چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کی غلطیاں اب اپنے سر نہیں لیں گے ہمارے کندھے اس لیے نہیں کہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں، اب قانون کی خلاف ورزی پر قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی سرزنش کے موقعے پر برہمی سے کیا۔ انھوں نے کہا کہ سیاستدان خرابیاں پیدا کرکے ہم پر بوجھ ڈال دیتے ہیں، ہم مزید برداشت نہیں کریں گے اور نہ اب خاموش رہیں گے اور غلطی کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔ جسٹس (ر) رضا محمد خان نے کہا کہ سیاستدانوں نے ٹی وی پروگراموں میں میرٹ، میرٹ کی بہت باتیں اختیار کر رکھی ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ میرٹ کے لوگ ہیں لیکن ان کے سارے کام غلط ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے پہلی بار سیاستدانوں سے متعلق یہ اظہار خیال جہاں ایک طرف سیاستدانوں کے لیے چارج شیٹ ہے وہاں دوسری طرف الیکشن کمیشن کی غلطیوں کا کھلا اعتراف بھی ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ غلطیاں صرف سیاستدانوں کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی بھی ہیں جس کا ماضی میں سیاستدانوں نے تو ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے ہوئے اعتراف جاری رکھا مگر الیکشن کمیشن نے پہلی بار سیاستدانوں کی غلطیوں کا پول کھولا ہے کہ وہ غلطیاں کرکے بوجھ الیکشن کمیشن پر ڈالتے آئے ہیں اور الیکشن کمیشن ہمیشہ خاموش رہا مگر اب ایسا نہیں ہوگا اور غلطیاں کرنے والے سیاستدانوں کو اب الیکشن کمیشن کے ایکشن کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
چیف الیکشن کمشنرکا تعلق عدلیہ عظمیٰ سے رہا ہے اور 2013کے عام انتخابات میں عمران خان نے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سمیت سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم، سابق جج سپریم کورٹ خلیل الرحمن رمدے اور خود الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھی 2013 کے الیکشن میں دھاندلیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کر رکھے ہیں جس کا فیصلہ ممکن ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کرے۔
ملک میں پہلی بار جوڈیشل کمیشن اپنا کام شروع کرچکا ہے جس کے بعد توقع ہے کہ الیکشن کمیشن بھی متحرک ہو گیا ہے جو اب تک سیاستدانوں کی غلطیاں اپنے سر لیتا رہا ہے اور سیاستدان خود صاف و شفاف بنے رہے اور الیکشن کمیشن کو لتاڑتے بھی رہے۔ ملک میں پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ کوئی بھی ملک کو غیر متنازعہ عام انتخابات نہ دے سکا۔ الیکشن کمیشن نے اب محسوس کیا ہے کہ وہ ماضی میں سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا اور اس کے کندھے سیاستدان استعمال کرتے رہے۔ سیاستدان خرابیاں خود پیدا کرتے رہے اور بوجھ الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر بڑھتا رہا جو اب ناقابل برداشت ہوگیا اور اچھی شہرت کے حامل سابق جج صاحبان محفوظ نہ رہے، تو یہ صورتحال دیکھ کر نئے چیف الیکشن کمشنر پھٹ پڑے اور انھوں نے سیاستدانوں پر الزامات کی بارش کردی۔
عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں شریک ہوتی ہیں اور سیاستدان جماعتی یا غیر جماعتی بنیاد پر انتخاب لڑتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں خود تو نہیں مگر ان کے امیدوار خود دھاندلیاں کراتے ہیں اور جس کا جہاں زور چلتا ہے وہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ انتخابات سے قبل پولنگ اسٹاف اپنی مرضی کا مقرر کرایا جاتا ہے۔ پولنگ اسٹیشن اپنی پسندیدہ جگہوں پر منظور کرائے جاتے ہیں۔ عام انتخابات خواہ عدلیہ کی نگرانی میں ہوں یا انتظامیہ کی ہر انتخاب میں سرکاری ملازمین ہی پولنگ اسٹاف بنائے جاتے ہیں۔ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا بلدیاتی اداروں کے ملازمین سب پارٹی بنے ہوتے ہیں اور جانبدارانہ کردار کھل کر ادا کرتے ہیں اور گنتی کے جو چند غیر جانبدار اہلکار ہوتے ہیں اکثریت کی موجودگی میں ان کی نہیں چلتی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش رہنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کے مقابلے میں چونکہ پولنگ عملہ زیادہ تر مقامی نہیں ہوتا اس لیے انھیں خریدنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے نہ ماننے والوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ الیکشن کی رات جب پولنگ اسٹاف اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ جاتا ہے تو بااثر امیدواروں کی طرف سے ان کی آرام دہ رہائش اور عمدہ طعام کے ساتھ لفافے فراہمی کا انتظام ہوتا ہے۔ عام انتخابات میں زیادہ تر پولنگ اسٹاف خود جانبدار اور سیاسی ہوتا ہے اور وہ اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے امیدواروں کی کامیابی کا خواہاں ہوتا ہے۔ عدلیہ کے ریٹرننگ افسران اتنے دباؤ میں نہیں آتے جتنے انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے ریٹرننگ افسران آجاتے ہیں مگر ان کے ماتحت پریزائیڈنگ افسران خود جانبدار ہوتے ہیں جو کھل کر دھاندلیاں کرتے ہیں بوگس ووٹ ڈلواتے ہیں اور ہر غیر قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ دکھانے کی کوشش ہوتی ہے۔
مردہ لوگوں کے ووٹ ڈلوا دیے جاتے ہیں۔ ووٹر حلقے کا ہو نہ ہو اس سے ووٹ ضرور ڈلوائے جاتے ہیں اور جعلی ووٹ ڈالنے والے صرف ایک ووٹ کے لیے نہیں آتے ان سے کئی کئی ووٹ مختلف ووٹروں کے ڈلوا دیے جاتے ہیں اور یہ سب بااثر پولنگ ایجنٹوں اور عملے کی ملی بھگت سے ممکن ہوتا ہے اور جب اصل ووٹر ووٹ ڈالنے آتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ آپ کا ووٹ تو کاسٹ ہوگیا۔ اگر وہ بغیر سیاہی کا انگوٹھا دکھائے تو اسے دھمکا کر جانے کو کہا جائے تو بھی اس کا ووٹ کاسٹ نہیں ہو سکتا کیونکہ چیف الیکشن کمشنر ہر پولنگ اسٹیشن جا نہیں سکتے۔
یہاں سیاستدانوں اور الیکشن کمیشن والوں ہی کی غلطیاں نہیں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو جب بوگس ووٹنگ، مخالف ووٹروں کو دھمکانے، پولنگ اسٹاف کو ہراساں کرنے، جعلی ووٹروں سے ووٹ بھگتانے کی ڈیوٹیاں دی جائیں گی۔ جانبدار پولنگ اسٹاف اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوانے کے لیے اپنی ڈیوٹیاں لگوائے گا، خواتین سے جعلی ووٹ ڈلوانے کی منصوبہ بندی ہوگی تو منصفانہ انتخابات کا خواب تو کوئی احمق ہی دیکھ سکتا ہے۔
انتخابات میں ایک شکایت یہ بھی رہی ہے کہ رات کو کسی کی کامیابی کا اعلان ہوتا ہے اور اگلی صبح نتیجہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ ووٹر ووٹ کسی ایک پارٹی کو دیتے ہیں مگر کامیاب دوسری پارٹی بتائی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کبھی بااختیار نظر آیا نہ کبھی غلطیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں آئی اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے جس سے ووٹر بھی متنفر ہوگئے ہیں اور یہ سب الیکشن کمیشن کی کمزوریوں اور سیاستدانوں کی غلطیوں کا سبب نہیں بلکہ عوام کی خواہشات کے خون اور الیکشن چرا لیے جانے ہی کے مترادف ہے۔
The post سیاستدانوں کی غلطیاں appeared first on ایکسپریس اردو.