Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22955 articles
Browse latest View live

23 مارچ

$
0
0

بڑے سالوں کے بعد بالآخر قراردادِ پاکستان کا دن عوام اسی شد و مد، شان وشوکت، جوش وخروش، ہمت و یقین سے منا رہے ہیں۔ وہ ڈرجو ہم میں پیوست ہوا تھا، سیکیورٹی خدشات کے باعث ممکن ہے وہ ڈروہ وقت کی ڈگر میں شکست خوردہ ہوا۔ ہم اس ڈر سے آگے نکل گئے پاکستان جب بنا تو نہرو وآزاد کہتے تھے’’چاردن بھی نہیں چلے گا‘‘ہاں! سترکا سانحہ سکوت ِ ڈھاکہ ہم پر زخموں کی طرح عیاں ہے۔

ہم تاریخ کو مسخ بھی نہیں کرنا چاہتے اورکربھی نہیں سکتے اوراگر کریں گے تو گْمراہ ہوں گے، ہم بھٹک جائیں گے۔ تاریخ صرف فتوحات وکامیابیوں کی داستان نہیں ہوتی۔اس میں ہمارے اچھے بْرے سب باب ہوتے ہیں۔ان کے اوراق کھولنے سے کْھلتی ہے ہماری حقیقت۔ اور حقیقت سے ملنا چاہیے دیدہ وری و دلیری کے ساتھ اورجب سے ہم نے حقیقت سے ملنا شروع کیا ہے تو 23 مارچ لوٹ آیا ہے۔ خوشیوں کے ڈھول باجے سنانے۔ ہماری آیندہ کی نسلیں یہ سب مناظردیکھیں گی جوآج کے دن کے نام سے ہم نے وقف کی ہیں۔

دوسری طرف چلے چلتے ہیں، کیسے بنا تھا پاکستان؟ کون تھے وہ لیڈران؟ کون سے وہ تضاد تھے کیسے ممکن بنا پاکستان؟ بٹوارہ کیا تھا؟ خاردار تاریں، لکیریں، دیواریں، سرحدیں، جنگیں، مقبوضہ و آزاد کشمیرکی اصطلاحیں، سرد جنگ کا پس منظر، دوسری جنگ ِعظیم، برطانوی سامراج کا کمزور ہونا۔ وہ ہندوستان جو اکبر ِاعظم سے پہلے اتنی بڑی سلطنت نہ تھا۔ انگریزکے آنے سے پہلے پھر واپس پنجاب آزاد ہوا، سندھ وبنگال آزاد ہوا، بلوچستان و خیبر پختونخوا بھی ایک طرح سے آزاد تھے۔انگریز سامراج نے پھر سے اْن کو ہندوستان میں شامل کیا۔

رنجیت سنگھ، سندھ کے تالپور وغیرہ ہا ر گئے اور جب انگریزکے جانے کے دن آئے تو اِنھیں ریاستوں نے اور اس وقت اِن ریاستوں سے سیاسی قیادت نے ایک الگ وطن کا خاکہ پیش کیا۔ اِن ساری ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ بِالخصوص یوپی، دہلی اور باقی ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے علیحدہ وطن کی بات کی۔ مجموعی طور پر پورے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ اب یوں کہیے کہ ایک سکے کے دو رخ تھے۔ آزاد وطن کی بنیاد یہ تھی کہ ہمیں اکثریت یعنی ہندو اپنے ماتحت رکھیں، ہم کو برابر کا شہری تصور نہیں کریں گے۔ عائشہ جلال کہتی ہیں 23 مارچ 1940ء قرار دادِ پاکستان ایک آزاد وطن کا خاکہ نہیں تھا وہ تو ایک حکمت ِ عملی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں برابرکے حقوق لینے کی اور ایک ایسا آئین وضع کرنے کی جہاں مسلمان اور ہندو اقتدارِ اعلیٰ میں برابرکی حیثیت رکھیں اور اگر نہ رکھیں تو تم بھی خوش، ہم بھی خوش، تمہارا ہندوستان تمہیں مْبارک اورمیرا پاکستان مْجھے مْبارک۔

میں نے کہا نا کہ میں تاریخ کا اصولی شاگرد ہوں، میری ٹریننگ وکیل کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ میں شواہدات کو ٹٹول کردیکھتا ہوں۔

وہ لوگ جوکہتے ہیں پاکستان ایک غلطی تھی تو، مْجھ کو بتلائے کوئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی، کس طرح فاشزم ان کی رگوں میں اب دوڑتا ہے۔اْتر پردیش کا وزیراعلیٰ اب کون بنا ہے۔جانتے ہو کون ہے؟ اس بار ہندوستان میں ریاستی انتخابات میں ہندوانتہا پرستی آسمانوں سے باتیں کررہی ہے خْدا خیرکرے۔ ہندوستان میں کچی بستیوں میں رہتے ہیں مسلمان۔

وہ سیکیولر ہندوستان کے متقاضی ہیں اور اس کی جہد میں باقی سیکیولر ہندوکے ساتھ اتحادی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ فاشزم جہاں بھی ہو اْسے شکست ہوگی۔

ہم تاریخی اعتبار سے برِصغیر کا وہ حصہ ہیں جہاں حملہ آور بہت آئے۔اکثر فاتح ان میںسے سینٹرل ایشیاء سے آئے فقط محمد بن قاسم ہی تھے جو مختلف گزرگاہ سے سندھ میں آئے، باقی بمع سکندرِ اعظم یا ہزاروں سال پہلے آریاء گروہ در گروہ درہ خیبر نہیں تو پہاڑوں سے اْترکرآئے۔ ہر راہ جو دِلی کو جاتی تھی ہم سے گزرکرجاتی تھی۔ انگریزکے زمانے میںایک طویل سانت رہی۔اب اس زمین نے اپنی گوندھی ہوئی رواداری سے فارسی سے رْومی آئے، رْومی سے بنے بھٹائی، بلھے شاہ، باہو، فرید ،خوشحال خاں خٹک بھی اِسی سلسلے کا حصہ ہیں۔ صوفی تحریک ہو یا بھگتی تحریک ہو یہ لوگوں سے جْڑی ہوئی تھیں۔ یہ لوگوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں۔ وہ اپنے عہد میں انسانی حقوق کا چارٹر تھیںاور جب دنیا ایک ہوئی وہ کڑی دنیا میں انسانی حقوق کے متوالوں سے جْڑگئی۔

23 مارچ کی کوکھ سے چودہ اگست پیدا ہوئی۔ ہم چونکہ پسماندہ تھے ہندو اور بنیے کے سامنے بہت پسماندہ، اس لیے کہ ہم مسلمانوں نے انگریز سامراج سے محاذ اٹکایا تھا ۔1857ء مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ تھی، ہم پر بہت عتاب آئے۔ ہندو قوم پرستی نے مسلمان دشمنی سے جنم لیا۔ انگریزکے سوسالہ اقتدار میں وہ پروان چڑھے۔ ہم مسلمانوں نے پانچ سو برس جو دِلی پر جو راج کیا تھا وہ اْس کا بدلہ چکانے لگے تھے، بہرکیف مسلم لیگ،کانگریس کی طرح مضبوط و منظم پارٹی نہیں تھی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی مضبوط مڈل کلاس جو نہیں تھی، اس لیے کہ وہ راجاؤں اور نوابوں کی پارٹی تھی، پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ تھی کہ جناح چل بسے اور ساتھ جناح کے اس کی گیارہ ستمبر والی تقریر بھی چل بسی۔

مبہم سا بن گیا پاکستان، کوئی اِسے ادِھرکھینچے،کوئی اْسے اْدھرکھینچے۔ ہندوستان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ نہرو آزادی کے بعد لگ بھگ سولہ سال جیے، اْنھوں نے سیکولر ہندوستان کی وہ راہیں متعین کیں کہ بھلے کتنے ہی مودی آجائیں ہندوستان کے پاس آزاد عدلیہ ہے۔ وہ اپنے آئین کی حفاظت اور تشریح کرنا خوب جانتی ہے اور یہاں ہم کوئی آئین ہی نہ دے سکے۔1956ء میں آئین دیا تو ون یونٹ والا پاکستان دیا،ایک ایسی پارلیمنٹ دی جوکہ پاکستان میں موجود ریاستوں کی حقیقت کو نہیں جانتی، یعنی اس میں سینیٹ نہیں تھی۔آمر آیا 1962ء کا آئین دیا وہ آئین کے تقاضوں کو پورا کرتا تھا یا نہیں مگر اس نے بھی سینیٹ نہیں دیا۔ہوا کیا 1970ء میں پاکستان ایک دوراہے پر آ کھڑا ہو گیا۔ ہوتی اگر مسلم لیگ مضبوط، راجاؤں ونوابوں کی پارٹی نہ ہوتی اس کی جڑیں یہاں کے لوگوں میں ہوتیں۔ نہ جناح اتنی جلدی وفات پاتے تو 1970ء کے اْس دوراہے پر ہم نہ پہنچتے، نہ آمر پیدا ہوتا نہ ون یونٹ والا پاکستان بنتا۔

23 مارچ کے تاریخی متن کو ذرا پڑھیے کہ پاکستان مسلمان ِ ہند نے بنایا تھا۔ یہ تصویرکا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے تسلسل میں بنا تھا۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جس طرح اس کا متن کہتا ہے کہ یہ پاکستان سندھ، پنجاب، سرحد، بنگال وغیرہ کی ریاستوں نے بنایا تھا۔

اب ایک طرف پنجاب یونیورسٹی میں ثقافتی رقص بھی کْفر ٹھہرا، دھمال بھی کْفر، بْلھے شاہ، بھٹائی، فرید اورخوشحال خان خٹک بھی مسترد۔ طرح طرح کی فتوے ہیں۔ ایسی فتووں کو لوگوں نے بارہا رد کیا۔ جب کہ ہندوستان میں انتہا پرستی کو Ballot Box پر جیت ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ایسی کسی مخصوص سوچ وگروہ کا پاکستان نہیں۔

The post 23 مارچ appeared first on ایکسپریس اردو.


23مارچ:چند دلچسپ حقائق

$
0
0

اب ایک بار پھر تئیس مارچ یعنی یومِ پاکستان کا دن منایا جا رہا ہے۔ ایک عظیم الشان اور عظیم المرتبت دن کی یاد۔ وہ دن جب 67سال قبل اسلامیانِ ہند نے حضرت قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں، 23مارچ1940ء کو، لاہور کے منٹو پارک میں تاریخی ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ منظور کی۔ ابتدا میں اسے ’’قرار دادِ لاہور‘‘ کے عنوان سے موسوم کیا گیا تھا۔ متعصب ہندو پریس مگر بطور طنز جب اسے ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگا تو مسلمانانِ ہند نے بھی کہا کہ ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی!تئیس مارچ ہی دراصل وہ دن ہے جب مسلمانانِ متحدہ ہندوستان نے واضح طور پر حاکم انگریزوں کی غلامی اور عیار ہندوؤں کی بالادستی سے انکار کرتے ہُوئے اپنا ایک علیحدہ وطن بنانے کا اعلان کیا۔ اُس تاریخی دن شک ، ابہام اور اشتباہ کے سارے بادل چھٹ گئے تھے اور پاکستان حاصل کرنے کا تصور نکھر کر سامنے آگیا تھا۔

یہ بھی 23مارچ ہی کا یومِ سعید تھا جب پاکستان بننے کے 9سال بعد وطنِ عزیز کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ پچھلے چھ عشروں سے زائدعرصے سے ہم سب پاکستانی 23مارچ کی عظمت کے گیت گاتے چلے آ رہے ہیں۔ راولپنڈی کے عسکری شہر میں افواجِ پاکستان اِس دن کو شاندار اسلوب میں سیلوٹ پیش کرنے کے لیے خصوصی پریڈ کا اہتمام کرتی ہیں جسے ملک بھر میں ، ٹی وی کی خصوصی نشریات کے توسط سے، محبت و عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتاہے۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، نے اعلان کیا ہے کہ اِس بار، 23مارچ 2017ء کو،چینی فوج کا ایک خصوصی دستہ اور ترک ملٹری بینڈ بھی یوم ِپاکستان کی فوجی پریڈ میں شامل ہوگا۔پاکستان اور ترکی کے درمیان روز بروز جو معاشی، عسکری اور برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے، تئیس مارچ کے حوالے سے تازہ ترین فیصلہ اِسی کا ایک اور خوبصورت مظہر ہے۔

چند دن پہلے ہی راقم نے پاکستان کے معروف سیاستدان اور فوجی افسر سردار شوکت حیات خان کی خود نوشت سوانح حیاتThe Nation That Lost its Soul  دوبارہ ختم کی ہے۔ 23مارچ ،تحریکِ پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں یہ کتاب کئی انوکھے انکشافات کرتی ہے۔ ’’ گُم گشتہ قوم‘‘ کے زیر عنوان اردو زبان میں بھی اِس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ سردار صاحب متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم( سرسکندر حیات خان )کے صاحبزادے ،قائداعظم علیہ رحمہ کے ساتھی اور تحریکِ پاکستان کے مجاہد تھے۔وزیر بھی بنے۔ ستّر کے عشرے میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل بھی رہے۔

مرتے دَم تک پاکستان اور قائداعظم کی محبت کا دَم بھرتے رہے۔ آخری عمر میں اُنہیں ایک معروف اور مقتدر سیاستدان کی طرف سے دکھ اُٹھانا پڑا۔23مارچ اور ’’قرار دادِ پاکستان‘‘کے حوالے سے سردار شوکت حیات خان، جن کا تعلق واہ گارڈن سے تھا، نے اپنی کتاب میں تین جگہ اہم واقعات کا ذکر کیا ہے۔اِن کا ذکر از بس ضروری ہے۔لکھتے ہیں:’’ مسلم لیگ کے(لاہور میں) 23مارچ 1940ء کے اجلاس سے قبل علامہ(عنائیت اللہ) مشرقی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ خاکساروں کی پریڈ کھلی جگہ کے بجائے پسِ دیوار کرائیں کہ جنگ کا زمانہ بھی تھا۔ مشرقی صاحب مان گئے تھے۔

پریڈ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے لیکن جاتے وقت وہ اپنی پارٹی کو اس معاہدے کے بارے میں کچھ بھی بتا کر نہ گئے ؛ چنانچہ خاکساروں نے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے 23مارچ 1940ء کے اجلاسِ قرار دادِ لاہور سے چند روز پہلے لاہور کی سڑکوں پر پریڈ کا مظاہرہ کیا۔مظاہرہ روکنے پرلاہور کے ایس پی مسٹر گینز فورڈ اور اُس کے ڈپٹی کو (خاکساروں نے) بیلچے مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ردِ عمل میں اُس نے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔وہ خود خون میں لَت پَت سر سکندر کے پاس سیکریٹریٹ آیا۔ خاکساروں کی تمام پریڈوں پر پابندی لگا دی گئی۔ خاکساروں نے بدلہ لینے اور سنگین نتائج کے اعلانات کیے اور یہ بھی کہا کہ وہ سر سکندر حیات خان کو قتل کر دیں گے اور ساتھ ہی اُنہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس میں گڑ بڑ پیدا کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے۔ 23مارچ 1940ء سے قبل لاہور میں عوامی جذبات انتہا پر تھے۔

اِسی بنا پر میرے والد صاحب،جو قرار دادِ لاہور کے مصنف تھے،خود قرار داد پیش نہ کر سکے۔ اُن کی جگہ مولوی فضل الحق (شیرِ بنگال) نے یہ قرار داد پیش کی تاکہ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔بعد میں حکومتِ ہند نے خاکسارتحریک پر پابندی لگا دی ۔ خاکساروں کو اس کا بڑا رنج تھا۔ اُنہوں نے قائداعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا لیکن قائد کی شاندار حاضر دماغی اور جرات نے قاتل (رفیق صابر مزنگوی)کو اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا۔‘‘ (صفحہ 131 ( قائد اعظم پر قاتلانہ حملے کی پاداش میں رفیق صابر مزنگوی کو پانچ سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

’’گم گشتہ قوم‘‘ کے مصنف جناب شوکت حیات خان مرحوم 23مارچ اور ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:’’نوابزادہ لیاقت علی خان مسلم لیگ کے آنریری سیکریٹری تھے۔ وہ اُس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں شامل تھے جو اوائلِ فروری 1940ء میں منعقد ہُوا تھا۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ نے واضح طور پر مطالبہ کیا تھا کہ دو خود مختار ریاستیں ،ایک ہندوستان کے شمال مغرب میں اور دوسری شمال مشرق میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، قائم کی جائیں ۔یہ ریاستیں ایک فیڈریشن کے تحت کام کریں گی۔

اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جو سر سکندر حیات خان، ملک برکت علی اور چوہدری خلیق الزمان پر مشتمل تھی۔اس کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ قرارداد کا ڈرافٹ تیار کرے جو 22اور 23مارچ1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں پیش کی جائے گی۔سر سکندر حیات خان نے میر مقبول محمود کی اعانت سے یہ ڈرافٹ تیار کیا جو ’’لاہور ریزولیوشن‘‘ کہلاتا ہے۔ اسے بعد میں ’’پاکستان ریزولیوشن‘‘ (قرار دادِ پاکستان) کا نام دیا گیا۔ اِ س نام کی زیادہ تشہیر غیر مسلم پریس نے کی۔‘‘(صفحہ228) مجھے ایک سوال کے جواب میں تحریکِ پاکستان اور حیاتِ قائداعظم کے عاشق جناب منیر احمد منیر نے بتایا کہ 23 مارچ کی قرار داد ِ پاکستان کی منظوری سے دو دن پہلے قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو آپ ممدوٹ وِلّا میں ٹھہرے تھے۔ میزبان نے اپنے معزز اور قیمتی مہمان کے لیے انار کلی بازار کی سب سے بڑی دکان سے کراکری کا نیا اور انتہائی بیش قیمت سامان خریدا تھا۔

سردار شوکت حیات خان پاکستان بنانے والوں کی صفِ اوّل میں شامل اور حضر ت قائداعظم علیہ رحمہ پر جان نچھاور کرنے والوں میں سے ایک تھے۔وہ 23مارچ اور ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کے بارے میں اپنی خود نوشت سوانح حیات میں مزید رقمطراز ہیں:’’یہ بات ذہن میں واضح ہو جانی چاہیے کہ بانیِ پاکستان (قائد اعظم)نے ’’قرار دادِ لاہور‘‘کے فوری بعد امریکن پریس کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایسی حکومت نہیں ہوگی جس کی پہچان مذہبی ہو اور نہ ہی ہم خالص مذہبی حکومت پر یقین رکھتے ہیں۔یہ بات 1940ء میں کہی گئی جب دیوبند کے کئی علما پاکستان کی مخالفت میں کانگریس کی رہنمائی کر رہے تھے۔

ایسے بھی مگر بہت سے علماء حضرات تھے جنہوں نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان بنانے میں شاندار کردار ادا کیا۔ مثلاً: شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد،مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا شبیر احمد عثمانی، پیر صاحب آف تونسہ شریف، پیر قمرالدین سیالوی، پیر صاحب آف گولڑہ شریف، پیر صاحب آف جلال پور شریف جو راجہ غضنفر علی کے قریبی رشتہ دار تھے، پیر جماعت علی شاہ، پیر مانکی شریف، پیر صاحب آف زکوڑی۔‘‘(صفحہ 283) واقعہ یہ ہے کہ سردار شوکت حیات خان کی متذکرہ کتاب 23مارچ اور تشکیلِ پاکستان کے اصل مقاصد کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

The post 23مارچ:چند دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

6 سال بعد

$
0
0

کویت مشرقی وسطیٰ کے ان ممالک میں شامل ہے جو پسماندہ ملکوں کے عوام کو روزگارکے مواقعے فراہم کرتا ہے۔ بیرون ملک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں معمولی روزگار کے لیے پاکستان سے لیبر فورس کے جانے کا سلسلہ  بھٹوکے دور سے شروع ہوا۔ بھٹو ایک ذہین سیاسی رہنما تھے اگرچہ کہ ان کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا لیکن وہ حسب توفیق عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاںرہتے لیکن ان کی بود باش، رہن سہن سب جاگیردارانہ تھا کیونکہ وہ صحیح معنوں میں اپنے آپ کو ڈی کلاس نہیں کرسکے تھے جب ہم ایسے عوام دوست جاگیرداروں کی بات کرتے ہیں تو ہماری نظروں میں حسن ناصرشہید کا چہرہ گھوم جاتا ہے، حسن ناصر کا تعلق بھی حیدرآباد دکن کے ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا وہ جب پاکستان آئے تو ان کی ملاقاتیں ترقی پسند دوستوں سے ہوئیں اور بہت جلد وہ صحیح معنوں میں عوام دوست جاگیردار گھرانے کے فرد بن گئے۔لانڈھی اورسائٹ میں مزدور بستیوں میں مزدوروں کے ساتھ رہنے لگے کیونکہ انھوں نے حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو ڈی کلاس کرلیا تھا، وہ فیشنی ڈی کلاس نہیں تھے کہ اندر سے کچھ اور ہوں اور باہر سے کچھ اور۔

بات چلی تھی کویت سے کہا جارہا ہے کہ کویت کے حکمرانوں نے 6 سال بعد پاکستانیوں کے لیے ویزے کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ اس فیصلے کو ہم ایک مثبت قدم کہہ سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 6 سال قبل پاکستانیوں کے لیے ویزا پر پابندی کیوں لگائی گئی تھی؟کیا پاکستان کے ان محنت کشوں نے کوئی غلطی کی تھی، جس کی پاداش میں ان پرکویت میں ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے تھے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر پاکستان کے ان غریب لوگوں پرکویت میں ملازمتوں پر 6 سال تک پابندی کیوں لگائی گئی؟ اگر حکومتوں کی سطح پرکوئی اختلافات یا ناراضگیاں پیدا ہوئی تھیں تو اس کی سزا غریب محنت کشوں کوکیوں دی گئی تھی؟

بھٹوکے دور سے بیرون ملک محنت کشوں کے لیے روزگارکی جو سہولتیں فراہم کی گئیں اگرچہ روایت کے مطابق اس میں بھی بدعنوانیوں اور امتیازات کے پہلو موجود تھے لیکن یہ پہلا موقعہ تھا کہ بیرون ملک کام کرنے والے غریب طبقات کے خاندانوں نے بھی آسودہ زندگی کا مزہ چکھا، ورنہ اس سے قبل کوئی غریب آسودہ زندگی سے واقف ہی نہیں تھا۔ بھٹوکے بعد بیرون ملک ملازمتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تو شروع ہوا لیکن پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ ہماری حکمران ایلیٹ اس قسم کے کارنامے انجام دے کراس کا بھاری کریڈٹ تولیتی ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے ساڑھے چارکروڑ مزدوروں اور دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں کی صدیوں پر پھیلی ہوئی غربت اور ناداری کویت کے ویزے کے کھلنے سے دورہوجائے گی؟ کیا کروڑوں کی تعداد میں غربت بھوک کے مارے عوام کویت جاسکیں گے؟ اس کا سوال یقینا نفی ہی میں آئے گا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کس طرح آئے گی، 20 کروڑ عوام غربت مہنگائی بیماری اور بے روزگاری سے کس طرح نجات حاصل کرسکیں گے؟ کیا پاکستان میں اجناس کی کمی ہے کہ لوگ دووقت کی روٹی سے محروم ہیں؟ کیا پاکستان میں دولت کی کمی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ ضروریات زندگی خریدنے سے محروم ہے؟ کیا پاکستان میں علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہیں کہ غریب اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ کے فرش پر جان سے جارہے ہیں؟ جی نہیں پاکستان میں اتنا اناج ہے کہ پاکستان کا ہر شہری تین وقت پیٹ بھر روٹی کھا سکتا ہے، پاکستان میں اس قدر دولت ہے کہ اگر دولت کی منصفانہ تقسیم ہو تو ہر پاکستانی خوشحال زندگی گزارسکتا ہے۔ پاکستان میں علاج معالجے کی اس قدرسہولتیں ہیں کہ ہر مریض کا علاج ممکن ہے لیکن ان محرومیوں کی وجہ یہ ہے کہ 80 فیصد قومی دولت پر مٹھی بھر ایلیٹ اورگنے چنے خاندان قابض ہیں اور یہ سلسلہ نیا نہیں 69 سال پرانا ہے اس ’اسٹیٹس کو‘ کو توڑے بغیر پاکستان کے 20 کروڑ عوام غربت و افلاس کی دلدل سے باہر نہیں آسکتے۔

کویت میں ملازمتوں پر سے پابندی ہٹنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن بیرون ملک ملازمتیں کرنے والے پاکستانیوں کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں ملازمتیں حاصل کرنا نہ آسان ہے نہ حکومت اس حوالے سے آج تک کوئی ایسی منصوبہ بندی کرسکی ہے کہ غریب عوام کو بیرون ملک ملازمتیں خریدنے کے لیے لاکھوں کا قرض لینا نہ پڑے غریب کو بیرون ملک ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی زمینیں اور گھر نہ بیچنا پڑے۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہمارے سر سے لے کر پیر تک کرپٹ معاشرے میں ہر چیزخریدی اور بیچی جاتی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے کیا ہماری حکومت انھیں حل کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کرسکی ہے؟

جن ملکوں میں پاکستانی روزگارکے لیے جاتے ہیں وہ ان ملکوں کے قاعدے قوانین سے ناواقف ہوتے ہیں جن مالکان کے پاس وہ کام کرتے ہیں وہ مالکان لیبر لاز پر عمل نہیں کرتے۔ مشرق وسطیٰ میں کفیل کے نام پر آمروں کی ایک کھیپ پیدا کردی گئی ہے جو ملازمت کرنے والوں سے ان کے پاسپورٹ لے لیتے ہیں جس کی وجہ پاکستانی ملازمین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعض ناپسندیدہ عناصر بھی ملازمتوں کے بہانے بیرونی ملکوں میں پہنچ جاتے ہیں جن کی سرگرمیوں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ بیرونی ملکوں کے قاعدے قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے اکثر لوگ جیلوں میں پہنچ جاتے ہیں اور جیلیں ان کے لیے اندھے کنوئیں بن جاتی ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کے حل کی ذمے داری سفارت خانوں پر آنی چاہیے اورسفارت خانوں کے پاس ’’تارکین وطن‘‘ کا پورا ریکارڈ ہونا چاہیے۔

The post 6 سال بعد appeared first on ایکسپریس اردو.

پی ایس ایل سے ای سی ایل تک

$
0
0

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کھل کر کھیلنے والے 5کھلاڑی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں آ چکے ہیں۔ پی ایس ایل سے ای سی ایل کا یہ سفر چند ہفتوں میں ہی طے ہو گیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے ہی اسپاٹ فکسنگ کے اس معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آئی سی سی نے کھوج لگایا اور پی سی بی نے فوری طور پر اسلام آباد یونائیٹڈ سے تعلق رکھنے والے شرجیل خان اور خالد لطیف کو ذمے دار قرار دے کر کھیلنے سے روکتے ہوئے وطن واپس روانہ کر دیا تھا۔ شک کی انگلی جس تیسرے کھلاڑی پر اٹھی اس کا نام محمد عرفان ہے۔

عرفان سے البتہ یہ رعایت برتی گئی کہ اسے دبئی اور شارجہ میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کھیل جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اجازت ایک بڑے سابق کرکٹر کی سفارش پر دی گئی تھی کیونکہ عرفان کا تعلق بھی اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہی تھا۔ ٹیم کے دو کھلاڑی پہلے ہی اسپاٹ فکسنگ کے اس کھیل کی نذر ہو چکے تھے اگر تیسرا بھی واپس بھجوا دیا جاتا تو مصباح الحق کی ٹیم کے پلے کچھ بھی نہ رہتا۔ سپر لیگ کا فائنل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہو چکا تو نہ صرف عرفان کو معطل کر دیا گیا بلکہ دیگر دو کھلاڑی شاہ زیب حسن اور ناصر جمشید بھی ای سی ایل کی فہرست میں شامل کر لیے گئے۔ 4کھلاڑی یہاں خوار ہو رہے ہیں البتہ 5واں کرکٹر ناصر جمشید برطانوی تحقیقاتی اداروں کا مہمان بنا ہوا ہے۔

کرکٹ میں میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ آئی پی ایل‘ بی پی ایل اور پی ایس ایل جیسے ٹورنامنٹ تو ویسے بھی اس طرح کے کاموں کے لیے مشہور ہیں۔ زیادہ تر لیگز کے دوران یا بعد میں اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بات ان چار یا پانچ کھلاڑیوں تک محدود نہیں۔ کچھ اور بھی نام اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا پتہ صرف کھلاڑی ہی قصور وار ہوں یا پی سی ایل کے کچھ کرتا دھرتا بھی اس میں شامل ہوں۔ میرے خیال میں شک کا دائرہ کچھ امپائرز تک بھی پھیلانا چاہیے۔ ٹورنامنٹ کے دوران بعض فیصلے تو ایسے تھے کہ شاید امپائرنگ سے کوئی ناواقف شخص بھی نہ کرتا۔ وہ فیصلے بھی اسپاٹ فکسنگ کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کے بڑے بڑے چیمپیئن ہو گزرے ہیں۔ ہمارا ایک کھلاڑی ایسا بھی تھا جو کہا کرتا تھا میچ چھوڑو پوری سیریز کی بات کرو۔ یعنی فکسنگ کرنی ہے تو کسی ایک میچ کے لیے کیوں کی جائے پوری سیریز کا سودا ہو اور مال بھی خوب بنے۔ کئی ایسے کرکٹر بھی تاریخ کا حصہ بن گئے جو بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے مگر پیسے کے لالچ میں اپنا کیرئیر تباہ کر بیٹھے۔ پاکستان میں جو چار کرکٹر شامل تفتیش ہیں اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ سب خود کو بیگناہ بتا رہے ہیں۔ عرفان نے یہ اعتراف کیا کہ بکی نے ان سے رابطہ کیا تھا‘ ان کی غلطی محض اتنی ہے کہ وہ بورڈ کو آگاہ نہیں کر سکے۔ دیگر کے پاس بھی کچھ جواز ضرور موجود ہونگے۔

اسپاٹ فکسنگ کے تازہ معاملے سے کچھ اور ہوا یا نہیں سلمان بٹ کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ضرور پڑ گئی۔ ان دنوں محمد عامر کی واپسی کا فیصلہ بھی زیر بحث ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر محمد عامر کو واپسی کی اجازت نہ ملتی تو کسی اور کرکٹر کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی جرات نہ ہوتی۔ چین کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہاں کرپشن پر موت کی سزا دی جاتی ہے لیکن کیا وہاں کرپشن کے واقعات نہیں ہوتے۔ جس نے کرپشن کرنی ہے وہ ضرور کرتا ہے۔ ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ چور وہ جو پکڑا جائے۔ جو پکڑ میں نہیں آتا اسے چور کون کہہ سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو سرعام قومی دولت پر ڈاکہ ڈالنے والے معزز بن کر پھرتے ہیں۔ کرپشن کے کیسز ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی زیر سماعت ہیں۔ سب سے بڑے پانامہ کیس پر فیصلہ محفوظ پڑا ہوا ہے۔ آئیں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تمام کھلاڑیوں کو نشان عبرت بنا دیں۔ کیا اس کے بعد میچ یا اسپاٹ فکسنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ قصور واروں کو سزائیں جذبات کے مطابق نہیں قانون کے تحت دی جاتی ہیں۔

پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان ’’لڑائی‘‘ بھی قانونی ہے۔ نجم سیٹھی فرماتے ہیں کہ پی سی بی کے اپنے قوانین‘ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوانین سے زیادہ سخت ہیں اور چونکہ ملک میں اسپاٹ فکسنگ جیسے معاملے سے نمٹنے کے لیے قانون موجود ہیں لہٰذا معاملہ پی سی بی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ بورڈ معاملے میں ملوث کھلاڑیوں کو مثالی سزا دے گا۔ سیٹھی صاحب کو ایف آئی اے کی تحقیقات پر اعتراض ہے بھی اور نہیں بھی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ نجم سیٹھی وزیر اعظم کے کافی قریب ہیں اسی وجہ سے وہ اس عہدے پر بھی فائز ہیں۔ دوسری طرف چوہدری نثار علی خان ہیں جو نواز شریف کی کابینہ کے واحد وزیر ہیں جو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی کھل کر بات کر لیتے ہیں۔ انھیں وزیر اعظم سے جہاں اختلاف ہوتا ہے وہ بنا جھجکے جرات اظہار کر جاتے ہیں۔ چوہدری نثار نے اسی لیے واضح طور پر کہا ہے کہ ایف آئی اے کو کسی ادارے کو لکھ کر دینے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایف آئی اے عدالت کی ڈائریکشن پر تحقیقات کر رہی ہے۔

بہترہو گا کہ پی سی بی اور پی ایس ایل کے چیئرمین اپنی تفتیش کریں اور ایف آئی اے کو اپنا کام کرنے دیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایف آئی اے کی تحقیقات سے کسی کو خوفزدہ یا پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار بکیز کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت جاری کر چکے ہیں۔ اچھی بات ہے‘ معاملے کی تہہ تک جانے کی اشد ضرورت ہے۔ ممکن ہے تفتیش میں آگے چل کر کوئی بڑی مچھلی بھی قابو میں آ جائے۔ کرکٹر کم عمر ہوتے ہیں لیکن انھیں فکسنگ کے جال میں پھنسانے والے کافی سمجھدار لوگ ہوتے ہیں۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان کرکٹ کی بہتری کے لیے گول میز کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ ان کانفرنسوں کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک سابق اسٹار کرکٹرز ان میں شریک نہیں ہوتے۔

آخر میں یہی امید کرنی چاہیے کہ پی ایس ایل سے ای سی ایل کا یہ سفر آخری ثابت ہو۔ اس کے بعد صرف پی ایس ایل ہونی چاہیے اور بس۔ چاہے کوئی بھی کرائے۔

The post پی ایس ایل سے ای سی ایل تک appeared first on ایکسپریس اردو.

77برس؟

$
0
0

آج23مارچ ہے۔77برس قبل آج ہی کے روز لاہور کے منٹو پارک(اب مینار پاکستان)میں آل انڈیامسلم لیگ کے تین روزہ کنونشن میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی،جو اگلے روز (24مارچ) منظور ہوئی۔ ابتدامیں اسے قراردادلاہورکہا جاتا تھا۔ بعد میں قرارداد پاکستان کہا جانے لگا۔ پاکستان کاقیام اسی قرارداد کامرہون منت ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا 70برس قبل وجود میں آنے والا ملک اس قرارداد کا آئینہ دار ہے یا نہیں؟

لاہور کنونشن 22مارچ1940کو شروع ہوکر 24مارچ کو اختتام پذیر ہوا۔ اس کنونشن میں دیگر کئی قراردادوں کے علاوہ ایک قرار داد یہ بھی پیش کی گئی: That geographically contiguous units are demarcated into regions which should be constituted, with such territorial readjustments as may be necessary that the areas in which the Muslims are numerically in a majority as in the North Western and Eastern Zones of (British) India should be grouped to constitute ‘independent states’ in which the constituent units should be autonomous and sovereign.۔جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ برطانوی ہندکے شمال مغرب اور مشرقی زون میں واقع وہ جغرافیائی یونٹ جہاں مسلمان عددی طورپر اکثریت میں ہیں،وہاں خود مختاراور بااختیار ’’آزاد ریاستوں‘‘کی شکل دی جائے۔

خود مختار اور بااختیار’’آزاد ریاستوں‘‘ کے مطالبے کا مقصد دراصل مسلم اکثریتی یونٹوں کے کنفیڈریشن کا قیام تھا۔جس کا جزولاینفک جمہوری نظم حکمرانی تھی، مگر 1946 میںجب تقسیم ہندکا یقین ہوگیا، تو آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے قرارداد لاہورکے مسودے میں موجود اصطلاح ‘independent states’ میں سے’s’کاٹ کر اسےstateکردیا ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ابتدائی سوچ میں تبدیلی آگئی تھی اور اب وہ مسلم اکثریتی یونٹوں پر مشتمل کنفیڈریشن کے بجائے فیڈریشن بنانے کی خواہش مند ہوچکی تھی۔ بیانیے میں آنے والی تبدیلی پر پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بنگال اور سندھ کے مندوبین نے احتجاج ضرورکیا، مگرکوئی ڈیڈلاک پیدا نہیں ہوا۔

لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آل انڈیامسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نئے ملک کے خدوخال کے بارے میں روز اول ہی سے غیر واضح تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس نے تقسیم ہندکا مطالبہ توضرورکردیا تھا، مگر ذہنی طورپر اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد کی منظوری سے قیام پاکستان تک اس نے کوئی واضح اور ٹھوس ہوم ورک نہیں کیا۔جس کے اثرات قیام پاکستان کے فوراً بعد نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

اول،مسلم لیگ کی پوری تحریک کامحور بنگال کے علاوہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان تھے۔ جب کہ شمال مغربی ہندکے مسلم اکثریتی صوبوں میںآل انڈیا مسلم لیگ کا اثرونفوذصرف ایک مختصر مراعات یافتہ طبقے تک محدود تھا۔مسلم لیگ نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو اپنے حق میں متحرک ضرورکیا تھا، مگران کے مستقبل کے بارے میں کوئی کلیہ طے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم کے ساتھ ہی پورے برٹش انڈیا میں بدترین فسادات پھیل گئے اوران علاقوں کے مسلمان نئے ملک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جس کے لیے مسلم لیگی قیادت ذہنی اورعملی طورپر تیار نہیں تھی۔

دوئم، اردو ہندی کا قضیہ شمالی اوروسطی ہند کا معاملہ تھا۔بقیہ ہندوستان اس سے متاثر نہیں تھا۔ سندھ میں عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی سندھی زبان مسلمانوں اورہندوؤں میںیکساں طورپر اظہارکا ذریعہ چلی آرہی تھی۔اسی طرح بنگال میں بنگالی زبان ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان وجہ تنازع نہیں تھی، بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی عدم توازن اختلافات کا باعث تھے۔اس باریک اور نازک فرق کو بھی مسلم لیگی قیادت سمجھ نہیں سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اردوکو مسلمانوں کی واحد زبان تسلیم کرتے ہوئے اسے نئی مملکت کی قومی زبان قرار دیا، تو نئے تضادات نے جنم لیا۔اس میں شک نہیں کہ اردو برصغیر کیLingua Franca ضرور تھی، مگر برصغیر کے تمام مسلمانوں کی واحد زبان نہیں تھی۔ اردو پر غیرضروری اصرار نے قیام پاکستان کے فوراً بعد وفاقی یونٹوں میں شناخت کے نئے سوالات کو جنم دیا، مگر ان کا جواب دینے کے بجائے سختی کے ساتھ کچلنے کی پالیسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

سوئم،اصولی اور قانونی طورپر پاکستانی ریاست کو وفاقی جمہوریہ بنناتھا،کیونکہ نئے ملک میں جو قوانین چل رہے تھے، وہ برطانوی تھے اوراتنا وقت اوراستعداد نہیں تھی کہ فوری طورپر نئے قوانین ترتیب دے لیے جائیں۔ ویسے بھی تمام نوآبادیات نے آزادی کے بعد وہی نظام حکمرانی اپنایا، جو انھیں نوآبادیاتی آقاؤں کی جانب سے ورثہ میں ملا تھا، مگر تہذیبی نرگسیت کے حصار میں پھنسے اراکین دستورساز اسمبلی کی اکثریت ریاست کے منطقی جوازکے بارے میں کوئی متفقہ موقف اختیار کرنے میںمسلسل ناکام رہی۔ حالانکہ بابائے قوم نے دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس (11اگست 1947)میں نئی مملکت کے آئین کے خدوخال واضح طورپر بیان کردیے تھے، مگر فکری ابہام میں مبتلا قانون ساز اس باریک نکتے کو بھی نہیں سمجھ پائے۔

سیاسی قیادت میں پائے جانے والے ابہام کا نتیجہ تھا کہ بیوروکریسی ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آتی چلی گئی۔جس نے من مانے فیصلے کرنا شروع کردیے۔ خاص طورپر وفاقیت کی بنیاد پر قائم مملکت میں 1955میںبنگال کی عددی برتری کوکم کرنے کی خاطر پیرٹی کا اصول متعارف کرایاگیا۔ یہ بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کے عوض ایک انتہائی سفاکانہ فیصلہ تھا۔ پیرٹی کے اس تصورکو عملی شکل دینے کی خاطر مغربی حصے کے تمام وفاقی یونٹوں کو ایک یونٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان یونٹوں کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی حیثیت تقریباً ختم ہوگئی ۔یوں ملک وفاقی جمہوریہ کے بجائے وحدانی ریاست میں تبدیل ہوگیا۔جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں ریاست گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔

آج قرارداد پاکستان کی منظوری کو77برس ہوچکے ہیں۔ ملک ان گنت مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، مگر ماضی میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قومی سطح کے فیصلوں پر نظر ثانی سے گریز کیا جارہاہے۔آج بھی حسین شہید سہروردی مرحوم، مولوی فضل الحق مرحوم، شیخ مجیب الرحمن اور سائیں جی ایم سید مرحوم کو محب وطن سمجھتے ہوئے قیام پاکستان میں ان کے کردار سے صرف نظرکیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس 13اگست1947تک پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتوں کو فیصلہ سازی پر مسلط کرنے کی حکمت عملی جاری ہے۔   سہولتوں سے محروم عوام کی شکایات پرکان دھرنے کے بجائے انھیں بزور طاقت کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کہ مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہونے والی کمیونٹیزکی سیاسی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا  رہی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمران اشرافیہ نے ان 77برسوں میں اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ بلکہ وہی پرانی روش جاری ہے۔تسلسل کے ساتھ ایک ہی قسم کی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیںاور ان پر اصرار کیا جارہا ہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک ایک طرف مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جھلس رہاہے۔ دوسری طرف وفاقی جمہوریت سے انحراف اوراقتدارواختیار کی مرکزیت نے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی کمیونٹیز میں احساس محرومی پیدا کردیا ہے۔ مقامی حکومتی نظام سے انحراف اورقومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس نظام کی حوصلہ شکنی نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج مزیدگہری ہوئی ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اشرافیہ اناؤں کے خول سے باہر نکل کر آج کی دنیا کے حقائق کوسمجھنے کی کوشش کرے،تاکہ ملک میں آباد تمام قومیتوں اورکمیونٹیزمیںملک کا مساوی شہری ہونے کا احساس پیدا ہوسکے۔

The post 77برس؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’لوح‘‘ کی پذیرائی

$
0
0

سہ ماہی ادبی مجلے ’’لوح‘‘ کے چوتھے شمارے کی تقریب پذیرائی میں اس کے ایڈیٹر اور پبلشر برادرم ممتاز احمد شیخ نے بتایا کہ اس کے اجراء کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک قدرے ذاتی‘ جذباتی اور دلچسپ نوعیت کی وجہ یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی طالب علمی کے دنوں میں انھیں اس کے مشہور ادبی مجلے ’’راوی‘‘ کی ادارت کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا، سو اس رسالے کے ساتھ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے قیام اور ’’راوی‘‘ کے معروف گٹ اپ کو اپنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

ظاہر ہے یہ بات ایک ہلکے پھلکے اور نیم مزاحیہ انداز میں کی گئی تھی لیکن حاضرین میں سے کچھ لوگ اسے سنجیدہ بیان سمجھ بیٹھے اس پر مجھے استاد محترم پروفیسر حمید احمد خان صاحب سے منسوب ایک واقعہ بہت یاد آیا، راوی کا بیان ہے کہ جن دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ان کے پی اے کی انگریزی بہت ہی کمزور تھی اور اس کے تیار کیے ہوئے ڈرافٹس میں گرامر اورا سپیلنگز کی غلطیاں خان صاحب کو بہت کھلتی تھیں لیکن اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے برداشت کرتے جا رہے تھے، ایک بار وہ ایسا ہی کوئی ڈرافٹ لے کر آیا تو خاں صاحب سے رہا نہ گیا وہ عبارت پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے ’’ماشاء اللہ، سبحان اللہ کیا کمال کا جملہ بنایا ہے آپ نے! اور کیا انوکھے سپیلنگ نکالے ہیں اس لفظ کے ‘‘ اب ہوا یہ کہ بجائے شرمندہ ہونے کے وہ پی اے جھک جھک کر شکریہ ادا کرنے لگا کہ ’’سب آپ کی مہربانی اور جوتیوں کا طفیل ہے آپ ہی سے سیکھا ہے ہم نے سب کچھ‘‘ اس پر حمید احمد خاں اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور ہاتھ جوڑنے کے انداز میں بولے

’’ارے بھائی طنز کر رہا ہوں۔طنز کر رہا ہوں‘‘

جہاں تک ممتاز احمد شیخ کی مدیرانہ صلاحیتوں اور ’’لوح‘‘ کے اس چوتھے شمارے کا تعلق ہے اس کی تحسین پوری اردو دنیا میں کی گئی ہے کہ بہت دنوں کے بعد کوئی ایسا ادبی پرچہ تسلسل سے نکلنا شروع ہوا ہے جس میں نہ صرف ہمارے علاقائی اور قومی ادب سمیت دنیا بھر کے ادب اور ادبی مباحث کو جگہ دی گئی ہے بلکہ موضوعات اور اصناف کے اعتبار سے بھی اس کا دائرہ وسیع تر کیا گیا ہے۔

اردو صحافت اور بالخصوص ادبی جرائد کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گفتگو کے دوران جن جرائم کا ذکر بار بار ہوا ان میں قیام پاکستان سے قبل کے ادبی ماہ ناموں ’’دل گداز‘مخزن‘ ہمایوں‘ عالم گیر‘ تہذیب نسواں‘ ادبی دنیا‘ ادب لطیف، نگار ساقی‘ نیرنگ خیال‘‘ اور اس کے ساتھ یا قدرے بعد اشاعت کا آغاز کرنے والوں میں ’’افکار‘‘ سویرا‘ نئی قدریں‘ تخلیق‘ بیاض‘ الحمرا‘ مکالمہ‘ ماہ نور‘ چہار سو سمیت کئی ایسے ماہوار رسائل بھی شامل تھے جن میں سے کچھ نے مختلف مواقع پر عمدہ اور ضخیم خاص نمبر شایع کیے لیکن ’’لوح‘‘ کا شمار ان رسائل میں ہوتا ہے جو چاہے دیر  سے نکلیں مگر ان کا ہر شمارہ خاص نمبر کا انداز اور ضخامت لیے ہوئے ہوتا تھا، اس کا آغاز تو محمد طفیل کے ’’نقوش‘‘ سے ہوا لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ پھیلتا ہی چلا گیا، ان میں سے کچھ رسائل تو بوجوہ چند ایک پرچوں کی اشاعت تک محدود رہے لیکن جنہوں نے زیادہ عرصے تک اپنا تسلسل اور معیار بلند اور قائم رکھا ان میں سرفہرست احمد ندیم قاسمی صاحب کا ’’فنون‘‘ اور اس کے بعد اوراق‘ سیپ‘ نیا دور‘ تخلیقی ادب‘ آثار‘ معاصر‘ آج‘ دنیا زاد‘ اجرا‘ اسالیب اور اب ’’لوح‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے کہ اس کا ہر شمارہ بہتر سے بہتر کی طرف جا رہا ہے۔

اولڈ راوینز کے شہباز شیخ کی سجائی ہوئی اس محفل کی صدارت محترم ایس ایم ظفر نے کی جب کہ مہمانان خاص میں صدیقہ بیگم‘ سرفراز احمد اور مجھے شامل کیا گیا تھا، اسٹیج سیکریٹری ڈاکٹر ابرار احمد تھے جنہوں نے بہت خوش اسلوبی سے کارروائی کو اس طرح آگے بڑھایا کہ تقریباً 75منٹ کے مختصر وقت میں25احباب نے ’’لوح‘‘ کی تاریخ‘ مندرجات اور خصوصیات پر اپنی رائے کا اظہار کیا، مقررین کی اس فہرست میں مندرجہ ذیل احباب اس ترتیب سے شریک گفتگو ہوئے ڈاکٹر جواز جعفری‘عنبرین صلاح الدین‘ سجاد بلوچ‘ حمیدہ شاہین‘ شائستہ نزہت‘ نیلم احمد بشیر‘ امجد طفیل‘ حسین مجروح‘ عارف خان‘ وقاص عزیز‘ انجم قریشی‘ احمد خیال‘ باقی احمد پوری، قمر رضا شہزاد‘ سعود عثمانی‘ شیریں اسد‘ ڈاکٹر ضیا الحسن‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرفراز احمد‘ ممتاز احمد شیخ‘ امجد اسلام امجد‘ وحید رضا بھٹی‘ صدیقہ بیگم اور ایس ایم ظفر۔

گفتگو کے دوران ’’راوی‘‘ کا ذکر بار بار آیا کہ ممتاز احمد شیخ اور اولڈ راوینز سوسائٹی نے شعوری طور پر اپنی مادر علمی کے اس عمدہ اور تاریخ ساز جریدے کے گٹ اپ‘ انداز اور پیش کش کو ’’لوح‘‘ میں ایک طرح سے دوبارہ زندہ کر دیا ہے لیکن یہ مماثلت بس یہیں تک محدود ہے کہ ’’راوی‘‘ کچھ بھی ہو بہرحال ایک تعلیمی ادارے سے شایع ہونے والا پرچہ ہے جس میں سینئرز کے ساتھ ساتھ نو آموز طالب علموں کی تخلیقات کو بھی جگہ دی جاتی ہے اور اس اعتبار سے اس کا دائرہ یقیناً محدود ہے مگر ’’لوح‘‘ نے نقوش، فنون، اوراق، آج‘ سویرا اور دنیا زاد کی طرز پر علمی و ادبی مباحث‘ جدید رویوں اور تحریکات اور سب سے بڑھ کر عالمی ادب سے منتخب تراجم کو جو اہمیت اور فوقیت دی ہے۔

اس نے بہت کم عرصے میں اس سہ ماہی رسالے کو ایک ادبی دستاویز کی شکل دے دی ہے جو ایک کارنامے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر دو دھاری تلوار کے کچھ خواص بھی رکھتا ہے کہ اب ممتاز احمد شیخ کو خوب سے خوب تر کی تلاش کا وہ چیلنج بھی درپیش ہے جس میں اس کا مقابلہ اپنے ہی پیش کردہ معیار کے ساتھ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ نہ تو اسے خود ادیب ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی وہ کسی خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ دونوں باتیں بہت سے اچھے ادبی پرچوں کو ڈبو چکی ہیں۔

زبان و ادب کی اس عمومی بے قدری کے زمانے میں ’’لوح‘‘ جیسے ادبی پرچوں کی اشاعت تازہ ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے سے کم نہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ نہ صرف یہ جھونکا فضا کو مہکاتا رہے گا بلکہ اس کی وساطت سے اس اجڑے چمن کی ان بہاروں کو بھی واپسی کا رستہ مل سکے گا جو اب یادوں کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔

The post ’’لوح‘‘ کی پذیرائی appeared first on ایکسپریس اردو.

پلیز انصاف کے لفظ پر پابندی لگا دیں

$
0
0

آپ اور میں تھوڑی دیر کے لیے ماضی میں چلتے ہیں‘ 2009ء کا سن تھا‘ حج کا زمانہ تھا‘ پاکستان سے ایک لاکھ 59ہزارافراد حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچے‘ حجاج کو مکہ مکرمہ کے مختلف علاقوں کی مختلف عمارتوں میں رکھا گیا‘ پینتیس ہزار حاجیوں کو حرم سے ساڑھے تین سے پانچ کلو میٹر دور 87زیر تعمیر عمارتوں میں ٹھونس دیا گیا‘ یہ عمارتیں خراب بھی تھیں‘ ناقابل رہائش بھی تھیں اوربنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھیں‘ حاجیوں کو دقت کا سامنا کرنا پڑا‘2009ء کے حج میں بے شمار دوسری بدنظمیاں بھی سامنے آئیں‘ حاجیوں نے شکایات شروع کیں‘ خبریں بنیں اور شایع اور نشر ہوئیں‘ملک میں کہرام برپا ہوگیا‘ ملک میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی ‘ اعظم خان سواتی اور حامد سعید کاظمی وفاقی وزراء تھے‘ حامد سعید کاظمی کے پاس مذہبی اموراور اعظم سواتی کے پاس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قلم دان تھا۔

اعظم سواتی جمعیت علماء اسلام (ف) کے ’’کوٹے‘‘ پر سینیٹر اور وزیر بنے تھے جب کہ حامد سعید کاظمی کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا‘ سواتی صاحب نے2010ء میں حامد سعید کاظمی پر حج میں بدعنوانی کا الزام لگا دیا‘ ان کا دعویٰ تھا حامد سعید کاظمی نے ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کے ساتھ مل کر حج میں کرپشن کی‘ اعظم سواتی نے یہ الزام میرے پروگرام ’’کل تک‘‘ میں لگایا تھا‘ یہ کرپشن کے دستاویزی ثبوت بھی ساتھ لائے تھے‘ پروگرام میں حامد سعید کاظمی بھی موجود تھے‘ انھوں نے حلف اٹھایا اور الزام کو جھوٹا قرار دے دیا‘ یہ الزامات‘ خبریں اور حاجیوں کی شکایتیں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری تک پہنچیں‘ چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا اور حامد سعید کاظمی کے خلاف انکوائری شروع کرا دی‘ سعودی عرب کے شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ دیا‘ شہزادے کا کہنا تھا ’’پاکستانی حکام حج میں کرپشن کے مرتکب ہوئے‘ میرے پاس ان کی بدعنوانی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں‘‘ شہزادے نے لکھا ’’پاکستانی حکام کو حرم سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر 3350 ریال میں رہائش گاہیں مل رہی تھیں لیکن انھوں نے یہ رہائش گاہیں لینے کے بجائے ساڑھے تین کلومیٹر دور 3600 ریال میں معمولی درجے کی عمارتیں لے لیں‘‘  سپریم کورٹ نے یہ خط بھی تحقیقات میں شامل کرا دیا۔

تحقیقات شروع ہوئیں تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی‘ وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی‘ جوائنٹ سیکریٹری مذہبی امور راجہ آفتاب الاسلام اور ڈی جی حج راؤ شکیل کے نام سامنے آگئے‘ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے دباؤ میں حامد سعید کاظمی اور پارٹی کے پریشر میں اعظم سواتی کو وزارتوں سے فارغ کر دیا‘ حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کو بھی تحقیقات کی اجازت دے دی‘ قائمہ کمیٹی کے ارکان سعودی عرب گئے اورانھوں نے بھی حج کے انتظامات میں بدعنوانی کی تصدیق کر دی‘ حکومت نے ڈی جی حج راؤ شکیل کو سعودی عرب سے واپس بلا لیا‘21 نومبر کو سعودی عرب نے 25 ہزار حاجیوں کو اڑھائی سو ریال فی کس واپس کرنے کا اعلان کردیا‘ 20 دسمبر 2010ء کو وزیر داخلہ رحمن ملک نے قومی اسمبلی میں تسلیم کر لیا ’’حج انتظامات میں 16 لاکھ ریال کی کرپشن ہوئی تھی‘ حکومت بدعنوانی کے ذمے داروں کو سخت سزا دے گی‘‘ ملزمان نے اس دوران ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی‘ یہ ضمانت 15 مارچ 2011ء کو ختم ہوگئی۔

حامد سعید کاظمی کمرہ عدالت سے گرفتارہو گئے جب کہ17مارچ 2011ء کو نیب نے ڈی جی حج راؤ شکیل کوبھی گرفتار کر لیا ‘ یہ لوگ اس کے بعد عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ‘ عدالت نے 30 مئی 2012ء کوان پر فرد جرم عائد کر دی ‘یہ کیس چلا اور یہ چلتا ہی چلا گیا ‘ تاریخ پر تاریخ اور سماعتوں پر سماعتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ اسپیشل جج سینٹرل ملک نذیر احمد نے 3 جون 2016ء کو حامد سعید کاظمی اور جوائنٹ سیکریٹری آفتاب الاسلام کو سولہ سولہ سال اور ڈائریکٹر جنرل حج کو 40 سال قید کی سزا سنا دی‘ ملزموں کو پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ بھی کیا گیا‘ عدالت کے حکم پر حامد سعید کاظمی اور آفتاب الاسلام کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا جب کہ راؤ شکیل پہلے سے ہی نیب کی حراست میں تھے‘ یہ تینوں ملزم جیل بھجوا دیے گئے‘ حامد سعید کاظمی نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی‘ یہ اپیل 9 ماہ زیر سماعت رہی یہاں تک کہ 20 مارچ 2017ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں ملزموں کو باعزت بری کر دیا‘ عدالت کا کہنا تھا ’’ملزمان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا‘‘یوں عدالتی حکم کے بعد تینوں ملزمان باعزت بری ہو گئے۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے‘ ملزمان اب ملزمان نہیں رہے‘ یہ باعزت بری ہو چکے ہیں‘ ملزمان کی بریت کے بعد ہمیں اب یہ بھی ڈکلیئر کر دینا چاہیے2009ء کے حج کے دوران کسی حاجی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی تھی‘ اعظم سواتی اور قائمہ کمیٹی کے تمام الزامات جھوٹے تھے‘ حاجیوں کی رہائش گاہیں ساڑھے تین کلو میٹر دور نہیں تھیں‘ ان کا کرایہ 3600 ریال بھی ادا نہیں کیا گیا ‘ سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیز کا خط بھی جھوٹا تھا‘ سپریم کورٹ نے بھی غلط سوموٹو لیا تھا‘ ایف آئی اے اور نیب کی انکوائری بھی غلط تھی‘ وزیر داخلہ رحمن ملک نے 20 دسمبر 2010ء کو قومی اسمبلی میں 16 لاکھ ریال کی کرپشن کا اعتراف بھی نہیں کیا تھا‘ عدالت میں پیش کردہ ساری دستاویزات بھی جھوٹی تھیں‘ حکومتی وکیلوں نے بھی جھوٹ بولا تھا‘ اسپیشل جج کا فیصلہ بھی جانبدارانہ تھا اور 35 ہزار حاجیوں کی شکایتیں بھی جھوٹی تھیں اور ان تمام جھوٹوں کا ایک ہی مقصد تھا حامد سعید کاظمی‘ راؤ شکیل اور راجہ آفتاب الاسلام کو پھنسانا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی کو بدنام کرنا اور بس‘ ہمیں اب یہ سارا مقدمہ بھی جھوٹا اور بے بنیاد قرار دینا چاہیے۔

کیوں؟ کیونکہ اگر یہ الزامات غلط نہ ہوتے‘ اگریہ سارا مقدمہ جھوٹ پر مبنی نہ ہوتا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کبھی ملزموں کو باعزت بری نہ کرتی‘ ملزموں کی رہائی ثابت کرتی ہے سعودی شہزادے کے خط سے لے کر اسپیشل جج کے فیصلے تک تمام واقعات‘ تمام الزامات غلط تھے اور ریاست سات سال تک تینوں ملزموں کے ساتھ زیادتی کرتی رہی اور ہم اور ہماری ریاست دونوں حامد سعید کاظمی‘ راؤ شکیل اور راجہ آفتاب الاسلام کے مجرم ہیں‘ ہمیں اب ان تینوں ملزموں کو تاوان بھی ادا کرنا چاہیے‘ ہم اگر یہ نہیں کرتے‘ہم اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خاموش رہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ سارا اسکینڈل درست ماننا پڑے گا‘ ہمیں ماننا ہوگا حج کے دوران جان بوجھ کر مہنگی رہائش گاہیں لی گئی تھیں‘ رہائش گاہوں میں پیسہ بنایا گیا تھا‘ حاجیوں کو واقعی تکلیف ہوئی تھی‘ سوموٹو نوٹس بھی ٹھیک تھا‘ شہزادے کا خط بھی حقیقت تھا‘ تحقیقات بھی درست تھیں اور ملزموں کو سزا بھی ٹھیک ہوئی تھی‘ ہم اگر اس اسکینڈل کو ٹھیک مان لیتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے اگر 2009ء کے حج کے دوران کرپشن ہوئی تو اس کرپشن کا اصل ذمے دار کون تھا‘ وہ کون تھا جس نے حاجیوں کو لوٹا‘ وہ کون تھا جس نے حاجیوں کی بددعائیں لیں‘ وہ کون تھا جس نے رہائش گاہوں کا سودا کیا‘ وہ کون تھا جس کے بارے میں شہزادے نے خط لکھا‘ وہ کون تھا جس نے 16 لاکھ ریال اڑائے اور وہ کون تھا جس کی نشاندہی پارلیمانی کمیٹی اور اعظم سواتی نے کی تھی‘ وہ یقینا حامد سعید کاظمی‘ راؤ شکیل یا راجہ آفتاب الاسلام نہیں ہیں‘ وہ کوئی اور تھا جس نے یہ سارے غلیظ کام کیے‘ جس نے ذلت کے یہ سارے سودے کیے‘ ہمیں وہ شخص تلاش کرنا ہوگا اور ہم اگر اس شخص کو تلاش نہیں کرتے تو ہم قومی مجرم ثابت ہوں گے۔

ریاست کو اب دو کام کرنا ہوں گے‘ ریاست کو حامد سعید کاظمی‘ راؤ شکیل اور راجہ آفتاب سے معافی مانگنا ہو گی اور اسے حج اسکینڈل کے اصل ملزم تلاش کرنا ہوں گے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک ترین اسکینڈل تھا‘ ہم مسلمان ہیں اور کوئی مسلمان حج‘ عمرے اور زکوٰۃ جیسے فرائض میں بے ایمانی نہیں کر سکتا‘ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا دنیا کا واحد ملک بھی ہے چنانچہ پاکستان جیسی اسلامی جمہوریہ میں ریاستی سطح پر حاجیوں کے ساتھ زیادتی ہو جائے یہ ممکن نہیں چنانچہ ہمیں اب وہ ننگ انسانیت ‘ وہ ننگ اسلاف شخص تلاش کرنا ہوگا جس نے حاجیوں کے زاد راہ میں منہ مارنے کا گناہ کیا‘ یہ اسکینڈل ظلم عظیم تھا اور ہم اس ظلم پر جتنا بھی شرمندہ ہوں وہ کم ہو گا‘ ہم نے اس اسکینڈل کے ذریعے پوری دنیا میں ہزیمت بھی اٹھائی اور دنیا ہمارے بارے میں ببانگ دہل کہنے لگی تھی‘ یہ وہ قوم ہے جو حاجیوں کو بھی معاف نہیں کرتی چنانچہ یہ اسکینڈل فائلوں میں نہیں دبنا چاہیے‘ ہمیں اصل مجرم تلاش کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر ہمیں اس ملک میں انصاف کا جنازہ تیار کر لینا چاہیے‘ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگو کے نیچے ’’بے انصافوں کی سرزمین‘‘ لکھ دینا چاہیے اور ہم اگر یہ لکھ دیتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیونکہ جو ملک حاجیوں کو انصاف نہیں دے سکتا اس ملک میں انصاف کے لفظ پر پابندی لگ جانی چاہیے‘ چنانچہ آئیے اصل مجرم تلاش کریں یا پھر انصاف کے لفظ پر پابندی لگا دیں تاکہ ہم بانس اور بانسری دونوں سے ایک ہی بار جان چھڑا لیں۔

The post پلیز انصاف کے لفظ پر پابندی لگا دیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سوشل میڈیا یا تضحیک کا میڈیم

$
0
0

وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ دنیا میں تقریباً ایک ارب 20 کروڑ مسلمان ہیں، جن کی مقدس ہستیوں کی بین الاقوامی سوشل میڈیا میں تضحیک کی جارہی ہے، میں واضح کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے، اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہر سطح پر سخت ترین اقدامات کریں گے۔ سوشل میڈیا پر مذہب اور مقدس ہستیوں کو منسلک کرکے جس طرح کا گستاخانہ طرز عمل اور طوفان بدتمیزی برپا ہے، اس کے تناظر میں ملک کے تمام ہی شہری سراپا احتجاج ہیں، یہ ہر مسلم کے دل کی آواز ہے کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرایع ابلاغ پر آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مذہب پر تنقید اور مقدس ہستیوں کی گستاخی بند کی جائے۔

اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے جس پر پہلی بار پیشرفت ہوئی ہے کہ انھوں نے اپنا وفد پاکستان بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شخصی آزادی کا شور مچانے والوں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اظہار رائے کی آزادی دوسروں کی دل آزاری کا نام نہیں۔ مختلف سوشل میڈیا کے مالکان کو اس بات کو باور کرنا ہوگا کہ ان کے کاروبار کا بڑا حصہ مسلمانوں کی شمولیت سے ہی پنپ رہا ہے، اگر آج دنیا بھر کے مسلمان تہیہ کرلیں کہ ان سائٹس کا استعمال نہیں کرنا جن پر کوئی بھی گستاخانہ مواد موجود ہے تو یہ سائٹس اپنی موت آپ مر جائیں گی۔

وزیرداخلہ کا مسلم امہ کی جانب سے مشترکہ طور پر لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے آیندہ جمعہ کو تمام مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ پنجاب ہاؤس میں ملاقات کرنے کا پیغام نہایت مثبت ہے، جس کے بعد مذکورہ تنازعہ پر مسلم امہ کا مشترکہ موقف سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں ان گستاخان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

The post سوشل میڈیا یا تضحیک کا میڈیم appeared first on ایکسپریس اردو.


سدا بہار معاشی نظام

$
0
0

اسلام جو معاشی نظام پیش کرتا ہے، وہ مختصراً مندرجہ ذیل اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان اصولوں کو ہم دو عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(الف)۔ پیداوار کے اصول، حلال وحرام کا فرق ہی دراصل اسلام کے معاشی نظام کا سنگ بنیاد ہے۔ اسلام معاشی ترقی اور پیداوار میں اضافے کی بھرپور حمایت کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی شرط بھی لگاتا ہے کہ آمدنی یا پیداوار جائز ذرایع سے حاصل کی جائے گی۔ اسلام ہر ایسے نفع، پیداوار اورآمدنی کو جو حرام ذرایع سے حاصل ہو اسے دوزخ کی آگ قرار دیتا ہے۔ معاشی زندگی کو حدود اللہ اوراخلاقی ضابطے کا پابند بناتا ہے۔

دوسرا اصول سود کی ممانعت ہے جو معاشی ظلم واستحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اسلام نے سود کو ہر شکل میں حرام قراردیا ہے۔ یہ خدا اور رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ تجارت باہمی رضامندی سے کسی جبر یا مجبوری کے بغیر ہونی چاہیے، تجارت کی وہ تمام شکلیں جن میں دوسرے فریق کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کچھ خاص شرائط کے ساتھ کی جائے ناجائز ہے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ تجارت دیانت کے ساتھ ہو۔ اس میں دھوکا، جھوٹ، وعدہ خلافی اورغلط بیانی نہ ہو اشیا جن کا استعمال حرام کی تعریف میں آتا ہے یعنی شراب، سود وغیرہ ان کی تجارت حرام ہے۔

چھٹا اصول یہ ہے کہ اِحتِکَار یعنی ضروریات زندگی کو روک کر رکھنا تاکہ ان کے دام چڑھ جائیں اور اس طرح منافعے میں اضافہ کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔ ایسا کرنے والے پر رسولؐ خدا نے لعنت بھیجی ہے۔

ساتواں اصول یہ ہے کہ تجارت کی وہ تمام شکلیں ممنوع ہیں، جس سے کسی دوسرے سے ناجائزفائدہ اٹھایا جا رہا ہو یا بغیر مناسب محنت کے دولت ہاتھ آرہی ہو۔ سٹہ، لاٹری اورجوئے کی تمام شکلیں ممنوع ہیں۔

آٹھواں اصول یہ ہے کہ تاجراعلیٰ اخلاقی کردارکا مالک ہو،اسلام کا سچا سفیر ہو، خوش اخلاق ہو، جذبہ خدمت خلق کو جذبہ عبادت سمجھتا ہو۔

مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں فرد اپنی پیداوار، دولت، نفع یا آمدنی میں جس قدراضافہ کرسکتا ہے، اسلام کی طرف سے اسے اجازت ہے۔اس طرح حاصل کی ہوئی دولت کو اسلام اللہ کا فضل اور نعمت قرار دیتا ہے۔

(ب)۔ صَرف کے اصول:حلال دولت، نفع،آمدنی یا پیداوار پر بھی اسلام فرد کے جملہ مالکانہ حقوق قرار نہیں دیتا بلکہ اللہ کی ایک مقدس امانت قراردیتا ہے۔ جس طرح دولت میں اضافہ حدود آشنا ہے اسی طرح دولت کا استعمال بھی حدود آشنا ہے۔ بخل اور اسراف دونوں پر پابندی ہے۔ دولت صرف تعمیری اور پیداواری مقاصد پر خرچ کی جائے گی۔اس کے علاوہ دولت خرچ کرنے کی اسلام میں مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔

پہلا اصول یہ ہے کہ انسان کے نفس کا اس پرحق ہے۔ اسلام آرام دہ اورخوشحال شخصی زندگی بسر کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن تَعَیُّشَانہ زندگی بسر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

دوسرا اُصول یہ ہے کہ فرد اپنی دولت سے زکوۃ کی شکل میں غربا اور مساکین کا حق نکالے۔ یہ ان پر احسان نہیں ادائیگی فرض ہے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی دولت اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کی جائے۔ جو لوگ معاشی بدحالی میں مبتلا ہوں، ان کو معاشی دوڑ میں شریک ہونے کے قابل بنانے کے لیے قرض حسنہ یعنی بلا میعاد اور بلاسود قرض دے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ، صدقات واجبہ اور قرض حسنہ کے علاوہ حکومت وقت نظم ونسق چلانے اورعوام کی فلاح وبہبودکے لیے جو لازمی ٹیکسی عائدکرے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے جو مزید ٹیکس لگائے اس کو  بخوشی ادا کرے۔ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اسلامی ریاست کی بقا اور سالمیت کے لیے صدیقؓ اکبرکی طرح دولت خرچ کرے۔

پانچواں اصول یہ ہے کہ دولت ورثا میں ایک مناسب ترتیب کے ساتھ منصفانہ طورپر تقسیم کردی جائے ، مختصراً یہ ہیں اسلام کے معاشی نظام میں پیداواردولت اورصرف دولت کے اصول۔

اسلام کے مقابلے میں اکثر دو انسانی نظام میدان عمل میں رہے ہیں، ایک سرمایہ داری دوسری اشتراکیت۔ دونوں خدا کی ہدایت و رہنمائی کی صلاحیت، حکمت، علمیت، بصیرت اور قدرت کے معاشی میدان میں منکر ہیں۔ اسلام کا معاشی نظام، سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے اپنے مقصد، اپنے مزاج اور اپنے اصولوں کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے۔ یہ جڑ سے لے کر شاخوں، پھلوں، پھولوں، پتیوں اور رنگ وبو میں دونوں سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ اسلام وہ اذان حق ہے جو 610ء (عیسوی) سے پہلے تاریخ انسانی کے کسی دور میں سنائی نہیں دیتی۔ جس کے لیے یہ الزام لگایا جاسکے کہ اسلام نے فلاں دور تاریخ کی آواز کو دہرایا ہے۔ سرمایہ داری اوراشتراکیت 18 ویں صدی کے آخر اور 19 ویں صدی کی ابتدا کی انسانی ذہن کی پیداوار ہیں جب کہ اسلام چھٹی صدی کی آسمانی ہدایت ہے۔ ماضی حال کا شاگرد نہیں ہوسکتا، حال ماضی کا شاگرد ہوسکتا ہے۔

اسلام معاشی ہدایت میں دنیا کا پیشرو ہے۔ سرمایہ داری اوراشتراکیت میں جوخوبیاں پائی جاتی ہیں وہ اسلام ہی کی آواز بازگشت ہے۔ سرمایہ داری کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش میں ترقی، پیداوار میں اضافہ، صرف دولت،انفرادی حق ملکیت اورشخصی آزادی وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً وسائل پیداوارکی کم سے کم تقسیم، نفع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ، سرمایہ کا کثیرمعاوضہ، محنت کا حقیرمعاوضہ، لعنت سود، صرف طاقتورکو جینے کا حق، ظلم واستحصال، درندگی تنگ نظری دوسروں کی حق تلفی، مفاد پرستی، ٹیکس کی چوری، ارتکاز دولت اورمعاشی بحران وغیرہ کی برائیوں سے اسلام کا دامن پاک وصاف ہے۔

اسی طرح اشتراکیت کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش کی ترقی، معاشرتی انصاف، معاشی استحکام، دولت کی منصفانہ تقسیم، محنت کی عظمت، سود کی ممانعت، غیرترقیاتی اخراجات کی حوصلہ شکنی، تعیشانہ زندگی کی ممانعت، بنیادی ضروریات زندگی کی لازمی فراہمی، دولت کی گردش وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً فردکی اہمیت کا انکار، ریاست کا فرد اور ملکیت پر مکمل کنٹرول حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید اورمخالفت پر پابندی، مستقل اخلاقی اقدار اورروحانی قوت کا انکار وغیرہ کی برائیوں سے اسلام کا دامن پاک وصاف ہے۔ دونوں نظام افراط و تفریط کا شکار ہیں انتہا پسندی دونوں کا خاصہ ہے۔ دونوں میں توازن کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔

اسلام کا مرکزی تصور انسان اور اس کی معاشی اوراخلاقی فلاح ہے۔ وہ معاشی ترقی کو امکانی حد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی انصاف، شخصی آزادی اوراخلاقی ترقی کو اولین اہمیت دیتا ہے۔اس طرح یہ انسانی فلاح و بہبودکا قابل یقین ضامن ہے۔ دور حاضر کے معاشی چیلنج یہ ہیں۔ معاشی ترقی، معاشی تعاون، معاشی توازن، معاشرتی انصاف، منصفانہ تقسیم دولت اور روحانی قوت پر یقین محکم وغیرہ اسلام دنیا کا واحد نظام ہے جو دورحاضرکے ان معاشی چیلنجز کا جواب دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

The post سدا بہار معاشی نظام appeared first on ایکسپریس اردو.

مہذب معاشرہ اور اختلاف رائے

$
0
0

گزشتہ ہفتے ایکسپریس میڈیا کے سی پیک پر منعقدہ سیمینار میں سندھ کے موجودہ گورنر نے سیمینار کے منتظمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سیمینار میں جو مثبت فضا ہے وہ اس لیے ہے کہ انھوں نے تنقید کرنے والوں کو مدعو نہیں کیا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ ٹاک شوز میں بھی ایسا ہی مثبت تاثر پیش کریں۔ خیر وہ تو صوبے کے گورنر ہیں اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ کی منزل پر فائز ہیں، مگر صحافت جو کسی ریاست کا اہم ستون قرار دی جاتی ہے اس کا اس طرز فکر پر اظہار مسرت البتہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

تعمیری تنقید کے بغیر کسی بھی کام، کسی بھی عمل یا منصوبے کی کامیابی ممکن نہیں، تنقید کو منفی قرار دینا ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ تنقید کے بغیر کسی کام کے اچھے برے پہلو سامنے نہیں آ سکتے، کیونکہ کام کرنے والا یا منصوبہ ساز ذہن اپنے منصوبے کو پوری دلچسپی، توجہ اور قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کرتا ہے پھر بھی ایک ذہن کی تخلیق (پیداوار) ہونے کے باعث اس کی خامیوں یا کمزوریوں سے واقف نہیں ہوتا۔ جب دوسرے ذہن اسی کام کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ کام یا منصوبے کے دیگر پہلوؤں پر بھی توجہ دیتے ہیں پھر جو کمی یا زیادتی انھیں اس میں نظر آتی ہے وہ اس کا اظہار کرتے ہیں یہ اظہار بھی خلوص پر مبنی ہوتا ہے تاکہ کام کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اس کے نقائص دور کردیے جائیں اس اظہار رائے کو تنقید کہہ سکتے ہیں۔ مانا کہ کچھ لوگ تنقید برائے تنقید اور دوسروں کے کام میں غلطیاں نکالنے کے لیے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، مگر ان کے الفاظ اور زاویہ نظر سے اہل نظر، باشعور اور مثبت انداز فکر رکھنے والوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ تنقید کم اور اعتراض زیادہ ہے۔

گورنر صاحب نے ٹاک شوز کو بھی ایسی فضا میں منعقد کرنے کا کہہ کر (ان کے خیال میں یہ مثبت فضا ہے اور ہمیں ان کے خلوص نیت پر شک بھی نہیں) یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم دوسروں کے نکتہ نظر کو درخور اعتنا سمجھنے سے قاصر ہیں، اختلاف رائے کو برداشت کرنے سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔ ٹاک شوز یا اور کسی تقریب میں ہم خیال افراد بلا چوں و چرا اپنا موقف پیش کرتے رہیں یا ایک دوسرے کی ’’ہاں‘‘ میں ’’ہاں‘‘ ملاتے رہیں تو فضا تو آلود نہیں ہوتی، مگر ایسے پروگرام اختلافی نکتہ نظر کو پیش کرنے سے بھی محروم ہوتے ہیں، جو کوئی قابل تعریف بات نہیں۔ اختلاف ہونا اور پھر اس کا بھرپور اظہار ہی (اپنے اپنے انداز میں، مثبت بھی)  مہذب معاشرے کی تشکیل کا باعث ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو خود سے کمتر سمجھیں یا اختلاف کو لڑائی جھگڑے بدگوئی اور ذاتیات پر حملے کے لیے استعمال کریں۔ مہذب انداز گفتگو کے ذریعے اختلافی خیال پیش کرنا معاشرے کو ہر زاویے سے آگے بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں، ورنہ معاشرہ گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ گھٹن کسی بھی منفی صورتحال کا باعث ہوسکتی ہے۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ پوری قوم کو ایک خیال، ایک نکتہ نظر کا پابند کردیں؟ ہر انسان اپنے اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کے مطابق کسی ایک نقطہ نظر کا حامل ہوتا ہے، جس پر جو گزری ہے وہ اس کا اظہار کرے گا نہ کہ جیسا آپ چاہیں؟ جب ملک میں وسائل، تعلیم، صحت، رہائش اور طرز حیات یکساں نہ ہو (جو ہو بھی نہیں سکتا) تو یکساں انداز فکر کیسے ممکن ہے؟ ملک میں ہر وقت ہر جگہ اسلام کے نفاذ کی باتیں تو ہوں مگر اسلامی معاشرے کی تشکیل کسی کی ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ رات دن محنت کرنے والا ایک وقت کی روٹی سے محروم اور حکمران بنیادی ضروریات زندگی سے بڑھ کر پرتعیش زندگی بسر کرنے کے علاوہ بھی مزید ملک و بیرون ملک حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں تو کیا افراد قوم (محروم طبقے کو) کو اس صورتحال پر اظہار رائے کی اجازت بھی نہ ہو؟  اب تک صاحبان اقتدار کی لوٹ کھسوٹ پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ کئی وقت سے بھوکے کم عمر بچے نے بھی اگر ایک روٹی چرالی تو اس کو چور قرار دے دیا گیا، مگر حکمرانوں کی لوٹ مار پر بات کرنے کو غداری اور صاحبان اقتدار کے ملکی وقار و سالمیت کے منافی ہوں اقدامات کو طرز حکمرانی قرار دے دیا جائے۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور حکمرانوں کی اس سے لاعلمی کیا حکومت کی ناقص کارکردگی کے زمرے میں نہیں آتی؟ کیا یہ قومی جرم نہیں؟ ہاں اس سلسلے میں زبان کھولنا ضرور جرم قرار دیا جائے گا۔ 69 سال میں ملک کا جو حشر کیا گیا ہے وہ ایسے ہی انداز فکر کے باعث ہوا ہے کہ ہم بدعنوان حکام کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے لیے آسانیاں، مراعات اور بڑے بڑے عہدے بلا کسی لیاقت و اہلیت کے حاصل کر سکیں، عوام میں رات دن محنت کرکے حقیقی طور پر علوم پر دسترس رکھنے والے کسی روایتی سیاسی گھرانے سے تعلق نہ ہونے کے باعث محنت اور جذبہ حب الوطنی قابلیت و اہلیت کے باوجود بیروزگاری اور فاقوں کا شکار ہیں یا پھر  غیر ملک جاکر اپنی لیاقت سے ایک بھرپور آسودہ زندگی بسر کریں۔ لگتا ہے کہ ہمارے سارے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا یہی منصوبہ ہے کہ ہر سوچنے والے ذہن کو کبھی فکر معاش سے آزاد نہ ہونے دو کہ کہیں وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر کچھ کرکے ہمارے مقابل نہ آجائے۔ اس پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کیا جائے کہ وہ یا تو ہمارے خلاف زہر اگلنے لگے اور ہم اس کو غدار قرار دے کر پس زنداں ڈال کر اس سے نجات حاصل کرلیں، یا وہ خود ملک چھوڑ کر چلا جائے۔

گزشتہ برسوں جس کثرت سے ہمارے ہنرمند، تعلیم یافتہ افراد وطن چھوڑ کر گئے ہیں وہ دوسرے ممالک کو اپنی قابلیت سے فائدہ پہنچا رہے ہیں یہ کسی زندہ قوم کے لیے المیہ سے کم نہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ اب ملک میں روشن خیال، باہمت اختلاف رائے رکھنے والے یا تو رہے نہیں یا پھر حالات سے مجبور ہوکر گوشہ گمنامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس صورتحال سے فائدہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے والے اٹھا رہے ہیں۔ جہالت کا شکار اپنے نظریاتی اور مسلکی مخالفین کو دہشتگردی کا نشانہ بناکر دندناتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے دعوؤں کے باوجود اتنے وسائل بروئے کار لاکر بھی اب تک اس وحشت و بربریت پر قابو کیوں نہ پایا گیا؟ محض اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا ماحول پیدا نہ کرنے کے باعث۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ذرایع ابلاغ کو بھی ’’جی حضوری‘‘ کا عادی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کو راغب کیا جا رہا ہے کہ پرامن و پرسکون پروگرام پیش کرنے کے لیے صرف ایک ہی نکتہ نظر (جو یقیناً اہل اقتدار کا ہو) کو پیش کریں۔ خدا اس ملک کا حامی و ناصر رہے اور وہ وقت بھی آئے کہ ہر کوئی اپنی رائے کا برملا اظہار کرکے بھی محفوظ رہے آمین ثم آمین۔

The post مہذب معاشرہ اور اختلاف رائے appeared first on ایکسپریس اردو.

تنخواہوں کے لیے بلکتے بلدیاتی ملازمین

$
0
0

کبھی یہ گانا بڑا مشہور تھاکہ خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے، اس گانے سے مراد یہ لی جاتی تھی کہ ملازمتیں کرنے والوں کا مہینہ مکمل ہوا اور پہلی تاریخ آ گئی جس پر انھیں مہینہ بھر کی محنت کا صلہ تنخواہوں کی صورت میں ملے گا۔

ملازم پیشہ افراد کو نئے ماہ کی پہلی تاریخ کا شدید انتظاراسی لیے ہوا کرتا تھا اور تنخواہ ملنے کا دن ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کاروباری افراد کے لیے بھی خوشی کا دن ہوتا تھا جو اپنے ملازمت پیشہ مستقل گاہکوں کو مہینہ مکمل ہونے اور تنخواہ ملنے کے آسرے پر ادھار دیا کرتے تھے کہ پہلی تاریخ ہوگئی۔ اب انھیں مہینہ بھر ادھار دیے گئے سامان کا بل ملے گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اوراب تک چل رہا ہے کیونکہ صرف تنخواہ پر گزارا اور مہینہ بھر ادھار میں سامان لے کر تنخواہ کا انتظارکرنے والوں کی جائزآمدنی کا یہی حقیقی ذریعہ تھا جس کے ملنے کے بعد وہ دکانداروں کا ادھار ادا کرتے اورباقی بچ جانے والی رقم اپنے اپنے گھریلو بجٹ کے مطابق استعمال کرتے تھے۔

سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں محکمہ بلدیات کے ملازمین کے لیے گزشتہ کئی سال  سے پہلی تاریخ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، کیونکہ انھیں گزشتہ ماہ کی تنخواہ دوسرے تیسرے ہفتے میں یا اس کے بھی بعد ملتی ہے اور اندرون سندھ محکمہ بلدیات کے ماتحت مختلف اداروں کے ملازموں کو تو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتیں۔اندرون سندھ یونین کونسلوں، ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیوں میں توکیا ضلع کونسلوں،کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی، حیدرآباد اورسکھر میں بھی وقت پر تنخواہیں نہ ملنا معمول بنا ہوا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی جتنی بری حالت ہے، اتنی کسی صوبے میں نہیں ہے۔ یہ وہی بلدیاتی ادارے ہیں جو جنرل پرویز مشرف دور کی ضلع حکومتوں میں اس قدر مالی بحران کا شکار نہیں تھے جتنے اب بنا دیے گئے ہیں جو تمام کے تمام مالی بحران کا شکار ہیں۔ جن میں بعض میں مالی بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ وہ وقت پر اپنے ملازمین کو ہر ماہ باقاعدہ تنخواہ بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔

محصول چونگی پہلے ہر بلدیاتی ادارے کے پاس آمدن کا معقول ذریعہ تھا جو ہر سال ٹھیکے پر محصول چونگی کا کام دے دیا جاتا تھا جو ہر ماہ ٹھیکے کی ماہانہ مقررہ رقم اپنے بلدیاتی ادارے کو دیا کرتا تھا،جس سے ملازمین کی تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے 1979ء کے بلدیاتی نظام میں ہر ضلع کونسل کو ضلع سے باہر لے جانے والے مال پر ضلع ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس کی آمدنی سے ضلع کونسلیں اپنی یونین کونسلوں کو رقم فراہم کیا کرتی تھیں مگر 1990ء میں میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد محصول چونگی اور ضلع ٹیکس ختم کردیا تھا جس کا فائدہ دوسرے علاقوں سے مال لانے اور اپنے علاقوں سے دوسرے علاقوں میں مال بھیجنے والوں کو ہوا مگر لوگوں کو نہیں ہوا۔

وفاقی حکومت نے محصول و ضلع ٹیکس ختم ہونے کے بعد او زیڈ ٹی کے تحت بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ ہر صوبے کو مقررہ رقم بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ہر صوبائی محکمہ خزانہ اپنے صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کو بھیجتا آ رہا ہے جس میں آنے میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور محکمہ خزانہ میں بھی لاپرواہی سے چیک دیر سے بھیجے جاتے ہیں۔ او زیڈ ٹی کی رقم اور اپنی آمدن سے ہر بلدیاتی ادارہ بجٹ بنا کر ترقیاتی اورغیر ترقیاتی رقم مختص کرتا ہے۔ ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہر بلدیاتی ادارے میں غیر ترقیاتی رقم بڑھتے اور ترقیاتی رقم کم ہوتے ہوتے اور ہر جگہ ضرورت سے زیادہ بلدیاتی عملہ سیاسی مفاد کے لیے بھرتی کرتے ہوئے بلدیاتی فنڈ نہیں دیکھا جاتا اور فاضل عملہ بھرتی  کر کے ہر بلدیاتی ادارے کو یتیم خانہ بنا دیا گیا ہے جہاں سیاسی کارکن پل رہے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے رقم نہیں بچتی، جس کی وجہ سے شہریوں کے بلدیہ مسائل بڑھتے بڑھتے اب تشویشناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔

محکمہ بلدیات سندھ کے مختلف اداروں میں افسران ملازمین کے لیے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، جس پر سندھ بھر میں بلدیاتی اداروں کے ملازمین مسلسل احتجاج کرتے آرہے ہیں مگرکہیں بھی بلدیاتی ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی مختلف یونینز بروقت تنخواہ کی ادائیگی کے علاوہ خراب گاڑیوں اور مشینری کی مرمت، عملہ، صفائی اور فائربریگیڈ کے عملے کو یونیفارم ودیگر سہولتوں، پشنرزکو پنشن کی ادائیگی اور دیگر الاؤنسز دینے کے مسلسل مطالبے کر رہی ہیں اورسندھ بھر میں بلدیاتی ملازمین تنخواہ کے لیے احتجاج، دفاتر کی تالا بندی اور ہڑتالیں کرتے ہیں تو افسران انھیں یقین دہانیاں کرکے ٹرخا دیتے ہیں اور فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں ہوتا۔

محکمہ بلدیات واحد محکمہ ہے جس کے ماتحت فراہمی و نکاسی آب کے ادارے، اسپتال و ڈسپنسریاں، صوبے میں جائیدادوں کے نقشے پاس کرنے والی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے سے متعدد ملازمین انتقال کرجاتے ہیں اور پنشنرز پنشن نہ ملنے کی وجہ پنشن ملنے کے آسرے پر علاج نہ کرانے سے فوت ہوجائیں یا ان کے گھروں میں فاقے ہوں محکمہ بلدیات کو کوئی فکر نہیں نہ صوبائی حکومت بلدیاتی ملازمین کی ہر ماہ تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی  ممکن بنا رہی ہے۔

بلدیاتی اداروں میں تنخواہیں نہ ملنے سے چند ماہ قبل بلدیہ عظمیٰ کے ایک ملازم نے سوک سینٹر سے گرکرخودکشی کرلی تھی۔ گزشتہ ماہ واسا حیدرآباد کے ملازم نے تنخواہ نہ ملنے پر جان دے دی تھی اور حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ملازم نے 8 ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر خود سوزی کرلی ہے۔ چھوٹے شہروں کے بلدیاتی ملازمین پر تنخواہیں نہ ملنے سے جوگزر رہی ہے وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے مگروزیر اعلیٰ سندھ کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔

بلدیاتی ادارے وہ سرکاری ادارے ہیں جو اپنے علاقوں سے اپنی عمارتوں عوام سے وصول ہونے والے ٹیکسوں اور دیگر وسائل سے حاصل آمدنی سے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی دیتے تھے۔ تعمیری و ترقیاتی کام کرانے کے علاوہ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتے تھے جہاں عملہ محدود ہوتا تھا مگر جمہوری حکومتوں نے اپنی من مانی کے لیے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے اور سیاسی کارکنوں کو غیر ضروری طور بھرتی کرکے بلدیاتی اداروں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔ خود مختار بلدیاتی اداروں کوایڈمنسٹریٹروں کے تسلط میں دے کر حکومتوں نے برباد کرکے اپنا محتاج بنا رکھا ہے جہاں تنخواہیں نہ ملنے سے لوگ مر رہے ہیں۔

The post تنخواہوں کے لیے بلکتے بلدیاتی ملازمین appeared first on ایکسپریس اردو.

قاتل، مجرم اور بھتہ خور جیت گئے ؟

$
0
0

بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا سلسلہ اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ یہ انتخابات اُتر پردیش، گوا،منی پور، اُترکھنڈ اور مشرقی پنجاب میں ہُوئے ہیں۔ ویسے تو کئی بھارتی سیاسی جماعتوں نے اِن میں حصہ لیا ہے لیکن اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور بھوجن سماج پارٹی نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’بھوجن سماج پارٹی‘‘ کو توقعات کے بالکل برعکس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مایا وتی ایسی دھانسو سیاستدان کو شکست کے بعد کامل چُپ لگ گئی ہے۔ مودی کی پارٹی بی جے پی اور کانگریس ہی فاتح بن کر سامنے آئی ہیں۔

مشرقی پنجاب میں کانگریس(کیپٹن امریندر سنگھ کی شکل میں) اور اُتر پردیش میں بی جے پی ، کسی دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر،حکومتیں بنا چکی ہیں۔ بی جے پی تین مزید ریاستوں(اُترکھنڈ،منی پور اور گوا) میں بھی اپنی حکومتیں بناچکی ہے لیکن اُس کا یہ اقدام دراصل ہارس ٹریڈنگ اور سودے بازی کی نئی بد ترین مثال بنا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ’’راجھستان‘‘ اور آبادی کے اعتبار سے ’’اُترپردیش‘‘ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اُترپردیش کی ریاستی اسمبلی کی کُل نشستیں 403ہیںاور بی جے پی نے 312نشستوں پر فتح حاصل کی ہے۔ 47سیٹوں سے بڑھ کر 312سیٹیں جیتنا کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے؛چنانچہ مودی جی چھاتی کیوں نہ بجائیں؟

آخر ہُوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیشگوئیاں کرنے والے سارے بھارتی اور عالمی تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟اِس کا ایک جواب یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے دانستہ اور ایک خاص الیکشن سٹریٹجی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ اِنہی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروئے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔

یہ محض تعصب اور تہمت نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہُوئے نشاندہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی اسٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی، مختار انصاری، وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کاری ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ اُن میں سے بیشتر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔ بی جے پی کے پلیٹ فارم سے بھاری ووٹ لے کر ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیںجو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنہیں خصوصی پیرول پر رہا کیا گیا تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن لڑا ہے اور کامیاب ہُوا ہے۔ اُس پر تو اپنی بیوی کو بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

ترپاٹھی ’’صاحب‘‘ نے اپنے سیاسی حریف، کوشل کشور سنگھ، کو 32ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ترپاٹھی کے ماں باپ، امرمانی ترپاٹھی اور مدھمانی، بھی اس وقت جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اُن پرالزام ہے کہ اُنہوں نے اُترپردیش کی معروف شاعرہ، مدھومیتا شکلا، کو قتل کر دیا تھا۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیا نے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔وہ سابقہ دور میں صوبائی وزیر بھی رہ چکا ہے۔مختار انصاری گذشتہ بارہ سال سے قتل کے الزام میں لکھنو ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہے۔ اُس نے بھی جیل ہی سے الیکشن میں حصہ لیا ہے اور بھرپور اندازمیں جیتا ہے۔

مختار پر الزام ہے کہ اُس نے 2005ء میں ایک رکن اسمبلی، کرشنند رائے، کو قتل کر دیا تھا۔مختار پانچویں بار رکن اسمبلی بنا ہے۔’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کہلانے والے بھارت کی ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ، کو پندرہ ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہر بڑے شہر میں ہیں، بھی مہندر سنگھ کو ہرا کر ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن ، سنجو دیوی، نے چارسال پہلے اپنے شوہر، رام بابو گپتا، کو ایک گھریلو جھگڑے میں ہلاک کر ڈالا تھا۔ یہ محترمہ بھی تازہ انتخابات میں جیت گئی ہیں اور اُس نے بی جے پی کی مخصوص ’’شہرت‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔بی جے پی کی ایک اور مشہور سیاسی کارکن نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہے۔ اُس نے سماج پارٹی کے رکن، رام سیوک سنگھ، کو بیس ہزار ووٹوں سے ہرایا ہے۔

نیلم کرواریا کا شوہر، اودھے بھن کرواریا، بھی بی جے پی کا رکن ہے اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بھی لیکن آجکل وہ مظفر پور ڈسٹرکٹ جیل میں لمبی قید کاٹ رہا ہے۔بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے ہیں تو اُن کی دھرم پتنیوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیش واڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں لیکن اُن کی جگہ اُنکی بیویوں نے الیکشن لڑا ہے۔ مثلاً: سنجیو مہیشواڑی کی بیوی پائل، پریم سنگھ کی بیوی سیما سنگھ اور یادیو کی دھرم پتنی املیش یادیو نے دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا۔

اُتر پردیش میں بی جے پی کے اتنے بھاری مینڈٹ سے جیتنے کا ایک سبب ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بتایا ہے:’’ بی جے پی نے دولتمند اور طاقتور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تازہ یو پی کے انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں 80فیصد کروڑ پتی ہیں۔‘‘اُتر پردیش میں بی جے پی کے بننے والے نئے وزیر اعلیٰ(یوگی ادیتیاناتھ)پر بھی کئی قتل اور اقدامِ قتل کے سنگین الزامات ہیں۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ ملزمان اور جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مہذب دنیا میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے! حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی میڈیا نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ بھاری کامیابی کو ’’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر ‘‘ قرار دے ڈالا ہے۔

The post قاتل، مجرم اور بھتہ خور جیت گئے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی کا مستقبل

$
0
0

جن ملکوں کا حکمران طبقہ قومی اہمیت کے کاموں کودوراندیشی اورمنصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کرتا ان ملکوں میں نہ قومی مفادات پورے ہوتے ہیں نہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا آبادی اور صنعتوں کے حوالے سے سب سے بڑا شہر ہے جہاں دو کروڑ سے زیادہ عوام رہتے ہیں۔ چند لاکھ افراد کے اس شہرکی آبادی دو کروڑ تک کیسے پہنچ گئی اور اس کے نتائج آج کیا نکل رہے ہیں اور کل کیا نکلیں گے اس کی نہ ہمارے حکمرانوں کو پرواہ ہے نہ سیاستدانوں کو۔ کراچی کی آبادی میں پہلا اضافہ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے شروع ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہو گئی تھی، اس لیے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن  پاکستان بنانا پڑا یوں ہزاروں سالوں سے مل جل کر رہنے والے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ اس تقسیم کا المناک نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ملکوں میں لاکھوں غریب عوام کو مذہبی انتہا پسندی نے بھیڑبکریوں کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں 22 لاکھ مسلمانوں کو، جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ یہی حال پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کا ہوا۔

اس جانی نقصان کے علاوہ کروڑوں لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے مشرقی پنجاب سے آنے والوں نے پنجاب کو اپنا بسیرا بنا لیا اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کا رخ سندھ خصوصاً کراچی کی طرف ہو گیا اور کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کیا تحریک پاکستان کے دوران تحریک کے قائدین کو اندازہ تھا کہ تقسیم کے نتیجے میں اس قدر بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نقل مکانی ہو گی؟ انھیں، اگر یہ اندازہ ہوتا تو یقیناً دونوں ملکوں کی قیادت ممکنہ احتیاط کر لیتی، اندازے کی غلطی اور منصوبہ بندی کے فقدان کا جو نتیجہ ہوا کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ جہاں دوراندیشی اور منصوبہ بندی نہیں ہوتی وہاں اس قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندوستان سے مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں کراچی آمد کے بعد ایوب خان کے دور میں دیہی علاقوں خصوصاً پختونخوا سے روزگار کے لیے کراچی آنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی کیونکہ ایوب حکومت کو امریکا نے کولمبو منصوبے کے تحت پاکستان کو بھاری امداد کی فراہمی شروع کر دی جس کا مقصد پاکستان اور اس خطے میں سوشلزم کی مقبولیت اور پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ ایوب حکومت نے دوسرے صوبوں سے کراچی آنے والوں کی آبادکاری کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی یوں کراچی میں کچی آبادیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور کراچی مسائل کی آماجگاہ بنتا چلا گیا۔ اور پہلی بار کراچی لسانی خون خرابے کا شکار ہوا۔

اس کی وجہ بھی حکمرانوں کی سیاسی بصارت سے محرومی تھی۔1971ء میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا توکراچی کی آبادی میں ایک بار پھر بے تحاشا اضافہ ہوا، بنگلہ دیش سے لاکھوں بنگالی روزگار کی تلاش میں کراچی آنے لگے۔ اس حوالے سے بھی حکمران طبقات نے نہ دوراندیشی کا مظاہرہ کیا نہ کوئی منصوبہ بندی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں بیروزگار بنگالیوں نے کچی آبادیاں آبادکرنا شروع کیں اور شہر میں جرائم کا گراف بڑھنے لگا۔ حکمران طبقات نے نہ اس ترک وطن کو روکنے کی کوشش کی، نہ ان کی آبادکاری اور روزگارکی کوئی منصوبہ بندی کی جس کا نتیجہ افراتفری اورجرائم میں اضافے کی شکل میں سامنے آیا۔ہمارے محترم حکمران دوسرے صوبوں دوسرے ملکوں سے آنے والوں کی وجہ سے کراچی میں پیدا ہونے والے مسائل کی طرف توجہ دینے کے بجائے یہ ’’ہوشمندانہ اعلان‘‘ کرنے لگے کہ کراچی سب کا شہر ہے۔ بلکہ انتخابات میں ان آبادیوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے کراچی آنے والوں کی حمایت کرنے لگے اور یہ لوگ شہری دستاویزات، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈومیسائل وغیرہ حاصل کرتے رہے۔

کراچی کے عوام میں لسانی تفریق بڑھتی رہی اور کراچی جو ماضی میں قومی سیاست کا مرکز تھا لسانی سیاست کا محور بنتا چلا گیا اور اشرافیہ اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر لسانی سیاست کی سرپرستی کرتی رہی۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد افغانستان سے افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ افغانستان کے خون خرابے سے پریشان غریب افغانی عوام کراچی میں روزگارکی تلاش میں آتے رہے اور جگہ جگہ افغان بستیاں آباد ہونے لگیں۔ غریب افغان عوام اپنی کچی بستیوں میں محنت مزدوری کر کے زندگی گزارنے لگے۔ روزگار سے محروم لوگ جرائم میں ملوث ہوتے چلے گئے یوں کراچی میں جرائم کا گراف تیزی سے بڑھنے لگا۔ جو لوگ منشیات اور اسلحے جیسے ناجائز کاروبار میں ملوث تھے انھوں نے کراچی میں جائیدادیں خریدنا شروع کیا اور تجارت وکاروبار میں اس حد تک آگے آ گئے کہ کئی علاقوں میں کاروبار پر قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس صورتحال سے لاتعلق سیاست اور سیاست کے ثمرات سمیٹنے میں مصروف ہے۔

غریب عوام خواہ وہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین ہوں یا ایوب خان کے دور سے کراچی آنے والے پختون ہوں 1971ء میں آنے والے بنگالی یا افغانستان سے آنے والے افغان یہ سب روزگارکی تلاش میں کراچی آ رہے ہیں، یوں اہل کراچی کے لیے کراچی میں حصول روزگار ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ پھر ہمارے سیاسی کلچر کی وجہ سے معمولی پڑھے لکھے لوگ گریڈ 19,18,17 تک پہنچ گئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دھکے کھا رہے ہیں۔ اہل کراچی اور باہر سے آنے والوں میں تضادات بڑھ رہے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے حکمران ان تضادات سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کیونکہ یہ ان کے سیاسی مفادات کا تقاضا ہے۔ لیکن خدانخواستہ یہ تضادات بڑھتے ہیں اور عوام کھڑے ہو جاتے ہیں تو نقصان غریب عوام ہی کا ہو گا خواہ وہ کوئی زبان بولنے والے ہوں اشرافیہ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ عوام کے ان تضادات سے ان کی حکمرانی اور مضبوط ہو گی۔

The post کراچی کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.

اردو زبان میں اردو کی مخالفت

$
0
0

آرٹس کونسل آف پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو گزشتہ دس برسوں سے اردو کانفرنس کا باقاعدگی سے انعقاد کررہی ہے اور نفاذ اردو کے لیے کوشاں ہے۔ کیونکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے علاوہ فاٹا سے ضلع چاغی، دالبندین تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ اس لیے اس کو ہم پاکستان کی زنجیر بھی قرار دے سکتے ہیں۔

1970ء کے انتخابات کے بعد ایک طویل سیاسی کشمکش کے خاتمے کی صورت میں نیشنل عوامی پارٹی نے کے پی کے (سابق فرنٹیئر) اور بلوچستان میں حکومت بنائی اور خصوصاً غوث بخش بزنجو جو بلوچستان کے گورنر تھے، بڑے غور و فکر کے بعد انھوں نے بلوچستان میں اردو زبان کی سرپرستی کی، بلوچستان یونیورسٹی میں خصوصیت کے ساتھ شعبہ اردو قائم کیا اور انھوں نے ایسا کیوں کیا یہ بات میرے سامنے کی ہے۔ جب میر غوث بخش بزنجو بی ایم کٹی کے ہمراہ والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین کے پاس تشریف لائے اور اس شعبے کی سرپرستی اور فروغ کے لیے ان کو عہدہ فراہم کیا۔

اردو زبان کی ترقی اور ترویج میں آج کل آرٹس کونسل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، یہاں ملک اور بیرون ملک کے دانشور، ادیب و شاعر جمع ہوتے ہیں اور ماضی اور عصر حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس بار بھی نئے سال کی آمد سے قبل یہ سیمینار اور پروگرام ہوئے اور انشاء اﷲ ہوتے رہیںگے، کیونکہ صدر آرٹس کونسل کو اردو زبان اور اردو ادب کا پورا ادراک ہے۔ مگر گزشتہ اتوار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی کتاب ’’انویزیبل پیپل‘‘(Invisible People) کی رونمائی کی گئی، جس پر سینیٹر حاصل بزنجو، صوبائی وزیر نثار کھوڑو، نثار میمن، مجاہد بریلوی، زاہدہ حنا اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ کتاب بمشکل 150 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 700 روپے کے لگ بھگ ہے، جو انگریزی زبان میں تحریر ہے۔

مجھے مقررین کی گفتگو کو زیر بحث نہیں لانا ہے، کیونکہ وہ تو آئے ہی تھے پذیرائی کی خاطر۔ لہٰذا گفتگو کا محور صاحب کتاب کے ارشادات جو انھوں نے اس بزم میں ادا کیے۔ صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ انھوں نے اردو میں اس لیے کتاب نہ لکھی کیونکہ اردو ان کی کمزور ہے، ورنہ تو گویا وہ ضرور لکھتے۔ مگر اردو پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے بنگالی کا ذکر کیا اور قائداعظمؒ محمد علی جناح کا نام لیے بغیر انھوں نے اس تقریر پر تبصرہ کیا جس میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی، جس پر ایک نوجوان نے احتجاج کیا تھا اس کا نام نہ لیا، اور مزید کہتے ہیں اردو علاقائی زبان پر تھوپی گئی ہے، گویا ایک سامراجی زبان کی طرح لوگوں پر نافذ کردی گئی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس کے متبادل کے طور پر بتائیں کہ کس مقامی زبان کو رائج کریں جو موجودہ پاکستان کے باسیوں کو قبول ہو۔ شاید چیئرمین یہ بھول گئے کہ اردو پہلے بھارت بدر کی کوشش ہوئی چونکہ پاکستان بننے کی جدوجہد میں اردو زبان کو نعرہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

لیکن اردو کوئی سامراجی زبان نہیں جو بندوق کی نوک پر نافذ کی گئی ہے، یہ عوام اور انقلابی گیتوں کی زبان ہے جیسا کہ تلنگانہ (حیدرآباد دکن میں) مخدوم محی الدین نے انقلاب کی آواز دی تھی۔ چند بول اس نظم کے:

یہ جنگ ہے جنگ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

اس دیس کے رہنے والوں کی

مزدوروں کی، دہقانوں کی

سندھ میں حیدر بخش جتوئی کو کوئی زبان کی پریشانی نہ تھی، انھوں نے ہاری حق دار کا نعرہ لگایا۔ زبان اور کلچر کی بات تو اس لیے کی جاتی ہے کہ لسانی تقسیم سے مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور فروعات کی جنگ میں عوام کو مصروف رکھا جاتا ہے، جیساکہ آج پاکستان میں عصبیت کی ہوا چل رہی ہے۔ جب کہ عجیب تضاد ان کی گفتگو میں تھا۔ اردو زبان کے کردار کو مقامی کلچر یا پاکستانی کلچر کے خلاف قرار دینا، تو بھائی کس نے روکا ہے مقامی کلچر کو۔

آپ آرٹس کونسل میں یہ فرماتے رہے کہ فیض یا جالب کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ بھائی فیض اور جالب اردو زبان کے شاعر تھے۔ اردو زبان میں گل خاں نصیر نے شاعری کی، عطا شاد نے کی اور بلوچی زبان میں بھی کی۔ اگر آپ کو اردو زبان سے اتنا ہی دور رکھنا تھا تو آپ اس ابلاغ میں بھی کوئی مقامی زبان استعمال کرتے تاکہ پاکستانی کلچر کا خواب جو آپ نے دیکھا تھا وہ پورا ہوجاتا۔ بعض سیاسی لیڈروں کو اس قسم کے دورے پڑتے ہیں کہ وہ اردو زبان میں گفتگو نہیں کرتے، مگر ابلاغ سے مجبور ہوکر پھر کرنے لگتے ہیں۔ اردو زبان کو زور دستوں کی زبان نہیں قرار دینا چاہیے۔

کئی برس تک بھارتی آر ایس ایس نے اردو دشمنی کی، مگر اب مجبور ہوکر بھارت میں سالانہ اردو اکیڈمی کو کروڑوں روپے کی امداد دی جا رہی ہے اور اب بھارت میں اردو کے شاعر و ادیب مفلوک الحال نہیں۔ بھارت کی فلم انڈسٹری بھارتی سرمائے کا 30 فیصد پیدا کرتی ہے جو اردو زبان کی فلمیں اور گانے کماکر ان کو دیتے ہیں، مگر قانون کو لگام دینے کے لیے اس کو ہندی فلم کا نام دیتے ہیں۔ اب تو جلد یا بدیر گلوبل کلچر وجود میں آنے کو ہے، ہر گاؤں گوٹھ کو عالم دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد مصنف فرماتے ہیں کہ ضیا الحق نے طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین کو اپنے احکامات کے ذریعے پابند کردیا۔ تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ تو سیاست میں کوئی نو وارد نہیں، سینیٹ میں 1992-93 سے کسی نہ کسی مقام پر یا حکومتی اداروں میں آپ کا وجود رہا۔ آپ کوآپریٹو سوسائٹی کے ایک بلند پایہ رکن رہے، حاکم تھے تو آپ نے عوام کے ساتھ کس درجہ رحم کیا۔ کتنے عرصے سے جمہوریت کی چرخی گھوم رہی ہے مگر طلبہ یونین کیونکر آزاد نہ ہوئیں؟ مزدور یونینوں کا کیا حال ہے؟ ہر چیز ٹھیکے پر، کلچر گزشتہ دس برسوں سے زوروں پر ہے۔ کراچی شہر صفائی ستھرائی سے محروم ہوگیا۔

آپ نے معراج محمد خان کو خراج تحسین پیش کیا۔ راقم نے بھی مارشل لا کے خلاف قربانی دی اور عوامی تحریکوں کی حمایت ہمیشہ کی مگر اس روز احتراماً کہ جلسہ گاہ پر برا اثر نہ پڑے خاموش رہا کہ اب آپ کراچی میں ایک مہمان کی طرح آتے ہیں اور آپ کو کم از کم غریبوں کی خستہ حالی پر رحم تو آتا ہے، جب کہ رفتہ رفتہ یہ رجحانات سیاست کی دہلیز سے رخصت ہورہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تو سیاست کی بساط ہی الٹ گئی اور اب تو عوامی تحریکوں کے بجائے زر کثیر کی دوڑ شروع ہے۔

آنے والے وقت کا کسی پارٹی کا نہ کوئی منشور ہے اور نہ کوئی پروگرام۔ عوام کو غیر ضروری مباحثوں میں الجھادیا گیا ہے۔ کم از کم آپ نے، (جو لوگ پرتکلف ایوانوں میں رہائش پذیر ہیں وہ غریبوں کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے،) آپ نے ان لوگوں کے نام لے کر ماضی کے کراچی میں قربانی دینے والوں کو یاد تو کیا۔ ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ رضا ربانی  نے کیا وہ کافی ہاؤس یا ٹی ہاؤس کلچر کا، دراصل یہ کلچر کلاشنکوف کلچر کی آمد کی وجہ سے جاتا رہا۔ اس کا ایک اور پہلو جو براہ راست نہیں، وہ بالواسطہ پہلو ہے، طلبہ یونین کا خاتمہ خود مباحثوں کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے پیدا ہوا اور ملک میں گولی کی سیاست نے مباحثوں کو ختم کیا اور اب کافی ہاؤس انٹرنیٹ، فیس بک وغیرہ پر کسی اور شکل میں موجود ہیں۔

اس کلچر کو زندہ کرنے کے لیے مباحثوں، مذاکروں کا انعقاد ضروری ہوگیا ہے۔ گفتگو اور مباحثے کے اختتام پر مجھے صاحب کتاب سے یہ عرض کرنا ہے کہ فیض یا جالب یا مباحثہ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ایسے ذی ہوش اور با عمل افراد کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا کرنا ہوگا اور موجودہ ٹی وی کلچر کو باعمل سیاست کے ترقی پسندانہ رویہ کی افزائش اور ذات کے خول کو توڑ کر دوسروں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کی اجتماعی جدوجہد اور حق دار کو اس کا حق ملنا ضروری ہے، ورنہ فساد کی بنیاد اور اس کی پیداوار کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔ دنیا میں بدلتی تہذیب و ثقافت کے ساتھ سیاست کو بھی چلنا ہوگا، کسی زبان اور کلچر کو استحصال کا ذریعہ قرار دینا حقائق سے فرار کے مترادف ہے۔ اور آخر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات میں اردو زبان کا کوئی نکتہ نہ تھا، آج بھی بنگلہ دیش کے اردو زبان کے ادبا اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے بنگلا دیش سے آتے ہیں۔

The post اردو زبان میں اردو کی مخالفت appeared first on ایکسپریس اردو.

پھر وہیں، جہاں سے چلے تھے

$
0
0

ہم واپس وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو دوبارہ بنانے اور مقابلے میں وہاں رام مندر کی تعمیر کا دعویٰ کرنے والے دونوں فریقین کو اپنے فیصلے میں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس نصیحت کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ بھارت کے چیف جسٹس نے ماورائے عدالت مصالحت کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔

انھوں نے کہا فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت مصالحت کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ جذبات کا مسئلہ ہے اور وہ درمیان میں سے ہٹ کر اپنے ساتھی جج حضرات کو اس کے حل کے لیے پیش کر سکتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ’جج حضرات‘ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی متنازعہ مسئلے میں ملوث نہیں ہونگے۔ ایسی صورت میں بھلا وہ مصالحتی کردار کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟ یوگی ادتیاناتھ جو کہ کٹر ہندوؤں میں ایک بہت نمایاں مقام رکھتا ہے اور جسے اترپردیش کی قانون ساز پارٹی کا بھاری اکثریت سے رکن منتخب ہونے کے بعد صوبے کا وزیراعلیٰ بنانے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

اس یوگی کی کامیابی میں وزیراعظم نریندر مودی کا کتنا ہاتھ ہے اور کتنی کامیابی یوگی نے خود اپنے طور پر سمیٹی ہے لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ہندوتوا کی پالیسی پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس بھی اس کے پیچھے ہے۔ ماضی میں آر ایس ایس ہمیشہ ایسے حالات میں منظرعام سے دور رہا کرتی تھی لیکن اب وہ ہندو اکثریت کے حوالے سے اسقدر پراعتماد ہو گئی ہے کہ بآسانی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ عملی طور پر بی جے پی نے یوپی کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے ہیں اور اب یہ جماعت 2019ء میں ہونیوالے لوک سبھا کے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔ بی جے پی کے سربراہ موہن بھگوت نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ لوک سبھا کے آیندہ انتخابات کی بھرپور تیاری کریں۔حال ہی میں اسمبلی کے انتخابات میں آر ایس ایس کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیوں نے مقابلے کے لیے اتحاد کر لیا تھا لہٰذا اگر پھر ویسے ہی ہوا تو ان کی کامیابی مشکل ہو جائے گی۔

اس حوالے سے آر ایس ایس جانتی ہے کہ اگر بی جے پی یو پی میں 42 فیصد ووٹ حاصل کر سکتی ہے تو ان کے خلاف اتحاد کرنے والی پارٹیاں 55 فیصد ووٹ حاصل کر سکیں گی۔ اگر ان کو گیروے لباس والوں سے زیادہ خوف محسوس ہوا تو وہ اپنے اختلافات ختم کر کے اور زیادہ مضبوط اتحاد بنا لیں گی۔ جیسا کہ ممتاز قانون دان نانی پلکھی والا نے کہا کہ جب گھر کو آگ لگ جائے تو آپ یہ نہیں سوچتے کہ ڈرائنگ روم کو بچایا جائے یا ڈائننگ روم کو۔ آپ پورا گھر بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کا اشارہ جن سنگھ کی طرف سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے خطرے کی طرف تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنتا پارٹی جس میں کہ زیادہ تر لوگ جن سنگھ کے ہی شامل ہیں وہ 1977ء میں مرکز میں اقتدار میں آ گئی لیکن اس موقع پر جو متنازعہ نکتہ تھا وہ یہ تھا کہ آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم کر لیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔ بہرحال جن سنگھ کے عناصر جو اب حکمران جماعت میں شامل ہیں انھوں نے آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات قطع کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ایل کے ایڈوانی نے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایک الگ پارٹی کی بنیاد رکھ دی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی۔ پارٹی کے آزاد خیال عناصر نے جن میں اٹل بہاری واجپائی نمایاں ہیں، جنتا پارٹی چھوڑ دی۔

یہ ایک حساب سے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی میں کٹر‘ متعصب عناصر شامل نہیں تھے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سیکولر ازم نے ملک میں گہری جڑیں نہیں پکڑیں۔ حالانکہ سیکولر ازم کا نظریہ ملک کے آئین کے دیباچے میں شامل کیا گیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ فی زمانہ اس کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ ہندوتوا کا پرچار کرنے والے عناصر نے جیسے  بتدریج پورے ملک میں غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ ہندوتوا کیرالہ میں بھی پھیل رہا ہے جہاں بی جے پی کو پہلی کامیابی ملی ہے۔اس نے درجن بھر سے زیادہ ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی جو کہ سیکولر نظریے کی حامی ہے اب ان ریاستوں میں اس کی حیثیت ختم ہو رہی ہے جہاں پر کہ پہلے اس کا اقتدار تھا۔ حتیٰ کہ علاقائی پارٹیاں بھی اپنی حیثیت کھو رہی ہیں جیسا کہ یو پی میں ہوا ہے ظاہر ہے کہ بی جے پی نے زیادہ تر لوگوں کے ذہن کو متاثر کر دیا ہے۔

راجیہ سبھا کے انتخابات میں کامیابی نے بی جے پی کی پوزیشن اور زیادہ مستحکم کر دی ہے۔ گجرات اور ہماچل پردیش کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے صاف پتہ چل جائے گا کہ لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہو گئی ہے یا نہیں۔ بہرحال مستقبل کا نقشہ ابھی پوری طرح واضح نہیں ہے۔ رام مندر کا مسئلہ مستقبل کی منظر کشی واضح کرے گا اور ملک میں تقسیم در تقسیم پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ یوگی ادتیاناتھ نے مودی کے ان الفاظ کا اعادہ کیا ہے ’’سب کا ساتھ سب کا ویکاس‘‘ یہ جملہ اجتماعیت کی نشاندہی کرتا ہے لیکن پارٹی کا بنیادی ایجنڈا راتوں رات نہیں بدل سکتا۔ ایودھیا میں رام مندر کا مسئلہ جلد یا بدیر کھڑا ہونے کو ہے۔ اگر ہر لحاظ سے طاقتور یوگی کو بی جے پی کی ہائی کمان نے فی الواقعی ریاست کا وزیراعلیٰ بنانے کی منظوری دیدی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی نیت ہندوتوا کی ترویج کے حوالے سے واضح ہے۔

جہاں تک بابری مسجد اور رام مندر کے تنازعے کا تعلق ہے تو اس میں عدالت کوئی واضح فیصلہ نہیں دے سکتی کیونکہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے ماورائے عدالت مصالحت کرانے کی پیش کش کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1986ء کے بعد سے کئی حکومتوں نے یہ مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی لیکن دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں چنانچہ ان حالات میں چیف جسٹس کی کوشش بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں تک چیف جسٹس کی پیش کش کا تعلق ہے بی جے پی کے علاوہ کسی اور سیاسی پارٹی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ایسے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی اس مسئلے کے حل کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ طویل عرصے سے پیدا ہونے والا یہ مسئلہ کسی فوری حل کا متقاضی ہے جس سے دونوں فریق مطمئن ہو سکیں لیکن مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔          (ترجمہ: مظہر منہاس)

The post پھر وہیں، جہاں سے چلے تھے appeared first on ایکسپریس اردو.


وہ ملک جس نے سود ختم کردیا

$
0
0

سود کی حمایت اور سودی بینکاری کو آج کے جدید دور کی اہم ترین ضرورت کے طور پر پیش کرنے والے سیاسی پنڈت اور سود خور بینکار گزشتہ ایک سو سال سے سود کی مخالفت کرنے والوں سے ایک ہی سوال کرتے چلے آئے ہیں کہ اس سودی بینکاری کے نظام کا متبادل کیا ہے۔ یہ تو ایک عالمی معیشت کو چلانے کا طریق کار ہے۔ اگر اس نظام کو بغیر کسی متبادل کے ختم کردیا گیا تو پوری دنیا کی صنعت و تجارت کا پہیہ رک جائے گا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دانشوروں سے پلٹ کر کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ یکم جولائی 1944ء سے 22 جولائی 1944ء تک امریکا کے شہر برٹن ووڈ Bretton Wood کے ماؤنٹ واشنگٹن ہوٹل میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نتیجے میں برٹن ووڈ معاہدے سے پہلے یہ عالمی معیشت کیسے چل رہی تھی۔ یہ کانفرنس اس وقت منعقد کی گئی جب اتحادی افواج نے نارمنڈی فتح کرلیا اور اب یہ معلوم ہوگیا کہ ہٹلر اور اس کے اتحادی شکست کھاچکے۔ ایسے میں دنیا کو سودی بینکاری کے شکنجے میں جکڑنے کے لیے چوالیس اتحادی ممالک کے سات سو تیس نمایندے یہاں جمع ہوئے‘ جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا پر ایک نیا عالمی مالیاتی اور اقتصادی نظام International Monetary and Financial order کیسے مسلط کیا جائے۔

اس کے لیے یہ معاہدہ ترتیب دیا گیا۔ دنیا پر مسلط کیے گئے اس عالمی معاہدے کے تحت ایک بینک قائم کیا گیا جسے عالمی اقتصادی امور میں تصفیہ کا اختیار دیا گیا جس کا نام ”Bank of International Settlement” رکھا گیا۔ کاغذ کی جعلی کرنسی کو ہر ملک کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہر ملک ایک خوبصورت کاغذ پر ایک شاندار چھپائی کے ساتھ ایک تصویر چھاپے اور اس پر ایک مالیت لکھ دے۔ وہی کاغذ ایک روپے سے پانچ ہزار روپے کی مالیت کا بن جاتا ہے۔ یہ تو ہر ملک میں لازمی قرار دیا گیا لیکن عالمی منڈی میں کسی ملک کے اس جعلی کاغذ کی کتنی قیمت ہے اس کا اختیار اس بینک کو دے دیا گیا۔ جسے شرح تبادلہ Exchange Rate کہا گیا۔

اصول یہ تھا کہ جس ملک کے پاس جتنا سونا ہوگا وہ اتنے نوٹ چھاپے گا۔ یعنی یہاں تک تو اس نظام میں یہ حقیقت تھی کہ ان کاغذوں پر جو قیمت لکھی ہوئی ہے اس کے برابر سونا حکومت کے پاس موجود ہے۔ لیکن پہلے دن سے ہی اس نظام میں جھوٹ اور فریب کی گنجائش رکھی گئی اور اس فراڈ کو بھی عالمی قانون کا حصہ بنایا گیا۔ یعنی اگر ایک ملک اپنے پاس موجود سونے کے ذخائر سے زیادہ مالیت کے یہ جعلی کاغذ یعنی کرنسی نوٹ جاری کرتا ہے تو وہ دھوکا اور فراڈ نہیں ہے بلکہ یہ افراط زر Inflation ہے۔ کیا فریب کاری ہے کہ وہ کاغذ جن کی بذات خود کوئی مالیت نہیں ان کی بہتات کو دولت کی بہتات یعنی افراط کہا گیا۔ لیکن صرف 27 سال تک ان تمام ممالک نے اس جھوٹ اور فریب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنے کرنسی نوٹ چھاپ دیے تھے کہ اگر دنیا کا کوئی ملک اپنے پاس موجود کرنسی کے کاغذوں کے بدلے سونے کا مطالبہ کرتا تو وہ دے نہیں سکتا تھا۔

ایسا ہی مطالبہ فرانس کے صدر ڈیگال نے امریکا کے صدر نکسن سے کردیا۔ ایک دم جواب آیا، تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ تصور اور معاہدہ اس لیے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا کہ ہم ان کاغذوں کے بدلے سونا واپس کریں۔ فوراً ایک اور معاہدہ کیا گیا کہ اب ان کرنسی نوٹوں کے بدلے سونا رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بینک جو تصفیہ کے لیے بنایا گیا ہے وہ بتائے گا کہ کس کرنسی کی مالیت کتنی ہے اور وہ سونے کے ذخائر کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نیا لفظ نکالا گیا ”Good Will” یعنی اس ملک کی دکان کتنی چلتی ہے۔ عموماً روزمرہ میں ہم اس کا ترجمہ ’’پگڑی‘‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ یعنی اس دکان میں کتنا مال روزانہ بکتا اور نیا آتا ہے۔ کتنی فصلیں، کارخانے اور کاروباری ادارے ملک میں کتنی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔ یہ بتائیں گے کہ اس ملک کے نوٹوں کی قیمت کیا ہے۔ یوں اس بینک کو جو اختیار ملا تھا اس نے ثابت کیا کہ اس سے دنیا بھر کے سود خور کس طرح اس عالمی سیاسی معاشی نظام کے ذریعے اپنی دھونس مسلط کرتے ہیں۔ نائیجیریا کے پاس سعودی عرب سے زیادہ تیل ہے۔ اس کی کرنسی کی قیمت کمزور اور آئس لینڈ جہاں گھاس بھی ڈھنگ سے نہیں اگتی، اس کی کرنسی مضبوط۔

سودی بینکاری کے وکیلوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ صرف 73 سال پہلے جب کاغذ کے نوٹوں کو عالمی حیثیت حاصل نہ تھی۔ سونے اور چاندی کے سکے چلتے تھے۔ ایسے سکے جو اپنے اندر اپنی قیمت رکھتے تھے تو کیا اس وقت عالمی معیشت اور تجارت نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت تک آج کی جدید صنعت کی اکثر چیزیں ریل، کار، جہاز وغیرہ ایجاد ہوچکے تھے، دنیا دو جنگیں بھی لڑچکی تھی۔ عالمی منڈی بھی موجود تھی اور اس عالمی منڈی کے مقابلے میں دنیا میں ایک بہت بڑا بلاک موجود تھا جسے کمیونسٹ دنیا کہتے تھے۔

جب روس میں 1917ء میں بالشویک انقلاب آیا تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام سودی بینکاری کو ختم کردیا اور ان کا غیر سودی بینکاری نظام 75 سال تک چلتا رہا۔ لیکن جب ان ’’عظیم‘‘ سیکولر، لبرل اور کارپوریٹ دنیا کے پروردہ، دانشوروں کو قرآن کی یہ آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جن میں کہا گیا ہے ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کی حالت ایسے ہے جیسے شیطان نے انھیں چھو کر باؤلا کردیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بیع (کاروبار) بھی تو سود کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ (البقرہ 275) پھر فرمایا ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے (البقرہ 279)

اس اعلان جنگ کے بعد بھی دنیا بھر میں بسنے والے یہ مسلمان ان کمیونسٹوں جتنی غیرت بھی نہیں رکھتے تھے کہ اپنا نظام معیشت خود ترتیب دے دیتے۔ پاکستان کی تو حالت ہی عجیب ہے کہ یہاں 1999ء میں سپریم کورٹ کا فل بینچ سودی بینکاری کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو سب کے سب اس کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی پوچھتا پھرتا ہے کہ کوئی متبادل ہے، بتاؤ ہم اپنی معیشت کیسے چلائیں۔

کس قدر متعصب ہیں یہ سود کے حمایت میں لکھنے اور سوچنے والے کہ جب 2008ء میں دنیا بھر میں مالیاتی بحران ہوا تو تمام ممالک کے بینکوں نے سود مکمل طور پر ختم کردیا۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اس امید پر زندہ رہ رہے ہیں کہ ایک دن دنیا بحران سے نکلے گی تو سود پھر واپس آجائے گا۔ لیکن جاپان ایک ایسا ملک ہے جس نے گزشتہ ایک سال سے تمام بینکوں سے سود کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا ہے۔ اگر آپ کسی بھی بینک میں اپنے پیسے رکھیں گے تو وہ الٹا آپ سے آپ کے سرمایہ کی حفاظت کے لیے پیسے لے گا۔ کس قدر بدنصیب ہیں یہ لوگ وہ جاپان کے اس نظام کو غیر سودی نظام نہیں کہہ رہے بلکہ اسے دنیا کے سودی معیشت کے علمبردار ”negative Interest” منفی سود کہتے ہیں۔ یہ جاپان کی معیشت کا ایسا روپ ہے کہ لوگ اب بینکوں میں پیسے ہی نہیں رکھتے۔ گزشتہ سال جاپان میں 103 ہزار ارب ین کی اشیاء لوگوں نے کیش پر خریدیں۔

اس میں کاریں، جہاز اور بڑی بڑی اشیاء بھی شامل تھیں۔ سیکی سوئی Seki Sui کمپنی لوگوں کو گھر بنا کر بیچتی ہے۔ اس نے دو لاکھ ملین ین کے گھر بنائے جو جدید ترین تھے، نہ بنانے کے لیے بینک سے قرضہ لیا نہ اکاؤنٹ کھولا اور نہ ہی لوگوں نے خریدنے کے لیے اسے چیک دیے بلکہ نقد ادائیگی کی۔ گزشتہ سال اشیائے صرف کی قیمتیں اتنی گری ہیں کہ ٹوکیو اب مہنگے کے بجائے سستے شہروں میں گنا جانے لگا ہے۔

جاپان کے حکومتی بینک نے تاریخ میں پہلی دفعہ دسمبر 1995ء میں صفر سودی پالیسی Zero Interest Rate Policy نافذ کی تھی اور حکومتی سطح پر سود ختم کردیا تھا اور اب اس ملک کے پرائیویٹ بینکوں نے بھی سود کو خیرآباد کہہ دیا۔ جاپان کی ترقی کودیکھتے ہوئے یورپی سینٹرل بینک Europeon Central Bank نے 18 ماہ قبل حکومتی سطح پر منفی شرح سود کا آغاز کیا ہے، دیکھیں وہاں کے کمرشل بینک کب صفر سے منفی پہ آتے ہیں اور بینک بھی سرمایہ رکھنے پر کٹوتی کرنے لگیں گے۔ یہ جاپان ہے جس میں آڈیو کیسٹ سے لے کر کاروں، ٹرکوں، بلڈوزروں، کمپیوٹروں اور شاید ہر قسم کی مصنوعات کے کارخانے پوری دنیا کو مصنوعات بیچتے ہیں وہ بینکوں سے آزاد ہیں اور سود سے مبرا۔ جاپان کا نظام معیشت سود سے پاک ہوچکا ہے اور یہ دنیا سے الگ بھی۔

The post وہ ملک جس نے سود ختم کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.

جھوٹ اور سچ کا فیصلہ

$
0
0

’’جنرل پرویز مشرف 2007ء میں میرے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے تھے‘ مجھے بالواسطہ پیغام بھجوایا گیا لیکن میں نے انڈر ہینڈ ڈیل کرنے سے انکار کر دیا‘ آج آپ مکافات عمل دیکھئے‘ ہم یہاں اپنے ملک میں بیٹھے ہیں اور جنرل پرویز مشرف چاہنے کے باوجود پاکستان نہیں آ سکتے‘‘یہ میاں نواز شریف کے الفاظ ہیں‘ یہ انکشاف وزیراعظم نے 21 مارچ کو پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کے دوران کیا‘ یہ انکشاف منگل اور بدھ دو دن خبروں کا موضوع رہا‘ ٹاک شو بھی ہوئے۔

تبصرے بھی ہوئے اور یہ اگلے دن کے اخبارات کی شہ سرخی بھی بنا‘ جنرل پرویز مشرف نے بدھ کی رات وسیم بادامی کے پروگرام میں اس انکشاف کو سفید جھوٹ قرار دے دیا‘ اس کے بعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی جھوٹ کون بول رہا ہے اور سچ کون کہہ رہا ہے‘ یہ فیصلہ میری ذمے داری نہیں‘ تاہم میں کچھ واقعات عوام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ یہ واقعات بے شمار حقائق کی پرتیں کھول دیں گے اور آپ سچ اور جھوٹ کے تعین کے قابل ہو جائیں گے‘ ان حقائق کے زیادہ تر گواہ  زندہ ہیں‘ آپ ان سے ان حقائق کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

ہم پہلے 12 اکتوبر 1999ء میں جاتے ہیں‘ فوج نے 12 اکتوبر کی سہ پہر وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیا‘ شریف برادران گرفتار ہو گئے‘ حکومت ختم ہو گئی‘ ملک میں ایمرجنسی لگ گئی‘ وزیراعظم کو اسی رات کور ہیڈکوارٹر راولپنڈی کے میس میں شفٹ کر دیا گیا تھا‘ یہ ایک کمرے میں نظر بند ہو گئے‘ رات کے وقت جنرل محمود (یہ اس وقت دس کور کے کمانڈر تھے‘ یہ بعد ازاں آئی ایس آئی کے ڈی جی بنا دیے گئے)‘جنرل علی محمد جان اورکزئی (یہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تھے‘ یہ بعد ازاں صوبہ سرحد کے گورنر بنا دیے گئے) اور جنرل احسان الحق (یہ اس وقت ملٹری انٹیلی جنس کے ڈی جی تھے۔

یہ بعد ازاں ڈی جی آئی ایس آئی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنے) یہ تینوں جنرل وزیراعظم کے کمرے میں آئے اور ایک ٹائپ شدہ کاغذ ان کے سامنے رکھ دیا‘ وزیراعظم نے کاغذ پڑھنا شروع کر دیا‘ کاغذ پر لکھا تھا‘ میں بطور وزیراعظم قومی اسمبلی توڑنے اور حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں‘ وزیراعظم نے کاغذ میز پر رکھ دیا‘ جنرلز وزیراعظم سے کاغذ پر دستخط کرانا چاہتے تھے‘ نواز شریف نے انکار کر دیا‘ جنرل محمود نے پہلے انھیں پیار سے سمجھایا‘ پھر دھمکی دی‘ پھر بدتمیزی کی اور پھر پیار سے سمجھایا‘ جنرل محمود نے میاں صاحب کو پیشکش کی آپ اس کاغذ پر دستخط کریں اور آپ اپنے خاندان کے ساتھ جہاں چاہیں وہاں چلے جائیں۔

وزیراعظم نے یہ آفر سن کر ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ کہا اور اپنی پشت کرسی کے ساتھ لگا لی‘ جنرل ناراض ہو کر چلے گئے‘ یہ ڈیل کی پہلی کوشش تھی‘ میاں نواز شریف کو مہینے بعد میس سے گورنر ہاؤس مری شفٹ کر دیا گیا‘ یہ وہاں چار ماہ قید تنہائی میں رہے‘ یہ اس دوران اپنے خاندان کی سلامتی تک سے آگاہ نہیں تھے‘ یہ وہی قید تنہائی تھی جس کے دوران ایک دن انھیں اپنے بڑے صاحبزادے حسین نواز کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ انھیں زندہ سلامت جان کر خوشی سے رو پڑے‘ جنرل محمود کا خیال تھا یہ قید تنہائی میاں نواز شریف کو نرم کر دے گی اور یہ ان کی شرائط مان کر ان کی جان چھوڑ دیں گے‘ چار ماہ کی قید تنہائی کے بعد میاں نواز شریف کو خصوصی طیارے میں اسلام آباد سے کراچی روانہ کر دیا گیا‘ جنرل محمود بھی طیارے میں میاں صاحب کے ساتھ تھے‘ وزیراعظم کو سینڈوچ اور کافی پیش کی گئی‘ جنرل محمود اور نواز شریف سفر کے دوران آمنے سامنے بیٹھے رہے‘ جنرل محمود کا خیال تھا میاں نواز شریف گفتگو اسٹارٹ کریں گے اور یوں ڈائیلاگ شروع ہو جائے گا لیکن میاں نواز شریف سارا راستہ خاموش بیٹھے رہے‘ وزیراعظم کو کراچی میں لانڈھی جیل میں بند کر دیا گیا یوں ڈیل کا دوسرا موقع بھی ضایع ہو گیا۔

میاں نواز شریف کو خاندان سمیت سعودی عرب بھجوانے کا آئیڈیا شوکت عزیز کا تھا‘ یہ 30 سال سٹی بینک کی اعلیٰ ترین پوزیشنز پر تعینات رہے تھے‘ ان کے عرب دنیا کے تمام امراء‘ شاہی خاندانوں اور بزنس کمیونٹی سے قریبی تعلقات تھے‘ یہ نومبر 1999ء میں جنرل مشرف کے وزیر خزانہ بن گئے‘ پاکستان کا خزانہ اس وقت خالی تھا‘ شوکت عزیز نے جنرل پرویز مشرف کو سمجھایا ہم میاں نواز شریف کو سعودی عرب کے حوالے کر کے عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں‘ یہ تعلقات ہماری اکانومی کے لیے اچھے ثابت ہوں گے‘ جنرل مشرف کو شروع میں یہ آئیڈیا پسند نہ آیا لیکن پھر یہ بین الاقوامی تنہائی‘ معاشی مشکلات اور بیگم کلثوم نواز کی ’’تحریک نجات‘‘ کے دباؤ میں آ گئے۔

شوکت عزیز کے لبنان کی الحریری فیملی کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور سعد الحریری سعودی عرب کے ولی عہد پرنس عبداللہ کے بہت قریب تھے‘ شوکت عزیز نے سعد الحریری سے رابطہ کیا اور سعد الحریری نے پرنس عبداللہ سے بات کی‘ جنرل پرویز مشرف ستمبر 2000ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک گئے‘ پرنس عبداللہ بھی اس وقت نیویارک میں تھے‘ جنرل مشرف اور پرنس عبداللہ کی ملاقات ہوئی‘ سعد الحریری نے ترجمان کا فریضہ ادا کیا اور شریف فیملی کو جدہ بھجوانے کا فیصلہ ہو گیا‘ سعد الحریری پاکستان آئے‘ یہ حسین نواز شریف اور میاں نواز شریف سے ملے اور معاملات طے پا گئے‘ شجاعت عظیم سعدالحریری کے پائلٹ تھے‘ شوکت عزیز نے بعد ازاں سعد الحریری کی سفارش پر شجاعت عظیم کے بڑے بھائی طارق عظیم کو اطلاعات کا وزیر مملکت بنایا‘ میاں نواز شریف کو10 دسمبر 2000ء کو خاندان سمیت سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا‘ اس ڈیل کے محرک شوکت عزیز اور ضامن سعد الحریری تھے۔

میاں نواز شریف فیملی سعودی عرب تک محدود تھی‘ 2002ء کے آخر میں میاں شہباز شریف کی بڑی آنت میں کینسر نکل آیا‘ سعودی حکومت نے انھیں جنوری 2003ء میں امریکا جانے کی اجازت دے دی‘ جنرل مشرف اس فیصلے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ انھوں نے مجید نظامی مرحوم کو اپنا پیغام بر بنا کر جدہ بھجوا دیا‘ مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کو بتایا ’’جنرل مشرف چاہتے ہیں آپ راجہ ظفر الحق کو پاکستان مسلم لیگ ن کا سربراہ بنا دیں اور اس کے بعد لندن یا نیویارک جہاں چاہیں چلے جائیں‘‘ میاں نواز شریف نے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ میرا موقف اصولی ہے‘ میں ڈیل کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘ یوں ڈیل کی یہ کوشش بھی ضایع ہوگئی۔

اکتوبر 2004ء میں میاں شریف کا انتقال ہو گیا‘ مرزا عبدالعزیز اس وقت سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے‘ یہ میاں نواز شریف کو ملے اور انھیں جنرل مشرف کایہ پیغام دیا ’’آپ‘ میاں شہباز شریف اور بیگم کلثوم کے علاوہ خاندان کے تمام افراد تدفین کے لیے پاکستان جا سکتے ہیں‘‘ میاں نواز شریف نے یہ پیش کش مسترد کر دی‘ جنرل مشرف نے 21 نومبر 2004ء کو تعزیت کے لیے میاں نواز شریف کو فون کیا‘ جنرل کا خیال تھا یہ کوئی مطالبہ کریں گے اور یوں دونوں کے درمیان ڈائیلاگ شروع ہو جائے گا لیکن میاں نواز شریف صرف تعزیت تک محدود رہے یوں ڈیل کی یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی‘ میاں نواز شریف 29 نومبر 2006ء کو سعودی عرب سے لندن منتقل ہو گئے‘ یہ اجازت سعودی حکومت نے دی تھی اور یہ بلامشروط تھی‘ جنرل مشرف نے اس اجازت پر کنگ عبداللہ سے باقاعدہ احتجاج کیا لیکن سعودی عرب نے اس احتجاج پر توجہ نہیں دی۔

2007ء میں تین بڑے واقعات پیش آئے‘ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی جنرل مشرف سے ناراض ہو گئے‘ افتخار محمد چوہدری اور لال مسجد کا ایشو بن گیا اور میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آ گئے‘ یہ سارے واقعات دباؤ بنے اور جنرل مشرف بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او پر مجبور ہو گئے‘ میاں نواز شریف نے 10 ستمبر 2007ء کو واپس آنے کی کوشش کی لیکن انھیں زبردستی سعودی عرب ڈی پورٹ کر دیا گیا‘ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو جنرل مشرف کی مرضی سے واپس آئیں اور ملک میں الیکشن مہم شروع کر دی‘ سعودی عرب محترمہ سے خوش نہیں تھا چنانچہ پرنس مقرن بن عبدالعزیز پاکستان آئے اور جنرل مشرف کو کنگ کا یہ پیغام دیا ’’بے نظیر پاکستان میں ہوںگی تو نواز شریف بھی ہو گا‘‘ یہ پیغام ملنے کے بعد جنرل مشرف نے بریگیڈیئر نیاز کو سعودی عرب بھجوا دیا۔

بریگیڈیئر نیاز میاں شہباز شریف اور جنرل مشرف دونوں کے مشترکہ دوست تھے‘ یہ سعودی عرب میں میاں برادران سے ملے‘ بریگیڈیئر نیاز کی موجودگی میں آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ندیم تاج سعودی عرب گئے اور ایک غیر ملکی معزز شخص کے ذریعے میاں نواز شریف سے ملنے کی کوشش کی‘ جنرل ندیم تاج بیگم کلثوم نواز کے دور کے رشتے دار تھے‘ یہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان مسلم لیگ ق کے درمیان ’’سیٹ ٹو سیٹ‘‘ ایڈجسٹ منٹ کا ایک فارمولہ لے کر سعودی عرب گئے تھے‘ میاں نواز شریف کے عزیز ترین دوستوں نے پورا زور لگایا لیکن میاں نواز شریف جنرل ندیم تاج سے ملاقات کے لیے تیار نہ ہوئے‘ یہ جنرل مشرف کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔

آپ اگر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ نومبر 2007ء کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو جنرل ندیم تاج سعودی عرب میں ملیں گے‘ یہ اگر ڈیل لے کر نہیں گئے تھے تو یہ وہاں کیا کر رہے تھے اور یہ وہاں بریگیڈئیر نیاز سے کیوں رابطے میں تھے؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کر دے گا‘ یہ جواب تاریخ کا سارا دھارا بھی سیدھا کر دے گا‘ میرا جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کو مشورہ ہے آپ جنرل ندیم تاج کو فون کریں اوراپنی ساری کنفیوژن دور کرلیں‘آپ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر لیں۔

The post جھوٹ اور سچ کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

پروٹوکول، علاج ضروری

$
0
0

وی آئی پی کلچر ہم سب کے لیے عذاب سے کم نہیں اور مزید عذاب بنتا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ ہم سب لوگ اس کو رد کریں، اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اس پروٹوکول کے چکر میں لوگ عجیب عجیب احمقوں والی حرکتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ بڑے بڑے پروٹوکول عام لوگوں کی جان بھی لے چکے ہیں۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تمام اس کا شکار ہو چکے ہیں، پر سانوں کی! والا محاورہ اس پر فٹ ہوچکا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس خراب، بیہودہ کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اس میں دن بہ دن ترقی ہو رہی ہے۔

کہنے کو ہم غریب ملک ہیں بنیادی سہولتوں کا رونا ہے، بھوک ہے، افلاس ہے، غربت ہے، اس کے باوجود لاکھوں روپے اس پر خرچ کردیے جاتے ہیں اور ہو رہے ہیں اگر اس رقم کو فلاح و بہبود کی اسکیمیں بناکر ان پر خرچ کیا جائے تو اس سڑے ہوئے کلچر کا بھی خاتمہ ہوگا اور عوام کی بھی بھلائی ہو گی پوری دنیا میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، کہیں ایسی جاہلانہ چیزیں نہیں ملیں گی جیسی کہ ہمارے پاس ہیں،بچہ پیدا ہونے کی تقریب سے لے کر مردے کے دفنانے کی تقریب تک۔ابھی ایک جنازے میں جانا ہوا، well گھرانہ، ایدھی سے کفن دفن ہوکر جنازہ گھر پر لایا گیا، جنازہ اندر ہال میں رکھا گیا اور باہر لان میں درجنوں ویٹر لنچ لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ سلاد کی اقسام سے لے کر بریانی، قورمہ، گرم روٹی کے لیے تندور، دکھاوے کی حد دیکھئے کہ لوگوں کو مرنیوالے کی اتنی فکر نہیں جتنی menu کی فکر تھی۔ بچوں کی پیدائش کے لیے یا تو باہر جایا جائے یا پھر The Best ڈھونڈا جائے، ہیں ہم اس رسولؐ کے پیچھے چلنے والے جو اپنے پیوند بھی خود لگاتے تھے، جو اپنی جوتیاں بھی خود سیتے تھے، گھر میں ہے تو کھا لیا، نہیں ہے تو اللہ کا شکر ادا کیا۔

اس قوم کا یہ حال ہے کہ وہ کردار سے زیادہ لوگوں کو ان کے کپڑوں سے ان کی گاڑیوں سے، ان کے گھروں سے زیادہ جج کرتے ہیں۔ اور اسی لیے دھوکے بے حساب، فراڈ بے حساب۔ پہلے زمانے میں شادیوں کے لیے اچھے رشتوں کے خاندان دیکھے جاتے تھے، دادا، پردادا اور دیگر رشتے داروں کے بارے میں معلومات کی جاتی تھی، تب کہیں جا کر رشتے ہوتے تھے۔ اب سب کچھ بدل گیا اور ایسے بدلا کہ نہ ہم اپنے رہے اور نہ دوسروں کے ۔ دکھاوے اور پروٹوکول بے وجہ ہمارے اندر گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ اور ہم دن بہ دن اس کے بوجھ سے دب رہے ہیں۔ نہ قطاروں میں کھڑے رہنے کی عادت نہ میرٹ پر قابلیتوں کی جانچ، نہ صفائی کی عادتیں، گندگی کی فراوانی اور صفائی کا فقدان۔

سگنلز پر جب چند لمحوں کے لیے گاڑی رکتی ہے تو اس میں بھی موقع کا فائدہ اٹھاکر لوگ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہیں اور پان کی پیک سے سڑکوں کو سرفراز کرتے ہیں، خالی ریپرز، خالی پانی کی بوتلیں تک سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں، ہاں اگر اسی سڑک سے کسی وی آئی پی کا گزر ہو تو یہی سڑکیں سفید چونے سے رنگ دی جاتی ہیں، ہرے بھرے پودوں سے ان کو سجا دیا جاتا ہے اور بیکار، فضول عوام کو کئی کوس پہلے روک دیا جاتا ہے اور ایسا پروٹوکول ہوتا ہے جس میں گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔ نہ کسی کے وقت کی پروا اور نہ کسی کی ضرورتوں کا خیال۔ آخر کب تک یہ مصنوعی زندگی ہماری زندگیوں کو متاثر کرتی رہے گی؟ اور آخر کب تک خوامخوا ہم وی آئی پی بنے رہیں گے؟ جب یقین کامل ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر بے وجہ گردنوں میں سریے کیوں لگے؟ابھی یہ تازہ رپورٹ ہے کہ ایس ایس پی اسلم چوہدری جوکہ بم بلاسٹ میں جاں بحق ہوئے، کہا یہ جا رہا ہے کہ ان کا اپنا ہی خاص آدمی اس میں ملوث تھا، بلٹ پروف گاڑی، سیکیورٹی گارڈ کی ریل پیل، سخت چیکنگ، نتیجہ زیرو۔

اس پروٹوکول میں کئی لاکھوں، کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں جس کی شاید اتنی ضرورت نہیں ہے، یہی روپے اگر تعلیم کے شعبے میں خرچ ہوں، اسپتالوں میں خرچ ہوں تو ہم کہاں سے کہاں جائیں۔ وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں اور سکیورٹی گارڈز کی مد میں کچھ ضرورتاً اور کچھ دکھاوے کے لیے ایک لمبی لائن لگانے پر ترجیح دیتے ہیں وہ بھی اگر اس کلچر کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں تو یقینا مثبت اثر ہو گا، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ایک مثبت قانون پاس کیا جائے اور اس پروٹوکول جیسے عفریت سے آزاد کرایا جائے، دکھاوے، بڑے بڑے بول، یہ سب ہم اور ہمارا معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہوجائے گا تو معاشرے میں Balance برقرار نہیں رہے گا۔ پاکستان ایک فلاحی ریاست کے طور پر ابھرا تھا، اس کی جغرافیائی حیثیت بہت اہم ہے اور اس اہم ترین ملک کو کسی ایسے دکھاوے اور فضولیات سے پاک کرنا حکومت کی شدید ذمے داری ہے۔

قوانین کی پاسداری اور اس کا نفاذ بھی بہت اہم ہے، ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اور جو اللہ پاک نے ہمیں نعمتوں سے نوازا ہے وہی ہمارے لیے بہترین سبب ہے۔ خوامخواہ کا پروٹوکول جیسا مرض لاحق کرنے سے نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ سے لے کر عام اداروں تک، سب فضول شوق میں مبتلا ہیں، جہاں ضرورت ہو وہاں اس کا استعمال کیا جائے، جن عہدوں کو پروٹوکول کی ضرورت ہے، وہاں ان کو دیا جائے مگر 20,20 گاڑیوں کا پروٹوکول، راستے لاتعداد گھنٹوں کے لیے بند، اسکول، اسپتال پہنچنا ناممکن، یہ یقینا زیادتی کی بات ہے۔ آپ اور ہم مل کر ہی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں ایک خوبصورت سادہ زندگی کا نعم البدل کوئی نہیں ہے۔

دسترخوانوں پر 50 ڈشز کا موجود ہونا دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک شخص دو روٹیوں سے زیادہ نہیں کھا سکتا اور بڑی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں میں بھی سب کچھ نہیں کھایا جا سکتا ہے۔ بڑے لوگ جب اس طرح کے فوٹو سیشن کرواتے ہیں تو دوسرے لوگ خوامخواہ ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ برائی کا اعلان کرنا بھی ایک برائی ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ہم سادہ زندگی کے لائف اسٹائل کو پروموٹ کریں۔

زندگی کے ہر شعبے میں دکھاوے کو بڑھاوا نہ دیں، ہمارے کردار اتنے زبردست ہوں کہ ہمیں مہنگے کپڑوں کی ضرورت نہ پڑے۔ شخصیت اتنی مضبوط ہو کہ آپ کا طرز زندگی ہی ایک پہچان ہو، علم کی فراوانی ہو بجائے جہالت کی فراوانی کے۔ غربت اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنیے، لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، عملی طور پر ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ غیر ضروری پروٹوکول وبال جان ہے۔ اس سے جان چھڑائی جائے، عوام کے لیے آسانیاں ہوں، سہولتیں ہوں تو گورنمنٹ کو اور اعلیٰ شخصیات کو کسی پروٹوکول کی ضرورت نہ ہوگی کہ عوام کی طرف سے پیار اور عزت ہی بہت کافی ہوگا۔

The post پروٹوکول، علاج ضروری appeared first on ایکسپریس اردو.

چین سے پاکستان کی اندھی محبت

$
0
0

سب سے پہلے تو میں حکمت ِ عملی کے پاکستانی فوجی ماہرین کی جائز تعریف کرنا چاہونگا جن پر میں اپنی تحریروں میں اکثروبیشتر تنقیدکرتا ہوں۔2012ء میں جب میں اپنی کتاب کے لیے پس منظرمیں انٹرویوکررہا تھاتوایک حاضر سروس جرنیل نے مجھے بتایا کہ پاکستان کو مستقبل میں توقع سے بہت پہلے امریکی اور چینی بلاک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑیگا۔انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا خیال تھا کہ ہمیں 2020ء میں یہ فیصلہ کرنا پڑیگاجب چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت بن جائے گا،مگر لگتا ہے کہ وہ وقت اب آ گیا ہے۔‘‘ یہ جرنیل یقینا اُس اسٹرٹیجک الائنس کی بات کر رہے تھے جواگرچہ کئی عشروں سے موجود ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کو خاص طور سے1954ء سے، اس علاقے میں امریکا کا پولیس مین سمجھا جاتا ہے۔

میں نے ان کے ساتھ اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ پاکستان کیوں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور بین الاقوامی منظرنامے پر خودکو غیر جانبدار رکھنے کا اعلان نہیں کر سکتاچنانچہ2013ء میں جب صدر زرداری نے اپنے عہدے کی معیاد کے آخری دنوں میں ایک سمجھوتے کے تحت گوادر چین کے حوالے کردیا تو مجھے اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی۔اس سے چین کو بحر ہندتک رسائی اوروسطیٰ ایشیا وایران تک آسان راستہ مل گیا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC)  کا اہم ترین پراجیکٹ ،گوادر سے قراقرم ہائی وے کے راستے چینی صوبے ژنجیانگ تک موٹروے کی تعمیر ہے۔یہ مغربی چین کو اس بندرگاہ کے ساتھ ملانے کا مختصر ترین روٹ ہے۔گوادر خلیج فارس کے دروازے پر واقع ہے جو تیل لانے لے جانے کی ایک بڑی گزرگاہ ہے۔ یہ چین کی میری ٹائم جیو اسٹرٹیجک پالیسی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

اس بات پر بھی کوئی تعجب نہیں ہواکہ موجودہ حکومت نے پاکستان کے لیے کسی زیادہ بہتر لین دین پر بات چیت کیے بغیر CPEC سمجھوتے پر اس جگہ دستخط کردیے جہاں نشان لگایا گیا تھا۔ اب جبCPEC سمجھوتے کے بارے میں جوش و خروش تھم رہا ہے تو یہ اطلاعات آنا شروع ہو گئی ہیں کہ آگے چل کر پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ نہ کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

CPEC معاہدے کے تحت جن مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، حکومت نے ان کی مالیاتی اسٹرکچرنگ کے بارے میں معلومات کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مخفی رکھا ہوا ہے مگر جو باتیں باہر نکلی ہیں ان میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی پیدا کرنیوالے منصوبوں کوایکویٹی پر 17 فیصد ریٹرن دیا جائے گا اور چائنا ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے دیے جانے والے قرضے پرشرح ِ سود6 سے7 فیصد ہو گی۔ یہ اس شرح سے بہت زیادہ ہے جو ہم مختلف کثیرالجہتی اداروں سے حاصل کردہ قرضوںپر ادا کر تے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت نے مسابقتی بولیوں کی شرط کو بھی ختم کردیا ہے۔اس بات پر بھی نظر نہیں رکھی جارہی کہ چینی کمپنیاں، اپنے ملک یا دوسرے ذرایع سے خریدی گئی مشینری کی اصل مالیت سے کس حد تک زیادہ قیمت ظاہرکرتی ہیں۔کاروباری حلقوں میں سب جانتے ہیں کہ منصوبوں کی مالیت اصل لاگت سے زیادہ بتانا اورکک بیک لینا آسان کام ہوتا ہے۔

چار اقتصادی راہداریوں کی تعمیر کے معاملے کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔اساسی ڈھانچے کے ان منصوبوں کی مالیاتی اسٹرکچرنگ پر بجا طور پر بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں مثلاً،ان موٹر وے پراجیکٹس کے لیے حاصل کردہ اراضی میں پاکستان کی ایکویٹی کیا ہو گی، چین کی سرمایہ کاری کتنی ہو گی اور یہ کن کمپنیوں کے ذریعے کی جائے گی، ان منصوبوں کی لاگت کو کس طرح پورا کیا جائے گا۔

کیا یہ تعمیر کرو، چلاؤ اور منتقل کروکی بنیاد پر ہونگے اور حکومت نے کس قسم کے ٹول ٹیکس کے بارے میں سوچ رکھا ہے۔ ان تمام سوالوں کے جواب میں کوئی بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لیے ان میگا پراجیکٹس کی لاگت اورفائدے کے تناسب کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا مشکل ہے۔

جولوگ CPEC ڈیل کی حمایت کرتے ہیں ان کے پاس ایک ہی آسان سا جواب ہے کہ ’’بھکاریوںکے پاس پسند کا اختیار نہیں ہوتا۔‘‘ ان کی منطق بھی بہت سادہ سی ہے کہ پاکستان کو بجلی کے شعبے اورمواصلات کے اساسی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی اور چین جو پاکستان کا عزیزدوست ہے، واحد ملک تھا جو یہ کرنے پر تیار تھا۔یہ بات کسی حد تک سچ ہے ۔چین کی ساری سرمایہ کاری اشیاء اورسروسز میں اضافہ کریگی جس کی عکاسی بالآخر مجموعی قومی پیداوار میں ہو گی مگر یہ حقیقت ہے کہ چینیوں کوٹیکس میں چھوٹ اوراس قسم کی جو متعدد دوسری سہولتیں دی گئی ہیں وہ پاکستان کی معیشت اور وسیع معنوں میں عوام کے لیے مطلوبہ فوائد نہیں لاسکیں گی۔

سرمایہ کاری کے اس سمجھوتے سے کیا کچھ حاصل ہو گا،اس کا فیصلہ بالآخراس بنیاد پرکرنا چاہیے کہ فی کس آمدنی میں اضافہ اور روزگار کے حوالے سے پاکستانی عوام کو کتنا فائدہ ہو گا۔ چین کے لیے یہ اس کی ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پالیسی کے مفاد میں ہے کیونکہ وہ ملک کے مغرب میں اپنے اثرورسوخ کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ محض ایک معاشی سودے سے کہیں زیادہ ہے، یہ بڑھتے ہوئے بھارت امریکا تزویراتی اتحادکا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں چین کے گہرے اسٹرٹیجک مفادات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

مضبوط پاک چین تعلقات کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن ہے حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ سرحد صرف523 کلو میٹر ہے۔اعلانیہ دشمن (بھارت) کے مقابلے میں ایک کمزور اور چھوٹی ریاست کو بھارت کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو شروع ہی سے اس بات کا احساس رہا ہے کہ وہ دو بڑی قوموں بھارت اورچین میں گھرا ہوا ہے۔چین کے ساتھ مستحکم تعلقات کی بعض بڑی وجوہات یہ ہیں: اول، چینیوں نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے، دوئم، وہ پاکستان کی بدنظمی کی شکار داخلی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے اور سوئم، وہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں جوابی توازن پیدا کرنے والی قوت سمجھتے ہیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی(NDU) کی طرف سے 2012ء میں جاری کی جانیوالی مصدقہ رپورٹ میں پاک چین تعلقات کی بہترین انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’پاک چین تعلقات بے مثال اورپائیدار ہیں۔دونوں ملکوں میں عقیدے کا مختلف نظام ہے مگر اس کے باوجود دوستی اعلیٰ درجے کے اعتماد میں بندھی ہوئی ہے۔ یہ دوستی کئی سطحوں پر، خاص طور سے سیاسی اورسلامتی کے دائروں میں ایک جامع شراکت داری میں پہنچ کر بالغ ہوئی ہے، بیجنگ کی علاقائی سلامتی کی سوچ میں بھی یہ یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ پاک چین تعلقات کے فیصلہ کن لمحات کی تاریخ 1956ء سے دیکھی جاسکتی ہے، جب اعلیٰ سطح دورے شروع ہوئے اور پھر1963ء میں جب ٹرانس قراقرم ٹریکٹ ٹریٹی ہوا۔‘‘ (توجہ طلب ہے)

1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین کی مدد حقیقی موڑ تھا۔اُس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا سے خاصی مایوس تھی جس نے اس بنیاد پر فوجی سامان کی سپلائی روک دی تھی کہ پاکستان نے اس وعدے کی خلاف ورزی کی ہے کہ اسے دیا جانے والا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ انوار ایچ سید کہتے ہیں کہ’’ پاکستان کے اتحادیوں میں سے ایران اور ترکی نے جوش وخروش سے مدد کی، جیسا کہ اردن شام، سعودی عرب اور انڈونیشیا جیسے دوستوں نے کی مگر پاکستان کے تمام دوستوں میں سے چین کی آواز سب سے زیادہ گرج دار تھی۔‘‘

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک بار پھر چین نے پاکستان کی مدد کی۔اس نے الزام لگایا کہ بھارت نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ چین نے اس وقت موجود سمجھوتوں کے تحت فوجی سازوسامان کی سپلائی جاری رکھی اوراقوام ِ متحدہ میں پاکستان کے موقف کی سیاسی حمایت کی چنانچہ پاکستان کے لیے CPEC،جیسا کہ نام ظاہر کرتا ہے، صرف اقتصادی ا ہمیت ہی کی حامل نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت کسی ممکنہ بھارتی جارحیت کے خلاف اس کی مدد کریگی۔ امریکا اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک مذاکرات، پاکستان کواور زیادہ چینی کیمپ میں دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان نے رفتہ رفتہ چین کی طرف بڑھتے ہوئے، بہت دوری پر واقع سپر پاورامریکا پر مکمل انحصار کا راستہ تبدیل کیا ہے۔

(کالم نگار فری لانس صحافی ہے،رسائی کے لیے (ayazbabar@gmail.com

The post چین سے پاکستان کی اندھی محبت appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانوی(حصہ اول)

$
0
0

یہ میری نوعمری کا زمانہ تھا، جب میرے ہم عمر دوست شرلاک ہومز اور ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھا کرتے تھے مگر میں فیض احمد فیضؔ اور ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری کی کتابیں پڑھتا تھا۔ ہم کراچی کے ایک پرانے محلے رام سوامی کی ایک سو سال پرانی بلڈنگ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے۔

ہم چھ بھائی اور تین بہنیں فرش پر دری بچھاکر سوتے تھے اور میں ضد کر کے کھڑکی کے قریب سوتا تھا۔ جب گھرکے سب افراد گہری نیند میں ہو جاتے تھے تو میں اکیلا جاگتا رہتا تھا اور پھرکھڑکی کا ایک پٹ آدھا کھول کرکمرے میں آئی ہوئی اسٹریٹ لائٹ سے فیضیاب ہوتے ہوئے فیض اور ساحر کو پڑھاکرتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ساحرلدھیانوی کے شعری مجموعے ’’تلخیاں‘‘ کے بعد اس کے فلمی گیتوں کا مجموعہ ’’گاتا جائے بنجارا‘‘ کے نام سے بھی منظر عام پرآ گیا تھا۔ مجھے ان دنوں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی شاعرکی شاعری اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زیادہ ہوتی ہے۔ شاعر ساری دنیا کے لوگوں کے لیے لکھتا ہے وہ سب کے احساسات کا ترجمان ہوتا ہے۔

ہندوستان میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا دور آیا تو رفتہ رفتہ ادب کے لوگ بھی فلمی دنیا سے جڑتے چلے گئے تھے۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری کو جاں نثار اختر، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی جیسے ہیرے نصیب ہوئے اور ان شاعروں نے فلموں کو ادبی معیار عطا کیا، ساحر لدھیانوی جب نیا نیا بمبئی آیا تو ابھی فلمی دنیا کے دروازے اس پرکھلے نہیں تھے۔ یہ ان دنوں اپنے کسی نہ کسی بے تکلف دوست کے ساتھ میلوں پیدل چلاکرتا تھا اور بمبئی کی سڑکیں ناپاکرتا تھا۔ اسی طرح یہ ایک دن بمبئی کی گودی (بندرگاہ) کی طرف نکل گیا وہاں ساحر نے چند مزدوروں کوکام کے دوران فلمی گیت گاتے ہوئے سنا تو وہ کچھ دیر کے لیے اپنے دوست کے ساتھ وہاں کھڑا رہا۔ مزدور جو گیت گارہے تھے اس کے بول تھے۔

اوجانے والے بالم وا

لوٹ کے آ لوٹ کے آ

اس وقت ساحر نے ہنستے ہوئے اپنے دوست سے کہا تھا یہ آج گودی کے مزدور جس طرح کے شاعر کا یہ فلمی گیت گارہے ہیں کل وہ بھی دن آئے گا جب ان مزدوروں کے ہونٹوں پر میرے لکھے ہوئے گیت ہوںگے اور ان گیتوں کا لہجہ بالکل بدلا ہوا ہوگا۔ یہ بات ساحرکے ہونٹوں پر آئی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر گئی مگر وقت نے خوابوں کو حسین تعبیر دی تھی جب اسی گودی (بندرگاہ) کے مزدوروں کے ہونٹوں پر ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا گیت تھا۔

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ایک اکیلا تھک جائے گا

مل کر بوجھ اٹھانا، ساتھی ہاتھ بڑھانا

پھر ایک دور ایسا آیا جسے بلاشبہ ساحر لدھیانوی کا دورکہا جاتا تھا۔ بمبئی آنے والا ایک بے یار و مددگار شاعر بمبئی فلم انڈسٹری کا چہیتا شاعر بن گیا تھا۔ان کے دلکش گیتوں کی سارے ہندوستان میں دھوم مچی ہوئی تھی ۔ان کے گھرکے دروازے پر اس دورکی کئی قیمتی گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں۔ ان کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، فلموں کے اشتہار میں ان کا نام جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا، ساحرکو اسی لیے قریبی دوست پرنس کہہ کر پکارتے تھے اور یہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں دنیائے شاعری کا شہزادہ مشہور تھا۔اس سے پہلے کہ میں ان کے پہلے گیت اور پہلی فلم کی طرف آؤں یا ان کی بمبئی کی فلمی زندگی سے آغازکا تذکرہ کروں۔

میں ان کی ابتدائی زندگی، ان کے گھریلو حالات، کمسنی سے جوانی تک ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالوںگا۔ یہ لدھیانہ شہرکے ایک جاگیردارگھرانے میں پیدا ہوا تھا، ان کا نام عبدالحئی تھا، والد کا نام فضل محمد تھا اور وہ ایک انتہائی سخت گیر انسان تھے، ان کی کئی بیویاں تھیں اور ان میں ایک بیوی سردار بیگم تھی جو عبدالحئی کی ماں تھی۔ ان کا باپ عورت کو پیرکی جوتی سمجھتا تھا، وہ اپنی بیویوں کو مارتا بھی تھا اور ان کو گالیاں بھی دیا کرتا تھا۔

سردار بیگم جب ان کی گالیوں پر احتجاج کرتی تھی تو وہ انھیں اذیت بھی دیا کرتا تھا۔ کمسن عبدالحئی جب اپنی ماں کو اپنے باپ کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھا کرتا تھا توکئی کئی دنوں تک سہما رہتا تھا اورکبھی کبھی اپنی ماں کو اپنی معصومیت کی بولی میں کہتا تھا ’’ماں تو مجھے بس بڑا ہونے دے پھر میں دیکھوںگا کہ میرا باپ تجھ پرکیسے ہاتھ اٹھاتا ہے۔‘‘ جب ماں اپنے دامن سے اپنے آنسو پونچھتی تھی اور پیار سے عبدالحئی کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیتی تھی تو عبدالحئی بھی رونے لگتا تھا۔ اکثر یوں بھی ہوتا تھا کہ کبھی کبھی بیٹا اپنی ماں کے آنسو اپنی قمیص سے پونچھتے ہوئے کہتا تھا ’’ماں میں بڑا ہوکر تجھ پرکیے گئے ظلم کا حساب بھی باپ سے لوںگا تو ماں کپکپاتے ہونٹوں سے کہتی نا بیٹا نا ایسے نہیں کہتے۔ اﷲ سب دیکھتا ہے ایک دن وہ خود ہی سب کچھ اچھا کردے گا‘‘ مگر عبدالحئی کے دل میں باپ کے خلاف نفرت پرورش پانے لگتی تھی۔ عبدالحئی نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں حاصل کی جو بعد میں کالج بن گیا تھا۔

جب عبدالحئی کوکچھ شعور آیا اور اٹھارہ بیس سال کا ہوا تو اس نے باپ کے ظلم کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور باپ کے خلاف عدالت میں مقدمہ بھی درج کرادیا تھا۔ پھر باپ بیٹے کے درمیان دشمنی ہوگئی، بیٹا ماں کو لے کر باپ کے گھر سے نکل گیا۔ ماں نے اپنا زیور بیچ کر بیٹے کے ساتھ الگ گھر میں رہائش اختیارکرلی تھی۔ عبدالحئی اپنی ماں کو لے کر لاہورآ گیا، باپ کو یہ خبر بعد میں پتہ چلی تھی کہ اس کا بیٹا اور اس کی بیوی لدھیانہ چھوڑگئے ہیں۔ لاہور میں عبدالحئی ساحر لدھیانوی بن چکا تھا اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوگیا تھا۔ ساحر نے لاہور کے دیال سنگھ کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کے دوران ہی یہ ادیبوں کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگیا تھا۔

ساحرعورت کی مظلومیت کو اپنی ماں کے روپ میں بچپن ہی سے دیکھتا چلا آیا تھا۔ اسے جاگیرداروں اور جاگیرداری طبقے سے شدید نفرت تھی اور وہ جاگیرداری نظام کے خلاف شاعری کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے لگا تھا۔ اسی دوران اس نے عورت کی بے بسی اور بے وقعتی کے بارے میں نظمیں لکھیں اس کی نظموں کو اس دورکے بڑے بڑے اخبارات اور رسائل نے نمایاں جگہ دینی شروع کردی تھی۔ اس دوران ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی ادا کیے۔ ترقی پسند تحریک کے دوران ساحر لدھیانوی کے خلاف حکومت وقت نے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔ وہ اپنی ماں سے محبت کرتا تھا اس نے لاہور کو راتوں رات چھوڑا اور پھر وہ دہلی چلا گیا۔

کچھ عرصے دہلی میں رہا مگر دہلی میں ساحرکا دل نہیں لگ رہا تھا، پھر وہ دہلی سے بمبئی پہنچ گیا اور ابتدا میں مایا نگری کے علاقے میں سکونت اختیارکی۔ شاعری اور صحافت ساتھ چل رہی تھی اس دوران ساحر نے ہفت روزہ ’’شاہکار‘‘ اور پھر ’’سویرا‘‘ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا اور اپنی ماں کے آخر وقت تک وہ اپنی ماں کے ساتھ سائے کی طرح ساتھ رہا۔ بمبئی میں ساحرکی شاعری کو اصل عروج حاصل ہوا اور ساحرکی کئی خوبصورت نظمیں منظر عام پرآئیں اورلوگ ساحر کی شاعری کے دیوانے ہوتے چلے گئے۔ اس دورکی چند نظموں پرچھائیاں، تاج محل، مادام، چکلے اور نور جہاں کے مزار پر کوبڑی شہرت ملی تھی۔(باقی آیندہ ہفتے)

The post دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانوی(حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22955 articles
Browse latest View live


Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>