Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22369 articles
Browse latest View live

جنگل میں ٹینشن

$
0
0

ہمیں کیا ہے کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ میں پورے ملک میں آگ لگا دوں گا۔ وہ کہہ دے کہ میں یہاں سے گزرنے والے ہر شخص کا راستہ روک لوں گا۔ وہ کہہ دے کہ پولیس کے نظام کو نہیں مانتا۔ میں خود قانون ہوں، میں خود پولیس والا ہوں، میں خود عدالت ہوں، میں خود انصاف ہوں اور میں ہی منصف ہوں۔

وہ کہہ دے کہ میں یہاں کہ ہر گوشے کو آگ لگا دوں گا تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے، میں تو اپنی کمیں گاہ میں حفاظت سے ہوں۔ ہماری بلا سے کوئی یہاں روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو چھین لے، میرے دسترخوان پر تو سب کچھ رکھا ہوا ہے۔

میری صحت پر کون سا فرق پڑتا ہے کہ اگر وہ پانی کا ایک قطرہ چھین لے تو کیا ہوگا؟ ہمارے ٹینکوں میں تو صدیوں کا پانی پڑا ہوا ہے۔ کوئی ان کی زبان کو روکنے والا نہیں، کوئی ان کے مردہ جسموں میں روح ڈالنے والا نہیں ہے۔ ہم سب بھی اسی جگہ اپنی آنکھوں کو کھلی رکھتے ہیں جہاں چار پیسے کا فائدہ ہو۔ ورنہ ہر اس جگہ پر ہمارے ہونٹ بند ہوتے ہیں جس کے شور سے ہماری نیند خراب نہ ہو۔

یہاں غلط کو صحیح اور حق کو باطل کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے کیوں نہیں پوچھتا کہ انھوں نے مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں حقوق نہیں ملے تو وہ پورے ملک میں آگ لگا دیں گے۔

انھوں نے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں راہداری میں حصہ نہیں دیا گیا تو وہ کسی کو بھی صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے۔ وقت وقت کا کھیل ہے یہ ہی بات اگر ان جماعتوں کی جانب سے آتی جو اس وقت عتاب کا شکار ہیں تو ایک قیامت برپا ہو چکی ہوتی۔ کیا ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ یہ واویلا مچا ہوا ہے کہ انڈیا کے وزراء اور ان کے چمچے کیوں ہم پر بیان داغ رہے ہیں۔

وہ تو ہمارے دشمن ہیں لیکن کیا ہمیں یہ دشمن نظر نہیں آتے جو عوام کو اپنے مفاد کے لیے اشتعال دلاتے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں جب الیکشن کمیشن خاموش ہے کہ خیبرپختونخوا کے اندر بلدیاتی الیکشن کی مہم سرکاری خرچ پر کیوں چل رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء کون سے خرچے پر وہاں مہم چلا رہے ہیں۔ ہماری زبان کیوں اس وقت بولنے کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اہم بلدیاتی الیکشن میں کون کس طرح سے مہم چلا رہا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے، جب کسی کے پیٹ میں درد نہیں ہوتا ہے۔

سب کو یہ نظر آ رہا ہے کہ سندھ کا ایک نیا وزیر داخلہ آیا ہے جو ایک خاص شخصیت کے قریب ہے تو ہم کیوں اس بات سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اس خاص شخصیت کے متعلق ذوالفقار مرزا صاحب نے کس طرح کی زبان استعمال کی ہے اور اس وقت وہاں موجود اینکر کس طرح سے مجرمانہ طور پر یہ چاہتا رہا ہے کہ وہ اور زیادہ بولے۔ مجھے کیوں افسوس ہونا چاہیے جب پیمرا خاموش تھا۔

گالیاں دی گئیں، اور ایسی زبان کا استعمال کیا گیا جو شاید میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب کوئی کچھ نہیں کر رہا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ سب کے پیٹ میں اس بات کا درد ہے کہ مصالحہ کیوں کم ہے۔ اگر سب کو اجتماعی طور پر اپنی آنکھیں بند کر لینی ہیں تو ہمیں کون سا شوق ہے کہ ہم ہاتھوں میں آئینہ لے کر گھومیں۔

اب یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ پولیس نے بھی اپنے گلو بٹ پیدا کر دیے۔ نہ گلو بٹوں سے ہمیں کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی ہمدردی ہے۔ قانون کو کوئی بٹ ہاتھ میں لے یا کوئی سیال۔ نہ یہ ہمارا دکھ ہے اور نہ ہماری یہ سوچ ہے۔ مگر یہ جو براہ راست دکھایا جاتا ہے کہ ایک ہیرو آتا ہے وہ تھانے میں تمام چیزوں کو توڑ دیتا ہے، قانون کا جھنڈا خود ہاتھ میں لے لیتا ہے، پولیس والوں کو ننگی گالیاں دیتا ہے، تو کیا یہ ہمارا ہیرو بن جاتا ہے؟ اگر پولیس کو اپنی بے عزتی کرانا پسند ہے، وہ ہمیشہ طاقتور لوگوں کے سامنے جی حضوری کرتی رہی ہے، وہ کبھی کسی کے سیاسی جھنڈے میں ڈانڈا لگاتی رہی ہے تو میں اور آپ کون ہوتے ہیں کہ جب ان کو تھانوں کے اندر ایک موسمی ہیرو آ کر گالیاں دیتا ہے۔

مجھے کوئی اس بات کا دکھ نہیں لیکن اس بات کی تشویش ضرور ہے کہ ہر وقت چلتے ہوئے اس ڈرامے کو میں اپنے بچوں کے سامنے کس طرح پیش کروں، ایسے کہ یہ ہمارا ہیرو ہے جسے ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے، جائو تم بھی کسی تھانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، تم بھی ہیرو بن جائو گے۔ ایسے ہی اگر کوئی تھانوں میں جا کر کوئی کچھ کر لے تو کیا ہمارا قانون اسے شاباش دے گا۔ ہمارا میڈیا اسے ہیرو کے طور پر پیش کرے گا؟

کیا اخلاقیات کا درس ہم نے شروع کر دیا، یہ کام تو ہمارے معززین کا ہے، جب آج کی خبر 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں بلکہ ایان علی کی گردن پر بنا ہوا ایک ٹیٹو ہے تو ہمیں ڈوبنے کے لیے کون سا زیادہ پانی چاہیے۔

ایک چِلو بھر پانی بہت ہے۔ مگر ہم کیا کریں کہ پانی ہی نایاب ہے، ایسے میں آپ بتا دیجیے کہ ایان علی نے سر پر ٹوپی لگائی ہو یا نہ لگائی ہو، اس سے کون سا کنواں پانی دینے لگ جائے گا۔ ہماری کیا مجال جو ہم یہ کہہ سکیں کہ ایان علی نے کون سے کپڑے پہنے ہیں، مگر اس کا ذکر ہر محفل میں کر دینے سے کیا CNG بغیر لائن کے مل جائے گی؟ لیکن کیا کریں ہم بھی تو پک گئے تھے، سیاسی خبریں اور سیاسی تبصرے سن کر۔ اگر ایسے میں کوئی اچھا چہرا نظر آ جائے تو کیا برا ہے۔ خبر اور خبریت پر تو ہر وقت ہی ذکر ہو رہا ہوتا ہے، اگر تھوڑا سا کیٹ واک پر بات ہو جائے تو کیا برا ہے۔

ہم کیوں دل جلا رہے ہیں کہ دیر میں خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ جب ہمارے گھر کی عورت کو اس کی فکر نہیں تو ہم کیوں اپنے بازو آزمانا چاہتے ہیں۔ وہ جو لوگ اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ عورت کا ووٹ نہ ڈالنا ہمارا کلچر ہے تو ہم کیوں بے ادب بن رہے ہیں۔

جب کراچی میں آ کر کلچر بدل جاتا ہے اور لاہور میں آ کر لاہوری ہو جاتا ہے ایسے میں ہم کیوں دکھ لیے بیٹھے ہیں جب ہمارے حقوق کے سارے چیمپئن اس پر دستخط کر دیتے ہیں۔ اب ماڈل ٹائون میں کوئی کسی کو ہری پرچی دے یا کسی کو لال بتی دکھائے ہم کیوں مرچیں لے رہے ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے کہ جس کی گردن پتلی ہو اسی کو دبا دو۔

میرے بھائی اتنی لمبی چوڑی تقریر کر کے بس یہ بتا رہا تھا کہ کیوں اپنا قیمتی وقت ضایع کر رہے ہو۔ پہلے دن سے یہاں کرپشن کا شور سنتے آ رہے ہو تو کیا کرپشن ختم ہو گئی۔ ہر وقت یہاں سازش کے چشمے بدلتے رہتے ہیں تو کیا آنکھوں سے سازش ختم ہو گئی۔ یہ راگ سارے ڈبے میں ڈال دو کہ یہاں اب آگ نہیں لگے گی۔ ساری ان تجوریوں کو تالے لگا دو جس میں تم نے اپنے خواب رکھے ہوئے ہیں۔

یہاں ہر نسل کا رونا وہی ہو گا جو پچھلی نسل کا تھا۔ تم سب کچھ کرتے ہو۔ سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو۔ ہر آنے والے کو آزماتے ہو۔ میری ایک بات کیوں نہیں مان لیتے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں اور ہمیں جنگل کے قانون کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ بے وجہ جنگل میں رہ کر شہر کا نظام لانے کی جستجو میں۔ یہاں جو طاقتور ہے وہ ہمیشہ ٹھیک ہے۔

چاہے وہ جتنی بکریوں کو کھا لے۔ یہاں جس کے پاس لاٹھی ہو گی بھینس اسی کی بات مانے گی۔ خود کو تسلیاں دینا چھوڑ دو۔ بس اس بات کو ڈھونڈو کہ آج کل کچھ وزیروں کی تصویریں آئی ہیں کچھ خاص جگہوں پر بیٹھ کر آرام کرنے کی۔ آپ بھی ان سے پتہ پوچھ لیں اور زندگی کو انجوائے کریں۔ بے وجہ جنگل میں ٹینشن پھیلا رہے ہو۔

The post جنگل میں ٹینشن appeared first on ایکسپریس اردو.


ستانے والے اور ستائے ہو ئے لوگ

$
0
0

پاکستان میں اب صرف دو طبقات باقی رہ گئے ہیں ایک طبقہ ستانے والوں پر مشتمل ہے جن میں سیاست دان، بیو روکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار، ملا، بڑے بڑے بزنس مین شامل ہیں جو تعداد کے لحاظ سے انتہائی قلیل ہیں لیکن ستانے کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں اور جن کو ستانے کے لا محدود اختیارات بھی حاصل ہیں۔ ان کے اختیارات کو چیلنج کرنے کا مطلب اپنے آپ کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ سب دیکھنے میں انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ اور با شعور لگتے ہیں لیکن اصل میں اندر سے ظالم ہیں اور جب کسی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو اس کا کام تمام کر کے ہی دم لیتے ہیں اور اکثر تو دم ہی نہیں لیتے ان سب کا مسلسل ایک کے بعد

ایک شکار پر مکمل اتفاق ہے یہ کہتے ہیں اتفاق میں ہی برکت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود برکت بھی ان سے انتہائی خو فزدہ رہتا ہے انھیں اپنے کرتوتوں پر مکمل مہارت حاصل ہے اور دوسرا طبقہ ستائے ہوئوں پر مشتمل ہے جن میں ہم سب شامل ہیں جو تعداد کے لحاظ سے 18 کروڑ ہیں۔

ان مظلوموں، بیچاروں، بے بسوں ، بے کسوں اور مصیبت زدوں کے متعلق جتنا کچھ لکھا جائے کم ہی ہو گا جن کے نزدیک زندگی کا مقصد اور مطلب صرف مصیبتیں اٹھانا، تکلیفیں برداشت کرنا، آہ و بکا کر نا چیخنا چلانا، تڑپنا اور ستانے والوں کے ظلم و ستم کو سہنا اور برداشت کرنا رہ گیا ہے جو نہیں جانتے کہ خو ش ہونا خواہشیں پوری ہونا سکھ و چین کی نیند سونا مسکرانا اور بے فکری کن بلا ئوں کا نام ہیں۔

اگر آپ کو ان باتوں پر یقین نہیں آ رہا تو آئیں آپ ذرا ان لوگوں کی تاریک، گندی اور غلیظ بستیوں میں گھوم پھر کر خود ہی دیکھ لیں اگر آپ کی تھوڑی ہی دیر میں ان کے رنج و الم، گندگی، بدبو اور بدحالی سے آپ کی چیخیں نہ نکل جائیں اور آ پ چِلا نہ اٹھیں اور ان بستیوں سے بھاگ نہ کھڑے ہوں تو پھر آپ ہمیں مجرم ٹھہرانے میں حق بجانب ہوں گے۔ ان لوگوں کی پوری زندگی یہ سوچتے ہوئے گزر جاتی ہے کہ یہ ستانے والے آخر ہمارا نصیب اور مقدر کیوں ہیں ہم سے آخر ایسے کون سے گناہ کبیر ہ سرزد ہو گئے ہیں کہ یہ عذاب ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔

یہ مصائب و آلام ہمارے ہی نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں، یہ گالیاں، یہ دھتکار، یہ ذلت، یہ خواری یہ گندگی یہ بیماریاں ہمارا ہی کیوں مقدر ہیں۔ اے خدا تیری دنیا میں اتنی نا انصافی کیوں ہے، اتنی اونچ نیچ کیوں ہے تیرے بند ے اتنے برے حالوں میں کیوں ہیں، آخر کون سی ایسی عبادت ہے جو ہم نہیں کرتے آخر تو ستانے والوں سے کیوں اتنا راضی ہے اور ہم سے کیوں اتنا ناراض ہے۔ تیری ساری نعمتیں برکتیں ان پر کیوں اتری ہوئی ہیں اور سارے عذاب سارے دکھ سارے غم آخر ہمیں ہی کیوں بن مانگے مل رہے ہیں۔

یاد رہے انسان پر شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے انسان ہر چیز برداشت کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ ناانصافی کے شدید شعور کا اطلاق تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے، یہ واضح نا انصافیاں ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے پیرس کے باسیوں نے باسٹیل (جیل) پر دھاوا بول دیا، گاندھی اور قائداعظم نے اس سلطنت کو للکارا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مارٹن لوتھر کنگ نے سفید فام غالب قوت کے خلاف جنگ کی۔

آج ناانصافی کی سب سے وحشت زدہ تصویر پاکستان ہے جس کی وجہ سے آج ہم سب مریض بن چکے ہیں ہمارے جسموں سے زیادہ ہمارے اذہان بیمار ہیں۔ ہمارے اذہان اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں روزانہ زہریلے اور منفی خیالات سے آلو دہ کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ زہریلے اور منفی خیالات ہمارے ذہنوں میں داخل کیسے ہوتے ہیں یہ زہریلے خیالات اس لیے ہمارے ذہنوں میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ ہم ایسے خیالات و تصورات کے متعلق سوچ و بچار کرتے ہیں ہمارے اس عمل کے ذریعے ہمارے ذہن زہریلے خیالات سے آلودہ ہو جاتے ہیں اور ہم ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں۔

ظاہر ہے آ پ کا اور میرا ناانصافی، بے ایمانی، کر پشن، لوٹ مار، بے اختیاری پر رد عمل خوشگوار ہونے سے تو رہا ہم اپنی ذلت، خواری، بربادی پر ہنسنے سے تو رہے قہقہے لگانے سے تو رہے کر پٹ، راشی اور لٹیروں کو دعائیں دینے سے تو رہے اپنے عدم تحفظ اور عدم سلامتی پر ناچنے سے تو رہے ستانے والوں کے حق میں ہڑتال، مظاہرے اور جلوس نکالنے سے تو رہے۔

ظاہر ہے جب ہمارا دن رات انھیں کوسنے، گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے میں گزر ے گا تو ہم ذہنی طور پر بیمار تو ہوں گے دلچسپ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ چلو ہم تو بیمار سہی لیکن ستانے والے ہم سے زیادہ بیمار ہیں ہم سے زیادہ اذیت میں ہیں وہ دن رات ایسے گڑھے کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں جو کبھی بھرنے والا نہیں ہے، ہماری بیماری تو ایک حد پر آ کر رک گئی ہے ظا ہر ہے اس سے زیادہ بر بادی ممکن ہی نہیں ہے ہنسنے اور قہقہے لگانے کی بات تو یہ ہے کہ ستانے والوں کی بیماری کی کوئی حد نہیں ہے ان کی آخری حد صرف پاگل پن ہے ہم تو ایک نہ ایک دن صحت مند ہو ہی جائیں گے لیکن یاد رہے ان کے پاگل پن کا علاج ممکن نہیں۔ کیونکہ اصل میں یہ صرف پاگل پن نہیں بلکہ عذاب ہے۔ جس کی لپیٹ میں یہ سب لوگ ہیں۔

The post ستانے والے اور ستائے ہو ئے لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاست میں اخلاقیات کا فقدان

$
0
0

بجلی و پانی کے وزیر مملکت اور وزیراعظم کے قریبی عزیز عابد شیر علی اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد کے حالیہ دورے میں عمران خان سے ہاتھ ملانے کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم بھی عمران خان سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔

سنجیدہ سیاست دان خواہ سینئر ہوں یا جونیئر سیاست میں اخلاقیات کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالیں جس سے ان کے کسی مخالف کی دل شکنی ہو۔ سیاست کبھی خدمت کہلاتی تھی جو اب گالی بنتی جا رہی ہے اور سیاست کو اس مقام تک لانے میں ہمارے نوجوان سیاست دان ہی نہیں بلکہ تقریباً دو عشروں سے سیاست میں موجود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی پیچھے نہیں رہے۔

جنھوں نے مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کے لیے ’’اوے‘‘ نواز شریف کا لفظ متعارف کرایا جس کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنوں میں اخلاقیات کے جو مظاہرے دیکھنے میں آئے وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں کم نظر آئے۔ مگر جھوٹ زیادہ سے زیادہ بولنے کا مقابلہ دونوں طرف جاری رہا۔

عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ہی نہیں بلکہ سرکاری افسران کے لیے بھی قابل اعتراض الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور انھوں نے ملتان کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا پر اس لیے تنقید کی کہ انھوں نے ملتان کے جلسے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے میڈیا والوں پر حملے کی مذمت کی تھی۔ عمران خان نے آئی جی پولیس کو ملتان واقعے پر شرم کرنے کا کہا حالانکہ شرمناک حرکت آئی جی پولیس نے نہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کی تھی جس کی ملک بھر کے صحافیوں، سماجی حلقوں، وزیر اطلاعات اور متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے بھی مذمت کی ہے۔

ملکی سیاست میں اپنے مخالفین کے خلاف قابل اعتراض ناموں اور الفاظ کا استعمال سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اور ان سے بڑھ کر ان کے کزن ممتاز علی بھٹو نے شکارپور کے جلسے میں اپنے بزرگ مخالف حاجی مولابخش سومرو کے خلاف انتہائی غلط الفاظ استعمال کیے تھے اور جذبات میں وہ نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے تھے۔

سیاسی معاملات میں جھوٹ تو ہر سیاست دان ہی بولتا ہے اور سیاسی کے علاوہ مذہبی رہنما بھی جھوٹ بولنے اور جھوٹے دعوے کرنے اور جھوٹے الزامات عائد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک سیاسی رہنما سے زیادہ مذہبی رہنما تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے سیاست سے اکتا کر اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنی توجہ مذہبی معاملات پر مرکوز کر لی تھی۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا قیام بیرون ملک ہی رہتا ہے اور وہ کینیڈا کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ علامہ ملکی سیاست سے بد ظن بھی رہتے ہیں اور سیاست کے بغیر چین سے بھی نہیں رہ پاتے وہ سیاسی مقاصد کے لیے جب پاکستان آتے ہیں تو بھونچال برپا کر دیتے ہیں جس سے حکومت ہی نہیں ان کے مریدین اور پیروکار بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ سال دھرنے سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون جو حکومتی نا اہلی کے باعث انتہائی شرمناک تھا اور اس میں جو جانی نقصان ہوا اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور ملک کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت وزراء اور پولیس افسروں کو اس سانحے میں ملوث کر کے جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ اس موقعے پر علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی جھوٹے الزامات کا سہارا لیا اور ہر حکومتی کمیٹی کی تحقیقات سے علیحدگی اختیار کیے رکھی اور کسی حکومتی ادارے پر اعتماد نہیں کیا تو کیا وہ اقوام متحدہ کی تحقیقات چاہتے تھے جو ناممکن تھی اور اب حکومتی کمیٹی نے یکطرفہ تحقیقات میں ڈاکٹر طاہر القادری کے سارے الزامات کو غلط قرار دے کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو الزامات سے بری کر دیا ہے۔ سیاست میں اخلاقی حدود کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے مگر سیاسی مخالفت میں ہمارے یہاں ہر اصول کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے خواہ اپنی زبان اور دعوئوں سے پھرنا پڑے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر نہیں جائوں گا۔ چاہے وہ دھرنے میں تنہا رہ جائیں، مگر کیا ہوا انھیں ہی منہ کی کھانا پڑی یہی کچھ 2013ء کے عام انتخابات کے سلسلے میں عمران خان نے کیا، معزز شخصیات پر بغیر ثبوت الزامات لگائے گئے مگر ثبوت اب عدالتوں میں پیش نہیں کیے جا رہے۔

شیخ رشید نے ڈالر سو روپے سے کم ہو جانے پر مستعفی ہو جانے کا اعلان کیا تھا مگر مستعفی نہیں ہوئے تو ان کی باتوں پر کون یقین کرے گا، بعض سیاست دان اپنی باتوں سے منحرف ہو جاتے ہیں اور ثبوت پیش کرنے پر سیاست چھوڑ دینے کا اعلان کرتے ہیں مگر اب تک تو کسی ایسے سیاست دان نے سیاست نہیں چھوڑی۔

سابق وزیر بجلی راجہ پرویز اشرف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کی جو مدت دی تھی وہ ختم ہو گئی مگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی، ہمارے یہاں جھوٹ بولنے والے سیاست دانوں کا محاسبہ نہیں ہوتا بلکہ جھوٹ اور کرپشن پر ترقی دے دی جاتی ہے جس کی مثال جھوٹے وزیر کو ہٹا کر بعد میں وزیر اعظم بنا دینا ہے۔ بڑے بڑے سیاست دان ہی نہیں بلکہ چھوٹے سیاست دان بھی اپنی انتخابی مہم میں ایسے بڑے بڑے دعوے کر جاتے ہیں، جیسے وہ اسمبلی رکنیت کا نہیں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا الیکشن لڑ رہے ہوں۔

اب پہلا دور نہیں کہ جب سیاست دان جھوٹ بول کر مکر جاتے تھے کہ میں نے ایسا نہیں کہا، اخبارات نے غلط خبر شایع کی ہے اب جدید میڈیا کا دور ہے جہاں فوٹیج چلا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا جاتا ہے اب اپنی بات سے منحرف ہونا ممکن نہیں مگر جھوٹ کے عادی سیاست دان اب بھی باز نہیں آ رہے اور اپنا جھوٹ پکڑے جانے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور حقیقت ان ہی کی آواز میں آشکار ہو جانے پر یہ کہہ کر جان چھڑانا چاہتے ہیں کہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا، عام انتخابات کے موقعے پر ہر پارٹی کا سربراہ ایسے وعدے اور دعوے کرتا ہے جیسے اس کے پاس الہ دین کا چراغ ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی روشن کر کے جن کو مسائل حل کرنے کا حکم دے گا اور سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔

اگر سیاست دان بولتے وقت اپنے الفاظ پر کنٹرول ہی کر لیں تو انھیں بعد میں شرمندہ نہ پڑے۔ سیاست دانوں کے منہ سے نکلی بات سچ تو ثابت نہیں ہوتی بلکہ مذاق بن جاتی ہے جیسے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی باتیں ملک بھر میں مذاق بنی ہوئی ہیں کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ اصلی ہو یا جعلی‘‘ ذمے دار سیاست دانوں اور اہم عہدیداروں کی جب ایسی بچگانہ باتیں ہوں گی تو قوم ایسے سیاست دانوں کی باتوں پر کیسے یقین کرے گی، سیاست مذاق نہیں ہمارے سیاست دان سیاست کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر انھیں ملک اور صوبے چلانا ہوتے ہیں۔

عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہوتے ہیں جو وہ پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تو پروٹوکول کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں، عوام کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں جیسے اب سابق صدر آصف علی زرداری کارکنوں کو منانے کے لیے جواز پیش کر رہے ہیں اور انھیں صدارت سے جانے کے پونے دو سال بعد کے پی کے آنے کی فرصت ملی ہے۔

سیاست گالی اور الزام تراشی ہی کا نام نہیں خدمت کا بھی ذریعہ ہے اس لیے سیاست میں اخلاقیات کا احترام بھی ضروری ہے جھوٹ، الزام تراشیوں سے عوام کو اب مزید نہیں بہلایا جا سکتا۔

The post سیاست میں اخلاقیات کا فقدان appeared first on ایکسپریس اردو.

جوہری صلاحیت پر غیر ضروری طعنہ زنی

$
0
0

ہم دنیا کی وہ واحد بد قسمت قوم ہیں جس نے تمام مصائب و مشکلات اور بیرونی دباؤ کے باوجود 1998ء میں اپنے لیے عالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کہلانے کا درجہ حاصل تو کر لیا لیکن اُسے اُس وقت سے اپنے ہی لوگوں کی طرف سے آئے دن سخت تنقید اور طعنہ زنی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔

کوئی کہتا ہے جوہری توانائی اِس لیے حاصل کی گئی تھی کہ پاکستان کی حفاظت ہو یہاں تو خود اُس کی حفاظت کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے جو اپنے ہاتھ میں کشکول تھامے ہوئے ہے اور کوئی کہتا ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور ایٹمی طاقت بنے پھرتے ہیں۔ یہ بات اگر کوئی غیر کہے تو سمجھا جا سکتا ہے، برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن جب اپنے ہی لوگ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت اِسی طرح کی فقرے بازی کرتے رہیں تو اُن کی سوچ اور عقل پر کفِ افسوس ہی مَلا جا سکتا ہے۔

وہ جانتے بوجھتے کہ ہمیں ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناتے اِس جرم کی پاداش میں کتنے مصائب کا سامنا رہا ہے وہ ایسی تنقید کر کے نجانے کسے خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں چاہیے کہ عالمی تناظر میں اُن حالات کا بغور مطالعہ کریں جن میں رہتے ہوئے پاکستان جیسے کمزور اور ناتواں ملک نے یہ توانائی صرف اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ اُسے کسی ملک کی طرف سے کوئی رہنمائی یا مدد فراہم نہیں کی گئی۔ بلکہ اُسے تو اِس جرم کی پاداش میں مختلف قسم کی بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا رہا ہے۔

پہلے پہل جب سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ہندوستان کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد جب یہ تہیہ کیا کہ ہم بھی خطے میں طاقت کا توازن بر قرار رکھنے کے لیے یہ صلاحیت ہر قیمت پر حاصل کر کے رہیں گے خواہ اِس کے لیے ہمیں گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔ اُنہوں نے دنیا کے سامنے اپنے ارادوں اور عزائم کا برملا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔

بھٹو نے اُس وقت جو کچھ کہا وہ وقت کی ضرورت تھی۔ ہمیں دنیا پر یہ باور کروانا تھا کہ ہم کوئی چھوٹی موٹی کمزور اور ڈرپوک قوم نہیں ہیں کہ بھارت کے اِس اقدام کو یوں آسانی سے ہضم کر جائیں۔ ہم باوقار طریقے سے دنیا میں سر اُٹھا کر جینا چاہتے ہیں۔ اگر آج ہندوستان ایٹم بم بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہماری قوم اپنا پیٹ کاٹ کر یہ قربانی ضرور دیگی۔ اِس کے بعد اُن کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا لیکن اُنہوں نے ہار نہیں مانی اور اُنہوں نے اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد بالاخر اپنے اُس دورِ حکومت میں ہی رکھدی۔ یہ ہوتے ہیں جیتی جاگتی قوم کے ارادے اور عزائم جن کے آگے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو جایا کرتے ہیں۔

بھٹو کے اِن ارادوں کو پایہ تکمیل تک اُن کے بعد آنے والی ہر حکومت نے پہنچایا، لیکن ایٹمی تجربات کا شرف حاصل کرنا میاں محمد نواز شریف کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ جنرل ضیاء کو بڑے پُر سکون گیارہ سال ملے، اُنہیں اپنے دور میں عالمی قوتوں کا مکمل تعاون اور سپورٹ حاصل تھا۔ امریکا بھی اُن دنوں افغان جہاد کی وجہ سے ہماری بھرپور مدد کر رہا تھا۔ اگر وہ اُن دنوں پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی قوت کا درجہ دلا دیتے تو شاید دنیا کی جانب سے وہ ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو 1998ء میں ہمارے جوہری تجربوں کے بعد سامنے آیا۔ مگر وہ یہ قومی خدمت سر انجام دینے کی ہمت نہ دِکھا سکے۔

بالآخر میاں صاحب نے یہ کر دکھایا اور بعد ازاں اپنی معزولی کی سزا بھی بھگت لی۔ اگر وہ چاہتے تو اِن دھماکوں کے بدلے آفر کی جانے والی بے تحاشہ مالی اعانت قبول کر کے اپنا اقتدار بچا سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے قومی اور دفاعی اہمیت کے معاملے کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے یہ زبردست کام کر دکھایا۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم پاکستان کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا مگر ہمیں خود اُس کی حفاظت کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ایٹم بم کو دنیا اسلامک بم کیوں کہتی ہے۔ اگر وہ یہ بات سمجھ لیتے تو پھر ایسی طعن و تشنیع سے یقینا باز رہتے۔ یا پھر وہ جانتے بوجھتے اپنی جوہری توانائی کا تمسخر اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ایسی جلی کٹی باتیں کوئی عام اور ناخواندہ لوگ نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کا تعلق پڑھے لکھے، سمجھدار اور ذہین طبقے سے ہوتا ہے۔

وہ دانش اور بصیرت رکھنے کے باوجود ایسی غیر مناسب باتیں کرتے ہیں جن سے یقینا پاکستان کے دشمنوں کو دلی خوشی اور مسرت و شادمانی کا موقعہ مل رہا ہوتا ہے۔ اپنے وطن کی ہتک اور بے عزتی کر کے وہ کس کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے والے کون تھے اور خود ہمارے ایٹمی پلانٹ کو کن کن ملکوں سے خطرہ ہے۔ اگر اُس کی حفاظت اِس طرح نہ کی جائے تو یہ پھر یہی لوگ ہماری حفاظتی تدابیر اور صلاحیتوں کی ناکامیوں پر اُنگلیاں اُٹھا رہے ہونگے۔ پاکستان آرمی اِس کی کسٹوڈین ہے اور وہی اِس کی حفاظت کی ضامن ہے۔ ہم اگر ذاتی طور پر اِس سلسلے میں آگے بڑھ کر کوئی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے رویوں اور بیانوں سے اُسے بدنام اور رسوا بھی نہ کریں۔

رہ گیا سوال کہ ایٹمی طاقت تو بن گئے ہیں لیکن کشکول ابھی ہاتھ سے چھوٹا نہیں اور یہ کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میّسر نہیں ہے۔ تو اِس کا جواب 1974ء میں بھٹو نے اُسی وقت دے دیا تھا جب اُنہوں نے اِس ملک کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُنہوں نے قوم کے حوصلے اور جذبے کو دیکھتے ہوئے اُس کی مرضی اور رضامندی سے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹمی توانائی ضرور حاصل کریں گے۔ اب اگر مسائل و مصائب سے نمٹنے میں کچھ دشواریاں آ رہی ہیں تو پھر واویلا کیسا۔ کیا بھارت میں سب لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔1974ء سے اب تک 40 برس ہو چکے ہیں۔ وہ کیا دنیا کے آگے امداد اور قرضوں کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاتا رہا ہے۔

وہاں کے عوام کتنے آسودہ اور خوشحال ہو چکے ہیں۔ لیکن وہاں تو کسی نے اپنی ریاست کے خلاف ایسی بد گوئی یا بد زبانی نہیں کی۔ بلکہ اُنہوں نے تو ہر حال میں اپنے وطن کی کمزوریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ وقتی مصیبتوں اور تکلیفوں کو ہنس کر سہنا ہی زندہ قوموں کے طور ہوا کرتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ماضی میں اگر کچھ لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے سبب ہمیں آج مشکل حالات کا سامان ہے تو اِس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ ہم اپنی قوم کا مورال ہی گراتے چلے جائیں۔

پینے کا صاف پانی تو آجکل ماڈرن اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ وہاں کی ساری آبادی پیسوں سے خرید کر منرل واٹر پیا کرتی ہے۔ ہمارے یہاں تو پھر بھی 70 سے80 فیصد لوگ نلکے کا پانی ہی پیتے ہیں۔ اپنی معاشی اور معاشرتی کمزوریوں اور خرابیوں کو بار بار گنوا کر جوہری توانائی کو مطعون و ملعون کرتے رہنا کوئی مناسب اور درست طرز عمل نہیں ہے۔ ہماری یہی سوچ اور آشفتہ بیانی ہماری حبُ الوطنی پر شک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں اور طرز تکلم کو بدلنا ہو گا۔ بات بات پر قوم کی اب تک کی حاصل کردہ کامیابیوں پر اُنگلی اُٹھانا اور اُنہیں طعنہ زنی کا نشانہ بنانا کوئی حکمت و دانائی یا دانشمندی نہیں ہوتی۔ ہمیں اِس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہیے۔ جوہری توانائی کے حصول پر شرمندہ اور افسردہ ہونے کی بجائے اُس پر فخر اور ناز کرنا چاہیے۔

The post جوہری صلاحیت پر غیر ضروری طعنہ زنی appeared first on ایکسپریس اردو.

سانحہ ڈسکہ

$
0
0

پنجاب کے صنعتی اور کاروباری شہر سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پولیس تھانیدار کی فائرنگ سے تحصیل بار کے صدر سمیت 2 وکیل جاں بحق جب کہ2وکیل اور 2 راہگیر شدید زخمی ہوگئے۔ اس سانحے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اورڈسکہ شہر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ وکلاء کے ساتھ عوام بھی مظاہرے شامل ہو گئے ‘ ڈسکہ شہر میں تمام بینک، دکانیں، مارکیٹیں اور بازار فورا بند کردیے گئے۔

وکلاء نے جاں بحق وکلاء کیلاشیں سڑک میں رکھ کر شدید احتجاج کیا ہے۔مظاہرین نے پولیس تھانے، ڈی ایس پی آفس اورٹی ایم اے آفس ، دفتر اسسٹنٹ کمشنر اور ریسٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے انھیں آگ لگا دی۔ اسسٹنٹ کمشنرنے اہلخانہ کے ہمراہ بھاگ کر جان بچائی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ایک وکیل ٹی ایم او آفس میں کسی کام کے سلسلے میں آیا اور اس کی ٹی ایم اے ملازم سے تلخ کلامی ہوگئی جس پراس نے صدر باررانا خالد عباس کو کال کر کے بتایا ۔وہ دیگر وکلاء کے ہمراہ وہاں پہنچے ،وہاںجھگڑا ہونے پر ٹی ایم او نے سٹی پولیس کو بلا لیا ، وکلاء کی طرف سے پولیس کے خلاف نعرے بازی سے مشتعل ہوکر ایس ایچ او شہزاد وڑائچ نے فائرنگ کردی جس سے صدر بار رانا خالد عباس موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئے جب کہ ان کے ساتھی وکلاء عرفان چوہان اورجہانزیب ساہی کو تشویشناک حالت میں گوجرانوالہ ریفر کردیا گیا ، عرفان چوہان راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

اطلاعات کے مطابق ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔لاہور اور دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔منگل کو آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ ڈسکہ شہرمیں رینجر نے گشت کیا ہے۔اس سانحے کے بعد حسب روایت وزیراعظم ‘ وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے ۔تازہ اطلاع کے مطابق جوڈیشل انکوائری کا حکم واپس لے لیا گیاہے۔ ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ڈسکہ واقعے کی انکوائری کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔جس میں پولیس‘ آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمایندے شامل ہوں گے۔وزیراعلیٰ نے ٹی ایم او ڈسکہ کو معطل اور اے سی ڈسکہ کو او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

ڈسکہ کے سانحے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ افسر شاہی اور پولیس اہلکاروں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ معمولی نوعیت کے تنازع نے ایک سانحے کی شکل اختیار کر لی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ناجائز رکاوٹیں یا تجاوزات ہٹانے کے عمل کے دوران رونما ہوا ‘ اس وقت بھی موقعے پر موجود پولیس اور دیگر افسران صبر و تحمل اور درگزر کا مظاہرہ کرتے تو ایک بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ ڈسکہ میں بھی اگر پولیس کا تھانیدار غصے اور طیش کی حدود کو کراس نہ کرتا تو سانحہ ڈسکہ رونما نہ ہوتا۔یہی نہیں اگر ٹی ایم او اور اس آفس کے دیگر اہلکار حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور وکلاء کے ساتھ معاملات کو پرامن انداز میں حل کر لیتے تو شاید پولیس بلانے کی نوبت ہی نہ آتی۔

پولیس اور انتظامیہ کے افسران معمولی تنازعات کو بھی حل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں شاید ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت ہی نہیں ہے۔ ادھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک سانحہ رونما ہوتا ہے اور اس کے بعد جوڈیشل کمیٹی بنائی جاتی ہے اور پھر کوئی اور کمیٹی قائم کر دی جاتی ہے ۔یہ کمیٹیاں لمبی مدت تک اپنے اجلاس کرتی رہتی ہیں اور اس کے بعد سفارشات سامنے آتی ہیں ۔اس کے بعد ان سفارشات میں موجود سقم سامنے آ جاتے ہیں ‘یوں معاملہ کٹھائی میں پڑ جاتا ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے سسٹم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی سانحے یا واقعے کی روٹین کے مطابق تحقیق و تفتیش کرے ۔حکمران جس طریقے سے مسلسل کمیشن اور کمیٹیاں بناتے ہیں ‘اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق و تفتیش کا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔

پاکستان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی کمیٹی کی سفارشات پر حکومت نے عمل کیا ہو ۔عموماً تحقیقاتی کمیٹیاں محدود اختیارات کی مالک ہوتی ہیں اور ان کا اختیار صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ مختلف ذرایع سے معلومات اکٹھی کر کے ایک رپورٹ مرتب کر دے۔ اس کے بعد یہ معاملہ پھر حکومت کے پاس چلا جاتا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو تحقیقاتی کمیٹیاں کسی کیس کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنتی ہیں۔ سانحہ ڈسکہ نے پنجاب حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں ۔گزشتہ روز پنجاب بھر میں وکلاء نے مظاہرے کیے اور شدید ہنگامی آرائی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

وکلاء اس ملک کا پڑھا لکھا اور باوقار طبقہ ہے۔ یہ طبقہ ضیاء الحق کی آمریت سے لے کر پرویز مشرف تک جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے ۔بلاشبہ کئی معاملات میں وکلاء حضرات نے بھی حدود سے تجاوز کیا ہے‘ اور انھوں نے پولیس اہلکاروں اور نیوز کیمرہ مینوں پر بھی تشدد کیا ہے۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے ‘ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرحال ڈسکہ میں جو کچھ ہوا ‘وہ انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کی آزادانہ ‘ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق و تفتیش یقینی بنائے تاکہ جو بھی اس سانحہ کا ذمے دار ہے ‘اس کو آئین اور قانون کے مطابق سزا ملے۔

The post سانحہ ڈسکہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور ہاری تحریک

$
0
0

کسانوں کی تحریک بڑی قدیم ہے۔ 1835ء میں کشمیر کے کسانوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو ٹیکس دینے سے انکار کرنے پر سات کسان رہنماؤں سبز علی خان، قلی خان، ملی خان اور مسافر خان سمیت دیگر کو درخت پر الٹا لٹکا کر ان کی کھال کھینچی گئی تھی مگر انھوں نے معافی نہیں مانگی تھی۔ 18 ویں صدی میں جرمنی کے کسانوں نے اپنے مطالبات کے لیے بغاوت کی تھی جس پر حکمرانوں نے 30 ہزار کسانوں کا قتل کیا تھا۔

20 ویں صدی میں بنگال کے کسانوں اور آندھرا پردیش کے کسانوں نے عظیم الشان تحریکیں چلائیں۔ 1973ء میں خیبر پختونخوا میں ہشت نگر کسان تحریک اور پنجاب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان تحریک بھی زیادہ مقبول ہوئی۔ صوبہ سندھ میں پاکستان بننے سے قبل سندھ ہاری کمیٹی کا وجود تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی کے مقبول رہنماؤں میں پہومل، سید جمال الدین بخاری، عبدالقادر، سوبھو گیان چندانی، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ سائیں عزیز اللہ، کامریڈ عزیز سلام بخاری، قاضی احمد اور فیض قابل ذکر ہیں۔ ان میں مقبول ترین رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی تھے۔ وہ ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود کسانوں سے نہ صرف ہمدردی رکھتے تھے بلکہ اکثر ان کے رکے ہوئے کام بھی کر دیتے تھے۔ مگر اس عہدے پر فائز رہتے ہوئے کھل کر کسانوں کے لیے کام کرنے سے قاصر تھے۔

آخرکار انھیں اس عہدے سے کنارہ کشی کرنی پڑی اور وہ دن آ ہی گیا کہ وہ ڈپٹی کلکٹر کے بجائے سندھ ہاری کمیٹی کے کارکن بن گئے۔ اور بہت جلد اپنی لگن اور جدوجہد کی وجہ سے ہاری کمیٹی کے رہنما بن گئے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی بڑی تعداد میں حکمرانوں کو ہاریوں کے مسائل پر خطوط بھیجتے تھے۔ اس سے حکمرانوں میں کھلبلی مچتی اور کچھ مطالبات تسلیم بھی کر لیے جاتے۔ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کو ایک گاؤں میں برانچ کھولنے کا کام سونپا۔ اس گاؤں کے وڈیرے نے سادہ لوح ہاریوں کو یہ بتایا کہ ایک کافر ہمارے گاؤں میں آنے والا ہے، اس کا نام حیدر بخش جتوئی ہے۔ وہ اس گاؤں کی مسجد کو تباہ کرے گا اور ہمارے امام صاحب کی داڑھی صاف کروا دے گا۔ اس قسم کی بے ہودہ اور شر انگیز بات کر کے بے ضرر کسانوں کو بھڑکانا بڑا آسان ہوتا ہے۔

اس لیے بھی کہ ان میں مذہبی معلومات کا فقدان ہوتا ہے اور وڈیرے پیسوں کا لالچ بھی دیتے ہیں۔ کسان مسلح ہو کر جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے کہ حیدر بخش کا آتے ہی اسے کلہاڑی سے وار کر کے کام تمام کردینا ہے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی عین وقت پر گاؤں میں داخل ہوئے اور کسانوں سے پینے کے لیے پانی طلب کیا۔ سندھی خوش مزاج اور مہمان نواز ہوتے ہیں، اس لیے انھوں نے حیدر بخش جتوئی کو بیٹھنے کے لیے چارپائی پیش کی اور پانی بھی پلایا۔ پھر سندھی روایات کے مطابق خیر خیریت دریافت کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ حیدر بخش جتوئی نے کسانوں سے سوال کیا کہ ایک دن کی کتنی دیہاڑی مل جاتی ہے؟ جس پر کسانوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو روپے مل جاتے ہیں جس سے بمشکل گزارا ہوتا ہے۔

پھر کامریڈ جتوئی نے پوچھا کہ بچے پڑھتے ہیں ؟ کیا ان پیسوں میں علاج وغیرہ ہو جاتا ہے؟ ہاریوں نے کہا ’’ہم غریب کسان بچوں کو کہاں پڑھا سکتے ہیں اور علاج کے لیے بابا جان فقیر کے پاس جاتے ہیں، وہ 2/4 پیسے لے کر پھونک جھاڑ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے ان سے کہا کہ تمہاری دیہاڑی بڑھ سکتی ہے۔ علاج اور تعلیم کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے تمہیں ایک کام کرنا ہو گا۔ کسانوں نے بڑے تجسس کے ساتھ پوچھا کہ سائیں کیا کام کرنا ہے؟ کامریڈ نے کہا کہ تمہیں کسانوں کی ایک کمیٹی بنانی ہے اور اپنے مطالبات پیش کرنے ہیں۔ پھر وڈیرہ مانے یا نہ مانے ہم عدالت کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کر کے تمہارے مسائل حل کروائیں گے۔ اس پر ہاری فوری طور پر تیار ہو گئے۔

کامریڈ جتوئی نے ہاری کمیٹی تشکیل دی اور عہدیداروں کا چناؤ کیا اور جاتے وقت یہ کہہ گئے کہ ’’میں حیدر بخش جتوئی ہوں۔‘‘ اس پر ہاری حیران بھی ہوئے اور ان میں خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے حیدر بخش سے وعدہ کیا کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ جب وڈیرے کو پتہ چلا کہ حیدر بخش آیا تھا تو ہاریوں پر چراغ پا ہو گیا اور گالیاں دینے لگا۔ مگر حیدر بخش جتوئی کام تو کر گئے تھے۔ کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر وڈیرے ان پر شکاری کتے بھی چھوڑتے تھے۔ متعدد بار انھیں جھوٹے الزام میں وڈیرے قید بھی کرواتے رہے مگر وہ سچائی سے باز نہ آئے۔

وہ اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے نام سے ایک اسٹیشن کا نام بھی منسوب ہے، حیدر آباد میں حیدر چوک انھی کے نام پر رکھا گیا ہے اور چھٹی جماعت کے نصاب میں ان کی زندگی پر ایک مضمون ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں مضمون کے عنوان میں سے ’’کامریڈ‘‘ کا لفظ نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے بھی کہ طلبا اکثر سوال کرتے تھے کہ سر ’’کامریڈ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ سندھ میں لسانیت، تنگ نظری قوم پرستی اور مذہبی فرقہ واریت کی وجہ سے کسان تحریک کمزور ہوئی ہے لیکن پنجاب میں بڑھی ہے۔

پنجاب میں انجمن مزارعین پنجاب، کسان بورڈ اور پنجاب کسان اتحاد متحرک اور فعال ہے۔ چند برس قبل تقریباً آٹھ اضلاع میں انجمن مزارعین پنجاب نے زبردست اور قابل ذکر تحریک چلائی، گرفتاریاں ہوئیں، لاٹھی چارج ہوا، تشدد ہوا اور تین کسان رہنماؤں کو شہید بھی کر دیا گیا اس کے باوجود تحریک کو نہ روک پائے۔ اپریل 2014ء میں ’’پنجاب کسان اتحاد‘‘ کے بینر تلے پنجاب بھر سے 20 ہزار سے زائد کسان لاہور میں اپنے مطالبات کے لیے جمع ہوئے۔ حکومت پنجاب نے 1400 کسانوں کو گرفتار کر لیا جن میں کسان اتحاد کے چیئرمین طارق، صدر انوار چوہدری اور جنرل سیکریٹری اشتیاق بھی شامل تھے۔

جنھیں انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے رہنماؤں رہا کروایا۔ آخرکار حکومت اور کسانوں کے مابین مذاکرات کے بعد معاہدہ ہوا۔ مطالبات میں بجلی، کھاد، پانی اور بیج میں سبسڈیز دینا، مارکیٹ کمیٹی میں کسانوں کا نمایندہ شامل کرنا، اجناس کی ترسیل اور قیمتیں طے کرنے کی کمیٹی میں بھی کسانوں کے نمایندے شریک ہوں گے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کسانوں کو زرعی بینک مفت قرضے دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں 16 سے 18 فیصد سود لیتے ہیں۔ وہاں حکومت کسانوں کو کھاد اور بیج آدھی قیمت پر دیتی ہے جب کہ یہاں حکومت لاگت سے تین گنا زیادہ وصول کرتی ہے۔ ہندوستان بجلی کسانوں کو تقریباً مفت فراہم کرتا ہے جب کہ برائے نام سبسڈی ہے۔

The post کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور ہاری تحریک appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی میں دہشت گردی کا رنگ بدلتا منظرنامہ

$
0
0

کراچی میں دہشت گردی، قانون شکنی، اسٹریٹ کرائم، بینک ڈکیتیوں اور ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں کے پس منظر میں ہولناک صورتحال پیش کرتا ہے، ایک طرف جہاں دہشت گردوں کا بھرپور تعاقب جاری ہے اور ان سے قبضہ میں لیے جانے والے اسلحہ ،خود کش جیکٹ اور مختلف مقدمات اور سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کے انکشافات اورانٹیلی جنس کے ذریعے اطلاعات کے حصول میں کامیابیوں کا شور ہے وہاں شہر قائد میں دہشتگرد اور ڈکیت گروپس کی دیدہ دلیری بھی حیران کن جب کہ قانون نافذ کرنے والوں کے کریک ڈاؤن پر سوالیہ نشان ہے۔

گزشتہ روز یکے بعد دیگرے تین ہولناک وارداتوں نے کراچی کو بدامنی کے شدید جھٹکے دیے، ایک واقعہ مومن آباد کے علاقے فقیر کالونی پریشان چوک کے قریب ہوا جس میں رینجرز کے سرچ آپریشن کے دوران خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی مکان میں 5 سے زیادہ دہشت گرد تھے جن کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، ادھر سرجانی ٹاؤن ناردرن بائی پاس کے قریب زیرو پوائنٹ پر رینجرز سے مقابلے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، رینجرز نے انٹیلی جنس اطلاع پر جب چھاپہ مارا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کردی۔، رینجرز کے ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

علاوہ ازیں گلشن اقبال میں بینک گارڈ نے ساتھیوں کی مدد سے 90 لاکرز توڑ کر کروڑوں روپے مالیت کا سونا، طلائی زیورات، ملکی اور غیرملکی کرنسی ، انعامی بانڈز اور جائیدات کے کاغذات سمیت قیمتی اشیاء لوٹ لیے ، ملزم کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے پارا چنار سے بتایا جاتا ہے ۔ مرکزی ملزم کے ساتھی اور سیکیورٹی کمپنی کے دو گارڈز گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ غیر مقامی اور مشتبہ بینک گارڈز کی تعیناتی پر میڈیا کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے ، نہ اسکروٹنی کی گئی، اگر یہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں لاقانونیت اور انارکی کا منظر نامہ نہیں تو اسے کیا نام دیا جائے۔

شہریوں کو کسی پل چین نہیں ملتا۔ تاہم دوسری جانب سانحہ صفورا میں اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے جس میں پولیس کے مطابق  تازہ ترین کارروائی میں گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر گولیاں برسانے والے 2دہشت گردوں کے وہ کپڑے  برآمد کر لیے گئے جو معصوم لوگوں کے خون سے آلودہ ہیں، یہ ثبوت عدالتی کارروائی میں اہم ثابت ہوں گے۔ پولیس نے کپڑے فارنسک ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری بھجوادیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس کیس میں پہلے سے گرفتار 4ملزمان کی نشاندہی پر مزید 4ملزمان گرفتارکر لیے گئے ہیں۔ دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے احاطہ عدالت میں صحافیوں اورذوالفقارمرزا کے حامیوں پر پولیس تشدد کے واقعے پر ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبو، ڈی آئی جی ساؤتھ فیروزشاہ اور ایس ایس پی ساؤتھ چوہدری اسد کو تاحکم ثانی کام سے روک دیا جب کہ آئی جی سندھ ،اے آئی جی ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کوشوکاز نوٹس جاری کر دیے اور توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیدیا، عدالت کا استفسار چشم کشا ہے کہ پولیس کو سندھ ہائیکورٹ کا گھیراؤ کرنے کے احکامات کس نے دیے تھے، میڈیا کے نمایندوں اوردیگر پرتشدد کا اختیارکس نے دیا، ذمے دارافسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی مخدوش صورتحال گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے اور امن وامان کے قیام کے لیے بڑے پیمانہ پر اقدامات کی ضرورت کل کے مقابلہ میں آج بے حد شدید ہوگئی ہے۔ منی پاکستان کو مافیاؤں ، دہشت گردوں اور مجرمانہ عناصر کے مضبوط شکنجہ سے نکالنے کے لیے پولیس و رینجرز میں مزید اشتراک عمل اور موثر انٹیلی جنس کو یقینی بنانا شرط اول ہے۔کوئی ہے جو فغان درویش سنے!کراچی کی پیچیدہ صورت حال میں انتہائی متحرک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں کراچی کے حالات میں قدر بہتری بھی آئی ہے لیکن ابھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رینجرز پولیس اور ضلعی انتظامیہ زیادہ بہتر اور متحرک کردار ادا کریں تو کراچی کے حالات میں خاصی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ سفر بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی سوچ کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا جائے اور وہ کام کیا جائے جس سے کراچی امن کا گہوارہ بن سکے۔

The post کراچی میں دہشت گردی کا رنگ بدلتا منظرنامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

احسن اقبال، پاک چین اقتصادی راہداری اور گھاتیں

$
0
0

وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک حالیہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جناب محمد نواز شریف نے وفاقی وزیرِمنصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال کی کمٹمنٹ اور خالصتاً پیشہ وارانہ کارکردگی کی بنیاد پر نہ صرف انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے بلکہ سب کی موجودگی میں دل کھول کر انھیں شاباش بھی دی۔

اس اجلاس میں ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اہم ترین سیاستدانوں کو اس لیے مدعو کیا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں بعض اطراف سے جو گلے شکوے کیے جارہے ہیں اور غلط فہمی کی بنا پر شبہات پھیلانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں دُور بھی کیا جائے اور ناسمجھیوں کا ازالہ بھی کیا جاسکے۔ احسن اقبال صاحب کو اس عظیم منصوبے، جو پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا باعث بننے والا ہے، کے بارے میں بریفنگ دینے کا کہا گیا تھا۔

وہ نقشوں اور اعداد و شمار کی مدد سے وزیراعظم کے سامنے اے پی سی میں شامل جملہ افراد کو سمجھانے اور باور کرانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کررہے تھے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور کے حوالے سے نہ تو کوئی راستہ بدلا گیا ہے اور نہ ہی وطنِ عزیز کے کسی صوبے کو مستقبل کی خوشحالی سے محروم کرنے کی کوئی کوشش و سازش بروئے کار ہے۔

یہی وہ مرحلہ تھا جب وزیراعظم محمد نواز شریف نے جناب احسن اقبال کی تحسین بھی کی اور انھیں شاباش بھی دی۔ لاریب وزیرمنصوبہ بندی وزیراعظم کی توقعات اور آدرشوں پر پورا اترے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی سہل زبان میں دی گئی بریفنگ کے باوجود ہمارے ملک کی چند ایک سیاسی جماعتیں اور ان کے گنے چنے سربراہ صاحبان مسلسل پاک چین معاشی راہداری کے بارے میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔

چین کی مہربانی سے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے، بھارت سمیت ہمارے کئی مخالف ممالک کی دلی خواہش ہے کہ یہ بیل کسی بھی طرح منڈھے نہ چڑھ سکے۔ ہماری عسکری اور اعلیٰ سیاسی قیادت خفی و جلی الفاظ میں بھارت کے ان عزائم سے بار بار خبردار کررہی ہے لیکن بعض سیاست کاروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ وہ دانستہ نہ سمجھ کر اور اپنے اپنے نام نہاد تحفظات کا اظہار کرکے اپنے پوشیدہ ایجنڈے اور ذاتی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔

اسی وجہ سے احسن اقبال کو کہنا پڑا ہے: ’’پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارت کا چیخنا اور واویلا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اپنے کیوں شور مچا رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ آیندہ مالی سال کے بجٹ (2015-16) میں پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے دو سو پچاس ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ خدا نہ کرے کہ تازہ ترین اور پاکستان کے حق میں نہایت مفید یہ پاک چین اکنامک کوریڈور دوسرا کالا باغ ڈیم بن کر رہ جائے۔ احسن اقبال احسن انداز میں یہی بات باور کرانے کی سعی کررہے ہیں لیکن بھَد اڑانے والی قوتیں اور گروہ باز نہیں آرہے۔ کیا ہم اپنے ہی ہاتھوں سے خسارہ اٹھانے والی قوم بنتے جارہے ہیں؟

جناب محمد نواز شریف نے تیسری بار اقتدار میں آتے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ دوست ملک چین سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے گا اور بعض جہادی تحریکوں نے(سنکیانگ کے یغور مسلمانوں کے حوالے سے) اگر پاک چین تعلقات کو گزند بھی پہنچایا ہے تو اسے تیزی کے ساتھ اور شائستہ اسلوب میں بحال کیا جائے گا۔ اسی نیت کے تحت ہی وزیراعظم نے چین کا اوّلین دَورہ کرنے سے قبل، راستہ ہموار کرنے کے لیے، جو پہلا پاکستانی وفد بیجنگ بھیجا، اس کی قیادت جناب احسن اقبال کر رہے تھے۔

پیغام یہ تھا: ہم گزشتہ حکومت اور حکمرانوں سے قطعی مختلف ہیں۔ پاک چین تعلقات پر مبنی شایع ہونے والی تازہ ترین کتاب The  China – Pakistan  Axis,  Asia’s  New  Geopolitics (مصنف اینڈریو اسمال) میں لکھا گیا ہے کہ آصف زرداری نے بحیثیتِ صدرِ پاکستان اپنے دورئہ چین میں دوبار چینی قیادت سے پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن زرداری کی دونوں مرتبہ درخواستوں کو چینی قیادت نے شرفِ قبولیت نہ بخشا تھا۔ یہ استرداد نواز شریف کے علم میں تھا؛ چنانچہ اسی لیے انھوں نے بذریعہ احسن اقبال چینی قیادت کو نئے جذبات و احساسات کا حامل نیا پیغام بھیجا۔

امریکی مصنف اینڈریو اسمال نے مذکورہ بالا کتاب میں لکھا ہے کہ احسن اقبال نے وزیراعظم نواز شریف کے پیامبر کی حیثیت سے اپنا فریضہ نہایت خوبی سے انجام دیا۔پاک چین اکنامک کوریڈو کے خلاف دشمنوں کی جن چالوں سے چوہدری احسن اقبال خبردار کررہے ہیں، ان پر کان دھرا جانا چاہیے۔ خصوصاً پاکستان کے اس عظیم الشان معاشی منصوبے کے خلاف بھارت بڑے پیمانے پر جس دہشت گردی پر اتر آیا ہے، ان گھاتوں پر بھی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

بھارت کی پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان مخالف سازشوں پر اگر کوئی یقین نہیں رکھتا تو اسے 21مئی 2015ء کو بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں اٹل انیجا اور ستیابراتاپال کے لکھے گئے آرٹیکلز ضرور پڑھ لینے چاہئیں۔ ان دونوں صاحبان نے پاک چین اکنامک کوریڈور کی کھُل کر مخالفت کی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کو اس معاملے میں کتنی شدید تکلیف ہورہی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے اب تک چین کے جتنے بھی دورے کیے ہیں، احسن اقبال ہمیشہ ان کے ہمرکاب رہے ہیں کہ انھیں بیک وقت اپنے قائد اور چینی قیادت کا اعتماد اور اعتبار حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں عظیم چینی لیڈر شی چنگ پنگ نے اپنے دورے میں پاکستان کے ساتھ جتنے بھی معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے، احسن اقبال صفِ اول میں کھڑے اور تاریخی وحساس دستاویزات پر دستخط کرتے نظر آتے رہے۔

انھوں نے اعلیٰ امریکی جامعات سے جو پڑھا، پھر وہیں مختلف یونیورسٹیوں میں استاد بن کر جوپڑھایا اور گزشتہ تین عشروں کے دوران جو سیاسی تجربات حاصل کیے، اب یہ قیمتی اثاثہ وزیرِ منصوبہ بندی بن کر ان کے کام آرہا ہے۔ بیجنگ میں ان کے تعلقات کی وسعت اور گہرائی میں تو اضافہ ہوا ہی ہے، اسلام آباد میں بروئے کار چینی سفارتخانے میں بھی انھیں اعتماد اور اعتبار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ اسی کا مظہر ہے کہ احسن اقبال صاحب گزشتہ دنوں اپنے آبائی اور سیاسی حلقۂ انتخاب، نارووال، میں پاکستان میں متعین چینی سفیر اور ان کی اہلیہ محترمہ کو لے گئے۔ وہاں چینی معزز مہمانوں کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا، ایسے جیسے اپنے گھر کے دو محبوب افراد کا دل و جان سے سواگت کیا جاتا ہے۔ چینی سفیر کا احسن اقبال کے حلقہ انتخاب میں جانا اہلِ نارووال کے لیے یوں مسعود بن گیا کہ انھوں نے وہاں کے ایک مقامی سرکاری انسٹی ٹیوٹ کو جدید ترین کمپیوٹر لیب دینے کا وعدہ کیا۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ چینی وعدے کرکے مکرنے والوں میں سے نہیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی ہونے کے ناتے وہ اپنی متعینہ قومی ذمے داریاں تو نبھا ہی رہے ہیں، انھوں نے اپنے حلقۂ انتخاب میں ناقابلِ یقین حد تک ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔ شہرِ نارووال کی کایا کلپ ہوچکی ہے، حالانکہ اس شہر کا چہرہ اس وقت ہی بدل جانا چاہیے تھا جب اس ضلع کے کرتا دھرتا ایک ریٹائرڈ کرنل اور بعدازاں ایک ’’سائنسدان‘‘ تھے لیکن ان دونوں کے سیاسی ادوار و اقتدار میں اس شہر، جسے شہرِ فیض احمد فیض بھی کہاجانے لگا ہے، کی تقدیر نہ بدل سکی۔ احسن اقبال نے یہاں میرٹ کا جھنڈا بلند کرنے کی بھی اپنی سی تگ ودَو کی ہے لیکن ان کے ووٹروں نے ان سے بہت ہی بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔

وہ ان کے توسط سے اپنے ہاں ایک عدد میڈیکل کالج کے قیام کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ کاش، سیالکوٹ سے نارووال اور مریدکے سے نارووال آنے والی دونوں سڑکوں کے عذاب سے نجات مل جائے۔ ان کے ووٹروں کا کہنا ہے کہ احسن اقبال صاحب پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے سولہ ہزار فٹ بلند درۂ خنجراب سے لے کر نیچے کی جانب پاکستان بھر میں شاندار شاہراہیں بچھانے کے اچھے اعلانات تو کررہے ہیں لیکن انھیں اپنے حلقے کی ادھڑی ہوئی سڑکوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

The post احسن اقبال، پاک چین اقتصادی راہداری اور گھاتیں appeared first on ایکسپریس اردو.


یونیورسٹیاں اور انتہا پسندی کا کلچر

$
0
0

سبین محمود اور اسماعیلی برادری کے 45 افراد کو شہید کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نکلے۔ پولیس اور رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان میں سے ایک نے بزنس ایجوکیشن کے سب سے بڑے سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA)، دوسرے نوجوان نے انجنیئرنگ کی تعلیم دینے والی نجی شعبے کی واحد سرسید یونیورسٹی اور تیسرے ملزم نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

یہ گروہ کئی برسوں سے شہر میں بے گناہ افراد اور پولیس والوں کو قتل کررہا تھا۔ پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ بظاہر القاعدہ یا کالعدم مذہبی تنظیمو ں سے منسلک نہیں تھا مگر اس گروہ کے سربراہ کا اسامہ بن لادن اور ان کے جانشیں ایمن الظواہری سے رابطہ تھا۔ نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث ملزمان نے بھی امریکا کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں سزائے موت پانے والے عمر شیخ کا تعلق بھی برطانیہ کی بڑی یونیورسٹی سے ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں خودکش دھماکے میں بھی اسی یونیورسٹی کا طالب علم ملوث تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی ریموٹ کنٹرول بم کا دھماکا کرنے والے اسی یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے نکلے ہوئے کارکن تھے۔ یوں حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جدید تعلیمی ادارے بھی دہشت گردی کی پرورش کے مراکز بن چکے ہیں۔ اب تک پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات دینی مدارس پر ہی لگائے جاتے تھے جہاں غریب طالب علم مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اب متوسط اور امراء کے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی بے گناہ افراد کو قتل کرنے کے الزامات عائد ہوگئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ مذہبی انتہاپسندی سے منسلک ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کی تاریخ یوں تو انتہائی قدیم ہے مگر جدید تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے مذہبی انتہاپسندی کا دور شروع ہوتا ہے۔ افغانستان میں کامریڈ نور محمد تراکئی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا اور کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے سود کے خاتمے، عورتوں کی خریدو فروخت پر پابندی اور زرعی اصلاحات جیسے اہم فیصلے کیے۔ امریکی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پروجیکٹ میں پاکستان نے اہم کردار اداکیا۔

اس پروجیکٹ کا سب سے اہم نکتہ مذہبی انتہاپسندی کو افغانستان اور سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا، یوں ایک طرف دنیا بھر سے انتہاپسندوں کو پہلے پشاور اور کوئٹہ میں جمع کیا گیا پھر انھیں افغانستان برآمد کیا گیا۔ اسامہ بن لادن بھی ان میں شامل تھا۔ اس طرح افغان جہاد کو افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے ایک طرف مخصوص ذہن تیار کرنے کے لیے مدارس کا جال بچھایا گیا تو دوسری طرف سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں سے انتہاپسندوں کی پیداوار شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ ایک سرکاری پالیسی کے تحت ایک مذہبی جماعتوںسے منسلک طلبہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کے تقرر کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں مخصوص ذہن کے اساتذہ کا تقرر کیا گیا۔ یہ اساتذہ اب ترقی کر کے اہم عہدوں تک پہنچ گئے۔ پھر نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا۔ اردو، تاریخ اور سماجی علوم کی کتابوں میں نفرت آمیز مواد شامل کیا گیا۔ حتیٰ کہ سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی مواد کو شامل کرلیا گیا۔ پورے ملک کی طبعی سائنسز کی فیکلٹی میں ڈارون کی ارتقاء کی تھیوری کو سائنسی طرزِ فکر کے مطابق پڑھانے والا استاد موجود نہیں رہا۔

یوں صرف سماجی سائنس میں ہی نہیں فزیکل سائنس کی تعلیم میں بھی رجعت پسندی غالب آگئی۔ ملک میں غیر سرکاری یونیورسٹیوں کا جال بچھا تو ان یونیورسٹیوں میں بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جانے لگی۔ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ سماجی علوم سے دور رہے تو وہ اپنے اساتذہ کے مخصوص مائنڈ سیٹ کے سائے میں پروان چڑھے۔ یہ سلسلہ اگلی کئی نسلوں میں منتقل ہوگیا۔ اس صورتحال کے ملکی سطح پر منفی اثرات برآمد ہوئے۔ ملک میں فرقہ وارانہ خلیج گہری ہوگئی اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے نامور افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس دوران اقلیتوں کی زندگی مشکل ہوگئی۔ متنازعہ قوانین کی بناء پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

کئی جیل میں قتل ہوگئے اور جو رہا ہونے کے بعد ملک میں ہی رہ گئے انھیں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ ان افراد کے قاتلوں کو ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی کو تقویت دینے میں الیکٹرونک میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بعض ٹی وی ٹاک شوز کے اینکر پرسنز نے محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے اشتعال انگیز اور توہین آمیز مواد پیش کیا جس کے باعث مذہبی انتہاپسندی کے جراثیم معاشرے کے ہر طبقے میں سرائیت کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسوں کے علاوہ جدید تعلیم دینے والے مراکز بھی انتہاپسندی کا مرکز بن گئے۔

کچھ ماہرین اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ عالمگیریت کے اس دور میں فری مارکیٹ اکانومی کے تصور کے مضبوط ہونے کے بعد یونیورسٹیوں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں۔ عام طالب علموں نے سماجی علوم کے بجائے بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دینی شروع کردی۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سماجی علوم کے مضامین کی تعداد بڑھانی چاہیے مگر ذہن سازی کا معاملہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ تعلیمی نظام کی تبدیلی سے منسلک ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

نصاب تعلیم میں سے شدت پسندی اور فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے والے مواد کو خارج کرنا چاہیے۔ اسی طرح سائنسی مضامین کے نصاب سے بھی غیر ضروری مواد خارج ہونا چاہیے اور عالمی معیار کے مطابق ان مضامین کا نصاب تیار ہونا چاہیے۔ اساتذہ کے تقرر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کا سائنسی ذہن ہونا اور انتہاپسندی سے دور ہونا ضروری ہے۔ نصاب میں تشدد کے نقصانات کے بارے میں ہر سطح پر ابواب شامل ہونے چاہئیں تاکہ بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں اس بارے میں شعور پیدا ہوسکے۔

سب سے اہم معاملہ ریاستی اداروں کے بیانیہ کی تبدیلی کا ہے۔ حقائق کی بنیاد پر ایک روشن خیال اور سیکیولر بیانیہ ہی نوجوانوں میں انتہاپسندی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ جناح صاحب کی 11 اگست 1947 کی تقریر ہر سطح کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے اور ہر نصابی کتاب کے آخری صفحے پر یہ تقریر شایع کی جائے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اہم مقامات پر یہ تقریر ہورڈنگز پر لگائی جائے۔ الیکٹرونک میڈیا روزانہ یہ تقریر نشر کرے تو نوجوانوں کے ذہنوں میں تبدیلی کا عمل بہتر ہوسکتا ہے۔

The post یونیورسٹیاں اور انتہا پسندی کا کلچر appeared first on ایکسپریس اردو.

لفافہ کلچرکی مخالفت

$
0
0

لفافہ انسانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ دو افرادکے ملاپ کا ذریعہ ہونے کے سبب لفافہ بڑا فیورٹ اور پسندیدہ رہا ہے اور موبائل فون سے پہلے ہر گھر میں سب سے زیادہ انتظار اسی کا ہوتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ لفافے کا استعمال بھی بدلتا رہا، پھر یہ ہوا کہ جب غیر قانونی نذرانوں کی تقسیم و ترسیل کا کاروبار شروع ہوا تو اس مشکل کام کے لیے لفافہ ہی کام آیا اور جب میدانِ سیاست کے چوہدریوں نے صحافیوں میں پیسے بانٹنے کا آغاز کیا تو یہ بوجھ بھی لفافے نے ہی اٹھایا۔ لفافوں کے ذریعے مالِ حرام کی ترسیل کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ’ لفافہ کلچر’ کے نام سے ایک نیا کلچر وجود میں آگیا۔

ایک دوست بتارہا تھا کہ اس کے ضلعے کا ڈی پی او اپنے ماتحت تھانیداروں سے اور ڈی سی او پٹواریوں اور تحصیلداروں سے ماہانہ بھتّہ لیتے ہیں مگر مارکیٹ میں رشوت کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ’’لفافہ پکڑتے ہیں‘‘ ہر دو افسران نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں کہ ماہانہ نذرانہ خاکی لفافے میں بند ہو اور بروقت پہنچے ۔کسی قسم کی تاخیر کوناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔دونوں افسربہترین رپورٹوں کی بنیاد پرپروموٹ بھی ہوگئے ہیں۔

لفافہ کلچر کی بظاہر تو سبھی مخالفت کرتے ہیں لیکن ہمارے بزرگ چچا محمد اکبر خان (سابق ممبر پارلیمنٹ)تو لفافے کا نام سنتے ہی گھبراہٹ سے اچھل پڑتے ہیں۔ علی نے جب اصرار کرکے چچاسے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ سننا چاہتے ہوتو پھربیٹھواور سارا قصّہ سن لو۔

’’آپ شادیوں پر دیے جانے والے لفافے کے بارے میں تو جانتے ہوں گے یہ وہ (نیوندرے کا) لفافہ ہے جو دلہا کے  بجائے اس کے والد کو دیا جاتا ہے اور جس میں پیسے ڈالتے وقت دینے والا اپنی استطاعت سے زیادہ وصول کنندہ کے معاشی حالات اورکچھ عرصے بعدایسے ہی موقعے پر اس سے دوگنی رقم وصول ہونے کے امکانات کو پیش ِ نظر رکھتا ہے۔

قریبی رشتے دار اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ شادی کا یہ ’تحفہ‘صاحب ِ شادی یعنی دُلھا کی دست برد سے محفو ظ رہے۔ اس لیے وہ اسے بدستِ خود دلہا کے والد یا کسی ایسے ذمے دار شخص کے ہاتھ میں پکڑاتے ہیں جو انھیں ـ ’’وصول پائے‘‘کی رسید بھی لکھ دے۔ عزیزوں اور دوستوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم کبھی لفافے کے چکر میں نہیں پڑے اور دلہے یا اس کے والد کو کھلے نوٹ ہی پکڑا دیتے ہیں تاکہ لفافوں کے اضافی خرچے سے بچا جاسکے۔

مگر شادیء ھٰذا (یعنی جس کا ذکر ہونے والا ہے) پر ہمارے سیکریٹری عدنان نے سٹینڈ لے لیا اورکہنے لگا کہ ’’یہ وی آئی پی شادی ہے دوسرے لوگ بھی پیسے لفافے میں ڈال کر دیں گے اس لیے آپ بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ پیسے لفافے میں ڈال کر ہی دیں ‘‘۔ اس نے لفافے کی اہمیّت اجاگر کرنے کے لیے کچھ اورقانونی اور زیادہ غیر قانونی دلائل  دیے۔ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہمارے منیجر شبیر نے کہا کہ’’ سرجی بڑے لوگوں کا یہی طریقہ ہے اس سے لینے والے کی عزّت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اوررقم کم ہونے کی صورت میں دونوں گھروں کا بھرم بھی رہ جاتا ہے‘‘۔ہم نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے اس بار کھلے نوٹ نہیں، لفافہ دیا جائیگا۔

کار میں بیٹھتے ہوئے عدنان نے پھر لفافے کا نعرہ بلند کیا تو ہم نے کہا بھاگ کر قریبی دکان سے لے آؤ۔اتوار کو چھٹی کے باعث دکانیں بند تھیں۔ عدنان کہنے لگا۔ ’’سر شادی بڑے شہر میں ہے وہاں پہنچ کر کسی دکان سے لے لیں گے‘‘۔ شادی والے شہر پہنچے تو وہاں بھی زیادہ تر دکانیں بند تھیںبس اکادکّاہی کھلی تھیں انھی میں سے ایک دکان پرپہنچے تو ہم نے خود جا کر دکاندار سے لفافے کی بابت پوچھا تووہ کہنے لگا’’بھائی صاحب دیکھنے میں تو آپ پڑھے لکھے آدمی لگتے ہیں مگر آپ کی بات نے آپکے بارے میں قائم کیے گئے پہلے تاثر کی نفی کردی ہے‘‘۔ ہمیں دکاندار کی بات بہت بری لگی تو ہم نے بھی جواباً کہا ’’ہماری کس بات سے حضور کی شانِ اقدس میں گستاخی ہوگئی ہے مسٹر دکاندار صاحب؟‘‘ کہنے لگا ’’عام سمجھ بوجھ کا آدمی بھی جان سکتاہے مگرصرف آپکو نظر نہیں آرہا کہ یہ جنرل اسٹورہے کوئی ڈاکخانہ نہیں ہے جہاں سے لفافے ملتے ہوں‘‘۔

ہم نے اس کم پڑھے لکھے شخص سے مزید الجھنا مناسب نہ سمجھا اور آگے چل پڑے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد پھر ایک کھلی دکان نظر آئی تووہاں رک گئے مگر اس بار ہم نے خود جانے کے بجائے عدنان کو بھیجا۔ عدنان دکان سے نکلا تو ہم بہت خوش ہوئے کیونکہ اس کے ہاتھ میں ایک عدد لفافہ تھا۔ ہم نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ پیسے لفافے میں ڈالو اور جلدی چلو ہم پہلے ہی شادی سے لیٹ ہوچکے ہیں۔ اس نے لفافہ دکھاتے ہوئے کہا ’’سر جی لفافے کا گیَٹ اپ ٹھیک نہیں لگتا۔ عین درمیان میں عطر کی شیشی پتھر پر توڑنے والا شعر لکھا ہے اور اس کے بالکل اوپر جو لڑکے اور لڑکی کا فوٹو ہے اس میں دونوں کے درمیان فاصلہ بالکل ہی ختم کردیا گیاہے۔

سرجی ہم جیسے مُنڈے شُنڈے ایسا لفافہ دے دیں توخیر ہے مگر یہ آپ کے اسٹیٹس والا نہیں ہے‘‘۔ ہم نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ ’’بیوقوف ادھر شادی کا وقت نکلاجارہا ہے اور تم اسٹیٹس کا ایشواٹھارہے ہو۔ اس کام کے لیے یہ موقع مناسب نہیں، پیسے لفافے میں ڈا ل کرلفافہ ہمیں پکڑاؤ۔ہم خود دیکھتے ہیں کہ کیسا لگتا ہے‘‘۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دے دی کہ لفافے کے قابلِ اعتراض حصّوں پر انگوٹھا رکھ کر لفافہ پکڑانا۔ اب جب ہم لفافہ پکڑنے لگے تو لڑکے اور لڑکی کے جڑے ہوئے منہ بہت نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔

اس قسم کا لفافہ دینا ہمیں بیہودہ سی حرکت لگی۔ اس لفافے کو مسترد کر دیا گیامگر اس لیے نہیں کہ اس سے لڑکے کے والد کے اخلاق اور کردار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ تھا بلکہ اس لیے کہ لفافے پر لکھا ہوا شعر بے وزن تھا اور ہم جانتے تھے کہ دُلھا کا ایک چچا شاعر ہے جو بے وزن شعر سن کر سر پھوڑنے پر تُل جاتا ہے اور یہ مذکورہ سر عموماً اس کے پاس کھڑے شخص کا ہوتا ہے۔خَیر ہم شادی گھر کی طرف دوڑ پڑے ، تاخیر ہو جانے کے باعث فیصلہ ہوا کہ اب جو بھی دکان کھلی نظر آئی اس سے لفافہ لے لیا جائیگااور اب کی بار لفافے پر لکھی تحریر پر بھی اعتراض نہیں کیا جا ئیگا ۔

ہم دعائیںکرنے لگے کہ شادی گھر آنے سے پہلے لفافے کا بندوبست ہو جائے۔ اچانک عدنان بول پڑا ، سر جی وہ دکان کھلی نظر آرہی ہے‘‘ ۔ اس کے سامنے جا کر کار کھڑی کی ، یہ مٹھائیوں کی دکان تھی۔ عدنان نے جا کر مذاکرات کیے ۔ دکاندار نے کہا ’’ باؤ جی ایک شاپر میں مٹھائی ڈالی تھی کہ بلی نے لفافہ اُچک لیا، پیچھے بھا گ کر شاپر برآمد کرا لایا ہوں، اسوقت صرف وہی مل سکتا ہے ‘‘  مشیرانِ خصوصی نے رائے دی کہ شاپر نیوندرے کا سَتر ڈھانپنے کے لیے کافی ہے اس لیے شاپرکو ہی لفافہ سمجھ لیا جائے۔

ہزار، ہزار کے تین نوٹ عدنان کو پکڑائے جواس نے لفافے میں ڈال دیے ۔ اتنی دیر میں جائے وقوعہ یعنی شادی گھر بھی آپہنچا۔ عدنان کہنے لگا  ’’سر جی نوٹ کچھ بوسیدہ سے ہیں، نئے نوٹ زیادہ اچھے لگیں گے‘‘۔ ہم نے جیب سے نئے نوٹ نکال کر بائیں ہاتھ میں پکڑ لیے اور دائیں ہاتھ سے شاپر میں سے پرانے نوٹ نکالے تو یوں لگا کہ ہاتھ گھی کے ڈبّے میں چلا گیا ہے ۔ گھی سے شرابور ہاتھ صاف کرنے کے لیے قمیض کا دامن پکڑا تو دامن داغدار ہو گیا اور قمیض پر پنجے کا واضح نشان پڑ گیا۔ بہت غصّہ آیا جسکا کچھ حصہ عدنان پر نکالا کہ الّوجلدی سے نوٹ صاف کرو، اس نے کوشش کی تو دو نوٹ پھٹ گئے۔

مزید غصّہ آیا مگر برداشت کرتے ہوئے دونئے نوٹ اُسے پکڑا دیے۔عدنان کی عقل کا اندازہ لگالیں کہ عین اسوقت کہنے لگا  ’’سر جی آپ کی قمیض سے دیسی گھی کی خوشبو بہت اچھی آرہی ہے۔ حلوائی واقعی سچ کہتا تھاکہ وہ دیسی گھی سے مٹھائی بناتا ہے‘‘۔ ہم غصّے سے بولے ’’او غلط موقعے پر غلط بات کرنے والے احمق انسان! حلوائی کے لفافے سے ہمارے کپڑے تباہ ہو گئے ہیں اور تم دیسی گھی کی خوشبو سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور حلوائی کی حق گوئی کی تعریف و تحسین کررہے ہو ۔ یاد رکھو! یہ گھی کا قصیدہ یا دکاندار کے اوصاف ِحمیدہ بیان کرنے کا وقت ہرگزنہیں ہے۔

’’ اُدھر دلھا کا والد (ہمارا دوست) مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے شادی ہال سے با ہر آگیا تھا۔ فوری طور پر دو راستے نظر آئے ایک یہ کہ بغیر شرکت کیے واپس چلے جائیں مگر اُسوقت دو چار گام جب کہ لب ِبام رہ گیا ، واپس جانا اس لیے بھی مناسب نہ سمجھا کہ گھی میں بھیگے ہوئے نوٹ اب ہمارے کسی کام کے نہ تھے، ان کا بہترین استعمال یہی تھا کہ انھیں اس مبارک موقع پر دلھاکے اَبّے کے حوالے کردیا جائے۔ اس ضمن میں بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ قمیض پر لگے پنجے کے نشان کو کس طرح چھپایا جائے۔ ہنگامی طور پر حکمت ِ عملی وضع کی گئی اور طے ہوا کہ عدنا ن اور شبیر ہدایات کے مطابق آگے آگے چلیں گے اور ہم slow march کے مہمانِ خصوصی کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ مارچ شروع ہو گیا ۔

ہم نے لفافہ یعنی شاپر پنجے کے نشان کے اوپراس زوائیے سے پکڑا ہوا تھا کہ سامنے سے دیکھنے والوں کواس وقت تک نظر نہیں آتا تھا جب تک وہ بالکل قریب آکر تر دامنی کا حال بچشمِ خود نہ دیکھ لیں۔ سلو مارچ کرتے ہوئے ہم بالآخر دلھا کے والد تک پہنچ گئے، نظریں نشان پر تھیں، دائیں ہاتھ سے پنجے کو چھپاتے ہوئے بائیں ہاتھ سے شاپر اپنے دوست کو پکڑایااور مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘ آپ کے بتیّس سالہ نوجوان بیٹے کی پہلی شادی کی بہت خوشی ہوئی۔ ’’آپ کے چہرے پر تو پریشانی کے آثار نظر آرہے ہیں‘‘۔

دوست کہنے لگا ساتھ ہی اس نے کھانے کی دعوت دی، ہم نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنایا اور تیزی سے باہر نکل آئے ۔کچھ دیر بعد کن اکھیوںسے پیچھے دیکھا تو اتنا نظر آیا کہ دلھا اپنے والد کے پاس پہنچا ۔ باپ بیٹاایک دوسرے کے قریب آئے اور  پھر وہی پنجے کا نشان جو ھماری قمیض پر لگا ہوا تھا دلھا کے کوٹ پر ثبت ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ہم نے اپنی رفتار اور تیز کردی، تو علی بیٹا اس دن سے ہم لفافہ کلچر کے بہت سخت خلاف ہوگئے ہیں‘‘۔

نوٹ: مصر کے منتخب صدرڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی پارٹی پر آج کے فرعونوں نے ظلم کے پہاڑ توڑدیے۔ مگر دنیا بھر میں جمہوریت کے راگ الاپنے والے گوئیے گنگ ہیں۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے۔

برما کے بے کس روہنگیا مسلمان سمندروں اور ساحلوں پر مررہے ہیںمگر کوئی ملک انھیں سرچھپانے کی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، ان کا عقیدہ کچھ بھی ہو مگر وہ بہرحال انسان ہیں مگر انسان دوستی کی دعویدار ہزارہا تنظیمیں اور این جی اوز خاموش ہیں۔ مصر اور برما کے مظلوموں کے حق میں ایک ہی توانا آواز اٹھی ہے اور وہ ہے عالم ِ اسلام کے سب سے قدآور رہنما کی۔ طیب اردوان تم پر سلام ہو۔ خالقِ کائنات تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے!! سانحہ ڈسکہ اور پولیس اور وکلا کے رویوں کے بارے میں اگلی بار لکھوں گا۔

The post لفافہ کلچرکی مخالفت appeared first on ایکسپریس اردو.

اب بھی ہم شرمندہ نہیں ہیں

$
0
0

ہرکامیاب آدمی ایک ہی بات کہتا سنائی دیتا ہے کہ میں برابر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں کبھی کامیاب ہوتا ہوں کبھی ناکام۔ لیکن کوشش کرنا کبھی نہیں چھوڑتا کیونکہ کوشش میں ہی کامیابی چھپی ہوتی ہے کامیابی صرف آپ کے صبرکو آزماتی ہے ،یاد رہے محنت کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی یہ کوشش ہی ہے جو مجھے ورغلاتی رہتی ہے لیکن اکثر لوگ جیت کی لکیر سے چند قدم کے ہی فاصلے پر ہار مان لیتے ہیں حالانکہ جیت ان کے سامنے ہوتی ہے ہار مان لینا اعتراف شکست ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہاں میں کمزور، ڈرپوک، بزدل اورنکما ہوں ہاں مجھ میں ہمت کی کمی ہے ہاں میں جیت سے ڈرتا ہوں اور اس سے خوفزدہ ہوں ۔

ہمارے معاملے میں یہ ہی منفی رویہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے ،اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں اور ایک ہی قطار میںکھڑے ہیں ہم ہار مان کر اپنی کمزوری، نااہلی،کم ہمتی اور اپنے بزدل اورڈرپوک ہونے کا فخر سے اعلان کرتے پھرتے ہیں، حالانکہ قریب ہی جیت چلا چلا کرکہہ رہی ہوتی ہے کہ میں یہاں ہوں ، میں یہاں ہوں اور ہم ساری زندگی بہر ے اور اندھے بن کر گذار دیتے ہیں اور بار بار قسمت ، نصیب اورمقدرکو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور قسمت،نصیب اور مقدر ہکا بکا منہ پھاڑ ے ہمیں تک رہے ہوتے ہیں۔ ہم ساری زندگی نجومیوں اور دست شناساؤں کے گھروں اوردکانوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اکثر سڑک پر بیٹھے طوطا فال نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔

اخبارات اور رسائل میں موجودہ ہفتہ کے دوران آنے والے واقعات پڑھ کرکبھی خوش اورکبھی فکرمند ہوتے رہتے ہیں، کباڑیوں کی دکانوں میں الہ دین کا چراغ ڈھونڈنے کے لیے مارا مارا پھرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن کے رہ گیا ہے نصیحت کرنے والوں اور سیدھا راستہ بتلانے والوں کو برابھلا کہہ کر ہی ہمیں تسکین ملتی ہے اور تو اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کو بھٹکانے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں کامیابی اور خوشحالی کی سیڑھی پر اوپر جانے والوں کے پاؤں پکڑ پکڑ کر انھیں نیچے گھسیٹنے کی پوری طاقت سے کوشش کرتے رہتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں انھیں خوب برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں ہرکامیاب اور خوشحال شخص سے ہمیں ازلی بیر ہے اگر ہمارا بس چلے تو انھیں بھی اپنا ہی جیسا بنا لیں ۔

غیبت ،حسد ،جلن اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا رویہ ہمارے خون میں دوڑتا پھر رہا ہے۔ دوسروں میں کیڑے نکالنا ہماری عادت بن گئی ہے، دوسروں کی اچھائیاں سننے سے ہمیں نفرت ہوگئی ہے، سچ بولنے والوں کو مارنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ہر اچھی بات پرآگ بگولہ ہونا ہماری فطرت بن کے رہ گیا ہے، ایک سوتے شخص کو جگانا بہت آسان ہے لیکن جاگتے کو جگانا بہت مشکل ہے ہم کبھی وہ نہیں بن پائے جو چاہتے تھے اور وہ بن گئے ہیں جو نہیں چاہتے تھے اب ہم صرف شکو ے کرنے والی قوم بن چکے ہیں اور ساتھ ساتھ معجزوں کے انتظار میں بیٹھی قوم بھی ۔

کسی دور دراز گاؤں میں ایک ایسے دانا بزرگ رہتے تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم اور غورو فکرکے لیے وقف کی ہوئی تھی ۔ ان کی حکمت ودانش کا چرچا دور دور تک پھیلا ہوا تھا ہرخاص وعام اپنی الجھنیں سلجھانے ان ہی کے پاس جاتا اور وہ ہرمسئلے کا حل فوراً بتا دیتے۔ اسی گاؤں میں چند شریر اورکھلنڈرے لڑکے بھی رہتے تھے وہ بھی کبھی کبھار کسی سوال کا جواب پانے بزرگ کے پاس جاتے اور وہ ہرمرتبہ انھیں ایسا صحیح جواب دیتے کہ لڑکے حیران رہ جاتے بارہا سوال کرنے اور ہر بارصحیح جواب پانے سے تمام لڑکوں نے بزرگ کو غلط ثابت کرنے کا منصوبہ بنایا، بڑی سوچ بچار کے بعد ایک لڑکے کو ایک چال سوجھی کہ وہ اپنی مٹھی میں ایک چڑیا لے جا کر ان بزرگ سے یہ پوچھے گا کہ آیا یہ چڑیا زندہ ہے یا مردہ۔ اگر بزرگ نے کہاکہ چڑیا زندہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی زور سے دبا کر چڑیا کو مار دے گا اور اگر انھوں نے جواب دیا کہ چڑیا مردہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی کھول کر چڑیا کو اڑا دے گا، یو ں دونوں حالت میں بزرگ جھوٹے ثابت ہوجائیں گے۔

تمام لڑکے بزرگ کی دانش مندی آزمانے ان کے پاس گئے اور ایک لڑکے نے کہا۔ بزرگ میری مٹھی میں ایک چڑیا ہے آپ بتائیے کہ یہ زندہ ہے یا مردہ ۔ بزرگ نے بات سن کر ایک نگاہ لڑکوں کے چہروں پر ڈالی ہلکا سا مسکرائے اورکہنے لگے بیٹا پرندہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے اور تمہیں اختیار حاصل ہے کہ تم اسے ماردو یا زندہ رکھو وہی کچھ ہو گا جو تم چاہو گے ‘‘آج ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم نے چاہا تھا ورنہ کیا ہم وہ فیصلے اورغلطیاں کرتے جو ہم نے کی ہیں یاد رہے کامیابی یا ناکامی انتخاب ہوتی ہے کبھی بھی کامیابی یا ناکامی یکایک وقوع نہیں ہوتی بلکہ ہمارے کیے گئے ان گنت فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔

آئیں …ایسا کرتے ہیں کہ آزادی کے پہلے روز سے لے کرآج تک کیے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات پر نظر دوڑاتے ہیں تو آج جو نتیجہ منہ پھاڑ ے ہم پر ہنس رہا ہے کیا اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نکل سکتا تھا، آپ اپنے آپ سے خود پوچھ کر دیکھ لیں اس لیے ہماری ناکامی ہمارا خود اپنا انتخاب ہے ورنہ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں جس طرح ہم نے چلایا ہے کیا ملکی فیصلے اور اقدامات ایسے ہوتے ہیں جیسے ہم نے کیے ہیں۔

معاف کیجیے گا معمولی آدمی بھی ہم سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوگا۔ ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ اب بھی ہم شرمندہ نہیں ہیں،اب بھی اپنے آپ کو قصور وار نہیں ٹھہراتے ہیں اور بے شرموں کی طرح سارا کا سارا الزام غیر ملکیوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ ہم سمجھے بیٹھے ہیں کہ پوری دنیا ہمیں مٹانے پر تلی بیٹھی ہے، بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں کامیاب،خوشحال،آزاد، ترقی یافتہ نہ ہوسکیں اس سوچ پر اگر عقل کا ماتم نہ کیاجائے تو پھر کیا کیا جائے آپ ہی بتلا دیں ۔

The post اب بھی ہم شرمندہ نہیں ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ۢۢۢۢیہ لوگ ٹارزن نہیں (دوسرا حصہ)

$
0
0

ٹارزن کو تہذیب جدید کی مکاری سے چڑ تھی۔اسے نام نہاد لوگوں کی ثقافت اور دوغلے پن سے شدید نفرت تھی۔ صحافی بھی مکارلومڑی نہ بنے،اس سے مولانا روم بننے کی بھی فرمائش نہیں ہے، مگر صحافی کا بے داغ قلم ٹارزن کے خنجر کی طرح کا ہونا شرط ہے،جس سے وہ گلشن کے بدنما حصوں کو مالی کی طرح کاٹتا چھانٹتا ہے۔ جنگل بوائے ڈرائنگ روم دانشوروں، تجزیہ کاروں، سیاسی مبصروں، سقراط نما اینکروں سے قطعی مختلف تھا، میری ذاتی رائے ہے کہ ٹی وی کے اس بے ہودہ ڈبہ Idiot box اوربزدل دیو timid Giant نے پرنٹ میڈیا کے حسن کوگہنا دیا، ’’خراب کرگئی شاہیں بچوں کو صحبت زاغ۔‘‘ قلم سے نکلے ہوئے دل نشین الفاظ اور موتی جیسے خیال آفریں معانی کو ٹی وی چینلز کی ساحرائوں نے کسی قابل نہیں رکھا۔

میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوا، پرنٹ میڈیا کو تھکے ہوئے گھوڑے کا طعنہ ملا، جب کہ الیکٹرانک میڈیا کوگلیمرکی نئی تہذیبی چکاچوند ملی۔ لفظ شرمندہ ہوئے ، چرب زبان جیت گئے۔ ٹارزن کے قول وفعل میں مصنف نے کسی قسم کے تضاد کی آمیزش نہیں رکھی، وہ اینکر ایک چینل کا اورکالم نویس دوسرے اخبارکا نہیں تھا۔اس کی جنگل سے کمٹمنٹ تھی ایگزیکٹ کے چنیدہ نامور، بزعم خود سچے، انقلاب ومسابقت کے علمبردار اور سونامی بکف و تبدیلی بدوش سینئروائس پریزیدنٹ صحافیوں کی اپنے پیشے سے مالیاتی وابستگی کتنی ہے ، ’’بول‘‘ نے ثابت کیا کہ پیسہ بولتا ہے۔

ورنہ لاکھوں کے پیکیج سے کھیلنے والوں کو غارت گر ہوش ٹولہ بن کر صحافتی طوفان اٹھانے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ انھوں نے فاقہ مست اورسالانہ انکریمنٹ کے انتظار میں رہنے والے مڈل کلاس عامل صحافیوں کی عزت نفس پر حملہ کیا، ان کو حقارت سے ٹھوکر مارکر ایکزیگٹ کے در پر جبیں سائی کی۔ مقصد پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں انقلاب برپا کرنا نہیں تھا ۔ چینل کی بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانا تھا۔ یہ صحافت کی محفل میں نقب زنی کی سب سے بڑی واردات تھی۔

برصغیرکی قدیم و جدید صحافت نے عوام میں فکری شعورکی شمع جلانے کا مشن جاری رکھا ، کئی مالکان اخبارات نے اس کارخیر میں نام پیدا کیا، برٹش راج سے ٹکر لی، قیام پاکستان کے بعد ملک کے کئی بڑے شہروں سے روزنامے اور جرائد نکلے، وہ بند بھی ہوئے، سرکولیشن برائے نام رہی، معاشی عذاب سہتے رہے، مگر فراڈ کاموں سے بچے رہے، جنہوں نے زرد صحافت اختیارکی وہ مین اسٹریم جرنلزم میں ہمیشہ ’’کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ مانیست‘‘ کے نعرہ مستانہ سے سہمے رہتے تھے ۔

فہرست دینے کی ضرورت نہیں، سب ان عظیم صحافیوں کی درویش صفتی اور قلم کی حرمت و تقدس پر مر مٹنے کی آرزو سے واقف ہیں۔ٹارزن کو جنگل کی تہذیب اورجدید تہذیب کے مروجہ آداب و خیالات اور تمدن کے درمیان پیمان وفا کا درجہ حاصل ہے، اس کی دلیری اور بے خوفی سے قبائل کو ایک آفاقی پیغام ملتا تھا کہ ظالم اور باطل قوتوں کے خلاف اس کی جنگ اصولوں پر جاری ہے اور وہ ظلم کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔

ٹارزن نے اپنی بلا شرکت غیرے طاقت کو ریاستی دہشت گردی میں بھی بدلنے نہیں دیا، اپنے مزاج اور جرات وشجاعت کو سیاسی مصلحتوں سے آلودہ نہیں کیا ، اس نے جنگل میں اپنی ایمپائر ’’مسٹری میڈیا‘‘ کے سماجی لومڑیوں، جمہوری گیڈروں اور معاشی لگڑبھگوں کے اشتراک و اتحاد سے مستحکم نہیں کی،نہ آئی ٹی کی ٹیکنالوجی کی بازی گری اور تعلیمی جعل سازیوں سے ۔ مال و منال ، سرمایہ کاری کا دام فریب ، بزدلی وپسپائی اس کی سرشت میں نہیں، اس سے تو جسمانی و ذہنی طاقت، رفتار، لچکیلے پن، لہوگرم رکھنے کی صد ہزار جہتیں، تحمل و استقامت ، دفاعی تدبیریں، حملہ کرنے کی دنداںشکن مہارت، حساسیت پیراکی کی بے مثل صلاحیت کی توقع رکھی جاتی تھی۔

ٹارزن جسمانی لحاظ سے وحشی کلچر کا اسیر تھا مگر اس وحشی کردار کو اس کے پیکر ساز مصنف ایڈورڈ بارو اور دیگر نے وحشی شریف کے طور پر پیش کیا، جن لوگوں نے انتھونی کوئن کی فلم ’’سیوج انوسنٹ ‘‘ Savage Innocent دیکھی ہے وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ایگزیکٹ اور بول کے پروگرام ، شیڈول ، منشور ،ایجنڈے ، انفرااسٹرکچر ، انتظامی ساخت ، تخلیقی پھیلائو اور جارحانہ مارکیٹنگ میں صحافتی اقدارکی بنیادی ضروریات کا عمل دخل کتنا تھا۔ میں نے بول کی لیاری پر ڈاکومنٹری دیکھی ہے ۔کیا گلاب کے پھول تھے اس میں؟ کیا پورا گلشن لیاری مہک اٹھا تھا؟ ویسے کئی دستاویزی پروگرام دیگر چینل نے بھی ٹیلی کاسٹ کیے۔ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ۔ پاکستانی کلچرکی بدنصیبی ہے کہ برس ہا برس سے دشت صحافت میں تعلیمی حوالے سے داخلے کی کوئی ممانعت نہ تھی، کئی واجبی اور بے ادب لوگ راتوں رات صحافی بن گئے۔

یہ بات اے کے بروہی نے 70 ء کی دہائی میں امریکن لائبریری کے احاطے میں ہونے والی ایک خصوصی سیمینار میں کہی تھی جس میں جاوید جبار نے بھی شرکت کی تھی اوراظہار خیال بھی کیا تھا۔ان دنوں ہم جونیئر رپورٹر تھے ، ناصربیگ چغتائی اور راقم الحروف نے آگے پیچھے مساوات جوائن کیا تھا، وہ ڈیسک پر چلے گئے مجھے اخبارکے ایڈیٹر جناب شوکت صدیقی نے رپورٹرکی جاب دی۔ کیا زمانہ تھا کہ شیر شاہ کالونی پر ہمارے پہلے فیچر کی نوک پلک میرے استاد احفاظ الرحمٰن نے درست کی۔وہ مساوات کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔

شہزاد منطر ، ذکی حسن اورطاہر احمر ادارتی ٹیم کے رکن تھے۔ 73 ء میں ہم نے مساوات میں کسی ایگزیکٹ یا بول جیسے ادارے کی کوئی جھلک نہیں دیکھی۔ رپورٹراور فوٹوگرافر اکثر پیدل چل کر اسائنمنٹ کور کرتے۔521 روپے تنخواہ تھی۔ مگرجاوید چوہدری کے استدلال اور ان کے سوالات جو بول جوائن کرنے والوں نے پوچھنے کی بوجوہ ہمت نہیں کی بہت سارے سوالوں کا ازخود واضح جواب ہیں۔ یہ کون سی صحافتی سلطنت کے قیام کی تیاری تھی کہ جن کا ان صحافیوں سے کوئی نظریاتی، فکری اور پیشہ ورانہ رشتہ نہیں جنہوں نے عام آدمی کی خاطر، سماجی تبدیلی اورریاستی ڈھانچے میں جمہوریت اور عدل وانصاف کے لیے برہنہ پا سفرکیا، فاقے کیے ، برطرفیاں برداشت کیں، ان نیوز فوٹوگرافرز، رپورٹرز اور فیچر رائٹرزکو آپ کیا نام اورمقام دیں گے جنہوں نے پیدل چل کر صبح وشام بلکہ رات گئے تک بھوکے پیاسے اسائنمنٹ مکمل کیے ؟ ان کی تنخواہ اس وقت کے مالی معیار اورکرنسی کی قدرکے حوالے سے بقدر اشک بلبل ہوا کرتی تھی۔ مگر قناعت اور صبر صحافت کا اصل جوہر تھی۔

میرے مشاہیر، سینئر صحافی اسیر حرص نہیں تھے،اگر پیشہ صحافت کی آبرو وہ نہیں تھے تو کیا کروڑوں کے ڈبہ پیر جیسے پیکیج والے ہمیں آج صحافتی سلطنت کے سٹیڈیم یا ایڈیٹوریم میں بتائیں گے کہ اخبار اور چینل کس طرح تباہی مچاتے اور حریف و مقابل معاصر اداروں کو روند ڈالتے ہیں ۔ وہ منظر عام پر آکر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی حشرسامانیوں کا انوکھا تھیٹر سجائیں گے، راتوں رات سرکولیشن ،اشتہارات اور ریڈرشپ و ویورشپ سمیٹ کر شیر مادر کی طرح پی جائیں گے۔چند روز میں ہزاروں ورکنگ جرنلسٹس کو بیروزگارکردیں گے۔

مگر ہمارے سینئرز اپنے پیشہ صحافت کی آبرو بنے رہے ۔ میں فخر ماتری، عثمان آزاد ، عبدالکریم عابد، شیخ عزیز ، اخترعالم ، اے ٹی نظامی، جمیل زبیری ، قادرنظامانی،خواجہ رضی حیدر، شہر یارجلیس، پرویز بشیر، حسین اعظمی،عارف الحق عارف، نوراللہ ہاشم ، شیخ عزیز، جاوید بخاری، عبدالرئوف عروج ، ایس کے پاشا، ایس آر غوری، ظفر قریشی، نظام صدیقی، علی اختر رضوی ، شمیم احمد، ایس ایم آزاد،عبدالحمید چھاپرا، ظفر رضوی ، شفیع عقیل ،صلاح الدین پراچہ ، فاروق پراچہ، یونس ریاض،الیاس رشیدی، رقیب پونا والا،الطاف رانا ، مجیب الرحمان، نسیم شاد ، احمد حمید، رفیع احمد فدائی،آفتاب سید،محمود شام، صدیق بلوچ ،جبار خٹک،خالد علیگ، طفیل احمد جمالی، فرہاد زیدی، امداد نظامی ، قمر عباس جعفری ، مناظر صدیقی ، سید محمد صوفی ، مولانا صلاح الدین، افسرآذر، ابوالاخیار، اشفاق بخاری،آئی ایچ برنی ، منصورعالم ،ایس آرغوری، انور حسین، ضمیر نیازی، حمید جہلمی، ہمایوں ادیب، جمیل انصاری ،محمدعلی صدیقی،

محمد علی خالد، علی احمد خان، رضا علی عابدی ، شفیع نقی جامعی ، سلیم عاصمی، عباس ناصر، وقار انبالوی، رانا خالد اور ان گنت رجحان ساز صحافیوں اور ساتھیوں کو فراموش نہیں کرسکتا، میں ان خوش نویسوں کو یاد رکھتا ہوں جنھوں نے مجھے لفظ کی حرمت کا احساس دلایا ، جن کی بالواسطہ یا بلاواسطہ رہنمائی ، نصیحتوں اور شفقت نے صحافت کو شجر سایہ دار بنائے رکھا۔ بعض اہل صحافت پوچھیں گے کہ میڈیا میں غالب کی آبروکیا تھی ۔کیا وہ میرؔ سے بھی زیادہ سادہ ثابت ہوئے، یا نرے احمق تھے، ان کا کوئی گھر نہ تھا ، بیوی بچے نہ تھے، معاشی آسودگی ان کا مسئلہ نہ تھا،ان اور ان کے بچوں کا کوئی مستقبل نہ تھا، یا وہ یوں ہی بے منزل سی زندگی کو آگ لگا کر آتش صحافت میں بے خطر کود پڑنے کو تیار تھے۔

(جاری ہے )

The post ۢۢۢۢیہ لوگ ٹارزن نہیں (دوسرا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

’’مردہ ڈالر‘‘ کا پیدا کردہ عالمی معاشی بحران (دوسرا حصہ)

$
0
0

اسی کتاب کے صفحے 315 پر ڈنمارک کی حکومت نے جنوری 1925 کوامریکا کو 4 کروڑ ڈالر کے مساوی سونا (19 لاکھ 35 ہزار 17 اونس سونا) دیا، جس پر امریکا نے جو 6.009 Krone کا ایک ڈالر تھا سونے کی وصولی کے بعد وہی کرونی Krone جون 1925 کو 4.960 کرونی کا ایک ڈالر کا کردیا تھا۔

کتاب “Currencies After the war” by league of Nations London 1920 کے صفحے 167 پر لکھا ہے کہ ارجنٹائن کی حکومت نے مئی 1915 کو امریکا سے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ یورپی ملکوں کے ’’کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ کا فائدہ امریکا نے بھرپور اٹھایا۔ ان ملکوں سے سونا حاصل کیا۔ان ملکوں کو امریکی سر پلس اشیا مہنگی فروخت کیں۔ ان ملکوں کے مالیاتی سسٹم میں ’’پونڈ‘‘ کو ہٹا کر’’ڈالر‘‘کو داخل کردیا۔

یورپی ملکوں کے کرنسی ایکسچینج بحران اور یورپ کا سونے کے معیار سے ہٹنے کا امریکا نے یہ فائدہ اٹھایا کہ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں جو پہلے ہی بحران کا شکار تھیں۔ ان کی قیمتیں قرضے دینے، تجارت اور نقد ڈالر سپلائی کرنے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم کرنا شروع کردیں۔ یورپی ملکوں کی بڑی کمزوری ان کی معیشت میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کا داخل ہونا تھا۔ سرمایہ دارانہ سسٹم میں منڈی مقابلے میں صنعتکار زیادہ سے زیادہ معیاری اشیا اور سستی اشیا عوام کو فراہم کرتے ہیں۔ زیادہ اشیا پر کم نفع پھر زیادہ نفع بن جاتا ہے۔ برطانوی کیپٹلزم کے مقابلے میں امریکا نے نیا ’’مالیاتی میکنزم‘‘ استعمال کیا۔ یہ میکنزم معاشی و مالیاتی Currency Devaluation minus Economic Development کا میکنزم تھا۔

1921 میں ایک ملک کی کرنسی کی قیمت میں 10 فیصد کمی، 6 ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں 20 فیصد کمی، 1922 میں 8 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 15 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1923 میں 11 ملکوں کی کرنسی میں 10فیصد کمی، 15 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1924میں 12 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 22 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1925 میں 21 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 26 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی ہوچکی تھی۔

کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی CDMEDکے نتیجے میں امریکا نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ڈالر کے مقابلے میں کمی والی کرنسی کے ملک میں صنعتی کلچر میں لاگتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا سے آنے والی اشیا کے مقابلے میں مقامی اشیا کی قیمتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ اس طرح کرنسی کی قیمتوں کے نتیجے میں امریکا کے مقروض ملکوں کا صنعتی کلچر تباہ ہوتا گیا جو پہلے ہی جنگ سے تباہ ہوچکا تھا۔

امریکا کے لیے مقروض ملکوں کا خام مال، ذرایع اور لیبر سستی ہوتی گئی۔ یاد رہے امریکی مالیاتی میکنزم سڈمڈCDMEDکے لگنے سے مقروض ملکوں کی معیشت منفی ہوتی گئی یعنی کرنسی کی قیمتوں میں کمی کی نسبت مقروض ملکوں کی مجموعی معیشت پر غیر ملکی امریکی غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ پڑتا گیا۔ CDMEDسڈ مڈ کی شکل میں امریکی ڈالر کے استعمال کرنے پر غیر اعلانیہ ریونیو ڈالر ٹیکس مقروض ملکوں کو امریکی ڈالر کے استعمال کرنے پر ادا کرنا پڑا۔ یعنی ان ملکوں کے صنعتی کلچر کی لاگتیں ڈالر CDMEDلگنے سے بڑھتی گئیں۔ باہر سے آنے والی امپورٹ سستی ہوتی گئی اور ملکی اشیا امپورٹ کی ہوئی اشیا سے مہنگی ہوتی گئیں۔ اس طرح معاشی بحرانی، بے روزگاری، صنعتی کلچر تباہ ہوتا گیا۔

امریکی قرضوں، سڈمڈ کے امریکی شکار ملکوں کا عوامی سرمایہ سامراج کی طرف زیادہ امپورٹ کی شکل میں اور ہر سال سود کی ادائیگی کا بوجھ بڑھتا گیا۔ جس سے عالمی سطح پر معاشی بحران بتدریج بڑھتا گیا۔ صرف جون 1931 کو امریکا نے مقروض ملکوں سے سود کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ وصول کیے تھے۔ یاد رہے کہ فرانس نے امریکی مالیاتی سازش کو بھانپ لیا تھا اسی وجہ سے فرانس نے 1927 میں لین دین کے لیے سونا طلب کرنا شروع کردیا تھا۔ کتاب International Currency Experience by league of Nations 1944 کے صفحے 234 پر دیے گئے اعداد و شمارکے مطابق فرانس کے پاس 1927 میں ڈالر فارن ایکسچینج 850.0ملین ڈالر تھا اور گولڈ ریزرو 954.0 ملین ڈالر تھا۔ 1928میں فارن ایکسچینج ریزرو 287.0 ملین ڈالر تھا۔ گولڈ ریزرو 1254.0 ملین ڈالر تھا۔

1930 میں فارن ایکسچینج ریزرو 1027.0 ملین ڈالر اور گولڈ ریزرو2099.0 ملین ڈالر تھا۔ 1931 میں فرانس کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 842.0 ملین ڈالر اور گولڈ ریزرو 2699.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں فارن ایکسچینج ریزرو 176.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا اور گولڈ ریزرو 3257.0 ملین ڈالر تک بڑھ گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی ڈالر عالمی مارکیٹ میں اعتماد کھو چکا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر امریکا کے قرضوں اور دوسرے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرکے CDMED سڈ مڈ سے امریکا اپنے غیر پیداواری اخراجات متاثرہ ملکوں کی معیشت میں منتقل کر رہا تھا۔

ایک طرف CDMEDسڈمڈ لگا کر مجبور ملکوں کا صنعتی کلچر تباہ کرکے اپنی برآمدات بڑھا رہا تھا۔ دوسری طرف سڈمڈ لگا کر ان ملکوں کے وسائل سستے حاصل کر رہا تھا۔ تیسرا CDMEDکے ذریعے اپنے کم سے کم سرمائے ڈالر کے ذریعے مجبور ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے مزید ان ملکوں کے صنعتی کلچر کو تباہ کرکے نفع امریکا منتقل کر رہا تھا۔ کیونکہ مقامی سرمایہ ’’دستیاب وسائل‘‘ کی حد تک ہی ’’محدود گردش‘‘ کرنے لگا تھا۔ زیادہ وسائل پر غیر ملکی ڈالر سرمایہ کاری کی شکل میں قابض ہوچکا تھا۔ جوں جوں غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری جس جس ملک میں جتنی بڑھتی گئی توں توں ایسے تمام ملکوں میں معاشی بحران بڑھتا گیا۔ اور پھر آخرکار ان ملکوں نے مردہ ڈالروں کو واپس امریکا کرنا شروع کردیا تھا۔

قابل غور بات ہے کہ جب غیر ملکی سرمایہ کاری سے وسائل مقامی صنعتکاروں کے لیے محدود اور مقابلے کی سکت نہیں پاتے، تو ملکی صنعتکار باہر کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جتنی بڑھتی ہے اتنی ہی ساتھ غیر یقینی بڑھاتی ہے۔چوتھا ان ملکوں کو ڈالر قرضے میں جکڑ کر ان سے سود در سود وصول کر رہا تھا۔

یہ تمام اسباب ’’عالمی معاشی بحران‘‘ کی بنیاد بنے تھے۔ جوں جوں ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہوتے گئے توں توں ان ملکوں کا اعتماد امریکا سے اٹھتا گیا۔ کتاب The Course and Phases of the World Economic Depression league of Nations. Switzerland Geneva 1931 کے صفحے 313 پر درج ہے کہ معاشی بدحالی کے بڑھتے جانے کے بعد 19 ستمبر 1931 کو دوسرے ملکوں نے برطانیہ کو سونے کے بدلے 200.0 ملین پونڈ واپس کردیے۔ دباؤ کے مزید بڑھنے کے بعد 21 ستمبر 1931 کو برطانیہ نے پونڈ کے بدلے سونے کی ادائیگی بند کردی۔ اس کے ساتھ ہی Scandinavian Countries نے بھی سونے کی ادائیگیاں بند کردیں۔

(جاری ہے )

The post ’’مردہ ڈالر‘‘ کا پیدا کردہ عالمی معاشی بحران (دوسرا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

خواب قابل تعزیرہیں!

$
0
0

ترقی یافتہ ممالک سے واپسی پر انسان گہری سوچ میں گم ہوجاتاہے۔صاف محسوس ہوتاہے کہ ہم ہرآنے والے دن میں تنزلی کاشکارہیں۔تنزلی بھی ایسی کہ دنیاکی تمام مہذب اورترقی یافتہ قومیں ہم سے خوف زدہ ہیں لیکن ہمارے مقتدر طبقے نے قسم کھارکھی ہے کہ ہمیں ترقی کے سفرپرکسی صورت روانہ ہونے نہیں دینگے۔

یہ کالم ابوظہبی کے ائیرپورٹ پرلکھ رہاہوں۔ یہاں دیدہ زیب دکانیں،ریستوران،کیفے اورآرام کرنے کی سہولتیں موجودہیں۔یہاں کوئی کسی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہیں دیکھ رہا۔کئی خواتین نے نقاب لیاہواہے اور اکثرمغربی لباس میں۔ ابوظہبی ایک اسلامی ملک ہے۔ جب ان لوگوں نے محسوس کرلیاکہ اگر وہ دنیاکے ساتھ قدم ملاکرنہ چلے،تو تاریخ کے جزدان میں گم ہوجائینگے توپھر ہمارا مسئلہ کیاہے؟ کیا ہمارے ملک کادین ان عربیوں سے مختلف ہے؟یہ ایک بہت مشکل سوال ہے۔مگراب آنے والے دنوں میں اس پرسیر حاصل بحث ضرورکرونگا۔

ماسکومیں میرااورہمارے سرکاری وفدکاہرسرکاری اور غیرسرکاری سطح پررابطہ رہا۔پہلی بات تویہ کہ روسی حکومت پاکستان کے قطعاًخلاف نہیں ہے مگرہمارے حکومتی حلقے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں پس وپیش کا شکار ہیں۔ماضی کی گرہیں ہم بہت مشکل سے کھول سکتے ہیں۔ مگر صاحبان! ان رکاوٹوں کوعبورکیے بغیرہم ان رستوں پرروانہ ہوسکتے ہیں جنکی کوئی منزل نہیں۔ آپکے لیے شایدیقین کرنامشکل ہو لیکن روس میں اَن گنت نوجوان طالبعلم اورطالبات اردوسیکھنے میں مصروف ہیں۔وہاں اردوپڑھانے والے روسی اساتذہ موجود ہیں۔ٹھیٹھ پنجابی زبان بولنے والے بھی ہیں۔

خالص سکھوں کے لہجے میں!حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیسے کیا،بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ کیوں کیا۔ وہاں،ایک تعلیمی دسگاہ میں گیا۔زیرتعلیم بچوں اوربچیوں نے اردوکے متعلق انتہائی مدبرانہ سوال کیے۔ایک نوجوان لڑکی نے پورے وفد سے پوچھاکہ آپ پاکستان میں اردوکے کن کن ادیبوں کو پڑھتے ہیں۔سعادت حسن منٹوسے لے کر دورِ حاضر تک کے درجنوں نام گنوادیے۔اس لڑکی نے ان میں اکثرلکھاریوں کو پڑھا ہواتھا۔

ایک نوجوان طالبعلم نے نلترمیں پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹرکے حادثہ کے متعلق پوچھاکہ کیاوہ طالبان نے کیایاوہ واقعی ایک حادثہ تھا؟ میں نے میکینکل خرابی کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ نوجوان چپ ضرور ہوگیا مگر وہاں یہ تاثرعام ہے کہ یہ ایک حادثہ نہیں بلکہ طالبان کی دہشت گردی ہے۔بہرحال اس تاثرکوزائل کرنے کی مکمل کوشش کی کیونکہ میں ذاتی طورپراس اَمرکاقائل ہوں کہ یہ محض ایک حادثہ تھا۔لیکن اسطرح کے حادثے صرف ہمارے ملک میں کیوں ہوتے ہیں؟ میرے پاس اپنے اس سوال کاکوئی بھی جواب نہیں!

پاکستان کے متعلق سینٹرمیں سوال وجواب کی طویل نشست ہوئی۔وہاں روس کے دانشور، مفکر، لکھاری اور اہل علم موجودتھے۔مجھے ایسے محسوس ہواکہ یہ لوگ ہمارے ملک کوہم سے بہترجانتے ہیں۔سینٹرکے پروفیسرسرگی ستر برس کے تھے۔ان کے سوالات انتہائی سنجیدہ اورتیکھے تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے پاکستان اورچین کے حالیہ معاہدوں پربحث کی۔ ان کی ماہرانہ نظرمیں پاکستان میں وہ اسطاعت نہیں کہ ان معاہدوں کی تکمیل کرپائے۔ پروفیسر نے ہمارے سیاسی نظام پرمکمل تحقیق کی ہوئی تھی۔

بہرحال اس کے جواب میں ظفرحسن نے پوری دلیل سے بات کی۔ظفرحسن شنگھائی میں چھ سال پاکستانی حکومت کی جانب سے قونصل جنرل رہے ہیں۔ مگر پروفیسرنے اپنی رائے تبدیل نہیں کی۔وفدکے ایک رکن عصمت اللہ کاکڑ نے بلوچستان کے اندرونی حالات پرسیر حاصل بحث کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹراکرم نے پاکستان کے ٹیکس کے نظام پر بھرپور بات کی۔میری ذاتی رائے ہے کہ ہمارے وفدکی باتوں کاان پربھرپوراثرہوا۔نشست کے اختتام پرایک خاتون پروفیسرنے سوال کیاکہ ہم لوگ انگریزی کیوں بول رہے ہیںجب کہ ہندوستان وفدان سے ہندی میں بات کرتا ہے۔

جاپانی وفدجاپانی بولتاہے۔میرے پاس صرف ایک دلیل تھی کہ اس محفل میں اردوبولنے اورسمجھنے والوں کی تعداددس فیصدسے بھی کم تھی لہذاہم میں اکثراس زبان کاسہارالینے پر مجبورتھے جوسب کوسمجھ آتی ہے۔بہرحال وہ پروفیسرمیری بات سے متفق نہیں ہوئی۔انکانام پروفیسر لوڈیلاواسلوا تھا۔یہ اردودان ہیں اورانکوہماری مختلف حکومتوں نے کئی اعزازی انعامات سے نوازاہے۔ڈاکٹرسرگی اور ڈاکٹر لڈمیلاواسلواروس کے حکومتی حلقوں میں بہت احترام کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔

وفدکے ہمراہ پروفیسروکٹرکریمنکوف سے ملنے کا اتفاق ہوا۔یہ امریکا پرتحقیقی ادارہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ڈاکٹر وکٹر کانظریہ تھاکہ روس اس لیے ترقی نہیں کررہا کہ وہ صرف اورصرف اسلحہ اورجنگی سامان بنانے اور بیچنے کواپنا ہنر سمجھتاہے۔اس کے بقول فوج اورجدیداسلحہ بے معنی چیزیں ہیں۔کہنے لگاکہ روس ایٹم بم توبنا سکتا ہے مگرکارنہیں بنا سکتا۔ جنگی جہازتوبناسکتاہے مگر کھانے پینے کی اشیاء میں خودکفیل نہیں۔ ڈاکٹر وکٹرکے بقول اصل ترقی عام لوگوں کی خوشحالی میں پوشیدہ ہے۔ وکٹر نے سویت یونین کی عظمت کوبھی دیکھا تھااوراس کو بکھرتے بھی۔ دلیل سے کہتاتھاکہ مضبوط فوج کسی بھی ملک کوبہت کمزور کر سکتی ہے اورسویت یونین اس کی ایک مثال ہے۔

بین الاقوامی سطح کے طلباء اورطالبات کے لیے روس کی ہر یونیورسٹی میں انتہائی منظم نظام موجودہے۔رشین صدارتی اکیڈمی اسی طرزکاایک بہت مستحکم اورعالیشان ادارہ ہے۔ یہاں غیرملکی لوگوں کے لیے مواقع فراہم کیے گئے ہیں کہ وہ سائنس، آرٹس اورتجارت سے منسلک تمام علوم آسانی سے سیکھ سکیں۔روسی زبان کے لیے طلباء کوایک سال کاایک کورس کروایا جاتاہے جسکی کوئی فیس نہیں۔ وہاں کافی تعدادمیں پاکستانی لوگ زیرتعلیم ہیں اوران کی تعدادروزبروزبڑھ رہی ہے۔وہاں میری ملاقات ڈاکٹرمتالی متراسے ہوئی۔انکاتعلق دہلی سے ہے اوروہ بہت شائستہ اردوبولتی ہیں۔

سیاسیات اورشعبہ تجارت میں پی ایچ ڈی ہیں۔عرصہ درازسے اس صدارتی سینٹر سے منسلک ہیں۔اردوشاعری اورادب پرگہری نظر تھی۔ میرتقی میر، غالب،اقبال،فیض احمدفیض کے بے شمار اشعار ازبر تھے۔ ماسکوکے چمبرآف کامرس کے صدر سورن داردن بان کاکہناتھاکہ پاکستانی تاجرروس کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے میںناکام رہے ہیں۔ان کے بقول وہ ہمارے تجارتی شعبہ سے بھرپورتعاون کرنا چاہتے ہیں مگرہماری طرف سے کوئی بھی آگے بڑھنے کو تیارنہیں۔یہ ہمارے نجی شعبہ کی بے حسی ہے یا ان کا غیرفعال ہونا!یہ تبصرہ کم ازکم میں نہیں کرنا چاہتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں نااہلی بھی شامل ہو؟

ہمارے سفارت خانے کے افسران کامران تاج اور جعفربھی انتہائی بھلے لوگ ہیں۔وہ جس طرح ہمارے وفد کے ہمراہ دن رات مصروف کار رہے، وہ واقعی قابل تعریف عمل ہے۔دونوں کاتعلق سندھ سے ہے۔ پاکستان کے سفارت خانے میں ایک عجیب مرددرویش سے ملاقات ہوئی۔ اس کانام اطہرقیوم ہے۔پانچ سال سے سفارت خانہ میں پریس اتاشی ہے۔انتہائی پڑھا لکھا اور عاجز انسان۔کافی حدتک ملامتی صوفی۔ ماسکو کے ادبی حلقوں میں اس شخص کی بے پناہ عزت ہے۔ بذات خودکئی کتابوں کا منصف اور مترجم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک شرمیلا سا شاعر بھی۔ تعجب ہواکہ وہ سرکاری نوکری کے باوجود پڑھنے لکھنے میں اتنامتحرک کیسے رہ گیا۔اطہراتنی نفاست اور شائستگی سے اپنے تمام ہنرکو چھپاتا ہے کہ کئی بارشک ہونے لگتاہے کہ وہ واقعی شاعراورمصنف بھی ہے یاوہ کوئی اور اطہرقیوم ہے۔ مگر اصل میں دونوں رخ ایک ہی شخصیت کے ہیں۔ اطہرقیوم کی کتاب “نقشِ ثانی”سے چند اشعار آپکی نذرکرتاہوں

اب فکرگرانباریِٔ زنجیرنہیں ہے
لیکن یہ مرے خواب کی تعبیرنہیں ہے
اس شہرکی تقدیرمیں لکھی ہے تباہی
وہ شہرجہاں علم کی توقیرنہیں ہے
صدحیف،خیالات کے اظہارپہ قدغن
صدشکرمرے خوابوں پہ تعزیرّنہیں ہے

ہمارے علم دشمن معاشرہ میں یہ بھی غنیمت ہے کہ بہترمستقبل کے خواب دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں۔ان پرکسی قسم کی کوئی سزا نہیں۔ مگرمیراخیال ہے کہ یہ مہلت بھی بہت کم رہ گئی ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں اسطرح کے خواب دیکھنے پربھی کڑی سزاتجویزکی جائے گی۔بندآنکھوں سے ملکی ترقی اورخوشحالی کے خواب دیکھنابھی قابل تعزیرقرارپایاجائیگا۔وہ وقت بہت نزدیک نظرآرہاہے۔بہت نزدیک۔شائدشاہ رگ سے بھی قریب!

The post خواب قابل تعزیرہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

اعزاز احمد آذر

$
0
0

اعزاز احمد آذر کے انتقال کی خبر مجھے ملتان میں ملی جب کہ اگلے دو دن مجھے بہاولپور میں ہونا تھا سو میں نہ تو اس کی نماز جنازہ میں شامل ہو پایا اور نہ ہی قل خوانی میں حاضری دے سکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور افسوس رہے گا۔

فون پر اس کے برادر خورد عزیزی افتخار مجاز سے تعزیت کرتے ہوئے کم و بیش 45 برس کی رفاقت اور ملاقاتیں آنکھوں میں پھیلتی چلی گئیں ،اس کا خوش رو، خوش لباس اور خوش آواز وجود زندگی سے کس قدر بھر پور تھا۔ اسے وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو اعزاز احمد آذر کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا ہونے سے پہلے وہ جس قدر متحرک تھا اسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی لیکن اس سے زیادہ خوشگوار حیرت گزشتہ چند برسوں میں ہوئی۔

جب وہ آپریشن کے مراحل سے گزرنے اور اس سے ملحقہ مسائل کے باوجود ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، رسائل اور ادبی تقریبات میں ایسی باقاعدگی اور مستعدی کے ساتھ نظر آتا رہا جو کسی بھی جوان اور صحت مند آدمی کے لیے باعث رشک ہوسکتی تھی۔ البتہ حالیہ چند ملاقاتوں میں اس کے چہرے اور چال ڈھال سے ایک اضمحلال کی کیفیت محسوس ہوئی لیکن اس کی گفتگو کی وہ شگفتگی ہمیشہ قائم رہی جو اس کی شخصیت کا سرنامہ تھی۔

اعزاز احمد آذر نیشنل سینٹرز کی ملازمت کے دوران خاصا عرصہ لاہور سے باہر رہا لیکن جہاں جہاں بھی رہا وہاں کے لوگ اب تک اسے یاد کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا محفل باز، مجلسی اور شگفتہ مزاج ، مگر ذمے دار شخص تھا جس کی صحبت میں گزارہ ہوا وقت کوالٹی ٹائم بن جاتا تھا کہ وہ اپنی ہم عصر ادبی و سماجی زندگی کی ایک چلتی پھرتی ڈکشنری تھا۔ جس سے اس کا ہر ملنے والا فیض یاب ہوا۔ آپ اس سے کسی موضوع یا شخصیت پر بات کریں وہ ہمیشہ اس کے ضمن میں کچھ بالکل نئی اور دلچسپ معلومات فراہم کرتا تھا اور حیران کر دیتا تھا۔

گزشتہ چند برسوں سے اس کی بیشتر نثری تحریریں انھی یادداشتوں پر مبنی تھیں جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کیسی بھرپور، مکمل اور متحرک زندگی گزاری ہے اور اس کی آنکھ کیسے کسی شخصیت کے ان پہلوئوں کو بآسانی دیکھ پاتی تھی جن میں سے بیشتر اس کے دیگر جاننے والوں کی نگاہوں سے یا تو اوجھل رہے یا پھر وہ ان کو اس طرح سے سمجھ اور بیان نہیں کرپائے جو اس کا حق بنتا تھا اور جسے اعزاز احمد آذر نے بخوبی ادا کیا۔

دوسرے لفظوں میں اس کا مشاہدہ لاجواب تھا اور یہ بڑی خوبی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے بڑے اور کامیاب گیت نگار تنویر نقوی کے بارے میں اس نے جس تفصیل اور خوب صورتی سے لکھا اس کا دسواں حصہ بھی کہیں اور نظر نہیں آتا۔

ٹی وی اینکر اور میزبان کی حیثیت سے بھی اس نے بے شمار عمدہ اور یاد رہ جانے والے پروگرام کیے جن میں سے بعض میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا بالخصوص عید کے موقعوں پر اس نے ادبی بیٹھک کی طرز پر جو بے تکلف اور پر مزاح گفتگو پر مبنی چند پروگرام پیش کیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ ان میں ہماری تاریخ اور تہذیب کے وہ عکس محفوظ ہوگئے ہیں جن کو دیکھنے والی آنکھیں اب آہستہ آہستہ خود آذر کی آنکھوں کی طرح بند ہوتی جا رہی ہیں۔

نیشنل بک فائونڈیشن کے غزل کیلنڈر کے مطابق اس کا یوم ولادت 25 دسمبر 1942ء ہے اس حساب سے اس دارِ فانی میں اس کا قیام 72 برس اور کچھ مہینے رہا۔ اگرچہ بطور شاعر اس کا شمار ہمیشہ اپنے دور کے مقبول شعرأ میں رہا لیکن زیادہ شہرت اس کی نظم ’’فرض کرو‘‘ اور اس غزل کو ملی جسے اس کیلنڈر میں بھی اس کی نمایندہ غزل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں بھی یہ انتخاب بالکل درست ہے۔ دونوں کی تائید کے لیے میں یہ غزل درج کرتا ہوں۔

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا
بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا
یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا
کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا

اگرچہ عام طور پر شاعروں کی وفات کے بعد ان کی شاعری سے ایسے اشعار نکالے جاتے ہیں جن میں موت کی پرچھائیاں رقص کرتی ہوں لیکن کیا اس غزل کے مقطعے میں واقعی آذر نے اسی ’’احتیاط‘‘ سے کام نہیں لیا؟ اعزاز احمد آذر کے ساتھ ہمارے درمیان سے ایک اچھا شاعر، انسان اور اینکر پرسن ہی نہیں اٹھا بلکہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا ایک خزانچی اور ایک زندہ استعارہ بھی رزق خاک ہوگیا سو آئیے اس کو اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے رب کریم سے ان اعلیٰ انسانی اور معاشرتی اقدار کی بھی خیر مانگتے ہیں جن کے فروغ اور تسلسل کے لیے وہ ساری عمر کوشاں رہا۔

The post اعزاز احمد آذر appeared first on ایکسپریس اردو.


سعودیہ میں خودکش حملہ

$
0
0

مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے حوالے سے سعودی عرب کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے اور سعودی عرب میں ہونے والی اس قسم کی وارداتوں پر مسلمانوں کی تشویش ایک فطری امر ہے۔ یمن میں ہونے والی خون ریزی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں شدید اضطراب میں مبتلا ہیں اور یمن کے بحران کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عرب اتحاد کی تنظیم کے زیر اہتمام یمن پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان عرب ملکوں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر باغیوں کو یمن میں نہ روکا گیا تو ان کا رخ سعودی عرب اوردیگر خلیجی ممالک کی طرف ہو جائے گا۔ اس خطرے کے پیش نظر سعودی عرب نے اب فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ فوجی ایکشن کا بھی آغاز کر دیا ہے ۔

اس مہیب خطرے کے پیش نظرخلیجی عرب حکمرانوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یمن کی جنگ میں شرکت سے انکار پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ داعش اب سعودی عرب میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو پھیلانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے گاؤں قدیح اور گزشتہ روز دمام میں خودکش حملے کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جا سکتا ہے۔

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں یمن کے جنگجوؤں سے ایک خطرہ تو سعودیہ اور دیگر عرب حکمرانوں کو لاحق ہو گا۔ دوسرا ممکنہ خطرہ سعودیہ میں موجود مقامات مقدسہ کو ہو سکتا ہے۔اس معاملے میں کس حد تک صداقت ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جہاں تک ان ملکوں کے حکمرانوں کو خطرے کا تعلق ہے‘ جمہوری ملکوں کو اس کی فکر اس لیے نہیں کہ ان ملکوں میں صدیوں سے خاندانی حکمرانی کا رواج جاری ہے جسے جدید دنیا مسترد کرتی ہے اور ان مسائل کا اصل سبب بھی اس طرز حکمرانی ہی میں تلاش کرتی ہے۔ جدید دنیا کا فلسفہ یہ ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور آمریت کے حوالے سے خاندانی حکمرانی کو سب سے بڑی آمریت سمجھا جاتا ہے اگر کوئی گروہ آمریت کو ختم کرنے کے لیے آگے آتا ہے تو اس کی مخالفت نظریاتی طور پر ممکن نہیں رہتی۔

بدقسمتی سے عرب دنیا مجموعی طور پر ابھی تک چھوٹی بڑی آمریتوں کے چنگل ہی میں پھنسی ہوئی ہے اگر ان ملکوں میں تیل کی دولت نہ ہوتی اور عوام معاشی عسرت سے دوچار ہوتے تو اب تک ان ملکوں میں سیاسی ڈھانچے تبدیل ہو چکے ہوتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار امریکا محض اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوریت دشمن طاقتوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے پاکستان میں فوجی آمر ضیا الحق کی امریکا کی طرف سے حمایت اور اسے روس کے خلاف استعمال کرنا اس حوالے سے ایک بدترین مثال ہے۔

عرب ملکوں کے آمرانہ طرز حکمرانی میں استحکام کا ایک بڑا سبب امریکا کی موقعہ پرست پالیسیاں ہیں، امریکی بدقماش تھنک ٹینک اور حکمران طبقات کا خیال ہے کہ آمرانہ حکومتیں اس کے لیے جمہوری حکومتوں سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب طرز حکمرانی میں تبدیلی آنی چاہیے اور اندرونی اور بیرونی فیصلوں کا اختیار شاہی خاندانوں کے بجائے عوام کو ملنا چاہیے لیکن موجودہ زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ عوام اور جمہوری ملک، مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی اور خاندانی حکمرانی میں سے ترجیحات کا تعین بڑی احتیاط سے کریں۔

خاندانی حکمرانیاں اور آمریت بلاشبہ جدید طرز سیاست میں ماضی کی بدنما یادگاریں ہیں لیکن مذہبی انتہا پسندی کی خطرناک آندھی جس بے رحمی سے انسانیت اور انسانی تہذیب کو روند رہی ہے اس کے پیش نظر دنیا کی اولین ترجیح اس انتہا پسندی کا خاتمہ ہی ہو سکتی ہے۔

یمن کی تاراجی ہی پہلا اور اکیلا المیہ نہیں بلکہ عراق، شام، پاکستان، مصر، الجزائر سمیت بیشتر افریقی ملکوں میں مختلف ناموں کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے اس کے پیش نظر اب دنیا کے ہر ملک کی اور عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بے رحمانہ بے سمت اور بے معنی مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکنے میں موثر کردار ادا کریں‘ اس پس منظر میں یہ مسئلہ صرف سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں یا ان ملکوں کے طرز حکمرانی کا نہیں رہ جاتا بلکہ یہ مسئلہ کرہ ارض پر انسانوں اور انسانی تہذیب کی بقا کا مسئلہ بن جاتا ہے اور انھیں اس کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے۔

22 مئی کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف کے گاؤں قدیح کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے میں اخباری خبروں کے مطابق 20 نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے زخمیوں میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔گزشتہ روز سعودی عرب کے شہر دمام میں اس قسم کا حملہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہ بزدلانہ حملے قابل افسوس اور قابل مذمت ہے لیکن یہ وحشیانہ حملہ نہ غیر متوقع ہے نہ حیرت انگیز۔ پوری مسلم دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔عراق ‘لیبیا ‘صومالیہ اور افغانستان میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں۔

دہشت گردی کی ان وارداتوں میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی کا شکار مسلم ملکوںکا انتظامی ڈھانچہ اور معیشت زمین بوس ہو چکی ہے اور لوگوں کا معیار زندگی انتہائی پستی میں چلا گیا ہے۔ دوسرے ملکوں کو چھوڑیے پاکستان بھی دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک مقام صفورا چورنگی پر بس میں گھس کر دہشت گردوں نے جس سفاکی سے 45 مردوں خواتین اور بچوں کو شہید کیا یہ پرانا نہیں نیا المیہ ہے۔

سانحہ صفورا نے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو اس لیے زیادہ دکھی کر دیا کہ جس کمیونٹی کے 45 افراد کو بیدردی سے شہید کر دیا گیا وہ کمیونٹی انتہائی امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والی کمیونٹی مانی جاتی ہے جس کا سیاست اور سیاسی جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حیرت اور تعجب اس بات پر ہے کہ سانحہ صفورا کے حوالے سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں میں سوائے ایک کے باقی تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشت گرد ہیں۔یہ پہلو پورے معاشرے کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

دنیا میں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں جو 57 مسلم ملکوں میں آباد ہیں۔ ان 57 مسلم ملکوں میں آباد مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے دینی فرائض صدیوں سے بلاخوف و خطر انجام دے رہے ہیں اس پس منظر میں نفاذ اسلام کے نام پر مسلم ملکوں میں جو سفاکانہ دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور خاص طور پر مسجدوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس قدر حیرت انگیز اور دل دہلا دینے والا سلسلہ ہے کہ پوری مسلم دنیا اس وحشیانہ کلچر سے خوفزدہ ہے اور حیران ہو کر سوچ رہی ہے کہ مسجدوں میں مسلمانوں کے قتل اور بے گناہ مسلمانوں کو سیکڑوں کی تعداد میں بے دردی سے ذبح کرنے کا اسلام سے کیا تعلق بنتا ہے؟

The post سعودیہ میں خودکش حملہ appeared first on ایکسپریس اردو.

تشدد کا رجحان

$
0
0

ڈسکہ میں ایس ایچ او کی فائرنگ سے وکلاء کی مقامی بار ایسو سی ایشن کے صدر اور ایک وکیل کے قتل کے بعد لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس سے معاشرے کے بحران کا معاملہ پھر آشکار ہوا۔ ڈسکہ میں وکلاء ڈی سی او کے رویے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

مشتعل وکلاء کے رویے سے ڈی سی او اور ان کے عملے کو خطرہ محسوس ہوا، تو پولیس طلب کر لی گئی اور ایس ایچ او نے بار ایسوسی ایشن کے صدر کو براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے ان پر سرکاری پستول سے فائرنگ کر دی،  جس کے نتیجے میں  دو وکلاء جاں بحق  جب کہ مزید ایک وکیل اور ایک راہگیر زخمی ہوئے۔ ڈسکہ میں وکلاء اور نامعلوم افراد پر مشتمل ہجوم نے سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا۔

پنجاب بھر کے وکلاء نے ڈسکہ کے وکلاء کی پیروی کی،  جس کی وجہ سے عدالتوں میں دو دن تک تمام کام معطل رہا۔ اس واقعے میں پولیس اور وکلاء نے تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کی۔ پنجاب میں پولیس تشدد ایک ضرب المثل کی حیثیت بن چکا ہے۔ پنجاب پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے مخالف افراد، گروہ اور غریب لوگوں پر تشدد اس کا شعار ہے۔ عمومی طور پر حکمرانوں کے احکامات کی اطاعت میں تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پولیس کی قدیم روایت ہے۔

برطانوی  دورِ حکومت سے پنجاب میں پولیس نے حکومت کے اقتدار کو مضبوط کیا۔ پہلے صرف سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، پھر عام آدمی کو بھی نشانہ بنا کر پولیس کی دھاک بٹھا دی گئی۔ انگریزوں کے دور میں امرتسر میں جلیانوانہ باغ میں ہزاروں افراد پر بہیمانہ فائرنگ اور سیکڑوں افراد کی ہلاکت متحدہ پنجاب پولیس کا بدترین کارنامہ تھا۔ اس وقت ضلع افسر جنرل ڈائر کے حکم پر ہندو ستانی باغیوں کا قتلِ عام ہوا تھا تا کہ لوگ انگریز حکومت کو چیلنج کرنا چھوڑ دیں۔

آزادی کے بعد حکمرانوں نے پولیس کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال جاری رکھا،  جس کی وجہ سے پولیس کو تشدد کا لائسنس مل گیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پولیس کو مخالفین کو کمزورکرنے کے لیے استعمال کیا مگر 1988ء اور 1999ء تک پولیس کے سیاسی استعمال کے مواقع کم ملے۔ گزشتہ برس ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمے داریاں بھی پولیس پر عائد کی گئی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک سال بعد پھر سے ڈسکہ میں پولیس افسروں نے تشدد کا راستہ اختیار کر کے دو وکیلوں کو شہید کیا۔ پولیس کے تشدد کی روایت تو قدیم ہے مگر وکلاء نے بھی جس طرح پورے پنجاب میں تشدد کا سہارا لیا وہ بھی ایک بنیادی سوال ہے۔ سینئر وکلاء کہتے ہیں کہ وکلاء میں اجتماعی طور پر تشدد کے رجحانات نہیں تھے، وکلاء نے فوجی آمروں کے خلاف تحریک میں ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ 60 برسوں کے دوران آمروں نے وکلاء کے جلسہ جلوس روکنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا مگر وکلاء نے جواب میں کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔

2007ء میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں وکلاء کا تشدد آمیز کردار ابھر کر سامنے آیا۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں چیف جسٹس افتخار چوہدری پاکستان کے ہر بڑے شہر میں گئے۔ ان کی تقریر سننے کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے، اسی طرح افتخار چوہدری کے جلوس میں شریک وکلاء کی بھاری تعداد نے پرامن احتجاج کی نئی روایت قائم کی تھی۔ جب الیکشن کمیشن کے سامنے وکلاء پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جمع کیے گئے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری پر احتجاج کر رہے تھے تو اسلام آباد پولیس کے وکلاء پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔

مگر وکلاء نے جواب میں تشدد آمیز رویہ اختیار نہیں کیا تھا مگر وکلاء کی عظیم تحریک کے خاتمے کے بعد وکیلوں میں تشدد کا عنصر تقویت پا گیا۔ پہلے وکلاء نے لاہور کچہری میں آنے والے پولیس افسران کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا،  وکلاء نے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پنجاب بھر کے وکلاء کے علاوہ دیگر صوبوں کے وکلاء نے بھی تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، یوں پولیس کا تشدد پسِ پشت چلا گیا۔

وکلاء نے پولیس والوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پنجاب بار کونسل نے ڈسکہ کے وکلاء کے قتل کا مقدمہ ایک ماہ میں نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پنجاب میں اس سے پہلے قتل ہونے والے وکلاء کے مقدمات پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوا ہے۔ اس دفعہ وکلاء نے گھیراؤ جلاؤ کر کے ایک اور بری مثال قائم کی۔ نوجوان وکلاء کا اپنے سینئر رہنماؤں کی بات پر دھیان نہ دینا بھی اہم معاملہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مخصوص مفادات حاصل کرنے کے لیے وکلاء میں موجود ایک گروہ نے احتجاج کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔

مگر پنجاب کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وکلاء کے تشدد آمیز رویہ پر بات نہ کر کے سیاسی شعور کا ثبوت دیا۔ وکلاء رہنماؤں کو احتجاج کے دوران عدالتوں کے بائیکاٹ کے طریقہ کار کا متبادل تلاش کرنا ہو گا۔ ڈسکہ میں حکام کی جانب سے پولیس کے ایس ایچ او کی گرفتاری کے بعد بھی وکلاء کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ انھوں نے پورے صوبے میں پرتشدد مظاہرے کیے اور سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا گیا۔

وکلاء نے اہم شاہراہوں پر دھرنے دیے اور یہ بات محسوس نہیں کی کہ فٹ پاتھ اور سڑکوں پر تشدد کا بے دریغ استعمال کیا۔ پولیس اور قانون کے محافظوں کی جانب سے قانون پر عملدرآمد سے روزی کمانے والوں میں تشدد کے رجحانات معاشرے کی سلامتی کے لیے خطرناک رجحان ہے۔ یہ محض کسی ایک پولیس افسر کے رویے کا نہیں اور نہ ہی چند سو وکیلوں کے تشدد کا معاملہ ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں تشدد کے پھیلاؤ کے اثرات کا اظہار ہے۔ ان واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ تشدد کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے کا ذہن کتنا خطرناک ہے۔ وکلاء رہنماؤں، پولیس افسروں، منتخب نمایندوں، اساتذہ، ماہرینِ نفسیات اور ابلاغیات کے ماہرین کو اس اہم مسئلے کی وجوہات اور خاتمے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔

The post تشدد کا رجحان appeared first on ایکسپریس اردو.

اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق… بڑی کامیابی

$
0
0

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے جمعرات کو بلائی گئی دوسری آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے چین،پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی متفقہ طور پر منظوری دے دی جب کہ گوادر کو چینی شہر کاشغر کے ساتھ ملانے کے لیے مغربی روٹ کو ترجیحی طور پر تعمیر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ قومی معاملات پر اتفاق رائے اور افہام و تفہیم کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں،پاک چین دوستی سیاست سے بالاتر اور تمام جماعتوں کے لیے یکساں ہے،حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو شفاف بنانا چاہتی ہے،اقتصادی راہداری منصوبے کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمایندگی ہو گی۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کچھ سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے اور انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اس منصوبے کے روٹ میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔ ان سیاستدانوں کی جانب سے احتجاج سامنے آنے کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے کہ کہیں یہ منصوبہ باہمی سیاسی انتشار کا شکار نہ ہو جائے اس لیے حکومت نے بارہا یہ اعلان کیا کہ اس منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی مگر یوں لگتا تھا جیسے حکومتی وضاحت کے باوجود احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہو رہیں۔ لہٰذا حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے مستقبل میں سامنے آنے والی سیاسی انتشار اور افتراق کا بروقت ادراک کرتے ہوئے تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے بلائی گئی دوسری آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے  پر پیدا ہونے والے تحفظات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور تمام پارلیمانی جماعتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں متفق ہو گئیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں خورشید شاہ،اسفند یار ولی،فاروق ستار،مولانا فضل الرحمن،سراج الحق،شاہ محمود قریشی،مشاہد حسین،محمود اچکزئی،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ قومی منصوبے پر جنم لینے والے اختلافات کو تمام پارلیمانی جماعتوں نے افہام و تفہیم سے حل کر لیا ہے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے سبق سیکھا ہے اور سڑکوں پر آ کر ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے بجائے افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی جو خوش آیند ہے، ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے قومی سیاست کا مرکزی نقطہ اور نصب العین ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے۔ اقتصادی کوریڈور پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے سے نہ صرف چینی حکومت  بلکہ پوری دنیا کو بھی مثبت پیغام پہنچا ہے،اگر اس منصوبے پر پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق نہ ہوتا تو خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ اختلافات کی نذر نہ ہو جائے اگر ایسا ہوتا تو یہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتا اور غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے سے احتراز برتتیں۔

دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ خلیل اللہ قاضی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں واضح طور پر کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے بھارتی منصوبے سے بخوبی آگاہ ہیں،بھارتی میڈیا اس منصوبے کے خلاف مہم شروع کیے ہوئے ہے جو مثبت بات نہیں،یہ کوریڈور پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے پاکستان اور چین نے اس پر عملدرآمد کا تہیہ کر رکھا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے بیان سے کافی عرصے سے ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں گوادر کو کاشغر کے ساتھ ملانے کے لیے مغربی روٹ کو سب سے پہلے تعمیر کرنے پر اتفاق کیا گیا،وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بتایا کہ مغربی روٹ حسن ابدال،میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب سے ہوتا ہوا گوادر جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق راہداری منصوبے کے تحت سڑکیں،ریل نیٹ ورکس،ایئرپورٹس اور سی پورٹس تعمیر کی جائیں گی،راہداری کے ساتھ اقتصادی زونز اور پاور ہاؤسز بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چین پاکستان میں 86 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں 34 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لیے ہیں۔

اختلافات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن قومی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کو اختلافات کی بھینٹ چڑھانا کسی قوم کی سب سے بڑی بدقستمی ہے۔ اب اقتصادی راہداری منصوبے پر تمام پارلیمانی جماعتوں کا متفق ہونا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سیاستدانوں کی سوچ میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو اکٹھا کر کے بڑی اہم کامیابی حاصل کی ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ اب وہ کالا باغ ڈیم سمیت دیگر قومی مسائل کو بھی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور اس میں اسی طرح کامیابی حاصل کریں جس طرح اقتصادی راہداری منصوبے پر حاصل کی گئی ہے۔

The post اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق… بڑی کامیابی appeared first on ایکسپریس اردو.

آم عام کیوں ہیں؟

$
0
0

الفانسو، کیسر، چونسہ، قلمی، لنگڑا، طوطا پری، تخمی، دسہری، سندھڑی، فجری، انور ریٹول، ثمرِ بہشت، سرولی، الماس، امرپھلی، بینگن پھلی، بمبئی، نیلم، کلکٹر، دلکش، گلابِ خاص، لاہوتی، لال بادشاہ، مالدہ، نواب پوری، رانی پھول، صالح بھائی، شانِ خدا، تیموریہ، طوفان، زعفران، محمد والا، بادشاہ پسند، ملغوبہ، بادامی، چتوڑ، رومانی، حسن آرا، امام پسند،جہانگیر، سرخا، بھوگ، نناری، رتنا، سفیدہ، ونراج، یحیی مریم، زرد آلو، ہیم ساگر، لکشمی، ملائکہ، لانسی ٹیلا، منی لیتا، مومی کے، روبی، پامر، سائگون، اسپرٹ آف سیونٹی سکس، سن سیٹ، ینگ، نمرود، جکارتہ، اطاؤلفو، کالی پڈ، اینڈرسن، جین ایلن، بروکس، ڈنکن، ایڈورڈ، ایلڈن، ایمرلڈ، فورڈ، گلین، گولڈ نٹ، گراہم، ہیڈن، ہیچر، آئس کریم، ارون، آئیوری، کینزنگٹن پرائڈ، کینٹ۔۔۔ابھی تو نام شروع ہوئے ہیں۔

اور کس پھل کے بھلا اتنے نام ہیں۔ کون سا بادشاہ ہے جس سے لوگ اتنا انس رکھتے ہیں علاوہ آم بادشاہ، کہ جس کی جنم بھومی برِ صغیر ہے۔ امبیکا دیوی کی مورت ہی دیکھ لیں۔ ہزاروں برس سے آم کی چھاؤں میں براجی ہے۔

اور کیا ڈھائی ہزار برس سے ساون، انبوا کا پیڑ، پیڑ پے جھولا اور جھولے میں پینگیں بھرتی ناری پیڑھی در پیڑھی ہمارے ساتھ ساتھ نہیں؟ کالی داس کے ڈرامے سے امیر خسرو  کے گیت اور غالب کے قصیدے سے ٹیگور کی نظم ’’آمیر منجوری‘‘ تک ایک ہی سلسلہ تو چلتا چلا آ رہا ہے۔ کہتے ہیں اکبرِ اعظم آم کا ایسا عاشقِ اعظم تھا کہ دربھنگا میں ایک لاکھ پیڑ لگوا دیے۔ تب سے چیتاونی ہے کہ آم کھائیے گا کہ پیڑ گنیے گا۔ کشمیر کے دوشالے سے کانچی پورم کی ساڑھی تک آج بھی سب سے بکاؤ وہ ملبوسات ہیں کہ جن پر آم کے پتے یا پھل کی کشیدہ کاری ہو۔

اب تو آم کی سلطنت نوے سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے مگر پچاس ملین ٹن میں سے آدھے آم آج بھی برِ صغیر (بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پیدا ہوتے ہیں۔  اسی لیے تو آم بھارت اور پاکستان کا قومی پھل اور بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے۔  اکیلے بھارت میں دنیا کا بیالیس فیصد آم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، پاکستان، میکسیکو، انڈونیشیا، برازیل، بنگلہ دیش، فلپینز اور نائجیریا کا نمبر ہے۔

چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں برِصغیر سے آم نے بودھ بھکشوؤں کے ہمراہ جنوب مشرقی ایشیا ہجرت کی اور برما، تھائی لینڈ، چین سے ہوتا انڈونیشیا اور فلپینز تک پہنچ گیا۔  (فلپینز کا آم کاراباؤ اس قدر شیریں ہے کہ گنیز بک میں جگہ پا چکا ہے)۔ پندھرویں اور سولہویں صدی کے بیچ  فلپینز سے ہسپانوی جہازی آم کی گٹھلی میکسیکو لے  گئے۔

یوں بحرالکاہل کے آر پار منیلا سے فلوریڈا  اور ویسٹ انڈیز تک ہر ہسپانوی نوآبادی میں آم عام ہو گیا اور پھر بحراقیانوس عبور کرتا اسپین (غرناطہ و جزائرکینری) اور پرتگال تک جا پہنچا۔ لگتا ہے واسکوڈی گاما اور اس کے جہاز رانوں نے پرتگال چھوڑنے سے پہلے ہی آم چکھ لیا تھا تبھی تو مالابار کے ساحل سے پرتگیزی اور عرب جہازوں میں آم کا پودا مشرقی افریقہ تک جا پہنچا۔ ابنِ بطوطہ نے مانگا (آم کا پرتگیزی نام) صومالیہ کے شہر موگا دیشو میں مزے لے لے کے کھایا اور تذکرہ بھی کیا۔

مگر کسی جگہ سب سے زیادہ آم پیدا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہاں سے آم کی ایکسپورٹ بھی سب سے زیادہ ہو۔ چنانچہ جب ہم دنیا میں سب سے زیادہ آم ایکسپورٹ کرنے والے دس ممالک کی فہرست دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ پیداوار کے باوجود ایکسپورٹ چارٹ میں بھارت کا نمبر پانچواں ہے کیونکہ اپنی ننانوے فیصد پیداوار بھارت خود کھا جاتا ہے۔ آم کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر میکسیکو ہے۔

اس کے بعد فلپینز، پاکستان اور برازیل ہے۔ یہ عجب ہے کہ ہالینڈ، پیرو، گوئٹے مالا، فرانس اور ہیٹی آم کی پیداوار والے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں مگر دس بڑے عالمی ایکسپورٹرز میں ضرور شامل ہیں۔ ٹاپ ٹین ایکسپورٹرز میں لاطینی امریکا کے پانچ اور یورپ کے دو ممالک کی شمولیت کا سبب یہ ہے کہ یہ ممالک آم کی ٹومی ایٹکنز قسم کاشت کرتے ہیں جو ذائقے و سیرت میں بھلے برِصغیری آم سے کمتر ہو لیکن صورت، وزن اور شیلف لائف  کے اعتبار سے سب سے بہتر مانا جاتا ہے۔

پاکستان آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے مگر ایکسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر یوں ہے کہ وہ کل پیداوار کا لگ بھگ آٹھ فیصد برآمد کر دیتا ہے۔  پاکستانی چونسہ، انور ریٹول اور سندھڑی بیرونِ ملک سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، برطانیہ، مغربی یورپ، ایران، سعودی عرب، بحرین سنگاپور، قزاقستان، آزر بائیجان اور ترکی تک پاکستانی آم کی خاصی چاہ ہے۔ اس برس ایک لاکھ ٹن آم ایکسپورٹ کرنے کا ہدف ہے جس سے لگ بھگ ساٹھ ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ متوقع ہے۔

پاکستان میں ہر سال تقریباً  اٹھارہ لاکھ ٹن آم پیدا ہو رہا ہے۔ جنوبی پنجاب (ملتان اور بہاولپور ڈویڑن) اور جنوبی سندھ (میرپور خاص اور حیدرآباد ڈویژن) آم کا گڑھ مانے جاتے ہیں۔ ویسے تو یہاں تقریباً ایک سو پچیس اقسام کے آم پائے جاتے ہیں مگر مقبول کمرشل اقسام  کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہے۔

کاش مرزا اسد اللہ خان غالبؔ جون تا اگست ملتان سے براستہ رحیم یار خان میر پور خاص اور ٹھٹھہ تک سفر کر لیتے تو انھیں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ آم بہت ہوں اور میٹھے ہوں۔ غالبؔ بچشم ملاحظہ کرتے کہ انسان تو انسان گدھے بھی آم کھا رہے ہیں۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ آم سے اچار، چٹنی، مربہ، امچور، پاپڑ، جام، جیلی، جوس، آئس کریم وغیرہ بنتے ہیں مگر آم کی ان ذیلی نعمتوں کو نقد آور بنا کر معیارِ زندگی خاص کیسے کرنا ہے۔ اس بارے میں بہت کم کاروباری سیانے دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں کل پیداوار کا محض تین فیصد حصہ آم کا گودا ذیلی مصنوعات سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ آم کی پیداوار کو صنعتیانے میں دس طرح کی مالی و انتظامی دشواریوں کے علاوہ  بے ڈھب ٹرانسپورٹیشن، ناقص پیکنگ، منڈی تک پہنچنے میں تاخیر اور کولڈ اسٹوریج کی ناکافی سہولت کے سبب ویسے بھی تقریباً تیس فیصد سبزیاں اور چالیس فیصد پھل گاہک کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتے ہیں۔

پھر بھی اتنے آم ضرور بچ جاتے ہیں جو ذاتی، علاقائی و بین الاقوامی تعلقات میں بڑھاوے کے کام آ سکیں۔ جس طرح بینک اکثر انھیں ہی قرضہ دیتا ہے جنھیں قرضے کی ضرورت نہ ہو، جیسے قربانی کا گوشت زیادہ تر انھی میں گردش کرتا ہے جن کے لیے قربانی یا گوشت کی دستیابی کوئی مسئلہ نہیں اسی طرح آموں کی پیٹی بھی اکثر اہلِ آم انھی خواص کو بھیجتے ہیں جنھیں اس نذرانے کی ضرورت نہیں۔ آم کے ذریعے پبلک ریلیشننگ بعض اوقات اچھے اچھوں کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ (یہ بات سمجھنے کے لیے محمد حنیف کا ناول ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ پڑھنا ازبس ضروری ہے)۔

پھر بھی عام جنتا کو ہر سال اتنے آم ضرور میسر آ جاتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ پچھلی بار اسے ایک بھی آم نہیں ملا تو یا وہ جھوٹا ہے یا پھر بہت ہی جھوٹا۔

(اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)۔

The post آم عام کیوں ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یوم تکبیر برائے دشمن

$
0
0

اس کا دوسرا عنوان ہو سکتا ہے پاکستان کا یوم تکبیر یعنی اس دن کی یاد جب پاکستان کے جدی پشتی دشمن کی زبان بھی بند کر دی گئی اس کے ہاتھ پاؤں بھی کاٹ دیے گئے اور وہ لولا لنگڑا اور گم سم ہو کر رہ گیا جس کی زبان اس کے سامنے پڑی تھی اور جس کے ہاتھ پاؤں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس کے سامنے تڑپ رہے تھے۔

پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اس کے منصوبے اپنے دست و بازو سے محروم کر دیے گئے تھے اور وہ بے بس اور لاچار ہو کر اپنے وسیع و عریض ملک بہت بڑی آبادی اور بڑی فوجی طاقت کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہا رہا تھا۔ یہ سب اور اس سے بھی بہت زیادہ یوم تکبیر کا کارنامہ تھا جو اس اللہ اکبر کے نعرے کا دوسرا نام تھا جس کی گونج گرج سے بلوچستان کی ایک پہاڑی کا رنگ بدلنے کی خوبصورت شکل ہمارے سامنے رونما ہوئی۔ ہماری بصارت کو نئی چمک دمک دے گئی اور ہمارے دشمن کو اندھا کر گئی۔ ہم ایسے ہی ان دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔

ہمارے قائد نے برطانیہ سے واپس وطن آتے ہوئے قاہرہ میں ایک لیکچر کے دوران عرب بھائیوں کو بتایا کہ اگر برصغیر میں مسلمانوں کا ملک نہ بن سکا تو وہاں کے ہندو مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ آج ہندوستان میں نئی حکومت اسی پالیسی پر چل رہی ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ ہندوستان کا ملک صرف ہندوؤں کا ملک ہے یہاں کسی غیر ہندو کو رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی یا تو وہ مذہب بدل کر ہندو ہو جائے یا پھر ملک چھوڑ جائے۔

ابھی ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ بمبئی میں ایک مسلمان خاتون کو اس کے فلیٹ سے بے دخل کر دیا گیا۔ آج کے بھارت میں ہندو لیڈروں کے وہ تمام ڈرامے ختم ہو چکے ہیں جو کسی سیکولر اور جمہوری نظام کے نام پر رچائے گئے تھے۔ بھارت کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی بڑائی کی وجہ اس کی جمہوریت اور سیکولرازم تھی لیکن اب جب بھارت کی حکومت ان اصولوں کو ترک کر رہی ہے تو دنیا میں اس کی ساکھ سخت مجروح ہو رہی ہے اور ہمیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

بھارت کی یہ ساری پریشانی اور پرانے بنیادی اصولوں سے واپسی درحقیقت پاکستان کے یوم تکبیر کا ردعمل ہے کیونکہ پاکستان کا ایٹم بم بھارت کی امیدوں کو خاک میں ملا گیا ہے اور وہ اب اپنے ان منصوبوں کو لپیٹ کر کسی تجوری میں رکھ چکا ہے جو پاکستان پر فوجی حملے کی صورت میں زیر عمل آنے تھے۔ اب اس کے پاس صرف دہشت گردی اور ’را‘ جیسی خفیہ جاسوس ایجنسیوں کی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں۔ بھارت کی بدقسمتی کہ پاکستان کو ایک ایسا سپہ سالار مل گیا ہے جو نہ صرف بھارت کو خوب سمجھتا ہے بلکہ اس کی دہشت گردیوں کو ختم بھی کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔

ہماری فوج بھارت کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ لڑ رہی ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور بحمد اللہ کہ یہ جنگ ایک کامیاب جنگ ہے۔ بھارت کے پاکستانی حلیف اب کسی نہ کسی بہانے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کے دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ ان دنوں چین کے تعاون سے ترقی و خوشحالی کی ایک شاہراہ کا ذکر ہو رہا ہے اس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں مل سکتی تو اس کے راستے کو اپنے الفاظ میں ٹیڑھا کیا جا رہا ہے اور اگر یہ راستہ ان کے سپرد کر کے کہا جائے کہ اب آپ اپنی مرضی کے مطابق کر دیں تو وہ تب بھی کوئی نہ کوئی نقص نکال لائیں گے۔

جناب اسفند یار ولی جو پاکستان کی روایتی مخالف جماعت کے لیڈر ہیں اعلان کر رہے ہیں کہ وہ کالا باغ ڈیم کی طرح اسے بھی نہیں بننے دیں گے۔ ان کے بزرگوں نے تو پاکستان کو بھی بننے سے بہت روکا تھا لیکن وہ پھر بھی بن گیا اس پر وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیر باد کہہ گئے اور افغانستان کے جلال آباد منتقل ہو گئے۔ پہلے پاکستان نا منظور پھر کالا باغ نا منظور اور اب یہ راستہ نا منظور۔ ہر پاکستانی بات نا منظور پاکستان کی بہت کمزور اور ٹوٹی پھوٹی حکومتیں ہر نا منظور کے سامنے خاموش رہیں اور یہ نا منظور بڑھتا چلا گیا۔

خیبرپختونخوا کے ایک سینئر سیاستدان وزیر نے کہا تھا کہ ہمیں تو پاکستان تب بھی نا منظور تھا اور اب بھی نا منظور ہے میں نے ان کی بات ٹی وی پر سنی اور تعجب ہوا کہ وہ کم از کم کچھ رکھ رکھاؤ سے ہی کام لے لیتے تو بہتر تھا۔ مرحوم خان عبدالولی خان ہمارے مہربان تھے اور ان کے سیاسی خیالات بھی سب پر واضح تھے لیکن وہ حالات پر بھی دھیان رکھتے تھے اور اس کے مطابق سیاست کرتے تھے۔ ون یونٹ کی جب ہر کسی نے مخالفت کی تو خان صاحب نے اس کی حمایت کی میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے پالیسی بدل لی ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں لیکن کیا کروں کہ پٹھان کا ٹرک طورخم سے چلتا ہے اور پورے پاکستان سے گزر کر کراچی پہنچتا ہے۔

یہ سب ون یونٹ ہے تو میں کیا پٹھان کے اس ٹرک کا راستہ بند کر دوں۔ ولی خان ایک شائستہ اور شستہ سیاستدان تھے۔ حمایت اور مخالفت دونوں عقل کے ساتھ کرتے تھے یہ نہیں کہ ہر بات نا منظور۔ لطیفہ ہے کہ ہمارے رقاص وزیر اعلیٰ نے سب سے بڑھ کر آگ لگا دینے کی دھمکی دی ہے جس طرح مشہور ہے کہ بعض پکے گانوں سے دیے جل اٹھتے ہیں اس طرح عین ممکن ہے رقص کی بعض دھنوں سے آگ بھی بھڑک اٹھتی ہو۔ جناب عمران خان کو اپنی نئی ازدواجی زندگی سے اطمینان کے بعد اب سیاسی رشتوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

تو بات یوم تکبیر کی ہو رہی تھی اور یوم تکبیر کے ان شعلوں کی جو بھارت کی دنیا کو جلا رہے ہیں پاکستان اگر پرامن ملک نہ ہوتا تو اپنے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کو اس کی اطلاع ضرور دیتا۔ ایک اطلاع تو جنرل صدر ضیاء الحق نے وزیراعظم راجیو کو دی تھی کہ بچے نہ بنو ہمارے پاس زیادہ اور موثر سامان موجود ہے چنانچہ یہ بچہ فوراً جوان ہو گیا اور پاکستان کی سرحدوں سے چمٹی ہوئی بھارتی فوج الٹے قدموں سے واپس ہو گئی لیکن پاکستانیوں کی ایک خواہش ضرور ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کو آزاد کرائیں جن کا مسئلہ دنیا کی ہر سطح پر موجود ہے اور زندہ ہے۔ بھارت کی چالاک ڈپلومیسی نے اس مسئلے کو دبا رکھا ہے اور ہم پاکستانی نہ جانے کیوں بس وقت گزار رہے ہیں۔ بہر کیف ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے یہ یوم تکبیر ہمیں ایسے کئی فرائض یاد دلاتا ہے۔

The post یوم تکبیر برائے دشمن appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22369 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>