Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22807 articles
Browse latest View live

تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں

$
0
0

ہمارے معاشرے میں لفظ غلط کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھتا جا رہا ہے، بلکہ عالم یہ ہے کہ اب تو سب ہی کچھ غلط نظر آنے لگا ہے،یوں سمجھ لیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحیح کچھ بھی نہیں ہے، جوکچھ صحیح نظر آتا تھا وہ بھی غلط تھا۔کیا غلط کو غلط کہنے والا صحیح ہے یا کس حد تک صحیح ہے؟ ایسا سوال بالکل نہ کریں، بلکہ اپنی اسی سوچ کو اپنے تک محدود رکھیں۔

غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنا پہلے ایک فن تھا مگر اب اس فن میں ہر خاص و عام کو مہارت حاصل ہوچکی ہے، ہم نے آپ کو سوال نہ کرنے کا مشورہ اس لیے دیا ہے کہ صحیح جواب آپ کو کبھی بھی نہ مل سکے گا۔ کیوں کہ ایک دن ہم صحیح کو ڈھونڈنے نکلے تو پتا چلا کہ ایک کونے کھدرے میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ پوچھا یہ کیا حال ہے، کہنے لگا اب میری توکوئی قدر ہی نہیں اس لیے گوشہ نشین ہوگیا ہوں۔

گوشہ نشینی عارضی ہے یا مستقل ہمیں کیا ہمیں تو غلطیوں کی اسی طویل فہرست سے بھی کوئی دلچسپی نہیں جنھیں درست کرنے اور ازالہ کرنے میں ایک طویل مدت لگ جائے گی۔ ہائے اب تو شرم بیچاری نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے، ہمیں دیکھ کر منہ چھپالیتی ہے، ہمیں بھی کون سی پرواہ ہے اب تو لوگ شرم سے پہلے بے کا اضافہ کرکے آواز دینے لگے ہیں۔خیر لوگوں کا کیا ہے وہ تو ایک کی اٹھارہ لگاتے ہی رہتے ہیں ویسے اگر ایک نہ ہوتا تو اٹھارہ بھی نہ ہوتا۔

ہونے اور نہ ہونے کا مسئلہ بھی خوب ہے لیکن کبھی کبھی تو مسئلے کا حل ڈھونڈنا بھی مسئلہ بن جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ 7 نمبر ناظم آباد کی سگنل فری سڑک ہے ایک جانب کلینک A.O اور دوسری جانب عباسی اسپتال رواں سڑک پر مسافر سڑک کیسے کراس کریں؟

اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کیا ہم کسی بڑے حادثے کا انتظار کررہے ہیں؟ حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا دونوں ہی خطرناک ہوتے ہیں اور ہماری قوم بے شمار چھوٹے بڑے حادثوں سے گزرتی رہی ہے۔ جب ہی اماں کہتی ہیں کہ کر تو کر ورنہ خدا کے غضب سے ڈر۔ اگر ہم خدا کے غضب سے ڈرتے تو شاید اتنے حادثوں سے نہ گزرتے۔ ہر لمحے کی توجہ استفسار ہمیں بے شمارعذابوں سے قبل از وقت بچالیتی ہے۔

ہمیں اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں، دعاؤں میں اثر نہیں رہا، اﷲ میاں ہماری سن نہیں رہے۔ توصاحب اپنے اعمال پر بھی تو ہم غورکریں کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ وہ قوم جو قوموں پر حکومت کرتی تھی، دوسری قوموں کو تحفظ فراہم کی گئی تھی اپنی ناعاقب اندیشیوں کے باعث کس صورتحال سے دوچار ہے۔

آج ہمارے پاس خود اپنے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔ قوم کا ہر خدمت گارکرسی کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور افراد ایمانداری و بے ایمانی، انصاف و بے انصافی کی جنگ میں پس رہے ہیں۔ عوام بھی کچھ کم نہیں موقع ملے تو خواص کے ساتھ مل کر وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ جس کی توقع نہیں کی جاسکتی عجب دور ہے۔

لوگ فرش سے اٹھ کر تخت تک پہنچ رہے ہیں اور تخت سے گر کر فرش تک لیکن ہمیں کیا ہمیں تو ٹیکس دینا ہے تمام تر محرومیوں کے ساتھ کس کس بات کا شکوہ کریں پانی غائب بجلی غائب۔ بجلی بے چاری تو آنکھ مچولی کھیلتی ہے لیکن پانی توبہ ایسا طوطا چشم کہ جو غائب ہوا توآنے کا نام نہیں لیتا۔ سوچنا ہوگا کہ میں آگیا تو ٹینکر مافیا کا کیا ہوگا۔

یہ تو وہ دور ہے جہاں سب ہی پیدا گیر ہیں کوئی کم اورکوئی زیادہ ایسا لگتا ہے کہ وبائی مرض ہے جو تیزی سے پھیل چکا ہے۔ مرض پلان ہو تو علاج میں بھی وقت لگتا ہے اور اگر آپ کا معالج بھی اسی مرض میں مبتلا ہوچکا ہو تو ؟ بس اب اسی تو اور سوالیہ نشان کے بعد کوئی سوال نہیں۔ ہمارے معاشرے میں نا خواندگی کی شرح فی صد ضرور زیادہ ہے مگر جہالت کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ قوم عقل مند ضرور ہے سب سمجھتی ہے، مصلحتاً یا ضرورتاً خاموش رہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سمجھی نہیں جب یہ قوم یا افراد بولنے پر آتے ہیں تو سب حدیں پارکرجاتے ہیں۔

یوں سمجھ لیں کہ بے لگام کو لگام دینی مشکل ہوجاتی ہے۔ اماں کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو اور نشست و برخاست سے ہمارے خاندانی پس منظرکا پتا چلتا ہے۔ ہماری بات چیت ہمارے مہذب و غیر مہذب ہونے کا ثبوت دیتی ہے اگر اسی بات پر یقین کرلیا جائے تو مسئلہ ہوجائے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ رہبر، رہزن اور رہزن ، رہبر بنتے جارہے ہیں۔

عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار میں ایک مرتبہ افریقہ کا ایک قاضی جو اس کا ہم سبق بھی رہ چکا تھا حاضر ہوا خلیفہ نے دریافت کیا تمہیں میری حکومت اور اموی حکومت میں کیا فرق نظر آیا۔

قاضی نے جواب دیا، امیر المومنین میں نے بداعمالیوں اور ظلم وجور کی کثرت دیکھی ہے پہلے تو میرا گمان یہ تھاکہ اسی کا سبب آپ کا ان علاقوں سے دور ہونا ہے لیکن دارالخلافہ کے جوں جوں نزدیک آتا گیا معاملہ اسی قدر نازک ہوتا گیا۔ خلیفہ نے شرمندہ ہوکرکہا پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔

قاضی نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم نہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا تھا کہ لوگ بادشاہ کے تابع ہوتے ہیں اگر بادشاہ نیک ہوگا تو رعایا نیک اوراگر بادشاہ بد ہوگا تو رعایا بھی بد ہوگی۔ یہ سن کر منصور کو ندامت ہوئی اور خاموش ہوگیا۔

(تاریخ کے سنہری واقعات صفحہ 437)

میں نے واقعے کو پڑھا اور سوچا کہ ہے کوئی ایسا ہم سبق قاضی۔ جس میں اتنی جرأت اظہار ہو۔ ہے کوئی ایسا منصور جسے احساس ندامت ہو؟

The post تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.


علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک

$
0
0

کبھی کبھی سیاسی ماحول میں ایک جملہ ہماری سماعتوں سے اکثر ٹکراتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ اول تو یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ آمریت ،آمریت ہوتی ہے اور کوئی آمریت بہترین نہیں ہوتی اور جمہوریت بہترین ہوتی ہے جمہوریت بدترین نہیں ہوتی، میں تذکرہ کررہاہوں جمہوریت کا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا نہیں جس نظام میں چند سرمایہ دار یا جاگیردار باہم مشاورت سے اپنی اپنی سیاسی جماعتیں قائم کرلیں اور پھر باہم یہ بھی طے کرلیں کہ اب کہ تیری باری اور اس کے بعد میری باری۔

اس سلسلے میں ذکر اگر امریکا کا ہو تو امریکا میں دو پارٹی سیاسی نظام قائم ہے ایک سیاسی جماعت کا نام ہے ری پبلکن پارٹی جب کہ دوسری سیاسی قوت کا نام ہے ڈیموکریٹک پارٹی، دونوں سیاسی جماعتیں اگرچہ جمہوریت کی دعوے دار ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اس امرکا پورا پورا خیال رکھتی ہیں کہ دانستہ یا نادانستہ ایسا نہ ہوکہ عوامی بھلائی کا کوئی کام ہوجائے، اسی باعث امریکی عوامی لاتعداد مسائل سے دو چار ہیں اور ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہی دیکھا جارہاہے۔ یہ مسائل دوچار برس میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ امریکی عوام پر یہ مسائل اپنے ساتھ لے کر 21 ویں صدی میں داخل ہوئے تھے۔

امریکی عوام کا سب سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام دنیا کی مقروض ترین عوام ہے اور چند برس قبل تک ان قرضوں کا حجم تھا ایک سو تینتالیس کھرب ڈالر یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب امریکا پر بیرونی قرضوں کا ذکر آتا ہے تو ایک طبقہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اگر امریکا پر اس قدر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے تو امریکا نے بیرونی دنیا کو بہت سے قرضے دے بھی تو رکھے ہیں۔ تو اس طبقے کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام کا کردار فقط قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے اور جوقرضے امریکا نے وصول کرنے ہیں وہ قرضے امریکا کے سرمایہ کار اداروں کو ہی حاصل ہوں گے۔

یعنی امریکی یہ قرضے ادا کرنے کے تو پابند ہیں مگر امریکا جو مقروض ممالک سے وصول کرے گا وہ قرضے امریکی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائیں گے۔ جب کہ امریکی عوام کا دوسرا مسئلہ ہے روزگار کا، کوئی 3برس قبل تک بے روزگار امریکیوں کی تعداد تھی دوکروڑ پچاس لاکھ، بے روزگاری کس قدر مسائل کو جنم دیتی ہے کوئی بھی بے روزگار انسان یہ با آسانی بتادے گا جب کہ بے روزگاری جیسے مسائل ہی کا شاخسانہ ہے کہ لاکھوں امریکی فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

وہ امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جو خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں اور ایسے امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جن کے آمدنی کے ذریعے اس قدر محدود ہیں کہ بیماری کی کیفیت میں یا تو وہ کھانا کھاسکتے ہیں یا اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔ وہی علاج جس کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پال سیمو یلسن کا قول ہے کہ علاج بیماری سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

ذکر امریکیوں ہی کا ہورہاہے تو ان امریکیوں کا ذکر بھی ہوجائے جو معمولی معمولی جرائم کے الزامات میں کئی کئی ماہ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، تعداد ان امریکیوں کی بھی لاکھوں میں ہے۔ یہ وہ ہی امریکا ہے جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود امریکی حکمرانوں کا اصرار ہے کہ امریکا ایک جمہوری ملک ہے جب کہ تمام تر امریکی عوام کے مسائل کے باوجود امریکی حکمران ہمہ وقت ایک سے ایک نئے دشمن کی تلاش کی جستجو میں ہوتے ہیں تاکہ امریکی سرمایہ کار اداروں کے تیارکردہ اسلحے کی کھپت کا سامان ہوسکے۔ یہ ہے امریکی نظام حکومت جسے جمہوری کہتے ہیں۔

اس قسم کی جمہوریت کا دعوے دار روس بھی ہے جہاں اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد فقط چند برسوں بعد چارکروڑ پچاس لاکھ محنت کش بے روزگاری کا یکایک شکار کردیے گئے تھے جب کہ اشتراکی نظام حکومت کے دور میں 30 کروڑ روسیوں میں نا تو کوئی روسی بے روزگار تھا اور نا ہی ناخواندہ تھا۔ جب کہ سرمایہ داری نظام میں قدم رکھتے ہی جن غیر اخلاقی سرگرمیوں نے روس میں جنم لیا ہے ان کا تذکرہ نا ہی کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ سرمایہ داری نظام حکومت ہی کا کمال ہے کہ چین و ہندوستان کے اخلاقی برائیوں کے حوالے سے حالات روس سے مختلف نہیں ہیں۔ جب کہ اس سلسلے میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس وغیرہ کی مثال ابھی دی جاسکتی ہے۔

اب ذکر خیر اپنے وطن کا یہاں جمہوریت کا مطلب ہے کہ سیاست نام ہے تجارت کا یعنی کروڑوں روپے خرچ کرو اربوں روپے کماؤ اور دوسرے ممالک میں منتقل کرو اور دوسرے ممالک ہی سے اپنی سیاسی جماعت ہو، اگر وزیر ہو تو بیرون ملک سے اپنے وزارتی امور نمٹاؤ، رہ گئے کرپشن کے الزامات تو کرپشن کرنے والے اس قدر بھولے بادشاہ نہیں ہیں کہ اپنے پیچھے کرپشن کے ثبوت چھوڑیں یوں بھی اس ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر گائے کا بچہ بھی اس ملک میں چوری ہوجائے تو اس کا سراغ لگانے میں چھ ماہ درکار ہوتے ہیں۔

اسی جمہوریت کا ثمر ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ تین ہزار روپے کا مقروض ہے جب کہ 30 ماہ قبل یہ قرضہ 83 ہزار روپے فی کس تھا۔ جب کہ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کہ 2018 تک قرضوں کا یہ بڑھتا ہوا حجم اشارہ دے رہا ہے کہ اس وقت ہر ایک پاکستانی شہری ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مقروض ہوگا، یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی عزت دار آدمی جب کسی سے قرضہ لیتا ہے تو وہ اس عمل کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو مگر ہمارے ہاں قرضہ لے کر یا قرضہ لینے کا معاہدہ کرکے میڈیا پر یہ فخریہ انداز میں بتایاجاتا ہے۔

IMFیا ورلڈ بینک سے اتنے ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے یہ رقم اتنے وقت میں مل جائے گی، کاش! یہ بھی بتا دیا کریں کہ اس رقم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو عام آدمی کے ساتھ امتیازی برتاؤ ہی ہورہاہے جہاں کیفیت یہ ہو کہ عام آدمی کا بچہ عام سے اسکول میں داخلہ نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ یہ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی سماج میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جوکہ فقط ایک ایک طالب علم سے 24 ، 28 اور 33 ہزار روپے ماہانہ فیس کے نام پر وصول کررہے ہیں یہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کس قدر بد ترین ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ یا آنے والے برسوں میں آپ کو بخوبی ہوجائے گا کیوں کہ ہر قسم کے ملکی وسائل بڑی سرعت کے ساتھ چند ہاتھوں میں سمیٹتے جا رہے ہیں۔

اس لیے اس حقیقت کا عام و متوسط طبقہ ادراک کرے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ سرمایہ داری آمریت ہے، مقام شکر ہے کہ اب عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے اور اس قسم کی جمہوریت کے ساتھ عوام نے جو سلوک کیا ہے وہ سلوک اس قسم کے جمہوریت کے دعوے دار کے ساتھ ہونا ہی چاہیے۔ خیر سے ذکر ہے ضمنی انتخابات 11 اکتوبر 2015 کا انتخابی حلقہ NA-144 آزاد امیدوار محترم ریاض الحق جج صاحب بھاری مارجن سے انتخاب جیتے، جب کہ حکمران جماعت دوسرے PTI چوتھے، PPP پانچویں پوزیشن لے سکیں جب کہ لاہور کے حلقہ NA-122 میں جہاں دونوں بڑی جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا حکمران جماعت تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود 24 سو ووٹوں سے جیت پائی جب کہPP-147 کی نشست حکمران جماعت سے PTI والے لے اڑے۔ کل کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے 819 ووٹ حاصل کیے اور نشان عبرت بن گئی۔

یہ باوجود اس عمل کے ہوا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے کارکن رہ گیروں کو زبردستی کھانے کھلارہے تھے اور مشروب پلارہے تھے لیکن اگر جمہوریت ہوتی تو اور ان لوگوں نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہوتی تو آج حالات اس کے برعکس ہوتے، آخر میں اتنا عرض کروں گا اگر عوام کو اپنے مسائل حل کرنا ہے تو سرمایہ داری آمریت سے نجات پانا ہوگی کیوں کہ یہ سرمایہ داری آمریت تو عوام کو پینے کا صاف پانی تک دینے سے قاصر ہے، حقیقی جمہوریت کے لیے عوام کے حقیقی نمایندوں کو اقتدار میں لانا ہوگا جوکہ عوامی مسائل سے آگاہ بھی ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔

The post علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک appeared first on ایکسپریس اردو.

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

$
0
0

واقعہ کربلا کو رونما ہوئے 1376 برس کا عرصہ ہوچکا مگر آج بھی اس واقعے کا ہر کردار سینۂ تاریخ پر ثبت ہے، سید الشہدا امام حسینؓ نے میدان کربلا میں جو بے مثال قربانیاں پیش کیں وہ خود کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ نانا کے دین کو تاِ قیامت باقی رکھنے کے لیے دیں۔

اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود آج بھی اس واقعے کا تذکرہ نہ صرف باقی ہے بلکہ اس کے ایک ایک کردار پر اس تواتر سے لکھا اور بولا گیا ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی واقعہ کربلا کے ہر پہلو اور ہر کردار سے بخوبی واقف ہیں، اگرچہ خلافت ِ الٰہیہ کو جب ملوکیت میں تبدیل کردیا گیا اور خلفائے مسلمین نے دنیاوی بادشاہت کا انداز اختیارکرلیا تو واقعہ کربلا کی اہمیت اور واقعیت کو کم کرنے اور چھپانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی۔ مگر امامِ عالی مقام کی جنگی حکمت عملی نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

میدان کربلا میں شہید ہونے والے اقربا اور انصار حسینی کے علاوہ خانواۂ رسالتؐ کی مخدراتِ کی عصمت وطہارت کے کردار پر بھی لکھنے والوں نے لکھنے اور بولنے والوں نے بولنے کا حق ادا کردیا۔ کیونکہ جنگ کربلا لڑی حسین عالی مقام نے اور اس جنگ میں یزید کو شکست سے دوچارکیا حسینؓ کی شیردل بہن، ثانیٔ زہرا زینب کبریٰ نے۔ شہدا کی شہادت اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر حسینؓ اپنے ساتھ ان خواتین کو نہ لاتے تو آج کربلا کی شہادت عظمیٰ قصۂ پارینہ بن چکی ہوتی۔

یزیدی کوشش بھی یہی تھی کہ نواسہ رسولؐ کو ایسے بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں گھیر کر شہید کرے کہ کوئی اس واقعے کی گواہی دینے والا بھی نہ ملے۔ مگر نواسۂ رسول الثقلینؐ نے اپنی شہادت جو دراصل دین خدا کی بقا کی گواہی تھی کی حفاظت کا مکمل انتظام کرلیا تھا۔

یہ تو قانون قدرت ہے کہ حق قائم رہنے کے لیے اور باطل مٹنے کے لیے ہے پھر بھلا یزید جیسا عاقبت نااندیش حق کو کس طرح چھپا سکتا تھا۔ ایک گناہ چھپانے کے لیے انسان مزید کئی گناہ کرتا ہے۔ اگر یزید امام عالی مقام سے سوال بیعت نہ کرتا تو شاید یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا مگر سوال بیعت کے ساتھ ہی اس نے مدینہ کے گورنر کو یہ بھی ہدایت جاری کی کہ اگر حسین بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کرکے مجھے بھیج دو۔

اس صورتحال سے واقف ہو کر امام حسینؓ نے حرمت مدینہ قائم رکھنے کے لیے وہاں سے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا راتوں رات قافلہ حسینی تیار ہوا جس میں خواتین بچے اور جوان سب شامل تھے حتیٰ کہ چند روز کے علی اصغر بھی۔ حضرت امام حسینؓ کے بھائی محمد حنیفہ نے کاروان حسینی کے شرکا کی فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے امام حسینؓ سے پوچھا کہ ’’جب آپ کو یزید سے معرکہ درپیش ہے تو پھر آپ پردہ دار خواتین اور شیرخوار بچوں کو ساتھ کیوں لے کر جا رہے ہیں؟‘‘ امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو معرکہ مجھے درپیش ہے اس کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے کہ ان سب کا ساتھ جانا ضروری ہے۔‘‘ امام حسینؓ کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپؓ یزید کے ارادوں سے پوری طرح واقف تھے۔

یزید نے کوشش کرکے امام حسینؓ کو نہ صرف مدینہ بلکہ مکہ معظمہ بھی عین ایام حج کے دوران چھوڑنے پر مجبورکردیا۔ کیونکہ امام حسینؓ ان دونوں مقدس شہروں کی حرمت پر حرف نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ مکہ معظمہ سے آپ نے کوفہ کا رخ کیا مگر راستے ہی میں اہل کوفہ کی بے وفائی اور اپنے ابن عم مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سن کر آپ نے اپنا راستہ بدل دیا۔ اسی دوران حر کے لشکر نے آپ کوگھیر لیا اور صحرائے کربلا میں لے آیا۔ امام حسینؓ نے اپنی شہادت گاہ کو پہچان کر اپنے خیمے نصب کردیے۔ امام حسینؓ نے سب سے پہلے اس علاقے میں آباد بنی اسد کے قبیلے کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان سے زمین کربلا خریدنے کی خواہش ظاہرکی تو ان لوگوں نے امام حسینؓ سے عرض کی یہ صحرا ہے آب و گیاہ یہاں دور دور بستیوں کا نشان نہیں آپؓ اس کو خرید کرکیا کریں گے؟

اس سے اچھے علاقے میں آپؓ کے لیے بندوبست کردیتے ہیں۔ مگر امام حسینؓ نے فرمایا کہ یہی مقام ہماری آخری آرام گاہ ہے لہٰذا کچھ ردو کد کے بعد زمین کا سودا ہوا۔ امام حسینؓ نے بنی اسدکے افراد سے کہا کہ کچھ ہی دن بعد ہمیں اس سرزمین پر شہید کردیا جائے گا، ہمارے لاشے بے گوروکفن چھوڑ کر دشمن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔

لہٰذا تم ان کے چلے جانے کے بعد ہماری لاشوں کو دفن کردینا اور کوشش کرنا کہ ہماری قبروں کے نشان مٹنے نہ پائیں۔ جب عرصے بعد ہمارے زوار ہماری قبروں کو تلاش کرتے ہوئے آئیں تو تم نہ صرف ان کو قبریں بتانا بلکہ انھیں کم ازکم تین دن مہمان رکھنا۔ امام حسینؓ نے ایک روایت کے مطابق زمین کربلا ساٹھ درہم میں خریدی اور پھر ان ہی کو ہبہ کردی تاکہ وہ تدفین اور زیارت قبورکے لیے آنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کرسکیں۔

زمین کربلا کی خریداری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؓ کسی کی غاصب زمین پر دفن ہونا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری اہمیت یہ تھی کہ آنے والے زمانے میں لوگ یہ جان جائیں کہ یزید نے نہ صرف حسینؓ کو شہیدکیا بلکہ وہ جارح بھی تھا اس نے حسینؓ کی اپنی سرزمین پر چڑھائی کی تھی۔

یہ امام حسینؓ کی وہ حکمت عملی تھی کہ یزید کسی طور فاتح قرار نہ دیا جاسکے۔ روز عاشور امام نے معہ انصار و اقربا جام شہادت نوش فرما کر دین رسول مقبولؐ کو حیات تازہ عطا کردی۔ یزید اب بھی خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اس نے حسینؓ کو شہید کرکے بڑی فتح حاصل کرلی۔ مگر علیؓ کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ نے بھائی بیٹوں بھتیجوں اور دیگر اعزا و اقربا کی شہادت کے بعد تاراجی خیام کے علاوہ مقنعہ و چادر کی قربانی دے کر پابند سلاسل بازاروں اور درباروں میں تشہیر ہو کر بھی یزید کے دربار میں دلیرانہ خطبہ دے کر ثابت کردیا کہ یزید! تُو نے اس جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کیا ہے کیونکہ تیرا مطالبہ تھا کہ یا تو حسینؓ تیری بیعت کریں یا حفاظت دین مصطفیؐ سے تائب ہوجائیں مگر نہ تو تُو حسینؓ سے بیعت لے سکا نہ دین رسولؐ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اے یزید! تُو سمجھتا ہے کہ تُو نے ہم رسن بستہ بازاروں میں تشہیر کرکے ہمیں (معاذ اللہ) ذلیل کردیا۔ یزید! یہ رسوائی ہمارا نہیں تیرا مقدر ہے۔

ہماری عزت و فضیلت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے دین خدا کو بچانے کے لیے برداشت کیا۔ حضرت زینب عالیہ کے اس خطبے نے دربارکے ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا اور قریب تھا کہ قتل حسینؓ کے مرتکب احساس ندامت میں کوئی قدم اٹھاتے کہ یزید نے موذن کو حکم اذان دیا۔ خطبہ زینب کو روکنے کا یہی طریقہ تھا حضرت زینب عالیہ احترام اذان پر خاموش ہوگئیں مگر جب موذن نے کہا ’’اشھدان محمد الرسول اللہ‘‘ تو جناب ثانی زہرا نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا ’’اے یزید! محمدؐ میرے جد ہیں یا تیرے؟ ‘‘

اس کے بعد آپ نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’تُو جس کلمے کو مٹانا چاہتا تھا وہ تُو نہ مٹا سکا بلکہ خود تیرے دربار میں اس کلمے کا بلند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے جد محمدؐ ان کا دین اور وارث حسینؓ تیرے لشکر کی تلواروں سے شہید ہوکر بھی قیامت تک زندہ ہیں اور رہیں گے البتہ وہ وقت دور نہیں جب تیرا یہ تخت و تاج تو کیا کوئی تیرا نام لینا بھی پسند نہ کرے گا۔ یزید! میرے نانا روز حشر تجھ سے ضرور پوچھیں گے کہ میرے حسینؓ کی کیا خطا تھی؟

یزید نے تمام اسیروں کو زنداں میں مقید کرنے کا حکم جاری کردیا ایک طویل عرصہ اہل بیت رسولؐ قید میں رہے جہاں گرمی و سردی کی شدت اور غذا کی کمی کے باعث کئی بچوں نے موت کو گلے لگالیا اور امام حسینؓ کی لاڈلی و کمسن بیٹی سکینہ نے فراق پدر میں جان دے دی تو یزید نے ایک دن خواب میں رسالت مآبؐ کو دیکھا کہ اے یزید! تیرے جذبہ انتقام کی اب تک تسکین نہیں ہوئی۔ اگر جلد ہی میرے کنبے کو رہا نہ کیا تو تُو غضب خدا سے نہ بچ سکے گا۔

غرض یزید نے خانوادہ رسولؐ کی رہائی کا حکم دیا تو زینب عالیہ نے یزید سے ایک مکان خالی کرنے اور تمام تبرکات رسالتؐ واپس کرنے کا کہا تو یزید نے لوٹا ہوا مال اور سر شہدا واپس کردیے۔ جب سر سید الشہدا امام حسینؓ زینب عالیہ نے حاصل کرلیا تو یزید کی شکست پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ اتنا ظلم کرکے بھی نہ وہ بیعت حسینؓ حاصل کرسکا نہ سرِ حسینؓ۔ کیونکہ حسینؓ کی بہن اپنے بھائی کا سر واپس لینے میں کامیاب ہوگئی۔ حسینؓ نے شہادت کا جام نوش کرلیا مگر فاسق و فاجر کی بیعت نہ کی۔ زینب اور دیگر مخدراتِ خانوادہ رسالتؐ نے دراصل وہ کردار ادا کیا جو حسینؓ کے مقصد شہادت کو قیامت تک ابدیت سے ہمکنار کرگیا بقول افتخار عارف:

سوال بیعت شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؓ کا ہے

The post قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

اردو کا رثائی ادب اور جدید شعرا

$
0
0

اردو زبان کی بیشتر اصناف سخن عربی اور فارسی زبان سے اپنا سفر طے کرتی آئی ہیں۔ لفظ مرثیہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے، شاعری کا بھی عجب حال ہے۔ یہ چشمہ کی طرح سنگلاخ پہاڑوں سے پھوٹتی ہوئی میدانوں کوگلزار بناتی بڑھتی ہے۔ یہی حال رثائی ادب کا بھی ہے۔ جن دنوں انیس اور دبیر کے معرکے سرزمین لکھنو میں برپا تھے۔

اس وقت اودھ پر واجد علی شاہ کی بادشاہت تھی۔ یہ بادشاہت خود بڑی ادب نواز تھی۔ ویسے بھی ان دنوں تک لکھنو میں انگریز مزاحمتی تحریک سے متاثر نہ ہوا تھا۔دونوں شعرا انیس ودبیرکی پیدائش لگ بھگ اس وقت ہوئی جب سترہویں صدی اپنا ورق لپیٹ چکی تھی۔ دونوں شعرا کو ایسا ماحول میسر آیا جہاں ان کے چاہنے والے ان کی شعری مجالس میں شریک ہوتے تھے۔یہاں بہ یک وقت دونوں شعرا پر قلم اٹھانے کا وقت نہیں کیونکہ یہ طوالت کا سبب بنے گا ۔

لہٰذا یہاں میر انیس پر ہی گفتگو ممکن ہے۔ میرانیس یوپی کے شہر فیض آباد محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔ یہ محلہ ایک گلاب کا جنگل تھا اور ساتھ کئی میل تک پانی،گویا آنکھ ایسی جگہ کھولی جہاں منظر چمنستان کے زیبا تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں گلاب کے پھولوں کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے۔

میر انیس سے قبل بھی شعرا نے مراثی تحریرکیے مگر اس کو ایک ترتیب نہ دی۔ مثلاً صبح فجرکا ذکر، ذکر محمد و آل محمد، میدان جنگ، رجز، تلوارکی کاٹ، اسپ کی کارکردگی اور سامان گریہ و زاری، و لقمہ کربلا کا تذکرہ، خاندان رسالت کی شان و شوکت، گویا مرثیہ کو اس کا بدن یا جسم دے دیا۔

تقریباً 100 برس تک اردو مرثیہ گوئی اسی انداز میں جاری رہی۔ یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں ۔ میر انیس نے مرثیہ نگاری میں قدم رکھنے سے قبل خدا تعالیٰ کے حضور اپنے کلام کی ہر دل عزیزی کے لیے دعا بھی فرمائی۔ میر انیس کی یہ فہم اس قدر شفاف ہے کہ جب وہ مذہبی گفتگو فرماتے ہیں تو اس میں کسی قسم کی تفریق نظریات نظر نہیں آتیں، مثلاً درج ذیل بند ملاحظہ ہو:

یا رب چمنِ نظم کوگلزار ارم کر
اے ابرِکرم خشک زراعت پہ کرم کر

میر انیس نے اپنے مرثیہ میں روزمرہ کے واقعات اور حالات کو اپنے اشعار میں ایسا رقم کیا ہے جیساکہ ہم خود اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔میر انیس کا کلام فصاحت کا مرقع ہے اور اس کے علاوہ سہل ممتغ کی انتہا پر آپ فائز ہیں:

اسرار الٰہی کو بھلا کیا کوئی جانے
اللہ و محمد کے سوا کیا کوئی جانے

اب اس شعر کی وضاحت و تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ مشکل پسندی انیس کے کلام میں نہیں۔ کیونکہ جب یہ شعرا محفل میں جاتے تھے تو قدر دانوں کا کثیر مجمع ہوتا تھا۔ مجلس میں قدر داں داد و تحسین کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ جب میرصاحب اپنی جوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی دعا قبول ہوچکی تھی۔ ابتدا میں چمن نظم کے لیے انھوں نے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کی تھی کہ اس کو گلزار ارم کردے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں:

نمکِ خوانِ تکلم ہے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
صبح صادق کا ظہور دیکھیے:
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یاد الٰہی میں طیور
ابھی ذکر صبح کا بیان جاری ہے اورحضرت حسین عالی مقام خیمے سے باہر آتے ہیں:
ذرا مصرعہ ملاحظہ فرمائیے:
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور

منظرکشی میں انیس کا دوسرا کوئی جواب پیدا نہ ہوا۔ غرض جتنے پہلو میر انیس نے اپنے سخن میں رقم کیے کسی اور شاعرکے بس کی بات نہ تھے۔ میر انیس نے اپنے ایک مرثیہ میں امام حسینؓ کی جنگ کا احوال جس انداز میں بیان کیا ہے بلامبالغہ شیکسپیئر اپنی کسی سونیٹ میں نہ بیان کرسکا، مگر ساکنان ہند نے وہ پذیرائی نہ کی جس کے وہ حقدار تھے۔

سید آلِ رضا نے سلام میں نام پیدا کیا۔ ایک اعتبار سے میر انیس سے تو سید آلِ رضا کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا مگر آلِ رضا صاحب نے ایک سلام ایسا تحریر کردیا جو مجالس کی جان بن گیا ۔نسیم امروہوی، صبا اکبر آبادی، امید فاضلی جانے پہچانے نام ہیں۔ اس کے علاوہ نوحہ خوانی کی زمین بھی مرثیہ سے قریب تر ہے گوکہ یہ سلام کا ایک پہلو ہے جس میں غم حسین کو شاعر اپنے احساس و نظریات کا سہارا لے کر مختصر وقت میں اظہار غم کرتا ہے۔ پاکستان میں جدید نوحہ خوانی کے بانی علی محمد رضوی عرف سچے میاں ہیں۔

جوش ملیح آبادی جب پنڈت جواہر لعل کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان ہجرت کر بیٹھے تو دہلی کے پالم ہوائی اڈے تک نہرو نے ان کا پیچھا کیا اور روکنا چاہا مگر جوش صاحب نہ مانے۔ کیونکہ شیوسینا جن سنگھ کا بول بالا ہونا شروع ہوگیا تھا اور ہندی کو اردو پر فوقیت دی جانے لگی تھی۔ مگر اردو تو وہاں کا پودا تھا اس تناور درخت کا مالی جوش ملیح آبادی کی کراچی آمد ہوئی آپ اکثر حسینیاں ایرانیاں کی مجالس عشرہ محرم کی ابتدا نوتصنیف مراثی سے کیا کرتے تھے۔ کراچی بھر کے اہل علم جمع ہوتے تھے انھی مجالس میں ان کا یہ شعر برزبانِ عام ہوا۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
آمد صبح پرجوش صاحب نے انیس کے رنگ میں یہ چند مصرع کہے:
جب چہرئے افق سے اٹھی سرمئی نقاب
کانپے نجوم زرد ہوا روئے ماہتاب
کھنکے فلک کے جام کھلے سرخیوں کے باب

بہرصورت مرثیہ گوئی کے فن کو شعرا آگے بڑھاتے رہے۔ 1950 کی دہائی میں سید آلِ رضا کے مراثی کافی مشہور ہوئے ان کے بعض سلام تو لافانی بن گئے۔ رثائی ادب پاکستان میں عہد بہ عہد اپنی منزل طے کرتا رہا۔ ان شعرا میں نسیم امروہوی، امید فاضلی، صبا اکبر آبادی، پروفیسر بلال نقوی اور نوحہ خوانی کے میدان میں علی محمد رضوی سچے اور آجکل ریحان اعظمی کے نوحے مقبول ہیں۔ مگر انیس کے کلام کی عظمت کچھ اور ہی ہے۔ ان کے سلام کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انسانی زندگی کے فانی ہونے پر:
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

انیس نے اردو زبان کی لازوال خدمت کی۔ ابلاغ کا ایک دریا ہے جو جانے والے نے موجزن چھوڑا ہے، فرماتے ہیں:

پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل پہ سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

The post اردو کا رثائی ادب اور جدید شعرا appeared first on ایکسپریس اردو.

آرٹس کونسل کا ایک دیرینہ مسئلہ

$
0
0

آرٹس کونسل کے کئی ممبر صاحبان اور دوستوں کا اصرار ہے کہ ہم آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی کارکردگی پر قلم اٹھائیں۔ دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ آرٹس کونسل ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا نمایندہ ادارہ ہے لیکن عشروں سے آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا مسئلہ حل ہی نہیں ہو پاتا عموماً یہ مسئلہ آرٹس کونسل کے سالانہ انتخابات کے موقعے پر اٹھایا جاتا ہے اور انتخابات مکمل ہوتے ہی یہ مسئلہ اگلے  انتخابات تک پینڈنگ ہو جاتا ہے، یا زیر زمین چلا جاتا ہے۔

آپ حضرات کی شکایت بجا لیکن ایک غلطی آپ حضرات کرتے ہیں کہ آرٹس کونسل کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو معاشرے میں ان کے مقام اور حیثیت سے الگ کر کے دیکھتے ہیں۔ اسے ہم ملک کی بد قسمتی کہیں یا ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی کہ ہمارے مہذب معاشرے میں ان حضرات کی حیثیت اچھوتوں جیسی ہے جو گمنام زندہ رہتے ہیں، گمنام دنیا سے اٹھ جاتے ہیں یہاں میں ان ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کی بات نہیں کر رہا جو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہر محفل میں جگمگاتے رہتے ہیں۔ اس قسم کی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالکوں کو نہ بے گھری کی شکایت ہوتی ہے نہ بد حالی کی نہ بے روزگاری کی کیوں کہ ’’ھٰذا من فضل ربی‘‘ ان پر ہمیشہ سایہ فگن رہتا ہے۔

آپ دوستوں نے بالکل درست کہا ہے کہ آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا مسئلہ عشروں سے لٹکا ہوا ہے صرف آرٹس کونسل کے انتخابات کے موقعے پر باہر آتا ہے۔ انتخابات کے بعد پھر ایک سال تک پردہ کر لیتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کوئی سا بھی ہو الیکشن لڑنے والوں کو ووٹ کے حصول کے لیے ووٹرز کے سامنے کچھ چارمنگ آئٹم بھی رکھنے پڑتے ہیں اور آرٹس کونسل کے کرایے کے مکانوں میں رہنے والے ممبر حضرات کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی سے زیادہ چارمنگ آئٹم اور کیا ہو سکتا ہے، ہمارے مہربان سحر انصاری بھی کرائے کے مکان ہی میں زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں، دوسرے کرایہ داروں کی طرح سحر انصاری کو بھی اپنے ایک ذاتی مکان کی ضرورت ہے اور وہ آرٹس کونسل کی بڑی فعال شخصیت بھی ہیں۔ لیکن وہ بھی آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام سے ایک سرد آہ بھر کر رہ جاتے ہیں تو ہما شما کس کھاتے میں آ سکتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے بلکہ اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے درویش صفت وزیر اعلیٰ نے ایک سے زیادہ مرتبہ آرٹس کونسل کو یقین دلایا کہ بہت جلد اس کی ہاؤسنگ  سوسائٹی کو زمین الاٹ کر دی جائے گی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ایک بارقائم علی شاہ نے آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو 300 ایکڑ زمین دینے کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا تھا لیکن بے چارے کریں کیا ایک جان سو کام ہیں کس کو یاد رکھیں کس کو بھول جائیں۔ اطلاع یہ ہے کہ شاہ صاحب حکم دے دیتے ہیں لیکن ہماری مُنہ زور بیورو کریسی بعض احکامات کو بوجوہ پیڈنگ میں ڈال دیتی ہے۔ سو شاہ صاحب کے اعلان بیوروکریسی کی دروازوں میں رہ جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے آرٹس کونسل میں ایسے فعال بندے نظر نہیں آتے جو  وزیر اعلیٰ کے احکامات کو فالو کریں اور بیورو کریسی کے سر پر سوار رہیں۔

مجھے یاد ہے یہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے کی بات ہے، رائٹرز گلڈ کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے  راقم الحروف اور انور شعور نے بہت بھاگ دوڑ کی بلکہ متعلقہ حکام کا جینا حرام کر دیا تب کہیں جا کر گلڈ کے لیے 25 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ قسمت سے ملنے والی اس زمین کو استعمال کرنے میں اتنی سستی یا کاہلی کا مظاہرہ کیا گیا کہ لینڈ مافیا نے اس زمین پر قبضہ کر لیا اور ہمارے ادیب شاعر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ لینڈ مافیا سے قبضے چھڑوا رہی ہے اگر گلڈ کے کرتا دھرتا اپنے آپس کے جھگڑوں کو پس پشت ڈال کر گلڈ کی 25 ایکڑ زمین کو قبضہ مافیا سے چھڑانے کی سنجیدہ کوشش کریں تو اس امکان کو  رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی الائٹی زمین حاصل کر لیں گے۔ اس طرح وہ بے گھر ادیب اور شاعر جو ساری زندگی کرائے کے مکانوں میں گزارتے آ رہے ہیں شاید اپنا گھر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ خاکروب موچی قصائیوں کی تنظیمیں بھی اپنی محنت لگن اور کوششوں سے اپنی رہائش کے لیے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے زمینیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ملک کے اس ادبی اور فنی ایلیٹ کو اب تک رہائش کی سہولتیں حاصل نہ ہو سکیں۔ ہمارے علم کے مطابق آرٹس کونسل کے سرپرستوں میں ایک سنجیدہ اور فعال شخصیت ڈاکٹر عشرت العباد کی ہے۔

ان کا شمار وعدہ پورا کرنے والوں میں ہوتا ہے آرٹس کونسل کی باگ ڈور بھی ایک فعال بلکہ غیر معمولی فعال شخصیت احمد شاہ کے ہاتھ میں ہے احمد شاہ کا شمار عملی لوگوں میں ہوتا ہے موصوف نے اب تک فنکاروں کے لیے بہت ساری سہولتیں فراہم کی ہیں۔ آرٹس کونسل کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ادیبوں، شاعروں کے علاوہ فنکار بھی ہیں اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی رہائش سے محروم ہے اگر احمد شاہ سنجیدگی سے اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیں تو بے گھر ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو اپنا گھر دستیاب ہو سکتا ہے یہ کوئی عیش و عشرت کے حصول کا مسئلہ نہیں بلکہ انسان کی بنیادی ضرورت کا مسئلہ ہے جسے جائز طریقے سے پورا ہونا  چاہیے، آرٹس کونسل کے دوستوں کے اصرار پر ہم نے یاد دہانی کر دی ہے اب ان دوستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ برادرم احمد  شاہ سے رجوع کریں۔

عام طور پر رہائش کے لیے پلاٹوں کے حصول پر زور دیا جاتا ہے اور پلاٹوں پر مکانوں کی تعمیر کے لیے سیکڑوں ایکڑ زمین کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اسکیم 33 وغیرہ میں سیکڑوں ایکڑ زمینیں حاصل کرنے کے بجائے اگر فلیٹس اسکیم کے لیے چند ایکڑ زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کام زیادہ آسانی سے ہو سکتا ہے شہر کے مختلف علاقوں میں ایکڑوں زمین پڑی ہوئی ہے کیا ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے لیے حکومت سندھ چند ایکڑ زمین نہیں نکال سکتی؟ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں بات صرف توجہ اور اہمیت کے ساتھ دلچسپی اور درست سمت میں کوشش کی ہے، بہر حال ہم نے اپنی ذمے  داری پوری کر دی ہے، آگے آرٹس کونسل کے عمائدین جانیں اور ارکان آرٹس کونسل جانیں۔

The post آرٹس کونسل کا ایک دیرینہ مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

$
0
0

پچھلے کالم میں ذکر یہ تھا کہ غم حسین سے ہمارے نثر نگار بالعموم انصاف نہیں کر سکے۔ آخر کیوں۔ اور ایسا کیوں ہوا کہ اس بڑے غم سے کم از کم ہمارے پاک ہند برصغیر میں جتنے گل پھول کھلے وہ شاعری میں کھلے۔ اردو‘ پنجابی‘ سرائیکی‘ سندھی پشتو، ادھر جنوبی ہند کی زبانوں میں دکھنی میں۔ اور ہاں مشرقی یو پی کی ایک بولی میں تو دوہے سے ملتی جلتی ایک شعری صنف دہا اس غم کے واسطے سے کچھ سے کچھ بن گئی۔ دکھنی میں اور ابتدائی اردو میں بھی نوحہ کیسا کیسا لکھا گیا۔ اردو کے ترقی یافتہ اظہار میں بھی نوحہ کتنی موثر صنف کے طور پر ابھرا ؎

رو کے چلائی بانو یہ بن میں
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر
کیوں لگایا ہے یاں تم نے بستر
گھر چلو‘ شام ہوتی ہے اصغر
کیسا ہُو کا یہ بن ہے یاں مسافر کو رنج و محن ہے
نیند آئے گی اس بن میں کیونکر
گھر چلو‘ شام ہوتی ہے اصغر

یہ ماں کی مامتا بول رہی ہے۔ کھرا دکھ۔ اس میں سرے سے کوئی تبلیغی رنگ نہیں ہے۔ تبلیغی رنگ کا ایک چھینٹا پڑ جاتا تو پھر یہ نوحہ نہیں رہتا۔ پھر یہ نوحہ تبلیغی نظم بن جاتا اور وہ تاثیر گم ہو جاتی جسے مامتا کے دکھ نے جنم دیا ہے۔

رفتہ رفتہ جب کربلا کی عظیم واردات نوحہ کے مرحلہ سے گزر کر اس نظم کے سانچہ میں اپنا اظہار پاتی ہے جس نے مرزا سوداؔ کے آتے آتے مسدس کی شکل اختیار کر لی۔ اب یہاں دکھ بھری نسائی آواز کے سوا بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیوں میں انسانی دکھ درد کی کتنی جہتیں اپنا اظہار پاتی نظر آتی ہیں۔ اور وہ جو انیسؔ نے کہا تھا کہ ؎

لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

تو ان مرثیوں میں فطرت کے کتنے جلوے نظر آتے ہیں اور غم حیات کے کتنے دھیمے اور اونچے سر سنائی دیتے ہیں۔ اور اس طرح اردو مرثیہ میں سچے تخلیقی اظہار کی کیا کیا جہتیں راہ پاتی نظر آتی ہیں۔ کہیں ایسی جہتیں تفصیل کے راستے سے ہم تک پہنچتی ہیں اور کہیں اختصار و ایجاز کا ایسا معجزہ کہ جب شیفتہؔ نے انیسؔ کے مرثیے کا یہ مطلع سنا کہ ع

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

تو کہا کہ یہ ایک مصرعہ ہی پورا مرثیہ ہے۔ اور جب مرثیوں میں بالخصوص انیسؔ کے مرثیوں میں رزم و بزم کے رنگا رنگ جلوے نظر آئے تو نقادوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مرثئے کی راہ اردو بھی رزمیہ شاعری سے مالا مال نظر آ رہی ہے پھر انیسؔ کا موازنہ دبیرؔ سے بڑھ کر ہومر‘ فردوسی اور تلسی داس سے کیا جانے لگا۔ گویا اردو شاعری تنگنائے غزل سے نکل کر رزمیہ کی وسعتوں میں پھیلتی نظر آنے لگی۔ یعنی غالبؔ نے جس خواہش کا اظہار کیا تھا وہ کہ انیسؔ کے یہاں جلوۂ صد رنگ کے ساتھ پروان چڑھی۔ مگر اختلاف کرنے والے نقادوں نے بال کی کھال نکالی اور جتانا شروع کیا کہ رزمیہ میں کتنی ایسی جہتیں ہیں کہ مرثیہ سے غائب ہیں اور اردو کی یہ صنف رزمیہ مشکل ہی سے رزمیہ کے ذیل میں شمار کی جا سکتی ہے۔

مگر ہو سکتا ہے کہ انیسؔ کے مرثیے میں کچھ ایسی جہتیں نظر آئیں جن سے یہ مرثیہ مالا مال ہے مگر یونانی‘ رومی‘ اور فارسی رزمیاؤں میں سے بعض میں یہ یکسر ندارد ہیں۔ بعض میں کم بہت ہی کم نظر آتی ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یونانی‘ رومی‘ اور فارسی رزمیاؤں کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ رزمیہ کی صنف مردانہ صنف ہے۔ نسوانی جہت کہیں سرے سے غائب ہے کہیں وہ اس حد تک ثانوی ہے کہ ان کا غالب وصف ان کا مردانہ رنگ ہے۔

ہومر کی ایلیئڈ میں مردانہ گھن گرج بہت ہے۔ نسوانی آواز مشکل سے، بہت مشکل سے سنائی دیتی ہے۔ سو اسی حساب سے کتنے انسانی رشتے سرے سے غائب ہیں۔ یہی حال اوڈیسی کا اور رامائن کا ہے۔

رامائن اور مہا بھارت میں بھائی بہت ہیں۔ بہنیں کتنی اور کہاں ہیں۔ مہا بھارت میں کوروؤں کا گھرانا مردوں سے پٹا پڑا ہے ایک ماں نے بیٹے تو سو کی تعداد میں جن ڈالے۔ مگر ان سو بھائیوں کی بہن کوئی نہیں ہے۔ رامائن میں جس گھرانے کے وسیلہ سے یہ داستان چلی ہے وہ چار بھائی ہیں۔ ان کی بہن کوئی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے کتنے خاندانی رشتے جن کے دم سے کوئی سماج رنگا رنگ نظر آتا ہے یہاں سے غائب ہیں۔ بہنیں نہیں ہیں۔

بھانجیاں بھانجے کیسے نظر آئیں گے اور چچیریاں‘ بھتیجیاں‘ پھوپھیاں‘ خالائیں‘ کیسے دکھائی دیں گی۔ یہ کیسے سماج ہیں کہ ایک پہئے کے زور پر ان کی گاڑی چل رہی ہے۔ دوسرا پہیہ کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے۔ کو رو نام کے سو بھائی میدان جنگ میں کھیت ہوئے۔ نسوانی کھیتی پھلی ہی نہیں۔ سو یہ یکرنگ معاشرے ہیں۔ اس زاویے سے نظر دوڑائے تو ان رزمیاؤں سے کتنی جہتیں گم ہیں۔ پوری انسانی مخلوق کی نمایندگی کرنے سے یہ رزمائیں قاصر ہیں۔ مرد‘ مرد‘ مرد۔ عورت بیچاری کو مردانہ مخلوق نے اس طرح روندا ہے کہ وہ نظر ہی نہیں آتی۔

میدان کربلا پر نظر دوڑائیے تو ایک طرف مردوں کی یلغار ہے۔ یزیدی فوج میں مردوں کی ریل پیل ہے۔ عورت کے نام بس حر کی زوجہ‘ اللہ اللہ خیر صلا۔

ادھر پورا ایک خاندان ہے۔ خاندان رسالت۔ کیا پُر بہار خاندان ہے۔ بھائی‘ بہن‘ خالائیں‘ پھوپھیاں‘ بھتیجیاں‘ پھر مرثیے میں ایسے شعر تو نظر آئیں گے اور ان کی رنگا رنگی ؎

یا رب رسول پاک کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

خالاؤں اور پھوپیوں‘ تائیوں اور چچیوں کی دعائیں‘ خاندان کی رنگا رنگ بچیوں کے لیے جو مختلف انسانی رشتوں کی نمایندگی کر رہی ہیں۔ باقی رزمیاء میں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں۔ محبت کے کتنے رنگ سرے سے غائب۔ عباس ایسا چچا اور سکینہ ایی بھتیجی‘ بی بی زینب ایسی پھوپھی اور اکبر ایسا بھتیجا۔ کتنے چاؤ اور ارمان ان رشتوں کے دم سے اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

سو یہاں شمشیروں کی جھنکار اور گھوڑوں کی ٹایوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر مقابلہ میں دور کے خیموں سے کتنی نسوانی آوازیں‘ بچیوں کا شور و غل بھی سنائی دے رہا ہے۔ کیسے سنائی نہ دے۔ بچیاں ہیں اور پیاسی ہیں۔ گویا نسوانی رنگا رنگی کے واسطے سے بھی انسانی غیر انسانی طاقتوں کے خلاف اپنا اعلان کر رہی ہیں۔ گویا انسانی صداقت تہہ در تہہ اور رنگ برنگے انسانی رشتوں ناطوں کے ساتھ لنگڑے لولے یا کہہ لیجیے کہ بانجھ غیر انسانی طاقتوں کے خلاف صف آرا ہے۔

اور اب اس شعر کو پڑھئے اور باقی نامی گرامی رزمیاؤں کے مقابلے میں اس کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ؎

یا رب رسول پاک کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

The post صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی ادیبوں اور فنکاروں کا احتجاج

$
0
0

جب ممتاز قلمکار اور فنکار ان اکیڈمیوں کو اپنے اعزازات واپس کر دیں جو ان کو عطا کیے گئے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے ایسا پہلے کیوں نہیں کیا، مثلاً ایمرجنسی جیسے بدترین دور میں۔ اصل میں یہ لکھنے والے اور فنکار بڑی حساس مخلوق ہوتی ہے، وہ جب محسوس کرتے ہیں اور جیسے محسوس کرتے ہیں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

حقیقت میں تو یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دیکھے کہ آخر ایسی کیا مصیبت آ گئی کہ اسقدر اہم لوگوں کے پاس اپنے اعزازات واپس کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ جواہر لعل نہرو کی بھانجی نیانترا سہگل نے، جنہوں نے کہ سب سے پہلے اپنا ایوارڈ واپس کیا‘ کہا ہے کہ معاشرے کی اس سے زیادہ گراوٹ نہیں ہو سکتی۔ نیانترا سہگل کو دیکھتے ہوئے بہت سے فنکاروں نے بھی ان کی پیروی کی۔ معروف ہندی شاعر من موہن نے اکیڈمی کے حکام کو اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے جو خط لکھا ہے اس میں کہا ہے کہ ’’اظہار رائے کو کچلنے کی کوشش کی وجہ سے نریندر دھبولکر‘ گوویند پنساری اور ایم ایم کلبورجی جیسے دانش ور لکھنے والوں کے پے در پے قتل نے انھیں سخت پریشان کر دیا ہے۔‘‘

اس خط میں انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’میں بھی اپنا ایوارڈ ہریانہ ساہتیہ اکیڈمی کو واپس کر رہا ہوں۔ بے شک یہ فرقہ واریت‘ نفرت‘ جرائم‘ عدم تحفظ اور تشدد ملک بھر میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ رہے سیاسی لیڈر، تو لگتا ہے کہ جیسے اس سب کو وہ خود بڑھاوا دے رہے ہیں بلکہ سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ حکومت خود بھی دانشوروں‘ لکھنے والوں اور فنکاروں کی تذلیل کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ اظہار خیال کی آزادی وہ بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر جمہوریت کا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے۔ اور اگر آزادی اظہار کو روکا جائے تو پھر جمہوریت کا سارا ڈھانچہ منہدم  ہو جائے گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔‘‘

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ہندوتوا کو مضبوط کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اب کسی مختلف خیال کا اظہار کرتے ڈر لگتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندو برادری پر کسی مذہبی جنونی گروہ نے غلبہ پا لیا ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں کے ذہن میں خوف پیدا ہو رہا ہے۔ دادری  کے علاقے میں ہونے والا واقعہ بے انتہائی شرمناک جس میں ایک مسلمان نوجوان کو صرف اس شبہے میں ہلاک کر دیا گیا کہ اس نے اپنی فرج میں بیف رکھا ہوا ہے حالانکہ یہ ایک افواہ تھی جو کہ صریحاً  بے بنیاد تھی۔ آخر کس کو بیف کھانا چاہیے یا نہیں کھانا چاہیے یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔

سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی کسی پابندی کی توثیق نہیں کی۔ اقلیتوں میں بہت سے لوگ یہ کھاتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی متحمل مزاج ثقافت نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر ہندو بھی مسلمانوں کے عقیدے کے احترام میں پورک نہیں کھاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ایک قوم کی حیثیت سے قائم رہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس کی متنوع ثقافت میں اسے تمام لوگوں کے  حساس معاملات  اور ان کی شناختوں کو تکریم حاصل ہے بصورت دیگر بھارت جیسا اتنا بڑا ملک بہت پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہوتا۔مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے ہمارے ملک کے لیے بڑے توصیفی جذبات کا اظہار کیا تھا اور ایک دفعہ انھوں نے مجھے کہا تھا کہ بھارت پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ کیسے ایک ایسا ملک جو اتنی پس ماندگی کے باوجود جمہوریت کو قائم رکھتے ہوئے متحد رہا ہے۔

ایک دفعہ انھوں نے مجھے پوچھا کہ آخر میرے نزدیک اس کی وجہ کیا ہے؟ تو میں نے انھیں بتایا تھا کہ ہم بھارت میں یہ نہیں سوچتے کہ چیزیں یا کالی ہیں یا سفید۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک سرمئی رنگ بھی ہے جس کو ہم اور زیادہ وسعت دینا چاہتے ہیں اور یہی ہماری اجتماعیت کی یا سیکولر ازم کی سوچ ہے۔ بدقسمتی سے حکمران جماعت بی جے پی کی سوچ اجتماعیت کے متضاد ہے۔ یہ پارٹی معاشرے کی تقسیم در تقسیم پر یقین رکھتی ہے۔

مثال کے طور پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھتری نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے  جو ایک  قومی اخبار میں بھی شایع ہوا کہ ’’مسلمان اگر چاہیں تو اس ملک میں بدستور رہ سکتے ہیں لیکن انھیں بیف کھانا ترک کرنا ہو گا کیونکہ گائے ہمارے عقیدے میں بے حد قابل تکریم ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے کانگریس میں بہت اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس نے کہا ہے کہ یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے بہت افسوسناک دن ہے۔ نیز اس بیان کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ توقع تھی بی جے پی کے لیڈر نے کہا کہ اس کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

مسٹر کھتری نے کہا کہ اول تو میں نے اس قسم کا کوئی بیان جاری ہی نہیں کیا اس کے باوجود اگر میرے الفاظ سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ بعد ازاں بی جے پی نے بھی کھتری کے بیان سے خود کو علیحدہ کر لیا اور کہا کہ یہ پارٹی کا نکتہ نظر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمانی امور کے وزیر ایم وی نائیڈو نے کہا ہے کہ مسٹر کھتری نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ پارٹی کی لائن نہیں۔ ’’میں خود ان سے بات کروں گا اور مشورہ دونگا کہ کسی کے کھانے پینے کی عادات کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ لوگوں کو دوسرے کے جذبات کا احساس کرنا چاہیے جب کہ کھانا پینا لوگوں کی اپنی پسند کا ہوتا ہے۔‘‘

لیکن جس بات نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ نائیڈو نے دادری کے سارے واقعے کو ریاستی حکومت کی ذمے داری قرار دیدیا اور کہا کہ اس سے چونکہ ریاست اتر پردیش میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا اس لیے اس کی جوابدہی وزیر اعلیٰ اکھلیش یادیو اور سماج وادی پارٹی کو کرنی چاہیے۔ اس کا الزام مرکز میں بی جے پی کی حکومت پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح لکھاریوں اور فنکاروں کے احتجاج پر انھوں نے کہا کہ یہ احتجاج حکومت کے خلاف چلائی جانے والی ایک سازش کا حصہ ہے تا کہ وزیر اعظم مودی تعمیر و ترقی کی جو کوششیں کر رہے ہیں اس سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔

تاہم نائیڈو کے ایک نکتے سے میں متفق ہوں کہ آج جو ایوارڈ واپس کرنیوالے لکھاریوں کی قطار لگی ہے آخر انھوں نے ایمرجنسی لگنے پر اپنے ایوارڈ کیوں واپس نہیں کیے تھے نہ ہی انھوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے 1984ء میں قتل کے بعد سکھوں کے خلاف جو فسادات ہوئے اور جن میں 3000 سے زیادہ سکھ مارے گئے تب بھی انھوں نے ایوارڈ واپس نہیں کیے۔ البتہ مجھے اس موقع پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی کی سمجھ نہیں آ رہی جو ہر وقت اپنی حکومت کو سراہتے رہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ان تازہ واقعات پر بھی لب کشائی کریں۔ اور نہ ہی مجھے اس بات کی سمجھ آئی ہے کہ آخر ساہتیہ  اکیڈمی والے کیوں خاموش ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں بعض ایسے مقام آتے ہیں جب عوام کو لازمی طور پر بولنا چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ نہیں بولیں گے تو پھر پوری قوم کا نقصان ہو گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

The post بھارتی ادیبوں اور فنکاروں کا احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.

شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (آخری قسط)

$
0
0

شام کی سرزمین پر جو جنگ و جدل اور خونریزی ہے اور جس طرح مغربی طاقتیں امریکا اور روس اس پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسی طرح مسلم امّہ کی دو طاقتیں سعودی عرب اور ایران بھی وہاں اپنے غلبے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکا اور روس کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ ہمارے اس خطے میں مفادات کی جنگ ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران اسے مسلک کا لبادہ اوڑھا کر منافقت کرتے ہیں اور اپنے علاقائی ایجنڈے کو حق و باطل کی جنگ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

یہ نہ شیعہ کی لڑائی ہے اور نہ سنی کی، یہ وہ قتل و غارت اور خانہ جنگی ہے جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مارچ 2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بھی ویسی ہی عوامی تحریک اٹھی تھی جیسی مصر، تیونس، مراکش، لیبیا اور یمن میں تحریکیں اٹھیں۔ پہلی جماعت جس نے بشارالاسد کے خلاف تحریک سے جنم لیا اسے حساّن عبود ابو عبداللہ نے منظم کیا، جسے حرکتِ احرار الشام الاسلامیہ کہتے ہیں۔ گیارہ نومبر 2011ء کو اس نے اپنے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی عالمی جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دوران بشارالاسد کے مظالم اسقدر شدید ہو گئے کہ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور بھوک کا عالم یہ تھا کہ لوگ مردہ جانوروں کا گوشت تک کھا کر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔

اس ظلم کے ردعمل میں بشار حکومت کے خلاف ہر علاقے میں جہادی گروہوں نے جنم لینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے ایک عالمِ دین امیر زہران علوش کو مکمل امداد کے ساتھ وہاں بھیجا جس نے جیش الاسلام کے نام سے تنظیم بنائی۔ یہ غوطہ شہر پر قابض ہیں اور انھوں نے دمشق پر حملہ کرنے کے لیے درجنوں سرنگیں کھود رکھی ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے شام کے وزیرِ انصاف کو دمشق کے ریڈ زون سے اغوا کیا اور بدلے میں پانچ سو قیدیوں کو چھڑایا۔ 22 نومبر 2013ء کو حسان عبود نے ان تمام تنظیموں کو اکٹھا کیا اور گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے بعد “الجبہۃالاسلامیہ” کا اعلان کر دیا۔

اس اتحاد میں کردوں کی بہت بڑی تنظیم الجبہۃ الاسلامیہ کردیہ بھی شامل تھی۔ یہ وہ موڑ تھا جس سے عالمی طاقتوں کو اس کھیل میں کودنے کا موقع ملا۔ سعودی عرب کی جیش الاسلام کی حمایت کے بعد ایران ویسے تو بشارالاسد کی پہلے سے ہی مدد کر رہا تھا، لیکن اب وہ کھل کر سامنے آ گیا۔ اپنے پاسداران اور  بسیج کے نوجوانوں کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا اور دنیا بھر میں اسے حق و باطل کا معرکہ قرار دے کر لوگوں کو وہاں لڑنے کے لیے اکسایا۔ اس وقت وہاں ایران کی مدد سے تین ملیشیا لڑ رہے ہیں جو کہتے ہیں ہم اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

دوسری جانب دولتِ الاسلامیہ یعنی داعش کو اٹھایا گیا تا کہ کسی طور پر بھی شام کی سنی اکثریت جو دس فیصد علوی بشارالاسد کے پرتشدد عہد میں رہ رہی ہے وہ متحد نہ ہو نے پائے۔ داعش کے قیام میں عراق اور شام کی حکومتوں نے جس طرح تعاون کیا اس کی مثال عراق میں موصل اور شام میں تدمر کے شہروں کی داعش کے ہاتھوں فتح ہے۔ موصل کو چھوڑتے ہوئے عراقی فوجی اپنا اسلحہ، ٹینک، دیگر ساز و سامان داعش کے لیے چھوڑ گئی۔

اسی طرح شام کے شہر تدمر کو جب بشارالاسد کی فوجوں نے خالی کیا تو جدید اسلحہ، گولہ بارود اور ٹینک داعش کے لیے چھوڑ گئے۔ گزشتہ تین سالوں سے شام کی فوج حمص شہر پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دو ماہ پہلے وہ وہاں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ اب ان سے بشارالاسد کی یہ لڑائی لڑنے کے لیے داعش جا رہی ہے جو حمص سے چند کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ شام کے شہر لاتاکیہ میں ایرانی فوج کا جرنیل قاسم سلیمانی پہنچ چکا ہے جس کی تصاویر رائٹرز نے جاری کیں، جب وہ ایرانی پاسداران اور حزب اللہ کے دستوں سے مشترکہ خطاب کر رہا تھا۔

اب یہ میدان بہت گرم ہونے جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 3 دسمبر 2014ء کو جب گیارہ جماعتوں کے اتحاد کا اجلاس ادلب میں ہو رہا تھا جس میں حسان عبود سمیت تمام قائدین جمع تھے تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوا جس میں سب کے سب جاں بحق ہو گئے۔ یہ سب اس وقت “وحدت الصف” یعنی ایک ساتھ لڑنے کا طریقہ کار طے کر رہے تھے۔ اس کے بعد سے ہر کوئی اپنے طور پر لڑ رہا ہے۔ اس دوران داعش نے اپنی جگہ بنا لی ہے، کیونکہ اس کا ایک خفیہ اتحاد بشارالاسد کی افواج سے ہے اسی لیے شام میں داعش نے اب تک صرف دیگر جہادی تنظیموں سے ہی جنگ کی ہے۔

روس، عراق اور ایران کے اتحاد اور امریکی حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ جنگ بہت طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سب طاقتیں مل کر بشارالاسد کو مستحکم اور مضبوط بنا دیں گی۔ یہ جنگ جسے ایران اور سعودی عرب نے حق و باطل کی جنگ بنا کر مسلم امّہ کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے، دراصل وہ فساد ہے جس کی نشاندہی میرے آقا سید الانبیاء ﷺ نے کی تھی۔ آپ ذرا احادیث کو ترتیب سے دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے چودہ سو سال پہلے آپﷺ نے کیسے خبردار کیا تھا۔

فرمایا “جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے (الفتن)، عنقریب تم افواج کو پاؤ گے شام، عراق اور یمن میں ( البیہقی)، خبردار کرتے ہوئے فرمایا “جب شام میں فساد ہو تو تمھاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل)۔ حضرت اسحٰق بن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیںکہ “جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہوں تو اہلِ شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں (السنن الواردۃ الفتن)۔ ان احادیث کو موجودہ زمانی ترتیب سے دیکھ لیں۔ عرب بہار کا آغاز سب سے پہلے مصر سے ہوا اور جیسے وہیں تحریر اسکوائر پر چار انگلیوں والے پیلے رنگ کے جھنڈے بلند ہوئے اور ادھر بشار الاسد کی فضائیہ نے نہتے عوام پر حملے شروع کر دیے اور اب تو پوری دنیا شام کے عوام پر حملہ آور ہے جنھیں آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں۔

یہ فساد جو اس وقت برپا ہے اس کا انجام کیا ہو گا۔ ایک تو وہ تجزیہ ہے جو سیاسی، عسکری اور عالمی تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ یہی تجزیے آپ کو نیویارک، لندن، تہران اور ریاض کے اخباروں میں ملیں گے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے تجزیہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک تجزیہ وہ ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی احادیث کی اور پیش گوئیوں کی روشنی میں ہے، اور وہی حق ہے کہ صادق و امین پیغمبر کی زبان سے جاری ہوا ہے۔

اس سارے فساد اور لڑائی سے کسی خیر کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی بلکہ اس کے بطن سے شام پر ایک شخص کی حکومت قائم ہو گی “جس کا نام عبداللہ ہو گا اور وہ سفیانی کے نام سے مشہور ہو گا، اس کا خروج مغربی شام میں اندر نامی جگہ سے ہو گا” (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ دوسری روایت “ام المومنین امِ سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ سفیانی کا خروج شام میں ہو گا، پھر وہ کوفہ کی جانب روانہ ہو گا تو مدینہ منورہ کے جانب بھی لشکر روانہ کرے گا، چنانچہ وہ لوگ وہاں لڑائی کریں گے جب تک اللہ چاہے، اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ایک پناہ لینے والا حرم شریف میں پناہ لے گا، لہٰذا وہ لشکر اس کی طرف نکلیں گے تو جب یہ لوگ مقامِ بیداء میں پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا سوائے ایک شخص کے جو لوگوں کو ڈرائے گا (علل ابن ابی حاتم)۔ اس دھنسانے کے واقعہ کے بعد اس بڑی عالم گیر جنگ کا صحیح آغاز ہو گا۔ اس لیے وہ پناہ لینے والے شخص امام مہدی ہونگے جن کے بارے میں تمام مسالک متفق ہیں۔

امت اس وقت جس انتشار اور فساد میں مبتلا ہے اس کو متحد صرف انھی کی ذاتِ گرامی کرے گی۔ ان کا ہیڈ کوارٹر شام کا شہر غوطہ ہو گا۔ سفیانی کے دھنسائے جانے کے بعد جو جنگ شروع ہو گی اس بارے میں فرمایا “جب رومی جنگِ عظیم میں اہلِ شام سے جنگ کریں گے تو اللہ دو لشکروں کے ذریعے اہلِ شام کی مدد کرے گا، ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ80 ہزار اہلِ یمن سے جو اپنی بند تلواریں لٹکائے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں (الفتن)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر ہو گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا “اہلِ روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچیں گے۔

ان کی جانب ایک لشکر مدینہ کی طرف سے پیشقدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگ قید کر کے لائے ہیں، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے۔ مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ اس پر تم ان سے جنگ کرو گے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کر دیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کریں گے (مسلم، ابنِ حباّن)۔ یہ ہے وہ میدانِ جنگ جو سیدنا امام مہدی کی سربراہی میں برپا ہو گا۔ اس وقت امتِ مسلمہ جس افتراق، انتشار، خانہ جنگی اور مسلکی بنیاد پر قتل و غارت کا شکار ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو حق سمجھتا ہے۔ مفادات نے مسالک میں پناہ لے لی ہے۔ ذاتی تعصب کو لوگ حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہیں۔

مغرب سے مغلوبیت اور ان کی کاسہ لیسی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ ارب مسلمان کیا کسی ایک جگہ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔ ہاں صرف اسی وقت اکٹھا ہوں گے جب اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق سیدنا امام مہدی جیسی قیادت ان کے درمیان موجود ہو گی۔ حالات و واقعات اسی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس فساد نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر ختم کرنا ہے اور اس کی کوکھ سے اتحاد نے جنم لینا ہے۔     (ختم شد)

The post شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (آخری قسط) appeared first on ایکسپریس اردو.


اپنے گریبان میں بھی جھانکیے

$
0
0

اس میں شک نہیں کہ امریکی صدر اوباما کی رگوں میں ایک مسلمان کا خون گردش کر رہا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی ماں کے عیسائی مذہب کو اپنا لیا تھا تاہم انھوں نے اپنے باپ سے بھی رشتہ نہیں توڑا اور اپنے والد کے دیے گئے نام بارک حسین اوباما کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ شاید اسی نام کی وجہ سے امریکی انتہا پسند عیسائی انھیں مسلسل مسلمان ہونے کا طعنہ ہی نہیں دیتے رہے بلکہ امریکی صدارت کا اہل بھی نہیں سمجھتے تھے۔

چند دن قبل امریکی صدارتی الیکشن کے لیے جاری نئی مہم کے دوران ایک ریپبلکن امیدوار بین کارسن نے اوباما کو نشانہ بناتے ہوئے کھل کر کہا کہ امریکی عوام کسی مسلمان صدرکو برداشت نہیں کرسکتے پھر امریکی آئین بھی مسلمانوں کے نظریات سے اختلاف کرتا ہے۔گوکہ اوباما کو شروع سے ہی ان کے اسلامی نام کی وجہ سے مسلمان ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے مگر یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ انھوں نے آج تک خود پر ہونے والی تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا اور شاید اسی لیے ان پر ان کے عقائد کے بارے میں تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا جیسا آزاد خیال معاشرہ جہاں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے اور ریاست کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پھر بھی وہاں کے عوام کسی مسلمان کو امریکا کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تو اس رجحان سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی خود امریکا میں بدرجہ اتم موجود ہے اور اس میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بعض آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کو عروج پر پہنچانے میں خود امریکا اور یورپی ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یورپ میں خاص طور پر ہالینڈ، ڈنمارک، جرمنی اور فرانس میں یہ عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

وہاں مسلمانوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ خواتین کو حجاب کی پابندی سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ تمام ممالک دنیا کے مہذب ترین ممالک کہلاتے ہیں مگر یہ دوسروں کی تہذیب اور مذہب کی کیا قدرکریں گے جب کہ خود اپنی تہذیب اور اقدار کو بھول چکے ہیں۔ یورپی ممالک میں پیغمبر اسلامؐ کے خاکے بنانا ایک عام فیشن بن گیا ہے گوکہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے مگر اس زہریلی مشق کو آزادیٔ اظہار کا نام دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے وہاں کی حکومتیں اس دل آزار مہم کی ہمت شکنی کرنے کے بجائے ہمت افزائی کرتی نظر آرہی ہیں۔

بلاوجہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا کہاں کا انصاف ہے جب کہ مسلمانوں نے کبھی عیسائی مذہب کی توہین نہیں کی وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کا ایک نبی مانتے ہیں اور ان کی ناموس کے لیے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔القاعدہ اور طالبان کا بدلہ اسلام اور مسلمانوں سے لینا سراسر زیادتی ہے۔ مسلمانوں نے القاعدہ اور طالبان کی کبھی حمایت نہیں کی کیوں کہ یہ دونوں تنظیمیں عالمی امن کی دشمن ہیں۔کسی بھی مسلم ملک نے انھیں اپنے ہاں ٹکنے نہیں دیا اور ان کے جنگجوؤں کو عبرت ناک سزائیں دی ہیں جس کی پاداش میں ان تنظیموں نے مسلمان ممالک کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

ان تنظیموں نے جتنا پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے کسی اور ملک کو نہیں پہنچایا۔ اس وقت پاکستان ان سے ہی نبرد آزما ہے اور اپنی حدود میں ان کا صفایا کرکے دم لے گا۔اس وقت امریکا اور یورپی ممالک دنیا کے سفید وسیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ وہ چاہیں تو مسلمانوں کے تمام دیرینہ مسائل حل کرسکتے ہیں مگر مسلمانوں سے تعصبانہ برتاؤ مسلسل جاری ہے۔ فلسطین اورکشمیر دو ایسے مقبوضہ خطے ہیں ۔

جن کے عوام برسوں سے اپنی آئینی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر ان کی کوئی آواز سننے کو تیار نہیں ہے جب کہ تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائی عوام کے لیے ان کی چند ہی سال کی جدوجہد کے بعد دو مسلم ملک انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر دو عیسائی آزاد اور خودمختار ملک بنا دیے گئے ہیں ادھر اقوام متحدہ کو مزید توسیع دینے کا پروگرام زیر غور ہے۔ بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان کو اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بنائے جانے کا امکان ہے مگر کسی مسلم ملک کو مستقل ممبر بنانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

مغربی ممالک خود ہی مذہبی انتہا پسندی پھیلانے میں سرگرم ہیں مگر مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی کا طعنہ ہی نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کا محرک قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے عالمی مذہبی انتہا پسندی سے متعلق جاری کی جانیوالی حالیہ سالانہ رپورٹ میں داعش اوردیگر مسلم انتہا پسند تنظیموں کی قوت میں اضافے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک مکمل طور پر مذہبی، لسانی اور نسلی تعصب سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اس رپورٹ میں اصل نشانہ اسلامی ممالک کو ہی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

افسوس اس امر پر ہے کہ مغربی ممالک خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کس تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے ساتھ ہی وہ اپنے حواری اسرائیل اور بھارت جیسے مذہبی جنونیت میں ڈوبے ہوئے ممالک کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اسرائیل نے تو مذہبی انتہا پسندی کی انتہا کردی ہے وہ فلسطینی مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہے۔

وہ فلسطین کو ایک آزاد ملک تسلیم کرنا توکجا مسلمانوں کو فلسطین میں رہنے کے حق سے ہی محروم کرنے کے در پے ہے اپنے ہولوکاسٹ پر آنسو بہانے والے یہودی اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو تہہ تیغ کرچکے ہیں۔ فلسطینیوں کے گھروں پر بمباری کرنا اور راہ چلتے مسلم نوجوانوں کو قتل کرنا معمول بن گیا ہے۔ مغربی ممالک جن کی اسے پشت پناہی حاصل ہے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو یہ مسئلہ آسانی سے چند ماہ میں ہی حل ہوسکتا ہے مگر وہ اسے خود ہی طول دے رہے ہیں اور اسرائیل کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرکے مشرق وسطیٰ کا ٹھیکیدار بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

اسرائیل کی طرح بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے وہاں بھی مسلمان ہی نشانے پر ہیں۔ ایک طرف انھیں مکمل مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے تو دوسری جانب انھیں ہندوؤں کے مذہبی عقائد کے آگے سر جھکانے کے لیے مجبورکیا جا رہا ہے۔ گائے محض ایک جانور ہے مگر اونچی ذات کے ہندو اسے اپنی ماں قرار دیتے ہیں۔

مسلمانوں کو اس کے گوشت کو کھانے کی اجازت لینا تو کجا اسے چھونے پر بھی پابندی لگا دی ہے پورے بھارت میں گائے ذبح کرنے اور گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کے ساتھ اس کی نگرانی بی جے پی کے غنڈوں کے حوالے کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پر نہیں بلکہ گوشت کھانے کے شبے میں قتل کیا جا رہا ہے اس کی مثال دادری کے اخلاق احمد سے دی جاسکتی ہے حال ہی میں ایک اور مسلمان نوجوان کو سہارن پور میں گائیوں کو ٹرک میں لاد کر لے جانے کی پاداش میں بی جے پی کے غنڈوں نے مار مار کر قتل کردیا ہے۔

دراصل بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے مذہبی انتہا پسندی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ نریندر مودی خود ایک کٹر مسلم دشمن مہاسبھائی ہیں ۔احمد آباد میں 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام ان ہی کے اشارے پر ہوا تھا وہ اب پورے بھارت میں ہندوتوا کو لاگو کرانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں وزیر اعظم بنانیوالی مسلم دشمن راشٹریہ سیوک سنگھ نے یہی ٹاسک سونپنا ہے۔ کہنے کو بھارت ایک سیکولر ملک ہے مگر نریندر مودی نے بھارت کے سیکولرزم کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔

بھارت میں اس وقت صرف آر ایس ایس ہی نہیں بلکہ متعدد ہندو انتہا پسند جماعتیں سرگرم عمل ہیں جن کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو یا تو ختم کردیا جائے یا پھر بھارت سے نکال دیا جائے۔ بال ٹھاکرے کی شیوسینا مسلم کش سرگرمیوں میں سب سے آگے نکل چکی ہے وہ ممبئی میں کئی مرتبہ مسلمانوں کا قتل عام کراچکی ہے اسے پاکستان سے خداواسطے کا بیر ہے کوئی پاکستانی اداکار یا گلوکار ممبئی میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرسکتا غلام علی کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔

سابق وزیر خارجہ محمود علی قصوری بڑی محبت کے ساتھ اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے ممبئی گئے تھے مگر شیوسینا نے ان کے ایک پاکستانی ہونے کی وجہ سے تقریب کے انعقاد میں روڑے اٹکائے مگر میزبان نے کسی طرح تقریب منعقد کرکے دکھادی جس کی پاداش میں میزبان جناب کلکرنی کے چہرے پر کالک مل دی گئی۔ کیا یہ مذہبی اور اخلاقی انتہا پسندی کی انتہا نہیں ہے؟ مغربی ممالک مسلمانوں کو تو مذہبی انتہا پسندی کے لیے کھل کر نشانہ بناتے ہیں مگر افسوس کہ نہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں اور نہ اپنے حواری ممالک کی خبر لیتے ہیں۔

The post اپنے گریبان میں بھی جھانکیے appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ

$
0
0

حضرت امام حسینؓ اتمام حجت فرماچکے تھے‘ وہ واپس اپنے خیمہ کی طرف مڑے لیکن مالک بن عروہ اپنا گھوڑا لے کر سامنے آگیا‘لشکر امام کے گرد آگ جل رہی ہے‘ وہ گستاخ مسکرایا اور کہا’’ اے حسینؓ! تم نے دوزخ کی آگ یہیں لگا لی (نعوذ باللہ )‘حضرت امام حسینؓ نے اس کا گستاخانہ جملہ سن کرفرمایا ’’اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے‘‘ مسلم بن سجوعہ نے اس کے منہ پر تیر مارنا چاہا مگر سیدنا حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ’’خبر دار! میری طرف سے کوئی جنگ کی ابتدا نہیں کرے گا‘‘ یہ فرما کر امام عالی مقام نے اپنا دست مبارک بارگاہ خدا وندی میں اٹھایا اور عرض کیا ’’یا اللہ! عذاب دوزخ سے قبل اس گستاخ کو دنیا کی آتش میں مبتلا کردے‘‘۔

ابھی امام عالی مقام کے اٹھے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ مالک بن عروہ کے گھوڑے کا پاؤں زمین کے ایک سوراخ میں پھنس گیا ‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ اس کا پاؤں رکاب میں الجھا ‘ گھوڑا اسے لے کر بھاگ کھڑا ہوا اور اسے آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ ایک اور گستاخ نے حضرت امام حسینؓ کے سامنے آ کر کہا ’’اے حسینؓ! دیکھ دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے‘ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں‘ تمہیںاس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں ملے گا‘ تم پیاسے ہی مر جاؤ گے‘‘ (نعوذ باللہ)۔ امام عالی مقام نے پھر بارہ گاہ الٰہی میں عرض کیا ’’یا اللہ اس کو پیاسا مار دے‘‘آپؓ کا یہ فرمانا تھا ‘ اس گستاخ کا گھوڑا بھی بھاگ کھڑا ہوا ‘ وہ شخص گھوڑے کو پکڑنے کے لیے دوڑا اور اچانک اس پر پیاس کی شدت غالب آ گئی اور العطش العطش پکارنے لگا‘ لوگ پانی اس کے منہ کو لگاتے تھے لیکن وہ پانی کا ایک قطرہ تک پی نہیں پاتا تھا حتیٰ کہ وہ اسی طرح پانی پانی پکارتا مر گیا‘‘۔

ہم اگر اسلامی دنیا اورمسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ تلاش کریں تو ہم بے اختیار کہہ اٹھیں گے‘ کریکٹر‘ مسلمان 14 سو سال سے کریکٹر کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں‘ ہماری صفوں میں ہر دور میں ابن زیاد اور شمر جیسے لوگ شامل ہو جاتے ہیں اور یہ شمر اپنے چند برسوں کے مفاد اور تھوڑے سے فائدے کے لیے حضرت امام حسینؓ  جیسی شخصیات کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند دیتے ہیں‘ ہم لوگ اندر سے کیسے ہیں‘ آپ صرف کربلا کے سانحے کی تفصیلات پڑھ لیں‘ آپ مسلمانوں کے کریکٹر سے آگاہ ہو جائیں گے۔

کوفہ کے چند لوگ حضرت امام حسینؓ کے پاس آئے‘ آپؓ  نے ان سے دریافت کیا’’ تمہاری پارٹی کے لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘ مجمع بن عبداللہ العامری نے جواب دیا’’ سر برآوردہ قسم کے لوگ آپ کے خلاف جتھہ بنائے ہوئے ہیں‘ ان کو بڑی بڑی رشوتیں مل چکی ہیں ‘حکومت نے ان کی خواہشات پوری کر دی ہیں‘ وہ سب آپ کے خلاف برسر پیکار ہوں گے‘ رہے عوام تو ان کے دل آپ کی جانب مائل ہیں مگر ان کی تلواریں کل آپ کے خلاف اٹھیں گی‘‘۔عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو بھیجا ‘ حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا’’ عمر! میری تین باتوں میں سے کوئی ایک بات مان لو‘‘ وہ خاموش رہا‘ آپؓ نے فرمایا ’’ مجھے واپس جانے دو‘ میں جیسے آیا ہوں ویسا ہی واپس چلا جاتا ہوں۔

اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھرمجھے یزید کے پاس لے چلو ہم دونوں اپنا فیصلہ خود کر لیں گے اور اگر یہ بھی پسند نہیں تو پھر مجھے ترکوں کی طرف جانے دو ‘‘ عمر بن سعد نے یہ پیغام ابن زیاد تک پہنچادیا‘ عمر بن سعد کا خیال تھا‘ ہمیں حضرت امام حسینؓ کو یزید کے پاس بھیج دیناچاہیے مگر شمر ذی الجوشن نہیں مانا‘ اس کا کہنا تھا‘حضرت امام حسین ؓ کو آپ کا حکم ماننا چاہیے‘ یہ بات حضرت امام حسین ؓ تک پہنچادی گئی‘ آپؓ نے فرمایا ’’میں یہ نہیں کروں گا‘‘ عمر بن سعد حضرت امام حسینؓ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کو بھیج دیا اور اسے حکم تھا’’ اگر عمرجنگ کے لیے تیار نہ ہوتواسے قتل کر دو اور اس کی جگہ لے لو‘حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بھی بند کر دو‘‘۔ امام عالی مقام اور ان کے ساتھی سب تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے‘ حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا پانی پی لو ‘ اپنے گھوڑوں کو بھی پلاؤ اور دشمنوں کے گھوڑوں کو بھی پانی پینے دو۔

عمر بن سعد اور شمر ذی الجوشن نے حضرت امام حسینؓ اوران کے ساتھیوں کا نویں محرم کی شام گھیراؤ کر لیا‘ اس رات حضرت امام حسینؓ نے اپنے اہل خاندان کو وصیت کی‘ اپنے ساتھیوں کے سامنے تقریر کی اور ان کو اختیار دیا‘ آپ جانا چاہیں تو چلے جائیں ‘ آپ ؓ نے فرمایا ‘ میں دشمنوں کا تنہا ہدف ہوں لیکن ان کے بھائیوں‘ صاحبزادوں اور بھائیوں کے صاحبزادوں نے جواب دیا ‘ آپؓ کے بعد ہماری زندگی بے کار ہے۔

اللہ ہم کووہ نہ دکھائے جسے ہم پسند نہیں کرتے‘ حضرت عقیلؓ کے صاحبزادوں نے کہا‘ ہماری جانیں‘ ہمارے مال اور ہمارے اہل و عیال سب آپؓ پر قربان ہوں‘ جو انجام آپؓ کا ہوگا وہ ہمارا ہو گا‘ آپؓ کے بعد ہمارے زندہ رہنے پر تف ہے۔ جمعہ کے دن صبح کی نماز حضرت امام حسینؓ نے ادا کی‘ (بعض روایات کے مطابق ہفتہ کا دن تھا) ‘ آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیدل تھے‘حضرت امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ‘ آپؓ نے قرآن کریم اپنے سامنے رکھ لیا‘ آپؓ کے صاحبزادے علی بن حسین (حضرت زین العابدین) بیمار اور کمزور تھے۔

وہ بھی جنگ کے لیے تیار ہوئے لیکن آپؓ نے ان کو روک دیا‘ حضرت امام حسینؓ دشمن کے سامنے پہنچے توآپ انھیں یاد دلانے لگے ‘ لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں‘ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو‘ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ  ﷺکا وہ قول یاد نہیں جو انھوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا ‘ یہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ حر بن یزیدکے دل پر اس تقریر کا اثر ہوا‘ وہ دشمن کی صفوں سے نکل کر آپؓ سے مل گئے۔

شمر آگے بڑھا اور حضرت امام حسینؓ کے رفقاء پر حملے شروع کر دیے ‘ آپؓ کے ساتھی آپؓ کے سامنے جنگ کرتے رہے ‘ آپؓ ان کے لیے دعا کرتے رہے‘ وہ تمام آپؓ کے سامنے شہید ہو گئے ۔آخر میںشمر نے آواز لگائی’’ اب حضرت حسینؓ کی باری ہے‘ انتظار کس چیز کا ہے؟‘‘ یہ آواز سن کر زرعہ بن شریک آپ ؓ کی طرف بڑھا اور آپ کے شانہ مبارک پر وار کیاپھر سنان بن انس نے تیر چلایا جس سے آپؓ  گر گئے‘ شمر آپؓ کی طرف بڑھا اور پیچھے سے وار کر کے سر مبارک تن سے جدا کر دیا‘ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اطہر کو دیکھا گیا تو اس پر نیزوں کے33 نشان تھے جب کہ دوسری ضربوں کے اس وقت 34 آثار تھے‘ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 72 جاں نثار شہید ہوئے‘ حضرت امام حسینؓ جس روز شہید ہوئے وہ عاشورہ جمعہ کا دن تھا‘ محرم کا مہینہ اور سنہ 61ہجری تھا‘ آپ کی عمر مبارک اس وقت 56 سال‘پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔

آپ ملاحظہ کیجیے ہم کریکٹر میں کس قدر کمزور ہیں‘ شمر کے لشکر نے حضرت امام حسینؓ کی  شہادت کے بعد اہل بیت کے خیموں کو گھیرا اور اہل بیت کا مال و متاع لوٹنا شروع کر دیا‘ آٹھ دس سال کی ایک چھوٹی سی بچی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے‘ ایک ظالم نے بچی کا بازو پکڑا اور کنگن اتارنا شروع کر دیے‘ وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا‘ بچی نے روتے روتے اس سے پوچھا ’’چچا میں تو نواسہ رسول کے غم میں رو رہی ہوں‘ تم کیوں رو رہے ہو‘‘اس بدبخت نے جواب دیا ’’میں جب آپ کے خیموں کو آگ سے جلتے دیکھتا ہوں۔

حضرت امام حسینؓ  کا لاشہ دیکھتا ہوں‘ حضرت علیؓ شیر خدا کے خاندان کو کربلا کی ریت پر خون میں لت پت دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں ابل آتی ہیں‘‘  بچی نے پوچھا ’’ پھر چچا آپ میرے کنگن کیوں اتار رہے ہیں‘‘ بدبخت نے جواب دیا ’’ میں یہ کنگن اس لیے اتار رہا ہوں کہ یہ اگر میں نہیں اتاروں گا تو یہ کوئی دوسرا اتار لے گا‘‘ آپ ہم مسلمانوں کا کریکٹر ملاحظہ کیجیے‘ واقعہ کربلا کے برسوں بعد کوفہ کے چند علماء کرام حضرت زین العابدین  کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا ’’ حضرت یہ فرمائیے گا کیا ہم مسلمان مچھر مار سکتے ہیں‘‘ آپ نے اداس لہجے میں جوب دیا ’’ آپ کیسے لوگ ہیں‘ آپ نے حضرت امام حسینؓ کو کربلا میں شہید کر دیا لیکن مچھر مارنے کے لیے فتویٰ تلاش کر رہے ہیں‘‘ ہم آج بھی ایسے ہی ہیں‘ ہم بڑے سے بڑا ظلم کرتے ہوئے‘ ایک سیکنڈ نہیں سوچتے‘ اس ملک میں دس برسوں میں پچاس ہزار بے گناہ لوگ مار دیے گئے۔

کسی نے کسی سے نہیں پوچھالیکن ہم آج بھی پولیو کی ویکسین کے لیے فتوے تلاش کر رہے ہیں‘ ہم ہر سال غم حسینؓ  بھی مناتے ہیں اور مسلمان ہونے کے باجود کسی دوسرے مسلمان کو عزت سے زندگی بھی نہیں گزارنے دیتے‘ حضرت امام عالی مقام نے فرمایا تھا ’’ میرے لیے موت کی آغوش کسی فاسق شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے‘‘ لیکن ہم لوگ فاسقوں کے ساتھ بھی رہتے ہیں اور خود کو حضرت امام حسینؓ کا غلام بھی کہتے ہیں‘ ہم شمر جیسی ظالمانہ زندگی گزارتے ہیں لیکن عزت حضرت امام حسین ؓ جیسی چاہتے ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی کے حق دار ہو سکتے ہیں۔

The post کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ appeared first on ایکسپریس اردو.

بس زندہ ہیں

$
0
0

’’معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستوں کے مسافر ہیں، میں موت کی تنگ و تاریک گھاٹی کی جانب رواں اور تم شارع زندگی کی طرف گامزن ۔کون سا راستہ ٹھیک ہے یہ نہ تم جانتے ہو نہ میں جانتا ہوں مگرخیر تم سے مجھے کوئی شکوہ نہیں، تم تو یہ بھی نہیں جانتے ہوکہ تم کچھ نہیں جانتے ہاں مگر کچھ دنوں بعد تم جان لوگے کہ تم نے ایک ایسے فطین آدمی کوکھودیا ہے، جو یہ جانتا تھاکہ وہ کچھ نہیں جانتا۔یہ سقراط کا آخری بیان تھا۔

یونان کی قدیم تاریخ کے حوالے سے’’گاڈ آف ڈیلفی ‘‘سچ کا خدا تھا۔ ڈیلفی میں اپالو کے معبد پر یہ معروف فقرہ تحریر تھا کہ ’’اپنے آپ کو پہچانو ‘‘ ایک دفعہ سقراط نے ایک نوجوان کو اصلاح نفس کی طرف راغب کرتے ہوئے اس سے پوچھا کیا تم کبھی ڈیلفی گئے ہو۔ نوجوان یوتھائیڈیمس نے جواب میں کہا جی میں تو دوبارجاچکاہوں۔ سقراط ، اچھا توکیا وہاں یہ الفاظ لکھے ہوئے دیکھے تھے کہ ’’اپنے آپ کو پہچانو‘‘یوتھائیڈیمس: بالکل میں نے پڑھے تھے۔

سقراط :صرف پڑھنا ہی توکافی نہیں ہے کیا اس پر غور بھی کیا تھا کیا تمہیں اس کی فکر بھی ہوئی کہ اپنے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تم ہوکیا۔ یوتھائیڈیمس: یہ تو میں پہلے ہی سے جانتاہوں ،اس لیے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی ۔ سقراط: اپنے آپ کو جاننے کے لیے اپنا نام جاننا توکافی نہیں ہے ایک شخص جوگھوڑا خریدنا چاہتا ہو جب تک اس پر سواری کرکے یہ نہ دیکھ لے کہ وہ سدھایا ہوا ہے یا سر کش ، مضبوط ہے کمزور، تیزرفتار ہے یا سست اورایسی ہراچھی بر ی چیز کا اس میں جائزہ نہ لے تب تک وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میں نے اس گھوڑے کو اچھی طرح جان لیا ہے۔

اسی طرح ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو جاننے کا دعو یٰ کریں جب کہ ہم اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے بے خبر ہوں اور ان فرائض سے ناآشنا ہوں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں۔‘‘ آئیں ہم اپنی بات کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے اور اپنے آپ پر ظلم یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اورتیسری یہ کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔

ٹیگور نے کہا تھا فکر فکرکو دورکرتی ہے جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا تو وہ جاننے کے لیے تگ و دوکرتا ہے۔ یاد رہے نہ جاننے سے جاننے تک کا سفر بہت دشوار اورتکلیف دہ ہوتا ہے جب تک آپ کچھ نہیں جانتے تو آپ خوش رہتے ہیں مست رہتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ جاننے لگتے ہیں تو آپ پر بھیانک اور اذیت ناک سچائیاں ایک ایک کرکے کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایسی ایسی ڈراؤنی سچائیاں جسے دیکھ کر انسان خوف سے کانپنا شروع کردے آج ہم سب خوش اور مست ہیں اس لیے کہ ہم سچائیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔

آئیں خوفزدہ اور ڈرنے کے لیے تیار ہوجائیں کیونکہ ایک ایک کرکے آپ پر سچائیاں کھلنے والی ہیں، لیکن پہلے میرے چند سوالوں کا جواب دے دیں ۔پہلا سوال: یہ ہے کہ یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اس میں عام لوگ خوشحال ہوں با اختیار ہوں آزاد ہوں ملک کے ہر فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہو ملک میں مساوات ہو طبقاتی کشمکش نہ ہو۔ ملک میں عوام کی حاکمیت ہو آپ کے بزرگوں نے صرف اسی لیے جانی ومالی قربانیاں دیں تھیں کہ ان کے یہ سارے خواب حقیقت کا روپ دھار لیں کیا ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رنگ لائیں یا ساری کی ساری ضایع ہوگئیں۔ دوسرا سوال: کیاہم دنیا بھرکے ساتھ چل رہے ہیں یا الگ تھلگ ایک کونے میں کھڑے اپنے آپ پر ماتم کررہے ہیں۔ تیسرا سوال: کیا ہمارا اور ہماری اولاد کا حال اور مستقبل محفوظ ہے ۔

چوتھا سوال :کیا ہم سب ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست ہیں یا خوفناک بیماریوں کے جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ پانچواں سوال :کیا ہمارا ہرجائزکام بغیر رشوت اور سفارش کے باآسانی ہورہاہے یاہم سب روز اس کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں چھٹا سوال :کیاہم اپنی اور اپنے پیاروں کی ساری خواہشوں،آرزؤں، تمناؤں اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کوپوراکررہے ہیں یا روزذلیل وخوارہوتے ہی پھررہے ہیں اور روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔

ساتوں سوال :کیا ہماری معاشرے میں کوئی عزت ہے یا ہر بڑا امیروکبیر اورطاقتور آدمی ہمیں ذلیل کرکے تسکین حاصل کرتا رہتا ہے ۔ آٹھواں سوال: کیا وہ لوگ جو ہمارے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں جیتنے کے بعد کیا ہمیں گھاس ڈالتے ہیں ۔کیا ہمیں ذرا برابر اہمیت دیتے ہیں کیا ہمارے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں ۔کیا ہم سے باآسانی ملاقات کرتے ہیں ۔ نواں سوال: کیا ہمیں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی حاصل ہے یاہم ہروقت خوفزدہ رہتے ہیں۔

دسواں سوال :کیا خواتین اور اقلیتوں کو مکمل مساوی حقوق حاصل ہیں یا انھیں کوئی انسان ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گیارہواں سوال :گنتی کے جو چند لوگ ملک میں لوٹ مار اورکرپشن کر رہے ہیں کیا ہم کبھی متحد ہوکر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب آپ ان سوالوں کے جواب دے رہے ہونگے تو آپ پر یہ ڈراؤنی سچائی کھل چکی ہوگی کہ آپ دراصل ایک دوزخ میں رہ رہے ہیں ایسی دوزخ جو پہلے پہل جنت تھی لیکن ہم نے اسے مل کر دوزخ میں تبدیل کردیا اور جب کبھی کوئی گھبرا کر خوفزدہ ہو کر اس دوزخ سے بھاگنے کی کو شش کرتا ہے تو ہم سب مل کر اسے دبوچ لیتے ہیں وہ پھرکوشش کرتا ہے ہم پھر اسے دبوچ لیتے ہیں ،اصل میں ہم سب اس دوزخ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ نہ تو ہمارا دل اسے تبدیل کرنے کو چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کو اسے تبدیل کرنے دیتے ہیں۔ ہم سب ان فرائض سے ناآشنا ہوچکے ہیں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں۔

اصل میں ہم سب اپنی اپنی یادداشت کھوچکے ہیں ،کیونکہ ہم الزائمر مرض کا شکار ہوچکے ہیں الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں نہ صرف یادداشت ختم ہوجاتی ہے بلکہ سماجی سرگرمیوںمیں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ مریضوں میں دماغ کے ایسے حصے متاثر ہوتے ہیں جو فکر،یادداشت اور زبان کے استعمال کو قابوکرتے ہیں ۔ اسی مرض کی وجہ سے نہ ہم اپنے آپ کو پہچان رہے ہیں نہ اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں بس سب کچھ بھول بھال کر صرف زندہ ہیں نہ ہمیں اپنی کوئی فکر ہے نہ اپنے پیاروں کی اور خو شحالی ، ترقی، کامیابی، آزادی اورخوشیاں کیا ہوتی ہیں نہ ہمیں یاد ہے اور نہ ہمیں ان کی کوئی فکر ہے بس صرف زندہ ہیں ۔

The post بس زندہ ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

مودی سرکار

$
0
0

انھی صفحات پہ لکھا تھا جب مودی سرکار گجرات سے پھیل کر ہندوستان کی راجدھانی تک پہنچے تھے۔ وہ خطرات جو مجھے نظر آرہے تھے کہ ہندوستان فاشزم کے نرغے میں جا رہا ہے۔ یہی لکھا تھا کہ کس طرح ہٹلر نے جرمنی کو اپنی زہر آلود تقاریر سے نرغے میں لیا تھا، اور پھر کس طرح جرمنی نے اسے بیلٹ باکس پر جتوایا تھا اور پھر کس طرح ایک فاشسٹ بالآخر آمر بن کے ابھرا۔ ہوا کیا؟ پوری دنیا کو جنگ کے بادلوں کی نذر کیا۔

اور بالآخر شرمیلا ٹیگور بول اٹھی کہ ہندوستان میں یوں لگتا ہے ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے۔ جب اندرا نے ایمرجنسی نافذ کی تھی تو یوں کہیے کہ وہ ہندوستان کے Context میں مارشل لا تھی۔ جب سرخ انقلاب کے بہانے اوڑھ کر، روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر وہ آمر بن کے ابھری تھی۔ میں نے لکھا تھا انھی صفحات پر کہ پھر جس طرح سپریم کورٹ آف انڈیا اس سے ٹکرائی تھی بالکل اسی طرح کورٹ ہی ہوگی جو مودی کو روکے گی۔

پاکستان کا وجود، دائیں بازو کے انتہا پرستوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ تو پھر کیا ہوا جہاں مودی کی R.S.S چھوٹی پڑجاتی ہے، وہاں شیوسینا، بال ٹھاکرے آگے آجاتے ہیں اور نفرت زدہ اپنی اس Narrative میں ہوا بھرتے ہیں۔ اب کی بار جو جمہوریت کے لبادے سے ہندوستان میں آمریت برپا ہو رہی ہے، اس کی طاقت کے پھلنے پھولنے کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔ تو پھر ہمارے ہاں بھی ہیں ایسے لوگ جو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

وہاں کی اس انتہا پرست سوچ نے پاکستان کا کرنا کچھ نہیں ہے اور کر کچھ بھی نہیں سکتے مگر اس بہانے اپنے ہندوستان کے لوگوں کو یرغمال کریں گے۔ اور پھر جو کیا تھا ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ، یہی کیا تھا ضیا الحق نے پاکستان کے ساتھ، اور یہی کرے گی ہر آمریت، وہ جہاں بھی ہو، جدھر بھی ہو مگر جو تاریخ کا شاگرد ہے اسے پتا ہے کہ اس بار اس طرح ہونا ممکن نہیں۔ اب تو رسم چل پڑی ہے، ہندوستان میں اہل قلم جن کو ریاست نے تمغے دیے ہیں، ایسے کوئی پچاس کے لگ بھگ رائٹر ہیں جنھوں نے یہ تمغے واپس کردیے ہیں، کیونکہ جب یہ ریاست گاندھی کی نہیں رہی تو پھر تمغے کاہے کے۔

ہمارے ہاں ماجرا کچھ اور ہے، ہم نے بہت سے ایسے نفرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم نے اب بھی بہت سے ایسی سوچ رکھنے والوں سے بالکل ناتا نہیں توڑا۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اب بھی ہم Strategic Assets سمجھتے ہیں۔

یہ ہندوستان کے پاکستان کے وجود کو نہ ماننے کے رویے تھے، جس نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی وہ چاہے اچھی تھی یا بری، اپنے انداز سے مرتب کرنے پر مجبور کیا۔ کل وہ سوویت یونین کا ساتھی تھا تو ہم سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے پٹھو تھے۔ آج وہ امریکا کے بہت چہیتے ہیں تو ہم چائنا کے بہت قریب ہیں۔ تو ساتھ ساتھ ہم امریکا سے بھی تعاون کر رہے ہیں اور اپنی بقا کی خاطر اب ہم سعودی عرب کی بہت ساری دخل اندازیوں کے خلاف بھی ہیں۔ ہم ایران کے بھی قریب آنا چاہتے ہیں۔

لیکن آج ہندوستان کے اندر بہت سے ایسے ہیں جو اس فاشزم کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں، ہمیں اس ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، لیکن اخلاقی طور پر، جس طرح ایک امن پرست، جمہوریت پرست، ترقی پسند، دنیا کے امن میں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ بھی کھڑا ہوتا ہے۔

ہم سب برصغیر میں رہتے ہیں، برصغیر ہمارا وشال عرض ہے، ہمارا پڑوسی ہے، ہم پر سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے۔ ہمیں انتہا پرستی زیب نہیں دیتی، وہ اس لیے کہ ہماری انتہا پرستی دنیا کے اندر اس انتہا پرستی سے جڑتی ہے جو القاعدہ کے روپ میں ہے، جو را کے روپ میں ہے، اور جب ہم نے ان کے خلاف کام کیا تو یہ بات بھی ہندوستان کی انتہا پرست سوچ جو ریاست کے اندر اداروں کے روپ میں بیٹھی ہے جسے RAW وغیرہ بھی کہا جاسکتا ہے، ان کو اچھی نہیں لگی اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ اب اس مذہبی انتہا پرستی میں بھی ہمارے ہاں ان کے نادیدہ اور سرگرم ہاتھ ہیں۔

پراکسی جنگ ادھر سے ہو یا ادھر سے دونوں غلط اور خود سوز ہیں اور دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ ایمرجنسی یہاں لگے یا وہاں لگے، دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ جمہوریت پرست، امن پرست، ترقی و حوشحالی پرست یہاں ہوں یا وہاں ہوں، ہم دونوں ایک ہیں۔ ہمارا برصغیر ایک ہے، ہماری تاریخ ایک ہے، ہم نے وجود سے جنم پالیے۔ مسلمانوں نے لگ بھگ آٹھ سو سال ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ تاج محل ان کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ طبلہ ہو یا ستار، بھگت کبیر ہوں یا شاہ لطیف، ان کے بھی ہیں اور میرے بھی ہیں۔

اور اگر آپ میں سے کوئی تاریخ کا شاگرد ہے تو پھر فیض کی اس بات سے جو وہ ’’لوح و قلم سے لکھا ہے‘‘ کہ حوالے سے کرتے تھے۔ ایک دن برصغیر ایک ہونا ہے۔ یورپی یونین کی طرح، اور دنیا کے بہت سے ریجنل معاشی اتحادوں کی طرح۔ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ غربت ہے جو اس ہندوستان پاکستان دشمنی کی وجہ سے اور بڑھتی ہے۔

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

The post مودی سرکار appeared first on ایکسپریس اردو.

دو دلیپ کمار

$
0
0

صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) کے دو مختلف شہروں پشاور اور سوات سے اپنی اپنی جوانی کے دور میں دو نوجوانوں کی زندگی کے ایک اہم سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک نوجوان بمبئی کے دامن میں سمٹ جاتا ہے اور دوسرا نوجوان کراچی کا باسی بن جاتا ہے۔

ایک نوجوان ابتدا میں ریلوے اسٹیشن پر پھل اور ڈرائی فروٹ بیچتا ہے اور دوسرا نوجوان کراچی کی سڑکوں پر رکشہ اور ٹیکسی چلاتا ہے پھر وقت کے پنے پلٹے ہیں، پشاور کا یوسف خان بمبئی کی فلم انڈسٹری کا نامور اداکار دلیپ کا روپ دھار لیتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی عظیم فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے اور سوات سے آنے والا نوجوان پاکستان کی پہلی پشتو فلم کا ہیرو بن کر منظر عام پر آتا ہے اور فلموں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرتا ہے وہ نوجوان بدر منیر کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے اور اسے اتنا عروج ملتا ہے کہ شہرت اس کے قدموں کی کنیز بن جاتی ہے اور فلمی دنیا اسے پشتو فلموں کے دلیپ کمار کا خطاب دیتی ہے۔ کراچی سے پشاور تک بدر منیر کی تاج پوشیاں کی جاتی ہیں۔

اسے بھی پشتو فلموں کا شہنشاہ قرار دیا جاتا ہے اور ان دو نوجوانوں کے کچھ ایسے خواب پورے ہوتے ہیں جو ان دونوں نے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے۔ بمبئی کے دلیپ کمار کو میں نے کراچی کی ایک تقریب میں دیکھا تھا اور بس دیکھتا ہی رہ گیا تھا کیوں کہ میں بھی دلیپ کمار کے کروڑوں پرستاروں میں سے ایک تھا۔

پشتو فلموں کے دلیپ کمار سے میری کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بے شمار ملاقاتیں ہوئی تھیں اور اس لیجنڈ اداکار سے جب وہ ایک عام شخص تھا، اسٹوڈیو کے گیٹ پر پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ جب بدر منیر ایسٹرن اسٹوڈیو کے گیٹ کے باہر فلمسٹار محمد علی اور وحید مراد کو بڑے شوق سے دیکھنے کے لیے آتا تھا اور اس کی ٹیکسی گیٹ کے باہر کھڑی رہتی تھی اور خود گھنٹوں اپنے پسندیدہ فنکاروں کو دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا تھا، پھر قسمت سے بدر منیر کو اسٹوڈیو کے اندر داخلہ مل گیا تھا اور پھر میں نے بدر منیر کو اسٹوڈیو کی کینٹین میں چائے سرو کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور ایک دن جب میں فلم ایڈیٹر عقیل خان کے کمرے میں بیٹھا تھا تو بدر منیر دو کپ چائے لے کر کمرے میں داخل ہوا تو میں نے بدر منیر سے پوچھا تھا۔

ایک بات بتاؤ بدر منیر کیا تم بھی ہیرو بننے کے خواب دیکھتے ہوئے اس اسٹوڈیو میں ملازمت کی غرض سے آئے ہو تو بدر منیر نے بے ساختہ کہا تھا ہم اور ہیرو بنے گا خواب ہم تو کسی فلم میں فائٹر مائٹر کا کام بھی نہیں کر سکتا۔ بس ہم تو روٹی روزی کے لیے اسٹوڈیو کے کینٹین میں کام کرتا ہے، رکشہ ٹیکسی چلانے سے ادھر کام کرنا ہم کو اچھا لگتا ہے۔ آرٹسٹ لوگ بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے جب ادھر سے دل بھر جائے گا تو پھر کدھر اور چلا جائے گا۔ کہنے کو تو بدر منیر نے یہ سب کچھ ایک سانس میں کہہ دیا تھا مگر کس کی قسمت میں کیا لکھا ہے وہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔

ایک دن میں نے وحید مراد کی فلم کی شوٹنگ کے دوران بدر منیر کو ٹرالی بوائے کے روپ میں دیکھا۔ فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی اور بدر منیر کیمرہ ٹرالی کو گھسیٹتا ہوا نظر آیا۔ پھر مجھے کیمرہ مین نذیر حسین جس سے میری بڑی بے تکلفی تھی اس نے بتایا کہ اس کے کہنے پر وحید مراد پروڈکشن کے کیمرہ ڈپارٹمنٹ میں بدر منیر کو ملازم رکھ لیا گیا ہے۔ کیمرہ مین نذیر حسین نے کچھ دنوں کے بعد اس کی محنت، شوق اور لگن کو دیکھ کر اسے اپنا اسسٹنٹ بنا لیا تھا۔

اسی دوران وحید مراد پروڈکشن میں نوجوان عزیز تبسم بھی اسسٹنٹ ہدایت کار کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، اس کا تعلق بھی سرحد ہی سے تھا۔ اسی طرح بدر منیر اور عزیز تبسم میں بہت گہری دوستی ہو گئی تھی۔ کیمرہ مین نذیر چاہتا تھا کہ بدر منیر ایک محنتی نوجوان ہے اگر سنجیدگی سے محنت کرتا رہے گا تو ایک دن فل کیمرہ مین بھی بن جائے گا اور ایک اچھے مستقبل سے وابستہ ہو جائے گا، اسی دوران ایسٹرن اسٹوڈیو ہی کے ایک سینئر ٹیکنیشنز شفیع قاضی کے دماغ میں ایک پلان آیا اس نے کیمرہ مین نذیر حسین سے کہا کہ میں ایک فلم بنانا چاہتا ہوں اور اس میں مجھے تمہاری مدد درکار ہے۔

وہ فلم پشتو زبان میں ہو گی اور کراچی میں لاکھوں پٹھان بستے ہیں۔ فلم پر کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں آئے گا، ہم بدر منیر کو ہیرو لیں گے اور کوئی نئی پشتو بولنے والی کو ہیروئن کاسٹ کر لیں گے۔ دیگر فنکار بھی ہمیں مفت میں مل جائیں گے، کہانی کا آئیڈیا عزیز تبسم سے میں نے لیا ہے۔ پشتو کی ایک رومانی کہانی ہے یوسف خان شیر بانو۔ علاقائی زبانوں پر بے شمار لوک کہانیوں پر فلمیں بنی ہیں اور کامیاب ہوئی ہیں۔

جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، عمر ماروی، مومل رانو، نوری جام تماچی۔ اسی طرح اگر یوسف خان شیر بانو جو پشتو کی مشہور لوک کہانی ہے اسے فلمایا جائے تو کراچی کے پٹھان بھائی پشتو زبان کی اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینماؤں پر ٹوٹ پڑیں گے اور پھر کراچی سے لے کر پشاور تک نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ تو اس فلم کے فلاپ ہونے اور نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر تھوڑے سرمائے سے بنائی جانے والی یہ فلم ہمیں بڑا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ یہ بات کیمرہ مین نذیر حسین کی سمجھ میں بھی آ گئی اور پھر کچھ دنوں کی محنت اور مشاورت کے بعد ایسٹرن اسٹوڈیو میں پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیربانو‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔

شفیع قاضی اور کیمرہ مین نذیر حسین فلمساز تھے اور فلم کا ہدایت کار عزیز تبسم تھا۔ فلم کی موسیقی لال محمد اقبال نے دی تھی، اس فلم کی تیاری میں بدر منیر، یاسمین خان، نعمت سرحدی اور دیگر چھوٹے آرٹسٹوں نے بھی دن رات محنت سے کام کیا، ابتدا میں کچھ لوگوں نے اس فلم کے بارے میں بہت سے غلط اندازے لگائے تھے مگر جب یہ فلم تیار ہو کر کراچی میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو کراچی کے لاکھوں پٹھانوں نے دل کھول کر اپنی زبان کی اس خوبصورت فلم کا استقبال کیا۔

یوسف خان شیربانو، کراچی، حیدرآباد کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی توقع سے زیادہ پسند کی گئی اور اس پشتو فلم نے پشتو فلموں کے دلیپ کمار کو جنم دیا اور پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ ایسٹرن اسٹوڈیو کے باہر جس طرح محمد علی، وحید مراد کو دیکھنے کے لیے پرستاروں کا ہجوم ہوتا تھا، اسی طرح اسٹوڈیو کے باہر بدر منیر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سیکڑوں دیوانے ہر وقت جمع رہتے تھے۔ پھر بدر منیر کی کامیابی کا پشاور میں ایک جشن منایا گیا، بدر منیر کی پشتو فلموں کے دلیپ کی حیثیت سے ان کی تاج پوشی کی گئی۔

پہلی پشتو فلم کے بعد بدر منیر کی پہلی اردو فلم ’’دلہن ایک رات کی‘‘ کے نام سے بنائی گئی اسے بھی اس طرح کامیابی نصیب ہوئی، جس طرح بطور ہیرو رنگیلا کی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ کو کامیابی ملی تھی، پھر کراچی میں کیمرہ مین نذیر حسین اور عزیز تبسم نے بدر منیر اور یاسمین خان کو لے کر ایک خوبصورت اردو فلم ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ کے نام سے بنائی۔ یہ ایک اچھی ایکشن فلم تھی اور خاص طور پر فوٹوگرافی کے اعتبار سے اس فلم کو فلم بینوں کے ساتھ ساتھ کریٹکس نے بھی بڑا سراہا تھا، بڑے بڑے فوٹوگرافرز نے کیمرہ مین نذیر حسین کو اس فلم کی فوٹوگرافی کی وجہ سے خراج تحسین پیش کیا تھا۔

بدر منیر کی اس اردو فلم نے بھی اچھا بزنس کیا تھا اور یہ بھی اس کی یادگار فلموں میں شامل ہے۔ بدر منیر بلاشبہ پشتو فلموں کا دلیپ کمار تھا مگر اس نے اردو اور پنجابی کی بھی بہت سی فلمیں کی تھیں جو پسندیدگی کی سند بنی تھیں مگر جتنی شہرت اور عروج بدر منیر کو حاصل ہوا کاش اس کو زندگی بھی کچھ اور مل جاتی لیکن زندگی اس سے وفا نہ کر سکی، اس نے جس تیزی کے ساتھ کامیابی کا سفر طے کیا تھا اتنی ہی جلدی اس نے آخرت کے سفر کے لیے بھی دکھائی اور عین عالم شباب میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس طرح فلمی دنیا پشتو کے دلیپ کمار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔

بدر منیر اس دنیا سے چلا گیا مگر وہ فلم بینوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا جس طرح بمبئی کے دلیپ کمار کے پشاور والے گھر کو صوبائی حکومت نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اسی طرح پشتو فلموں کے دلیپ کمار بدر منیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پشاور کے سینما روڈ کو بدر منیر روڈ سے منسوب کر دیا گیا ہے، دونوں دلیپ کماروں کی زندگی پر مشتمل ایک ایک کتاب بمبئی ہندوستان اور پشاور پاکستان میں شایع ہو چکی ہے، ایک ’’دلیپ کمار ایک لیجنڈ‘‘ کے نام سے ہے دوسری کتاب کا نام ’’دی لیجنڈ بدر منیر‘‘ ہے۔

The post دو دلیپ کمار appeared first on ایکسپریس اردو.

بیگم نصرت بھٹو کو جدا ہوئے چار برس بیت گئے

$
0
0

بیگم نصرت بھٹو عزم و استقلال کا پیکر اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت تھیں۔ جنرل ضیاء کے بدترین مظالم کا انھوں نے جس جرأت و بہادری سے مقابلہ کیا وہ ایک شاندار مثال ہے۔ انھوں نے مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن سر نہیں جھکایا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے کارکنوں کو جنرل ضیاء کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف یہ پیغام دیا تھا کہ ہمارے سر کٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے۔ ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔ اس اعلان نے کارکنوں میں بہت حوصلہ اور جوش پیدا کر دیا اور انھوں نے جنرل ضیاء کے ظلم و تشدد کا آہنی عزم کے ساتھ مقابلہ کیا۔

بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو بطور چیئرمین پی پی پی مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر ہو گئیں۔ انھوں نے جرأت و بہادری کے ساتھ عوام کے جمہوری حقوق کی آواز بلند کی، انھیں جدوجہد سے روکنے کے لیے جیل اور گھر میں قید کر دیا گیا مگر اس بہادر خاتون نے مضبوط اعصاب کے ساتھ تمام مشکلات و مصائب برداشت کیے، اپنی قائد کی پیروی میں پارٹی کارکنوں نے جمہوری جدوجہد میں بہادری کے نئے باب رقم کیے اور اپنے کردار و عمل سے سیاسی عبادت کا درجہ دے کر پاکستان پیپلزپارٹی کا پرچم سربلند رکھا۔ انھیں یہ تقویت بیگم صاحبہ کی ولولہ انگیز قیادت سے ملی۔ قذافی اسٹیڈیم میں بیگم صاحبہ پر تشدد کیا گیا اور زخمی بیگم صاحبہ کی یہ تصویر تمام دنیا میں شایع ہوئی جس سے جنرل ضیاء کی بربریت آشکار ہوئی اور جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہوا۔

بیگم نصرت بھٹو پر دوسرے درجے کا ذہنی تشدد بھی کیا گیا۔ ان کی جواں سال بیٹی بے نظیر کو قید اور نظربند کرکے بیگم صاحبہ سے علیحدہ رکھا گیا۔ سکھر جیل میں بے نظیر بھٹو پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا اور جس گرمی میں انھیں رکھا گیا وہ ان کا حوصلہ نہ توڑ سکا، انھوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور نئے عزم کے ساتھ جنرل ضیاء کے جبر کو چیلنج کرکے اس کی نیندیں حرام کر دیں۔

قائد عوام کے عدالتی قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی اور جمہوری جدوجہد تیز کر دی۔ پاکستانی عوام ان کے ساتھ تھے۔ انجام کار جنرل ضیاء نے اپنی بزدلی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے 16اکتوبر1979ء کو انتخابات منسوخ کر دیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کو بند کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا۔

فوجی ڈکٹیٹر کی اس بزدلانہ کارروائی سے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے حوصلہ مندی سے جبر اور ظلم برداشت کیا۔ انھوں نے کوڑے کھانے کی مثالیں قائم کیں۔ اور جئے بھٹو کے نعروں سے سیاسی فضا گونجنے لگی۔ صحافی بھی ڈکٹیٹر کے عتاب کا نشانہ بنے انھوں نے کوڑے کھائے اور جیل کاٹی۔

یہ بدترین تاریک دور تھا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے دونوں بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی جدائی کا غم برداشت کیا۔ انھوں نے جنرل ضیاء کی امیدوں کی کمر توڑ دی۔ ان کا جذبہ حریت اور خودی تابناک رہا۔ بیگم صاحبہ طویل قید کے دوران پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئیں۔ جنرل ضیاء کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکیں لیکن عوامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انھیں بغرض علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیدی۔

بیگم صاحبہ 22نومبر 1982ء کو جرمنی کے شہر میونخ پہنچیں۔ ان کی صحت بے حد تشویشناک تھی۔ ان کی ہمشیرہ مسز بہجت حریری تیمارداری کے لیے ان کے ساتھ تھیں۔ بیگم صاحبہ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔بیگم نصرت بھٹو علیل تھیں لیکن یورپی ملکوں سے آئے ہوئے پارٹی ورکروں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ملک میں جمہوریت اور مارشل لا کے خاتمے، انسانی حقوق اور آئین کی بحالی کے لیے آگے بڑھیں اور مارشل لاء کی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر سراپا احتجاج بن جائیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور دیگر جمہوریت پسند پاکستانیوں کا یہ فرض ہے کہ ملک میں مارشل لاء کے بظاہر مضبوط لیکن اندر سے کھوکھلے ستونوں کو آخری ٹھوکر لگا کر زمین بوس کر دیں۔‘‘

بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں فخر سے کہاکہ’’ وہ بڑی ذہین ،بہادر اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی لڑکی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ بھٹو شہید نے اپنی بیٹی کو بطور خاص سیاسی تربیت دی ہے۔ جب شہید بھٹو جیل میں تھے تو ہفتے میں صرف ایک بار ایک گھنٹہ کی ملاقات کی اجازت تھی۔وہ اس ایک گھنٹے میں سیاسی لیکچر دیتے تھے، شہید بھٹو کے آخری ایام میں یہ سیاسی تربیت ہماری بیٹی کے لیے بے حد کارآمد ثابت ہوئی۔ بے نظیر ہر آزمائش میں پوری اتری ہے وہ پارٹی کو فعال اور مؤثر قیادت فراہم کرے گی۔‘‘

بیگم نصرت بھٹو صاحبہ 23مارچ1928ء کو پیدا ہوئیں اور 23اکتوبر2011ء کو وفات پا گئیں۔

The post بیگم نصرت بھٹو کو جدا ہوئے چار برس بیت گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

افغانستان کی سیکیورٹی

$
0
0

قندوز نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ افغانستان ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی طرف بڑھ رہا ہے بالخصوص وہ کامیابیاں جو ناقابل بیان اخراجات کے ساتھ امریکا کی قیادت میں اتحادی ملکوں نے درجن بھر برسوں سے زیادہ عرصے تککیں، وہ سب کے سب رائیگاں نظر آنے لگی ہیں۔ لیکن افغانستان کا ٹوٹنا اس پورے ریجن کے استحکام اور اس کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی خطرناک  ہو گا۔ لہٰذا امریکی صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں امریکی فوج کے قیام میں 2016ء سے بعد تک کی توسیع دینا افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک مثبت علامت ہے۔

یہ فیصلہ کن اقدام دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک ریجن میں استحکام پیدا کرے گا جب کہ یہ ریجن اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی بے حد اہم ہے۔ اوباما نے نہایت جراتمندانہ طور پر فوج کے قیام میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اس علاقے میں جس قدر بھاری اخراجات کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی ہے اور جتنی جانی قربانیاں دی گئی ہیں ان کے مقصد کو تحفظ دیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا افغان حکومت تبدیلی کے لیے تیار ہے؟

اٹلانٹک کونسل نے ’’افغانستان اور امریکی سیکیورٹی‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا 11 ستمبر 2011ء کے حملوں کے 14 سال بعد بھی افغانستان کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ اس کے لیے امریکی فوج کی جانوں اور بے پناہ مالی اخراجات جاری رکھنا روا ہے جس کے لیے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اخراجات بھی شامل ہیں؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس خطے سے دہشت گردی کے خطرے کو یکسر نابود کرنے کی خاطر انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مسلح افواج کا مسلسل چوکس رہنا ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طویل المدت حکمت عملی کا متقاضی ہے جس کی بے شمار دیگر شاخیں بھی ہمہ وقت متحرک رہیں تا کہ متشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جا سکے۔

امریکا کا تزویراتی ہدف یہ ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو شکست دے اور پاکستان کو ان کے لیے محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکے جب کہ افغانستان کو اپنے طور پر مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔ اگر القاعدہ یا داعش کو شکست دینے کی ضرورت ہے تو اس کے لیے ایک طویل المدت حکمت عملی وضع  کرنا پڑے گی تا کہ سب سے پہلے انتہا پسندانہ متشدد نظریات کو ختم کیا جائے کیوں کہ انتہا پسند عناصر اسلامی نظریات کو مسخ کر کے اپنی الگ تفہیم پیدا کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں منظرعام پر آتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ تنظیمیں ایک طویل مدت خطرے کا باعث ہیں لہٰذا ان کے مقابلے کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے بالخصوص اس خطے کے اہم ممالک کو جن میں چین‘ روس‘ ایران‘ سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دورہ امریکا میں دہشت گردی کی ایک نئے انداز سے تشریح کی اور کہا کہ  جنوبی اور مغربی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا میں جو ریاستی نظام قائم ہے دہشت گردی سے اس کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالم اسلام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کریں تا کہ اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ اگر دہشت گردی کے سدباب کی کوششیں مسلسل جاری رکھی جائیں تو بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے گی۔

افغانستان کی ’’نیشنل یونٹی گورنمنٹ‘‘ کو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ صرف اپنے لوگوں کو بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی ان کی کامیابیاں نظر آنی چاہئیں نیز  انھیں اپنی خامیوں کا الزام دوسروں پر نہیں دھرنا چاہیے۔ افغانستان کو خود انحصاری کی منزل حاصل کرنی چاہیے تا کہ ان کے علاقے سے بین الاقوامی کمیونٹی کا کردار بتدریج کم کیا جا سکے۔ واضح رہے وہ ممالک جہاں جمہوریت خاصی جڑیں پکڑ چکی ہے وہاں بھی اگر مخلوط حکومت بنے تو اس کے لیے کارکردگی دکھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب کہ افغانستان کو بڑے شدید قسم کے چیلنج درپیش ہیں لیکن افغانستان کے دوست چاہتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر ترقی کرے تا کہ اس کی اقتصادی حالت اور سیکیورٹی مستحکم ہو سکے اور افغان حکومت اپنے اس ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اصلاحات نافذ کر سکے اور یہ ثابت کر سکے کہ افغانستان اب بھی سیاسی‘ مالیاتی اور عسکری وعدے پورے کرنے کے قابل ہے لہٰذا اس کے لیے امریکی اور عالمی امداد اور حمایت جاری رہنی چاہیے۔

امریکا کا تزویراتی ہدف یہ ہے کہ وہ اپنی مسلح افواج کا جنگ کرنے کا کردار افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کو منتقل کر دے کیونکہ گزشتہ دو سال سے امریکی فوج افغان فوج کو دفاعی اور دہشت گردی کے انسداد کی تربیت فراہم کرتی رہی ہے لیکن جیسا کہ قندوز کے واقعے سے ظاہر ہوا  امریکا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ افغان فوج قندوز میں انسداد دہشت گردی کے چیلنج پر پورا نہیں اتر سکی۔ اس سال جنگ بڑی مشکل رہی ہے طالبان نے نئی حکومت پر بہت بری طرح دباؤ ڈالا تا کہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ آیا وہ ایساف (انٹرنیشنل سیکیورٹی رزسٹنس فورسز) کے انخلاء کے بعد پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ بدقسمتی سے انٹیلی جنس کے حوالے سے ان کی اہلیت قابل بھروسہ نہیں اور نہ ہی وہ دہشت گردی کے خلاف خصوصی آپریشن میں فضائی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

قندوز کے واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء سے افغانستان کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ افغان فوج امریکا کو انٹیلی جنس فراہم کرتی ہے جو کہ انسداد دہشت گردی (CT) کے لیے بہت ضروری ہے اگر امریکا نے CT آپریشنز میں کمی کر دی تب افغانستان میں دہشت گردی کے حملوں کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے اپنے فوجی منصوبہ سازوں کی بات مان لی کہ ابھی امریکی اور ایساف افواج کو واپس نہیں آنا چاہیے۔

قندوز کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کی گئی تا کہ شہر کا کنٹرول دوبارہ سنبھالا جا سکے لیکن اس کے لیے زبردست مشکلات پیش آئیں۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور سیکیورٹی قیادت میں یکجہتی ہونی چاہیے اور میدان جنگ میں بھی یہ تعاون نظر آنا چاہیے۔ قندوز کے واقعے نے یہ بھی سمجھایا ہے کہ ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ طالبان تمسخر کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ’’امریکنوں کے پاس گھڑیاں ہیں لیکن ہمارے پاس وقت ہے‘‘۔ انھیں اس بات کا موثر جواب دیا جانا چاہیے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ انھیں عوام الناس کی حمایت کبھی حاصل نہ ہو گی اور طالبان کی دہشت گردی کو بالآخر شکست ہو گی۔

حکومت پاکستان کو احساس ہے کہ انتہا پسندی پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے خطرہ ہے جب کہ حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ نے طالبان کے نئے لیڈر ملا منصور کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اب یہ داعش کی مدد سے اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنا چاہتے ہیں جس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں۔ افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے نہایت اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کی خود انحصاری کی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے بھی یہ ضروری ہے تا کہ ملک میں کاروبار کے لیے نارمل یعنی معمول کی فضا قائم ہو سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبے کے ساتھ بھی اشتراک کیا جائے اور کرپشن کو روکنے کی کوشش کی جائے تا کہ روزمرہ کی اقتصادی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔

جنرل راحیل شریف نے فروری 2015ء میں کابل کے دورے کے دوران واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ’’افغانستان کے دشمن، پاکستان کے دشمن ہیں۔‘‘ وزیراعظم نواز شریف نے مئی کے مہینے میں کابل میں وہی بات کہی کہ ’’افغانستان کے دشمنوں کو پاکستان کے دشمن سمجھا جائے گا‘‘۔ اگرچہ پاکستان قیام امن کے لیے اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے مگر پھر بھی امریکا میں تمام تر ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ قندوز کے واقعے میں پاکستانی عناصر بھی ملوث تھے جنہوں نے اسپتال کو اپنا ٹھکانہ بنا رکھا تھا حالانکہ یہ بات قطعاً غلط ہے اور ایسی باتوں سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور افواج نے بے بہا قربانیاں دی ہیں لہٰذا ایسی بات کرنا ان کی دل شکنی کے مترادف ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ افغانوں کو اس کا عادی ہو جانا چاہیے۔

(واشنگٹن ڈی سی، یو ایس اے میں 19 اکتوبر  2015ء بروز سوموار ہونے والی اٹلانک کونسل کی پینل ڈویژنز میں کی جانے والی گفتگو کا اقتباس)

The post افغانستان کی سیکیورٹی appeared first on ایکسپریس اردو.


باتیں سراج الحق کی

$
0
0

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بنیادی طور پر ایک سیاسی کارکن ہیں۔ وہ صحافیوں کے سخت سوالات کو برداشت کرتے ہیں اور خوبصورتی سے اس طرح جواب دیتے ہیں کہ ان کی مدہم آواز سننے والے کو یہ نہیں محسوس ہونے دیتی کہ موصوف کو یہ سوال پسند نہیں آیا۔ وہ گزشتہ ہفتے کراچی آئے تو ایک نشست میں ان کے خیالات سے آگہی ہوئی۔

سراج الحق نے اپنی گفتگو میں یمن کے تنازعے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذکر کیا۔ سراج صاحب کا کہنا تھا کہ یوں تو کئی اسلامی ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں مگر یمن میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے اسلامی ممالک میں منفی اثرات برآمد ہو ر ہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے ایران اور سعودی عرب کی حکومتوں کے اکابرین کو بھی اس گھمبیر صورتحال کو ختم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں دولت کے استعمال پر تشویش ہے۔ اس صورتحال کی سنگینی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کا تداراک نہ ہوا تو پھر یہ جمہوریت عام آدمی سے دور ہو جائے گی۔ وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات اور اقدامات کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔

سراج الحق نے کہا کہ انتخابی اصطلاحات کے لیے ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔ سراج الحق نے جمہوری نظام کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے انتخابات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ امریکا میں کوئی صدر دو دفعہ مدت پوری کرنے کے بعد انتخاب نہیں لڑ سکتا ۔

انھوں نے کہا کہ جن جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے وہ ملک میں کس طرح جمہوریت قائم کریں گی؟  وہ اپنی جماعت کو مثالی جمہوری جماعت قرار دیتے ہیں  جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ جماعت کی شوریٰ نے صوبائی اور ضلع امیروں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ دو مدت سے زیادہ اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے مگر امیر جماعت اسلامی اس پابندی سے مستثنیٰ ہے۔ سراج الحق نے سندھ کے بلدیاتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے سلب کردہ حقوق بحال کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام اختیارات سے محروم ہے۔

یہ نظام شہروں اور دیہی علاقوں میں ترقی کے عمل کو بہتر نہیں کر سکتا۔ ا نہوں نے پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو ملک کا سب سے زیادہ بہتر اور بااختیار نظام قرار دیا۔ سراج الحق کے مطابق  وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی قانونی میعاد پوری کرنی چاہیے۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کے گزشتہ سال لاہور میں ہونے والے اجتماع میں شریک اسلامی تنظیموں نے ایک مشترکہ اعلامیے کی منظوری دی تھی۔ اس اعلامیے میں واضح کہا گیا تھا کہ اسلامی ممالک میں جمہوری طریقے سے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کسی قسم کے غیر قانونی راستے یا غیر ریاستی کرداروں کے تشدد کے طریقے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تضادات ہزار سال سے ہیں۔ خلافت، مسلمانوں کی آخری سلطنت عثمانیہ جو ترکی سے حجاز تک پھیلی ہوئی تھی ایک مخصوص مکتبہ فکر کی نشاندہی کرتی تھی۔ یوں دوسرے فرقوں کے لوگ ریاستی معاملات میں اجنبی سمجھے جاتے تھے۔

جب دوسری جنگ عظیم کے بعد عراق، شام، الجزائر، مصر میں قوم پرست حکومتیں قائم ہوئیں تو پھر تمام مسالک کے لوگوں کو ان ریاستوں میں برابر کا حصہ ملا۔ ایران میں  اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ رحجانات کو تقویت ملی۔ امریکا نے افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے اس رحجان کو استعمال کیا، پھر امریکا کے عراق پر حملے اور بعث پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پورا مشرق وسطیٰ فرقہ وارانہ بحران کا شکار ہوا۔

لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے، شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف امریکا، ترکی اور سعودی عرب کی فوج کشی سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے جس کے اثرات یمن اور سعودی عرب پر پڑے اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیم کا ابھرنا۔ مگر یہ خوش آیند بات ہے کہ جماعت اسلامی جمہوری عمل میں شریک ہو کر مسلمان ممالک میں تبدیلی کی حامی ہے مگر اسلامی دنیا میں طالبان، القاعدہ، داعش اور کئی چھوٹے گروپ مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنے نظریات پر مبنی اسلامی مملکتیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سراج الحق محض ملاقاتوں سے ایران اور سعودی عرب کو اپنے موقف میں تبدیلی پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ ترکی کی حکومت امریکا اور سعودی عرب کے اتحاد کے ساتھ ملکر شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے لیے داعش انتہا پسند تنظیموں کی مدد کر رہی ہے۔ سراج صاحب تو جمہوری تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر ان کے سابق امیر منور حسن قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ لگاتے تھے۔ اگر جماعت اسلامی، اسلامی ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک میں تشدد کے راستے کی ترویج کرے گی تو پھر اسلامی ممالک اس کے اثرات سے کس طرح بچ سکیں گے۔ سراج الحق کی یہ بات بہت اہم ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام ایک ناقص نظام ہے۔

اس کے اختیارات میں اضافے کے بغیر  یہ موثر نہیں ہو سکتا ۔ اس طرح انتخابات میں پیسے کے استعمال کو روکنے کا راستہ چاہیے، انتخابی اصطلاحات سے ممکن ہے۔ مگر جماعت اسلامی سمیت دوسری جماعتیں پارلیمنٹ کے جامع اطلاق کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس موقعے پر پروفیسر غفور احمد یاد آتے ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کی تیاری میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ سراج الحق کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔

انھوں نے طالب علم کارکن کی حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور محنت کر کے امیر کے عہدے پر پہنچے۔ وہ معاشرے کے مذہبی، معاشرتی، سماجی، سیاسی تضادات سے واقف ہیں اور اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کا جمہوری عمل پر یقین ایک نیک شگون ہے مگر وہ ضرور ایک دن اس حقیقت کو محسوس کریں گے کہ حقیقی جمہوریت سیکولر ہوتی ہے۔

The post باتیں سراج الحق کی appeared first on ایکسپریس اردو.

منٹو اور دروازہ

$
0
0

سعادت حسن منٹوکے متعلق کچھ بھی لکھنابہت دشوار کام ہے۔انتہائی مشکل۔کئی مقامات پرقلم دم توڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاہی بوجھل ہوجاتی ہے۔اس نایاب لکھاری کی طاقت ِپروازاورذہنی اڑان کااندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔قطعی طور پر ناممکن۔

برصغیرکی تقسیم اوراس کے بعدوجودمیں آنے والے دونوں “آزادممالک”میں ایک صفت یکساں ہے۔وہ ہے “منافقت”۔ دونوں ممالک میں رہنے والوں میں بہت سی عادات ملتی جلتی ہیں۔دوعملی کا، شکاربرصغیرکے اربوں لوگ تھے اورہمیشہ رہینگے۔میں پاکستان میں رہتاہوں۔بلاخوف تردیدکہہ سکتاہوں کہ یہاں ہرشعبہ میں شاندار مصلحت کاراج ہے۔

کیا سماجی، کیا دینی، کیا سیاسی اورکیاخانگی شعبہ۔البتہ مانے گاکوئی بھی نہیں اور کیوں تسلیم کریں۔ ہم تمام لوگ جھوٹ کے دریامیں رہنے والی وہ مچھلیاں ہیں،جوصاف پانی میں سانس لینے کاسوچ بھی نہیں سکتیں۔امرتسرمیں منٹوجیساشخص کیسے پنپ گیا۔حیرت نہیں بلکہ حالات دیکھ کرقدرت کی کوئی غلطی معلوم ہوتی ہے۔شائدغلطی کالفظ سخت ہو،مگرٹھیک ہے، غلطی کالفظ مناسب ہے۔

چندعشروں کے دورانیہ میں منٹوکے متعلق کئی لکھاریوں نے بہت جتن کرکے اس عجیب سے شخص کے متعلق لکھنے کی کوشش کی۔اصل بات یہ ہے،کہ کوئی اس کی گرد تک کونہیں چھو پایا۔ہم اتنے منافق بلکہ ڈرپوک لوگ ہیں کہ سچ توکیا، سچ کے نزدیک تر بھی کچھ رقمِ قلم نہیں کر سکتے۔ منٹو پر کون لکھے گااورکیوں لکھے گا۔یہ غلطی کوئی کیوں کر کریگا، شائد میرے سمیت۔

منٹوکاکتبہ،اس نے خوددرج کیا تھا۔ لکھتا ہے” یہاں سعادت حسن منٹودفن ہے۔اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے بارے میں اسرارورموزدفن ہے۔وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہاہے کہ وہ بڑاافسانہ نگارہے یاخدا۔(کلیات منٹو، صفحہ نمبر465)

منٹو اس طرح کاکیسے بن گیا۔وہ جھوٹ کودیکھ دیکھ کرسچ کی چوکھٹ پرکیسے سجدہ ریزہوا۔اسکاجواب صرف وہ خوددے سکتا تھا۔ میرے پاس تواپنے ہی آسان سے سوال کاکوئی جواب نہیں۔شائداسکاجواب خودمنٹوکے پاس بھی نہ ہو۔مگر پوچھنا ضروری ہے۔یاشائدبالکل غیرضروری۔

منٹو،الفاظ،حقیقت،سادگی کاوہ محلول تھا،جس نے اپنے آپکو”مشروبِ مغرب”میں غرق کیا ہوا تھا۔ وہ اس قدر بلانوش کیونکرتھا،اسکاجواب بھی شائدوہی دے سکتا ہو۔لیکن ایک ایسے منافق معاشرہ میںجہاں ہرشریف آدمی کے دن اور رات میں ہزاروں نوری سالوں کافرق ہے،وہاں انسان کے اندرونی جذبات کوسب کے سامنے کسی پردہ کے بغیررکھنا،عام آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔صوفی یادرویش کاہی ہوسکتا ہے۔ پر منٹونہ صوفی تھااورنہ ہی درویش۔صرف منٹو تھا۔ جھوٹ کے دیس میں سچ کی چابک۔ اس سے سارے ناراض تھے۔اس لیے کہ وہ خود اپنے آپ سے ناراض تھا۔

معاشرے سے ناراض تھا۔ لوگوں کے رویوں سے نالاں تھا۔ اپنوں کے تیروں اور غیروں کی ستم ظریفی کاشکارایک سادہ ساانسان تھا۔ جو انسانی جذبوں کواسی طرح عریاں کردیتاتھا،جس طرح اصلی حالت میں موجودہوتے ہیں۔اسے مسلسل قتل کرنے والے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے پاس قلم تھا۔ایک ایسا ہتھیار جس سے تمام ابن الوقت لوگ گھبراتے تھے۔

اس سے چڑتے تھے اور نفرت کرتے تھے۔مگروقت کی عدالت نے اس سے قطعاً نفرت نہیں کی۔اسے عظمت کی مسند پر فائزکیاہے۔نفرت کرنے والوں کااصل مقام یہ ہے کہ صرف اس بنیاد پر پہچانے جاتے ہیں کہ وہ منٹو کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگاتے تھے۔ مگر منٹونہ غلط تھااورنہ ہی صحیح۔ صرف اور صرف منٹو تھا۔ اپنے قافلے کا واحد مسافر۔ایک ایساقافلہ جوایک آدمی پرمشتمل تھا۔اس کے جاتے ہی،نہ قافلہ رہااورنہ ہی متاعِ قافلہ۔

وہ لکھتاہے”جب میں نے لکھناشروع کیاتھا تو گھر والے سب بیزارتھے۔باہرکے لوگوں کومیرے ساتھ دلچسپی پیداہوگئی تھی۔چنانچہ وہ(گھروالے) کہاکرتے تھے بھئی! کوئی نوکری تلاش کرو۔کب تک بیکارپڑے افسانے لکھتے رہو گے۔آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری،بیکاری کادوسرانام تھا۔ آج اسے ادبِ جدیدکہاجاتاہے جسکامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کرلی ہے”۔

منٹوکبھی بھی خوشحال نہیں تھا۔متوسط درجہ کے خاندان میں پیداہونے سے لے کرمرتے دم تک جینئس (Genius) ہونے کے باوجوداپنے رزق میں کشادگی پیدانہ کرسکا۔ شائد اسے عسرت میں لمحہ لمحہ سسکناموافق آگیاتھا۔ادھار،مسلسل ادھار اور لامتناہی ادھار۔ مشروب کی ایک بوتل کے لیے اپنے لازوال افسانے بیچنے والاسادہ سامحنت کش!وہ کرتابھی تو کیا کرتا۔لوگ اسے فحش نگارکہتے تھے۔اس کے نام سے گھبراتے تھے مگراکیلے میں اسے پڑھ کراس کے قائل ہوجاتے تھے۔

منٹو لکھتاہے” مجھ میں جوبرائیاں ہیں،وہ اس عہدکی برائیاں ہیں۔میری تحریرمیں کوئی ایسانقص نہیں جسکومیرے نام سے منسوب کیاجائے۔دراصل موجودہ نظام کانقص ہے۔میں تہذیب وتمدن اورسوسائٹی کی چولی کیااتاروں گا،جوہے ہی ننگی۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔اس لیے کہ یہ میراکام نہیں۔ درزیوں کاکام ہے۔لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔لیکن میں تختہِ سیاہ پرکالی چاک سے نہیں لکھتا۔ سفید چاک استعمال کرتاہوں کہ تختِ سیاہ کی سیاہی اورنمایاں ہوجائے”۔

دل میں اپنے آپ سے چھپ کر غور کیجیے۔ وعدہ کیجیے،کہ آپ اپنے خیالات کومصلحت کی صلیب پرنہیں ٹانگیں گے۔کیامنٹو سوفیصددرست نہیں کہہ رہا۔ لیکن منٹوکواب آپ کے سچے یاجھوٹے جواب کی قطعاً محتاجی نہیں ہے۔جوکچھ کہناچاہتاتھا،کہہ کرچلا گیا۔

آخری سفرپر۔ آج بھی اپنے اردگرد دیکھتا ہوں، تو ایسے لگتا ہے کہ منٹونے سب کچھ ہمارے ملک کے موجودہ دورکے متعلق لکھاتھا۔شائدوہ مدہوشی کی عینک لگا کر، مستقبل تک پہنچنے کافن سیکھ چکاتھا۔ہم لوگ اس کے زندہ رہنے والے دورسے بھی زیادہ منافقت کاشکار ہیں۔ شائد،اگروہ2015ء میں سانس لے رہاہوتا، تو اس گھٹن اور جھوٹ کودیکھ کرخودکشی کرلیتا۔شائدبادہ نوشی سے گریز کر جاتا اورخودبخود،اپنی سانس بند کر لیتا۔

“باتیں ہماری یادرہیں”میں منٹوتحریر کرتا ہے” میں عرض کررہاتھاکہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتاہے۔آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے،اس کے خلاف مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہراگلنابالکل بیکارہے۔وہ لوگ جوادب جدید کا، ترقی پسندادب کا،فحش ادب کا،یاجوکچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کردیناچاہتے ہیں۔

توصحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کردیاجائے جواس ادب کے محرک ہیں”۔مجھے سمجھائیے،اس میں کونسی بات غلط ہے۔ کیا یہ دلیل درست نہیں کہ ادیب اپنے زمانے یاعصرکے حالات کے مطابق ڈھلتاہے۔وہ چاہے بھی،تواپنے وقت کے مسائل اورحقائق کی زنجیرکونہیں توڑ سکتا۔ ادیب کیا،کسی بھی بشرکااپنے آپکو معروضی حالات سے علیحدہ کرناممکن نہیں۔

منٹولکھتاہے”میرے پڑوس میں ایک عورت ہر روز خاوندسے مارکھاتی ہے اورپھراس کے جوتے صاف کرتی ہے۔ تو میرے دل میں اس کے لیے ذرہ برابربھی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکراورخودکشی کی دھمکی دیکرسینمادیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوندکودوگھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تومجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے”۔

بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ منٹونے بیش بہالکھا ہے۔ سیکڑوں افسانے شائدہزاروں افسانے، خاکے اور جانے کیا کیاکچھ۔میرے لیے خودمقام حیرت تھاکہ اس کا کام ایک دو جلدوں میں نہیں بلکہ سات یا آٹھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ ہر جلدچارسے پانچ سو صفحات پرمحیط ہے۔ حیرت ہے کہ اس شخص نے اتنی تھوڑی سی عمرپانے کے باوجود،اتنازیادہ کیسے لکھ لیا۔یہ اپنی جگہ بذات خود،ایک سوال بھی ہے اورجواب بھی۔

میرے جیسے اکثرلوگ اس کے چندافسانے پڑھنے کے بعداس کے ناقدیا معترف ہوجاتے ہیں۔تین چار ہزارصفحات پڑھنے کاوقت کس کے پاس ہے۔لیکن شائدکچھ سر پھرے، اب بھی ان ہزاروں صفحوں کو بغور پڑھتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ مکمل پڑھنے کے بعد، پھرنہ وہ سعادت حسن منٹوکے ناقد رہتے ہیں نامقلد، بلکہ خاموش سے ہوجاتے ہیں۔

پاکستان آنے کے بعد،اس ادیب کے ساتھ جوسلوک کیاگیا،وہ بذات خودہمارے معاشرے کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔مقدمات،عدالتیں،کم ظرفی اورمفلسی کی چوکھٹ کادر اس کے لیے پوری زندگی کھلارہا۔مگرسعادت حسن منٹوبھی ہوشیارآدمی تھا۔ اس جادونگری میں صرف اس لیے داخل ہوا،کیونکہ اسے یقین تھاکہ یہ دروازہ اسے وقت کی عدالت میں لے جاکھڑاکردیگا،جہاں وہ تمام ادنیٰ الزامات سے بری ہوجائے گا!

The post منٹو اور دروازہ appeared first on ایکسپریس اردو.

مسئلہ جمہوریت کا

$
0
0

دولت کی اس فراوانی اور ریل پیل کے نتیجے میں غربت میں کمی آنا ایک منطقی بات تھی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق جب دولت کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے تو غربت میں لازمی طور پر کمی آنی چاہیے لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا سنجیدگی اور دیانتداری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ملک میں دولت کے جو انبار لگے ہوئے ہیں وہ جا کہاں رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمارے معاشی نظام میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس معاشی نظام میں زندہ ہیں اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے یہ نظام اپنے نام ہی سے سرمایہ داروں کا نظام لگتا ہے جس میں غریبوں کے لیے ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

جو معاشی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ دولت کی سرکولیشن میں اضافے سے اور ترقیاتی کاموں میں تیزی سے غربت میں کمی ہوتی ہے وہ یہ سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ سرمایہ دارانہ ترقی میں روزگار کے تھوڑے سے مواقعوں کے علاوہ غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں موٹر وے اور بجلی پیدا کرنے کے کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں جن پر اربوں کا سرمایہ لگ رہا ہے لیکن ان منصوبوں میں بڑی مشکل سے غریب کو جو حصہ ملتا ہے وہ ہے روزگار یعنی بے روزگاروں کی فوج میں کسی حد تک کمی۔ اس روزگار میں مزدور کے ہاتھ لگی بندھی اجرت آتی ہے جو دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر پاتی۔

سرمایہ دارانہ معیشت کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔ ملک کی نوے فیصد آبادی اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ وہ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ صنعتی شعبے میں اربوں کا منافع ہوتا ہے لیکن یہاں بھی غریب مزدور کے حصے میں مقررہ ناکافی اجرت آتی ہے اور اربوں کا منافع صنعتکار حاصل کر لیتا ہے۔ یہی بلکہ اس سے بدتر حال زرعی شعبے کا ہے صنعتی شعبے میں مزدور کو نام نہاد ہی صحیح کچھ حقوق ملتے ہیں لیکن زرعی شعبے میں تو حقوق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی جاگیردار اور وڈیرے مالک کل ہوتے ہیں۔

دنیا بھر کے عوام خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے ہو مسائل کے انبار میں دبے ہوئے ہیں جدید دنیا کے سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے جو عوام کو ان کے مسائل سے نجات دلا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ابھی تک عوام کے مسائل کا حل نہ بن سکی۔ ترقی یافتہ دنیا میں اگرچہ عوام کے مسائل میں کمی ہوئی ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں عوام کی معاشی بدحالی کا عالم یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والوں کا سارا وقت دو وقت کی روٹی کے حصول میں گزر جاتا ہے۔

عوام کی اس معاشی بدحالی اور مسائل کے انبار نے تعلیم یافتہ حلقوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ’’کیا جمہوریت عوام کے مسائل کا حل ہے؟‘‘ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پسماندہ ملکوں میں عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی کوششوں کا مرکز بھی روٹی کا حصول بن گیا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے یہاں کی غربت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی آبادی کا 53 فیصد حصہ غربت کی لکیر  کے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔

یہ صورت حال صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی 53 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جب کہ یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت تیزی کے ساتھ اقتصادی ترقی کر رہا ہے۔ یہ صورت حال یا اس سے ملتی جلتی صورتحال تمام پسماندہ ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے اس کی ایک کلاسیکی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ان ملکوں میں بوجوہ صنعتی ترقی کا فقدان رہا ہے اور ترقی کے لیے صنعتی ترقی ضروری ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اربوں ڈالر کے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ۔ عالمی مالیاتی ادارے اربوں ڈالر کی امداد اور قرض دے رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبے میں صرف چین پون کھرب ڈالر دے رہا ہے اس کے علاوہ ترقی یافتہ مغربی ملک مختلف شعبوں میں ترقی کے لیے اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔

اس قسم کی لوٹ مار اس نظام کا لازمی حصہ ہے اس کھلی لوٹ مار کی گندگی کو چھپانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اس نظام کے مکروہ چہرے پر جمہوریت کا خوبصورت نقاب ڈال دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے نشان دہی کر دی ہے ترقی یافتہ ملکوں کی بھاری اکثریت بھی بنیادی ضرورتوں کی جستجو ہی میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیتی ہے۔ لوٹ مار میں اس کا حصہ نہیں ہوتا، لیکن ان ملکوں میں چونکہ انتخابی نظام نسبتاً آسان ہے۔

اس لیے ان ملکوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ پہنچ تو جاتے ہیں لیکن کانِ نمک میں جانے والے بہرحال عموماً نمک ہو جاتے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں زمینی اور صنعتی اشرافیہ اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی سے ملک ایسی بے لگام لوٹ مار میں جٹی ہوئی ہے کہ ملک کی دولت کے 80 فیصد حصے پر اس نے قبضہ کر لیا ہے یہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ ایک شرمناک حقیقت ہے۔ اس لوٹ مار میں شامل ہونے کے لیے اقتدار میں آنا اور اقتدار کے قریب رہنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ’’اپنے مسائل‘‘ حل کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ کیا اس میں موروثی سیاست کا دخل ہے؟

حالیہ احتسابی مہم میں جن لوگوں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں محض الزامات ہی نہیں بلکہ عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر اربوں ڈالرز کے مالک بنے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ مزدور ہیں، کسان ہیں، چھوٹے موٹے تاجر ہیں، سرکاری ملازمین ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میڈیا میں بھرے پڑے ہیں، مسئلہ کسی نظام کی اللہ واسطے مخالفت کا نہیں بلکہ دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیوں کا ہے تا کہ سسٹم کی خرابیاں منظر عام پر آ سکیں۔ جمہوریت سیاسی ارتقا کی ایک اچھی شکل ہے لیکن جمہوریت کے متعارفین نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ کیا ہماری نام نہاد جمہوریت اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟

The post مسئلہ جمہوریت کا appeared first on ایکسپریس اردو.

بہت بڑا ملک اور لیڈر…!

$
0
0

تموچن یوں تو ایک سردار کا بیٹا تھا اور وسطی ایشیا کے سرداروں اور اشرافیہ میں شمار ہوتا تھا لیکن کمزور تھا اور لشکر بھی برائے نام تھا۔ حالت یہ تھی کہ جب کبھی بھوک زیادہ ستاتی تھی تو کسی سوراخ میں ہاتھ ڈال کر کوئی چوہا یا اس جیسا کوئی جاندار پکڑ لیتا، اسے کھا کر بھوک مٹا لیتا اور تازہ پانی پی کر اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قبائلی سرداری میں کسی طرف نکل جاتا۔ اپنے مرحوم سردار کے بڑے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر اس کے بزرگ کبھی اسے پکڑ لیتے اور پاس بٹھا کر سمجھاتے کہ گردوپیش میں دور دور تک تمہارے مرحوم سردار باپ کے دوست موجود ہیں تم ان کے پاس مدد کے لیے کیوں نہیں جاتے، وہ تمہیں ہر گز مایوس نہیں کریں گے لیکن نوجوان تموچن کے ذہن میں مستقبل کے جو خواب تھے وہ اسے کہیں دور لے جانا چاہتے تھے۔

تموچن اپنے بزرگوں کے سامنے صرف اتنا کہہ پاتا کہ جب میں کسی قابل ہوں گا اور اپنے باپ کے دوستوں کو سلام کرنے جاؤں گا اب میری کیا حیثیت ہے کہ میں ان بڑے سرداروں سے مدد مانگوں اور بھیک میں ایک آدھ گھوڑا یا چند تلواریں حاصل کر سکوں۔ اس کے بزرگ اس بلند ہمت نوجوان کے سامنے چپ ہو جاتے لیکن تموچن اپنی تعمیر میں لگا رہا اور دنیا نے دیکھا کہ چوہے کھانے والا یہ نوجوان چنگیز خان کے نام سے دنیا کا ایک بڑا فاتح ہے۔

کمزور اپنی کمزوری کو بھی اپنی طاقت بنا لیتے ہیں اور اسی کمزوری میں کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں تاآنکہ تاریخ ان کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور وہ انسانوں کی تاریخ کا ایک قابل رشک حوالہ بن جاتے ہیں۔ تاریخ ان کے موڑ مڑتی ہے اور ان سے شروع ہوتی ہے اور ان پر ختم ہو جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے تموچن نے چنگیز خان بن کر دنیا کو لرزا دیا اور اپنی چھینی ہوئی سلطنت کو اپنے لائق اور نالائق بیٹوں پوتوں کے سپرد کر کے چلا گیا۔ صحرائے گوبی کی جھیل بیکال کے کسی کنارے درختوں کے جھرمٹ میںا سے دفن کر دیا گیا اس کی قبر کا کسی کو یقینی علم نہیں ہے لیکن چنگیز خان کو پوری تاریخ خوب جانتی ہے۔

بات ذرا لمبی ہو گئی ہم بھی تاریخ کے کسی تموچن کی طرح اپنے بزرگوں کی باتیں سن رہے ہیں اور قائل ہو گئے ہیں کہ اپنی دنیا بنانے کے لیے ان سے مدد مانگیں کیونکہ زمانہ بہت بدل گیا ہے اور اس زمانے میں تموچن کا آہنی عزم ہی اس مشکل دنیا میں کہیں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ مجھے یہ باتیں امریکی صدر اوباما کے ساتھ اپنے لیڈر کی ملاقات کے بعد یاد آئی ہیں جو اوباما کے ہاں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ اترے تھے۔

ہمارے لیڈر کی طرح اوباما بھی ایک مہاجر ہے، افریقی مہاجر اور یہ ہجرت اس کے سر کے بالوں پر لکھی ہوئی ہے لیکن امریکا کے مہاجروں نے نئے ملک کو اپنا مستقل ملک بنا لیا ہے ان کی غریبی امیری سب اسی امریکی سرزمین پر ہے اسی پر وہ غریبانہ زندگی بھی بسر کرتے ہیں اور اسی پر اپنی دولت مندی کی زندگی بھی بسر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کو خیرات دیتے ہیں اسی خیرات اور عالمی اثر و رسوخ نے اسے دنیا کا امام اور حکمران بنا دیا ہے اور یہی اس کی حیثیت ہے کہ بلاشبہ زمینی وسائل سے مالا مال اور افرادی قوت سے سرشار ایک نظریاتی ملک پاکستان آج اپنی بقا اور عزت کے لیے اس کے در پر حاضر ہے۔

میں نے کس دل سے جناب اوباما اور جناب نواز کو آمنے سامنے بیٹھا دیکھا یہ میرا دل ہی جانتا ہے ایک احمقانہ بات کہ مہمان اور میزبان کو اس کے لائق ہونا چاہیے تھا لیکن یہ دنیا صرف ان کی ہے جو اسے اپنے لیے تعمیر کرتے ہیں اور اسے بناتے ہیں اور پھر اپنے ہاں دنیا بھر کے سائلوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔

بہر کیف اپنی مذمت میں جتنا کچھ جی چاہے کہہ لیں لیکن سبق سیکھیں تو بات بنتی ہے۔ ہم خوراک میں خود کفیل ہیں لباس میں آراستہ ہیں چھوٹا بڑا ہر قسم کا ضرورت کے مطابق ایٹم بم رکھتے ہیں اور دفاع میں خود کفیل ہیں کیونکہ ہمارا سپاہی جنگ نہیں لڑتا اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے جہاں اس نے اپنی ابدی زندگی بسر کرنی ہے یوں خدا بڑا بول نہ بلوائے ہم ایک بہت بڑے ملک کے لیڈر ہیں مگر قوم کی اس تمنا کے ساتھ کہ اس کے لیڈر بھی اس کے ملک جتنے بڑے ہوں۔

The post بہت بڑا ملک اور لیڈر…! appeared first on ایکسپریس اردو.

ورنہ برداشت کر !

$
0
0

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے چار روز قبل (منگل)بیت المقدس ( یروشلم ) میں عالمی صیہونی کانفرنس سے خطاب میں مفتی ِ اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی مرحوم کے یہود دشمن ’’گھناؤنے‘‘ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ تاریخی دھماکا کیا کہ

’’ ہٹلر یہودیوں کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا صرف بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ انیس سو اکتالیس میں حاجی امین الحسینی نے برلن میں ہٹلر سے ملاقات کی تو حاجی نے ہٹلر کی بے دخلی کی تجویز سن کر کہا کہ ایسا مت کرنا کیونکہ بے دخلی کے بعد سب یہودی یہاں ( فلسطین ) آئیں گے۔ ہٹلر نے پوچھا تو حاجی پھر میں کیا کروں؟ امین الحسینی نے کہا ان سب کو جلا ڈالو‘‘۔۔۔۔

نیتن یاہو کو ان کے جس بھی دوست نے یہ تاریخی ٹوپی پہنائی ہے اس نے کوئی بہت ہی پرانا بدلہ چکایا ہے۔ کیونکہ نیتن یاہو کے اس انکشاف کے بعد کہ ہٹلر کو یہودیوں کی نسل کشی کی پٹی حاجی امین الحسینی نے پڑھائی، خود اسرائیلی وزیرِ دفاع موشے یالون (جو نیتن یاہو سے بھی بڑے دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں) نے دانتوں میں انگلیاں داب کے اسرائیلی آرمی ریڈیو پر کہا کہ وزیرِ اعظم کا تجزیہ درست نہیں۔ تل ابیب میں جیوش ہالو کاسٹ میوزیم کے نگراں اور عرب تاریخ کے پروفیسر ڈینا پورات نے کہا کہ نیتن یاہو خود بھی ایک معروف مورخ (پروفیسر بین زیون نیتن یاہو) کے صاحبزادے ہیں۔

کم از کم ان کے منہ سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ پروفیسر پورات نے وضاحت کی کہ مفتی امین الحسینی سے ملاقات سے دو برس پہلے جنوری انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے جرمن پارلیمنٹ (ریشاغ) سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ میں یہودی نسل کو صفحہِ ہستی سے مٹا دوں گا۔

جب کہ ہٹلر کی خود نوشت مین کیمپف ( میری جدو جہد ) انیس سو بیس کے عشرے میں شایع ہوئی۔ اس میں یہودیوں سے انتہائی نفرت ٹپکتی ہے۔ پروفیسر ڈینا پورات کے مطابق انیس سو چالیس میں نازیوں نے کنسنٹریشن کیمپ قائم کرنے شروع کر دیے تھے اور جون انیس سو اکتالیس میں سوویت یونین پر حملے کے ساتھ ہی یہودیوں کا قتلِ عام شروع ہو چکا تھا۔ جب کہ امین الحسینی کی ملاقات پانچ ماہ بعد (اٹھائیس نومبر) کو ہوئی۔

اور تو اور! جرمن چانسلر اینجلا مرکل بھی نیتن یاہو کے انکشاف پر اچھل پڑیں اور انھیں یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ یہودیوں کے قتلِ عام کے ذمے دار جرمن نازی تھے اور جرمنی کی درسی کتابوں میں بچوں کو یہی پڑھایا جاتا ہے تا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں اس طرح کے تاریک دور کے امکانات سے خبردار رہیں۔

خود اسرائیلی شہری سوشل میڈیا پر نیتن یاہوی انکشاف کے خوب چسکے لے رہے ہیں۔ ایک کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ نیتن یاہو ماؤنٹ ہرمن پر ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے یادگاری میدان میں ’’معصوم ہٹلر‘‘ کے نام کی یادگاری تختی نصب کر رہے ہیں۔

ایک ٹویٹر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب احمدی نژاد کے اس بیان پر عالمی مذمت ہو سکتی ہے کہ یہودیوں کا قتلِ عام محض فسانہ ہے تو نیتن یاہو پر اینٹی سیمٹ ازم کے الزام میں مقدمہ کیوں قائم نہیں ہو سکتا؟ ایک ٹویٹر میں کہا گیا کہ یہ بھی معجزہ ہے کہ اسرائیلی تاریخ میں فلسطینیوں کا کوئی وجود بھی نہیں پھر بھی وہ ہالوکاسٹ کے زمہ دار ہیں۔ ایک ٹویٹر میں سوال اٹھایا گیا کہ جس حقیقت پر سے نیتن یاہو نے سڑسٹھ برس بعد پردہ اٹھایا ہے وہ اول اسرائیلی وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان سے لے کر آج تک سب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہی؟ اسے کہتے ہیں ’’اصلی اور سچی تحقیق‘‘۔۔

پی ایل او کے سیکریٹری جنرل صائب ارکات نے نیتن یاہو کے تاریخی انکشاف پر تبصرہ کیا کہ دراصل اسرائیلی وزیرِاعظم کو فلسطینیوں سے اتنی نفرت ہے کہ وہ اس کے بدلے ہٹلر کو بھی معاف کرنے پر تیار ہیں۔

صائب ارکات شائد درست کہتے ہیں۔ نیتن یاہو کو یہ نفرت سیاسی ورثے میں ملی ہے کیونکہ یہ نفرت زندہ نہ رہے تو اسرائیل کے قیام کی نظریاتی بنیادیں ڈھے سکتی ہیں۔ مثلاً اسرائیل کے قیام سے گیارہ برس قبل انیس سو سینتیس میں ڈیوڈ بن گوریان نے ایک صیہونی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمیں ہر صورت میں عربوں کو دھکیل کر ان کی جگہ لینی ہے‘‘ ۔ ایک جگہ فرمایا کہ ’’یہود دشمنی، نازی، ہٹلر، آشوٹز وغیرہ اپنی جگہ حقیقت ہے۔ لیکن اگر اس حقیقت کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ ہم نے دراصل ان کا ملک چوری کر لیا ہے تو پھر یہ سب تو ہونا ہی تھا‘‘۔

ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام سے دس برس پہلے (انیس سو اڑتیس) ایک اور صیہونی اجلاس میں کہا ’’ہمیںایک سچ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی لحاظ سے ہم ( یہودی) حملہ آور ہیں اور وہ (فلسطینی) اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ زمین ان کی ہے کیونکہ وہ یہاں آباد ہیں جب کہ ہم یہاں بسنا چاہتے ہیں اور وہ ٹھیک سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کا ملک چھیننا چاہتے ہیں‘‘ ۔

لیکن جیسے جیسے قبضہ مستحکم ہوتا چلا گیا احساسِ جرم بھی جاتا رہا۔ انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کی فاتح اسرائیلی وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے پندرہ جون انیس سو انہتر کو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو میں کہا ’’فلسطینی نامی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ ایسا نہیں کہ ہم آئے، انھیں نکال پھینکا اور قبضہ کر لیا۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم مقبوضہ علاقے کسے واپس کریں جب کوئی لینے والا ہی نہ ہو‘‘۔۔۔

پندرہ اکتوبر انیس سو اکہتر کو گولڈا مائیر نے فرانسیسی اخبار لی ماند کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’یہ ملک (اسرائیل) وہ وعدہ ہے جو خدا نے خود سے ایفا کیا، چنانچہ اس کے جائز ناجائز ہونے کی بحث فضول ہے‘‘ ۔

پچیس جون انیس سو بیاسی کو اسرائیلی وزیرِ اعظم مینہم بیگن نے اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: وہ ( فلسطینی ) دو ٹانگوں پر چلنے والے جانور ہیں‘‘ ۔۔

تیس مارچ انیس سو اٹھاسی کو اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک شمیر نے فلسطینی انتفاضہ کے موقع پر غربِ اردن میں یہودی آبادکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’انھیں ( فلسطینی ) ٹڈیوں کی طرح کچل دیا جائے گا۔ ان کے سر پتھروں اور دیواروں سے پاش پاش کر دیے جائیں گے‘‘ ۔۔

جنرل (ر) یہود براک کو نسبتاً ایک اعتدال پسند وزیرِاعظم سمجھا جاتا تھا۔اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق آپ نے اگست دو ہزار میں فرمایا کہ ’’فلسطینی مگر مچھ کی طرح ہیں۔ جسے جتنا کھلا دو بھوک نہیں مٹتی‘‘۔ جب اسرائیلی اخبار ہارٹز کے کالم نگار گیدون لیوی نے یہود براک سے پوچھا اگر تم فلسطینی ہوتے تو کیا کرتے؟ براک کا جواب تھا ’’میں کسی دہشت گرد تنظیم میں ہوتا‘‘ ۔

اسرائیل واحد ملک ہے جہاں فلسطینیوں کے قتل ِ عام اور برٹش فلسطین میں سرکاری املاک کے خلاف دہشت گردی میں مطلوب دو اشتہاری مجرم (مینہم بیگن اور ایتزاک شمیر) بعد میں ملک کے وزیرِ اعظم بنے۔

جب کہ بیروت کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں فلسطینیوں کے قتلِ عام کے ایک کلیدی ذمے دار کی حیثیت سے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے سامنے بطور مجرم طلب کرنے کی ایک سے زائد پیٹیشنوں کے ملزم وزیرِ اعظم ایریل شیرون نے پچیس مارچ دو ہزار ایک کو اپنے بیان میں کہا ’’اسرائیل کو حق ہے کہ وہ دوسروں پر مقدمہ چلائے مگر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہودیوں یا اسرائیل کو کٹہرے میں لائے‘‘۔۔۔ اس سے پہلے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پندرہ نومبر انیس سو اٹھانوے کو آباد کاروں کی جماعت سومیٹ سے خطاب کرتے ہوئے ایریل شیرون نے فرمایا کہ ’’یہودی بستیوں کے لیے جتنی تیزی سے جتنے علاقوں پر قبضہ ہو سکتا ہے کر لیا جائے کیونکہ جو رقبہ رہ گیا وہ ان ( فلسطینی ) کا قرار پائے گا‘‘۔۔۔

اس تناظر میں موجودہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا یہ انکشاف کہ یہودی قتلِ عام کا منصوبہ دراصل الحاج امین الحسینی نے ہٹلر کے ذہن میں ڈالا، کوئی انہونا انکشاف نہیں بلکہ ایک مسلسل اور مخصوص ذہنیت کی تازہ کڑی ہے۔ ایسے مواقع پر مجھے اس ٹرک کی یاد آتی ہے جس کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ’’تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر ‘‘۔۔۔۔

The post ورنہ برداشت کر ! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22807 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>