمارے صوبے کے لوگ بھی بڑے سائیں لوگ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کو اگلے جہاں میں کوئی بھی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ باریوں کی حکومتوں اور سابق ولاحق لوگ اتنا زیادہ عذاب دے چکے ہوں گے کہ شاید آخرت میں ان کے گناہ کم پڑ جائیں جن میں سب سے کبیرہ گناہ، شاید ایسے ایسوں کو ووٹ دینے کا ہو گا۔
The post سابق وزیر کا ’’لاحق‘‘ وزیر کے بارے میں بیان appeared first on ایکسپریس اردو.