Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22545 articles
Browse latest View live

کیمپ ڈیوڈ سمٹ کامیاب یا ناکام؟

$
0
0

’’کیمپ ڈیوڈ سمٹ انتہائی کامیاب رہا، اس اجلاس کا مقصد خلیج تعاون کونسل کے ساتھ واشنگٹن کے ساتھ پہلے سے موجود تعلقات کو ’وسیع اور راسخ‘ کرنا تھا۔‘‘ یہ الفاظ امریکی صدر باراک اوباما نے کیمپ ڈیوڈ میں خلیج تعاون کونسل کے اجلاس کے بارے میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہے۔

خلیج تعاون کونسل کے اس دو روزہ اجلاس میں امریکا اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ، اسلحے اور جنگی ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ فوجی مشقوں، دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ، امریکا اور خلیجی ممالک کے تعلقات، جنگ میں کامیابی کے لیے باہمی تعاون پر تبادلے، علاقائی ممالک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز، لبنان، شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جاری شورش اوردیگر کئی موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

صدر اوباما نے خلیج تعاون کونسل میں شامل چھ ممالک کے سربراہان کو واشنگٹن کے قریب کیمپ ڈیوڈ میں دو روزہ ملاقات پر اس لیے مدعو کیا تھا، تا کہ واشنگٹن اور خلیج تعاون کونسل میں قائم تعلقات میں مزید مضبوطی آئے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اجلاس سے امریکی صدر کا مقصد مکمل طور پر پورا نہیں ہو سکا۔ اجلاس میں صرف قطر اور کویت کے سربراہ شریک ہوئے، جب کہ باقی ممالک کی جانب سے ولی عہد یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی اور سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تو امریکی صدر کے پرزور اصرار کے باوجود بھی امریکا جانے سے معذرت کر لی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک اس وقت خطے میں امریکی حکمت عملی سے سخت نالاں ہیں اور براہ راست نکتہ چینی کرنے کی بجائے سفارتی لحاظ سے امریکی صدر کی خصوصی دعوت کو نظر انداز کر کے اس ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے، تا کہ امریکی صدر کو یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی پالیسیاں خلیجی ممالک کی خواہشات اور توقعات سے متصادم ہیں۔

خلیج تعاون کونسل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر اور اومان شامل ہیں۔ ان ملکوں پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے اور یہ سب سعودی شاہ کی تائید اور مشورے سے ہی پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ سعودی عرب کی امریکا کے ساتھ ’’عرب بہار‘‘ کے وقت سے چپقلش چل رہی ہے۔ شام، یمن اور ایران کے معاملات پر سعودی حکومت کے مفادات کے برخلاف امریکی فیصلوں نے اس چپقلش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا نے 5 بڑے ملکوں کے ساتھ مل کر اپریل میں ایران کی جوہری تنصیبات کے حوالے سے ایک ابتدائی معاہدے پر اتفاق بھی کر لیا۔

قانون سازی کے ذریعے ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے کا حتمی اختیار کانگریس کو مل چکا ہے، اس طرح 30 جون کو ممکنہ طور پر چھ عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے میں کانگریس کا کردار کلیدی ہو گیا ہے۔ امریکی صدر اوباما ایران کے جوہری پروگرام پر تہران کے ساتھ امن سمجھوتے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ امریکی صدر ایران کا جوہری معاہدہ کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں، شاید اسی لیے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس میں صدر اوباما نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کو اس بات کا بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

صدر اوباما نے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس میں ایران کے مجوزہ جوہری معاہدے سے متعلق خلیجی عرب رہنماؤں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صدر اوباما عرب ملکوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں کہ ایران کے ساتھ دشمنی کے رشتے سے اگر معاملات نہیں سدھرے تو دوستی کا راستہ اختیار کر کے دیکھ لینا چاہیے، کیونکہ اگر یہ ممالک ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے تو مشرق وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرا ملک بحران، انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔

قرائن یہی بتاتے ہیں کہ سعودی عرب کی قیادت کی جانب سے سفارت کاری کے رویے میںکسی حد تک سختی کے سبب فی الحال امریکی صدر کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی ہے اور عرب ممالک امریکا سے نالاں ہیں۔ عرب ممالک کے امریکا سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی صدر نے حالیہ سربراہ اجلاس میں خلیج تعاون کونسل کو امریکا کا سب سے اہم اتحادی قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود خلیجی ملکوں سے جس مشترکہ دفاعی معاہدے کی بات کی گئی ہے، اس میں کوئی بھی ایسا منفرد اور نمایاں پہلو نہیں ہے، جو واقعتاً خلیج تعاون کونسل کے لیے امریکا کے دیگر اتحادیوں پر برتری کا سبب بنتا ہو۔

اس نوعیت کے دفاعی معاہدے امریکا نے جاپان اور تائیوان کے ساتھ بھی کیے ہیں اور ضرورت پڑنے پر امریکا نے دونوں ملکوں کی بھرپور مدد بھی کی، لیکن اس کے برعکس خلیج تعاون کونسل کی جانب سے دفاعی معاہدوں کے نام پر خطے میں امریکی مفادات کے لیے بہت سی قربانیاں دینے کے باوجود امریکا نے خلیجی ممالک کے کئی اہم سیکیورٹی معاملات کو خلیج تعاون کونسل کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا نے عربوں کے اہم حریف اسرائیل کو بہت سی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ امریکا نے اسرائیل کو آیندہ سال ’’ایف 35‘‘ جنگی طیاروں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے اور بھاری مالی امداد بھی فراہم کی ہے۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں صہیونی فوجی برتری کو یقینی بنانے کے لیے صہیونی حکومت کو لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی حامی بھر چکے ہیں۔

خلیجی ممالک امریکی صدر کی یقین دہانیوں سے مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اجلاس میں امریکی صدر نے خلیجی ممالک کو اگرچہ یقین دہانی کرائی ہے کہ خلیجی ممالک کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں امریکا بھرپور ساتھ دے گا اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے خلیجی ممالک کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرے گا، لیکن عرب تجزیہ کاروں کے مطابق صدر اوباما کی جانب سے خلیجی ممالک کے ساتھ مشترکہ دفاع اور سیکیورٹی کے حوالے سے کیے گئے وعدے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی کانگریس خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی علاقائی سیکیورٹی سے متعلق صدر اوباما کے وعدوں کو منظور نہیں کرے گی۔

گزشتہ سال امریکی وزیر خارجہ جان کیری یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی کانگریس مشرق وسطیٰ کی بدامنی کو عرب ممالک کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، اس وجہ سے وہ مشر ق وسطیٰ بالخصوص خلیج تعاون کونسل کے ساتھ مزید دفاعی معاہدوں کی منظوری دینے کو تیار نہیں ہے۔ امریکی کانگریس کے علاوہ اوباما انتظامیہ نے بھی یمن اور شام کے معاملات کو مشرق وسطیٰ کے داخلی مسائل قرار دیا ہے، جس سے واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صدر اوباما بھی کانگریس کی اس پالیسی سے متفق ہیں۔

امریکی صدر اگرچہ کیمپ ڈیوڈ سمٹ کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں، لیکن عرب ممالک کے رویے سمیت متعدد دیگر وجوہ کے باعث عرب تجزیہ کار وں کے نزدیک کپمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس ناکام رہا ہے اور اب تک کوئی ایسا بیان بھی سامنے نہیں آیا، جس میں رکن ممالک نے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس کے بارے میں اچھے تاثرات ظاہر کیے ہوں۔ خلیجی ممالک کی اس خاموشی کو دیکھتے ہوئے صدر اوباما نے اعتراف کر لیا ہے کہ امریکا اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان ابھی بہت سے مسائل میں پیشرفت کے حوالے سے مشکلات حائل ہیں، جن کے حل کے لیے انھوں نے اگلے سال دوبارہ اس نوعیت کا سربراہ اجلاس منعقد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کیمپ ڈیوڈ کی یہ ملاقات کوئی خاص کامیاب قرار نہیں دی جا سکتی۔

The post کیمپ ڈیوڈ سمٹ کامیاب یا ناکام؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


سوسائٹی گرل نے سنگیتا کو ڈائریکٹر بنایا

$
0
0

اداکارہ سنگیتا نے اپنی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ سے ڈائریکشن کا آغاز کیا تھا، جب اداکار محمد علی نے سنگیتا کی ڈائریکشن میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جو سائننگ اماؤنٹ کی رقم محمد علی کو بطور ہیرو بھجوائی گئی تھی، وہ محمد علی نے واپس کر دی تھی تو سنگیتا ابتدا میں کافی اپ سیٹ ہو گئی تھی۔ سنگیتا کے والدین نے بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ابھی ہدایت کاری کے میدان میں نہ آئے مگر سنگیتا نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

سنگیتا کے اتنے پختہ عزائم دیکھتے ہوئے گھر والوں نے اس کے فیصلے کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیے تھے انھی دنوں کراچی کے ایک باصلاحیت ٹی وی آرٹسٹ غلام محی الدین کو مشہور فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کے لیے لاہور بلا لیا تھا اور وہ ان دنوں شباب اسٹوڈیو ہی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ سنگیتا کو اس بات کا علم تھا کہ میری غلام محی الدین سے اچھی واقفیت ہے۔

سنگیتا نے مجھ سے کہا کہ یونس ہمدم! میں چاہتی ہوں کہ اپنی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ میں غلام محی الدین کو اپنے ساتھ ہیرو کاسٹ کروں اس کی ہائٹ بھی ہے اور وہ محمد علی کا ایک بہتر نعم البدل ہو سکتا ہے۔

میں ایک دن اداکار ناظم کو لے کر شباب اسٹوڈیو گیا اور غلام محی الدین سے ملاقات کی۔ وہ مجھ سے مل کر بڑا خوش ہوا۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں اداکارہ سنگیتا کا تذکرہ چھیڑتے ہوئے کہا کہ یار! سنگیتا کی خواہش ہے کہ تم اس کی کسی فلم میں کام کرو۔ وہ بولا یار ہمدم۔ مجھے تو لاہور میں اچھی پروڈکشنز کی فلموں کی ضرورت ہے، تم سنگیتا سے بات کر لو تو ایک ملاقات ہو جائے گی مجھے تو اچھی فلموں کی ضرورت ہے اور شباب صاحب نے مجھ پر ایسی کوئی پابندی بھی نہیں لگائی ہے کہ میں ان کی فلموں کے علاوہ باہر کی کوئی فلم نہ کروں۔ ہمارے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ پھر میں نے غلام محی الدین سے کہا کہ سنگیتا نے اب ہدایت کاری کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

اپنی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ کو وہ خود ڈائریکٹ کرے گی۔ اس نے فلمسازی کا ایک طویل پروگرام بنایا ہے جس کے لیے وہ مختلف رائٹرز سے کہانیاں لکھوا رہی ہے۔ تم چاہو تو فلم کی کہانی سن لو۔ غلام محی الدین نے سنگیتا سے ملاقات کے دوران ’’سوسائٹی گرل‘‘ کی کہانی بھی سنی وہ کہانی اور اس میں اس کو اپنا کردار بھی پسند آیا۔ اسی ملاقات میں دیگر معاملات بھی طے ہو گئے۔ اور ایورنیو اسٹوڈیو میں ’’سوسائٹی گرل‘‘ کی باقاعدہ شوٹنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

شروع شروع میں فلم کے سیٹ پر فلم انڈسٹری کی چیدہ چیدہ شخصیات یہ دیکھنے آئی تھیں کہ واقعی سنگیتا فلم کی ڈائریکشن خود دے رہی ہے یا پھر اس کا کیمرہ مین پس پردہ ہدایت کار ہے مگر سنگیتا خود کیمرہ آپریٹ کرتے ہوئے سیٹ کا جائزہ لیتی تھی۔ ایک ایک منظر کو کیمرے کی آنکھ سے خود دیکھتی تھی اور پھر شوٹنگ کرتی تھی۔

ایک طرف فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی تو دوسری طرف فلم کے گیتوں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی تیزی کے ساتھ جاری تھا۔ اب سنگیتا کو ’’سوسائٹی گرل‘‘ کے لیے ایک تھیم سانگ کی ضرورت تھی۔ شاعر تسلیم فاضلی کو اس گیت کی ذمے داری دی گئی تھی۔ نذیر علی فلم کے موسیقار تھے، اس فلم میں سنگیتا نے موسیقار کمال احمد کی بجائے نذیر علی کو موقع دیا تھا کیونکہ ان دنوں نذیر علی کا بھی بڑا نام تھا اور سنگیتا اس فلم میں کچھ change بھی چاہتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں نغمہ نگار تسلیم فاضلی سنگیتا کے آفس میں آ گیا تھا اب موسیقار نذیر علی کا انتظار کیا جا رہا تھا۔

تسلیم فاضلی چین اسموکر تھا، اس وقت مجھے تسلیم فاضلی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات یاد آ رہی تھی جب وہ فلم ’’پھر صبح ہوگی‘‘ کے لیے ناشاد کی موسیقی میں گانے لکھ رہا تھا، فلمساز رفیق چوہدری میرا بہت اچھا دوست تھا، صدر میں اس کی چوہدری فرزند علی قلفی ہاؤس کے نام سے کئی بھائیوں کی ایک دکان تھی۔ میں اکثر شام کو جب رفیق چوہدری کی دکان پر ڈیوٹی ہوتی تھی اس سے ملنے چلا جاتا تھا۔

اس دن بھی میں اس کی دکان پر اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران موسیقار ناشاد کے ساتھ تسلیم فاضلی کی وہاں آمد ہوئی اس کے منہ میں پان کی گلوری اور ہاتھوں میں گولڈ لیف کا پیکٹ تھا۔

وہ ڈھیلا ڈھالا پاجامہ اور سفید بوسکی کا کرتہ پہنے ہوئے تھا اور پکا دلی والا لگ رہا تھا۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملا کیونکہ رفیق چوہدری نے اس سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا یہ میرے دوست یونس ہمدم ہیں۔ شاعر ہیں اور تم بھی شاعر ہو تو فاضلی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ پھر فاضلی نے مجھے پیکٹ بڑھاتے ہوئے سگریٹ آفر کی تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ ’’شکریہ فاضلی صاحب۔ میں ابھی تک اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ تو اس نے حیرت سے کہا تھا ارے! کمال ہے یار! شاعر ہوتے ہوئے سگریٹ سے بیگانے۔

میں نے کہا تھا ہاں بس یوں ہی سمجھ لو۔ وہ ملاقات بڑی اچھی ملاقات رہی تھی اور اب جب کہ میں بھی لاہور میں بحیثیت نغمہ نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہو چکا تھا تو تسلیم فاضلی اور میں کئی فلموں میں ساتھ لکھنے کے بھی آرزو مند تھے۔ اسی دوران موسیقار نذیر علی بھی پروڈکشن آفس میں اپنے سازندوں کے ساتھ آ گئے تھے انھیں میڈم سنگیتا کا پیغام مل چکا تھا اور وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ سنگیتا نے آتے ہی نذیر علی اور فاضلی سے کہہ دیا تھا کہ میں شوٹنگ میں مصروف ہوں۔ تم لوگ آج ہی چاہے کتنا بھی وقت لگ جائے چاہے ساری رات گزر جائے۔

’’سوسائٹی گرل‘‘ کا تھیم سانگ تیار کر کے اٹھو گے۔ سنگیتا یہ کہہ کر فلور پر شوٹنگ کرنے چلی گئی اور تسلیم فاضلی، نذیر علی کے ساتھ گیت کی تیاری کا موڈ بنانے لگے۔ اس دوران تسلیم فاضلی نے دو تین سگریٹ پھونک دیے۔ پھر وہ ایک دم نذیر علی سے کہنے لگا یار! ہمیں زیادہ جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فلم کا نام ہے ’’سوسائٹی گرل‘‘ اور ایک سوسائٹی گرل کیا ہوتی ہے۔ وہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی لڑکی ہوتی ہے جسے کٹی پتنگ کا نام دیا جاتا ہے جو کبھی کسی کے ساتھ اور کبھی کسی کے ہاتھ لگتی ہے۔ پھر تسلیم فاضلی نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بڑے خوبصورت ترنم کے ساتھ ایک مصرعہ گنگنایا:

اک کٹی پتنگ ہوتی ہے سوسائٹی گرل

مسرور انور کی طرح تسلیم فاضلی کے ترنم سے بھی اکثر موسیقار انسپائر ہوتے تھے۔ نذیر علی نے بھی اس وقت تسلیم فاضلی کے ترنم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً ہارمونیم کے ساتھ اور طبلے کی سنگت میں اسی مصرعے کو دھن کے ساتھ ڈویژن کر کے سنایا:
اک کٹی پتنگ ہوتی ہے
سوسائٹی گرل
سوسائٹی گرل
سوسائٹی گرل

اور پھر فوراً ہارمونیم طبلہ بند کر کے سب کی طرف دیکھنے لگا۔ ردھم اور مصرعہ کی ڈویژن بھی کمال تھی سب نے کہا نذیر علی! ایک بار پھر سناؤ۔ نذیر علی نے دوبارہ وہی مصرعہ مکھڑے کے انداز میں سنایا تو سب کے دل پر نقش ہو گیا، اسی دوران سنگیتا بھی اپنی شوٹنگ کے فلور سے اپنے آفس میں کسی کام سے آئی تو اسے بھی وہ مکھڑا سنایا گیا تو سنگیتا بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی اور اس نے اس وقت تھیم سانگ کا مکھڑا اوکے کر دیا۔

تسلیم فاضلی فلم انڈسٹری میں ان دنوں بڑا تیز رفتار نغمہ نگار مشہور تھا۔ اس نے اس دوران دو سگریٹ اور پیے اور گیت کے دو انترے مزید لکھ کر گیت مکمل کر دیا اسی ہفتے وہ گیت ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کر لیا گیا۔ جسے سنگیتا نے اپنی شوٹنگ شیڈول میں رکھتے ہوئے وہ تھیم سانگ خود پر عکس بند کرایا اس عکس بندی میں اداکارہ کویتا نے بھی حصہ لیا تھا۔

’’سوسائٹی گرل‘‘ پھر تیز رفتاری کے ساتھ ایورنیو اسٹوڈیو میں مکمل کر لی گئی اور سنگیتا نے اپنی اس فلم کی تشہیر بھی بڑے پیمانے پر کی تھی۔ فلم کے اسٹوڈیو شو ہی میں، فلم کی کامیابی کی باتیں شروع ہو گئی تھیں اور ساری فلم انڈسٹری کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ سنگیتا نے بڑی جانفشانی اور محنت سے ڈائریکشن کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔

اب سب کو بس فلم کی ریلیز کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ یہ فلم سنگیتا کے لیے بھی ایک بہت بڑا امتحان تھی کیونکہ فلم اسٹوڈیو میں چاہے کتنی ہی اچھی بنی ہو اگر سینماؤں پر بھی کامیاب ہوتی ہے تو بات بنتی ہے۔ فلم جب ریلیز ہوئی تو اس نے میدان مار لیا اور سنگیتا ’’سوسائٹی گرل‘‘ کے سپر ہٹ ہونے کے بعد ایک کامیاب ہدایت کارہ کا اعزاز حاصل کر چکی تھی۔

The post سوسائٹی گرل نے سنگیتا کو ڈائریکٹر بنایا appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ۔۔۔۔

$
0
0

لوکل باڈیز مستقبل میں کیا کام کریں گی، کیسے کام کریں گی، ایک سیمینار میں جانا ہوا، جس میں پی پی پی، متحدہ، جماعت اسلامی کے نمایندے موجود تھے، PTI کا نمایندہ آنے والا تھا پر نہ آ سکا۔

کراچی جیسے بڑے شہر کے مسائل بھی بڑے بڑے ہیں اور آج کل کراچی کے شہریوں کو پانی کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہے۔ ہزاروں روپے کے واٹر ٹینکرز کے لیے بھی بکنگ کروانی پڑ رہی ہے۔ شدید گرمی کے عالم میں شہری لوڈشیڈنگ کے علاوہ پانی کے لیے بھی بے انتہا تکلیف اٹھا رہے ہیں۔

اور سرکار جوں کی توں مست و خراماں ہے۔

اس سیمینار میں جو نمایندے موجود تھے وہ کئی برسوں سے کراچی کی حکومتوں میں موجود ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی یہ لوگ بات شروع کرتے ہیں چند مخصوص جملے ضرور ادا کیے جاتے ہیں تا کہ تنقید سے پہلے ہمدردی حاصل کی جا سکے ۔

چند مخصوص جملے اس طرح ادا کیے گئے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کراچی جیسے شہر کو بہترین ہاتھ نہیں مل سکے، سندھ، پنجاب سے 25 سال پیچھے چلا گیا، واٹر بورڈ نے بجلی کا بل جمع نہیں کرایا اس لیے 24 گھنٹوں کی بجائے 8 گھنٹے بجلی سے پمپنگ اسٹیشنز چل رہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ گیلن پینے کا پانی ضایع کیا جا رہا ہے، 2 ہزار واٹر بورڈ میں ملازمین ہیں جو خواہ مخواہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور جن کو کوئی نکال نہیں سکتا ۔

’’شہری‘‘ نامی NGO کی طرف سے یہ سیمینار منعقد کیا گیا اور وہ پڑھے لکھے حاضرین جو ان جماعتوں کی لوٹ مار سے بے حد پریشان اور تنگ ہیں، وہ بھی شاید بھرے بیٹھے تھے، جب یہ نمایندے، بدقسمتی سے۔۔۔۔ اپنا اپنا موقف بیان کر چکے تو سوال جواب کے سیشن میں مختلف طبقہ فکر تعلق رکھنے والے افراد کا ایک سوال مشترکہ تھا کہ یہ لوٹ مار کب بند ہو گی؟ کب یہ عوامی نمایندے، عوام کے لیے کام کریں گے۔

جس کا ان نمایندوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ PPP ہو متحدہ یا جماعت اسلامی ان تینوں نے لوکل باڈیز کے الیکشن لڑنے ہیں اور تینوں برسا ہا برس سے ان باڈیز کا حصہ بن کر بھی رہی ہیں مگر درحقیقت لوٹ مار کے طریقے متعارف کرانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور مزے کی بات ہے کہ اپنے اپنے آپ کو مظلوم بھی کہلانے کی خواہش رکھتے ہیں اور شاید ایسا تب ہی ہو گا جب سارا کا سارا شہر اندھا ہو جائے تمام لوگ سفید لاٹھیوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہوں گے مگر جب تک عقل و شعور باقی ہے، بینائی باقی ہے، عقل و فہم باقی ہے، ہم خوب جانتے ہیں کہ بدقسمتی عوام کی ہے کہ ابھی تک ان کو کوئی ایسا نہیں مل سکا کہ جو اپنے عیش و آرام اور محلات سے نکل کر عوام کے لیے کچھ کر سکیں حالانکہ جانا سب نے قبر میں ہے اور درحقیقت سب سے بڑا انصاف کرنے والا تو اللہ عالی شان ہے جو ہر لمحہ اور ہر بات سے باخبر ہے۔

یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ لوگ عوام کے نمایندے بن کر کس کس طرح عوام کو ہی بے وقوف بناتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

متحدہ کے خالد صاحب کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا وہ مغرب کی سن کے مشرق کی بات کر رہے تھے، پی پی پی کے نجمی عالم نے کہا کہ وہ اپنی حکومت کے سامنے یہ تمام ایشوز رکھیں گے، سعید صاحب نے معذرت کر لی۔ مستقبل کے وعدوں سے۔ اندھیر دیکھیے کہ پانی کی شدید قلت ہے، مصنوعی قلت۔ اللہ نہ کرے کہ یہ قدرتی قلت ہو اور کس طرح عوام کو پیسا جا رہا ہے، نہ چھوٹے بچوں کی فکر اور نہ بڑے عمر رسیدہ لوگوں کا خیال۔ شدید ترین گرمی کے موسم میں بے حس حکومت اور ان کے نمایندے سمجھ سے باہر ہے کہ کون سی مخلوق آئے گی اور یہ مسائل حل ہوں گے کس طرح ان کے زنبیل نما پیٹوں کو بند کیا جائے گا کس طرح ان کو شعور دیا جائے گا۔

جھوٹ اور سفید جھوٹ بول بول کے یہ لوگ اتنے بے حس اور سنگدل ہو گئے ہیں کہ ڈھیٹ بن کر اپنی عیش و آرام کو جاری رکھے ہوئے ہیں کوئی بولتا ہے تو بولتا رہے۔

MBA لیول کے لوگ دہشت گردی میں ملوث پائے جا رہے ہیں، جب پڑھے لکھے نوجوانوں کو ڈھنگ کا روزگار نہیں ملے گا تو فرسٹریشن کئی غلط کاموں کا سبب بنتی ہے۔ وہ ذہن جو Positive کاموں کے لیے ہو مگر ان کو استعمال نہ کیا جائے، اور 5,4 تک کی کلاس کی تعلیم کے لوگوں کو عہدے دیے جائیں تو معاشرے میں یہی سب کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔

سبین محمود کا قتل ہو جاتا ہے، بس میں سوار 46 عورتوں و مردوں کو مار دیا جاتا ہے (اب کچھ کامیابی ہوئی ہے،4 ملزمان پکڑے ہیں) مگر ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے، روز نئے نئے انکشافات منظر عام پر آ رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کے لیے ذوالفقار مرزا بول رہے ہیں وہ تمام فرشتے ہیں۔ میڈیا ایک نہیں کئی کئی بار یہ سب کچھ دکھا رہا ہے مگر نہ کوئی ایکشن نہ کوئی کارروائی۔

کیسے کیسے روپ بدل بدل کر یہ لوگ عوام کو تماشا بنا رہے ہیں نہ صرف عوام کو بلکہ پورے پاکستان کو ایک کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا گیا۔ انٹکچوئل لوگ جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کوئی تو ہو جو ہماری وحشتوں کا ساتھی ہو، اب دیکھیے کہ جنرل راحیل شریف کتنے محاذوں پر لڑتے ہیں۔ یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ کب تک اپنے کام دھندوں میں لگے رہتے ہیں مگر اللہ کا انصاف برحق ہے۔ برا کرنے والے کو کوئی بچا نہیں سکتا کہ ہر ایک کو اپنا حساب خود دینا ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان بھر میں انسان ناپید ہوتے جا رہے ہیں، گدھے کے گوشت سے بنی ڈشز شاید زیادہ ذائقہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حس اور بے شرم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

بڑے بڑے کیفے ٹیریا میں یہ گوشت سپلائی کیا جا چکا ہے اور بڑے بڑے عہدے دار اس کے مزے لوٹ چکے ہیں شاباشی تو دینا چاہیے ان کو کہ کم از کم ان سپلائرز نے عوام اور بڑے لوگوں کے فرق کو کم از کم یہاں پر تو مٹا دیا ہے۔

اور غالباً عوام کی آوارہ ’’کتوں‘‘ سے بھی جان چھڑائی۔ مچھر شاید ان کی گرفت سے باہر ہیں ورنہ یہ ان کو بھی تخم ملنگا بنا کر عوام میں اتار چکے ہوتے۔

ایگزیکٹ کی خبریں، جعلی ڈگریوں کے کاروبار نے تمام لوگوں کو ہی ششدر کر دیا ہے کہ اتنے سالوں سے اگر یہ کاروبار ہو رہا تھا تو ریاست کہاں تھی، ریاست کی رٹ کہاں ہے؟

اگر یہ الزامات صحیح ثابت ہوتے ہیں اور ثبوت ایگزیکٹ کے خلاف جاتے ہیں تو کیا یہ کمپنی اپنی ساکھ کو بچا سکے گی اور ان ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور اگر یہ ریاست اور یہاں کی حکومتیں سونے کے لیے ہی ہیں تو جو لوگ جاگ رہے ہیں اور کھلی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں تو پھر عوام کو چاہیے کہ ان ہی کے ہاتھ مضبوط کریں اور اس حکومت کو اس ریاست کو جن کو سالہا سال کچھ پتہ ہی نہ چلے تو کیا فائدہ اور کیا قاعدہ۔

بس یہی ہماری بدقسمتی ہے۔

The post یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ذہن کی زنجیریں توڑ دیں

$
0
0

یورپ اور دنیا بھر میں عیسائیت سمیت تمام مذاہب کا قدیم عقیدہ تھا کہ گناہ اور دکھ ناگزیر طور پر لوگوں کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔ مذہب دنیا میں غربت اور بدحالی کو ایک مستقل بلکہ احترام کا مقام دینا چاہتا تھا، وعدے وعید اور اجر دوسری دنیا اور آخرت سے وابستہ تھے، اس دنیا میں صبر اور شکر کے ساتھ تمام مصائب اور محرومیوں کو برداشت کر نے کا درس دیا جاتا تھا۔

خیرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی غریبوں میں بچا کھچا بانٹنا نیکی تصور کیا جاتا لیکن غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کچھ سوچا نہ جاتا۔ آزادی اور مساوات کے تصورات چرچ اور معاشرے کی حاکمیت کے خلاف سمجھے جاتے تھے۔ جمہوری نظریے کے ارتقا کا ایک ظاہری نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آدمی کو مقتدر اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرنے کا حق یعنی ووٹ دینے کا اختیار مل گیا۔ ووٹ سیاسی قوت کی علامت تھا یہ باور کر لیا گیا کہ اگر ہر ایک کو ووٹ کا اختیار مل جاتا ہے تو اس طرح ہر ایک سیاسی قوت و اقتدار میں حصے دار بن جاتا ہے ووٹ جدید دور کی سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔ بقول ابراہام لنکن ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہے آج ووٹ انقلاب کا دوسرا نام ہے۔

دنیا نے ووٹ کی طاقت کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں ووٹ کا احترام دنیا میں مذہب کی طرح کیا جاتا ہے جب کہ ہماری سیاسی تاریخ میں ووٹ کی جتنی بے حرمتی کی گئی اس کی مثال آپ کو مشکل ہی سے ملے گی۔ ووٹ زندگی ہے تو اس کی بے حرمتی خودکشی ہے اور ہم ایک دفعہ بنگلہ دیش کی صورت میں اجتماعی خودکشی کے مرتکب ہو چکے ہیں جب آپ ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں تو آپ لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ ناامیدی کی قبر میں دفن کر رہے ہوتے ہیں۔

ووٹ کی بے حرمتی نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھانے میں ایندھن کا کام کیا ظاہر ہے جب آپ لوگوں کے حق پر شب خون اور ڈاکہ ماریں گے تو پھر لوگ مایوس ہو کر دوسری سمت دیکھنے پر مجبور ہونگے دوسری طرف جب مذہبی جماعتوں کو اس بات پر یقین ہو گیا کہ وہ کبھی بھی ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آ سکیں گے تو پھر انھوں نے لوگوں سے مایوس ہو کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا اور جمہوریت کو برا بھلا کہنے لگ گئے اور اتنے غصے میں آ گئے کہ اسے کفر کا نظام ہی کہنے لگ گئے۔ اور وہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا جو کلیسا نے اٹھارویں صدی میں یورپ میں کھیلا تھا۔

آج پاکستان میں واضح طور پر دو مختلف سوچیں اور مختلف نظریات الگ الگ سمت میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ ایک سوچ وہ ہے جو ہمیں واپس اٹھارویں صدی میں لے جانا چاہتی ہے اور دوسری سوچ وہ ہے جس کی منزل وہ خوشحالی و ترقی اور استحکام ہے جو بڑی جدوجہد کے بعد یورپ، امریکا اور دیگر ممالک نے حاصل کیا جہاں انسان آزاد ہے خوشحال ہے ہماری نجات، خوشحالی اور ترقی کا انحصار خود ہماری سوچ، کوشش اور جدوجہد پر ہوتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم آیا واپس ماضی کی سمت سفر کرنا چاہتے ہیں یا آگے کی سمت سفر کرنا چاہتے ہیں۔

کیونکہ اصل مسئلہ ہی سوچ کا اور نظریہ کا ہے اندھیرے کی سوچ اور نظریہ والے ہم سب پر جبراََ اپنی سوچ اور نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تشدد اور ہر حربے کو جائز سمجھتے ہیں وہ جنتوں کا وعدہ کر کے ہماری زندگی کو جہنم بنانا چاہتے ہیں۔ فیصلہ خود ہم نے کرنا ہے کہ آیا ہم واپس اٹھارویں صدی میں جانا چاہتے ہیں یا اپنے ملک کو ہی جنت بنانا چاہتے ہیں۔ نیپولین ہل کہتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچ سکتا ہے ذہن وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے۔

جس طرح تھوڑی سی آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی خوشحالی، ترقی اور کامیابی ہماری سوچوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے کامیابی اتفاقاََ نہیں ملتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے خدارا ماضی کے مزاروں سے نکل آؤ مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو انسان کی آنکھیں اس کے سر کے اگلے حصے میں ہوتی ہے۔ پچھلے حصے میں نہیں گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے آگے کی طرف دیکھے ہم پرانے زمانے کی رجعت اور قدامت پرست، آمرانہ روایات سے آگے بڑھ چکے ہیں اب نئی سرزمینیں ہیں نئے لوگ ہیں اور نئے افکار ہیں تو آئیے ہم اٹھارویں صدی کی نقل کرنے ان کے نقش قدم پر چلنے سے انکار کر دیں ہم نئی دنیاؤں کو دیکھیں اور نئی روایتیں بنائیں دوسروں کے پیروکار اور چیلا بننے سے انکار کر دیں۔

اس کے بجائے اپنی دنیا خود بنائیں یاد رکھو کہ ایک شخص کی نجی زندگی کو تاریخ کی کسی سلطنت سے زیادہ بلند مرتبہ اور نامور بنایا جا سکتا ہے آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجیے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے آئیں نفرت، تعصب، غلامی کا پردہ تار تار کر ڈالیں اپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر جو کچھ آدم کے پاس تھا اور جو کچھ سیزر کر سکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں ذہن کی زنجیریں توڑ دیں۔

اپنے ذہن کو آزاد کر دیں اور اپنے آپ کو جانیں اس انسان کے طور پر جو آپ بن سکتے ہیں جو آپ کا مقدر ہے انسان کے پاس امکانات بے پناہ ہیں ان کی کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کر رکھی ہے۔ اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے۔ یہ بے معنی زنجیریں ہیں آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں یہ زندگی آپ کی ہے اپنے بارے میں فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے نہ کہ مٹھی بھر افراد نے۔ آئیں مٹھی بھر افراد کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہوں۔ اور انھیں بتا دیں ہماری زندگیوں کا فیصلہ آپ نہیں بلکہ ہم خود کریں گے پھر دیکھیں خوشحالی، ترقی، آزادی، آپ کا کس بے تابی کے ساتھ انتظار کرتی ہے۔

The post ذہن کی زنجیریں توڑ دیں appeared first on ایکسپریس اردو.

دولخت ستارہ

$
0
0

یہ تمام ترقی صرف دس سال میں حاصل کی گئی ہے!مجھے لگاکہ میں نے غلط سناہے؟قازقستان کے سرکاری افسرنے پوچھنے پردوبارہ زوردیکربتایا،یہ تمام عمارتیں، سڑکیں، اپارٹمنٹ بلڈنگز،یہ سب کچھ موجود نہیں تھا۔آستانہ محض ایک پرانا سا بوسیدہ شہرتھا۔میرے ذہن میں حیرت اورافسوس کے دروازے کھلنے لگے۔حیرت اس لیے کہ اگردوررس سوچنے والی قیادت ہو تو ملک محض دس  برس میں ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔اور اگر نہ ہو!توحال تقریباً ہمارے یا ہمارے جیسے ملکوں کی مانند ہو جاتا ہے۔جہاں محض اعلانات کی بے فیض بارشیں اورصرف لفظوں سے ترقی کی منزلیں سرکرنے کا سیلاب ہے۔

اس وقت قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہوں۔ جمباکٹاس(Jumbaktas)ہوٹل میں پاکستانی وفدکے ہمراہ گزشتہ پانچ روزسے مقیم ہوں۔یہاں آنے سے پہلے بتایا گیاتھاکہ ایک ترقی پذیرملک میں جارہاہوں۔اس شہرکودیکھنے اورپرکھنے کے بعد میرا سابقہ گمان مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔یہ ملک قطعاًترقی پذیرنہیں ہے۔یہ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے لیے محنت سے تشکیل شدہ جادوکے زینے پرتیزی سے محوِسفرہے۔یہ تیس سالہ کے مختصرعرصے میں مغربی ممالک کے برابرمیں کھڑاہوگا۔

ہم تیس سال بعدکس حال میں ہونگیں!میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا!پاکستان کاسفارت خانہ ایک انتہائی شانداربلڈنگ میں واقع ہے۔یہ بہت چھوٹا ساسفارت خانہ ہے۔افسروں کی تعدادبھی تین ہے۔مگر پاکستانی سفیرسالک نے اس ننھے منے سے سفارت خانہ کو انتہائی متحرک بنادیاہے۔انکاتعلق بلوچستان سے ہے۔اپنے علاقہ کی عاجزی اورمہمان نوازی اس شخص میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔میں نے محسوس کیاکہ کوئی ایسی سرکاری یاغیرسرکاری اہم جگہ نہیں،جہاں ہمارا سفیربنفسِ نفیس خودموجود نہ ہو۔یہاں کے سفارتی حلقے ہوں یایونیورسٹی کے اساتذہ،اقتصادی فورم ہو یا سماجی حلقے۔سالک کوشش کرکے اس کے لیے وقت نکالتے ہیں۔

یہ بات اپنے طورپرقابل تعریف ہے۔ہمارے عمومی سفارت کار غیرممالک میں اس طرح سرکاری نوکری کرتے ہیں،جیسے چھٹیوں پر ہیں۔سفارت خانے نے ہمارے وفدکے ہمراہ ایک رشین لڑکی کومتعین کیاتھا۔اینا(Anna)کوپاکستانی سفارت خانہ میں نوکری کرتے ہوئے محض دوتین ماہ ہوئے ہیں۔وہ انگریزی اورلوکل زبانوں پرعبور رکھتی تھی۔اس نے جس ایمانداری اور محنت سے ہمارے وفدکے لیے آسانیاں پیدا کیں،وہ حقیقت میں انتہائی ریاضت کا کام ہے۔تعلیم پوچھی توجواب سنکر حیران ساہوگیا۔وہ یہاں کی بہترین مقامی یونیورسٹی اورامریکا کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل افیئرز (International Affairs)میں ڈگری ہولڈرتھی۔جہاں ہمیں زبان نہ سمجھنے کا مسئلہ ہوتا تھا۔اینا فوری طور پر ترجمان کا رول اداکرناشروع کردیتی تھی۔

کسی فورم میں اگرہمیں تصاویرنہ ہونے کی وجہ سے انتظارکرنے کوکہاجاتاتھا،تووہ فوراً وہیں سے کمپیوٹر پرتمام وفدکی تصاویرکھینچ کرہمیں فورم میں اندرجانے کی اجازت دلوا دیتی تھی۔گاڑی کے ڈرائیورکو وقت پرلانے سے لے کرہرمیٹنگ کے اختتام تک وہ تمام امور باآسانی نمٹادیتی تھی۔میرے خیال میں ایناکوپاکستان کادورہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہاں آکرکہیں وہ ہماری طرح کاہل اورآرام طلب نہ ہوجائے۔سالک صاحب یہ غلطی نہیں کرینگے،کیونکہ وہ ایک سمجھدار انسان ہیں۔یہاں130قومیں آباد ہیں۔

یعنی اس ملک میں 130 قومیں سلوک اور یگانگت سے ایک خطہ میں زندگی گزار رہی ہیں۔اس میں قزاق،روسی،جرمن اوردیگر نسلیں شامل ہیں۔ قزاق قوم تناسب کے لحاظ سے ساٹھ فیصد ہیں۔ یہ تمام مسلمان ہیں۔روسی تسلط میں یہ کیسے اپنے مذہب کو سینے سے لگا کر زندہ رہے،یہ بذات خودایک سوال بھی ہے اوراپنے اندر ایک جواب بھی!اس ملک کی اکثریت مسلمان ہے۔آستانہ میں شاندارمساجد موجود ہیں۔جہاں ساری نمازیں اداکی جاتی ہیں۔ہزاروں لوگ یہاں جمعہ کی نمازمیں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن سیکھنے اورپڑھنے کی درسگاہیں بھی موجود ہیں اور وہ دینی تعلیم دے رہی ہیں۔

مگریہ تمام مساجد، دینی درسگاہیں اوران کا عملہ سرکاری ہے۔یہ حکومت وقت سے منظورشدہ خطبہ پڑھتے ہیں۔اور بغیرکسی فساد اور تفرقہ کے اپناکام کرنے میں مصروف ہیں۔اس سکہ کاایک پہلو اور بھی ہے۔کسی بھی مذہب کا حکومت یا لوگوں کی عملی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں۔ انھوں نے اسلام اوردیگرمذاہب کوصرف ذاتی زندگی تک محدودکردیاہے۔ان کے ذہن میں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کاکوئی خواب نہیں!یہ مکمل عمل پسندقوم ہے۔یہ کسی بھی دین کے افسانوی پہلو یا احیاء پرکسی قسم کا یقین نہیں رکھتے۔مگر یہ مذہب اورقدرت کے آفاقی اصولوں پرعمل پیرا ہیں۔دیانت داری، وقت کی پابندی،سچ بولنا،اشیاء کوپوراتولنا اوردیگراصولوں پرسختی سے کاربند ہیں اورکامیاب ہیں بلکہ مکمل طورپرکامیاب ہیں۔

قازقستان کوآزاد ہوئے محض تئیس(23)سال ہوئے ہیں۔سوویت یونین کے ختم ہونے سے یہ ملک خودبخودآزاد ہوگیا۔اگردیکھا جائے توان لوگوں کوآزادی پلیٹ میں رکھ کردی گئی ہے۔مگراس آزادی کا انھوں نے جتنا فائدہ اٹھایا،وہ ہماری سوچ سے بھی باہرہے!نذربایوف آزادی سے پہلے بھی اس ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کاسربراہ تھااوراس ملک کاحاکم تھا۔مگرآزادی کے بعد جس عمدہ طریقے سے اس نے اپنے آپکو قومی مفادکے حصول کے لیے تبدیل کیا،وہ بذات خود الف لیلیٰ کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

آزادی کے وقت یہاں کے تمام انجینئرہجرت کرکے روس واپس چلے گئے۔پورے ملک میں سیکڑوں ایٹم بم موجودتھے۔ان کے پاس محض زراعت کا شعبہ تھاجو ایک کروڑکی آبادی کے لیے گندم پیداکرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔روس نے قصداً اس پورے علاقے کو بہت پسماندہ رکھاہواتھا۔ان کی سیاسی قیادت نے پہلافیصلہ یہ کیاکہ ہم کسی کے دشمن نہیں اورہمارا بھی کوئی دشمن نہیں۔ان کی سرحد پرچین اور روس دونوں موجود ہیں۔ نذر بایوف نے جس دانشمندی سے اپنے ملک کوکسی بھی ممکنہ جنگ، لڑائی یا جھڑپ سے محفوظ رکھا، مجھے اس کی اب تک کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔اس سیاسی فیصلے سے قازقستان کسی بھی پُرتشدد جنگ سے دورہوگیا۔

یہ ان کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔اس کے بعداس نے نسلی تعصب سے بالاترہوکرقوم کی تشکیل کرنی شروع کردی۔ مسلمان،عیسائی اورتمام مذاہب کے لوگوں کویکساں تعلیم اور ترقی کے مواقع فراہم کردیے۔کسی بھی مذہبی رہنماکو اجازت نہیں دی،کہ وہ اکثریت میں ہونے کے باوجودکسی اقلیت کو نقصان پہنچاسکے۔چنانچہ تمام معاشرہ میں130نسلیں اور تمام مذاہب ایک سماجی اورمعاشرتی انصاف کے تحت زندگی گزارنے لگے۔یہ نذربایوف کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔

یہ ملک یورینیم پیداکرنے والاسب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں کی سیاسی قیادت نے فیصلہ کیاکہ وہ ایٹمی طاقت ہونے کی مہنگی دوڑمیں شامل نہیں ہونگے۔انھوں نے ایٹم بم بنانے یا وارہیڈزکودورتک مارکرنے والے کسی قسم کے ہتھیاربنانے سے انکارکردیا۔اس ملک نے اپنی ایٹمی قوت فی الفور بندکر دی۔معاہدے کے مطابق ہزاروں تباہ کن ایٹمی ہتھیار واپس کیے گئے۔یہ نذربایوف کا تیسرابڑا فیصلہ تھا۔وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اس تمام پیسے کواپنے لوگوں کی ترقی کے لیے استعمال کرناچاہتا تھا۔یہ تینوں فیصلے مقامی حالات کے مطابق بروقت اوردور رس تھے۔

اب حکومت کے پاس اپنے لوگوں کی ترقی کے لیے وسائل موجودتھے۔نذربایوف نے دارالحکومت کو الماتہ سے آستانہ منتقل کردیا۔جب یہ فیصلہ کیاگیا تواس شہرمیں کچھ بھی نہیں تھا۔سوویت دورکی پرانی عمارتیں،رہنے کے لیے ادنیٰ درجے کے فلیٹس اورقدیم بازار۔مگر ان لوگوں نے صرف دس برس میں ایک فقیدالمثال کارنامہ انجام دیا۔اس قوم نے ایک نیاشہربنادیا۔

اس میں خوبصورت عمارتیں،انتہائی کشادہ سڑکیں،فلک بوس اپارٹمنٹ بلڈنگز،تجارتی کمپنیوں کے دفاتر اورماڈرن شاپنگ مالزبنا ڈالے۔مجھے اس شہرکے مختلف حصوں میں جاکر ایسے محسوس ہوا کہ میں یورپ یا امریکا کے کسی اچھے شہرمیں ہوں۔ویسے ایک طرح یہ سچ بھی ہے۔یہ دنیاکے تین ایسے ملکوں میں ہے جوآدھے ایشیا اورآدھے یورپ میں ہیں۔آستانہ کی آبادی صرف دس بارہ لاکھ ہے، مگر اس کا انفراسٹرکچر ایک کروڑ سے زیادہ باسیوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اگلے سوبرسوں کی منصوبہ بندی کے تحت تعمیرکیا گیا ہے۔

اب میں ایک تکلیف دہ پہلوکی طرف آتا ہوں۔ سوویت یونین کے تسلط کے ابتدائی دورمیں آستانہ سے چالیس میل دورایک قیدخانہ بنایاگیاتھا۔یہ دراصل ایک عقوبت خانہ تھا۔اسکانام”الضہار” (ALZHIR)تھا۔اس کیمپ میں اسٹالن کی حکومت، ان خواتین کوقیدکردیتی تھیں،جن کے خاوند حکومت کے بقول کمیونیزم نظریات سے اختلاف رکھتے تھے۔ اس میں اساتذہ،سائنسدان،اپوزیشن سوچ رکھنے والے سیاستدان،دانشور،اہل قلم تمام لوگ شامل تھے۔ان عورتوں کے لیے یہ ایک جہنم بنایاگیاتھا۔ایک وقت میں ہزاروں خواتین یہاں جانوروں کی طرح باڑے میں بندکردی گئی تھیں۔انھیں ہرطرح کی تکلیف دی جاتی تھی۔

اس علاقہ میں شدید برف پڑتی ہے اورکبھی کبھی درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری تک گرجاتاہے۔موسم کی سختی کے مقابلے کے لیے خواتین کو مناسب کپڑے نہیں دیے جاتے تھے۔ان پرخفیہ پولیس کے لوگ تشددکرتے تھے کہ وہ اقرارکریں کہ ان کے خاوند غدار اور ملک دشمن ہیں۔ہزاروں عورتیں تشدد اورموسم کی سختی سے جاں بحق ہوگئیں۔مگرحکومتی جبرکا ایک اور زاویہ بھی تھا۔بچوں کو بھی اپنی ماؤں کے ساتھ غلیظ کوٹھریوں میں رہنے کی اجازت تھی۔ جیسے ہی بچے کی عمرچارسال ہوتی تھی،حکومتی اہلکارآکر بچے کوماں سے زبردستی چھین لیتے تھے۔

اس کے بعد ان بچوں کا نام اور ولدیت تبدیل کرکے یتیم خانوں میں جمع کروا دیاجاتا تھا۔بچوں کو سال میں دوباراپنی ماں کوخط لکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔خطوط میں ان معصوم فرشتوں سے زبردستی لکھوایا جاتا تھا کہ وہ اچھے ماحول میں رہ رہے ہیں اوربہت خوش ہیں۔یہ خط مکمل تبدیل کرکے”الضہار”میں قیدی خواتین کودیے جاتے تھے۔اصل میں یہ خط ان کے لختِ جگرکے نہیں ہوتے تھے۔کسی ماں کومعلوم نہ تھاکہ اس کا بچہ کہاں ہے اورکس حال میں ہے۔ اس طریقے سے لاکھوں معصوم بچے حکومتی جبر کاشکار ہوگئے۔ اگر والدہ قیدخانہ سے باہرآگئی توپھربھی اسے نہیں بتایا جاتا تھا کہ اس کا نورچشم کہاں ہے!مجھے اس عقوبت گاہ جاکرایسے لگاکہ میرے اردگرد ہزاروں ماؤں کی بے آوازفریاد ہے جو اپنے جگرکے ٹکڑوں کے لیے نوحہ خواں ہیں۔

اس کیمپ کے اندرایک سرخ رنگ کاستارہ بناہوا ہے۔ یہ ستارہ درمیان سے ٹوٹاہوا ہے۔یہ دوحصوں میں تقسیم ہے۔ گائیڈ نے بتایاکہ یہ ستارہ وہ بدقسمت عورتیں تھیں جن پرہرظلم ڈھایاگیا مگران کاجرم انھیں معلوم نہیں تھا! خاندانوں کے خاندان بربادہوکرمٹی میں مل گئے۔ مگر کسی پرکوئی مقدمہ چلا نہ سزاہوئی!اب یہ ماضی کاقصہ ہے! مگرمیں یہ دولخت ستارہ دیکھ کردکھ سے منجمد ساہوگیا!مجھے آستانہ سے آگے اس عقوبت گاہ کودیکھنے کے لیے نہیں جانا چاہیے تھا!یاشائد ضرور جانا چاہیے تھا!

The post دولخت ستارہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ملتان سے چولستان تک

$
0
0

چند ماہ قبل جب چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کی طرف سے اطلاع ملی کہ وہ مجھے ادبی خدمات کے حوالے سے کوئی ایوارڈ دینا چاہتے ہیں تو میں نے ان کی دعوت صرف اس لیے قبول کر لی کہ جنوبی پنجاب،بالخصوص چولستان کے احباب کو یہ گلہ رہتا ہے کہ حکومت پنجاب ان کے حقوق اور معاشرتی ترقی سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں انھیں یا تو نظر انداز کرتی ہے یا ان کے مسائل کے حل میں مناسب توجہ سے کام نہیں لیتی اور کم وبیش یہی شکایت انھیں وہاں کے ادیبوں اور میڈیا سے بھی رہتی ہے۔

سو میں انکار یا معذرت کر کے ان کے اس جذباتی اور مشروط سطح پر حقیقی تصورات کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتا تھا بعدازاں تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ کونسل کوئی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ نہیں بلکہ ایک NGO ہے جو گزشتہ 17برس سے چولستان کے علاقے اور عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے مختلف سطحوں پر کام کر رہی ہے۔ میرے اصرار پر فاروق احمد خان اور ان کی بیگم رضیہ ملک نے بذریعہ ای میل مجھے اپنی NGO کے تعارف،مقاصد،کارکردگی اور ان سالانہ ایوارڈز کے بارے میں کچھ تفصیلات بھجوائیں جس کے ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں اس بار میرا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔

جب اس کا ذکر ملتان کے دوستوں سے ہوا تو انھوں نے یاد دلایا کہ گذشتہ ملاقات کے دوران میں نے DCO ملتان برادرم زاہد سلیم گوندل کے گھر پر ایک شام ان کے ساتھ گزارنے کا وعدہ بھی کیا تھا اس یاد دہانی میں سب سے پیش پیش برادران افضل شیخ ، شاکر حسین شاکر اور قمر رضا شہزاد تھے، سو طے پایا کہ میں 16مئی کی رات ملتان میں رکوں اور ایک تقریب پذیرائی کی شکل میں کچھ وقت ملتان کے احباب کے ساتھ گزاروں جہاں سے اگلے دن وہ لوگ مجھے ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے بہاولپور پہنچا دیں گے اور یہ کہ میرا قیام سرکٹ ہاؤس میں ہو گا جب کہ تقریب کا اہتمام بھی اسی کے ہال میں کیا جائے گا۔

سچی بات ہے کہ بہت دنوں کے بعد ایسے احباب کو شعر سنانے کا موقع ملا جن میں اعلیٰ درجے کے سخن فہموں کی تعداد 70 فیصد سے بھی زیادہ تھی جب کہ عام ادبی نوعیت کی محفلوں میں ان کا تناسب بہت کم  50 فیصد کو چھوتا ہے اور مشاعروں میں تو اگر  20 فیصد بھی ایسے سامعین مل جائیں تو بہت ہوتے ہیں سو مجھے تھکاوٹ کے باوجود ایک گھنٹے سے زیادہ پڑھنا اچھا لگا کہ سامعین کا ذوق و شوق ایک مسلسل تحریک کا باعث بن رہا تھا، اسٹیج پر برادرم زاہد سلیم گوندل اور کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی انضمام الحق میرے ہم نشین تھے جب کہ نظامت کے فرائض شاکر حسین شاکرنے انجام دیے جنھیں اگر ملتان کی ادبی فضا کا مرکزی نقطہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

رضی الدین رضی نے اپنے بہت خوبصورت مضمون میں گذشتہ تیس برس کی یادوں کو ایسے دل نشین پیرائے میں بیان کیا کہ لطف آ گیا۔ بھائی زاہد سلیم گوندل کی استقبالیہ گفتگو سن کر بار بار خیال آیا کہ اگر ہمارے سارے بیوروکریٹ ادب اور زبان کو انھی کی طرح اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں تو بے شمار خوامخواہ کی رکاوٹیں خود بخود دور ہو سکتی ہیں۔  تقریب کے مہمان خصوصی حکومت جاپان کے سفیر محترم ہیروشی انو ماتا تھے جب کہ ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں سینئر فلم اسٹار محترمہ بہاربیگم اور پی ٹی وی کی معروف شخصیت محتر مہ کنول نصیر،ضیامحی الدین، پروفیسر عبدالرؤف روفی اور ظہیر عباس کے نام نسبتاً زیادہ معروف تھے۔

اس ایوارڈ کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کے شعبوں کا پھیلاؤ اور ایوارڈ یافتگاں کا چناؤ تھا کہ جہاں ان میں اعلیٰ ترین علمی قابلیت اور مقبولیت کے حامل بہت سے مشہور لوگ تھے وہاں ایک بزرگ خاتون نوازش بی بی (جو ایک انتہائی غریب اور دستکار خاتون تھی) نوجوان کوہ پیما اور فاتح ماؤنٹ ایورسٹ عزیزہ ثمینہ بیگ اور زندگی کے بہت سے اہم مگر فراموش کردہ شعبوں میں غیر معمولی خدمات سرانجام دینے والوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جن میں ایک ایسا بہادر اور فرض شناس پولیس آفیسر عنایت اللہ بھی شامل تھا جس نے بے شمار دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار کلوگرام سے زیادہ بارود، بم اسکواڈ کے ایک رکن کے حیثیت سے ناکارہ بھی بنایا تھا جو ہزاروں انسانی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا تھا زراعت ،صحت،انسانی حقوق ،نوجوانوں کی ترقی ،تعلیم وتحقیق،آرٹ،سماجی خدمات اور ادب کے حوالے سے بھی بہت سے ایسے احباب سے تعارف ہوا جن کو اپنے اپنے میدانوں میں بے مثال خدمات کے باوجود وہ پذیرائی نہیں ملی تھی۔

جس کے یہ لوگ بجا طور پر مستحق تھے۔ تقریب کے آغاز سے قبل چولستان کے روائتی رقص اور آتشبازی کا بھی خوبصورت مظاہرہ کیا گیا اور ایوارڈز کے دوران بھی مختلف مقامی اور مہمان فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ پروگرام کی پیش کش بھی بہت عمدہ تھی اور دیگر انتظامات سے بھی منتظمین کی صلاحیت اور محنت کا اندازہ ہو رہا تھا مگر حاصل غزل شعر کی طرح اگر مجھے اس تقریب کی کسی ایک یاد یا تجربے کا انتخاب کرنا ہو تو میرا ووٹ اس کوہ پیما بچی ثمینہ بیگ کی طرف ہو گا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی نوجوان خواتین کو اپنی مثال سے ایک ایسا اعتماد دیا ہے جو اپنی جگہ پر بے مثال ہے دعا ہے کہ رب کریم ہماری نوجوان نسل کو وہی ہمت اور حوصلہ دے جن کا مظاہرہ اس بیٹی نے کیا ہے۔

The post ملتان سے چولستان تک appeared first on ایکسپریس اردو.

اقتصادی راہداری

$
0
0

عوامی نیشنل پارٹی کے تحت ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں چین، پاکستان اقتصادی راہداری پر عدم اعتماد کا اظہارکیا گیا ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اقرارکیا کہ اس منصوبے کے راستوں کی تبدیلی پر انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اے این پی کی یہ کانفرنس اور ڈاکٹر عبدالمالک کا بیان وزیر اعظم نواز شریف کی اسلام آباد میں طلب کردہ کانفرنس کے بعد ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ میاں نواز شریف سے پہلے سابق صدر آصف زرداری نے سیاستدانوں کو جمع کرکے اس اہم منصوبے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔

اب وفاقی حکومت کے اتحادی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک انٹرویو میں اس اہم منصوبے میں متنازعہ صورتحال پید ا کرنے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد کی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چین اور پاکستان کا یہ مشترکہ اقتصادی منصوبہ  صوبوں کے درمیان کسی ایک نئے تضاد کا باعث نہ بنے۔ سینیٹر حاصل بزنجوکا کہنا ہے کہ چین ، پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں کوئی ابہام نہیں، بڑی سڑکوں ، توانائی کے منصوبوں، آئی ٹی پارکس اور انڈسٹریل پارکس پر مشتمل ہے ۔

یہ تین مختلف سڑکیں کاشغر سے شروع ہونگی یوں کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی خضدارمیں ایک دوسرے سے منسلک ہونگی اور پھرایک مرکزی سڑک گوادر پر اختتام پذیر ہوگی ، ان تینوں سڑکوں اور توانائی کے پلانٹس کے قیام پر چین اور پاکستان میں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ یہ منصوبے کے پی کے، پنجاب اور سندھ میں قائم ہونگے مگر آئی ٹی پارکس اور انڈسٹریل پارکس کے بارے میں بات چیت حتمی نتائج تک نہیں پہنچ سکی یوں کسی جماعت کو اس منصوبے پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ اقتصادی راہداری چین اور پاکستان کے اقتصادی تعاون کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔ یہ اقتصادی راہداری چین کے صوبے کاشغر سے شروع ہوگی اور بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر پر اختتام پذیر ہوگی۔ یہ منصوبہ 2030میں مکمل ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے چین کو گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے مشرق وسطیٰ ، یورپ امریکا تک اپنا سامان پہنچانے کا قریب ترین راستہ میسر آئے گا ، یہ راستہ ہر موسم میں کھلا رہے گا ، یوں اس راستے کے اطراف صنعتی علاقے قائم ہونگے اس طرح ترقی کا عمل سفر تیز ہوگا ۔

گزشتہ سال کے آخری مہینوں تک یہ تاثر عام تھا کہ کاشغرسے شروع ہونے والا راستہ ڈیرہ اسماعیل خان ژوب سے ہوتا ہوا گوادر پر اختتام پذیر ہوگا۔ ذرایع ابلاغ پر یہ خبریں زینت بنی کہ اس راستے میں تبدیلی کردی گئی ہے اور اب یہ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا سندھ میں رتو ڈیرو شاہراہ سے گوادر پر پہنچے گا ، اقتصادی امور کے وزیر احسن اقبال نے ان خبروں کی مہم کی تردید کی پھر سوشل میڈیا پر مختلف نقشے ظاہر ہوئے ہر نقشے میں ایک مختلف راستہ ظاہر کیا گیا، پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی اور وفاقی وزیر کے درمیان ایک ٹی وی مکالمے میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی ۔

ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے  اور دشمن ملک کے ایجنٹ کے الزامات لگے پھر یہ وضاحت کی گئی کہ اقتصادی را ہداری کا ایک راستہ نہیں ہوگا بلکہ کئی راستے ہونگے ، ایک راستہ کے پی کے اور بلوچستان سے ہوگا، دو سرا راستہ کے پی کے  پنجاب ، سندھ اوربلوچستان کے مختلف شہروں سے گزرے گامگر وزیر اعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں قومی رہنمائوں کی جو آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی اس دن کراچی کے صفورا چوک پر اسماعیلی برادری کی بس پرفائرنگ  کے  واقعے کے بعد مختصر ہوگئی ۔

پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ چین کے ماہرین سالوں سے اس منصوبے پر سوچ بچارکر رہے تھے اور ان ماہرین سے رابطے میں تھے ان ماہرین کا یہ خیال تھا کہ  اقتصادی راہداری سے کے پی کے کے بیشتر علاقوں کو مستفیض ہونا چاہیے ، ان کا کہنا ہے کہ ان کی ہدایت پر کے پی کے،کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی نے اے این پی کے سابق وزیر اعلیٰ حیدر ہوتی کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں ایک مشترکہ کانفرنس منعقد کرکے پختون رہنمائوں کی تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن کی اس رائے کی اے این پی ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی مکمل حمایت کررہی ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ اس راہ داری میں قائم ہونے والے صنعتی منصوبوں کے پیرامیٹر کا ہے ۔ دستیاب دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر توانائی کے منصوبے ہیں ان منصوبوں میںکوئلے سے بجلی پید اکرنے کے منصوبوں پر مشتمل ہیں مگر NEPRAکی ویب سائٹ پر ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی کا ٹیرف موجود نہیں ہے ۔ توانائی کے بارے میں حکومت کی نئی پالیسی واضح خلاف ورزی ہے پھر یہ کہا جاتا ہے بیشتر منصوبے نجی شعبے میں قائم ہونگے مگر یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان منصوبوں میں غیر ملکی قرضوںکا حساب لینا ہے، یہ منصوبے 2030ء تک مکمل ہوں گے ، پنجاب کے علاوہ کے پی کے اور سندھ میںتوانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے ہائیڈرل اور سولر انرجی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔

وزیر اعظم نواز شریف اس اقتصادی راہداری  کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے  چین گئے توصرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ان کے ہمراہ تھے ۔ میاں صاحب نے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنے وفد میں شامل نہیں کیا، یوں ان صوبوں کی کیا پالیسی ہوگی ماہرین اس بارے میں کنفیوزن کا شکار ہیں۔ یہ معاملے 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد صوبوں میں قائم ہونے والے توانائی منصوبوں کا انحصار اس صوبے کی پالیسی سے منسلک ہیں ۔

جب1985میں اس ملک میں غیر جماعتی انتخابات منعقد ہوئے تو ملک میں محمد خان جونیجو پنجاب میں میاں نواز شریف کے پی کے میں ارباب جہانگیر ، بلوچستان میں جام صاحب لسبیلہ اور سندھ میں جسٹس (ر) غوث علی شاہ ، وزراء اعلیٰ کے عہدوں پر فائز ہوئے ، اگرچہ  ان رہنمائوں کے منتخب ہوتے وقت وہ  کسی سیاسی جماعت کے رکن نہیں تھے مگر پھر سب مسلم لیگ کے رکن بن گئے ، اس دوران کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اخبارات کی زینت بنا رہا ۔

وفاق اور چاروں صوبوں میں ایک جنگ شروع ہوگئی ، سندھ اور سابقہ صوبہ سرحد کی حکومتوں نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پیش کردیا ، واپڈا اور پنجاب نے کالا باغ ڈیم کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے لازمی قرار دے دیا ، وفاق اور ہر صوبے میں ایک ایسی بے معنی بحث شروع ہوئی کہ یہ بحث اخبارات کے فورم سے سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں اور جلسے جلوسوں میں منتقل ہوگئی ، اس وقت وفاق اور صوبوں میں صاحب بصیرت شخصیت موجود نہیں تھی جو اس اہم منصوبے کے تمام پہلوئوں پرعقل و دانش کے مطابق بحث کو سمیٹ سکتی ۔

گزشتہ صدی کے 53سال اور اس صدی کے 8برسوں کے گزرنے کے بعد سیاستدانوں کا شعور انتہائی بلند ہوا ہے ، چین پاکستان اقتصادی راہ داری کا معاملہ اعلیٰ سطح پر بحث کا محور رہا ہے، ابھی تک اس معاملے کو جذباتی مفادات کے تابع نہیں کیا گیا ، میاں نواز شریف ، سینٹر حاصل بزنجو، آصف زرداری ، اسفند یار ولی ،حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن کے معاملہ کی حل کی کوششیں قابل قدر ہیں مگر اس منصوبے کو شفافیت کے عالمی معیار پر رکھا جائے اور ملک کے اعلیٰ مفاد میں فیصلہ کیا جائے ،یہ منصوبہ ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے،اگر اس مسئلے پر سیاست کی گئی تو نہ صرف چین کا پاکستان پر سے اعتماد ختم ہوگا بلکہ غربت کے خاتمے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کا سنہری موقع نکل جائے گا۔

The post اقتصادی راہداری appeared first on ایکسپریس اردو.

نجکاری اور سرمایہ دارانہ نظام

$
0
0

سرمایہ دارانہ نظام ایلیٹ کے تابعدار معاشی ماہرین کا متعارف کردہ ایک ایسا نظام ہے، جو اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور انھیں کھلی لوٹ مار کے مواقعے فراہم کرتا ہے ۔ان مواقعے میں ایک موقعہ نجکاری کا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ماہرین کا فلسفہ ہے کہ کوئی صنعت کوئی ادارہ پبلک سیکٹر میں منافع بخش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پبلک سیکٹر کی انتظامیہ کو اداروں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ انھیں صرف کمائی سے دلچسپی ہوتی ہے یہ رجحان مختلف شکلوں میں تمام کارکنوں تک جاتا ہے ۔

جس میں کام چوری ایک عام رجحان ہے جس کی وجہ سے پیداوار اورکارکردگی متاثر ہوتی ہے اور پبلک سیکٹر کے ادارے دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔یہ الزام غلط نہیں پبلک سیکٹر کی انتظامیہ کرپٹ ہوتی ہے اور کارکنوں کو کام سے دلچسپی نہیں ہوتی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں برائیاں آتی کہاں سے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کرپشن ایک تو خود سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے دوسرے اس نظام میں حکمران طبقات کی بھاری لوٹ مار کا اثر نچلی سطح تک آتا ہے اور پبلک سیکٹر سر سے پاؤں تک بدعنوانیوں کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔

اس حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی انتظامیہ اور کارکن کیا فرشتے ہوتے ہیں کہ نہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں نہ ان کے کارکن کام چور ہوتے ہیں؟ اصل قصہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کرپشن کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی کہ انھیں حلال طریقے سے منافع خوری کے اس قدر بڑے مواقعے حاصل ہوتے ہیں کہ حرام خوری کی انھیں ضرورت ہی نہیں رہتی۔ مثلاً پرائیویٹ سیکٹر میں ایک چیز 10 روپے میں تیار ہوتی ہے تو تیار کنندہ کا جائز حق ہوتا ہے کہ وہ 10 روپے کی چیز کو مارکیٹ میں 20 روپے میں فروخت کرے یا 100 روپے میں۔

منافع خواہ اس کی شرح کتنی ہی کیوں نہ ہو جائز اور حلال ہوتا ہے جب جائز اور حلال کے نام پر لامحدود حرام خوری کی اجازت ہو تو پھر ناجائز طریقے اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ رہی کارکنوں کی کام چوری سو وہ اس لیے ہر پبلک سیکٹر میں پائی جاتی ہے کہ پبلک سیکٹرکی انتظامیہ کا وقت لوٹ مار میں بیت جاتا ہے انھیں کارکنوں کے کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لیے پبلک سیکٹر کی کارکردگی ناقص ہوتی ہے یہ سلسلہ ہر جگہ نہیں چلتا جن اداروں میں انتظامیہ ذمے دار ہوتی ہے ان اداروں میں کارکنوں کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے پیداوار بھی تسلی بخش ہوتی ہے۔

پبلک سیکٹر میں انتظامیہ کی نااہلی اور بے خوف کرپشن کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پبلک سیکٹر کے اداروں کے سربراہ عموماً حکمران طبقات کے بھائی بند، چاچے ، مامے ہوتے ہیں جنھیں لوٹ مار کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور پیداوار سے انھیں کوئی دلچسپی اس لیے نہیں ہوتی کہ کم پیداوار اور ناقص کارکردگی ہی وہ بہانہ یا جواز ہوتا ہے جسے بنیاد بناکر حکمران طبقہ صنعتوں اور اداروں کی نجکاری کرتا ہے۔

یہ وبا پسماندہ ملکوں میں شدت کے ساتھ اس لیے موجود ہوتی ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ابھی تک سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی پوری طرح موجود نہیں ان ملکوں میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی بادشاہتیں مستحکم اور مضبوط ہیں چونکہ بادشاہتیں خاندانوں پر مشتمل ہوتی ہیں لہٰذا ہماری جمہوریت بھی خاندانی بادشاہتوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور بادشاہتوں میں امرا کا جو طبقہ ہوتا ہے وہ طبقہ اعلیٰ سطحی بیوروکریسی اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کی شکل میں پسماندہ ملکوں میں موجود ہے۔

پاکستان کا شمار خطے کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں دیگر پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں جمہوریت بہت زیادہ پسماندہ ہے اور حکمران طبقات کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کی جائے۔ لوٹ مار بلکہ بڑے پیمانے کی لوٹ مار کا ایک سہل طریقہ صنعتوں اور قومی اداروں کی نجکاری ہے۔

ہماری سابقہ حکومتیں بھی کمائی کے اس ذریعے کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتی رہیں لیکن چونکہ موجودہ حکومت  نجکاری کے ’’قومی فوائد‘‘ سے پوری طرح واقف ہے اور نظریاتی طور پر بھی منڈی کی معیشت کی دلدادہ ہے سو اس دور میں نجکاری کا سلسلہ اس حد تک دراز ہو رہا ہے کہ قومی اہمیت کے اہم اداروں کی بھی یا تو نجکاری کردی گئی ہے یا کرنے کی تیاری جاری ہے۔ ریلوے جیسے اہم پبلک سیکٹر کے ادارے کی آہستہ آہستہ نجکاری شروع کردی گئی ہے اور نجکاری کی ایک لمبی لسٹ حکومت کی ٹیبل پر پڑی ہوئی ہے۔

ایک اور بڑے اہم قومی ادارہ  کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سینیٹر سعید غنی نے سینیٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اربوں روپے مالیت کے اس قیمتی ادارے کو صرف 25 کروڑ میں بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کرپشن کا یہ سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور کئی ادارے نجکاری کے پروسس میں ہیں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پبلک سیکٹر کا ایک ادارہ پرائیویٹ سیکٹر میں جاتے ہی منافع بخش کیوں ہوجاتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو ہم نے ابتدا میں دے دیا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں منافعے کی کوئی حد نہیں ہوتی اور مالکان کارکنوں کے سروں پر نوکری سے علیحدگی کی تلوار لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ مزدوروں سے 18-16گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے اور بے روزگاری کے خوف سے مزدور انقلاب فرانس کے دور کے لامحدود اوقات کار پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دھاندلی کی انتہا یہ ہے کہ بہت سارے ایسے اداروں کو بھی اونے پونے داموں پر بیچا جا رہا ہے جو منافع بخش ہیں اور منافعے میں چل رہے ہیں۔

نجکاری کا پہلا وار مزدوروں پر ہوتا ہے اور مزدوروں اور ملازمین کو ’’فاضل‘‘ کہہ کر ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے اور اب تک لاکھوں مزدور نجکاری کی بھینٹ چڑھ کر بے روزگاروں کی فوج میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ چونکہ اس نظام میں لیبر ڈپارٹمنٹ عموماً مالکان کے ایجنٹ کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے اس لیے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں رہتا۔ مزدور سڑکوں پر مارے مارے روزگار کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ اس حوالے سے ملک کو ایک خطرناک صورتحال کا سامنا یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند طاقتیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، بھتے کی وصولی، اغوا جیسے سنگین جرائم میں ان نجکاری کے ذریعے بے کار ہونے والے مجبور بے روزگاروں کو بھاری معاوضے پر اپنے گندے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

نجکاری اپنی سرشت میں کرپشن کی علامت ہے اور اس پرفریب اور احمقانہ تاویل کو کوئی ذی شعور نہیں مان سکتا کہ نجکاری سے ملک و قوم کو فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے وضاحت کی ہے نجکاری کے گندے کھیل کا مقصد ایلیٹ کی لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں۔ جو ادارے بیچے جاتے ہیں ان کے خریدار حکمران اشرافیہ کے خاندان کے لوگ ہوتے ہیں یا کاروباری دوست احباب۔ اس پورے بھان متی کے کھیل کا واحد مقصد اربوں روپوں کی لوٹ مار اور اپنوں کو نوازنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

The post نجکاری اور سرمایہ دارانہ نظام appeared first on ایکسپریس اردو.


اور جب مصری چھینکا ٹوٹے گا

$
0
0

سولہ مئی کو محمد مرسی اور ایک سو پانچ دیگر ملزموں کو جنوری دو ہزار گیارہ میں صدر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل توڑنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اس مقدمے میں سزا پانے والا ایک مجرم وہ فلسطینی بھی ہے جو واردات کے روز اسرائیلی قید میں تھا۔اور اسی مقدمے میں ایک مجرم وہ بھی ہے جس کا دراصل دو ہزار آٹھ میں انتقال ہو چکا۔ محمد مرسی کو حماس، حزب اللہ اور ایرانی پاسداران کو اہم قومی راز فراہم کرنے کے جرم میں پچھلے ہی ماہ بیس برس قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔

جولائی دو ہزار تیرہ میں محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اخوان المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر محمد بدیع سمیت لگ بھگ ایک ہزار افراد کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ان میں سے کسی ملزم کو وکیل کی سہولت نہیں دی گئی۔بہت سوں کو تو عدالت کے پنجرہ کٹہرے میں لانے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا۔دوسری جانب ستانوے فیصد ووٹوں سے صدر منتخب ہونے کے دعویدار فیلڈ مارشل عبدالفتح السسی کے تین سالہ دور میں اب تک احتجاجی مظاہروں میں دو ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں لیکن افسر چھوڑ کسی معمولی سپاہی تک کو سزا نہیں مل سکی۔سابق صدر حسنی مبارک اور ان کے دو بیٹوں کی سزائے قید عدالتی نظرِ ثانی کے بعد کم کرکے تین سال کردی گئی اور وہ کسی بھی دن رہا ہوسکتے ہیں۔

آج کے مصر میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عبدالفتح السسی کے حامی جو محب وطن کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو غدار ، جاسوس اور غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ان میں دائیں بائیں بازو کی کوئی تمیز نہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دو ہزار تیرہ میں بڑے بڑے مظاہرے منظم کرکے فوج کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔مثلاً مرسی کے خلاف تحریک میں آگے آگے رہنے والے چھ اپریل موومنٹ کے سربراہ احمد ماہر ، اعلا عبدالفتح اور سہین المصری سمیت سیکڑوں لبرل سیاسی و سماجی کارکن ، دانشور ، اساتذہ اور ایک سو کے لگ بھگ صحافی بھی جیل میں ہیں۔بس وہی پرائیویٹ چینلز اور اخبارات زندہ رکھے گئے ہیں جو واہ واہ کرسکیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومین رائٹس اور مصر کی آبزرویٹری فار رائٹس اینڈ فریڈم توثیق کرتے ہیں کہ مزاحمت کی کمر توڑنے کے لیے جیلوں، تھانوں اور چھاپوں کے دوران گھروں میں سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد مبارک دور سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ اس بابت عمر ، جنس اور رشتے کی قید بھی اٹھ چکی ہے۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
بنیادی بات یہ ہے کہ مصر کی فوج افریقہ اور مشرقِ وسطی میں عددی اعتبار سے سب سے بڑی سپاہ ہے۔ انیس سو باون میں شاہ فاروق کی معزولی کے بعد سے آج تک زندگی پر فوج کا قبضہ کبھی ڈھیلا نہیں ہوا۔ محمد مرسی کے دس ماہی اقتدار کو چھوڑ کے کرنل نجیب اور جمال ناصر سے لے کے سادات ، حسنی مبارک اور فیلڈ مارشل سسی تک تریسٹھ برس میں جتنے حکمران آئے فوجی ہی آئے۔کبھی فوج یک جماعتی نظام کی چلمن میں بیٹھ گئی تو کبھی براہِ راست سامنے آ گئی۔اس دوران مصری معیشت کا لگ بھگ چالیس فیصد حصہ فوج کے کنٹرول میں چلا گیا۔ بیشتر اہم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے کلیدی عہدوں پر آپ کو با افراط ریٹائرڈ فوجی افسر نظر آئیں گے۔فوج ملک کی سب سے بڑی لینڈ ڈویلپر ہے۔مواصلات ، تعمیرات ، سیاحتی مقامات ، اسلحہ سازی اور کیمیکل انڈسٹری سے لے کر پٹرول پمپ چلانے، پاستا اور منرل واٹر بنانے تک ہر چھوٹے بڑے اقتصادی شعبے میں فوجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔ان منصوبوں کی آمدنی ٹیکس ،آڈٹ اور تنقید سے بالا ہے۔

انتظامی گرفت ایسی کہ ستائیسں میں سے سترہ صوبوں کے گورنر حاضر و سابق جنرل اور دو صوبوں کے گورنر اعلی ریٹائرڈ پولیس افسر اور آٹھ صوبوں کے گورنر سویلین ہیں مگر ان کے ڈپٹی گورنر فوجی ہیں۔

مصری فوج کی نظریاتی اساس قوم پرستی بتائی جاتی ہے۔ جب تک اسرائیل سے براہِ راست خطرہ تھا تب تک فوج عوامی اکثریت کی آنکھ کا تارہ تھی اور عوام ایک بڑے قومی مقصد کے لیے اپنے بنیادی حقوق کی قربانی دینے پر بھی خوشی خوشی آمادہ تھے۔تاہم انور سادات کے زمانے میں اسرائیل سے امن سمجھوتے کے بعد سے سیاسی جبر کے بارے میں اکا دکا سوالات اٹھنے لگے اور عوامی توقعات مرحلہ وار بڑھتی چلی گئیں۔مگر تب تک فوج ، نوکر شاہی ، طفیلی عدلیہ ، جی حضور سیاسی و سرمایہ اشرافیہ سمیت ایک ایسا طبقہ جڑیں پھیلا چکا تھا جو کثیر جماعتی کھلے نظام کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتا۔چنانچہ حسنی مبارک کی معزولی کے باوجود اقتدار بالادست طبقات سے عوام تک منتقل ہی نہیں ہو سکا۔درحقیقت انقلاب پیدا ہوتے ہی مر گیا یا مار دیا گیا اور مصر حسنی مبارک کی گود سے فوج نے براہِ راست اچک لیا۔

اس معاملے میں اسی برس سے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنے والی اخوان المسلمین کی عجلت بھی پارٹی کو لے ڈوبی۔اخوان کو سوچنا چاہیے تھا کہ محمد مرسی صرف اکیاون اعشاریہ چار فیصد کی اکثریت سے صدر بنے تھے۔چنانچہ انھیں عشروں میں پیوست آمرانہ نظام و روایات کو مرحلہ وار پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک وسیع ترسیاسی حمایت کے حصول کی حکمتِ عملی اپنانا چاہیے تھی۔ جیسا کہ ترکی میں ہوا۔لیکن مرسی نے بھی ’’جو جیتا وہی سکندر ‘‘ کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔لہذا پرانا عیار نظام بے صبری جنتا کے کندھے استعمال کرتے ہوئے صرف دس ماہ کے اندر ہی نوزائیدہ جمہوری تجربہ لپیٹنے میں کامیاب ہوگیا اور آیندہ کے لیے جمہوری قوتوں کے راستے مسدود کرنے کے لیے ریاستی طاقت کے پہلے سے زیادہ ننگے استعمال کا راستہ اپنا لیا گیا۔

رہی بات امریکا اور مغرب کی تو انھیں مشرقِ وسطی کے قیمتی وسائل اور جغرافیے کے تناظر میں تاریخی طور پر فروغِ جمہوریت سے زیادہ ایسی حکومتوں کی ضرورت رہی ہے جو ’’اسٹیٹس کو’’برقرار رکھ سکیں۔ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں حسنی مبارک کے زوال کو مغرب نے بادلِ نخواستہ قبول تو کر لیا لیکن جیسے ہی پرانے نظام نے تبدیلی پر وار کیا تو مغرب نے بھی رسمی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا۔امریکا نے مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد سالانہ فوجی امداد ( ایک اعشاریہ تین بلین ) اور اسلحے کی ترسیل بحالیِ جمہوریت سے مشروط کر کے روک دی تھی۔

مگر یہ امداد دو ماہ پہلے خاموشی سے بحال ہوگئی۔مغرب مصر میں بطورِ خاص اس لیے بھی کنٹرولڈ جمہوریت چاہتا ہے کیونکہ مصر آبادی ، جغرافئے ، فوجی اور علاقائی اثر و نفوز کے اعتبار سے سب سے اہم عرب ملک اور اسرائیل کا کلیدی علاقائی دوست ہے۔جب کہ اخوان جیسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے حماس جیسے گروہوں کی نظریاتی حمایتی اور پولیٹیکل اسلام کی داعی ہیں۔چنانچہ ایسی تنظیموں کی سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں سے کبھی نہیں بن سکتی۔اب تک سسی حکومت کو سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت سے بیس ارب ڈالر کی انعامی رقم مل چکی ہے۔اس کے عوض سسی حکومت یمن کے بحران میں دل و جان سے سعودیوں کے ساتھ ہے اور بڑے بڑے ٹھیکوں میں خلیجی کمپنیوں کو بھی اچھا خاصا حصہ مل رہا ہے۔

مثلاً سسی حکومت نے کم آمدنی والے طبقات کے لیے اگلے پانچ برس میں ایک ملین مکانات کی تعمیر کا چالیس ارب ڈالر مالیت کا ٹھیکہ ایک اماراتی کمپنی عرب ٹیک کو دے دیا ہے۔ نہرِ سویز کے پندرہ ارب ڈالر کے توسیعی منصوبہ پر مغربی اور چینی کمپنیوں کی نگاہ ہے۔قاہرہ کے قریب سن دو ہزار بائیس تک ایک نیا دارالحکومت قائم کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان ہوچکا ہے جس پر پینتالیس ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ ہے۔ اس شہر میں پانچ ملین لوگوں کی گنجائش ہوگی اور فوجی و غیرملکی تعمیراتی کمپنیوں کے کنسورشیم کو ایک اور منفعت بخش مصروفیت مل جائے گی۔اب اتنے بڑے کیک کو کچی پکی جمہوریت کے حوالے کیسے کیا جاسکتا ہے۔

سسی حکومت کا اصرار ہے کہ اقتصادی ترقی جمہوریت کی کنجی ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور استحکام صرف فوج دے سکتی ہے کیونکہ وہی سب سے منظم اور تجربہ کار ادارہ ہے۔لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ استحکام کے نام پر جس طرح مصر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے اس میں اقتصادی ثمرات بھی پہلے کی طرح اوپر ہی بٹ بٹا جائیں گے۔

حسنی مبارک کے دور میں چالیس فیصد مصریوں کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے کم تھی۔آج پچاس فیصد آبادی اسی بریکٹ میں پہنچ چکی ہے۔ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی میں سے نصف کی عمر سولہ سے اٹھائیس برس کے درمیان ہے۔پھر بھی سسی حکومت کو ایسی کوئی پریشانی نہیں کہ وہ ڈنڈا بردار استحکام نافذ کرتے کرتے جلد ہی عدم استحکام کے ایسے بارودی دوراہے تک پہنچ سکتی ہے جہاں سے ایک راستہ تیونس کی طرف جاتا ہے جہاں پرانی اشرافیہ نے بدلے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پرامن انتقالِ اقتدار کا اصول مان لیا۔اور دوسرا راستہ شام کی طرف نکلتا ہے جہاں بشار الاسد کی ہٹ دھرمی کے سبب ہر طرح کے خوں آشام بھوت زمین سے نکل کر کھلے پھر رہے ہیں۔ کل کلاں مصری ریاست بھی تتر بتر ہوتی ہے تو پھر اس کی دھمک دور دور تک شرطیہ انہدام کاری کرے گی۔پڑوسی ملک لیبیا میں القاعدہ اور داعش کی بلی ویسے بھی چھینکا ٹوٹنے کی تاک میں ہے۔مگر وہ حکمران ہی کیا جو دوسروں کی مثالوں سے بروقت سبق لے لے۔

The post اور جب مصری چھینکا ٹوٹے گا appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک مارشل لاء کالا باغ کے لیے بھی

$
0
0

جناب شمس الملک ایک غیر معمولی پاکستانی ہیں۔ ان کے رگ و پے میں پاکستان کا خون چلتا ہے اور وہ اسی خون پر جیتے اور زندہ ہیں۔ وہ واپڈا کے چیئرمین رہے۔ خالص پٹھان اور صوبہ پختون خوا کی اولاد۔ وہ کالا باغ ڈیم کی حد تک صرف پاکستانی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ایجنٹ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ پاکستان کو تھر بنانے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔

جناب شمس الملک جس جگہ کے رہنے والے ہیں اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو ان کا گھر بار پانی میں ڈوب جائے گا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ ایک عرصہ ہو گیا کہ انھوں نے خان عبدالولی خان کے ساتھ ملاقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ میں جب ان کے سامنے گیا تو انھوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے کہا تم پٹھان ہو کر کالا باغ کی حمایت کرتے ہو۔

میں نے عرض کیا کہ اس لیے کہ یہ ڈیم پاکستان کی زندگی ہے اور اس میں ہمارا آپ کا صوبہ بھی شامل ہے۔ تب وہ ابھی واپڈا کے چیئرمین اور حکومت کے ملازم تھے لیکن کالا باغ کے اس قدر قائل تھے کہ وہ اس کے خلاف خان عبدالولی خان کی بھی نہیں سنتے تھے اور اب جب وہ ملازمت کو خیر باد کہہ چکے ہیں اس ڈیم کی مہم میں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک شادی میں میری ان سے ملاقات ہوئی لیکن میں بیماری کی حالت میں تھا اور یہ ملاقات نہ ہونے کے برابر رہی۔ ان کی زیارت اور ان کی مہارت سے فیض یاب ہونا ایک سعادت ہے۔

وہ پانی کی سائنس کے ایک برگزیدہ ماہر ہیں۔ ہماری حکومتیں چونکہ پاکستان کی نہیں اپنے محدود مفادات کی تابع حکومتیں ہوتی ہیں وہ ایسے قومی اثاثوں کی دیکھ بھال اور ان سے استفادے کی کوشش نہیں کرتیں جو ان کے نہیں ملک اور قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ وہ شمس الملک ہیں جو کالا باغ کے مخالفوں کو بھارت کا براہ راست ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ وہ ان ایجنٹوں کے ہجوم میں مردانہ وار زندگی گزارتے ہیں۔

ان کی یاد ایک سیمینار سے تازہ ہوئی جو کالا باغ پر گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالا باغی نے کہا کہ قیام پاکستان کی طرح ہمیں اس کے لیے بھی ایک بار پھر متحد ہو کر نکلنا ہو گا۔ محترم المقام جناب شمس الملک نے بتایا کہ اگر ڈیم بن جاتا تو عوام کو بجلی دو روپے فی یونٹ ملنی تھی جو آج 18 روپے ہے۔ سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ‘ پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ، خیبرپختونخوا کو 20 لاکھ ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا تھا۔ کالا باغ کا منصوبہ اب بھی چھ سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔

جناب شمس الملک جیسے آبی ماہر اور دل و دماغ سے پاکستانی کے پاس اس ڈیم اور تعمیر ملک کے دوسرے کئی آبی منصوبے موجود ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور شکر ہے کہ خان صاحب ان تمام لوگوں کو جو ان منصوبوں کے خلاف ہیں بھارت کا آدمی سمجھتے ہیں۔ مجھے اس بھارتی صحافی کی بات اب پھر یاد آرہی ہے جو اس نے دلی میں کہی تھی کہ اب پاکستان کا ذکر نہ کریں اور وقت ضایع نہ کریں۔

اس سینئر صحافی کے لہجے میں جو حقارت تھی اس کی بے پناہ تلخی اب تک میرے رگ و پے میں ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے لیڈر بھارت کی سازشوں سے باخبر ہیں یا نہیں ان سے ہراساں اور خوفزدہ نہیں ہیں جب کہ دن رات یہ سب دیکھ رہے ہیں بلکہ بے پناہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نئے حکمران بھارت کے ساتھ دوستی کو ہی اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور اس کے اعلان میں ذرا سی شرم بھی نہیں کرتے۔ اگر قائداعظم زندہ ہو سکتے تو وہ ہم پاکستانیوں کے نام ایک پیغام ضرور جاری کرتے کہ بھائیوں میں آپ کو دھوکا دے کر شرمندہ ہوں کیونکہ آپ پاکستان کے مخالفوں کے ساتھ دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں جب کہ میں نے ان سے دشمنی کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا۔

کالا باغ کی بات ہو رہی تھی اور اس بارے میں ایک تعجب انگیز پریس بریفنگ میرے ذہن میں کلبلاتی رہتی ہے جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سندھ میں وہاں کے مقامی صحافیوں کے سامنے کی تھی۔ جنرل صاحب کی یہ بریفنگ پوری کی پوری سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئی۔

اس میں جنرل صاحب نے کالا باغ کے منصوبے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا تھا اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے دیا تھا یہ اتنی مکمل اور مثبت تقریر تھی کہ اس کے بعد کالا باغ کے خلاف کوئی بات ذہن میں باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ جب صدر صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو انھوں نے سوالات کی دعوت دی۔ حاضرین ڈیم کے مخالف تھے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں مخالفانہ سوالات کیے۔ جنرل مشرف نے ان کے بلاشبہ شافی جواب دیے اور لاجواب کر دیا۔ جب سوالات بند ہو گئے تو جنرل نے اصرار کیا کہ مزید کوئی سوال، اس پر ایک صحافی نے اٹھ کر کہا اس کے باوجود کالا باغ نا منظور۔ اس جواب پر یہ تقریب ختم کر دی گئی۔

اس پوری تقریب کی ریکارڈنگ ٹی وی کے پاس یقیناً موجود ہو گی۔ وہ اس نادر دستاویز کو سنبھال کر رکھیں بلکہ فوج کا کوئی ریکارڈ رکھنے کا ادارہ ہو تو اس کے حوالے کردیں شاید کبھی کسی پاکستانی حکومت کا ایمان اور غیرت جاگ اٹھے اور وہ اس زندگی بخش منصوبے کے بارے میں قوم کو ایک مقتدر اور پرمغز گفتگو سے باخبر کر سکے۔

کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہو یا کوئی اور قومی منصوبہ کیا ہم ایسے پاکستانی منصوبوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے ہاں بات بات پر مارشل لاء لگتے رہے ہیں جن میں جنرل مشرف والا بھی شامل ہے تو کیا کوئی مارشل لاء قومی مسائل کو زندہ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے نافذ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم سقوط ڈھاکا کے لیے مارشل لاء لگا سکتے ہیں تو استحکام پاکستان کے لیے کیوں نہیں۔

The post ایک مارشل لاء کالا باغ کے لیے بھی appeared first on ایکسپریس اردو.

ماں

$
0
0

یوں تو جب بچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دنیا میں آتا ہے، اس کی خدمت کا سلسلہ ماں کی طرف سے شروع ہو جاتا ہے یقیناً یہ ایک عظیم خدمت ہے جس کا اولاد کی جانب سے کوئی بدل ہو ہی نہیں سکتا لیکن ماں کی جانب سے اولاد کی تربیت کی جو خدمت ہے وہ بھی لاثانی ہوتی ہے۔ دنیا کی عظیم شخصیات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کو اس بلند مقام تک پہنچانے میں ماں کا کردار کلیدی رہا ہے۔

ماں کا وقت چونکہ والد کے مقابلے میں بچوں کے ساتھ  زیادہ گزرتا ہے لہٰذا کوئی بھی ماں اپنے بچوں کی تربیت میں والد سے بڑھ کر اہم کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ولیم شیکسپیئر کہتا ہے کہ بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہوتا ہے۔ امریکا کا مشہور شاعر ایمرسن اپنی نظموں میں پیغام دیتا ہے کہ ماں کا پیار ایسا ہے جسے نہ تو کسی سے سیکھ کر حاصل کیا جا سکتا ہے نہ ہی اسے الفاظ کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ ماں کا پیار ہی ہوتا ہے جو بچے کو بگاڑ دے تو سلطانہ ڈاکو کا نام تاریخ میں رقم ہو جاتا ہے اور درست طور پر ہو تو پھر مولانا محمدعلی جوہر جیسے کردار تخلیق ہوتے ہیں کہ جس کی گواہی شاعر بھی اس طرح دیتے ہیں:

بولیں اماں محمدعلی کی

جان بیٹا خلاف پہ دے دو

اچھی سیرت اور ایمان و سچائی کے جوہر بھی والدہ پیدا کر سکتی ہے جیسا کہ اقبال نے کہا کہ:

سیرت فرزند ہا از امہات

جوہر صدق و صفا از امہات

شہید حکیم محمد سعید کی تربیت میں بھی ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا، خود حکیم محمد سعید نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اس مقام تک پہنچانے میں ان کی والدہ کا کردار نہایت اہم تھا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے بچوں کی تربیت کے علاوہ ہمدرد دوا خانے کے لیے بھی ایک فعال کردار ادا کیا تھا جس کا اعتراف خواجہ حسن نظامی بھی اپنی تحریروں میں کر چکے ہیں۔کسی بھی ماں کے پاس گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی صبح سے رات تک خاصا وقت ہوتا ہے جو وہ اپنے بچے کے ساتھ گزار سکتی ہے اور بچے کے ساتھ یہ گزرا ہوا وقت اسے ایک اچھی صحبت بھی فراہم کرتا ہے اور ایک اچھی صحبت سے ہی بچے کا کردار تخلیق پاتا ہے۔

اگر میرے قارئین میری اس بات سے اتفاق کر رہے ہیں تو راقم کی گزارش ہے کہ آئیے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ آج ایک بچے اور ماں کی صحبت کس قدر برقرار ہے اور وہ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا واقعی آج کے بچے کو اپنی ماں کی صحبت مل رہی ہے؟المیہ یہ ہے کہ آج اس عہد میں خاص کر شہری زندگی میں جو انتہائی کمرشلائز ہو چکی ہے جہاں معیار زندگی بڑھانے کے لیے کوئی بھی باپ صبح سے شام تک صرف ملازمت نہیں کرتا بلکہ اس کے بعد بھی وہ اوور ٹائم یا پھر پارٹ ٹائم ملازمت کی صورت میں رات تک محنت کرتا ہے اور تھک ہار کر اس وقت گھر پہنچتا ہے کہ جب اس کے بچے بھی تھک ہار کر سونے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں چنانچہ خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جہاں والد رات کو آ کر محض کھانا کھا کر تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ کر پھر سونے کی تیاری کرتا ہے کیونکہ علی الصبح اسے پھر ملازمت پر جانا ہوتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو اب شہری زندگی میں اکثر گھرانوں میں باپ کے پاس بچوں کے ساتھ  گزارنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ جب باپ کے پاس وقت ہی نہ ہو تو پھر بھلا وہ بچوں کی تربیت کب اور کیسے کرے گا؟اس ساری صورتحال میں اب ماں کا کردار ماضی کے مقابلے میں اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے یوں اب ایک ماں کو بچوں کی صرف دیکھ بھال اور پرورش ہی نہیں کرنی بلکہ ان کی بہترین تربیت بھی کرنی ہے۔ اب یہاں چند ایک سوال انتہائی اہم ہیں کہ جن پہ غور و خوض کرنے کی اشد ضرورت ہے مثلاً کیا آج کی ماں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کرنے میں کامیاب ہے؟ کہیں وہ بھی کوئی ملازمت کرنے میں مصروف تو نہیں؟ اگر کوئی ماں بھی ملازمت کر رہی ہے تو پھر بچوں کو کون وقت دے رہا ہے۔

وہ اپنا وقت کس کے ساتھ  گزار رہے ہیں اور ان کی صحبت کہاں، کس کے ساتھ  ہے؟ راقم کے ایک قریبی عزیز دوست زیادہ سے زیادہ کمانے کے حصول میں کینیڈا چلے گئے پھر بیوی بچوں کو بھی بلا لیا مگر کینیڈا میں اپنے اخراجات پورے کرنے اور مزید کمانے کی غرض سے میاں بیوی دونوں نے ملازمت کر لی۔ بچے گھر پر اکیلے ہی رہنے لگے اسکول بھی اکیلے ہی جاتے، البتہ رات کو تمام گھر والے اکٹھے ضرور ہوتے تھے۔

اس عمل میں بچوں کی وہ تربیت ہوئی کہ اے لیول کی سطح پر ہی ان کے بچے اور بچی نے اپنے دوستوں سے شادی رچا لی، بیوی نے شوہر پر غفلت کا الزام لگایا اور شوہر نے بیوی پر۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شوہر تنگ آ کر تنہا ہی پاکستان آ گیا اور یہاں  ملازمت تلاش کرنے لگا۔یہاں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد اس غلطی کی شدت کا اظہار کرنا تھا کہ جب ماں بھی بچوں کو وقت نہ دے سکے تو پھر کیا کچھ نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن کہتا ہے کہ ’’وہ شخص غریب نہیں اگر اس کی خدا ترس ماں زندہ ہے۔‘‘

آئیے غور کریں بحیثیت ماں بچوں کو کس قدر وقت دی رہی ہے؟ اگر کوئی باپ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے دہری ملازمت کر رہا ہے تو کیا باپ کے وقت اور تربیت کی کمی والدہ پوری کر رہی ہے؟ اگر وہ صرف گھریلو ذمے داری ہی ادا کر رہی ہے یعنی ماں ملازمت نہیں کر رہی ہے تو تب بھی وہ اپنے بچوں کی تربیت اور اچھی صحبت کے لیے کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا وہ اپنی زندگی ’’سوشل‘‘ انداز میں تو بسر نہیں کر رہی کہ بچے اس کی مصروفیت سے وقت کی کمی کا شکار ہو رہے ہوں؟ کیا وہ اپنا وقت ٹی وی چینلز کے ڈراموں میں زیادہ تر گزار رہی ہے؟ کیا اس کی نظر اپنے بچوں پہ ہے کہ وہ اپنا وقت گھر کے بجائے کہیں اور گزار رہے ہوں؟ کیا وہ اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور نیٹ دے کر بے فکر تو نہیں ہو گئی کہ بچے گھر کے اندر ہی وقت گزار رہے ہیں جب کہ یہ عمل ان کے کردار کو بھی مسخ کر رہا ہو؟ آئیے غور کیجیے۔

The post ماں appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو

$
0
0

امریکی مصنف نوم چومسکی اپنی کتاب Hegemony or Survival: America’s quest for global dominance  میں لکھتا ہے کہ ’’میں آج دنیا میں دو طاقتوں کی بات کرتا ہوں، ایک امریکا جو جارحانہ طریقے سے دنیا پر اپنی حکمرانی مسلط کرنا چاہتا ہے اور دوسری عالمی رائے عامہ ہے۔‘‘

دو صدیوں سے بولیورکے فلسفے Bolivar Doctrine  اور مونرو کے فلسفے Moonroe  کے مابین تصادم ہے، مونرو کا ماننا ہے کہ تمام دوسری جمہوریاؤں پر امریکا کی بالادستی ہونی چاہیے اور Simon Bolivar  کا فلسفہ  ہے کہ ’’توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عظیم امریکی جمہوریت کا تصور ہونا چاہیے۔‘‘

امریکی صدر جارج بش نے  مونرو کے جارہانہ فلسفے کی ترویج کی۔ ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔‘‘اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے ایرانی صدر احمدی نژاد نے امریکا کا دورہ کیا تو اس موقعے پر واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’مجھے امید تھی کہ صدر بش اپنا طرز عمل اور رویہ بدلیں گے، اس سے ہم خوش نہیں ہوئے، بعض امریکی سیاستدانوں کا رویہ اور سوچ  چیزوں کو برباد کر رہی ہے۔‘‘

یہودی مذہبی پیشوا یسروئیل ویس Yisroel Weiss  کا تعلق یہود کے اس گھرانے سے ہے جو ’’صہیونت‘‘ کے خلاف مصروف ’جہد و پیکار‘ ہے۔ یاسنے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’صہیونی ڈھانچے کے قیام نے واضح طور پر اس شیطانی فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے جس نے دنیا کے نیک نیت افراد کو دھوکے میں ڈالے رکھا ہے جو اپنے آپ کو ’’یہودی مملکت‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے نیز اسرائیل نے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے خواہ وہ یہودی ہوں یا دیگر۔‘‘

ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرق وسطی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، خارجہ امور پر امریکی حکومت مشیر ہیں جب کہ امریکا کے معروف ادارے ’کونسل آن فارن افیئر‘ کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق ’’پاکستان میں سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب آپ اس نئے وطن کے لیے سیکولر شناخت کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن ایسا ہونے سے قبل1949ء میں قراردادِ مقاصد آ گئی کہ جس نے واضح کر دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور جب آپ نے یہ کہہ دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس ملک میں سیاست اسلام کے مطابق ہو گی اور یہیں سے یہ مسئلہ سیاسی ہو جاتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے، کس کی شریعت نافذ کی جائے، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی یا جعفری؟ پانچ مکاتب فکر موجود ہیں۔

اس اہم معاملے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب جنرل ضیا الحق نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، لہذا مسلمان اپنی زکوٰۃ ریاست کو دیا کریں گے کیونکہ جنرل ضیا الحق کے مطابق تاریخ میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی ریاست کو زکوۃ دیتے آئے ہیں، جس کی مثال عباسی اور اموی خلفاء کی دی جاتی رہی ہے، لیکن  پاکستان میں رہنے والی شیعہ اقلیت نے اس پر شدید اعتراض اٹھایا کہ پاکستان کو مسلم سنی اسٹیٹ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان اپنی نظریاتی اساس کی بنیاد پر ہمیشہ حساس رہا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر جب حاصل کیا گیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کے پہلے وزیر قانون تحریک پاکستان کے ہندو رہنما بنے لیکن ان پر اتنی شدت سے اعتراض نہیں ہوا، جتنا 1953ء میں پاکستان میں قادیانی مسئلے پر کھڑا ہوا تھا، جب ایک قادیانی کو وزیر خارجہ نامزد کیا گیا تو اس پر مخصوص مکتبہ فکر کے علما نے اعتراض کیا۔

حالانکہ اس وزیر نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا لیکن مخصوص مکتبہ فکر کا اصرار تھا کہ جب تک سنی العقیدہ نہ ہو اس وقت تک ایک اسلامی ریاست میں اہم عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور اس وقت تک جاری رہی جب تک آئین پاکستان میں باقاعدہ اس قانون کو منظور نہیں کر لیا گیا۔

دلچسپ امر ہے کہ مخصوص مکتبہ فکر کے بڑے بڑے جید علماء تحریک پاکستان کے مخالف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اس کے شہری بن گئے بلکہ رہنما بھی قرار پائے، چونکہ سنی العقیدہ تھے اس لیے پاکستان کو سنی اسٹیٹ تصور کرا لیا گیا۔ حالانکہ قائد اعظم کی کسی بھی ایک تقریر کے کسی بھی اقتباس میں کوئی بھی یہ نہیں ثابت کر سکتا کہ پاکستان کسی خاص مسلک یا عقیدے کے تحت بنایا جائے گا۔ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کا آئین قرآن کریم اور اسلام ملت واحدہ کے طور پر افکار اقبال کے مطابق رکھا۔

پاکستان آج بھی صوبائیت، علاقائیت، لسانی، فرقہ واریت ’اَدھر ہم اُدھر تم‘ والے فارمولے پر گامزن ہے اور اس بات کے قوی امکانات اور عالمی رائے عامہ بھی یہی ہے کہ  پاکستانیوں کی یہ روش انتہائی تباہ کن ہے۔ پاکستان نے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے ایٹمی طاقت حاصل کی، ہماری فوج دنیا کی پانچ بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی نمبر ون ایجنسی کے درجے پر ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تمام تر وسائل سے مالا مال اس ملک میں ایک عالمی سازش کے تحت سعودی عرب اور ایران نے پاکستان میں اپنی پہلی ’’پراکسی‘‘ لڑائی 1983ء میں لڑی تھی، سعودی عرب فاتح رہا تھا پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں دونوں ممالک کی سرمایہ کاری نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

کوئی دو رائے نہیں فروعی و خود ساختہ نظریات کے تحت بعض مدارس اور تنظیموں کے قیام اور نظریات کو فروغ دینے کے لیے وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے قبل عراق، لبنان اور شام بھگت چکے ہیں۔ ایران اس وقت عرب ممالک کے چار دارالحکومتوں پر اپنی سیاسی حکمت عملی اور عسکری تعاون کے نام پر ایک نئی طاقت بنا ہوا ہے۔ چین ایک نئی عسکری قوت اور معاشی طور غیر مستحکم ممالک میں سرمایہ کاری میں مصروف ہے، بھارت استعماری قوت بننے کے لیے چین کے راستے میں حائل کر دیا گیا ہے اور آزاد ہوتی افغان حکومت پر معاشی و سیاسی طور پر قابض ہونا چاہتا ہے ۔

پاکستان کئی عشروں کی جنگوں کے بعد افغانستان کو  بطور حلوہ کسی دوسرے ملک کو پلیٹ میں رکھ کر دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتا۔ مملکت کی تینوں سرحدوں پر دشمن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، اندرونی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کی عسکری قوت کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ ملکی سیاسی قیادت میں فہم و بصیرت کا فقدان بتدریج بڑھتا جا رہا ہے، قومی سیاسی جماعتوں نے علاقائی سیاست کو اپنا لیا ہے۔ قومی سیاست کے بجائے، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ سیاست کو  فروغ دیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف عناصر نے اپنی مضبوطی کے لیے ایسے ممالک کی پشت پناہی حاصل کر لی ہے جو براہ راست مداخلت کر کے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ جس طرح امریکا نے ایک پیغام دیا تھا کہ ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔‘‘ اسی طرح یہی منطق ہر ملک نے اپنانی شروع کر دی ہے۔ امریکا اپنا طرز عمل تبدیل کر رہا ہے لیکن اب امریکی طرز عمل دوسرے ممالک اپنا رہے ہیں اور ان ممالک میں سیاسی قوت کی حامل جماعتیں اسی منطق کو اپنا رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان نے بھی یہی روش اختیار کر لی ہے کہ ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔‘‘  امریکا، اسرائیل، بھارت کے چہرے بدل بدل کر سامنے آ رہے ہیں کبھی کسی صورت میں کبھی کسی صورت میں۔ پالیسی یہی ہے کہ’’اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو۔‘‘

The post ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو appeared first on ایکسپریس اردو.

رادھا کب ناچے گی؟

$
0
0

جھوٹ ان کی روح کے اندر بس چکا ہے اور دھوکا دینا ان کا کاروبار ہے۔ تعلیم سے لے کر سیاست یہاں بس ایک دھندہ ہے۔ وہ بھی کالا دھندہ۔ نئے نئے کپڑے بدل کر یہ لوگ ہمیشہ فریب دیتے ہیں۔ مگر ان کے جسموں سے بدبو اٹھتی رہتی ہے۔ مختلف بولیاں بولنے والے ان وحشیوں کے کالے دل آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں سب ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے اُلو سیدھے کرنے کے ماہر ہیں۔

بظاہر ان جیسا پارسا اور عوام کے درد میں مر جانے والا کوئی نہیں ہو گا لیکن پیچھے سے یہ قاتل کو چھری دے رہے ہونگے۔ سب کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ یہ سب لوگ لاکھ اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں مگر یہاں سب پر وہ داغ لگے ہوئے ہیں جو نسلوں تک یاد رکھے جائیں گے۔ کسی ایک دھوکے اور فراڈ کی کہانی کو اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو سب ایک دوسرے کے ساتھ  کھڑے ہوئے ملیں گے۔ ایک چھوٹے سے ٹھیکے سے لے کر ایک حلقے کی سیٹ ہو یا پھر ایک ڈگری سے لے کر دم توڑتے ہوئے مریض۔ سب جگہ آپ کو بس چند چہرے ہی نظر آئیں گے جو اس دھرتی کے ہر پھول کو کچلنے میں مصروف ہیں۔

بہت دور کی کہانی نہیں سناتا بلکہ 20 سال پرانا قصہ ہے آپ کو نام اور جگہ بدل کر یوں لگے گا جیسے ہمارے یہاں بھی سب کا گٹھ جوڑ ایسا ہی ہے۔ جاپان دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوٹ گیا تھا مگر جنگ کے اختتام پر وہ ایک نیا عزم لے کر اٹھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اور دس سال بعد وہاں عوامی سطح پر لبرل ڈیموکریٹک پارٹی LDP نے دھوم مچا دی۔ اور 1955ء میں اقتدار حاصل کر لیا جس نے جاپان کو دوبارہ مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ حالیہ جاپان کی تاریخ میں اُس نے مسلسل 38 سال حکومت کی۔ اُس کے زوال کی کہانی ہمارے لیے ایک سبق ہے۔

جیسے جیسے  LDP کا اقتدار آگے بڑھ رہا تھا وہ سمجھ رہی تھی کہ اب اُسے کوئی  شکست نہیں دے سکتا۔ ایسے میں لالچ اور ہوس نے اس کے لیڈروں کو کرپشن کے دلدل میں دھکیلنا شروع کر دیا۔ انھوں نے بعد میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مافیاز کی مدد لی تو دوسری طرف مال بنانے کیلیے بڑے بڑے ٹھیکے بھی بیچے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں  ہے۔ وہاں بھی مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اور آج تک وہاں بھی ہماری طرح کے لوگ نام بدل کر حکومت میں رہے۔

جاپان میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے 1980ء کی دہائی میں ایک مشہور کمپنی تھی جس کا نام تھا  Sagwa Kyubin۔ یہ کمپنی مختلف اداروں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتی تھی۔ اپنے مدمقابل لوگوں کو شکست دینے کے بعد یہ کمپنی ٹوکیو میں ہر جگہ پھیل چکی تھی اور کہا جاتا ہے کہ 1980ء سے کر 1989ء تک یعنی بس نو سال میں اس کمپنی کا منافع چار سو گنا بڑھ چکا تھا۔ جس کی اہم وجہ طاقتور لوگوں کی پشت پناہی تھیِِ۔

اور ہر جگہ اُسی کے چرچے تھے۔ جیسے آج کل کچھ لوگ دن دگنی ترقیاں کر رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سے زیادہ پارسا کوئی بھی نہیں ہے۔ جب پیسے کی بارش ہونے لگی تو کمپنی کو خیال آیا کہ اب اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہیے اور اسے ٹوکیو سے نکل کر پورے ملک میں پھیلا دینا چاہیے۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جاپان میں ٹرانسپورٹ کا نظام ایک منظم و شفاف انداز سے چلتا تھا اور وہاں اس بات کی اجازت قانون میں نہیں تھی کہ کمپنی کو اس طرح سے پورے ملک میں کام کرنے دیا جا سکے ۔کمپنی یہ چاہتی تھی کہ اسمبلی قانون میں رد و بدل کرے۔ جس کی سفارش محکمہ ٹرانسپورٹ سے جانی تھی اور جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے کہ جب کسی کو نوازنا ہو اور کام دینا ہو تو  پہلے اس کی ضرورت بتائی جاتی ہے۔ اجازت کے ساتھ ساتھ کمپنی یہ بھی چاہتی تھی کہ قانون ایسا بنایا جائے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو اور کوئی مدمقابل بھی نہ آ سکے۔ اس لیے  اب انھیں دو جگہوں پر کام کرنا تھا اول محکمہ ٹرانسپورٹ میں اور دوسرا جاپان کی اسمبلی diet میں۔

حکومت  LDP کی تھی اور اس میں ایک خاص گروپ تھا جیسے ٹرانسپورٹ قبیلہ کہا جاتا تھا۔ پاکستان میں بھی اس طرح کی مافیا ہے کوئی ٹرانسپورٹ کا، کوئی دوا کا تو کوئی تعلیم کا۔ کمپنی نے سب سے پہلے انھیں تحفے بھیجے اور پھر عالیشان پارٹیوں کا اہتمام کیا گیا۔ میں نہیں کہتا لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جس محکمے سے ٹھیکہ لینا ہو یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

جس کے بعد حکومت کے اہم رہنماؤں کو پارٹی فنڈ کی مد میں خطیر رقم دی گئی۔ یہ ایک حربہ ہے جس کی باز گشت آج کل انڈیا میں بھی ہے کہ مودی کو کس کس نے پیسا دیا یہ بات بعد میں سامنے آئی کہ کمپنی نے اسمبلی کے اراکین، محکمہ ٹرانسپورٹ کے قبیلے اور مقامی سیاسی رہنماؤں کو ڈھائی ارب ین (جاپانی کرنسی) دیے۔ لیکن 1992ء میں چھپنے والی ایک تحقیقی خبر کے مطابق یہ رقم تقریبا 70 ارب ین تھی۔

اس سارے معاملے میں حکومتی جماعتLDP کے ایک اہم رہنما کا کردار بہت زیادہ زیر بحث رہا اور وہ تھا  shin Kenmaru۔ جنھیں اُس زمانے میں جاپان کا کنگ میکر کہا جاتا تھا وہ جسے چاہتے وزیر اعظم بناتے اور جسے چاہتے تخت سے اتار دیتے۔ اور اس کی وجہ آسان تھی کہ پیسہ کیسے لینا ہے اور اس کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ کمپنی کے اہم عہدیدار کے بیان کے مطابق اُس وقت کے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے  Shin نے کئی کروڑ ڈالر لیے۔ اس وقت کی ایک دائیں بازو کی جماعت نے ٹرک پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر LDP کے خلاف  مہم شروع کی تھی۔

جس سے عوامی رائے عامہ تبدیل ہو رہی تھی۔ دشمن طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔ اُس جماعت کے اہم رہنماؤں کو کمپنی کے ذریعے Shin نے بھاری رقم کی پیشکش کی جس کے انکار کے بعد کمپنی کے ایک عہدیدار سے رابطہ کیا گیا جس کے جاپان کے ایک بہت بڑے گینگ سے تعلقات تھے۔ جاپانی گینگ بہت زیادہ مضبوط ہیں اور ان کی بڑی تعداد ہے۔ یہ گینگ سیاسی لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور سیاسی لوگ ان کی۔ کچھ سال پہلے دو وزیروں کو اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کہ ان کے گینگ سے تعلقات ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں مقامی بدمعاشوں کو پالا جاتا ہے اسی طرح وہاں ان کی سرپرستی رہتی ہے۔ اُس گینگ نے ڈرا نے اور دھمکانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ یہ تمام باتیں عوام کے سامنے آ گئیں۔

ایک شخص نے watanbe سے چار ارب ڈالر لیے۔ جاپانی میڈیا کے مطابق یہ شخص نہ صرف گینگ کے پیسے کو کاروبار میں استعمال کرتا تھا بلکہ گینگ، سیاست دانوں اور کاروباری لوگوں کے درمیان بھی رابطہ کار تھا۔اور آپ طاقت ور لوگوں کا نظام دیکھیے کہ یہ سب جب ثابت ہوا تو وہ  بس 1600 ڈالر جرمانہ کی مد میں دے کر تمام سوالات سے آزاد ہو گئے۔ تاہم  جب اُن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو 50 ارب ڈالر کے نوٹ ملے۔ سونے کے ا نبار الگ تھے۔ مگر پھر بھی رہائی ہو گئی۔

ان تمام الزامات کے بعد LDP 1993  ء کا الیکشن ہار گئی،  قانون سازی کی گئی۔ سب کو گرفتار کرنے کی باتیں کی گئیں مگر پھر کیا ہوا، کچھ عرصے بعد جاپان میں ایک بار پھر LDP کی حکومت بن گئی۔ کہنے کی بات یہ کہ سب کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ کھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ جیسے سندھ میں وزارت داخلہ ملی ہے ویسے ہی پنجاب میں ملنے والی ہے۔ آپ مجھے بتا دیجیے کہ آج تک کب نومن تیل ہوا ہے اور کب رادھا ناچی ہے۔

The post رادھا کب ناچے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان (آخری حصہ)

$
0
0

یہ حقیقت روز روشن کی طرح کائنات کے در و دیوار پر جلوہ فگن ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس کی بنیادوں میں ایمان کی روشنی اور لاالہ الاللہ کا نور شامل ہے۔ اس کی قومی زبان اردو ہے۔

اپنی زبان اور اپنے وطن سے محبت کرنا اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہر شہری کا فرض ہے، لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ گزشتہ سالوں میں اندرونی و بیرونی دشمنوں کی مداخلت اور تخریب کاری نے پاکستان کی بنیاد کو کمزور کرنے اور اس میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن بھلا ہو، ہماری افواج پاکستان اور محب وطن پاکستانیوں کا جو پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شوق شہادت کا جام نوش کر رہے ہیں اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی امن و سکون کے لیے دن رات منصوبے بنا رہے ہیں اور ان پر کام کر رہے ہیں۔

جس طرح وطن پاک کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے والے قدم قدم پر موجود ہیں، بالکل اسی طرح قومی زبان اردو سے نفرت کرنیوالوں کی بھی کمی نہیں ہے، وہ مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ انگریزی زبان بول کر ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا غیر قوموں نے بھی ہماری طرز زندگی کو اپنایا ہے؟ اور انھوں نے اپنے ملک میں اردو میڈیم اسکول کھولا کہیں؟ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے؟ اہل مغرب مسلمانوں کے تہوار اور خاص دن کیوں نہیں مناتے ہیں؟ جب کہ ہمارے ملک میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ جیسے دن بڑے شوق و ذوق سے منائے جاتے ہیں، اسی طرح دوسرے ایام کو بھی بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔

کوتاہ عقل اور عاقبت نااندیش حضرات وقتی فائدے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں، اس کی وجہ وہ فہم و دانش سے محروم ہیں، وہ غور و فکر نہیں کرتے جب کہ اللہ رب العزت غور و فکر، تدبر اور دور اندیشی کو پسند فرماتا ہے یہ کائنات کے رموز و اسرار اس کی قدرت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔

اپنے تشخص اور اپنی شناخت کو بھلانے والوں کا انجام بد سے بدتر ہوتا ہے، نہ خدا ہی ملتا ہے اور نہ وصالِ صنم۔

دنیا کے تمام ممالک کی اپنی قومی زبان ہے، بادشاہ اور رعایا اپنی زبان میں مکمل اعتماد کے ساتھ  گفتگو کرتے ہیں انھیں ذرہ برابر بھی احساس کمتری نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی زبان ہے اسی لیے دیار ِغیر کے حکمران اپنی ہی زبان میں تمام امور انجام دیتے ہیں اور سرکاری دوروں پر ان کی تقاریر و تحاریر کو ترجمہ کر کے سنایا جاتا ہے، لیکن ہمارے حکمران بیرون ملک جا کر انگریزی زبان میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں، بہت سوں کی تو انگریزی بھی درست نہیں ہے لیکن انگریزی بولنے کا خبط اور جنون سوار ہے۔ غیر ملکی سربراہان سے بھی سبق نہیں سیکھتے ہیں۔ قائد اعظم محمدعلی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکا میں ایک جلسے کے دوران فرمایا کہ ’’میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو۔ اردو کے سوا کوئی زبان نہیں، جو کوئی آپ کو گمراہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔‘‘

24  مارچ 1948ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے خطاب میں بھی اردو کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان جو مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو صرف ایک ہی ہو سکتی ہے وہ اردو ہے۔ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔‘‘ اردو وہ زبان ہے جو تحریک پاکستان کے عوامل میں سے ایک ہے، اردو ایک تہذیبی زبان ہے، اس زبان میں اتنی وسعت ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اردو کی ابتدا کے بارے میں بھی محققین و ناقدین کی مختلف آرا ہیں۔

حافظ محمود شیرانی کی رائے کیمطابق اردو کی ابتدا پنجاب میں ہوئی، اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے، دونوں کے اسماء و افعال کے اختتام میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے، پنجابی اور اردو میں ساٹھ فیصد الفاظ ایک جیسے ہیں، مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں ایک ہے یعنی علامت ’’نا‘‘ امر کے آخر میں اضافہ کر دی جاتی ہے، قدیم زمانے میں دونوں زبانوں کا رسم الخط ’’ناں‘‘ تھا، بارہویں صدی کے اختتام کے قریب ’’ن غنہ‘‘ کو ترک کر دیا گیا، بلکہ دیگر الفاظ سے بھی خارج کر دیا گیا۔

سید سلیمان ندوی کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی حکومت بھی قائم رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جو زبان وجود میں آئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی، اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے، آج تک سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہیں، جب کہ دہلی و لکھنو کے شعرا اور اہل علم کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور کی زبان کو کبھی بھی سند تسلیم نہیں کیا۔

دہلی اور لکھنو کے شعرا میں لسانی اختلافات اور عروضی مباحث جاری رہتے تھے چنانچہ انھوں نے دکنی شعرا حتیٰ کہ نظیر اکبر آبادی جیسے شعرا کو درخور اعتنا نہ سمجھا تو وہ پنجاب کی اردو کو کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔جہاں اردو زبان ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی مختلف شہروں اور خطوں کے سفر پر گامزن رہی، وہاں عہد بہ عہد اس کے نام پڑتے چلے گئے اردو کے نام دراصل کئی زمانوں کے استعارے ہیں، ان ناموں کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے۔ ہندی یا ہندوی، ریختہ اور اردو، اردو معلی کے ناموں سے پکاری گئی۔

اردو نے بہت جلد سلطنت اور سلاطین کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی۔ محمد قلی قطب شاہ پہلا صاحب دیوان شاعر کہلایا اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر جنھوں نے ایام اسیری میں لازوال شاعری کی۔پچھلے دنوں اردو کے ایک بہت اچھے شاعر ناظر فاروقی دیارِ غیر سے تشریف لائے تھے ان کی ایک نظم بعنوان ’’اردو‘‘ بے حد مقبول ہوئی انھوں نے اردو کے بتدریج سفر کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ  اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے اور اس کی ناقدری کا نوحہ بھی خوبصورتی کے ساتھ  بیان کیا ہے۔

مضمون کی طوالت کی وجہ سے نمونے کے طور پر ان کے اشعار پیش کرنے سے قاصر ہوں۔یقینا اردو وہ زبان ہے جس میں علم و ادب کا انمول خزانہ پنہاں ہے اور اس زبان میں زمانے سانس لیتے ہیں اور کروٹ بدلتی ہوئی تاریخ نے لفظوں کی مالا پہن لی ہے۔ کون سا علم ہے؟ جو اردو زبان کی زنبیل میں موجود نہیں؟ان حالات میں ڈاکٹر مبین اختر (ماہر نفسیات) اور ان کے دیرینہ رفیق اس میدان کارزار میں برہنہ پا آ گئے ہیں۔ آبلہ پائی کا یہ سفر گزشتہ دس سال سے جاری ہے وہ اردو کو اس کا مقام دلانے کے لیے ہر لمحہ کوشاں ہیں، دیکھا جائے تو وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، مریضوں کا علاج کرتے ہیں اپنے وطن اور زبان سے محبت کرتے ہیں اس کی مثال کراچی نفسیاتی اسپتال اور تحریک نفاذ اردو کا قیام اور باقاعدگی کے ساتھ  کام اور کام ہے۔

(’’تحریک نفاذِ اردو‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا مضمون)

The post تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

متاع ضمیر، احتشام ضمیر…

$
0
0

میں سوچ رہی تھی کہ اس گھر میں پچھلی دفعہ آئی تو میں کیا سوچ رہی تھی… ہاں تب کی بار سوچا تھا کہ میں اس گھر میں پہلی بار خوشی کے موقع پر آئی تھی، اس سے قبل جب بھی آنا ہوا تھا کسی غم کے موقع پر ہی آنا ہوا تھا- گزشتہ برس میرے والد صاحب کی وفات سے اگلا دن تھا جب سنا کہ ان کے جواں سال بیٹے علی کی وفات ہو گئی تھی اور وہ بھی دیار غیر میں، غم سے نڈھال ماں چار دن کے بعد جسد خاکی لے کر اپنے گھر پر پہنچی تو ہم سمیت ہزاروں کا مجمع اس کے استقبال کو موجود تھا، اس روز میں نے زندگی میں پہلی بار اس شخص کو یوں دیکھا کہ وہ ہنسنا تو درکنار، مسکرا بھی نہیں رہا تھا، اس کے بعد قل، چالیسویں اور برسی کے ختم پر ان کے ہاں جانا ہوا-

19 فروری کو جانا ہوا کیونکہ اس روز ان کے ہاں مبارک باد کے دو مواقع تھے، ان کے چھوٹے اور اب اکلوتے صاحبزادے عمر کی شادی اور ان کے بڑے داماد کی میجر جنرل کے عہدے پر ترقی… اس روز وہ اپنے پہلے جیسے موڈ میں تھے، ہمارے ساتھ ان کے سب بچے، بہوئیں اور داماد اس وقت ان کی اس اسٹڈی روم میں موجود تھے جہاں ان کا دن کا بیشتر حصہ گزرتا تھا-

ملک ریاض صاحب کی سنگت میں اپنے حالیہ دورہء قطر کی باتیں سناتے ہوئے ان کی آواز کے علاوہ اسٹڈی روم میں صرف ہنسی کی آواز تھی، ہنسی، لطائف اور چٹکلے!!! یہ تھے اصل احتشام ضمیر… 25 اپریل کو اسی اسٹڈی روم میں گیس جمع ہو جانے کے باعث آگ لگ جانے کا حادثہ ہوا-4 مئی کو صبح سویرے اطلاع مل گئی کہ ان کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی تھی… کھاریاں سی ایم ایچ کے برن سینٹر میں کامیاب سرجری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حوصلہ افزاء صحت یابی کے باوصف… صبح تین بجے وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے-

چار مئی کو ان کی شریک سفر روبی، جسے انھوں نے پریشانیوں کی گرم ہوا بھی نہ لگنے دی تھی، دنیا میں کڑی دھوپ میں کھڑی تھی،بے سائبان!!! وہ ہنسنے کھیلنے، مسکرانے اور ہنسانے والا شخص جس نے اسے زندگی کی کسی تلخی کا ذائقہ بھی نہ چکھنے دیا تھا، ا س وقت اپنی عمر بھر کی ساتھی اور اپنی بلکتی تڑپتی بیٹیوں سے بے نیاز… موت کی سرد چادر اوڑھے سو رہا تھا، جسے ہم سب نے ایک نہ ایک دن اوڑھنا ہے، کل نفس ذائقۃ الموت!!مجھے وہ دن یاد ہے جب ان کی کال آئی، انھوں نے شکریہ ادا کیا کہ میں نے ایک ایسی جعلی ای میل پر کالم لکھا جو کہ مجھے ان کی طرف سے موصول ہوئی تھی کہ وہ پاکستان سے باہر کسی مسئلے کا شکار ہو گئے تھے اور انھیں مجھ سے کچھ رقم درکار تھی- میں جانتی تھی کہ وہ ایک جعلی ای میل تھی اور میں نے چیک بھی کر لیا تھا کہ احتشام بھائی پاکستان میں ہی تھے اور انھیں کسی قسم کی مدد بھی درکار نہ تھی… میں نے کہا ، ’’احتشام بھائی میں تو آپ کے دیے ہوئے اکاؤنٹ نمبر میں رقم بھجوانے ہی والی تھی!!‘‘

ہنس کر کہنے لگے… ’’ لکھنے اور بولنے کی حد تک، ورنہ جانتا ہوں کہ آپ مجھے ایک چونی بھی نہ دیں !!!‘‘

’’ مذاق نہیں کر رہی احتشام بھائی، اگر مجھے یقین ہوتا کہ آپ واقعی کسی مسئلے کا شکار ہو گئے ہیں تو میں ضرور آپ کی مدد کرتی!!‘‘

’’ اچھا… اس مدد کو آپ چھوڑیں، ایک اور سلسلے میں آپ کی مدد چاہیے!!! ‘‘ میرے پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ وہ اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب بھجوا رہے ہیں، ’’دوستوں یاروں نے مل کر زبردستی میری کتاب چھپوا کر مجھے خواہ مخواہ صاحبِ کتاب بنا دیا ہے… آپ کو تو معلوم ہے کہ میں اپنا کالم تک خود نہیں لکھتا!!‘‘ اس سے ہر گز نہ سمجھا جائے کہ کہیں انھوں نے بھی بڑے کالم نگاروں اور مصنفوں کی طرح لکھاریوں کی ٹیمیں بھرتی کی ہوئی ہیں جو ان کے لیے کالم لکھتے ہیں اور اعزازیہ میں سے چند فیصد ان گمنام لکھاریوں کو مل جاتا ہے- چونکہ ان کی اردو لکھنے میں اتنی اچھی نہ تھی سو وہ بولتے تھے اور روبی لکھتی تھیں، جنگ میں ان کے کالم اتنے شاذ و نادر پڑھنے کو ملتے کہ جب بھی ملاقات یا فون پر بات ہوتی تو میرا اور غالباً اور لوگوں کا بھی اصرار ہوتا کہ آپ باقاعدگی سے لکھیں، مگر وہ ہنس کر ٹال دیتے، ’’میں تو والد صاحب کی خواہش کی تکمیل کی کوشش میں حادثاتی لکھاری اور کالم نگار بن گیا ہوں !!‘‘

’’جی فرمائیں میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟ ‘‘ میں نے پوچھا-
’’ اب میرے دوست احباب چاہ رہے ہیں کہ میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کروں اور ادبی حلقوں میں دھماکے دار انٹری دوں … اس لیے آپ زحمت کر کے میری کتاب پڑھیں اور اس پر اپنے تاثرات درج کریں اور آپ نے اس تقریب میں میری کتاب پر بولنا ہے!!!‘‘
’’ مگر مجھے تو بولنا نہیں آتا احتشام بھائی!!‘‘ میں نے حجت کی-

’’ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ کو چپ رہنا نہیں آتا!!‘‘ ایسا لاجواب کر دینے والا جواب صرف وہ دے سکتے تھے، ’’ایسا کسی ایسے بندے کو بتائیں جس نے آپ کو بولتے ہوئے نہ سنا ہو… ‘‘ جائے ماندن نہ پائے رفتن، میں نے حامی بھر لی اور ان سے کیے گئے وعدے کے عین مطابق ان کی کتاب، ’’متاع ضمیر‘‘ کی تقریب رونمائی پر بولنے کے لیے جو کچھ لکھا، اسے اس کالم میں پیش کر رہی ہوں۔

’’کیا آپ احتشام ضمیر صاحب کو جانتے ہیں؟ اگر آپ نے صرف احتشام ضمیر کا نام سنا ہے تو وہ کافی نہیں، اگر آپ نے ان کے کالم پڑھے ہیں تو وہ ان کے انداز گفتگو سے فقط پچیس فیصد تک ملتے ہیں… اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بظاہر سنجیدہ نظر آنے والا شخص ہے مگر ان کی گفتگو کا ایک ایک لفظ آپ کو گدگدی کرتا ہے!!! ا س کے ساتھ زندگی میں سب سے اچھا حادثہ یہ ہوا کہ وہ سید ضمیر جعفری کے گھر پیدا ہوا… سب سے بڑا معجزہ یہ ہوا کہ اس کی شادی روبی سے ہو گئی جو کہ اس کی نہ صرف قابل تعریف شریک حیات ہیں بلکہ انھوں نے جنرل احتشام ضمیر کے وجود کی گہرائیوں سے اس کالم نگار کو باہر نکالا ہے جو کہ اپنی سستی کے باعث ان کے وجود سے انگڑائی لے کر باہر نہیں نکل رہا تھا… زبان احتشام ضمیر کی چلتی ہے اور قلم روبی کا تو ایک کالم تخلیق ہوتا ہے، ایک ایک کالم کے اس دھکا اسٹارٹ نے احتشام ضمیر کو کالم نگار بنا دیا اور دنیا میں اس تہمت سے بچ گئے کہ اتنے بڑے لکھاری اور مزاح نگار کے بیٹے ہو کر باپ کے نام کی لٹیا ڈبوئی!! مزاح ان کی گھٹی میں نہیں بلکہ جینز میں ہے-
سب سے برا ہوا تب کہ جب انھوں نے قبل از وقت یعنی جب وہ بقول خود ان کے آٹھویں جماعت میں تھے تو غزل لکھی اور پھر فخریہ انداز میں اپنا کارنامہ اپنے والد گرامی کو دکھایا تو وہ جو تھپکی اور شاباش کی امید کر رہے تھے، اپنے والد صاحب سے وہ سنیں کہ غزل کہنا تو درکنار انھوں نے غزل پڑھنے سے بھی توبہ کر لی، بلکہ اگر کہیں معلوم ہو کہ کسی کا نام غزل ہے تو اس سے کئی فرلانگ دور ہو کر بچ کر چلتے ہیں… یوں اس دور کے لوگ ایک عظیم شاعر سے محروم رہے ہیں جسے اس کے والد صاحب نے پیدا ہی نہیں ہونے دیا، اپنے کالم لکھنے کی وجہ بھی وہ یہی پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے سوچا شاید والد صاحب اس سے خوش ہو جائیں-

فوج کے ڈسپلن اور اپنے اندر کے بات بے بات چٹکلے چھوڑنے والے شخص کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوئے، انھوں نے اپنا وقت فوج میں بھی شان سے اور بہترین گزارا… انھوں نے اپنا ہلکا پھلکا انداز اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی برقرار رکھا مگر اس کے باوجود بھی ان کا دبدبہ تھا، دو متضاد رویوں کو ساتھ ساتھ لے کر چل سکنا صرف ان ہی کی شخصیت کا خاصہ ہے-

میرے لیے ان کی شخصیت انتہائی قابل احترام ہے اور میں یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے انھیں ایک فوجی افسر… ایک کالم نگار سے ہٹ کر ایک قریبی اور معتمد حوالے سے بھی جانا ہے، ان کی شخصیت کی خوبیاں ملنے والے پر ہر ملاقات میں پرت در پرت کھلتی ہیں، جتنا بھی مذاق کے موڈ میں ہوں ، میں نے انھیں کبھی فضول گوئی کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جیسا کہ ہمارے ہاں بعض لوگ مزاح کے نام پر بے ہودہ گوئی، بے عزتی یا پھکڑ پن پر اتر آتے ہیں، مگر احتشام بھائی اتنے ہی اچھے سامع بھی ہیں… طنز بھی کرتے ہیں اور مزاح بھی مگر یوں نہیں کہ کسی کو اپنی بے عزتی محسوس ہو-

ان کی پہلی کتاب کی تقریب رونمائی ہے… امید ہے کہ اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلے گا اور ان کی کتابیں بھی دھڑا دھڑ شائع ہوں گی انشااللہ تعالی… ہاں مگر اس کے لیے اہم ہے کہ یہ اپنے لکھنے میں اتنی ہی باقاعدگی اختیار کر لیں کہ سال بھر میں کالموں کا ایک مجموعہ ترتیب پا سکے… آپ کا انداز تحریر اداس دلوں پر تازگی کی اوس اور ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے، اس دکھی دنیا کو اس نوعیت کے انسانوں اور لکھاریوں کی بہت ضرورت ہے، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!!!

یہ وہ دعائیں ہیں جنھوں نے قبولیت نہ پائی، یہ وہ اسکرپٹ ہے جو مجھے بولنا تھا ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جو کہ وقوع پذیر ہی نہ ہوئی اور اس سے قبل ہی مسکراہٹیں بکھیرتا ہوا وہ شخص ہماری آنکھوں کو آنسوؤں سے لبریز کر کے تہہ خاک چلا گیا ہے… اللہ تعالی اس پر اپنی لازوال رحمتیں نازل فرمائے اور اسے اگلی دنیا میں بھی اسی طرح مسکراتا ہوا رکھے… آمین!!

The post متاع ضمیر، احتشام ضمیر… appeared first on ایکسپریس اردو.


حکمران سول سروسز میں معذوروں کو کوٹہ دینے سے منکر کیوں؟

$
0
0

جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی معذوری ہی اصل معذوری ہوتی ہے۔ مکر اور دجل و فریب بھی معذوری ہی کی شکلیں ہیں۔ ہمارے ہاں، مغرب کے برعکس، جسمانی طور پر تعلیم یافتہ افراد کو جس سفاکی سے سماج سے دُور پھینک دینے کے مناظر آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، یہ نہایت مکروہ اقدام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اس کریہہ اجتماعی رویے نے پاکستان میں بھکاریوں کی ایک وسیع انڈسٹری پیدا کر دی ہے جس میں جرائم کی پنیری بھی پرورش پاتی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے معذور افراد کو ناکارہ افرادی قوت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔

مزید ستم یہ ہے کہ ریاست ِ پاکستان بھی ان افراد کی ذمے داری اٹھانے سے انکاری ہے۔ کاغذات کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص تو ہے لیکن یہ بھی غصب کیا جا رہا ہے۔یہ کوٹہ نجی و سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص ہے جن میں سول سروسز بھی شامل ہیں۔ معذور مگر تعلیم یافتہ افراد کے لیے جب عام سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں تو سول سروسز والے انہیں کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ سپیریئر سروس کو یہ کیسے گوارا ہوگا کہ کوئی اعلیٰ سرکاری افسر بیساکھیوں کے سہارے چل کر اپنے دفتر میں آئے یا اسے کوئی جسمانی معذوری لاحق ہو۔

اعلیٰ سرکاری افسروں کے لیے بدقسمتی سے پبلک سروس کمیشن کا نام نہاد معیار ذہنی استطاعت کا نہیں، بلکہ فزیکل فٹنس کا تقاضہ کرتا ہے،یعنی باڈی لینگویج سے لگنا چاہیے کہ فلاں تو بہت دھڑلے کا افسر ہے ، کام کرنے کی اہلیت بھلے اس میں نہ ہو۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو کچھ جسمانی معذوری کی آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو اْسے اضافی طور پر کئی ذہنی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ مغربی ممالک کو اِس کا بھرپور ادراک ہے چنانچہ وہ معذور افراد کو ہر ممکن سہولیات مہیا کر رہے ہیں جس کی بدولت ان کے معذور افراد نارمل افراد کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

برطانیہ اور امریکا کے علاوہ بیشمار مغربی ممالک میں معذور افراد کو نجی، سرکاری اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فخر کے ساتھ  ایڈجسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ معذور افراد ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیںجو بعض اوقات لاتعداد صحتمند افراد کے بس کا روگ بھی نہیں ہے، جیسا کہ دو ایسے کوہ پیماؤں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی جن میں ایک ٹانگ اور دوسرا بازو سے معذور ہے۔ ہیلن کیلر بھی معذور تھی جس نے اشاروں کی زبان متعارف کروائی جو آج دنیا میں گونگوں اور بہروں کے لیے امید اور روشنی کا کامیاب استعارہ بن چکی ہے۔ مغربی ماہرِ فلکیات وطبیعات اسٹیونزہاکنز بھی تو جسمانی طور پر سراپا مفلوج ہے۔

اس کے پاس ماسوائے بے پناہ دماغی صلاحیتوں کے اور کیا ہے؟ موسیقار بیتھوون بھی جسمانی طور پر معذور ہی تھا لیکن وہ ایک عظیم اور بے مثل موسیقار بن گیا۔ ایک حادثے میں دونوں ٹانگوں سے محروم ہو جانیوالی سدھاچندرن معذوری کے باوجود ہندوستان کی معروف رقاصہ کیسے بن گئی؟ پولیو کا مریض فریڈرک کاہلو میکسیکو کا نامور مصور بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟ پاکستانی نژاد ایک شخص جو نابینا تھا لیکن وہ برطانوی جج بن گیا۔ جان لافریٹے بھی نابینا ہی تھا جو برطانیہ کا منصف بن گیا تھا‘ فیصلہ سنتے اور فیصلے کرتے وقت اس کی یہ معذوری کبھی آڑے نہ آ سکی۔

یہ سب پختہ عزم کے کرشمے ہیں۔ دُنیا میں ہزاروں معذور افراد ایسے ہیں جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، اِن میں شہرۂ آفاق ماہرِ طبیعات نیوٹن بھی ہے جس نے کششِ ثقل کے قوانین دریافت کیے۔ امریکا کے صدر فرینکلن روز ویلٹ کی دونوں ٹانگیں پولیو کی وجہ سے معذور ہو گئیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود نیویارک کا گورنر اور پھر 1932 میں امریکا کا 32واں صدر بننے میں کامیاب ہوگیا، اور یہ اس کی قابلیت ہی تھی کہ وہ مسلسل تین مرتبہ صدارت کے عہدے کے لیے منتخب ہوا۔

وہ کیا عظیم قوم تھی جس نے ایک معذور آدمی کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور استفادہ کرلیا۔ ایک طرف امریکا کا ایک اپاہج شخص دُنیا کی طاقتور ترین نشست تک جاپہنچا،لیکن دوسری طرف تماشہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں معذوروں کا کوئی بل بھی اسمبلی تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ کہنے کو تو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق 1981ء سے قانون نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں 2 فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی نقص کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے ،تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا جب معذوروں کی انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ انکے2 فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔ کہنے کو تو پاکستان ایک نظریاتی، اسلامی اور فلاحی مملکت ہے۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معذوروں کے لیے پاکستان عالمی تناظر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میںایک جامع قانون سازی کرتا لیکن حقائق انتہائی شرمناک اور بھیانک صورتحال پیش کرتے نظر آتے ہیں، حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 68 برسوں کے دوران پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون ’’ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس ‘‘1981ء میں بنایا گیا اور ماہرین اس آرڈیننس کو بھی معذور آرڈیننس قرار دے کر رد کر چکے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس میں خاصی معذوریاں، کمزوریاں اور خامیاں ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن گروپوں میں صرف دکھاوے اور کہنے کی حد تک معذوروں کے لیے ویلکم کی تختی لٹکائی گئی ہے مگر حقیقتاً صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج کمزور بدن افراد کو سول سروس اور دیگر تمام محکموں میں ایڈجسٹ کرنا انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت دُنیا کے ان ممالک میں سرفہرست حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں معذوروں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ  اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دیدہ دانستہ اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ تعلیم، صحت، غربت اور بیروزگاری جیسے مہیب مسائل کے ساتھ ساتھ اب انسانی اور افرادی معذوری کا سنگین مسئلہ بھی معاشرے کے سینے پر آ چڑھا ہے۔

حکومتوں اور حکمرانوں کی ان مجرمانہ غفلتوں پر سینہ کوبی کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جس جدید دور میں سالانہ بنیادوں پر سوسائٹی کے داخلی وجود اور بنیادی ضروریات و سہولیات کے اعداد وشمار مرتب ہونے چاہییں وہاں خیر سے مسلسل 17 سالوں سے مردم شماری کا اہتمام ہی نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے 1998ء میں ایک اپاہج سی مردم شماری ہوئی تھی جس میں صرف ووٹروں کی تعداد اور آئندہ انتخابات کے لیے نئے بننے والے شناختی کارڈز کے لیے ترجیحاً ڈیٹا اکٹھا کیاگیا تھا۔ اس مردم شماری میں معذور افراد کی تعداد تقریباً ساڑھے ستائیس لاکھ ظاہر کی گئی جو اصل تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔

مردم شماری کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ نفوس کی مکمل تعداد، شرحِ اموات وپیدائش، شرحِ خواندگی، تعلیم، صحت، شادیاں، طلاقیں، ملازمتیں، کاروبار اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات وسہولیات کے علاوہ ہر خاندان اور ہر فرد کا موجودہ فزیکل اسٹیٹس اور معاشی بائیوگراف تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر نوعیت کا افرادی بائیوڈیٹا جمع کیا جائے جس کی بنیاد پر حکومتوںکو عوامی مفادات کی پالیسیاں اور مستقبل کا ٹریک مرتب کرنے کے لیے راہنمائی میسر آسکے۔ بیشتر ممالک میں جسمانی معذوری کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ ان ممالک میں کمزور جثہ افراد کو روزگار کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے انتخاب کی مکمل آزادی ملتی ہے ۔

سرکاری و سوشل ویلفیئر کے ادارے بھی ان افراد کی معاونت میں بھر پورکردار ادا کرتے ہیں چنانچہ وہاں کے معذور افراد خود کو کبھی کم تر نہیں سمجھتے اور زندگی کی مسابقت میں عام صحتمند افراد سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہتے۔ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی معذوروں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے لیکن رنگ برنگ تقریبات، پُرلطف کھانوں اور بڑے بڑے دعوؤںکے سوا اس دن کا کوئی حاصل و حصول سامنے نہیں آتا۔ مغرب کی اعانت یافتہ بعض این جی اوز نے تو اسے تماشہ اور اپنی غربت مٹانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہر سال ان تقریبات میں حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور انہیں ان کے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتا۔

اس دانستہ غفلت کو مجرمانہ عمل بھی کہا جائے گا اور شدید گناہ بھی۔ پاکستان کی گزشتہ ڈیڑھ عشرے کی عدالتی تاریخ ازخود نوٹسز اور سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتیوں اور حق تلفیوں کے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ اس سلسلے میں معذور افراد نے بھی اپنے حقوق اور دادرسی کے لیے متعدد درخواستیں عدالتوں کے حضور پیش کیں۔ زیادہ تر فیصلے ان کے حق میں ہونے کے باوجود ان پر سنجیدہ طورپر کوئی عمل نہیں ہوا۔ اس کے ذمے دار ہمارے حکمران بھی ہیں اور ہماری ہر حکومت بھی‘ ان میں رواں حکومت بھی شامل ہے۔ 2013ء میں ایک نابینا شخص جابر حسین نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ کی تھی کہ وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہے لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسے سول سروس میں نوکری دینے سے انکاری ہے۔

جسٹس خالد محمود خان نے ڈس ایبل کوٹہ کے مطابق معذور افراد کو سرکاری نوکریوں میں 2فیصد کے حساب سے نوکریاں دینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھاکہ تعلیم یافتہ معذور افراد معاشرے کا جھومر ہیں، انھیں کسی صورت بے سہارا نہیں چھوڑا جا سکتا،اگر قانون میں معذوروں کے لیے 2فیصد کوٹہ متعین ہے تو کیا پھر انھیں ملازمتوں سے محروم کر کے سٹرکوں پر پھینک دیا جائے؟ درخواست گزارکا موقف تھا کہ پبلک سروس کمیشن نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے ، اس کے برعکس کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ قانون کے تحت تھرڈ ڈویژن رکھنے والے امیدواروں کو نوکریاں فراہم نہیں کی جا سکتیں،جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ معذور افراد کو کوٹہ کے مطابق نوکریاں فراہم کی جانی چاہییں، یہ ان کا خاص حق ہے، جو انہیں بِلاحیل وحجت دیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسے توہینِ عدالت تصور کیا جائے گا۔

یہ واقعی توہین عدالت تھی جس کا ارتکاب بار بار کیا گیا مگر اس کی سزا کسی بھی نافرمان کو نہیں دی گئی۔ پھر نافرمانوں کے حوصلے تو بڑھنا ہی تھے اور بڑھے بھی۔ عین ایک سال بعد معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر جب لاہور پولیس نے نابینا افراد پر لاٹھی چارج کیا تو اسی معزز عدالت نے ایک بار پھر ازخود وفاقی حکومت کی بھی سرزنش کردی کہ ’’معذور افراد ملازمتوں میں کوٹے کے اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ قانون کے تحت معذور افراد کا سرکاری ملازمتوں میں 2 فیصد حصہ مقرر ہے اس پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ معذور افراد کی سیٹوں پر بھی سفارشی بھرتی کر لیے جاتے ہیں۔ ہائیکورٹ کی یہ تشویش بجا ہے کہ مرکز کی کارکردگی اس حوالے سے پنجاب سے بھی بدتر ہے۔ پنجاب حکومت کی گورننس کو دیگر صوبوں سے بہتر باور کرایا جاتا ہے۔ معذور افراد کا ہاتھ تھامنا بھی ایک نیکی ہے مگر یہاں تو ان کو قانون میں متعین حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے ۔

کیا ایسے لوگوں کو بھکاری بننے پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے؟ عدالت ِ عالیہ کے ان ریمارکس کو پیش ِ نظر رکھا جائے کہ معذور افراد کو نوکریاں فراہم کرنا ان پر احسان نہیں‘ یہ ان کا حق ہے اور ان کو ملازمتیں دینا حکومت کا فرض، جس سے رُوگردانی بُری حکومت کاری کے مترادف ہے لہٰذا حکومت معذوروں کے کوٹے کے تحت ان کو ملازمتیں دینے کے لیے عدلیہ کے احکامات کا انتظار نہ کرے، اورقانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ان کو فوری طور پر ملازمتیں فراہم کردے‘‘۔ یہ عدالتی سرزنش بھی محض ایک توہینِ عدالت بن کررہ گئی، کسی کو بھی مستوجب ِ سزاوار ٹھہرایا نہ گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں عام سرکاری اداروں میں اوسط درجہ کے جسمانی نقائص رکھنے والے افراد اچھے اچھے عہدوں پر فائز رہے ہیں، وہاں سول سروسز کا حصہ بھی اس طرح کے متعدد لوگ رہے ہیں، یہاں بھی سفارشیں اپنے معجزے دکھاتی نظر آتی ہیں۔

ان میں کئی ایک ایسے بھی رہے ہیں جو معذور افراد کے کوٹہ پر بھرتی کیے گئے مگر وہ بھی عام لوگوں کے بیٹے بیٹیاں نہیں تھے، خواص طبقات نے یہاں بھی اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا۔ معذور افراد کے 2 فیصد کوٹہ کا جتنا بھرپور فائدہ مقتدر بیوروکریسی نے اٹھایا ہے، کسی دوسرے محکمے نے شاید ہی کبھی اٹھایا ہو۔ ماضی کے کئی ادوار اور خصوصاً ضیاء الحق کے دور میں بڑے بڑے کرشمے دکھائے گئے۔ منظورِ نظر لوگوں کو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے افسر شاہی کا حصہ بنایا جاتا رہا، جن میں زیادہ تر کو معمولی جسمانی کمزوریوں کے سرٹیفکیٹ پر مطلوبہ معیار پر پورا اتارا گیا، یہ معذوری کے سرٹیفکیٹ بھی جعلی ہوتے تھے اور متعلقہ امیدواروں کی معذوری بھی جعلی ہوتی تھی، جو کچھ عرصہ کی اداکاری کے بعد مکمل جسمانی فٹنس میں بدل جاتی تھی۔ ضیائی دور میں کیے گئے یہ مظالم کسی بھی طرح قابلِ معافی نہیں۔ چور دروازوں سے انٹری مارنے والے مہاکلاکار مضبوط قلعوں کی فصیلوں میں بھی اپنی ’’استعداد‘‘ سے کہیں نہ کہیں سے رخنے اور سوراخ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔

اس ملک میں کس کس ڈھنگ اور ڈھب سے لاوارثوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کی جاتی رہی ہے، اس کا اندازہ کرنا سادہ لوحوں کے لیے خاصا کارِدُشوار ہے۔ ماضی کے یہ دھبے اور داغ اتنے مضبوط ہیں کہ وطن عزیز کے لباس کے اصل رنگ پر غالب آ گئے ہیں لیکن آج کے میڈیائی دور میں اور کوئی دیکھے نہ دیکھے مگر کیمرے کی آنکھ ہر داغ پر ضرور گھات لگائے بیٹھی ہے۔ اس خوف نے مجرموں کو نفسیاتی امراض میں اس قدر مبتلا کر دیا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ اب سدھرنا شروع ہو جائیں۔ سول سروس میں اگر بد سے بدترین لوگ ہیں، تو بہتر سے بہترین بھی ہیں جو افسر شاہی میں واقعی اصلاحات کے لیے سنجیدہ وکمربستہ ہیں جن کے ہاتھوں کبھی کبھی اچھے کام بھی سرزد ہوجاتے ہیں۔

ارشد محمود عباسی بصارت سے محروم ایک ایسا طالبعلم ہے جس نے سول سروس کا حصہ بننے کی دل کی گہرائیوں سے ٹھان رکھی تھی۔ نابیناؤں کے لیے مخصوص اُبھرے ہوئے الفاظ کو انگلیوں سے محسوس کر لینے میں اسے کمال کی مہارت حاصل تھی اور اس نے تقریباً دوہزار ای بکس اور مضامین کا بھی مطالعہ کیا۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد اس نے پبلک سروس کمیشن کو درخواست دی کہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے فارن سروسز جوائن کرنا چاہتا ہے۔ کمیشن نے اسے ٹکا سا جواب دیا کہ معذور افراد کے لیے کوٹہ کی بنیاد پر ان کے پاس کوئی نشست ہی نہیں ہے، دوسرے یہ کہ معذوروں کے لیے فارن سروس میں سرِدست کوئی پالیسی بھی وضع نہیں ہوئی ، تاہم عام امیدواروں کی طرح آپ امتحان دے سکتے ہیں۔ ارشد محمود عباسی نے 2011ء میں اللہ توکل پر سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت اختیار کی جس میں اس کا رولنمبر 2371 تھا۔

یہ اس کی قابلیت اور اعتماد ہی تھا کہ کامیاب ہونیوالے 239 امیدواروں میں اس نے گیارہویں پوزیشن حاصل کی اور کمیشن کو مجبوراً میرٹ نمبر 11 کے مطابق فارن سروس آف پاکستان کی اکلوتی نشست کے لیے ارشد محمود عباسی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا۔ یہ صرف نوٹیفکیشن ہی تھا یا اس پر عمل بھی ہوا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ 2012ء میں اس نے ہم سے مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات میں کہا تھا کہ تاحال اسے اپائنٹمنٹ یا پوسٹنگ لیٹر نہیں دیا گیا اور اگر مزید چھ ماہ یا سال تک کمیشن کی طرف سے رابطہ نہ کیاگیا تو وہ اپنے ارادے سے دستبردار ہو کر مجبوراً تدریس کا کام شروع کر دیگا۔ یہ منظر کوئی نیک شگون نہیں ہے جو مائینرڈِس ایبلٹی کا شکار ہیںاور نارمل امیدواروں کی طرح سی ایس ایس کے امتحانات کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس لاوارث قبیلے اور اس کے اہل اور قابل افراد کو کون اپنائے گا جب پاکستان کا معاشرہ ، حکومت اور قانون بھی انہیں شودروں کا سا درجہ دے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ معذور افراد ایک ایسی کمیونٹی ہیں جن کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

ان کے لیے خصوصی طور پر قوانین وضع کیے گئے ہیں اور ان کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ سمیت تمام سہولیات مفت اور ان کے گھر کی دہلیز پرمہیا کی جاتی ہیں تاکہ ان کے احساسات کے آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ بسوں اور ٹرینوں میں ان کے لیے خصوصی سیٹیں بنائی جاتی ہیں اور ان کے اُترنے چڑھنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جاپان وغیرہ میں جسمانی معذوروں کو وہ تمام سہولیات و مراعات مفت میسر ہیں جو ان ممالک کے تمام افراد کو حاصل ہیں مگر پاکستان ایسے ملک میں، جسے اسلامی فلاحی مملکت بھی کہا جاتا ہے، معذور افراد کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ برطانیہ کا ’’ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ ایکٹ 1944‘‘ جو آج ’’یو کے ڈس ایبلٹی ڈسکریمینیشن ایکٹ 1995ء‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکا کا ’’لیونگ انڈیپینڈینٹ لا1970ء‘‘دنیا بھر میں معذور افراد کے حوالے سے بہترین قانون تصور کیے جاتے ہیں۔

1982ء میں اقوام متحدہ نے معذور افراد کے حقوق کو انسانی حقوق کا درجہ دیتے ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور ملازمت میں عام افراد کے برابر مواقع فراہم کریں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے 1982ء کو معذور افراد کا عالمی سال قرار دیتے ہوئے ان کے لیے باقاعدہ ایک’’ ورلڈ پروگرام آف ایکشن‘‘ بھی ترتیب دیا۔ اقوام متحدہ کی معذور افراد میں اس قابل فخر دلچسپی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا اور دنیا بھر میں معذور افراد کو اقوام متحدہ کی ہدایت پر نہ صرف’’ اسپیشل پرسنز‘‘ کا خطاب دیا گیا بلکہ ان کی کفالت اور ملازمت کا بھی مناسب انتظام کیا جانے لگا۔ پاکستان بھی اگرچہ ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جنھوں نے معذور افراد سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر حکومت پاکستان کے لیے دوسرے ممالک کے برعکس یہ چارٹر ایک افسانے اور داستان کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ 67 برسوں سے معذور پاکستانی کسی بھی قسم کی قانون سازی سے محروم ہیں۔

اپنی جسمانی کمزوری اور حکمرانوں کی بے حسی کے کارن یہ افراد نہ تو اکانومی سے اپنا حصہ وصول کر کے زندگی کی گاڑی چلا سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ انھیں اپنی صفوں کا کارآمد حصہ بنانا چاہتا ہے، حتیٰ کہ ان کے اپنے خاندان والے بھی ان کو بوجھ‘ بیکار اور شودر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حکومتوں کی اسی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد انتہائی خطرناک سطح کو چھو رہی ہے ۔چند سال قبل پارلیمنٹ میں معذور افراد کی نمائندگی اور ان کے لیے سیٹیں مختص کرنے کا بل پیش کیا گیا تو اس سے پاکستان بھر کے معذور افراد میں اْمید کی ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ بل پاس ہو جانے کی صورت میں انہیں اپنے مسائل خود اسمبلی میں پیش کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن یہ بل پارلیمنٹ نے ناقابل ِعمل قرار دے کر مسترد کر دیا، اور اس پر سیکریٹری پارلیمانی کمیٹی جسٹس ریٹائرڈ رضاخاں نے ریمارکس دیے کہ معذور افراد کی نمائندگی کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون تو تب اجازت دے گا ناں،جب اس حوالے سے کوئی قانون بنایا گیا ہو گا ۔

جب کہ معذور افراد کا تو رونا ہی یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی قانون سازی کی جائے لیکن ہم یہاں یہ استفسار کرنا چاہتے ہیں کہ جسٹس رضا خاں کو وہ 700 قوانین نظر کیوں نہیں آئے جو اسلام کے خلاف  ہیں جب کہ ہمارے آئین کی پہلی شق ہی یہ کہتی ہے کہ اسلام پاکستان کا ’’سپریم لا‘‘ ہو گا اور یہاں اسلام کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔ گزشتہ سال نابینا افراد کے مطالبات مانتے ہوئے پنجاب حکومت نے کہنے کو تو معذوروں کا کوٹہ 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کردیا تھا لیکن جب اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا تو اسپیشل پرسنز کو ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنا پڑا، اور اس مرتبہ ان کا مطالبہ 5 فیصد کوٹے کا تھا جس کے پیچھے منطق یہ تھی کہ پاکستان کی ڈِس ایبلڈکمیونٹی کی تعداد تین کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے، اس تناسب سے ان کا کوٹہ ملک میں رائج اقلیتوں اور خواتین کے کوٹے کے علاوہ ملازمتوں کے دیگر 10فیصد کوٹہ جات کے برابر نہیں تو کم ازکم 5 فیصد ضرور کیا جائے۔

یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ معذوروں کا کوٹہ خواہ 50 فیصد بھی کردیا جائے تو بھی بے سود ہے، کیونکہ اس پر کسی نے عمل تو کرنا نہیں۔ اربابِ بست وکشاد کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس بے بس اور بے کس کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے مخصوص بل منظور کرکے اسے قانون کا درجہ دیں اور لازم قرار دیا جائے کہ تمام سرکاری ونجی اداروں میں معذور افراد کی قابلیتوں کے مدنظر انہیں ملازمتیں ودیگر ضروری سہولیات و مراعات فوری اور بلاتاخیر فراہم کی جائیں، اور سول سروسز کو بطور خاص معذور افراد کے لیے مقابلے کے امتحانات میں گنجائش پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کوٹہ کی بنیاد پر مستحق لوگوں کومیرٹ پر اپنے تمام گروپوں میں براہِ راست بھرتیاں کرنی چاہئیں۔

اس اقدام سے افسرشاہی میں اصلاحات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوگاکیونکہ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ جسمانی کمزوری کے شکار افراد عام افراد سے نسبتاً زیادہ باصلاحیت ہوتے ہیں۔ اسپیشل پرسنز کو اپنے سماج کا جزوِناگزیر بنا کر ہم سوسائٹی اور اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ جسمانی طور پر معذور مگر اہل و تعلیم یافتہ کمیونٹی کو سول سروسز کا حصہ بنا کر بیوروکریسی میںایک حقیقی اصلاحی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

The post حکمران سول سروسز میں معذوروں کو کوٹہ دینے سے منکر کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایسا اللہ بخش سومروکہاں سے لائیں؟

$
0
0

14 مئی 2015 کا سورج نکلا تو بھلا کس نے سوچا تھا کہ آج کا دن کراچی اور سندھ کے نہایت باشعور، ذمے دار اور خدمت گزار شہریوں کو صرف اس لیے گولیوں کی باڑھ پر رکھ لیا جائے گا کہ وہ مسلک کے اعتبار سے اسماعیلی تھے۔ ایک ایسی برادری جو ساری دنیا میں اپنی صلح جوئی، انسان دوستی اور خدمت گزاری کے لیے مشہور ہے، اسے آخری درجے کی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اسماعیلی مبلغین جو تیسری ہجری میں سندھ آئے انھوں نے مقامی لوگوں سے ہم آہنگ ہونے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ بھی ہمارے اسماعیلی داعی تھے جنھوں نے صوفی روایات کا پرچار کیا۔ یہی تھے جن کے زیر اثر سندھی ہندو حضرت لال شہباز قلندر کو راجا بھرتری کے نام سے یاد کرتے رہے۔ انھوں نے ہی سندھ میں ان خانقاہوں اور درگاہوں کی بنیاد رکھی جن میں مظلوم سندھی عوام کو جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم سے پناہ ملتی تھی۔ انیسویں صدی سے آج تک ان کے قائم کیے ہوئے تعلیمی اور طبی سہولتوں کے ادارے کسی مسلک اورکسی زبان کی تقسیم کے بغیر یہاں آباد تمام لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔

اسی شام کراچی میں سندھ صوفی انسٹی ٹیوٹ کے خادم حسین سومرو کی جانب سے اللہ بخش سومرو کا یوم شہادت منایا گیا۔ وہ سندھ کے ان بیٹوں میں سے تھے جنھوں نے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے سائیں جی ایم سید، سرعبداللہ ہارون، سرشاہ نواز بھٹو کے ساتھ مل کر ایک غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعت ’’سندھ یونائیٹڈ پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور اس میں کامیاب ہوئے لیکن سیاسی جوڑ توڑ کی بنا پر ابتدا میں وہ سندھ کے وزیراعظم نہ بن سکے تاہم آخرکار وہ سندھ کے وزیراعظم بنے۔ یاد رہے کہ ان دنوں صوبے کا وزیراعلیٰ، وزیراعظم کہلاتا تھا۔ شہید اللہ بخش سومرو، جمہوری مزاج رکھتے تھے ۔ اسی لیے جب وہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے دربار اور کرسی کا ادارہ ختم کیا۔ مسجد منزل گاہ کا قضیہ اٹھا تو انھوں نے مذہبی بنیادوں پر ان لوگوں کی بات ماننے سے انکارکردیا جو سیاسی انتہاپسند تھے اور اس جھگڑے کے ذریعے سندھیوں کو ہندو اور مسلمان میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔

وہ اپنے لوگوں کے لیے آزادی کے خواب دیکھتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں انھوں نے جاگیرداری کے خلاف بل پیش کیا جو منظور ہوا۔ اسی دوران آل انڈیا کانگریس نے برطانوی حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘کی مہم چلائی۔ یہ مہم انگریز حکمرانوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے اسے سختی سے کچلا۔ انگریزوں کے اس رویے پر شہید سومرو نے حکومت سے شدید احتجاج کیا۔ اسی حوالے سے انھوں نے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کے نام ایک خط لکھا جس کی ہر سطر سے بغاوت عیاں تھی۔ اسی خط میں انھوں نے برطانوی سرکار کی طرف سے ملنے والے ’’آرڈر آف دی برٹش ایمپائر‘‘ اور ’’خان بہادر‘‘ کے خطابات کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ایک ایسی صورت حال میں جب ان کے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہورہا ہو، وہ ان خطابات کو اپنی اور اپنی قوم کی توہین سمجھتے ہیں۔

سندھ کے گورنر سر ڈاؤ کے لیے یہ باغیانہ کلمات ناقابل برداشت تھے۔ سزا کے طور پر سرڈاؤ نے اللہ بخش سومروکو فوراً وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ گورنر کے اس غیر جمہوری رویے پر ہندوستان بھرکی جمہوری جماعتوں نے احتجاج کیا۔ برطانوی حکومت نے محسوس کیا کہ اپنی سیاسی بصیرت اور جمہوری قدروں کی پاسداری کی بنا پر اللہ بخش سومرو آنے والے دنوں میں مضبوط اپوزیشن لیڈرکا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے تعلقات ہندوستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں سے تھے۔ انھوں نے رابندر ناتھ ٹیگور اور بعض دوسرے اہم قومی لیڈروں کی طرح برطانوی خطابات واپس کر کے عوام میں اپنی پسندیدگی میں اضافہ کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی یاد تھا کہ جب سندھ میں تباہ کن سیلاب آیا تو وہ نہ صرف بڑے شگافوں کو پُر کرا رہے تھے بلکہ جب حالات بہت نازک ہوگئے تو انھوں نے عوام کی زمینیں اور ان کی فصلیں بچانے کے لیے سیلاب کا رخ اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیا تھا۔ اسی طرح لوگوں کو یہ بھی یاد تھا کہ یہ وہی تھے جنھوں نے برطانوی حکام کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر ایک بیراج بنائیں جو سندھ کی زرعی تقدیر بدل دے گا۔

وہ ایک سادہ مزاج، عوامی آدمی تھے۔ ان کے تن پرکھدرکا لباس ہوتا اور اپنی گاڑی پر وزیراعظم کا جھنڈا لگانے کی انھوں نے ممانعت کردی تھی۔ وہ سفر کرتے تو ان کے ساتھ محافظ نہ ہوتے۔ ان رویوں کو نظر میں رکھئے اور پھر آج کے سیاستدانوں سے ان کا مقابلہ کیجیے تو یقین نہیں آتا کہ ہم میں ایسے شاندار لوگ بھی گزرے ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ اپنے قتل سے چند دن پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ’’دو باتوں پر میرا ایمان ہے۔ میں برطانوی سامراج کو شکست دینا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی میں نازی ازم اور فاشزم سے بھی لڑنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا پیدائشی حق ہے کہ میں دونوں سے جنگ کروں۔‘‘

برطانوی راج کے لیے وہ افراد نہایت ناپسندیدہ تھے جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہوں۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر وہ وزارت عظمیٰ سے معزول کیے گئے۔ اللہ بخش سومرو ایک وسیع المشرب، روادار اور جمہوریت پسند انسان تھے۔ گورنر سندھ اور دوسرے اعلیٰ برطانوی افسران یہ جانتے تھے کہ اللہ بخش سومرو اور ان جیسے دوسرے ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو جوڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔یہ بات برطانوی راج کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے یکسر خلاف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عین ان دنوں جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی 14 مئی 1943 کو اللہ بخش سومرو شہید کردیئے گئے، ان کی شہادت کا واقعہ سندھ ہی نہیں پورے ہندوستان کے لیے ایک تہلکہ خیز سانحہ تھا۔

اس زمانے کے نہایت اہم اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مدیر مولانا ظفر علی خان نے لکھا کہ ’’اللہ بخش سومرو پر جو گولی چلی، اس کی گونج سارے ہندوستان میں سنی گئی۔یہ گفتگو اور گولی کے درمیان مقابلہ تھا جس میں گولی جیت گئی۔ اس واقعے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے کیوں کہ اگر آج ایک شخص اپنے مختلف خیالات اور موقف کی بنا پر، اپنے مسلک کی بنیاد پر قتل کیا جاسکتا ہے تو کسی بھی دوسری جماعت کے رہنما محفوظ نہ رہ سکیں گے۔‘‘ مولانا ظفر علی خان نے مئی 1943 میں لکھا تھا کہ ’’اگر اس دہشت گردی کو فوری طور پر روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ ایک مستقل حیثیت اختیار کرلے گی۔‘‘مولانا کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ مہاتما گاندھی کے قتل سے آج تک دہشت گردی کا یہ کھیل کامیابی سے جاری ہے۔

اللہ بخش سومرو کی شہادت نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیاست میں دہشت گردی کا آغاز اور اختلاف رائے کی بنا پر قتل کردینا، وہیں سے روزمرہ بنا۔ آج ہم جس گرداب میں گرفتار ہیں، اسے یاد کریں اور اس بارے میں غورکریں کہ آخر وہ کیسا شخص رہا ہوگا جس کی قوم پرستی کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے اس وقت کے ایک اہم قومی لیڈر راج گوپال اچاریہ نے کہا تھا کہ اللہ بخش ایک سچے محب وطن تھے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے گئے۔ ان کے لیے ڈاکٹر کچلو نے کہا کہ آزادی کی جنگ کے اس اہم مرحلے پر اللہ بخش کا چلے جانا، ہمارے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ انھیں سب سے شاندار خراج عقیدت سائیں جی ایم سید نے ادا کیا جنھوں نے ان کی شہادت کے فوراً بعد کہا تھا کہ اسمبلی کی سیاست میں ہمارے گہرے اختلافات رہتے تھے۔ میں ان سے تلخ بحثیں کرتا لیکن اب جب کہ وہ چلے گئے ہیں تو مجھے یہ اعتراف کرنے میں حرج نہیں محسوس ہوتا کہ وہ نہایت شاندار خوبیوں کے مالک تھے اور ان کا یوں چلے جانا سندھ کے لیے ایک ایسا عظیم نقصان ہے جو عرصۂ دراز تک پورا نہیں ہوسکے گا۔

آج سے 75 برس پہلے کے اس دانشور کی ذہانت اور عظمت کا اندازہ لگایئے جو دوسری جنگ عظیم کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی پیدائش کا درد قرار دے رہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر حملہ آور مملکتوں نے زمین پر قبضے کی اپنی حرص پر قابو نہیں پایا اور اگر وہ نقشے لپیٹ کر نہیں رکھ دیئے گئے جو خواہ جمہوری اور خواہ نظریاتی بنیادوں پر تیارکیے جا رہے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا اس امن اور خوشحالی کا ذائقہ نہیں چکھ سکے گی ، جس کا دنیا بھر کے لوگوں کو آج یقین دلایا جارہا ہے۔

وہ ایک انسان دوست، امید پرست اور مذاہب کے درمیان بقائے باہمی پر ایمان رکھنے والے انسان تھے۔ہم خواہش کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایسے بہت سے اللہ بخش ہوں جو کسانوں کی فصلیں بچانے کے لیے، سیلابی پانی کا ریلا اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیتے ہوں، جو اپنی گاڑی پر جھنڈا نہ لہراتے ہوں، جن کی گاڑی کے آگے اور پیچھے ہوٹر نہ چلتے ہوں، جن کے لیے انسان کسی بھی ہندو، کسی بھی مسلمان سے بڑا ہو، جس کی حکومت کے دوران معصوم لوگ مار نہ دیئے جاتے ہوں، ایسا اللہ بخش ہم اب کہاں سے لائیں؟

The post ایسا اللہ بخش سومروکہاں سے لائیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ

$
0
0

آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں پہ چلنے والا ملک جو انھی کی ہدایت پر بجلی،گیس اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھاتا ہے اور انھیں قرضے واپس کرتا ہے، وہی بدنصیب مقروض ملک جس کا کشکول توڑنے کا وعدہ کرنے والے آج بھی شلوار قمیص اور واسکٹ کے ساتھ ساتھ تھری پیس سوٹ میں جلوہ گر بادشاہ اور وزیر با تدبیر بنے بیٹھے ہیں۔

انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ صرف کشکول سے ان کا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے۔ اسی لیے کوئی منی لانڈرنگ اورکرنسی اسمگلنگ میں ملوث تتلی کو آزاد کروانے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔ تو کوئی کسی ’’پپو‘‘ کو تلاش کررہا ہے۔ اور غیر مہذب اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرکے اپنا حسب نسب الم نشرح کررہا ہے۔

بے چارہ یہ غریب ملک جس کی ایک تہائی آبادی بمشکل ایک وقت پیٹ کا دوزخ بھرتی ہے۔ جہاں تنخواہ دار سرکاری ملازم، نجی اداروں میں ملازمت کرنے والے صحافی، مزدور،کلرک اور استاد خون پسینہ ایک کرکے اپنے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ جو دیانت داری سے اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ لیکن مالکان کے دبدبے، رویے اورفرعونیت کی تلوار ہر لمحے ان کے سر پہ لٹکتی رہتی ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی سمری تیار ہوتی ہے، کمیٹیاں بنتی ہیں، سفارشات پیش ہوتی ہیں۔ لیکن اس ساری تگ و دو کے باوجود محض خانہ پری کے لیے بقدر اشکِ بلبل 10 فی صد اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اس غریب ملک کے حکمران اپنے 9 غیر ملکی دوروں پر ساڑھے گیارہ کروڑ ، 44 لاکھ خرچ کر ڈالتے ہیں۔

لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان غیر ملکی دوروں پہ کروڑوں خرچ کرنے کے نتائج کیا نکلے؟ اور ملک کو ان دوروں سے کون سا قارون کا خزانہ یا الٰہ دین کا کوئی جادوئی چراغ ہاتھ لگا۔ جن کی کلائیوں پہ کروڑوں کی گھڑیاں بندھی ہوں، جو من پسند کباب کھانے کے لیے جہاز رکوا لیں، جو AXACTجیسی کمپنیوں کے ذریعے کرپشن سے کمائی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرسکیں، جو میٹرو پولیٹن سٹی کو ایک طاقتور شخص کے حوالے کردیں۔ پورا شہر پانی کو ترسے جب کہ پانی طاقتور لوگوں کو وافر مقدار میں ملتا رہے۔ جادو کی چھڑی کی کرامات ہر طرف ظاہر ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں حکمران بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے سخاوت کے دریا بہا دیتے ہیں۔ عوام کا پیسہ ہاتھ کے میل کی طرح خرچ کیا جاتا ہے۔

ارکان اسمبلی سے اجازت کی ضرورت اس لیے نہیں پڑتی کہ ان کے منہ بند کرنے کے ہزاروں طریقے ہیں۔یہ اسمبلیوں میں شور شرابہ کرنے والے، ڈیسک بجانے والے، کوئی دیہاڑی دار مزدور نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ کوئی خدمت انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک جھٹکے میں ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں 68 ہزار سے بڑھاکر ایک لاکھ 30 ہزار کردی گئیں۔ صرف بجٹ میں اعلان کرنا باقی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو یوٹیلیٹی بلز، اجلاس میں شرکت کے لیے الاؤنس، ٹی اے۔ ڈی اے، ایئرلائن کا ٹکٹ اور دیگر الاؤنسز بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے فیصلہ کیا اور لاگو ہوگیا۔ وزیر خزانہ صرف اعلان کریں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافے پر ابھی غور ہو رہا ہے۔ رہ گئے پنشنرز؟ تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں! ان کے بارے میں کوئی کیوں سوچے؟ یہ پنشنرز نہ تو کسی سیاسی جماعت کے کارندے ہیں۔ نہ کسی جماعت کے قصیدہ گو قلم کار، یہ صرف انسان ہیں۔ اور یہ دور انسانوں کا نہیں آدم خوروں کا ہے، یہ سب کچھ کھا جاتے ہیں۔

بلیک منی کو دھو دھلا کر باہر کے بینکوں میں بھجوانے کے لیے ان کے پاس بے شمار تتلیاں، بھنورے، اڑن کھٹولے اور عمرو عیار کی زنبیلیں موجود ہیں جو انھی بااختیار لوگوں کی سرپرستی میں ادھر کا مال ادھر پہنچاتی ہیں۔ اور بدلے میں AXACTجیسے اداروں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی بدولت جدید دور کے حاتم طائی بھی بن جاتے ہیں۔ کسی میں مجال نہیں کہ سوال کرے کہ آسمان سے جو ہن ان پر برس رہا ہے اس کا ذریعہ کیا ہے؟ بس اتنا یاد رکھیے کہ ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کا معاملہ بھی اسی سلسلے سے جڑتا ہے کہ کوئی انگلی نہ اٹھائے۔

ایک شکایت لوگوں کو اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے پر عمران خان سے بھی ہے۔ جو یوں تو غریبوں کے لیے بہت ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس موقعے پر انھوں نے نہ کوئی بیان دیا نہ آواز اٹھائی کہ مہنگائی دورکرنے، بجلی اورگیس کی قیمتیں کم کرنے،اسکولوں اور اسپتالوں کی تعداد اور دواؤں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے نہ صرف صحت کے بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے بلکہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافؑہ کیوں کیا جارہا ہے۔

کاش یہ ارکان اسمبلی اتنے باضمیر اور صاحب دل ہوتے کہ ازخود اس اضافے کو مسترد کردیتے! لیکن ایسا کیونکر ہوسکتا ہے! سوال یہ ہے کہ تنخواہیں تو کسی خدمت یا کام کے عوض ادا کی جاتی ہیں۔ تو یہ کیا کام کرتے ہیں؟ اور یہ کون سے محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ تو وہ لوگ ہیں (چند کو چھوڑ کر) جو پورے پورے گاؤں اور شہر خرید سکتے ہیں۔ انھیں تو کوئی الاؤنس بھی نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ لاکھوں روپے پارٹی کو دے کر الیکشن کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ لیکن یہ وہی ہیں جن کے کاندھوں پہ چڑھ کر ’’آوے ہی آوے‘‘ کا تاج پہنتا ہے۔ اسی لیے انھیں خوش رکھنا بھی تو ضروری ہے!

ان خصوصی لوگوں کا سب سے بڑا کام میڈیا پہ مخالفین کو گالیاں دینا اور اپنے اپنے لیڈرکو سخی سلطان بناکر پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ جو روزانہ شام کو تمام چینلز پہ سبھائیں سجتی ہیں اور لوگ بلاوجہ اینکرز اور مالکان کو برا بھلا کہہ کر ریموٹ کا بٹن دبا لیتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بے چارہ اینکر کیا بیچتا ہے؟ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ شام کو اس کی ملاقات کن کن سے ہوگی؟ اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ لکھے ہوئے سوال پوچھنے ہیں۔کس کو زیادہ وقت دینا ہے اور کس کی باری آنے پر ’’وقفہ‘‘ لینا ہے۔

کس کی بات آگے بڑھانا ہے اورکس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے اور کس کس کو ملک دشمن قرار دینا ہے۔ کیونکہ اس ملک میں جو جتنا بڑا چور ہے اس کے ہاتھ اتنے ہی لمبے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ دیکھ لیجیے گا کہ موجودہ ایکزکٹ کا اسکینڈل کس طرح صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ سب بے قصور ثابت ہوجائیں گے۔ تتلیاں اڑ جائیں گی، حاتم کی قبر پہ لات مارنے والے ’’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ کی کہاوت کو زندہ کردیں گے! جاننے والے جانتے ہیں بڑے بڑے مالی کرپشن کے اسکینڈل کن کی سرپرستی میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔

The post مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری وہ انتظامیہ کہاں گئی

$
0
0

فوج اور سپریم کورٹ دونوں ادارے اپنے اوپر ٹھونسی گئی اضافی ذمے داریوں سے تنگ ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ اور اس کا خاتمہ اگر فوج نے کرنا ہے تو پھر فوج کے اصل فرائض کا کیا ہو گا، وہ کون ادا کرے گا۔

اسی طرح اگر فوجی عدالتوں نے عدلیہ کے فرائض ادا کرنے ہیں تو سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ آرمی چیف مقدموں کے فیصلے کریں گے یا اپنا اصل فوجی کام کریں گے اور پھر ہم عدلیہ والے کیا کریں گے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ہماری سول انتظامیہ نے کام کرنا ترک کر دیا ہے اور وہ صرف ذاتی کرپشن کی حد تک سرگرم ہے۔ نہ وہ عدلیہ کی کوئی مدد کرتی ہے اور نہ ہی فوج کی، وہ خود رفتہ رفتہ اس قدر ناکارہ ہو چکی ہے کہ کوئی تھانہ ہو یا تحصیل وغیرہ وہاں اگر آپ رشوت دے سکیں تو اپنا کام کروا لیں ورنہ آپ کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔

یہ صورت حال ناقابل برداشت ہے اور کسی ملک کی تباہی کا شاخسانہ اور ابتدائیہ ہے۔ ہم پاکستان میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں دن رات یہ سب نہ صرف دیکھ رہے ہیں اس سے گذر بھی رہے ہیں۔ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ چھ معصوم بچے جل کر مر جاتے ہیں مگر ان کو آگ سے بچانے والے ادارے ناکام رہتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں اور آلات کام بھی نہیں کرتے اور اس دوران بچے آگ میں جل جاتے ہیں۔

کوئی چار پانچ دن ہو گئے ہیں جو مجرم تھے یعنی قاتل تھے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ ہم سب دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہم ان بچوں کو بھول جائیں گے۔ اس سے پہلے ہم کتنے ہی حادثوں میں ذمے دار افراد کو کچھ نہیں کہہ سکے اور وہ بے فکر ہو کر اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں اور ہم حکمران اپنی حکمرانی میں۔ عمر بھر حکمرانوں کے اردگرد گھومنے پھرنے کے اب تک معلوم نہیںہو سکا کہ حکومت کیا ہوتی ہے اور حکمران کون۔

اب جب رونے دھونے کی بات ہو رہی ہے تو ہم شاید ہر روز ہی کوئی رلانے والی خبر پڑھتے ہیں کہ ایک مسلمان پاکستانی لڑکی کسی غنڈے یا چند غنڈوں کی وجہ سے اپنی عصمت سے محروم کر دی گئی، زندگی کے سب سے بڑے اور ناقابل علاج اثاثے سے۔ کئی ایک نے تو خودکشی کر لی جنھوں نے ایسا نہیں کیا ان کی زندگی موت سے بدتر بن گئی۔

اگر انھوں نے اپنے ساتھ اس ظلم کو راز رکھنے کی کوشش کی وہ اس راز کا زخم لے کر ختم ہو گئیں اور اس زندگی سے چھوٹ گئیں۔ ہماری زندگی میں کمزور پاکستانیوں کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور زخم خوردہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندگی کے دن کاٹ ہی لیتے ہیں۔ اوپر جن چار بچوں کا ذکر ہوا ہے کیا ان کے ماں باپ ان معصوموں کی یاد میں تڑپتے نہیں رہیں گے اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کے قاتل زندہ سلامت پھرا کریں گے تو ان کی حالت کیا ہو گی۔ ہمارے جیسے بے رحم ملکوں میں ایسے حادثے ایک معمول ہیں۔

ہمارے ہاں سزا تو اتفاق سے ملتی ہے جزا بھی نہیں ملتی۔ دنیا میں کہیں بھی اگر گنہگار سزا سے بے خوف ہو اور مظلوم سہارے سے محروم ہو تو ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہتا۔ سزا و جزا انسانی معاشرے میں توازن رکھنے کے لیے لازم ہے اور اسی پر کوئی معاشرہ زندہ رہتا ہے مگر ہمارا تماشا یہ ہے کہ ہم اپنی فوج سے ملک کے دفاع کا نہیں جرائم پیشہ لوگوں کی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں اور فوج حیرت زدہ ہو کر ہم سے پوچھتی ہے کہ ہم اپنا کام کریں یا سول انتظامیہ کو سنبھالیں۔ یہ فوجی عدالتیں صریحاً سول انتظامیہ کی نالائقی کا نمونہ ہیں اور نااہل سول انتظامیہ کی سزا ہیں۔

بات بہت پرانی ہے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک سی ایس پی افسر نے نام غالباً ریاض الدین تھا، اتنی بڑی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ مرحوم مولانا صلاح الدین ادبی دنیا کے بیٹے تھے جن کے دوسرے بھائی بھی اتنے ہی بڑے افسر تھے۔ ان کا استعفیٰ وقت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ جب کلرکی بھی ایک نعمت ہو تو کوئی اعلیٰ ترین افسر نوکری چھوڑے تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ ریاض صاحب نے کسی کے اصرار پر چند صحافیوں کو بلایا اور ان کے سامنے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کا ذکر کیا۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ پاکستان اچھی انتظامیہ سے محروم ہو جائے گا۔

ان دنوں یہ بات سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں دیکھا کہ جو ملک ڈی سی، ایس پی اور سیشن جج کی حکمرانی میں ایک منصفانہ اور آئیڈیل حکومت پیش کرتا تھا وہ رفتہ رفتہ ان چند بنیادی افسروں سے محروم ہو گیا جنھیں انگریزوں نے بڑی ہی مشکل سے پیدا کیا تھا اور ان کی اہلیت اور فرض شناسی پر برطانوی سامراج کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک عام آدمی کی ڈی سی اور ایس پی تک رسائی ہوتی تھی اور اسے انصاف ملتا تھا۔ ضلع کی پوری انتظامیہ ان کے ماتحت ہوتی تھی اور کسی عام آدمی کی درخواست پر ڈی سی اور ایس پی کا حکم واقعی حکم ہوتا تھا۔ کسی ضلع کی یہ فرض شناس اور عوام دوست انتظامیہ پورے ملک کو انصاف ، عوامی سکون اور اطمینان کے لیے کافی تھی۔

ایک واقعہ سن لیجیے کہ ہمارے ایک بزرگ جو صوفی مزاج اور بے غرض انسان تھے، ہمارے گاؤں سے باہر اپنی خانقاہ مٹھہ ٹوانہ جا رہے تھے ان کے مرید ان کے ساتھ تھے۔ اس سفر کے راستے میں سامنے سے ضلع کے انگریز ڈی سی کی سواری آ رہی تھی۔ ہمارا یہ بزرگ درویش میاں نظام الدین اپنی دھن میں گھوڑے پر سوار چلتیگئے اور رکے نہیں۔ ڈی سی کو اس گستاخی پر غصہ آ گیا۔

اس نے اپنے ہمراہ اس علاقے کے نمبرداروں، ذیلداروں سے پوچھا یہ کون تھا۔ جواب ملا کہ حضور یہ اس علاقے کا ایک درویش صفت زمیندار ہے اور حکومت برطانیہ کی کوئی جاگیر وغیرہ اس کے پاس نہیں ہے کہ اسے اس گستاخی میں ضبط کیا جا سکے۔ ڈی سی کو یہ بات پہنچانے والے اس درویش کے عزیز ذیلدار تھے جنھوں نے دل کی بھڑاس بھی نکال لی۔ ڈی سی اس گستاخی کا صدمہ لے کر جب ضلعی دفتر پہنچا تو معلوم کیا کہ اس پیر کا کوئی جاگیردار مرید۔ ان کی تعداد خاصی تھی۔ مٹھہ ٹوانہ کے ٹوانے اور نون اس درویش کے مرید تھے۔ ڈی سی نے ایک کمزور سے جاگیردار کی جاگیر ضبط کر لی۔ وہ مرید اپنے پیر کے پاس پہنچا اور جواب ملا کہ اس سے بڑی جاگیر ملے گی۔

وہ خوشی خوشی واپس آ گیا۔ بعد میں گورنر نے ناراض ہو کر ڈی سی کا حکم بھی منسوخ کر دیا اور جاگیر بھی بڑھا دی۔ یہ برطانوی دور کا انصاف تھا جب سب کچھ مقامی لوگوں کا تھا تو پھر کسی انگریز کو کیا تکلیف کہ کس کے پاس کیا ہے۔ اسے صرف اپنے وفادار مطلوب تھے اور وفاداری کا معاوضہ مقرر تھا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حق سے زیادہ ملتا تھا بس ایک توازن تھا اور جس کو جتنی سزا اور جزا ملنی ہوتی وہ مل جاتی تھی۔

حق بہ حق دار رسید حکومت کا معمول تھا۔ عمل ہوتا تھا صرف آنسو نہیں بہائے جاتے تھے کیونکہ کسی کے آنسو اس کا ذاتی معاملہ ہے اس کا حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری مشکل ایک اچھی انتظامیہ ہے جو بدقسمتی سے رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔ ہماری سیاسی ضرورتوں نے اچھے افسر اور فرض شناس اہلکار ختم کر دیئے ہیںاور سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دولت کو بحال کیا جا سکے گا یا نہیں۔

The post ہماری وہ انتظامیہ کہاں گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری آنکھ کب کھلے گی

$
0
0

ہمارے سورج پر اربوں سال سے دھماکے ہو رہے ہیں، یہ دھماکے روزانہ 120 ملین ٹن مادے کو ہیلیم گیس میں تبدیل کرتے ہیں، یہ ہیلیم گیس ایک سیکنڈ میں ہماری زمین کی پانچ لاکھ سال کی ضرورت کے برابر توانائی پیدا کرتی ہے، سورج زمین پر روزانہ ایک لاکھ 74 ہزار ٹیرا واٹ توانائی پھینکتا ہے، یہ توانائی ہماری ضرورت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے، سورج یہ توانائی کیسے جنریٹ کرتا ہے؟ یہ توانائی ’’فیوژن‘‘کے ذریعے جنریٹ ہوتی ہے، فیوژن میں ہائیڈروجن گیس کے دو ایٹم ملتے ہیں، یہ دو ایٹم ہیلیم گیس بناتے ہیں اور اس سارے عمل میں ہزار ایٹم بم کے برابر توانائی پیداہو جاتی ہے۔

ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے ری ایکشن کو فیوژن کہتے ہیں، سورج پر ان دونوں گیسز کا غلاف چڑھا ہے، یہ گیسیں 150ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے  زمین تک پہنچتی ہیں، آپ اگر سورج سے زمین تک اس عمل کا جائزہ لیں تو آپ توانائی کا شاندار کھیل دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ کھیل زندگی کی بنیاد ہے، کائنات میں جس دن سورج بجھ جائے گا اس دن زندگی کا دیا بھی گل ہو جائے گا، ہم انسان معاشرتی زندگی کے لیے توانائی کے محتاج ہیں، ہم توانائی کا بڑا حصہ تیل اور گیس سے حاصل کرتے ہیں لیکن یہ تمام ذرائع مل کر بھی سورج کی توانائی کا ایک فیصد نہیں بنتے چنانچہ سائنس دان پچھلے بیس برس سے سورج کو فوکس کر رہے ہیں۔

یہ گیس اور پٹرول کی محتاجی سے نکلنے کے لیے زمین پر سورج جیسا لیکن محدود اور کنٹرولڈ فیوژن کرنا چاہتے ہیں، یہ اس کے لیے فیوژن ری ایکٹر بنارہے ہیں، یہ پراجیکٹ چین میں زیر تعمیر ہے اور دنیا کے آٹھ بڑے ممالک فیوژن ری ایکٹر کے لیے چین کی مدد کر رہے ہیں، فیوژن ری ایکٹر کے لیے ہیلیم گیس درکار ہے، یہ گیس ہماری فضا میں انتہائی کم ہے، سائنس دان کم یابی کی وجہ سے اسے ’’نوبل گیس‘‘ کہتے ہیں، ہم اگر اپنی فضا کو نچوڑیں تو ہم اس سے بمشکل 15 ٹن ہیلیم گیس حاصل کر سکیں گے، چاندہماری زمین کے قرب و جوار میں واحد مقام ہے جس پر 50 لاکھ ٹن ہیلیم گیس موجود ہے، چین نے جون 2014ء میں چاند سے ہیلیم گیس لانے کا فیصلہ کر لیا، چینی سائنس دان دن رات اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، یہ لوگ جس دن کامیاب ہو جائیں گے اس دن چین کی توانائی کی تمام ضرورتیں پوری زندگی کے لیے پوری ہو جائیں گی۔

یہ منصوبہ پہیئے، بجلی کی ایجاد، ریڈیو سگنلز اور کمپیوٹر کی ایجاد سے بڑا بریک تھرو ہو گا، انسان کو اس کے بعد توانائی کے لیے کسی ذریعے کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بلب سے جہاز تک دنیا کی ہر چیز فیوژن توانائی سے چلائیں گے،یہ چین ہے، آپ اب جاپان کی طرف آئیے، جاپان کی کمپنی Shimizu کارپوریشن نے چاند کے خط استوا پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا، یہ بیلٹ سورج کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی اور یہ بجلی شعاع بن کر زمینی اسٹیشن پر اترے گی، یہ بیلٹ ’’لونر رنگ‘‘ کہلائے گی، یہ جاپان کو روزانہ 13 ہزار ٹیراواٹ بجلی دے گی، امریکا اس وقت 4100 ٹیراواٹ بجلی پیدا کررہا ہے گویا جاپان صرف ایک منصوبے کے ذریعے امریکا کی کل پیداوار سے تین گنا زیادہ بجلی حاصل کرے گا، یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ہو گی، یہ ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں پھیلائے گی اور اس کے لیے خام مواد بھی درکار نہیں ہوگا۔

یہ کیا ہے؟ یہ انسان کی صرف ایک ضرورت یعنی بجلی پر ہونے والی ریسرچ ہے اور یہ ریسرچ چیخ کر بتا رہی ہے، ہم سے چند ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہم جیسے انسان چاند اور سورج سے اتنی بجلی حاصل کریں گے جو 245 ممالک پر پھیلی اس دنیا کے سات ارب لوگوں کے بلب، چولہے، اے سی، ہیٹر اور گاڑیاں چلائے گی،آپ ان دونوں منصوبوں کو سائیڈ پر رکھ دیں اور ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے، دنیا میں 2000ء تک گیس اور پٹرول گاڑیاں چلانے کا واحد ذریعہ ہوتا تھا لیکن آج دنیا میں ہائی برڈ گاڑیاں بھی ہیں اور یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، یہ گاڑیاں انجن کے بغیر چلتی ہیں، آپ بیٹری ری چارج کرتے ہیں اور پانچ سو کلومیٹر سفر طے کرلیتے ہیں۔

دنیا میں سولر انرجی سے اڑنے والے جہاز بھی بن چکے ہیں، دنیا 2020ء تک ’’سولر فلائیٹس‘‘ کے مزے لوٹے گی، دنیا بھر کے سائنس دان ’’کرشماتی ادویات‘‘ بھی ایجاد کر رہے ہیں، آپ بچوں کو ویکسین دیں گے اور بچے زندگی بھر کے لیے متعدی امراض سے محفوظ ہو جائیں گے، آپ چھوٹے بڑے تمام امراض کے لیے ایک ہی گولی کھائیں گے اور گلے کی خرابی سے قبض تک آپ کے تمام امراض دور ہو جائیں گے، امریکا میں ایسی شرٹس بھی بن چکی ہیں جنھیں دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی،آپ شرٹ کو جھاڑیں اور پہن لیں، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے کپڑے بھی ایجاد ہو چکے ہیں، آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ تبدیل کر لیں، میں نے پچھلے دنوں آسٹریلیا کا ویزہ لگوایا، مجھے ویزے کے لیے پاسپورٹ سفارتخانے بھجوانا پڑا اور نہ ہی انٹرویو دینا پڑا، کاغذات کوریئر کے ذریعے بھجوائے اور ای میل پر ویزہ آ گیا، میں نے ویزے کا پرنٹ لے لیا، آپ ترکی کا ویزہ بھی ’’آن لائن‘‘ حاصل کر سکتے ہیں، دنیا بھر کی کرنسی پلاسٹک کے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ میں سما چکی ہے۔

آپ دنیا کے کسی کونے میں اپنا کارڈ ’’سوئپ‘‘ کریں اور خریداری کر لیں، دنیا کے تمام بڑے بینک ’’آن لائن‘‘ ہیں، آپ انٹرنیٹ کے ذریعے رقم جمع بھی کرا سکتے ہیں، نکال بھی سکتے ہیں اور ٹرانسفر بھی کر سکتے ہیں، آپ کا موبائل دو برسوں میں آپ کا شناختی کارڈ بھی بن جائے گا، پاسپورٹ بھی، ڈرائیونگ لائسنس بھی، بینک بھی، کریڈٹ کارڈ بھی، بجلی، گیس اور پٹرول کا بل بھی، پراپرٹی کا ریکارڈ بھی، ہیلتھ کارڈ بھی اور انشورنس پالیسی بھی۔ آپ اپنا موبائل فون مشینوں کی اسکرینوں سے ٹکراتے جائیں گے اور آگے بڑھتے جائیں گے، آپ دو برس میں ’’سم لیس‘‘ فون بھی استعمال کریں گے، آپ کوکسی ملک میں ’’سم‘‘ نہیں بدلنا پڑے گی، آپ کا فون نمبر دنیا بھر میں ’’لوکل پیکیج‘‘ پر کام کرے گا، آپ کو ’’رومنگ چارجز‘‘ نہیں پڑیں گے، گوگل پوری دنیا کے لیے ’’ایک وائی فائی‘‘ پر کام کر رہا ہے، فضا میں بڑے بڑے غبارے فکس ہو رہے ہیں۔

غباروں میں انٹرنیٹ کی مشینیں لگی ہیں، یہ مشینیں پوری دنیا کو وائی فائی سے جوڑ دیں گی، دنیا بھر کے لیے ’’وارننگ سسٹم‘‘ بھی بن رہا ہے، یہ سسٹم آپ کو ایک سال پہلے بارش، سیلاب، زلزلے، آتش زدگی، وباؤں اور آندھی طوفان کی اطلاع دے دے گا، یہ آپ کو یہ بھی بتائے گا دنیا کے کس کونے میں کب، کس چیز کی قلت ہو گی، دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ سسٹم کے ذریعے وقت سے پہلے اپنا بندوبست کر لیں گے، دنیا بڑی تیزی سے ’’ڈی این اے‘‘ کو شناختی نشان بھی بناتی جا رہی ہے، آپ کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کس پیشے سے منسلک ہیں۔

ان تمام سوالوں کا جواب آپ کے خون کا ایک قطرہ دے گا، دنیا میں سچائی کی مشینیں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، ہم جب بھی جھوٹ بولیں گے، یہ مشین ہمارے پسینے کی بو سے اس کا اندازہ لگا لے گی اور سائنس دان ایک ایسا واسطہ بھی تلاش کر رہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے تیز ہے اور انسان جس پر سفرکر کے سیکنڈ میں ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر لے گا، انسان نے جس دن یہ واسطہ تلاش کر لیا یہ اس دن کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں میں اتر جائے گا، یہ وہاں کھلی آنکھوں سے لمحہ بہ لمحہ پھیلتی کائنات کا مشاہدہ کرے گا۔

یہ کیا ہے؟ یہ علم ہے اور دنیا اس علم سے جی بھر کر فائدہ اٹھارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے ذرے ذرے میں اسباب کے لاکھوں خزانے چھپا دیئے ہیں، یہ تمام اسباب اہل ایمان کی امانت ہیں لیکن اہل ایمان نے یہ اسباب چین، جاپان، کوریا، آسٹریلیا، یورپ اور امریکا کے حوالے کر کے اپنے لیے سستی، جہالت اور نالائقی چن لی، دنیا آج بجلی کے لیے چاند اور سورج پر تاریں بچھا رہی ہے، یہ ’’گلوبل وائی فائی‘‘ کے ذریعے پوری دنیا کو جوڑ رہی ہے لیکن ہم اہل ایمان پولیو کی ویکسین کو حرام قرار دے رہے ہیں، ہم دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کی گردنیں اڑا رہے ہیں اور ہم مسجدوں میں بم پھاڑ رہے ہیں۔

دنیا ’’فیوژن ری ایکٹر‘‘ کے لیے ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہے لیکن ہم لوگ رمضان کے چاند پراتفاق رائے پیدا نہیں کر پا رہے اور دنیا کرہ ارض پر پھیلے سات ارب انسانوں کو ’’ون یونٹ‘‘ میں پرونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہم نے محلے میں تین تین مسالک کی مسجدیں بنا رکھی ہیں، ہم کب جاگیں گے، ہم اسباب کی اس دنیا میں اپنا حصہ کب ڈالیں گے، ہم دنیاکو کب بتائیں گے ہم مسلمان بھی ذہین ہیں، ہم مسلمان بھی عالم ہیں، ہم مسلمان بھی آئن سٹائن ہو سکتے ہیں اور ہم مسلمان صرف بجلی استعمال نہیں کرتے، ہم بجلی بنا بھی سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آنکھیں کھولنا ضروری ہے اور ہم مسلمان آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پتہ نہیں ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

The post ہماری آنکھ کب کھلے گی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22545 articles
Browse latest View live