ویسے تو انسان نے اپنے بہت سارے نام رکھے ہوئے ہیں یا یوں کہیے کہ مرحوم جنرل ایوب خان کی طرح خود ہی اپنے آپ کو فیلڈ مارشل اور نہ جانے کیا کیا بنایا ہوا ہے، حیوان اعلیٰ، حیوان ناطق، حیوان عاقل اور دانا بینا باشعور وغیرہ، لیکن اصل میں یہ ایک ایسی عجیب و غریب’’چیز‘‘ہے جو خود کو بھی سمجھ نہیں پایا ہے بلکہ کچھ لوگ تو حد کر دیتے ہیں کہ:
ہائے جس نے مجھے بنایا ہے
وہ بھی مجھ کو سمجھ نہ پایا ہے
اسے کہتے ہیں ’’خود‘‘ کو اونچا کر کے دوسرے کو نیچے کرنا وہ توآپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اوباما، بے نظیر، زرداری اور نواز شریف ہو کر بھی ’’غریب‘‘ ہی رہتا ہے اور اپنی غربت دور کرنے کے لیے فقیروں تک کے دروازے پر جا کر بھیک مانگتا رہتا ہے اور تو اور اپنے معصوم بچوں کو بھی اس کام پر لگا دیتا ہے ووٹ مانگنا یا نوٹ مانگنا بھیک ہی تو ہے لیکن اس کے اچھے برے، جائز و ناجائز، خوبی و عیب اور بول بچن کے ’’پیمانے‘‘ بھی عجیب و غریب ہیں مثلاً آنکھوں، کانوں، ہاتھوں، پیروں، ناک نتھنوں، ہونٹوں، دانتوں حتیٰ کہ داڑھی مونچھوں تک کے لیے اس نے بے شمار قاعدے قانون اور پیمانے وضع کر رکھے ہیں مثلاً آپ اپنے بازو پھیلا کر کسی ناک کی حدود پر تجاوز نہیں کر سکتے، منہ اور زبان کو بھی سنبھالنے کھولنے اور بند کرنے کے قاعدے قانون ہیں، آنکھوں ہی کو لیجیے آپ ان سے دیکھ سکتے ہیں ان کو کھول اور بند کر سکتے ہیں ان پر چشمہ چڑھا سکتے ہیں سرمہ کاجل ڈال سکتے ہیں لیکن آنکھ ’’مار‘‘ نہیں سکتے ۔۔۔۔ ظلم کی انتہاء تو دیکھیے کہ وہ ہمیں دیکھ سکتا جتنا جی چاہیے جب تک جی چاہے اور جیسا جی چاہے، حتیٰ کہ اکھیوں سے گولی مار سکتا ہے تیر چلا سکتا ہے کشتوں کے پشت لگا سکتے ہیں جیسا کہ ایک ثقہ اور مستند بلکہ مومن گواہ نے کہا ہے کہ:
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
لیکن نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے کرتا رہے ایک دنیا کو وقف اضطراب کر سکتا ہے لیکن اگر کسی اور نے تھوڑا سا اپنے دل کو ’’شکیبا‘‘ کرنے کے لیے ذرا سی آنکھ میچ لی تو پکڑو مارو یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہماری آنکھ مارنے سے اسے کیا نقصان پہنچا؟ کوئی ضرب لگی ہو؟ کوئی زخم ڈالا کوئی خراش لگائی؟ اور مجرم تو وہ بھی ہے کہ ہمیں دیکھ رہا تھا‘ اس کی دونوں آنکھیں ہماری طرف گولیاں برسائے، تیر چلائے، کٹاریاں پھینکے خیر ہے اور دفاعی طور پر ہماری ایک آنکھ تھوڑا میچنے پر یہ ہنگامہ، حد ہو گئی۔
حالانکہ دنیا کے ہر قانون میں ہر کسی فرد کو اپنا دفاع کرنے یا اپنے دفاع میں کوئی حرکت کرنے کی آزادی ہے اور پھر ہم جیسے بوڑھے لوگ تو محض ضعف یا کم زوری یا عادت سے بھی تو اس قسم کی نادانستہ حرکت یا واردات کر سکتے ہیں لیکن سنگدلی کی انتہاء دیکھیے کہ کوئی رعایت کوئی استثنا یا بینیفِٹ آف ڈاؤٹ نہیں کوئی وارننگ بھی نہیں بس ڈائرکٹ ایکشن اور سزا، خیر اس یک طرفہ اور وحشیانہ بربریت سے بچنے کا اُپائے تو پھر بھی ہو جاتا ہے چشمے وغیرہ پہن کر ۔۔۔۔ پھر چشمے کے پیچھے سے اگر رپٹ آنکھ ماری بھی کی جائے تو نہ چرچا نہ پرچہ بس تھوڑا سا چشمے کا خرچا، لیکن ہم نے یہ ساری تمہید ایک اور بات کے لیے باندھی ہے ایک لفظ ہے ’’انقلاب‘‘ جس نے ہمیں بڑا پریشان کیا ہوا ہے کیوں کہ انسان بات بات پر انقلاب انقلاب کے نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے حالانکہ انقلاب کے جو معنی ہمیں استادوں اور لغتوں نے بتائے ہیں ۔
وہ چیزے دگر است، کسی چیز کو باقاعدہ الٹنے، قطعی مخالفت موڑنے، سیاہ کو سفید کرنے اور سفید کو سیاہ کرنے کے لیے ’’انقلاب‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے انقلاب فرانس، انقلاب روس یا حالیہ وقت میں ایران کے اندر جو آیا ۔۔۔۔۔ چلیے امام خمینی تو انقلاب لے آئے اور واقعی اسے انقلاب کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے شاہ ایران بھی بات بات پر انقلاب برپا کرتے تھے ہمیں یاد ہے کہ اس کے دور میں کسی سبز یا سفید یا کسی اور رنگ کے بڑے چرچے تھے کم از کم آٹھ لاکھ آٹھ ہزار آٹھ سو آٹھ فی صد تو اس انقلاب کے لیے شاہ ایران کے پڑھے گئے ہوں گے لیکن مجال ہے جو کوئی ایک بھی چشم دید ایسا مل جائے جس نے اس انقلاب کو بچشم خود دیکھا ہو سب نے صرف سنا ہی سنا تھا، ہمارے ملک میں تو اتنے سیلاب اور زلزلے بھی نہیں آتے بلکہ اتنے غیر ملکی بھی نہیں آتے ہوں گے جتنے انقلاب آتے ہیں ابھی سال بھر پہلے بمقام اسلام آباد بیک وقت آٹھ دس انقلابات برپا ہوئے تھے۔
کنٹینروں کا انقلاب، دھرنوں کا انقلاب، تبدیلی کا انقلاب، انصاف کا انقلاب، اسلامی انقلاب اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔ ہمیں چونکہ بہت پرانے زمانے سے انقلابات دیکھنے کا شوق ہے اس لیے ہم بھی دیکھنے گئے تھے پہ کوئی تماشا نہیں ہوا حتیٰ کہ کوئی کنٹینر تک نہیں الٹا تھا حالانکہ سنا یہ تھا کہ یہ دنیا میں پہلا انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔
جس کے دو سر، دو چہرے، دو رخ مطلب یہ کہ ہر چیز دو دو کی تعداد میں تھی، یوں ٹیکنیکلی اسے دوہرا یا ڈبل سرا یا ڈبل بیرل انقلاب بھی کہا جا سکتا تھا، دو کا ہندسہ ایک اور چیز بھی بھی تھا یہ بیک وقت دینی انقلاب بھی تھا اور دنیاوی بھی، بلکہ مشرق کا بھی تھا اور مغرب کا بھی لیکن افسوس کہ دل اتنا دھڑکا اتنا دھڑکا کہ موت کا دھڑکا لگنے لگا، لیکن جب ’’چیرا‘‘ تو ایک قطرہ خون تو کیا ایک قطرہ پانی بھی نہیں نکلا کچھ بھی، حتیٰ کہ توے پر روٹی بھی نہیں الٹی ہاں البتہ بہت سے لوگوں نے اسلام آباد کی سیر ضرور کی اور اسلام آباد کے لوگوں نے کچھ کھایا یا نہیں حالانکہ ہمارے گاؤں کا سوداگر جب نمک کی گرانی کا سن کر دس بارہ گدھے نمک باجوڑ لے گیا تھا اور وہاں ارزانی دیکھ کر اس نے نمک مفت بانٹ دیا تو واپس آ کر وہ بڑے فخر سے کہتا تھا کہ گدھوں نے باجوڑ دیکھ لیا اور باجوڑ کے لوگوں نے نمک کھایا اور کیا چاہیے۔
پاکستان میں آئے دن بلکہ ہر صبح دوپہر شام ’’انقلابات‘‘ برپا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ابتداء ہی حضرت ایوب خان کے انقلاب سے کی تھی وہ اپنے مارشل لاء کو پرامن انقلاب کہتے تھے اور مدعی تھا کہ میں واحد آدمی ہوں جو پرامن انقلاب لایا اور پھر اسے انقلابات کا کچھ ایسا چسکہ پڑ گیا کہ بات بات پر انقلابات برپا کرنے لگے ’’پرامن انقلاب‘‘ کے بعد اس نے جمہوریت میں انقلاب برپا کیا پھر ایک سبز انقلاب بھی لانچ کیا اور آخر میں وہ عظیم الشان انقلاب جس میں مسلم لیگ کو سر کے بل کھڑا کر کے دو شاخہ کر دیا اس کے بعد تو مسلم لیگ کی شاخوں اور ان پر الوؤں کی نشست کا سلسلہ ہی چل نکلا اور سبز انقلاب میں سبزوں نے مستقل سبزہ اگانا شروع کیا اس دن سے لے کر آج تک ۔۔۔۔ در و دیوار پر سبزہ ہی سبزہ اگنے لگا
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا ہو
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
غالبؔ نے گھر، دربان اور گھاس کے ذریعے ’’پورے گھر‘‘ کی تصویر کھنیچ کر رکھ دی ہے، انقلاب زندہ باد۔
The post درو دیوار پر سبزہ اور دربان کا مشغلہ appeared first on ایکسپریس اردو.