Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22600 articles
Browse latest View live

اتفاقاً انسان ہونے کا کتنا انتقام لیں گے

$
0
0

جانور بھی اسی طرح پیدا ہوئے جیسے انسان۔اسی نے پیدا کیا جس نے انسانوں کو۔ابتدا میں جس کا جہاں بس چلتا دوسرے کو شکار کرلیتا یاخود ہوجاتا۔لیکن انسان میں دیگر جانداروں کی نسبت خود کو ڈھالنے اور سیکھنے کی صلاحیت چونکہ زیادہ تھی لہذا وہ باقی جانداروں سے آگے نکل گیا اور اس نے لگ بھگ دس ہزار برس قبل کچھ جانداروں کو سدھانے میں کامیابی حاصل کرلی۔جیسے گھوڑا ، گدھا، مرغی ، گائے ، بکری ، کتا، بندر، کبوتر، طوطا، مینا وغیرہ۔ اور پھر ہر ایک کی مخصوص صلاحتیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس میں بنیادی فوائد بار برداری ، خوراک اور چمڑے وغیرہ کا حصول تھا۔پھر ان جانوروں کو سدھانے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔مثلاً یہ کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بجائے محض جبلت کے سہارے رہنے کے سبب جانور بھی درختوں ، پانی اور آگ کی طرح ایک قدرتی دولت ہوتے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔سولہویں صدی کے مشہور فرانسسیی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکیل ہوتے ہیں انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔

ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا۔اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلادیا جاتا تھا۔چنانچہ جب بلیاں کم ہوگئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔

رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے ، کتے ، بلیاں ، خرگوش ، بندر ، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی  کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کرکے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں۔مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں ، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جونرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا جاتا ہے۔حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔صرف دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ  کے دوران جوتے ، پرس ، بیلٹس، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں چونتیس لاکھ بڑی چھپکلیوں ، تیس لاکھ مگرمچھوں اور چونتیس لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔لیکن اب سے تیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔مگر بھارت جہاں گائے ہلاک کرنا جرم ہے وہاں صرف چند لاکھ گائیوں کے لیے گؤشالہ کی سہولت ہے۔دیگر کروڑوں بھک مری یا آلودہ الم غلم کھا کے خود ہی سورگباشی ہو جاتی ہیں۔

مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں دو سو ڈالر فی باؤل تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہوجاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔شمالی بحر اوقیانوس میں جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر کر کنارے تک لایا جاتا ہے اور انھیں تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔جس سے تا حدِ نظر پانی سرخ ہوجاتا ہے۔مچھلیوں کے قتلِ عام کا یہ قدیم میلہ آج تک جاری ہے۔لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلو وہیلز تھیں۔مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہگئی ہیں۔

اکیزوکوری ایک خاص جاپانی ڈش ہے۔باورچی شیشے کے واٹر ٹینک میں سے گاہک کی مرضی کے مطابق زندہ مچھلی نکال کر اس کی کھال اتارتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑے کچھ اس مہارت سے کرتا ہے کہ دل دھڑکتا رہے اور سر میں جان باقی رہے۔اور پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر قاب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔منہ کھولتی بند کرتی مچھلی آہستہ آہستہ مرتی ہے۔تب تک اس کا گرم نرم گوشت چوپ سٹکس کے ذریعے گاہک کے معدے میں اتر چکا ہوتا ہے۔ین یانگ فش چینی ڈش ہے۔زندہ مچھلی کو اس طرح تلا جاتا ہے کہ سر میں آخر تک جان باقی رہے۔جیاؤ لو رو ( آبی گدھے کا گوشت ) بھی ایک مہنگی چینی ڈش ہے۔زندہ گدھے کی تھوڑی سی کھال اتار کر کچے گوشت پر مسلسل ابلا ہوا پانی ڈالتے ہیں اور جب وہ پک جاتا ہے تو اتنا پارچہ اتار کر گاہک کو پیش کردیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر ، چمگادڑ ، بلی، کتے، سور، چوہے، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔

بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ایک بھینسہ جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مرجاتا ہے۔جب گرے ہاؤنڈز کتے دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے۔یوں ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔سن اسی کے عشرے میں ہیونزگیٹ نامی فلم میں ایک منظر فلمانے کی خاطر زندہ گھوڑا ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا گیا۔جانوروں کو ان جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی لینا دینا نہیں۔مثلاً ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کرائی جاتی ہیں۔سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔بارودی سرنگوں سے اٹے میدانوں پر سے پالتو جانور گذارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کے لیے محفوظ ہوجائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات جانوروں پر کیے جاتے ہیں۔دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن جن ممالک میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کے لیے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کردینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔

کہا جاتا ہے کہ جانور چونکہ بے زبان ہوتے ہیں لہذا ان کی ہلاکت سے انسانی نفسیات پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور ایسے واقعات انسانی شعور میں زیادہ عرصے نہیں رہتے۔لیکن ایف بی آئی کے مطابق چھتیس فیصد جنسی قاتلوں کے پروفائلز سے ظاہر ہوا کہ وہ بچپن میں جانوروں پر تشدد کے شوقین تھے اور اس شوق نے ان میں جو بے حسی پیدا کی وہ بڑھتے بڑھتے انسانوں کے متشدد شکار تک لے آئی۔نہیں نہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو کہتا ہے کہ جانور بھی میری مخلوق ہیں اور اپنی اپنی زبان میں میری حمد و ثنا کرتے ہیں۔جس نے اصحابِ کف کے کتے کے لیے بھی اجر کا اعلان کیا۔جس نے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام قرار دیا۔ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جس کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو آپ چادر چھوڑ کے آہستگی سے چلے جاتے تھے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ آپ نے سختی سے منع کیا کہ جانور کو داغنا ، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و لعنت ہے۔یہ بھی فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔آپ ایسے رقیق القلب کہ ایک پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔آپ ہی کے ایک خلیفہِ راشد سے منسوب ہے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمے داری خلیفہِ وقت پر ہے۔احادیث کی بات ہو تو ہم حضرت ابو ہریرہ ( بلیوں کا باپ ) کا حوالہ دیتے ہیں۔اپنے بچوں کے نام بڑے فخر سے شاہین احمد ، باز محمد ، شیر علی ، کلبِ صادق وغیرہ رکھتے ہیں۔مگر یہ بھی ہے کہ آنکھیں خود پھیرتے ہیں اور الزام طوطا چشمی کو دیتے ہیں۔مکار خود ہیں پر بدنام لومڑی ہے۔سفاکی اندر موجود ہے مگر مثال بھیڑئیے کی۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احسان فراموشی آپ کریں اور بدنام ہو آستین کا سانپ۔نقالی کی داد خود وصول کریں اور نام لگائیں بندر کا۔ حرام خود کھائیں اور حوالہ دیں خنزیر کا۔۔

کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے کرکے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور  ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے ، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی  ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔سوچئے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا ؟ ایک ہی کرہِ ارض پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود اتفاقاً انسان ہونے کا آخر ہم ان بے زبانوں سے اور کتنا انتقام لیں گے ؟

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )


بر صغیر میں غربت اور اسلحہ کی تجارت

$
0
0

دنیا کے 6 ارب کے لگ بھگ عوام جس غربت، بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ دنیا بھر کے ملکوں کے دفاعی اخراجات ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ اب تک کہا جا تا رہا تھا کہ ان دونوں ملکوں میں 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن تازہ انکشافات کے مطابق بھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد 54 فیصد ہوگئی ہے اور لگ بھگ اتنا ہی اضافہ پاکستان میںہوا ہے۔ اس ترقی معکوس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہتھیاروں کی دوڑ ہے۔ علاقائی تنازعات وہ سب سے بڑی وجہ ہے جو ہر ملک کو ہتھیار خریدنے اور ہتھیار بنانے پر مجبور کردیتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جن علاقائی تنازعات میں 66سال سے گھیرے ہوئے ہیں ان میں اہم تنازعہ کشمیر ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ان اندوہ ناک علاقائی تنازعات کو ناقابل حل کیوں بنا دیا گیا ہے؟ کوئی مفادات ہیں؟ ایک مبہم سی احمقانہ تاویل یہی پیش کی جاتی ہے کہ ان تنازعات کی وجہ سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کیا عوام کی تقدیر پر سانپ بن کر بیٹھنے والے ان تنازعات کو حل کرنے میں عوام کو شامل کیا گیا۔ کیا ان تنازعات کو حل کرنے میں دونوں ملکوں کے امن دوست ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کی خدمات اور صلاحیتوں کو کبھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی؟ اس سوال کا جواب نفی میں اس لیے آتا ہے کہ حکمران طبقات اور ان کے سرپرست سرمایہ دارانہ نظام کا مفاد اس میں ہے کہ علاقائی تنازعات ختم نہ ہوں تاکہ کھربوں ڈالر کے اسلحے کی تجارت جاری رہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران طبقے ہتھیاروں کی صنعت سے کھربوں ڈالر بٹورتے رہیں اور ترقی پذیر ملکوں کا حکمران طبقہ ہتھیاروں کی خریداری میں اربوں روپوں کی رشوت کک بیک کھاتا رہے۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جو حکمران اور عالمی سرمایہ داروں کو علاقائی تنازعات حل کرنے سے روکتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات میں اگرچہ روایتی تمام شرعی عیب موجود ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم ان میں کوئی زیادتی، کوئی ہٹ دھرمی اس لیے تلاش نہیں کرسکتے کہ وہ ان تنازعات کا کمزور فریق ہیں اور کمزور فریق کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ دادا گیری اور ہٹ دھرمی نہیں کرسکتا۔

ہندوستان کا حکمران طبقہ اپنے جنگجویانہ مزاج کی وجہ سے دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دفاع پر زیادہ رقوم خرچ کرنے والے ملکوں میں ہندوستان آٹھویں نمبر پر ہے اور ہتھیاروں کی خریداری میں اس کا شمار دنیا کے دس بڑے ہتھیار کے خریداروں میں ہوتا ہے۔ ہندوستان اس سال صرف روس سے 11 ارب ڈالر کے ہتھیار خرید رہا ہے۔ بھارت روس سے جو لڑاکا ہوائی جہاز Sukhoi خرید رہا ہے اس ایک جہاز کی قیمت تقریباً 55 ملین ڈالر ہے۔ ہندوستان کے وزیر دفاع اے کے انتھونی کا ارشاد ہے کہ انڈیا غیر معینہ مدت تک بیرونی ملکوں سے اسلحہ نہیں خرید سکتا، اب اسے اس شعبے میں خود کفیل ہونا پڑے گا۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار Pieter Wezeman کے مطابق دنیا میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں مل سکتی جو انڈیا کی طرح ہتھیاروں کی صنعت کے اپنے ملک میں فروغ کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہو۔ اس حوالے سے بھارتی حکومت جس مشکل مسئلے کا شکار ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی ہتھیاروں کی صنعت شدید کرپشن کا شکار ہے اور سر توڑ کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت اس بھاری کرپشن کو نہیں روک پارہی ہے۔ حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر بھارت کو دفاعی شعبے میں خود کفیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر اس شعبے میں ممکنہ طور پر پھیل جانے والی کرپشن کو کس طرح روکا جائے گا؟

بھارت میں ہتھیاروں کی تیاری پر کوئی 50 سرکاری لیبارٹریز دن رات کام کررہی ہیں جو 40 آرڈیننس فیکٹریز میں تیار ہوجانے والے اسلحے میں معروف ہیں لیکن نتیجہ اب تک صفر ہے۔ ان مشکلات کی وجہ بھارت بیرونی ملکوں سے بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدنے پر مجبور ہے۔ ہتھیاروں کی بھارتی خریداری میں 2011 کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اور بھارت دنیا میں مجموعی طورپر تیار ہونے والے اسلحے کا 12 فیصد خرید رہا ہے۔ بھارت کی اسلحے کے صنعت میں اب تک بیرونی سرمایہ کاروں کو 26 فیصد سرمایہ کاری کی اجازت تھی لیکن بھارتی حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب فراہم کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں میں 26 فیصد سے اضافہ کرکے 49 فیصد کردیا ہے لیکن اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی ابھی تک کسی ملک نے کوشش نہیں کی۔ غالباً اس کی وجہ بھارت کے اس شعبے میں پھیلی ہوئی کرپشن ہے۔بھارت بیرونی ملکوں سے جو اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے، اس میں سے 79 فیصد روس، 6 فیصد برطانیہ، 4 فی صد ازبکستان، 4 فیصد اسرائیل اور 2 فیصد امریکا سے خرید رہا ہے، اس خریداری سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلحے کی خریداری میں بھارت کا روس پر کس قدر انحصار ہے۔ پچھلے دنوں بھارت میں روس کے سفیر مسٹر  Alexander Kadakin نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ روس کی بھارت کو اسلحہ سپلائی (فروخت) میں کوئی کمی ہورہی ہے۔ موصوف نے فرمایا کہ بھارت کی اسلحے کی مارکیٹ میں روسی اسلحے کی فروخت میں کمی کی افواہیں مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ بھارت کی اسلحے کی صنعت میں تیار ہونے والے اسلحے کی خریداری کے لیے بھارتی فوج بالکل تیار نہیں۔ بھارت کی اسلحہ سازی کی صنعت میں کرپشن کے علاوہ بھی کئی مشکلات درپیش ہیں، اس لیے بھارت کو باہر سے اسلحہ خریدنا پڑتاہے جن کا 79 فیصد حصہ صرف روس سے خریدا جارہا ہے۔

ان چند حقائق کا تذکرہ ہم نے ضمناً کیا ہے، اصل مسئلہ پسماندہ ملکوں کے محکمہ دفاع پر قومی دولت کا بے تحاشا استعمال ہے۔ اس مسئلے کو صرف ہندوستان اور پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورتوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اسلحہ فروخت کرنے والے بڑے ملکوں میں اس صنعت پر کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور اس سے اربوں ڈالر کا منافع حاصل کیا جارہا ہے۔ کیا ایسے بے انتہا منافع بخش کاروبار کو سرمایہ دار ملک ترک کرسکتے ہیں؟ علاقائی تنازعات بے مقصد جنگیں وغیرہ در اصل اسی ذہنیت اور ضرورت کی پیدا کردہ ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اس المیے کا حصہ ہے۔ یہ مسئلہ بظاہر تو دو ملکوں کے جائز و ناجائز مفادات کا مسئلہ نظر آتا ہے لیکن اس کے پیچھے جو اصل محرکات کارفرما ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورتیں ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی اگر خلوص نیت سے چاہیں تو کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ حل کراسکتے ہیں لیکن اگر یہ مسئلے حل ہوجائیں تو اس کھربوں ڈالر کی اسلحے کی فروخت کا کیا ہوگا جو بھارت پاکستان اور عرب ممالک خرید رہے ہیں۔

ہمارے ادارے کس کے وفادار ہیں؟

$
0
0

کسی ریاست کے عوام دوست یا عوام دشمن ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے کہ آیا ریاستی ادارے اور ان کے عہدیدار ریاستی آئین اور قانون کے وفادار ہیں یا پھر حکمرانوں اور ان کے حامی بالادست طبقات کی چاکری کرتے ہیں۔ قانون اور اس پر عملدرآمد کا نظام صرف اسی صورت میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے جب روبہ عمل آنے میں خود کار اور خود مختیار ہو، ایسا نہ ہو کہ ظلم زیادتی ہوجانے کے بعد طاقت کے مقامی سرچشموں سے پوچھے کہ کیا داد رسی کی جائے یا بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے، ظالم پر حقیقی معنوں میں ہاتھ ڈالنا ہے یا محض انصاف کی حکمرانی کا دکھاوا کرنا درکار ہے؟۔ ایسے میں جب اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والی کوئی نرس پولیس کے ہاتھوں زخمی ہوتی ہے یا کوئی لڑکی اس لیے جل کر مر جاتی ہے کہ پولیس اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری معاشرتی زندگی کے اس مکروہ پہلو کی سب سے زیادہ سفاک حقیقت یہ ہے کہ جن طبقات نے طاقت کی پرستش کی یہ مہلک بیماری عام کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ جو لوگ مسئلے کی وجہ ہیں وہی تمام مسائل کو حل کرنے کے واحد دعویدار کے طور پر سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں ماضی کی کچھ یادیں پھر سے تازہ ہورہی ہیں جو آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

ہمارے بزرگوں کے ایک دوست تھے جو طویل عرصہ پنجاب کے ایک معروف چیف سیکریٹری کے پی۔ اے کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ جب کبھی وہ ملنے آتے تو مہمان خانے میں۔ ہم ان کی خدمت پر مامور ہوتے۔ ہمارے یہ مہمان جو اب اس دنیا میں نہیں، اپنی ملازمت کے زمانے کے اہم واقعات بڑے دلچسپ انداز میں سنایا کرتے۔ ایک مرتبہ وہ بھٹو صاحب کے دور میں نرسوں کی ہڑتال اور احتجاج کو ناکام بنانے کی روداد سنا رہے تھے، کہنے لگے ’’جب احتجاج نے طول پکڑا تو چیف سیکریٹری کے دفتر میں تمام بڑے سرجوڑ کر بیٹھے۔ اگلے روز نرسوں نے لاہور کی مال روڈ پر احتجاجی جلوس نکالنا تھا۔ جلوس کو ناکام بنانے کی حکمت عملی پر بحث مباحثہ جاری تھا لیکن کوئی مؤثر نسخہ سامنے نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں لاہور کی انتظامیہ کے ایک اہم افسر نے تجویز پیش کی کہ جب جلوس مال روڈ پر پہنچ جائے گا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس کے چند جوان آگے بڑھ کر جلوس کی قیادت کرنے والی تین چار نرسوں کے گریبان پھاڑ ڈالیں گے۔ یہ کام ہوجانے کے بعد میڈیا کے اور اپنے فوٹو گرافر ان گریباں چاک نرسوں کی تصاویر بنا لیں گے اور پھر ان تصویروں کو اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ دلانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ یہ تصاویر چھپ گئیں تو پھر نرسوں کے گھر والے خود ہی اس تحریک کو ٹھکانے لگادیں گے۔‘‘ یہ منصوبہ فوری طور پر منظور کرلیا گیا اور اگلے دو روز میں واقعی احتجاج اپنے انجام کو پہنچا گیا۔

ہماری حکمت عملیوں کے بنیادی تصورات ریاست سے وفاداری، ملک سے محبت، عوام کی فلاح اور قانون کی حکمرانی کے اعلیٰ اور معروف تصورات سے گر کر گروہی مفادات کے لیے کام کرنے کی گھٹیا ترین سطح پر آچکے ہیں۔

شخصی آزادیوں کی جدوجہد سے شہرت حاصل کرنے والی خاتون مصنفہ ایما گولڈ مین کے مطابق ’’تہذیبی ارتقاء سے مراد فرد یا افراد کے گروہوں کی ریاست کے خلاف مسلسل جدوجہد ہے۔ حتٰی کہ یہ جدوجہد اس معاشرے کے خلاف بھی ہوتی ہے جس میں لوگوں کی اکثریت بالادست اقلیت کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی ہے۔‘‘ اسی طرح عظیم سائنسدان آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ ’’ریاست انسانوں کے لیے بنائی گئی تھی، نہ کہ انسان ریاست کے لیے۔‘‘ ان بیانات کی حقیقت یہ ہے کہ انھیں ریاست کے رد کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کسی ریاست کا تعارف ان طبقات کے رویئے کے توسط سے حاصل ہوتا ہے جو اس ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ طرز حکمرانی جو کسی ریاست میں رائج ہوتی ہے وہی اس ریاست کی پہچان قرار پاتی ہے۔ یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ہمارے تمام ادارے، تمام حکام صرف اور صرف آئین اور قانون کے وفادار ہوں۔ تمام ادارے اور ان کے ذمے داران اپنے پیشہ وارانہ رویئے میں سرتا پا سیکولر ہوں کیونکہ یہاں کے تمام فرقوں اور تمام مذاہب کے لوگ پاکستان کے مساوی شہری ہیں۔ پولیس مقامی عوامی نمایندوں، جاگیرداروں، پیروں، گدی نشینوں اور سرداروں کے بجائے قانون کے سامنے جواب دہ ہو اور جج فیصلوں میں حکام کی منشا کے اسیر نہ ہوں گا تو کسی حاکم کو ظلم کا شکار ہونے والے کسی شہری کے گھر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

دینی اور دنیاوی تعلیم کی نئی جہتیں

$
0
0

میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے تحت مذہبی مدرسوں کو ایک سال کے اندر اپنے قومی نظام تعلیم میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تعلیم دینی ہو یا کہ رسمی اس کی اہمیت ہر زمانے کے معاشرے میں رہی اور رہتی دنیا تک رہے گی۔ اسی علم کی بدولت فرشتوں کو اﷲ کے حکم پر حضرت آدمؑ کے آگے تعظیمی سجدہ کرنا پڑا۔ انسان اس لیے اشرف المخلوقات ہے کہ اﷲ نے تمام مخلوقات سے بڑھ چڑھ کر علم دیا، اسی علم کی بنا پر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ (نائب) بناکر بھیجا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ انسان علم کا خزانہ لے کر پیدا ہوتا ہے بلکہ انسان کی فطرت میں اﷲ تعالیٰ نے یہ استطاعت رکھ دی ہے کہ اگر وہ علم سے سرشار ہونا چاہے تو ہوسکے ورنہ دیگر اپنی بے سمجھی بے علمی کی بنا پر دینی اور دنیاوی ترقی کے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔ حقیقی ترقی کے لیے اشد ضروری ہے کہ یکساں نظام تعلیم اور درست طریقہ تعلیم رائج کیا جائے۔

تعلیم کا مقصد محض حصول روزگار نہیں ہے، بامقصد تعلیم فرد کو معاشرے کے لیے ذمے دار شہری اور کارکن بناتی ہے، اس طرح ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی مقاصد اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق ہونا بھی لازم ہے، چونکہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے اس لیے اسلامی تعلیم کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی تعلیم فرد کو زندگی کا مقصد اور درست طرز زندگی اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کردیتی ہے اور فرد کی زندگی درست راستے پر گامزن ہوجاتی ہے، اس طرح ایک مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ سوچ کسی بھی طرح سے درست نہیں کہ دینی علوم کے علاوہ رسمی تعلیمی حاصل نہ کی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز پاکستان میں مخصوص نظریات کے حامل دینی و مذہبی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے خود ساختہ تشریح کی بنا پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس سے ملک و قوم کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بھی کافی حد تک نقصان اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام بیک وقت دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے دینی تعلیم حاصل کرلینے سے فرد ایک عمدہ نمونہ اخلاق بن جاتا ہے اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے فرد اپنے ذہنی رجحان کے مطابق شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ آج ہم یہ گلہ کرتے پھرتے ہیں کہ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں نہیں ہیں، ٹیکنالوجی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ تو کیا کبھی اس جانب غور کیا گیا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہم نے صرف اپنا نام لکھنے پڑھنے کی حد تک تعلیم عام کی ہوئی ہے اگرچہ ہم نے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے لیکن عملاً ہم نے طبقاتی نظام تعلیم اور سیلف فنانس اسکیموں، بے سراپا اور مہنگی لچر تعلیم کی حوصلہ افزائی کرکے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ملک و قوم کو شعبہ تعلیم میں نقصان پہنچانے والے لوگ ان پڑھ اور جاہل نہیں تھے ماہرین تعلیم میں ان کا شمار آج بھی کیا جاتا ہے ملک و قوم کے مفاد کا تقاضہ ہے کہ نام نہاد تعلیمی ماہرین کا بھی احتساب عوامی عدالت میں کیا جائے اور حقیقی ماہرین تعلیم کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

بات ہو رہی تھی دینی اور دنیاوی تعلیم کی دونوں تعلیم لازم و ملزوم ہیں انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم و تربیت میں انسان کے مزاج کی درستی اور اخلاق و عادات کو سنوارنا ہوتا ہے لہٰذا ذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ ساتھ اخلاق و عادات کا سدھار بھی ضروری ہے۔ ہجرت مدینہ کا ایک نہایت اہم اور روشن پہلو یہ تھا کہ مسلمان وہاں جاکر تعلیم و تربیت حاصل کریں، چنانچہ تعلیم کی یہ اہمیت تھی کہ اگر کسی مرد کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہوتی تو اس کا اپنی بیوی کو لکھا پڑھا دینا بھی مہر تصور کرلیا جاتا تھا اور دین اسلام میں ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ توبہ کی 122 ویں آیت میں (تفقہ فی الدین) کے الفاظ آئے ہیں بات کی آسانی کے لیے مذکورہ آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل آتے اور دین کی سمجھ (تفقہ فی الدین) پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر اسلامی روش سے) پرہیز کرتے‘‘۔ یہاں (تفقہ فی الدین) سے مراد دین میں سمجھ اور نظام کی بصیرت اور اس کے مزاج سے آشنائی ہے تاکہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے کے متعلق جانا جاسکے کہ کون سا طریق فکر اور کون سا طرز عمل روح دین کے مطابق ہے ۔ اسلام کے اس قانونی علم کو ’’فقہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ملک بھر میں مدارس کھل گئے اور مفتی تعلیم کا رواج عام ہوا اور بعض مدرسوں نے عربی کے علاوہ کوئی دوسری زبان خصوصاً انگریزی سیکھنادرست نہیں سمجھا۔ نتیجتاً تمامتر صلاحیتیں ایک مخصوص دائرے میں آ گئیں جسے اصل کارنامے سے تعبیر کیا جانے لگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کی اچھائیوں کو اجاگر کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کمزوریوں کو دور کیا جائے اور انھیں مختلف النوع مثبت راستوں پر گامزن کیا جائے تاکہ ملک و قوم شعبہ تعلیم میں بھی ترقی کرسکے ۔

تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ملک بھر میں 245 مدارس تھے، 1988 میں 2861 اور دو ہزار میں 6761 ہوگئے تھے اور اب 2014 میں ان مدارس کی تعداد تقریباً 22 ہزار بتائی جاتی ہے۔ جو ملک کے چاروں صوبوں میں قائم ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دین اسلام ہر مرد و زن کو تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، یہ امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ دینی تعلیم و تربیت سے وابستہ حلقوں کو اس جانب بھی غور و فکر کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو دینی و رسمی تعلیم دلوائی جاسکے کیونکہ تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ قوم جنم دے سکتی ہے اور اس حقیقت سے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے، اگر ماں کی تربیت اچھی ہوگی تو لامحالہ بچے کی تربیت بھی خوب ہوگی، بس اس چھوٹی سی بات کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے پھر دیکھیے کس طرح ہمارا معاشرہ بھی تعلیم یافتہ کہلائے گا۔

انڈوپاک فنکاروں کی آمدورفت کا احوال

$
0
0

پاکستان اور بھارت کے درمیان فنکاروں کی آمدورفت کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو بہت سے فنکاروں نے بھی ہجرت کی۔ پاکستان سے کئی ہندو اور سکھ فنکار اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھارت چلے گئے، وہاں سے کئی مسلمان فنکار اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے۔ اس حوالے سے کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ پاکستان سے امرتا پریتم اور گلزار نے ہجرت کی تو بھارت سے سعادت حسن منٹو اور استاد بڑے غلام علی خان آئے۔ وقت جیسے جیسے گزرتا گیا، یہ آمدورفت کم ہوتی چلی گئی اور پھر ایک نکتے پر آکر جمود طاری ہوگیا۔

پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 اور 1971 کی دو جنگیں ہوئیں اور آمدورفت کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔ فنکار بھی اسی پابندی کا شکار ہوئے اور وہ لوگ بھی، جنھیں اپنے آبائی علاقوں سے محبت تھی، وہ لوگ اپنی آنکھوں میں نور اتارنے دم بھر کو زیارت کے لیے آجایا کرتے تھے۔ دونوں طرف کی سیاست نے جذبات کو کچلا اور فنکار بھی ان پابندیوں سے مجروح ہوئے۔

دونوں ممالک کی زبان جسے ہم ’’اردو‘‘ اور وہ ’’ہندی‘‘ کہتے ہیں، اس کے ذریعے دونوں طرف کے فنکاروں کے فن سے ہم عوام بخوبی واقف ہیں، اسی لیے دونوں طرف مداحوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، وہ سرحدی لکیر کو سوچے بغیر فنکار کو چاہتے ہیں، ہم سرحد کی باڑ کو دیکھے بغیر فنکار کو پسند کرتے ہیں، جب فنکاروں کی اتنی مقبولیت ہو تو انھیں دیکھنے اور سننے کو بھی دل چاہتا ہے۔

وقت کے بہاؤ پر دھیرے سے برف پگھلنا شروع ہوئی اور 80 کی دہائی میں آمدورفت کا سلسلہ بحال ہونا شروع ہوا اور کئی مرتبہ موقوف ہونے کے باوجود جاری ہے۔ دونوں ممالک کے فنکاروں نے ایک دوسرے کے ملکوںکا دورہ کیا اور مشترکہ ثقافتی منصوبوں پر کام بھی کیا۔ ہمارے کئی اداکاروں نے بھی وہاں کی فلموں میں کام کیا، کئی گلوکاروں نے اپنی آوازوں کا بھی جادو جگایا۔ بھارت سے بھی فنکار پاکستان آنے لگے اور یوں میل جول کے ساتھ ساتھ مل جل کر کام کرنے کا سلسلہ پھر سے چل نکلا۔

80 کی دہائی میں پاکستان کی معروف گلوکارہ ریشماں بھارت نجی محفل میں گانے کے لیے گئیں تو وہاں انھیں معروف بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار سبھاش گھئی نے سنا، تو بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اس وقت اپنی آنے والی فلم ’’ہیرو‘‘ میں گلوکارہ ریشماں سے ایک گیت گوایا، جس نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ سلمیٰ آغا نے اپنی بھارتی فلم ’’نکاح‘‘ سے بھارتی فلموں میں پس پردہ گائیکی کی ابتدا کی۔ اس فلم میں ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘ جیسا گیت گاکر اپنی جگہ بنائی۔ اس فلم کے سات گانوں میں سے پانچ سلمیٰ آغا نے گائے۔ یہی وہ فلم بھی تھی، جس میں انھوں نے راج ببر کے ساتھ اداکاری کی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی موسیقی بے حد زرخیز تھی اور پاکستان کی ایک اور منجھی ہوئی آواز غلام علی نے ’’چپکے چپکے رات دن ‘‘جیسا گیت گاکر اپنی آواز سے فلم بینوں کو مسحور کردیا۔

پاکستان سے دو مزید پاکستانیوں نے بھارتی فلمی صنعت میں قدم رکھا، ان میں سے ایک اداکار اور دوسرا کرکٹر تھا۔ 1989 میں دونوں کی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یہ دونوں طلعت حسین اور محسن حسن خان تھے۔ طلعت حسین نے فلم ’’سوتن کی بیٹی‘‘ میں ایک وکیل کا کردار نبھایا، شاید ان کا یہ تجربہ بہت اچھا نہیں رہا، کیونکہ اس کے بعد انھوں نے مزید بھارتی فلموں میں کام نہیں کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ جیتندر اور ریکھا جیسے فلمی ستارے شامل تھے۔

پاکستانی کرکٹر محسن حسن خان جنھوں نے وہاں رینا رائے سے شادی بھی کی اور بھارتی فلموں میں بھی خوب کام کیا، بھارت میں ان کی پہلی فلم ’’بٹوارہ‘‘ تھی۔ اس فلم میں ان کے علاوہ دھرمیندر، ونودکھنہ، ڈمپل کپاڈیہ اور شمی کپور جیسے فلمی ستاروں کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کے بعد بھی انھوں نے کافی بھارتی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

90 کی دہائی کے پہلے برس 1991 میں پاکستانی ڈراما نگار حسینہ معین نے راج کپور کی فرمائش پر بھارتی فلم ’’حنا‘‘ لکھی، جس میں پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے کام کیا، جب کہ ان کے مقابل رشی کپور جیسا بھارتی اداکار تھا۔ اسی طرح بھارتی فلمی صنعت میں پاکستانی شاعر قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیتوں نے دھوم مچائی۔ اس کے بعد کئی مشاعرے بھی ہوئے، جس میں دونوں ممالک کے شاعر ایک دوسرے کے ہاں آئے اور گئے۔

قتیل شفائی نے بھارتی فلموں کی گیت نگاری میں اپنی دھاک بٹھائی اور بہت سے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان ہی برسوں میں عدنان سمیع خان بھارت گئے اور آشا بھوسلے کے ساتھ اپنی میوزک البم ’’سرگم‘‘ کے لیے کئی گیت گوائے، مگر بعد میں سید نور کی فلم ’’سرگم‘‘ میں بھارتی فنکاروں پر پابندی کی وجہ سے یہ گیت حدیقہ کیانی کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔

1997 میں نصرت فتح علی خان نے بھارتی فلم ’’اور پیار ہوگیا‘‘ میں اپنا پہلا گیت گاکر شائقین موسیقی کے دلوں پر حکمرانی قائم کرلی۔ انھوں نے بھارتی گیت نگار جاوید اختر اور بھارتی موسیقار اے آر رحمان کے ساتھ بھی ایک ایک البم پر بھی کام کیا۔ 1998 میں بھارتی فلمی صنعت کے شہنشاہ دلیپ کمار نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کے ہاتھوں اعلیٰ ترین سول اعزاز ’’نشان امتیاز‘‘ حاصل کیا۔

2000 کی دہائی کی ابتدائی برس کافی متحرک ثابت ہوئے اور اب بھارتی فنکاروں کی آمد کے سلسلے میں تیزی آئی۔ 2001 میں ’’کراچی بین الاقوامی فلمی میلہ‘‘ شروع ہوا، جس کو کافی پسند کیا گیا، اس میں لگاتار کئی برسوں تک بھارتی فنکاروں کی پاکستان آمدورفت جار ی رہی، ان فنکاروں میں مہیش بھٹ، انوپم کھیر، عرفان خان، نندیتا داس اور دیگر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان سے معین اختر اور عمر شریف نے بھارت کے کئی دورے کیے۔ 2003 میں پوجابھٹ نے اپنی فلم ’’پاپ‘‘ میں پاکستانی شاعر امجد اسلام امجد کا لکھاہوا اور راحت فتح علی خان کا گایا ہوا گیت لیا، اس گیت سے راحت کے لیے بھارتی فلمی موسیقی کے دروازے کھل گئے۔ وہ اب تک درجنوں فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہیں اور پاکستان کے سب سے مہنگے گلوکار ثابت ہوئے ہیں۔

2004 میں بھارتی سپر اسٹار عامر خان پاکستان تشریف لائے اور عمران خان کی دعوت پر لاہور اور کراچی میں ان کے کینسر اسپتال کے لیے عطیات اکٹھے کیے۔ 2007 میں پاکستانی غزل گلوکارہ فریدہ خانم بھارت گئیں اور لتامنگیشکر سمیت وہاں کی بڑی شخصیات سے ملیں، جن میں بھارتی صدر من موہن سنگھ بھی شامل ہیں۔ پاکستانی صوفی گائیکی کی نمایندہ عابدہ پروین نے بھارتی شاعر، فلمی ہدایت کار، موسیقار مظفر علی کے اشتراک سے جشن خسرو میں اپنے سر بکھیرے اور متعدد البم میں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ انھی برسوں میں عدنان سمیع خان، شفقت امانت علی خان، عاطف اسلم، جاوید بشیر، فیصل کپاڈیہ، رفاقت علی خان، علی عظمت، علی ظفر اور دیگر گلوکاروں نے بالی ووڈ میں اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ بھارت سے جگجیت سنگھ، دلیر مہندی، ہنس راج ہنس، سکھبیر، سونونگم، کمارسانو، الکا اور دیگر بھارتی گلوکار مختلف مواقع پر پاکستان آئے اور نجی محفلوں میں گایا۔

2009 میں پاکستانی اداکار ہمایوں سعید نے بھارتی فلم ’’جشن‘‘ میں اداکاری کی اور پاکستانی گلوکار نعمان جاوید نے گانے گائے۔ علی ظفر اب تک چار فلموں میں کام کرکے بھارتی فلم بینوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے فلمی حلقوں میں اپنا نام بناچکا ہے۔ بھارتی سینئر فلمی اداکار نصیرالدین شاہ نے دو پاکستانی فلموں ’’خداکے لیے‘‘ اور ’’زندہ بھاگ‘‘ میں کام کرنے کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔

2013 میں بھارتی شاعر اور ہدایت کار گلزار پاکستان آئے، لاہور اور جہلم کا دورہ کیا۔ اسی برس کے آخر میں کراچی تشریف لائے، اس موقع پر انھوں نے ذرایع ابلاغ کو خبر نہیں دی، ان کے علاوہ جوہی چاؤلہ بھی متعدد بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کراچی آچکی ہیں۔ پاکستان سے میرا، ویناملک، عمران عباس، جاوید شیخ، میکال ذوالفقار، مونالیزا، ثنا نے مختلف نوعیت کی بھارتی فلموں میں اپنے کردار نبھائے ہیں۔

پاکستان سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کراچی، اجوکا تھیٹر لاہور سمیت نوجوان فنکاروں پر مشتمل کئی وفود بھارت کے مختلف شہروں میں جاکر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں جاری ’’عالمی تھیٹر میلے‘‘ میں بھارت سے نوجوانوں پر مشتمل ایک تھیٹر کا وفد اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ دونوں ممالک کے فنکاروں کی آمدورفت کا سلسلہ 2014 میں اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔رواں برس کے پہلے تین مہینوں میں بھارت سے شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ، اوم پوری، دیویا دتہ آچکے ہیں۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے فنکار دونوں خطوں کے محبت کرنے والے عوام کو ایک دوسر ے سے قریب لانے میں کامیاب ہوں گے ۔

بلوچستان : عوام کہاں جائیں

$
0
0

بلوچستان کے حالات اسی طرح سے ہیں جس طرح پہلے تھے۔ صوبہ دہشت گردی، انتہا پسندی، پسماندگی، اغوا برائے تاوان سمیت دیگر کئی مسائل میں کمی کے بجائے اضافے سے دوچار ہے۔ عوام نے عام انتخابات کے بعد نئی صوبائی حکومت سے کئی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ بلوچستان میں پائی جانے والی شورش زدہ کیفیت میں کمی واقع ہوگی لیکن یہ وہ صوبہ ہے کہ جہاں وزیراعلیٰ کی نامزدگی مسئلہ بنی رہی اور پھر چار ماہ تک صوبائی کابینہ بڑی لے دے کے بعد بنی، یعنی سیاسی صورت حال ہی مستحکم بنیادوں پر ہی قائم نہیں ہوسکی، جب کہ ان دنوں اتحادی جماعتوں میں کھینچا تانی جاری ہے۔ ن لیگ جو کہ ابتدا ہی سے صوبہ کی بڑی جماعت بن کر ابھری اور اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی معاملہ فہمی کے باعث وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑا مگر وہ اب نالاں ہے۔ مالک بلوچ مسلسل انھیں نظر انداز کر رہے ہیں، اس حوالے سے ان کے تحفظات ہیں جوکہ خاطر میں نہیں لائے جارہے۔ اس کشمکش صورت حال کی وجہ سے قیام امن اور عوام کا تحفظ مسلسل خطرات سے دوچار ہے۔

مسائل کے انبار لگ رہے ہیں، معاشی ترقی ابتری کی جانب رواں دواں ہے۔ عوامی حلقے اپنے مسائل کے حل کے لیے سرگرداں ہیں۔ 11 مئی 2013 سے قبل بھی صوبہ آگ کی لپیٹ میں تھا اور اب بھی اس میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ زائرین سابقہ دور میں بھی لقمہ اجل بن رہے تھے جب کہ موجودہ دور میں بھی انھیں عدم تحفظ کے خطرات لاحق ہیں۔ یہ کہا جانا بے جا نہ ہوگا کہ اب بھی حکومتی رٹ نہیں دکھائی دیتی البتہ حکومت اپنی رٹ کی رٹ لگاتی دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور عام افراد سمیت حکومتی شخصیات کا اغوا عام بات ہوگئی ہے۔ چند دن قبل صوبے کے قبائلی و مذہبی رہنما سید احمد شاہ قبائلی رہنماؤں کی جدوجہد کے بعد چھ ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بازیاب ہوئے تھے کہ ڈسٹرکٹ کچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اور تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حسین بلوچ اغوا ہوگئے اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے جانے والی ٹیم بھی اغوا کرلی گئی۔ ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبے میں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں مگر ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات نہیں کیے جارہے۔

درست ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان کے حالات گمبھیر صورت حال اختیار کر گئے لیکن بعد کی حکومتیں اس پر بہتری لانے میں ناکام کیوں رہیں۔ ایڈولف ہٹلر نے کہا تھا کہ کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانی ہو تو سب سے پہلے اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اس قدر مشکوک بنادیا جائے کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ یہی صورت حال یہاں پائی جاتی ہے۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ صوبے میں زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں میں سب سے بڑھ کر پاک آرمی نے خدمات انجام دیں لیکن مسلسل انھیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ مختلف مقامات پر امداد و بحالی پر مامور ٹیموں کو ہدف بناکر نقصان پہنچایا گیا حالانکہ فوج کا کسی بھی لحاظ سے محاذ آرائی کا ارادہ نہ تھا۔ شرپسندی بہرکیف عروج پر ہے، جو خود ان کے لیے اور صوبہ بھر کے پسماندہ عوام کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ 2013 میں ایف سی کے 360 اہلکار شہید کیے گئے۔ پولیس بھی مسلسل خطرات کے باوجود فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل ہے۔

لاپتہ افراد کی تعداد میں بھی کمی واقع نہیں ہورہی۔ کچھ لوگ تاوان کی ادائیگی کی صورت میں رہا یا بازیاب ہوئے مگر ایک بڑی تعداد اب بھی لاپتہ کے زمرے میں شمار ہورہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ایک المیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماما قدیر خواتین سمیت ایک قافلے کی صورت گزشتہ سال ستمبر سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے لانگ مارچ کر رہے تھے۔ کسی حد تک اس حوالے سے پیش قدمی بھی نظر آئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سرگرم دیکھا گیا لیکن خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبر کے انکشاف نے تشویش کی ایک نئی لہر کو ہوا دی ہے۔ یہ ایسا دل گداز واقعہ ہے کہ اگر یورپ یا کسی اور متمدن ملک میں ایسا کوئی سانحہ رونما ہوتا تو ممکن ہے لوگ حواس باختہ ہوجاتے، آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا، انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا مچادیتیں۔ لیکن بلوچستان چونکہ ملک کا پسماندہ صوبہ ہے اور یہاں عرصہ دراز سے کشت و خون کا بازار گرم ہے روزانہ کی بنیاد پر لاشیں گر رہی ہیں اسی وجہ سے نظر انداز کرنا یا سرکاری سطح پر خاموشی اختیار کرنا غیر معمولی کیفیت نہیں۔ بھلا ہو ہمارے ملک کی عدلیہ کا جو اس صورت حال میں بھی عوام کی داد رسی کے لیے متحرک ہے کہ موجودہ چیف جسٹس نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے از خود نوٹس لیا اور اجتماعی قبر کی تحقیقات کا بیڑا اٹھایا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں بی این پی مینگل نے اس حوالے سے آواز بلند کی مگر ان کی یہ آواز حکومتی بنچوں تک باز گشت نہ پیدا کرسکی۔ دوسری جانب اس سانحے کے چند دن بعد ہی سبی کے بیدار قبرستان کے قریب پانی کے جوہڑ سے ایک تشدد زدہ نوجوان کی بوری بند لاش ملی جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

الغرض یہ کہ صوبے کے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے عوام قدرتی گیس سے محروم ہیں۔ حالانکہ یہ گیس اس صوبے کی پیداوار ہے، اسکول بند ہیں، اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں، سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اول تو عوام عدم تحفظ کے باعث گھروں میں ہی محصور ہیں اور اگر نکلیں بھی تو نوگو ایریاز کے باعث محدود حد تک کسی قسم کی سرگرمی انجام دے سکتے ہیں۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا راگ الاپا جارہاہے جب کہ صوبائی حکومت اختیارات سے بہرہ ور نہیں۔ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا جو عسکریت پسندوں کو توانائی پہنچانے کا باعث ہے جس سے نہ صرف معاشی و اقتصادی معاملات پر قدغن ہے بلکہ ریاست کمزور کی جارہی ہے اور عالمی سطح پر صوبے کا چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ اب کون بتائے کہ بلوچستان کے مسائل جن سے عوام مسلسل نبرد آزما ہے ان کو حل کون کرے گا۔ حکمران یقین دہانیوں پر زور دیتے ہیں اور صوبے میں سیاسی صورت حال مستحکم نہیں۔ عوام کا پرسان حال کون ہوگا؟

تجدید عہد کا دن

$
0
0

18 مارچ ایک تاریخ ساز دن ہے، اس دن ایک عہد ساز شخصیت نے پاکستان کی روایتی جاگیردارانہ، وڈیرانہ، بے لگام سرمایہ دارانہ اور سردارانہ سیاست پر کاری ضرب لگائی اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی۔ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ عہد ساز شخصیت الطاف حسین ہیں جو نہ تو پاکستان کے روایتی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیںاور نہ ہی کوئی سیاسی پس منظر۔ اس کے باوجود الطاف حسین نے مظلوموں، محروموں اور ظلم کا شکار عوام کے حقوق کی جدوجہد کا بیڑا اٹھایا اور عوام کے احساسات کی ترجمانی کی تو لوگ ان کے ساتھ جڑتے گئے اور ایک ایسی تنظیم نے جنم لیا جسے آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم سے قبل غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تعلیمی قابلیت، صلاحیت اور اہلیت رکھنے کے باوجود سیاست کرنا شجرممنوعہ تصور کیا جاتا تھا، سیاست کرنا اور ایوانوں کی رکنیت حاصل کرنا بڑے بڑے دولتمندوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی بلاشرکت غیرے جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ بڑی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عام کارکنان کا کام صرف جلسے میں دریاں بچھانا، جھنڈے و بینرز لگانا اور اپنے رہنماؤں کے لیے تالیاں بجانا رہ گیا تھا اور ان جماعتوں کے محنتی، ایماندار اور تعلیم یافتہ کارکنان کے لیے اپنی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں اور ایوانوں کی رکنیت کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ الطاف حسین نے سب سے پہلے میدان سیاست میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی اس اجارہ داری کو ختم کیا اور اپنی جماعت کے غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ، ایماندار اور باصلاحیت افراد کو بلدیاتی اداروں، صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کے درمیان بٹھا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی، عوام کی فلاح و بہبود اور صحیح معنوں میں جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہی الطاف حسین کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور اس جرم کی پاداش میں آج تک ایم کیوایم کو تعصب اور عصبیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

معاشرے کی اصلاح کے لیے قائد تحریک الطاف حسین نے جو کردار ادا کیا ہے کہ اس کی مثال ہمیشہ دی جاتی رہے گی۔ الطاف حسین ایک سیلف میڈ سیاسی رہنما اور مظلوم عوام کے لیے عطیہ خداوندی ہیں۔ انھوں نے ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک استاد کی طرح اپنے کارکنان کی اخلاقی تربیت کی، فکری بنیادوں پر ان میں شعوری بیداری کا عمل کیا، ڈگریاں رکھنے والے کارکنان و عوام کوغربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث معاشرتی برائیوںسے محفوظ رکھنے کے لیے محنت کے کسی بھی کام سے جی نہ چرانے کا مسلسل درس دیتے رہے اور انھیں معاشرے میں اچھے انسان کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے جب مسلسل بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے باعث نوجوان طبقہ معاشرتی برائیوں میں ملوث ہورہا تھا اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان رکشہ ٹیکسی چلارہے تھے، فروٹ اور سبزی کے ٹھیلے لگا رہے تھے، گنے کا جوس بیچ کر رزق حلال کما رہے تھے اور انھیں محنت کے کسی بھی کام میں شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یہ سب الطاف حسین کی مسلسل تعلیم اور تربیت کا نتیجہ تھا لیکن جب الیکشن کے موقع پر پارٹی ٹکٹ دینے کا مسئلہ آیا تو الطاف حسین نے میرٹ کی بنیاد پر پارٹی کے محنتی اور باصلاحیت کارکنان کو ترجیح دی، رکشہ ٹیکسی چلانے والے اسمبلیوں کے رکن بن گئے اور ٹیلی فون آپریٹر کراچی کا ناظم بن گیا۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ان جماعتوں میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے، ہر پارٹی کے اعلیٰ عہدوں، ایوانوں کی رکنیت اور وزارت کے مناصب پر خاندانی تسلط واضح دکھائی دیتا ہے جب کہ الطاف حسین نے موروثی سیاست کے خلاف محض نعرے نہیں لگائے بلکہ نہ تو انھوں نے خود کبھی کسی الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ہی کبھی اپنے بہن بھائی، بھانجے بھتیجے کو بھی ان مراعات سے دور رکھ کرثابت کردیا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ الطاف حسین اپنے کارکنان کو تحریک کی ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دیتے ہیں اور انھوں نے اپنے ذمے داران اور منتخب نمایندوں کو ہمیشہ کارکنان و عوام کی عزت کرنے کا درس دیا ہے۔ ایم کیو ایم سے بدترین مخالفت رکھنے والے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے غریبوں کا سر اونچا کیا ہے اور پارٹی کے عام کارکنوں کو جو عزت ایم کیو ایم میں دی جاتی ہے دیگر جماعتوں میں اس کا تصور بھی نہیں ملتا۔

آج ایم کیوایم، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تسلیم کی جاتی ہے، صرف سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور گلگت میں بھی ایم کیوایم کے منتخب نمایندے موجود ہیں جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایم کیوایم کی شاخیں قائم ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل خاص طور پر تاریخ اور سیاسیات کے طالبعلموں کے لیے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ایم کیوایم کو یہ مقام راتوں رات نہیں ملا بلکہ اس عظیم الشان کامیابی کے پیچھے الطاف حسین کی 30 سالہ شب و روز مسلسل محنت و لگن اور اس کے کارکنان و عوام کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ایم کیوایم کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے آگ و خون کے کئی دریا عبورکرنے پڑے ہیں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ایم کیوایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کراچی کی مہاجر بستیوں پر منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے حملے کرائے گئے، حق پرستانہ جدوجہد کی پاداش میں سندھ کے شہری علاقوں میں گھرگھر صف ماتم بچھائی گئی، ایم کیوایم کو کچلنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ریاستی آپریشن کیے گئے، الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین سمیت ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہزاروں نے قیدوبند کی صعوبتیںبرداشت کیں اور آج تک ریاستی مظالم کا نشانہ بنائے جارہے ہیں اور ہزاروں کارکنان ریاستی ظلم وستم اور جبرواستبداد کے باعث جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن ظلم وجبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ انھیں حق پرستانہ جدوجہد اور الطاف حسین سے عقیدت و محبت سے باز نہ رکھ سکا۔ تمام تر مصائب و مشکلات، قتل و غارتگری اور منفی پروپیگنڈوں کے باوجود، روایت شکن ایم کیوایم کا طرز سیاست آج پاکستان بھر کے غریب و متوسط طبقے کے عوام کے دلوںمیں گھرکرچکا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی سلامتی و بقا، ترقی وخوشحالی، ملک سے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایم کیوایم امید کی آخری کرن ہے۔ ملک بھرکے مظلوموں کو چاہیے کہ وہ ایم کیوایم کی طرح اپنی صفوں سے ایماندار قیادتیں نکال کر ایم کیوایم کے فکروفلسفہ کو عام کریں تاکہ پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل کیا جاسکے۔

جمود شکن تحریک، ایم کیو ایم

$
0
0

تقسیم ہند کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والا ہمارا وطن اپنے قیام کے بعد سے ہی ایسے طالع آزماؤں کے ہاتھوں میں چلا گیا جو نہ صرف عوام کے حقوق سے کھیلتے رہے بلکہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے فارمولے پر انتہائی تیزی کے ساتھ عمل کرتے رہے اور اس طرح کا ماحول پیدا کردیا کہ وطن عزیز پر ایک جمود سا طاری ہوگیا اور یوں اس ملک پر چند سو خاندانوں کی حکومت کا طلسم قائم ہوگیا۔ عوام اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہے تھے کہ وہ زندہ رہیں اور سانسیں لیتے رہیں۔ حقوق کا مطالبہ اور زندہ رہنے کا حق مانگنا جرم بنادیا گیا۔ پاکستان کے عوام ایک جمود کا شکار ہو گئے۔ کوئی بھی نظریہ اور کوشش اس لیے کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی کہ یا تو اس تحریک کو چلانے والے نیتوں میں صاف نہ تھے یا پھر انھیں استعماری طاقتوں نے راستے سے ہٹا دیا۔ ملک میں طالع آزماؤں کی حکومتیں مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئیں اور عوام کا نظریاتی تشخص ابھی بننے بھی نہ پایا تھا کہ بکھر گیا اور یہ قوم کئی نسلوں، کئی لسان اور کئی فرقوں اور مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔

اجتماعی طور پر بنیادی حقوق کا تصور مٹ گیا۔ اس جمود زدہ معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں 18 مارچ 1984 کو قائد تحریک الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈال کر پہلا پتھر مارا۔ وہ نظریہ جس نے کراچی کی مادر علمی میں جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کراچی، صوبہ سندھ اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلنے لگا۔ آج گلگت، بلتستان اور کشمیر سمیت سندھ کے ساحلوں سے لے کر خیبر پختونخوا کی پہاڑی وادیوں تک یہ نظریہ اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کی زندہ دلیل ہے کہ سچائی اور عملیت پسندی کے تقاضوں پر پورا اترنے والا نظریہ تمام تر مشکلات، مصائب اور تکالیف کے باوجود فروغ پاتا ہے۔ کوئی بھی قوت لاکھ پہرے لگائے لیکن یہ انسانوں کے ذہنوں کو منور کرتا ہے اور ایسے قائد کو دلوں کا حکمراں بنادیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ ہوا۔ ان کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ سیکڑوں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسیری، تشدد ایم کیو ایم کے کارکنان کا مقدر بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ سفر نہ رک سکا۔ یہ استقامت صرف اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ عوام کے حقوق اور زندہ رہنے کے لیے ضروریات کا حصول اس نظریے کے تحت آنے والے نظام میں نظر آتا ہے۔ اسی لیے الطاف حسین کے نظریہ سیاست نے اس تبدیلی کو ممکن کر دکھایا جسے ہم جمود میں رہتے ہوئے شناخت نہیں کر پا رہے تھے۔

یوں قائد تحریک الطاف حسین کی شخصیت اور ایم کیو ایم تبدیلی کی علامت بنے اور سرزمین پاکستان کے نظام پر قائم جمود کو توڑنے کا ذریعہ بنے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج پورے ملک میں عوامی نمایندوں کا احتساب ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گو کہ آج بھی موروثی نظام ، جاگیرداریت، وڈیرہ شاہی اور سرداریت بدستور قائم ہے، لیکن اس حقیقت میں دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی محنت نے اس مضبوط نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اب یہ ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر ڈالنے کے لیے اپنی جدوجہد تیز کریں اور اگر ملک کے نظام اور جغرافیہ کے خلاف کوئی قوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف ہر ممکن طاقت کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اگر فوج کو آگے آنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین کی آواز ان ظالموں کے خلاف 2001 میں ہی بلند ہو گئی تھی اور وہ مسلسل اس قوت کو پاکستان کی سا لمیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اورمسلسل آگاہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے عاقبت نااندیش سیاسی اکابرین اور حکمران ان کا تمسخر اڑاتے رہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آج وہی عناصر ریاست پاکستان کی تباہی کے خواہاں ہیں۔

اسی سلسلے میں ایم کیو ایم کے زیر اہتمام پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صوفیائے کرام کانفرنس منعقد کی گئی جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر ایک روشن خیال جمہوری نظام کے لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہو کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائیں تو اس کے بعد ممکن ہے کہ افواج پاکستان بھی وطن عزیز کے جغرافیے کی حفاظت کا فریضہ بھی حوصلے سے سرانجام دیں گی اور انھیں اس بات کا یقین ہوگا کہ قوم ان کی پشت پر ہے۔ یہ اس سیاسی جماعت کی تاریخ اور کارکردگی ہے جس کے منتخب نمایندوں نے کراچی، حیدر آباد، میر پورخاص، نواب شاہ اور سکھر میں بلدیاتی نظام کے ذریعے ایسی مثالیں قائم کیں جنھیں دیکھ کر ملک کے دیگر حصوں کے عوام نے بھی اپنے منتخب سیاسی نمایندوں سے نہ صرف سوال کیے بلکہ ان کا احتساب بھی کارکردگی کی بنیاد پر کیا اور یہ الطاف حسین کے نظریے کی سچائی اور کامیابی ہے کہ اب ملک میں رائج جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ نظام کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اس نظام کے خونی پنجوں نے ریاست پاکستان کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے اور اسی سبب 16 دسمبر 1971 کو وطن عزیز دولخت ہوگیا۔

آج ضرورت امر کی ہے کہ ہم بانیان پاکستان بالخصوص قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات اور تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کریں اور ان تحفظات کو ختم کریں جو پاکستانی قوم کی تشکیل کی راہ میں حائل ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو معاملات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، وہ اختیارات خواہ وہ مالی ہوں یا انتظامی، اسی جذبے کے ساتھ ضلع اور ڈویژنز کو منتقل کیے جائیں تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جائیں۔ ماضی کی طرح آج بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم تنقید کی زد پر ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ گزشتہ 35 برسوں میں جتنی تنقید ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر کی گئی، اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ ہر تنقید اور الزام بے بنیاد اور جھوٹا ثابت ہوا۔ آج کے اس مشکل ترین دور میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے قائد الطاف حسین کی قیادت میں نہ صر ف متحد ہیں بلکہ ان کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ ان کی قیادت میں اپنی منزل مقصود پر ضرور پہنچیں گے اور ملک سے جبر کا نظام ختم کرکے انصاف کا نظام قائم کریں گے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے اور اقتدار کی طاقت سے عوام کو ان کے حقوق دلا کر انھیں بااختیار بنائیں گے۔ آج کا دن تجدید عہد کا دن بھی ہے۔ اس عہد کی تجدید کا دن جسے ہم نے تحریک میں شمولیت کے وقت اختیار کیا۔ آج کا دن ہم کارکنان کے لیے انفرادی احتساب کا بھی دن ہے کہ آیا ہم اپنے فرائض منصبی احساسِ ذمے داری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان میں رائج جمود جو اب شکستہ ہورہا ہے، وہ ختم ہوگا اور وطن عزیز اس عظیم ریاست کی شکل اختیار کرے گا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے عظیم جدوجہد کی، لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی تقسیم کی بنیاد پر برپا ہوئی۔ ہم سب مل کر نہ صرف ان قربانیوں کا تحفظ کریں گے بلکہ ان کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔

(نوٹ: ایم کیو ایم کے تیسویں یوم تاسیس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون )


کیچڑ میں لتھڑا جسم

$
0
0

صحرائے تھر میں متاثرین کی بحالی اور کام کی نگرانی کے لیے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا دورہ تھر اس لحاظ سے منفرد اور انسانیت کے دامن پر ایک گہرا طنزیہ داغ ہے کہ قحط زدہ علاقے میں انواع و اقسام کی دعوت شیراز کا منظر اپنے اندر ایک گہری معنویت لیے ہوئے ہے ایک طرف بھوک سے مرنے والوں کی آہ و بکا دوسری طرف مختلف کھانوں کی نہ گنی جانے والی تعداد کو دیکھ کر ہر صاحب دل انسان لرز اٹھا ہے مگر ان کی جانب سے چوری اور سینہ زوری کی یہ کیفیت میرے لیے نئی نہیں ہے۔ 2012 کی شدید بارشوں کے بعد سندھ نہایت ابتر حالت میں تھا، بارش کے پانی کو اپنی فصلوں سے نکاسی کا راستہ دینے اور اپنے محلوں کو بچانے کے لیے کہیں عارضی بند باندھ دیے گئے تو کہیں ان سیاسی بازیگروں نے کئی بند توڑ دیے کہ ہماری فصلیں ہمارے گھر بچ جائیں، جس کے نتیجے میں پورا سندھ پانی میں ڈوب گیا تھا، چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صحرائے تھر میں مٹھی، عمرکوٹ وغیرہ میں پانی آجانے کی وجہ سے دور افتادہ گاؤں دیہات بھی متاثر ہوئے۔ ان ہی دنوں سینیٹرز کا ایک گروپ اندرون سندھ بارش سے متاثرہ لوگوں کی صورت حال کا جائزہ لینے حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈوالہ یار سے ہوتا ہوا مٹھی گیا۔ اس وفد میں ہم بھی شامل تھے، ہم فیڈریشن چیمبر آف کامرس کی نمایندگی کر رہے تھے۔

ایسا اندوہناک منظر کہیں نظر نہیں آیا تھا، مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں پر انسانی جسم صرف سانس کی ڈوری سے بندھے ہوئے تھے، نہ تن پر کپڑا، نہ سر پر چھت، کپڑے بھی چیتھڑوں کی شکل میں تھے، پیٹ پر منڈھی ہوئی کھال فاقوں کا پتہ دے رہی تھی مگر افسوس ہے کہ ہر جگہ ہماری خاطر مدارات مختلف النوع کی قیمتی چیزوں سے ہوتی رہی، تحائف تقسیم ہوتے رہے، کاجو، بادام سے لے کر ہر نعمت دسترخوان کی زینت دیکھ کر ہمارا تو یہ حال تھا کہ جائے نہ رفتن۔ خیر جی عمرکوٹ کے ڈی سی ہاؤس میں رہائش کا بندوبست تھا، رات کا کھانا دیکھ کر ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ہرن کے گوشت کے کباب اور کڑاہی سے لے کر چرغہ، روسٹ بروسٹ غرض یہ کہ کوئی 20/25 کھانے میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے نہیں آئے بلکہ کسی خوشی کی تقریب کے مہمان ہیں، رات جس طرح گزری، گزاری۔ صبح ہوتے ہی ہم نے چیئرمین سے معذرت کی کہ ہم مزید ان کے ساتھ یہ رسمی کام نہیں کرسکتے اور وزٹ منسوخ کرکے واپس آگئے۔ اس کے بعد اپنے ادارے کی طرف سے گئے اور مہینوں رہ کر لوگوں کے لیے کام کیا، آج جب مختلف چینلز پر تھر کے مناظر دیکھتی ہوں تو مجھے وہ دعوت شیراز یاد آگئی مگر ہمارے حکمرانوں کی سوچ نہیں بدلی، بچوں کے مرنے، عورتوں کے تڑپنے کے مناظر بھی وہی ہیں اور حکمرانوں کی حکمرانی کے انداز بھی وہی ۔ صحرا پھر پیاسا ہے، بارش کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی نے سیکڑوں جانوروں اور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے، وہ معصوم بچے جنھوں نے ابھی تو آنکھ کھولی تھی، ابھی تو ماں کی گود کے لمس سے آشنا ہوئے تھے کہ قبر کے اندھیروں میں جاکر سوگئے۔

گندم کی بھری بوریاں گوداموں میں سڑتی رہیں اور غریب ماؤں کی گود اجڑتی رہی مگر ملوں کے دیے روشن تھے روشن ہی رہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ تباہی ایک دم نہیں آئی، آہستہ آہستہ اس نے جڑ پکڑی ہے، اس جرم میں تھر کے قومی صوبائی نمایندے ڈپٹی کمشنر سندھ اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تھر کی مقامی این جی اوز بھی برابر کی شریک ہیں، کیونکہ کیا وہ اس افتاد کے بڑھنے کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ امداد کے نام پر اپنی دکان داری کو چمکایا جا سکے؟

ایکسپریس نیوز اگر تھر کا حال بیان نہ کرتا تو آج بھی سب چین کی نیند سوتے رہتے، اب بھی وقت ہے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے مخیر حضرات اور وفاق کے دیے ہوئے پیسوں کا درست استعمال کیا جائے، اس پیسے کو کرپشن کے ہاتھوں برباد نہ کیا جائے۔ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کنوئیں اور ہینڈ پمپ لگوائے جائیں، بنیادی صحت کے منصوبے شروع کیے جائیں، اسپتال بنوائے جائیں، زچہ و بچہ کی صحت سے آگاہی کے لیے پروگرامز شروع کیے جائیں، معقول مشاہیروں پر قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے، سڑکوں کو بناکر دوسرے شہروں سے منسلک کیا جائے۔ غضب خدا کا ہیلتھ ورکروں کے استعمال میں ہونے والی گاڑیاں زنگ کا ڈھیر ہوگئیں، یہ غفلت یا نااہلی نہیں قومی جرم ہے۔ ایسے لوگوں کو جنھوں نے یہ جرائم کیے ہیں بلاتفریق سخت سزائیں دی جائیں، جب تک سزائیں نہیں ملیں گی لوگ عبرت نہیں پکڑیں گے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی طرف کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، یہ جانے بغیر کہ ان کے ہاتھ کیا، پورا جسم کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے۔

یہ انداز خسروی کیا ہے؟

$
0
0

تھر کے سانحے سے متعلق اُس گندم کے بارے میں بہت سے لوگوں کی زبانی بہت کچھ کہا گیا جو حکومت سندھ نے وہاں کے قحط زدہ لوگوں میں تقسیم کے لیے بھیجی تھی مگر جو مقامی متعلقہ ذمے داروں کی غفلت کی وجہ سے متاثرہ لوگوں میں تقسیم نہ کی جاسکی۔ مجھے تعجب ہے کہ کسی نے بھی اس بارے میں یہ کیوں نہیں سوال اٹھایا کہ وہاں گندم کیوں بھیجی گئی؟ پسی ہوئی گندم یعنی آٹا کیوں نہیں بھیجا گیا؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، گندم، چاول کی طرح ابال کر نہیں کھائی جاتی، اس بات کا علم حکومت سندھ کے محکمہ خوراک کے حکام کو بھی ہوگا اور انھیں اس بات کا بھی ادراک ہوگا کہ تھر کے لوگ جنھیں زندگی کی بہت سی سہولتیں حاصل نہیں، جنھیں پینے کے لیے صاف پانی، سر چھپانے کے لیے محفوظ چھت، بجلی اور گیس میسر نہیں، انھیں گندم پسوانے کی سہولت بھی حاصل نہیں ہوگی۔

ایسی جگہ اور ایسے لوگوں کو گندم بھجوانا کیا سراسر زیادتی نہیں؟ یہ الگ ستم ظریفی ہے کہ یہ گندم بھی بروقت تقسیم نہیں کی جاسکی۔ اس بارے میں بات کرنے والے عام لوگوں سے لے کر مرکزی حکمرانوں نے بھی یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ ایسے عالم میں جب قحط سالی کی وجہ سے بچے، بڑے اور مال مویشی مر رہے ہیں سالم گندم بھجوانے کی آخر کیا تک تھی؟ صوبائی وزارت خوراک کے ذمے داروں نے تو یہ کہہ کر گویا اپنی صفائی پیش کردی کہ ہماری ذمے داری اناج کی ترسیل تھی، ان کی تقسیم نہیں۔ جب کہ مقامی حکام نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس متاثرہ لوگوں تک جاکر تقسیم کرنے کی سہولت نہیں تھی، وسائل نہیں تھے۔ دونوں جانب سے جو صفائیاں پیش کی گئی ہیں کیا ان سے یہ بات سامنے نہیں آتی کہ سرکاری خزانے سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے یہ لوگ کس قدر غیر ذمے دار ہیں، ان کی کارکردگی کس قدر ناقص ہے، جو اپنی ذمے داریاں احسن طریقے پر پوری کرنے کے بجائے محض بے گار سمجھ کر نبھاتے ہیں۔

ہمیں آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا مگر ہمارے حکمرانوں کو اب تک حکمرانی کا موثر طریقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ حکومت کی جانب سے بہت سے اقدام بظاہر عوامی بہبود کے لیے کیے جاتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے فیصد ان کا فائدہ متاثرہ لوگوں کو پہنچتا ہے؟ تھر کے سانحے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے مرنے والے بچوں کے والدین کو جو لاکھوں روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ذرا اس کے بارے میں غور و فکر کیجیے۔ وہ لوگ جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کے پاس نہ مضبوط تجوریاں ہیں نہ الماریاں، جن کے پاس کوئی قیمتی سامان ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے کوئی بندوبست کریں۔ نہ ہی ان کے علاقے میں کوئی بینک ہے، نہ ہی ان لوگوں کا شہر میں کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے۔ انھیں لاکھوں روپے اگر ملیں گے تو وہ انھیں کہاں رکھیں گے؟ ان کی حفاظت کیسے کریں گے؟ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ وہ ڈاکو جو سخت سیکیورٹی انتظام کے باوجود شہر کے بینکوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ تھر کے ریگزاروں میں بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا شکار نہیں بنالیں گے؟ ان کے فوت ہونے والے بچوں کے معاوضوں کی وجہ سے ان کی اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگ جائے گی؟ یہ اور بات ہے کہ اگر یہ اعلان محض اعلان تک ہی محدود ہو، جس طرح اکثر ہوتا ہے کہ بیشتر لواحقین زندگی بھر اس رقم کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں جو ان کے پیاروں کی جان کے معاوضوں کے طور پر انھیں دینے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو معاوضوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی ادائیگی کا بہتر طریقہ تو میرے خیال میں یہ ہے کہ متاثرہ لوگوں کی بہبود کے لیے کوئی ٹھوس اور دوررس بندوبست کیا جائے۔ ان کے لیے مستحکم بنیادوں پر رہائش کا انتظام کیا جائے۔ ان کے پینے کے صاف اور صحت بخش پانی کا بندوبست کیا جائے۔ ان کے علاقے میں اسپتال اور میٹرنٹی ہوم قائم کیا جائے، اسکول اور یوٹیلٹی اسٹور قائم کیے جائیں۔ یہ جو وزیراعظم صاحب نے وفاق کی طرف سے ایک ارب روپے گرانڈ کا اعلان کیا ہے، اس کا بھی اس قحط زدہ علاقے کے لوگوں کو فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب اس کا استعمال نہایت دیانتدارانہ طریقے پر ہوگا۔ اگر اس گندم کی طرح نہیں ہوگا جو اپنے حلقے کے جیالوں میں تقسیم کیا گیا، جس سے اپنے ووٹروں کو نوازا گیا، اس کا صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ یہ خطیر رقم اس علاقے سے مستقل بنیادوں پر قحط سالی ختم کرنے کے اقدامات پر صرف کی جائے۔ وہاں کی زمین کو سیراب کرنے، مال مویشی کے پینے اور لوگوں کے استعمال کے لیے پانی کی فراہمی کا دائمی اور ٹھوس بندوبست کیا جائے تاکہ قحط سالی کی نوبت ہی نہ آئے۔ بالکل ہی بے آب و گیاہ اور تپتے ہوئے علاقوں میں انسانی رہائش کو ممنوع قرار دیا جائے۔ بس ان ہی علاقوں اور خطوں میں جہاں انسانی ضرورتوں کی فراہمی میں سخت دشواری پیش نہ ہو، رہائشی زون قرار دیا جائے اور ان کی ترقی و ترویج کا کام کیا جائے۔

اسپتال، اسکول، یوٹیلٹی اسٹورز کی زیادہ سے زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ وفاق یہ رقم حکومت سندھ کے حوالے نہ کرے۔ وفاقی حکومت اپنے طور پر اپنے اعتماد کے لوگوں اور اداروں کے ذریعے اس رقم کو حقیقی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لائے۔ صوبائی حکومت کو اگر یہ ٹاسک سونپا گیا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ کم ازکم آدھی رقم متعلقہ حکام کے مرغ و ماہی کی ضرورتوں میں خرچ ہوجائے گی۔ اس بات پر کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ جب معصوم بچے، بڑے بوڑھے اور مال مویشی بھوک اور بیماریوں سے مر رہے تھے تو میڈیا کے شور مچانے پر صوبائی کابینہ کے جو اکابرین ان کی دادرسی کے لیے پہنچے، انھوں نے وہاں اس طرح اپنی بھوک پیاس مٹائی جیسے وہ کسی شاہانہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوں۔ ایسے لوگوں سے کسی شفافیت کی توقع کسی کو کیسے مل سکتی ہے؟ ہمارے ہاں ایسی ہی ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر ہمارے حکام مخلص ہوتے تو تھر کے علاقے میں قحط سالی ہر سال ڈیرہ کیوں ڈالتی؟ اس کا ازالہ بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔ مگر جب اپنی پارٹی کو عوامی اور اپنی حکومت کو جمہوری قرار دینے کے دعوے دار سب سے پہلے اپنے پیٹ پوجا اور اپنے اللے تللے کو اہمیت دینے کے عادی ہوں تو ملک اور معاشرے کا بگاڑ کیسے دور ہوسکتا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اپنی حرکتوں کو جائز قرار دینے کے لیے اوندھے سیدھے جواز پیش کیے جائیں۔

ہم اس ضمن میں مزید کیا کہیں، کیا لکھیں، تم ہی بتاؤ… یہ انداز خسروی کیا ہے؟

لیاری اور دلگداز تزویری اثاثہ

$
0
0

11 مارچ کی صبح لیاری میں عورتوں نے گھریلو سامان کی خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کیا، بچے اسکول گئے، مرد روزگار پر روانہ ہوئے، اچانک جھٹ پٹ مارکیٹ پر گینگ وار میں ملوث ایک گروہ کے مسلح کارندوں نے دھاوا بول دیا، اس فائرنگ کا نشانہ بچے، عورتیں اور راہگیر بنے، اس فائرنگ کی زد میں خاتون اور اسکول جانے والے والے بچوں سمیت 16 افرادآگئے، فائرنگ سے ہر طرف بھگڈر مچ گئی، ایمبولینس فائرنگ کے بعد لاشوں اور زخمیوں اسپتال پہنچانے لگیں اور حملہ آور اپنا ہدف کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ رینجرز نے ایک رات قبل گینگ وار کے اہم فرد کے بھائی کو کامیاب آپریشن میں ہلاک کیا تھا، یوں رینجرز حکام اور پولیس اس کامیاب آپریشن کے نتائج کے بارے میں بھول گئے۔ گزشتہ 13سال پہلے لیاری وزیرستان جیسا پس منظر پیش کرتا رہا۔ وزیراعظم نواز شریف نے صورتحال کا نوٹس لیا، کراچی آئے اور اعلیٰ سطح اجلاس میں آپریشن جاری رکھنے کی ہدایت کی، رینجرز کے افسر نے صوبائی حکومت پر گینگ وار میں ملو ث ایک گروہ کی سرپرستی کا الزام عائد کیا، پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے لیاری کے سابق رکن قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم کے موجودہ رکن قومی اسمبلی نبیل گبول پر ایک گروہ کی سرپرستی کا الزام عائد کیا، یوں ٹاک شوز پر ایک دن نئے موضوع، خبروں اور کالموں کی اشاعت سے معاملہ ٹھہر گیا مگر لیاری خون میں روز نہا رہا ہے۔

لیاری کی یہ صورتحال نئی نہیں ہے، لیاری کے مکین کہتے ہیں کہ یوں تو گینگ وار کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے مگر گزشتہ برسوں میں جب بھی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوتا تھا تو مساجد سے اعلان کرادیا جاتا تھا،اسکول بند ہوجاتے تھے، عام آدمی کسی حد تک اپنے گھروں میں داخل ہوکر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا تھا۔ کچھ عرصے قبل لیاری کے علاقے تقسیم ہوگئے، پہلی تقسیم کچھی اور بلوچ علاقوں کے درمیان ہوئی، اس تقسیم کی بنا پر ایک براد ری کا فرد دوسری برادری کے علاقے میں آتا جاتا تھا تو اس کی زندگی داؤ پر لگ جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سال کچھی برادری کے بہت سے خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر اندرون سندھ منتقل ہوگئے تھے۔ میڈیا میں مسئلہ موضوع بحث بنا تھا، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی بعض یقین دہانی اور اندرون سندھ کے خراب حالات، روزگار اور بچوں کی تعلیم کے لیے یہ خاندان واپس اپنے گھروں میں آئے تھے۔ کچھ کراچی کے دوسرے علاقوں میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ ارشد پپوکی ہلاکت کے بعد گینگ وار ایک نئے دور میں داخل ہوئی، اب بابا لاڈلہ اور عزیر بلوچ کے درمیان جنگ ہونے لگی، اس جنگ میں لیاری کے علاقے پھر تقسیم ہوگئے۔ گینگ وار میں ملوث دونوں گروہ لیاری کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے لگے۔ کوئی غریب آدمی لیاری کے دوسرے محلے میں چلا گیا تو اس کی جان مشکل میں پڑجاتی۔ روزانہ رات ہوتے ہی لیاری میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لیاری کے لوگ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے کام کاج چھوڑ کر اپنے گھروں میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہیں، ان ملزموں کے درمیان دشمنی صرف لیاری تک محدود نہیں رہی بلکہ جنوبی کراچی، مغربی کراچی کے علاقوں کے ساتھ بلوچستان کے علاقے حب تک پھیل گئی ہے۔ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گزشتہ ہفتے ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل اس ہی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ لیاری میں پولیس اور رینجرز کے آپریش کی بھی عجیب کہانی ہے، کہا جاتا ہے کہ پولیس نے ملزموں کے گروہ بنانے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔ چھوٹے چھوٹے جرم کرنے والے پولیس کی سرپرستی میں بڑے ڈان بن گئے، پولیس نے برسوں ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

لیاری کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی  اسٹبلشمنٹ نے پولیس کو کبھی بھی ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی پھر پیپلزپارٹی نے ان گروہوں سے دوستی کرلی۔ جب بے نظیر بھٹو شہید 2007 میں کراچی آئیں تو ان کے حفاظتی دستے کے سینئر افراد لیاری گینگ وار کے سرغنہ رحمن ڈکیت گروپ سے منسلک تھے، نبیل گبول نے اس گروہ کی مدد سے 2008 کے انتخاب میں حصہ لیا، پیپلزپارٹی کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کالعدم امن کمیٹی کی سرپرستی کا اعلان کیا، مگر جب بااختیار اتھارٹی کے فیصلے کے تحت رحمن ڈکیت چوہدری اسلم کی زیر نگرانی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہوا تو لیاری میں پیپلزپارٹی کے خلاف فضا پیدا ہونے لگی۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئر پرسن اس فضا کی بو محسوس نہ کرسکے اس دوران گینگسڑز نے لیاری میں اپنی جڑیں گہری کرلیں۔ ایم کیو ایم سے تصادم کی بنا پر ان لوگوں کو پذیرائی ملی، جب صدر زرداری کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تو چوہدری اسلم کی قیادت میں لیاری میں آپریشن ہوا۔ یہ ایک غیر منظم آپریشن تھا، رینجرز نے اس آپریشن میں حصہ نہیں لیا۔ پیپلزپارٹی نے 2013 کے انتخابات میں کالعدم امن کمیٹی کی اطاعت کو قبول کیا۔ رینجرز نے میاں نواز شریف کی حکومت کے قیام کے بعد لیاری میں پہلی دفعہ عملی آپریش شروع کیا مگر رینجرز اور پولیس ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار نہیں کرسکے۔

لیاری کی آبادی 15  لاکھ سے زاید افراد پر مشتمل ہے۔ لیاری کے اطراف کیماڑی کی بندرگاہ، دوسری طرف کھارادر، جوڑیا بازار سمیت صرافہ اور تھوک مال اور الیکٹرانک اسمگلنگ شدہ سامان کی مارکیٹیں ہیں۔ ان مارکیٹوں کے ساتھ سٹی کورٹ کے دفاتر اور ٹمبر مارکیٹ، اس کے ساتھ رنچھوڑ لائن کے نچلے درمیانے طبقے کے لوگ آباد ہیں۔ سندھ انڈسٹریل زون سائٹ میں قائم صنعتی مراکز ہے۔ یہ سب گنجان آباد علاقے ہیں۔ لیاری تقریباً 16 اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے مگر رینجرز اور پولیس لیاری میں اسلحہ و بارود کی سپلائی لائن کو نہیں کاٹ سکے ہیں۔ گینگ وار میں جدید اسلحہ، راکٹ، دستی بم، کلاشنکوف، رائفلیں مسلسل استعمال ہوتی ہیں۔ یہ اسلحہ رینجرز کے آپریشن کے باوجود ان لوگوں کو مل رہا ہے۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ گینگ وار میں ملوث مختلف گروپ پیپلزپارٹی کے دور میں شہر میں اغوا برائے تاوان، بھتے کی وارداتوں میں ملوث تھے اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے، یوں پیسے کی فراوانی ہے۔ وزیراعظم کی زیر قیادت ہونے والے اجلاس میں رینجرز کے سربراہ نے پیپلزپارٹی کی قیادت پر الزام لگایا کہ وہ ایک گروہ کی سرپرستی کررہی ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان نے روایتی بیان میں اس الزام کی تردید کی مگر اس صورتحال میں یہ بیان انتہائی اہم ہے۔

اس بیان سے یہ امکانات پیدا ہوتے ہیں کہ عسکری مقتدرہ شاید اپنی پرانی ڈاکٹرائن کو تبدیل کرنے پر آمادہ ہوگئی ہیں اور اب یہ گروہ تزویری اثاثہ نہیں رہے۔سندھ کے قوم پرست رہنما ایاز پلیجو کی قیادت میں گینگسٹرز کے درمیان فائر بندی کا فیصلہ کچھ نئے حقائق ظاہر کررہا ہے، شاید عسکری مقتدرہ یہ اثاثہ ختم کرنا نہیں چاہتی۔ اس فیصلے سے قانون کی پامالی ہوتی ہے اور سیاستدانوں کا تشخص خراب ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لیاری کو وزیرستان بنانے کا فیصلہ ہوا ہے، اب ساری ذمے داری پیپلزپارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ آصف زرداری سب سے پہلے کراچی کی قیادت کو اس بات کا احساس دلائیں کہ ماضی میں گینگ وار کی سرپرستی سے لیاری کو تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی اچھی طرز حکومت اور ایک لڑائی کے بعد لیاری میں امن قائم کرسکتی ہے، یہ ایک مشکل اور جان لیوا عمل ہے۔ پیپلزپارٹی کو گینگسٹرز کی مخالفت میں اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی قربانیاں دینا ہوں گی، یوں وہ لیاری کے عوام کا قرض اتار سکتی ہے۔ 10 سال سے زائد جاری اس گینگ وار نے لیاری کے عوام کو تباہ کردیا ہے۔ہزاروں بیگناہ ہلاک ہوئے جن کی پی پی کی حکومت نے کوئی مالی امداد نہیں کی ۔ پیپلزپارٹی اگر امن نہیں دے گی تو عوام مایوس ہوں گے۔ پیپلزپارٹی لیاری مین امن قائم نہ کرسکی تو پھر یہ کام کوئی ’’اور‘‘ کرے گا،اور پیپلزپارٹی کہیں کی نہیں رہے گی۔

صغرا آپا کا 19 سال پرانا وصیت نامہ

$
0
0

17 مارچ 11 بج کر 07 منٹ … موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، اسکرین پر ایک ہندوستانی نمبر اپنی جھلک دکھارہا ہے۔ دوسری طرف دلی سے تسنیم خالد ہیں۔ ’’خیریت تو ہے؟‘‘ میری زبان سے بے اختیار نکلتا ہے۔ ’’آج صبح 5 بجے صغرا آپا رحلت کر گئیں۔ ہم ابھی وہیں سے آرہے ہیں۔ خالد صاحب کو اور مجھے معلوم ہے کہ ان کو آپ سے ربطِ خاص تھا، اسی لیے سب سے پہلے آپ کو فون کیا ہے۔‘‘ تسنیم کی آواز آتی ہے۔ ’’آج تین بجے وہ جامعہ نگر کے قبرستان میں سپردخاک کی جائیں گی۔‘‘

میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں اورتین بج گئے ہیں۔ صغریٰ آپا کی مشت خاک،خاک میں مل گئی ہوگی۔ تکونا پارک، جامعہ نگر کے ’’عابد ولا‘‘ میں رہنے والے آباد رہیں لیکن ڈاکٹر عابد حسین اور صالحہ عابد حسین کے بعد صغریٰ آپا کے دم قدم سے اس گھر کو جو ادبی قدر و منزلت حاصل تھی، وہ اب خواب و خیال ہوئی۔ وہ جس طرح ادیبوں اور شاعروں کی اور خاص طور سے پاکستانیوں کی مہمان داری کرتیں، اس کا ایک خاص لطف تھا۔ ان سے میری نیاز مندی پچیس برس سے زیادہ پر محیط تھی۔ میں ہوٹلوں میں ٹھہرائی جاتی اور وہ ناراض ہوتیں ’’میرے گھرکیوں نہیں ٹھہرتیں؟‘‘ان شکایتوں کے باوجود مجھ سے ملنے کبھی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، کبھی وائی ڈبلیو سی اے ہاسٹل اور کبھی اجے بھون آتیں، ہائے ہائے کرتیں، مجھے برا بھلا کہتیں لیکن آنا لازم تھا، مہینے میں ایک دو مرتبہ ان سے فون پر باتیں ہوتیں اور دونوں ملکوں کے تازہ ترین ادبی بلٹین کا تبادلہ ہوتا۔ جب تک عینی آپا موجود تھیں، ہم ان کی اور ڈاکٹر عذرا رضا کی باتیں کرتے۔ کوئی ان باتوں کے دورانیے پر نظر کرتا تو یہی سمجھتا کہ دو نہایت دولت مند خواتین ہیں جو ٹیلی فون بل کا حساب لگائے بغیر گپ میں مصروف ہیں۔

صغریٰ مہدی ہندوستان کے ایک جید علمی، ادبی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ڈاکٹر عابد حسین اور صالحہ عابد حسین کی منہ بولی بیٹی، علم و ادب ان کے گھر کا اوڑھنا بچھونا۔ کہانیاں لکھیں، ناول اور سفرنامے لکھے۔ 1939کے بھوپال میں آنکھ کھولی۔ زندگی دلی میں گزاری۔ اکبر الہ آبادی پر پی ایچ ڈی کیا۔ اگر ہم میں سے کسی نے ڈرتے ڈرتے اکبر کو قدامت پسند کہنے کی کوشش کی تو وہ فوراً تلوار سونت کر میدان میں آگئیں۔ جان سب ہی کو عزیز ہوتی ہے، زبان کھولنے والا فوراً کونے کھدرے میں دُبک جاتا اور وہ فاتحانہ شان سے شاہی ٹکڑے کی قاب شکست خوردہ کی طرف بڑھا دیتیں۔

دلی میں ان سے درجنوں ملاقاتیں رہیں اور ہم نے کیسی محفلیں نہیں سجائیں۔ وہ کراچی آئیں میرے گھر میں رنگ روغن ہورہا تھا۔ میں نے انھیں اپنی بیٹی فینانہ کے گھر بلایا۔ فینی اور سحینی صغریٰ آپا سے عینی آپا کے قصے سنتی رہیں۔ زریون میاں بھی اسی دوران کمرے کی پرلطف فضا میں ناک ڈبونے کے بعد باہر چلے گئے۔

’’جو میرے وہ راجا کے نہیں‘‘ ’’پابہ جولاں‘‘ ’’دھند‘‘ ’’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘‘ ’’راگ بھوپالی‘‘ ان کی ادبی کاوشیں تھیں۔ اس کے علاوہ ماریشس اور امریکا کے سفرنامے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ وہ جامعہ ملیہ میں پروفیسر رہیں۔ ادبی محفل میں آتیں تو اس کی رونق دوبالا ہوجاتی۔ساہتیہ اکیڈمی کے اردو بورڈ میں ایڈوائزر رہیں۔ اسی طرح ہریانہ اکیڈمی اور دوسرے اہم علمی اور ادبی اداروں سے وابستہ رہیں۔ امتیاز میر ایوارڈ، دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ اور کئی دوسرے اعزارات ان کے حصے میں آئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جہاں اپنے علمی اور ادبی کاموں کو سمیٹ رہی تھیں، وہیں وہ نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی مسلمان عورتوں کی حالت زار پر کڑھتیں، ان کے بارے میں ہونے والی مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرتیں۔ ایسے ہی ایک سیمینار میں عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کا ذکر ہورہا تھا۔ ایک عورت نے سوال اٹھایا کہ اگر میرے پڑوس میں کسی عورت کو رات دن زدوکوب کیا جارہا ہو اور میرے کانوں تک اس کی آہ و زاری کی صدا آرہی ہو تو میں کیا کروں۔ اگر اس پر ہونے والے ستم کے خلاف آواز اٹھاؤں تو سارا محلہ میرے خلاف ہوجائے گا کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں بولنے والی تم کون اور اگر پولیس میں جاکر رپورٹ لکھواؤں تو جتنی بڑی آفت مجھ پر نازل ہوگی، وہ آپ جانتی ہیں… پھر یہ بتائیے کہ میں کیا کروں؟ صغریٰ آپا نے کہا کہ جب لوک سبھا میں عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کے بل پر بحث ہورہی تھی تو میں نے تامل ناڈ کی ایک بستی کی مثال پیش کی تھی۔ وہاں کی عورتوں نے اس مارپیٹ کے خلاف ایک انوکھی ترکیب نکالی تھی اور وہ یہ کہ انھوں نے بستی کے تمام گھروں میں پیتل کی گھنٹیاں تقسیم کردی تھیں۔

بستی کی عورتوں نے طے کیا تھا کہ اگر کسی بھی عورت کے ساتھ مارپیٹ کی جائے تو وہ عورت یا اس کے بچے اس گھنٹی کو زور زور سے بجائیں گے۔ اس آواز کو سنتے ہی پاس پڑوس کے تمام لوگ اس گھر کے باہر جمع ہوکر شور مچاتے تھے ۔ پڑوسیوں کے اکٹھا ہوجانے کا خوف عموماً اس عورت کو بچا لیتا تھا۔ مسلمان عورتوں کی حالت زار سنوارنے کے لیے انھوں نے اپنی بساط بھر بہت کچھ کیا۔ ان کا دل جو ہر دوسرے چوتھے جواب دینے لگتا تھا، اسے سنبھالے ہوئے وہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں جاتیں اور ستم رسیدہ عورتوں کا دل بڑھاتیں اور یہ پیتل کی گھنٹی والی تجویز وہ ہر جگہ پیش کردیتیں۔ ان میں حسِ ظرافت غضب کی تھی۔ 1995میں دل کا آپریشن ہوا۔ عینی آپا کی وہ راز داں بھی تھیں اور مشیر خاص بھی، یہی وجہ تھی کہ عینی آپا نے انھیں ’’مشیر فاطمہ‘‘ کا اعزازی عہدہ عطا کیا تھا۔ صغریٰ آپا کے دل کا آپریشن ہوا تو عینی آپا لندن میں تھیں۔ طبیعت ذرا سنبھلی تو انھوں نے ایک ’’وصیت نامہ‘‘ اور اپنی ایک تعزیتی قرارداد لکھ کر ارسال کی۔ اس کے بارے میں عینی آپا کے نام 30نومبر 1995 کے ایک خط میں لکھتی ہیں ’’ہم نے اپنی تعزیتی قرار داد موجودہ صدر شعبہ اردو عزت مآب شمیم حنفی کو دے دی تھی ۔ اسے لکھتے ہوئے کئی بار آنکھیں نم ہوئیں اور بڑی دُوِیدا میں رہے کہ اپنی کن کن صفات کا ذکر کریں کن کو چھوڑیں بہرحال فی الحال تو یہ سب چیزیں بیکار ہوگئیں۔ مگر وقت پر کام آئیں گی۔

اپنا وصیت نامہ بہ نام قرۃ العین حیدر انھوں نے کچھ یوں لکھا کہ: برصغیر کی مشہور ادیبہ اور بین الاقوامی شہرت کی مالک پروفیسر عینی۔ آپ کی عدم موجودگی میں یہ آپریشن آپڑا ہے جس میں یہ خدشہ ہے کہ شاید ہم اس دنیا میں نہ رہیں (ہائے ہائے ہمارے بغیر یہ دنیا کیسی لگے گی) سوچا آپ کو بھی کچھ وصیت کر ڈالیں۔ہم نہ رہے تو یہ خط ملے گا اور اگر رہے تو ہم خود ملیں گے۔ گھر والوں کو یہ ہدایت دے دی ہے اور آپ اس پر کڑی نگرانی رکھیں کہ ایسا ہی ہو۔ چہلم کی مجلس ہو جو تنویر حسن ہی پڑھیں۔ عذرا رضا ضرور ہوں جو جی بھر کر گریہ کریں کچھ امام حسین کی مظلومی پر اور کچھ ہماری جدائی پر۔ عزیز قریشی کو اس مجلس میںآنے سے سختی سے روکا جائے کہ فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہماری چہلم کی مجلس میں فتنہ و فساد ہو (گو کہ ہم اکثر اس کا سبب بنتے رہے ہیں) گوپی چند نارنگ سے کہہ کر ہماری تعزیتی میٹنگ ضرور کرائیے گا اور اس میں جیلانی بانو کو ضرور مدعو کریے گا۔ اپنی تعزیتی میٹنگ کے لیے جو فنڈ ہم چھوڑ رہے ہیں اس سے ان کے ہوائی جہاز کا کرایہ ادا کردیا جائے۔ عظیم الشان صدیقی سے کہیے گا کہ وہ ہماری تخلیقات میں عصری حسیت تلاش کریں اور شمیم حنفی فلسفیانہ اساس ڈھونڈ نکالیں۔ پال صاحب Sweet ضرور آئیں اور ہمارے ناولوں میں جو شعلے بھڑک رے ہیں ان کی نشان دہی کریں۔ تعزیتی قرارداد پر ایک نظر ڈال لیجیے گا کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔ آج کل شمیم حنفی صدر شعبہ ہیں۔ اگر آپ بھی چند الفاظ فرمادیں تو ہم عالم بالا میں مسرور ہوجائیں گے ۔ مثلاً ہماری تحریروں میں طنز و مزاح کے عناصر۔ باقی اول و آخر بولنے والے گوپی چند نارنگ تو ہوں گے ہی۔ ہم اپنے فن اور شخصیت پر دو مقالوں کا مواد بھی چھوڑے جارہے ہیں۔ ایک کو بھوپال یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تقویض ہوگی۔ دوسری روہیل کھنڈ یونیوسٹی سے۔

میں نے ابھی عزیز بھائی سے پرسہ کیا ہے۔ وہ اتر کھنڈ کے گورنر ہیں اور چند گھنٹوں بعد 13 جون سے دلی کے لیے روانہ ہور ہے ہیں۔ سوم کی مجلس میں شریک ہوں گے اور زار زار روئیں گے۔

15 سے 17 مارچ 2008کو ساہتیہ اکیڈمی نے دلی میں ’’اردو کی خواتین فکشن نگار‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی نگرانی میں ایک شاندار بین الاقوامی سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس کی مکمل روداد مشتاق صدف نے مرتب کی۔ اس سیمینار میں ایک اجلاس کی صدارت صغریٰ آپا نے کی تھی اور ان کے افسانے’’ شہرِآشوب‘‘ پر سیرحاصل گفتگو ہوئی تھی۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ میں نے اس سیمینار میں اپنا افسانہ ’’کُم کُم بہت آرام سے ہے‘‘ سنایا تھا اور ایک سیشن کی صدارت بھی کی تھی۔ آج 17 مارچ 2014 ہے۔ شکایت صغریٰ آپا سے کہ یہ آپ نے عین 6برس بعد اسی تاریخ کو رختِ سفر کیوں باندھا جب آپ نے ہم سب کو ’’شہر آشوب‘‘ سنایا تھا۔ وہ کہانی جس میں ایک بہت بڑے لکھنے والے کی رخصت کا قصہ تھا۔ تو کیا آپ کی اس کی کہانی کو ہم آپ کی روشن ضمیری کا عکس سمجھیں؟ اور ہاں صغرا آپا نکیرین آئیں تو اپنی کراری آواز میں انھیں بتادیجیے گا کہ:

تھا میں گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

صرف ’’شیر‘‘ ہمارا

$
0
0

جب جناب امیر مقام کو اپنا مقام مل گیا تو ہمارے دل میں ایک لڈو پھوٹا پھر جب ایک فون کال پر آواز سنی کہ میں امیر مقام بول رہا ہوں تو دوسرا لڈو پھوٹا اور جب انھوں نے کہا کہ یہ میرا نمبر ہے جب بھی چاہو فون کر سکتے ہو،

مہربان ہو کے بلاؤ مجھے جب جی چاہے
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

تو لڈوؤں کی پوری ٹوکری دل میں پھوٹ پھوٹ کر پھٹ گئی، دل میں جو فوری خیال آیا کہ شاید ہماری کم بخت قسمت ایک ہی کروٹ لیٹے لیٹے تھک گئی تھی اور اب کروٹ بدلنے کے موڈ میں ہے، اس سے پہلے تو ہماری اس ناہنجار و جفا کار قسمت نے عادت سی بنا لی تھی کہ جب بھی ہمارا کوئی دوست رشتے دار کسی اونچی جگہ پر پہنچ جاتا اس کی یادداشت کا وہ حصہ مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا جہاں ہمارا نام لکھا ہوتا تھا اور گہرے سے گہرے تعلق کا مضبوط سے مضبوط دھاگا بھی کچے دھاگے کی طرح پہلے تن جاتا اور پھر تڑاخ کر کے ٹوٹ جاتا۔

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
تو کبھی نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی اونچے مقام سے ہمیں فون آیا تھا اور پھر جب انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں ہر وقت تابعدار ہوں تو

اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جب اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے

حالانکہ اس سے پہلے جب ہماری قسمت کا سست الوجود اور ’’لوزر‘‘ اونٹ ایک ہی کروٹ لیٹا ہوا تھا تو اونچے ایریا پر پہنچنے والے ’’سابق دوستوں‘‘ کو ہم فون کرتے اور وہاں سے سب کی طرف سے ایک ہی جواب آتا اس نمبر سے اس وقت رابطہ ممکن نہیں بعد میں ٹرائی ٹرائی اگین کریں۔

ہماری بدبخت، دل سخت اور لخت لخت قسمت نے صرف چند ثانیے کے لیے آنکھ کھولی تھی اور کروٹ بدلی تھی اور ایک مرتبہ پھر اس نے کروٹ بدل کر پرانی پوزیشن اختیار کر کے نہ صرف آنکھیں موند لیں بلکہ خراٹے بھی لینے لگی، پشتو کے بے بدل شاعر علی خان نے کہا تھا کہ

مالا گل بوئے کڑے نہ ووبہار تیر شو
لا مے غٹ ورتہ پہ زیر کتلی نہ وو
لکہ برق رخشندہ پہ تلوار تیر شو

یعنی میں نے ابھی پھول سونگھا بھی نہیں تھا کہ بہار گزر گئی اور میں نے ابھی اپنے یار کو اچھی طرح دیکھا بھی نہیں تھا کہ وہ برق رخشندہ کی طرح گزر گیا، کیوں کہ اس کے بعد ہم اس نمبر کو کھڑکاتے رہے اور اس طرف سے وہی جانی پہچانی نانی وہی بول بولتی سنائی دی کہ اس وقت رابطہ ممکن نہیں کچھ دیر بعد فون کریں۔ کچھ دیر بعد کیا ہم بڑی بڑی ڈھیر ساری ’’دیریں‘‘ کر کے بھی ملاتے رہے لیکن شاید

بخت جب بیدار تھا کم بخت آنکھیں سو گئیں
سو گیا جب بخت تو بیدار آنکھیں ہو گئیں

لیکن اب ’’بیدار آنکھوں‘‘ کا ہم کیا کرتے نوچ بھی تو نہیں سکتے کہ قسمت میں ابھی اس بے وفا بے لحاظ اور بے پروا دنیا کو مزید دیکھنا باقی ہے جہاں لوگ نمبر تو دیتے ہیں لیکن ٹیلی فون اٹھاتے نہیں۔

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی
کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

اس وقت سے لے کر ابھی تک لگے ہوئے ہیں مایوس ہوتے ہیں لیکن پھر امید جگاتے ہیں کہ لگے رہو منا بھائی شاید اس کم بخت سرا سرا برے وقت میں کہیں ایسی کوئی شبھ گھڑی بھی آ جائے جب ہمارے ستارے گردش سے نکل کر سٹیلائٹ پر اثر انداز ہو جائیں اور ادھر سے آواز آئے کہ ہیلو میں امیر مقام بول رہا ہوں اور ہم کبھی اپنے فون کو اور کبھی اپنے دل کی دھڑکن کو سننے لگیں،

پھر کوئی آیا ٹیلی فون نہیں کوئی نہیں
سائیکل ہو گی کہیں اور چلی جائے گی

پتہ نہیں کیا بات ہے شاید ہماری شکل کے ساتھ آواز بھی ایسی ہے کہ کوئی ایک بار سنے تو دوبارہ سننے کی ہوس ہی مر جاتی ہے، اس لیے اب کے ہم نے سوچا ہے کہ اپنی آواز کو آئینہ دکھائیں گے، کسی ٹیپ ریکارڈ پر اپنی آواز ریکارڈ کر کے سنیں گے ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی چیز نکل ہی آئے جو ان ساری شکایات کا جواب ہو کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
کافی عرصہ پہلے ایک شخص سے ہماری شناسائی تھی جو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بہت زیادہ پریشان تھا جب بھی ملاقات ہوتی وہ یہی دکھڑا لے کر شروع ہو جاتا کہ لڑکی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کہیں پر کوئی بات بن ہی نہیں رہی ہے، ایک مرتبہ سال ڈیڑھ بعد ملاقات ہوئی لیکن اس نے اپنا دکھڑا شروع نہیںکیا ہم سمجھے کہ شاید کسی نے اس کی بیٹی کو بیاہ لیا ہو گا چنانچہ پوچھ بیٹھے کہ وہ تمہاری لڑکی کی شادی تو اب ہو گئی ہو گی، پھٹ پڑا ۔۔۔ کہاں وہ ابھی تک میرے سینے پر بیٹھی مونگ دل رہی ہے۔ لوگ آتے ہیں اور اس سے چھوٹی بہنوں کو بیاہ کر لے جاتے ہیں لیکن اس کم بخت کے لیے کوئی پلو ہی نہیں ۔۔۔ کچھ دیر چپ رہ کر پھر بولا ۔۔۔ یار لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں، وہ بدبخت اتنی بد صورت ہے کہ اگر کوئی میرے لیے بھی مانگتا تو میں اس سے شادی کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتا۔

منہ زاغ کا سرخوک کا لنگور کی گردن
شاید ہماری آواز میں ایسی کوئی چیز ہو گی کہ خود سن کر ہمیں بھی کان بند کرنا پڑیں لیکن جب تک اپنی آواز کو ٹیپ ریکارڈ کا آئینہ نہیں دکھاتے تب تک تو ٹرائی ٹرائی اگین کرتے رہیں گے چاہے وہ محترمہ کتنی ہی بار ہمیں ٹکا سا جواب کیوں نہ دیں جو ایسے تمام لوگوں کی واحد ملکیت ہے جو نمبر تو دیتے ہیں لیکن جواب نہیں دینا چاہتے، جہاں تک جناب امیر مقام کا تعلق ہے تو ہم ان سے کچھ زیادہ نہیں مانگیں گے صرف اتنا چاہتے ہیں

بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں

پہلے ہمارا خیال تھا کہ فون ملنے پر کہیں گے کہ ’’ م زر ما‘‘ سارا آپ رکھ لیں صرف ’’شیر‘‘ ہمیں دے دیں کہ ہم بھی تھوڑے سے اپنے سوکھے ساکھے ہونٹ تر کر سکیں کیوں کہ ہماری وہ حالت ہو رہی ہے کہ
اخوندلہ خو دے پئی وی

آگے آپ خود جانتے ہیں لیکن اب اس خواہش سے بھی ہم گزر چکے ہیں، صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی کچھ دشمنوں کو یہ کہہ کر جلائیں اور مونچھوں کو تاؤ دیں گے کہ ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں بلکہ اونچے اونچے مقامات سے ہمیں فون آتے ہیں اور ہماری بھی مارکیٹ میں کوئی ’’پوچھ‘‘ موجود ہے۔ یہ کیا کہ

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے یارب
بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھا

بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا

$
0
0

یہ الفاظ تھے ایک ماں کے۔ ماں اپنے سب سے بڑے بیٹے سے کہہ رہی تھی: بیٹا! ’’ابو بکر کا خیال رکھنا‘‘ کراچی کا مشہور اسپتال ’’سیونتھ ڈے‘‘ جہاں ماں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا ابو بکر بہ مشکل گیارہ سال کا تھا۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ابو بکر ماں کا بڑا لاڈلا تھا، بہن بھائیوں کا بھی بڑا پیارا تھا۔ یہ واقعہ ہے جنوری 1966 کا کہ جب ماں دنیا سے رخصت ہوئی تھی۔ پاپا کا انتقال دس سال پہلے 1956 میں ہو چکا تھا اور اب اماں بھی رخت سفر باندھ چکی تھی۔ باپ اور ماں کے جانے کے بعد اب سب سے بڑا بھائی ہی چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے باپ سمان تھا۔ والدہ کے انتقال کے وقت بڑے بیٹے کی عمر 30 سال تھی اور وہ کراچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کے بعد 1965 میں ماسٹر کی ڈگری بھی لے چکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے حسن محی الدین عباسی (ایچ ایم عباسی) کے شام میں نکلنے والے اخبار COMMENT میں ہفتہ وار کالم لکھ کر صحافتی زندگی کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ وقت گزرتا رہا، مگر دنیا سے جاتے ہوئے ماں کے آخری الفاظ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے ’’بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا‘‘ پانچ بھائی اور دو بہنوں کا بڑا بھائی ہونے کا خیال بھی ہر دم اس کے دل و دماغ میں رہا۔ اب اس کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ محمودہ بیگم نے بھی نئے گھر میں خود کو ایڈجسٹ کر لیا تھا۔

بٹوارے سے پہلے یہ خاندان بمبئی میں رہتا تھا۔ اپنا کاروبار تھا، سو آسودہ حال زندگی تھی۔ 1947میں ہندوستان تقسیم ہوا تو یہ خاندان 28 اکتوبر 1947کو ’’جل درگاہ‘‘ نامی سمندری جہاز میں بیٹھ کر بمبئی سے کراچی پہنچا۔ یہاں بھی ابا نے اپنا کاروبار جما لیا مگر بڑے بیٹے کا رجحان صحافت کی طرف تھا اور اب تو وہ اس زمانے کے ایک بڑے اخبار جنگ سے بہ حیثیت کامرس رپورٹر منسلک ہو چکا تھا۔ گھر کا اپنا پریس بھی تھا۔ جہاں سے کاروباری سرگرمیوں کا احاطہ کرنے والا اخبار ’’بیوپار‘‘ شایع ہوتا تھا۔ خاندانی معاملات اماں کے بڑے بیٹے کی نگرانی میں ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے۔ وہ بھی عجیب شخص تھا۔ اس کو زندگی میں ہر دم ہلچل بہت پسند تھی۔ سو اس نے 1965 میں کراچی یونین آف جرنلسٹ کے پلیٹ فارم سے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے کام شروع کر دیا اور آگے بڑھتے ہوئے 19 اکتوبر 1969 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (PFUJ) کا رکن منتخب ہو گیا۔ خوندکر غلام مصطفی PFUJ کے صدر ہوتے تھے اور منہاج محمد خان برنا سیکریٹری جنرل تھے۔

فیلڈ مارشل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ خان کی حکومتیں تھیں، صحافیوں کے لیے بھی یہ ادوار بڑے کٹھن تھے۔ اخبارات کے مالکان بھی ظلم پر تلے ہوئے تھے، ملک بھر کے 150 صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا، ہڑتالیں، پکڑ دھکڑ، لاٹھی چارج، تھانے، جیلیں، بھوک ہڑتال یہ سارے کام ہو رہے تھے بلکہ یہ سارے کام تو بہت پہلے شروع ہو چکے تھے۔ 1960 میں پیٹرس لوممبا کا قتل ہو یا 1961 میں جبل پور تحریک، اماں کا بڑا بیٹا ان تحریکوں میں شامل رہا اور پھر عظیم صحافی نثار عثمانی کا دور آ گیا، لوگ عثمانی صاحب کو صحافت کی آبرو کہتے تھے اور لوگ سچ ہی کہتے تھے۔ نثار عثمانی جیسا انسان بھی برسوں میں پیدا ہوتا ہے۔ عثمانی کے ساتھ بھی گرفتاری دی اور کیمپ جیل لاہور میں بند ہوئے۔ سات بہن بھائیوں کے سب سے بڑے بھائی ’’صحافت کے میدان میں سچ کا بول بالا کیے حق و صداقت کا پرچم اٹھائے جیلوں میں جاتے رہے، کوٹ لکھپت جیل لاہور، کیمپ جیل لاہور، ساہیوال جیل، سکھر جیل، جیل جیل، تھانے تھانے زندگی چلتی رہی اور وہ زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا۔

اب بہت سے ماہ و سال گزر چکے تھے۔ زندگی میں اب وہ ہنگامے نہیں رہے تھے۔ جیل، تھانوں سے بھی جان چُھٹ گئی تھی مگر کوئی احتجاج، کوئی حکومت مخالف جلسہ ایسا نہیں ہوتا تھا جہاں یہ شخص موجود نہ ہو۔ اب اس کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ یہ 1992 کا زمانہ تھا۔ اماں کی آخری بات ’’بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا‘‘ خیال رکھنے کی گھڑی آن پہنچی تھی سب سے چھوٹا بھائی ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے تھے۔ گردوں کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر ادیب الحسن رضوی ابو بکر کا معائنہ کر چکے تھے۔ ابو بکر کو ایک گردے کی ضرورت تھی۔ بڑا بھائی خوب سمجھ چکا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کے لیے میری ماں نے دم مرگ اس سے یہ کہا تھا ’’بیٹا! ابو بکر کا خیال رکھنا‘‘ ماں سے کیے گئے وعدے کے ایفا کا وقت آ چکا تھا اور بڑے بھائی نے ذرا دیر نہ لگائی۔ وہ اپنا گردہ دینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ ابو بکر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے وارڈ میں داخل تھا۔ گھر والے اسپتال میں موجود تھے۔ رات دو بجے ڈاکٹر ادیب رضوی آئے اور بڑے بھائی سے بولے ’’تم نے میرے مشن کو کامیاب کیا ہے، میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ کوئی خاندان کا فرد اپنا گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو جائے‘‘ لندن کے Royal Free Hospital میں بڑے بھائی اور ان کی اہلیہ محمودہ بیگم کے ٹشوز معائنے کے لیے بھیجے گئے۔ دونوں کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلا۔ لندن کے رائل فری اسپتال کے Dr.Vergise نے رپورٹ بھیجی کہ بھائی کا گردہ نہ لگے تو بھابی کا گردہ لگا دیا جائے۔ اسی ٹیسٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بڑے بھائی کا بلڈ گروپ ’’O.Positive‘‘ ہے جو کسی کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔

31 جنوری 1993 وہ یادگار دن تھا کہ جب سول اسپتال کراچی کے گردہ وارڈ میں پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے بڑے بھائی کا گردہ نکال کر چھوٹے بھائی ابو بکر کو لگا دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ 31 جنوری ابو بکر کی سالگرہ کی تاریخ تھی اور اس روز ابو بکر 38 سال کا ہو چکا تھا اور بڑے بھائی کی عمر 56 سال ہو چکی تھی۔ آج 31 جنوری 2014 کو اماں کی بات کو پورے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں۔ آج ابو بکر 59  سال کا ہو چکا اور اس کا بڑا بھائی 77 سال کا۔ 21 سال سے بڑا بھائی نہایت صحت مندی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی یادداشت بہترین ہے۔ ماضی کے واقعات اسے از بر ہیں۔ وہ میلوں پیدل چلتا ہے۔ صحافت سے اس کا رشتہ آج بھی قائم ہے، کراچی پریس کلب میں اس کی آواز کی گھن گرج آج بھی سننے کو ملتی ہے۔ آج بھی جمہوری تحریکوں میں وہ نعرہ زن نظر آتا ہے یقیناً اس کے قریبی ساتھی جان چکے ہوں گے کہ میں کس شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں مگر عام قارئین کو ذرا دیر کی زحمت اور دوں گا ۔

یہی وہ شخص تھا کہ جب 1980میں یہ کراچی پریس کلب کا صدر منتخب ہوا تو انھی کے دور صدارت میں 25 دسمبر 1980کو شاعر عوام حبیب جالبؔ کو کراچی پریس کلب کی تا حیات رکنیت دی گئی۔ 25 دسمبر 1980ء وہ دن تھا کہ جب پورے ملک کے قلم کار جنرل ضیاء الحق کے دربار میں جمع تھے اور عین اسی دن پاکستان کے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کراچی پریس کلب میں حبیب جالبؔ کے اعزاز میں جلسہ ہو رہا تھا۔ پریس کلب کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ پاک کلب کی بیرونی دیوار پر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سبط حسن صدارت کر رہے تھے، انعام درانی نے جالبؔ صاحب کے لیے نظم پڑھی تھی۔ سعیدہ گزدر نے مضمون پڑھا تھا۔ سامعین میں عظیم الشان شاعر، صحافی خالد علیگ بیٹھے تھے اور صدر پریس کلب کی فرمائش پر کہ ’’جالبؔ صاحب موصوف کے لیے کچھ لکھ کر لایئے گا‘‘ اور جالبؔ صاحب موصوف کے لیے لکھ کر لائے جو انھوں نے پہلی بار وہاں پڑھا تھا۔

ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا

اماں کا یہ بڑا بیٹا ہمارا سب کا بڑا پیارا بھائی عبدالحمید چھاپرا ہے۔ 77 بہاریں دیکھنے والا خدا کرے 77 بہاریں صحت، تندرستی کے ساتھ اور دیکھے۔ (آمین)

اب نکلو…!

$
0
0

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، گلی، محلہ، خاندان اور واقف گھرانوں کا جائزہ لیجیے، آپ پر انکشاف ہو گا کہ ان میں سے چند ہی گھرانے ہیں جن کے تمام افراد پاکستان میں مقیم ہیں، ورنہ تقریباً ہر گھر کا کوئی ایک فرد ترک وطن کر چکا ہے بعض تو پورے کے پورے کنبے ہی پردیس سدھار چکے ہیں۔ گویا ایک جنون ہے، مہم ہے، تحریک ہے ’’اب نکلو پاکستان سے۔‘‘ یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں بسیرے کے لیے کوئی اپنی تعلیم، صلاحیت اور مہارت کو سہارا بناتا ہے تو کوئی وہاں مقیم اپنے رشتے داروں کے آسرے پر کوشاں ہوتا ہے اور ایسوں کی بھی کمی نہیں جو کسی گرین کارڈ ہولڈر یا کسی اور مغربی ملک کی شہری سے شادی کے ذریعے اپنی منزل پانے کا خواہش مند اور اس کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہمارے نوجوانوں میں کے دل و دماغ میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہو چکا ہے کہ سکون اور راحت تو پردیس میں ہے، ’’یہاں کیا رکھا ہے۔‘‘ پردیس کا مذہب اور معاشرت جدا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے، وہاں اجنبی بن کے رہنا پڑے تو کیا حرج، بس جیب میں اس دیس کی کرنسی ہونی چاہیے، تا کہ عیش و آرام کی زندگی گزاری جا سکے۔

شادی کے ذریعے بیرون ملک جانے کے لیے کنوارہ ہونے کی بھی شرط نہیں۔ ایسے لاتعداد مرد ہیں جنہوں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ’’پیپر میرج‘‘ کی اور پردیس میں بس کر اپنا مستقبل سنوار لیا۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ ایک نمائش میں شریک ہونے ہمارے ایک قریبی عزیز ’’ورک ان ملائیشیا‘‘ کے اسٹال پر گئے، جہاں انھیں ملائیشیا کے بارے میں تمام معلومات فراہم کی گئیں کہ وہاں کس طرح بزنس سیٹ کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انھوں نے یہاں وہاں سے پیسے اکٹھا کر کے ملائیشیا کا ٹکٹ کٹوایا اور پردیسی ہو گئے۔ موصوف شادی شدہ ہی نہیں چار بچوں کے باپ بھی تھے، لیکن باہر جا کر کچھ تو کرنا تھا، سو جب انھیں پتہ چلا کہ ملائیشیا میں خواتین پیسے لے کر ’’پیپر میرج‘‘ کی سہولت فراہم کرتی ہیں، تا کہ ملائیشیا میں رہتے ہوئے امیگریشن کے مسائل سے نمٹا جا سکے، تو انھوں نے وہاں شادی کر لی، بزنس کیا اور آج ایک کام یاب زندگی گزار رہے ہیں۔ بس کام یابی منزل ہے، چاہے اس کے لیے پیپر میرج کا غیر قانونی اور غیر اخلاقی راستہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے۔

بیرون ملک جا کر مستقبل سنوارنا اور زندگی بنانا یوں تو تقریباً ہمارے ہر نوجوان کا خواب ہے، مگر باصلاحیت، ذہین اور پروفیشنل افراد کی آنکھوں میں اترنے والا یہ سپنا پورا ہو کر ہمارے ملک کو رفتہ رفتہ محنت اور ذہانت کے اثاثے سے محروم کر رہا ہے۔ درحقیقت ہر شخص اپنے لوگوں اور اپنے ماحول میں رہنا چاہتا ہے، یہ حالات ہوتے ہیں جو اسے ترک وطن پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہیں اور مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنا دیس چھوڑ کر بیرون ملک رہائش اختیار کی جائے۔ بیرون ملک جانے والے وہاں کوئی آسان زندگی بسر نہیں کرتے، وہ بہت مشکل روز و شب گزارتے ہیں۔ بڑی محنت اور تگ و دو کے بعد وہ مقام حاصل ہوتا ہے جس کی آرزو لے کر انھوں نے ہجرت کی تھی، اور بہت سوں کے تو خواب چکنا چور بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ محنت پاکستان میں رہ کر کیوں نہیں کی جا سکتی جس کے ذریعے ہمارے لوگ دیگر ممالک میں زندگی بناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو صورت حال ہے اس میں محنت اور مشقت کا سفر اکثر کولہو کے بیل کی دائرے میں گردش بن کر رہ جاتا ہے۔

امن و امان کی صورت حال کے باعث روزگار کے مواقعے کی کمی بلکہ نایابی، سرکاری اداروں میں اقربا پروری اور ملازمتوں کی فروخت جیسے مسائل اپنی جگہ، اس سب کے ساتھ ہمارے یہاں لوگوں کو ملازمت پر رکھنے کا معیار بھی عجیب و غریب ہے۔ ہمارے ملک کے نجی اداروں میں عموماً ’’ٹین ان ون‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس شخص کو ملازمت دی جائے جو بیک وقت آٹھ دس کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یعنی وہ تعلیم یافتہ بھی ہو، تیکنیکی صلاحیت کا بھی حامل ہو اور انتظامی معاملات بھی سنبھال سکتا ہو۔ چنانچہ اکثر اداروں میں ایک ہی شخص مختلف نوعیت کے دس کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایک شخص میں ایک ہی صلاحیت تلاش کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اسے ملازم رکھا جاتا ہے۔ کسی شخص سے اس کے رجحان، صلاحیت اور شوق کے برعکس کام لینا اس کے لیے ہمت شکنی اور بے زاری کا باعث بنتا ہے، مگر ہمارے یہاں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

ہمارے ملک میں کتنے ہی ذہین، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان بے روزگاری کے صدمے جھیل کر ایک عمر گزار دیتے ہیں، مگر روزگار کی فراہمی کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ ایسے میں بے روزگار نوجوان اپنی صلاحیت اور رجحان کے برعکس مجبوری میں کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، مگر ان کے خواب پورے ہونے کو بے تاب اور تمنائیں نا آسودہ ہی رہتی ہیں۔ بہت سے ممالک میں بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس ملتا ہے، اس بنیاد پر کہ روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، اگر وہ یہ فریضہ پورا نہیں کر پا رہی تو کم از کم ملازمت سے محروم افراد کو ماہانہ کچھ رقم دے کر ان کی ضروریات کسی حد تک پوری کی جائیں، لیکن ہمارے یہاں ریاست یہ ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔

نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کے لیے مختلف حکومتوں نے جو اسکیمیں شروع کیں وہ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہیں۔ مثلاً موجودہ حکومت نے حال ہی میں بے روزگار نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی کی اسکیم شروع کی ہے، جس پر حکومت کے حامی واہ واہ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا ۔ اس اسکیم کے تحت اربوں روپے مالیت کے قرضے دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم اس اسکیم کے حوالے سے نیشنل بینک نے قرضوں کی فراہمی کے لیے جو سخت ترین شرائط عاید کی ہیں ان پر ملک کے مختلف شہروں میں نوجوان سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ قرضوں کے طلب گار نوجوان پریشان ہیں کہ اتنی بھاری مالیت کی ضمانت دینے والے ضامن کہاں سے لائیں؟ اس احتجاج کے باوجود بینک کی شرائط جوں کی توں رہیں۔ دوسری طرف ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ قرضے آٹھ سال کی مدت کے لیے دیے جا رہے ہیں، جب کہ حکومت پانچ سال رہے گی، پھر کون پوچھے گا کہ پیسہ کسے دیا کہاں گیا، چنانچہ بینک نے شرائط ہی ایسی عاید کردیں کہ عام نوجوان کے لیے اس قرضے کا حصول خواب بن کر رہ جائے۔ اب حکمراں جماعت کے کارکن اس اسکیم کو اپنی حکومت کا کارنامہ بتاتے ہوئے اسکیم کو پروموٹ کر رہے ہیں کہ ’’قرضہ لے لو، قرضہ لے لو‘‘ مگر قرضہ ملے گا تو لیا جائے گا نا۔ اب حکومت بھی خوش کہ وہ دعویٰ کر سکے گی کہ اس نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے اسکیم جاری کی اور بینک مطمئن کہ اس نے کڑی شرائط کے ذریعے پیسہ بچا لیا۔

ان حالات میں ہمارا نوجوان کیا کرے؟ وہ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی کیوں نہ ٹھانے، جہاں سخت محنت ہے تو اس کا صلہ بھی ملتا ہے، سپنے پورے ہونے کے روشن امکانات ہیں، اور کچھ نہیں تو وہاں کم از کم جان تو محفوظ ہے۔ امن و امان قائم نہ کر سکنا ہماری حکومت کی مجبوری ٹھہری، لیکن اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ذہین، با صلاحیت اور پروفیشنل نوجوانوں کو باعزت روزگار اور مناسب طرز زندگی کی حامل تنخواہیں فراہم کی جائیں، ورنہ ذہانت اور صلاحیت کا یہ سفر جاری رہا تو ہمارا ملک صرف دانش اور اہلیت کا پروڈکشن یونٹ بن کر رہ جائے گا، جس کی پیداوار دوسروں ہی کے کام آئے گی۔


بلوچ دانش سے معانقہ

$
0
0

بلوچستان کے بے انتہا المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں یہاں دانش بے تحاشا تھی مگر دانش مند کم تھے، آج دانش وروں کی بہتات ہے اور دانش مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ بقول شخصے، دانش وری کے نام پر ’دانش خوری‘ ہو رہی ہے (ویسے بلوچی میں ’ور‘ کے معنی کھانا ہیں، گویا دانش وری بلوچی میں دانش خوری ہی کہلائے گی۔) بلوچستان میں عمومی طور پر جس شخص کے نام یا تعارف میں دانش ور آ جائے، اس سے دانش مندی کی توقع عبث ہی جانیے گا۔ یہ کوئی مجموعی صورت حال تو نہیں لیکن ایسے دانش مندوں کی مثال اُس ایک مچھلی جیسی ہے، جس کی صحبت کا اثر سارے جوہڑ پہ پڑتا ہے۔ لیکن اسی جوہڑ سے پھر کنول کا پھول بھی اُگ آتا ہے، جو اس سارے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ گو کہ جوہڑ سے جڑے ہونے کے باعث وہ توجہ اور اہمیت حاصل نہیں کر پاتا جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر حمید بلوچ کو آپ ایسا ہی کنول سمجھ لیں۔

بلوچستان کی اجتماعی دانش کے جوہڑ کنارے اُگا یہ پھول بلاشبہ ہماری اعلیٰ ترین فوک دانش کا عکاس ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر کسی دانش ور کی نشانیوں میں سے اہم ترین یہ ہے کہ آپ اُس سے گلے نہیں مل سکتے کیونکہ ان کی گردن اس قدر اکڑی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ کسی حجت، کسی محبت کے سامنے جھک ہی نہیں پاتی۔ دوم یہ کہ اُس کی تحریر ماضی و معروض کے رد سے شروع ہو گی اور تاریخ کا دھارا بدل دینے والی اپنی تحریروں کے دعوؤں پہ ختم ہو گی۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنے پُر مغز علمی کام کو حقیر کہہ کر قارئین کے سامنے پیش کرے اور اپنے دوستوں سے لے کر مداحوں سے جھک کر یوں گلے ملے جیسے اُن سے برسوں کا یارانہ ہو، تو جان لیجیے یہ شخص بھلے موجودہ زمانے میں ہو لیکن روح اس میں کسی قدیم زمانے کی آباد ہے۔

برطانیہ سے باٹنی میں پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگری لینے والے ہمارے ڈاکٹر حمید بلوچ کا تمام تر علمی سرمایہ تاریخ سے متعلق ہے۔ پھول پتیوں سے تاریخ جیسے خشک موضوع کی جانب کیسے آنا ہوا؟ اس کا قصہ وہ یوں بتاتے ہیں کہ لندن میں دورانِ قیام جب انھیں برٹش میوزیم کے انڈین سیکشن میں کام کرنے کا موقع ملا، تو وہاں انھوں نے وہ نایاب نسخے دیکھے جو برطانوی عمل داروں نے اس خطے میں حکومت کے دوران یہاں سے متعلق لکھے تھے۔ یہ وہ نایاب نسخے تھے، جن کا اب تک یہاں کہیں تذکرہ نہیں ہوا۔ یہیں سے انھیں ان نسخوں کو جمع کرنے کا خیال آیا۔ اس میں ایک امر یہ مانع تھا کہ برٹش میوزیم لائبریری میں مطالعے کی تو اجازت ہے، لیکن آپ نہ تو کوئی کتاب اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں نہ ہی اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی لے سکتے ہیں۔ اب ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہ تھا کہ ان تمام پیپرز کو اپنے لیپ ٹاپ پہ منتقل کر لیں۔ اس عمر رسیدہ آدمی نے لیپ ٹاپ کندھے پہ اٹھایا ، برٹش میوزیم لائبریری کا ایک کونہ پکڑا، اور ’کتابیں اپنے آبا کی‘ اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کرنا شروع کر دیں۔ اس قصے کا دلچسپ پہلو یہ کہ یہ صاحب دس سے بارہ گھنٹے یہ کام کرتے، چھ گھنٹے کی ملازمت کرتے، جس سے جو ملتا اُسے پس انداز کرتے، اور سال بھر بعد جمع ہونے والا سارا کام اپنی جمع پونجی سے چھاپ دیتے۔ چھٹی کے رو ز ان کے کام کے معمولات اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے تک چلے جاتے۔ وثوق سے نہ سہی، پر اندازے سے کہا جا سکتا ہے کہ برٹش میوزیم لائبریری میں پڑھائی لکھائی کا اتنا کام تاریخ میں دو ہی لوگوں نے کیا ہے؛ پہلے کارل مارکس نے اور اب حمید بلوچ نے۔

آئیے اب دیکھیں کہ اس محنتِ شاقہ کے نتیجے میں کون سے شاہکار منظر عام پہ آئے!

ڈاکٹر حمید بلوچ کی شب و روز کی یہ محنت چھ انگریزی او ر دو اردو کتابوں کی صورت میں سامنے آئی۔ ہر کتاب سیکڑوں صفحات کی حامل۔ مستند حوالہ جات سے مزین، پُر مغز اور علمی خزانے سے معمور۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب تھی، ’بلوچستان ببلوگرافی‘۔ اس کتاب میں انھوں نے اُن تمام کتب کی تفصیل فراہم کی ہے، جو مستشرقین نے بلوچستان سے متعلق لکھی ہیں۔ ایک انتہائی اہم کتاب ’بلوچستان پیپرز ‘ تھی۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ایک مستند تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں لگ بھگ ایک صدی اس خطے پر حکومت کے دوران برطانوی عمل داروں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو خط و کتابت اور مراسلت کی ہے، وہ ساری کی ساری جمع کر دی گئی ہے۔ یوں یہ اُس زمانے کے بلوچستان سے متعلق ’فرسٹ ہینڈ انفارمیشن‘ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جی ہاں، ایک صدی کی خط و کتابت… کیا آپ اس کتاب کی ضخامت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ !…ایک ہزار صفحات، دو ہزار صفحات، تین ہزار صفحات؟! یہ فل اسکیپ سائز کے کاغذ کی پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، اور ہر جلد ہزار سے پندرہ سو صفحات پہ مشتمل۔ اہم ترین بات یہ کہ یہ سب انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ پہ خود کمپوز کیا، خود اپنے محنت کے پیسوں سے شایع کیا، اور خود ہی دوستوں کے توسط سے اس کی فروخت کی۔ ہم سفارش کریں گے کہ حمید بلوچ کے اس لیپ ٹاپ کو بھی برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ کر لیا جائے۔ ہم ایسے ناقدروں سے تو ان کی کتابیں ہی محفوظ ہی نہیں ہوتیں۔

پھر بلوچستان کرانیکلز‘ اور ’مکران افیئرز‘ جیسی دستاویز سامنے لائے۔ دو مزید کتابیں ’میمائرز آف ڈوگرز فیل‘ اور ’بلوچستان ایتھنو باٹنی‘ شایع ہوئیں۔ افسوس کہ یہ کتابیں میں اب تک نہیں دیکھ سکا۔ ساتھ ہی اردو میں دو اہم اور اپنے طرز کی منفرد کتابیں لائے، جس میں ایک کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے، ’مکران، عہد قدیم سے عہد جدید تک‘۔ دوسری کتاب ’بلوچ، افغان، پرشین باؤنڈری‘ کے نام سے 2012میں سامنے آئی۔ یہ اُس سرحدی تنازعے سے متعلق ہے جسے عرفِ عام میں گولڈ اسمتھ، میکموہن لائن بھی کہا جاتا ہے۔ لگ بھگ ساڑھے چھ سو صفحات پہ محیط اس کتاب میں انھوں نے خود یہ لائنیں کھینچنے والے عمل داروں کی دستاویزات پیش کی ہیں۔ کتاب کا آخری حصہ تتموں پر مشتمل ہے، جس میں انگریز عمل داروں کی ان سرحدوں سے متعلق مراسلت اور مذکورہ علاقوں کی رپوتاژ کے تراجم شامل کیے گئے ہیں۔

اس قدر پُر مغز علمی سرمایہ سے روشناس کرانے والے ڈاکٹر حمید بلوچ کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے متعلق کسی قسم کی دعوے داری نہیں کرتے۔ وہ نہایت سادگی سے اسے محض تاریخی صفحات کی تدوین کا نام دیتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کرتے کہ انھوں نے اس خطے کی تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یا اس قدر کٹھن کام کر کے انھوں نے کوئی معرکا سرانجام دیا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ’بلوچستان اینلز‘ اور ’بلوچستان کرانیکلز‘ جیسا کام کرنے کے لیے اداروں کو بھی لاکھوں روپے کے فنڈز اور بیک وقت کئی ماہرین درکار ہوتے ہیں، تب بھی ان اداروں میں برسوں میں اس نوعیت کا کام نہیں ہو پاتا۔ لیکن اس دھان پان سے آدمی نے محض اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے یہ کارنامہ سرانجام کر دکھایا۔

ان کی ایک اور بڑائی یہ کہ یہ اس سارے کام کا کریڈٹ تنہا لینے کو بھی تیار نہیں۔ وہ پروفیسر صبا دشتیاری مرحوم کو اپنا فکری استاد اور رہنما قرار دیتے ہیں جن کے اکسانے اور تعاون کے بغیر، ان کے بقول اس کام کی بنیاد ہی نہ پڑتی۔ ان کی تمام کتب بھی صبا دشتیاری کے قائم کردہ ادارہ سید ہاشمی ریفرنس کتاب جاہ کے زیر اہتمام ہی شایع ہوئی ہیں۔ نیز اپنی ہر کتاب میں وہ ان تمام دوستوں کا تذکرہ بارہا کرتے رہتے ہیں جنھیں وہ اپنا ’ٹیم ورک‘ قرار دیتے ہیں۔ یہی بڑائی، یہی وقار، حقیقی بلوچ دانش کا خاصہ رہا ہے۔ ان معنوں میں ڈاکٹر حمید بلوچ ہماری حقیقی فوک دانش کا تسلسل ہیں۔ وہ اس معدوم ہوتی ہوئی نسل کی آخری نشانیوں میں سے ہیں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص کسی ترقی یافتہ معاشرے میں ہوتا تو وہاں کا جینی اَس قرار پاتا۔ ہم نے اپنی فکری پسماندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی دھرتی کے لیے یورپ کو خیرباد کہہ کر آنیوالے اس نابغہ روزگار کو اوتھل یونیورسٹی میں کانٹریکٹ ملازمت پہ رکھا ہوا ہے  تو بقولِ حبیب جالب، اپنے اکابرین کی ایسی ناقدری کرنے والی قوم کو مار کیوں نہ پڑے…اسے مار پڑتی رہنی چاہیے!

ناکامی کی راکھ سے کامیابی

$
0
0

بروک نے کہا تھا شکست نہ کھانے والا ارادہ، پریشان نہ ہونے والا خیال اور ختم نہ ہونے والی جدوجہد یہ کامیابی کے ضامن ہیں۔ انگریز عالم آئن نیشن جاپان گئے انھوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے مطالعے اور تحقیق کے نتائج کی روشنی میں 238 صفحات کی ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’ جاپان کی کہانی ۔‘‘ اس میں مصنف لکھتے ہیں ’’ جاپانی قوم کی زندگی کو جس چیز نے سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کانٹو کا عظیم زلزلہ تھا، یکم ستمبر 1923 کو زلزلے کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ آباد علاقہ تھا دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945 میں جاپان کی شکست تھی جب کہ دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو انتہائی بڑے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ زلزلے سے اگر تعمیر نو کا ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے اس کے بر عکس زلزلہ اگر صرف محرومی اور جھنجھلا ہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخؒ پکار وجود میں آتی ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اتنی بے معنیٰ ہے کہ اس سے زیادہ بے معنیٰ کو ئی چیز نہیں۔ ‘‘ دوسری عالمی جنگ کی ابتدا میں امریکا براہ راست شامل نہ تھا تاہم ہتھیار اور سامان کے ذریعے اس کی مدد برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا ذریعہ بنی ہوتی تھی چنانچہ جاپان نے امریکا کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔

اس نے 7 دسمبر1941 کو اچانک امریکا کے بحری اڈہ پرل ہاربر پر شدید حملہ کیا اور اس کو تبا ہ کر دیا تاہم امریکہ کی ہوائی طاقت بدستور محفو ظ رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکا میں ایٹم بم کی پہلی کھیپ زیر تکمیل تھی چنانچہ اس کے مکمل ہوتے ہی امریکا نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ اس کو برباد کر دیا جائے گا۔ جاپان کو امریکا کی جدید قوت کا اندازہ نہ تھا اس نے اس کو منظور نہیں کیا۔ چنانچہ 14 اگست 1945 کو امریکا نے جاپان کے دو بڑے صنعتی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے، ایک لمحے میں جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہوکر رہ گئی اور جاپان نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے فوراً بعد جنرل میکارتھر امریکی فوجوں کے ساتھ جاپان میں اتر گئے اور جاپان کے اوپر مکمل طور پر امریکا کا فوجی قبضہ ہو گیا ۔

جاپان اگرچہ فوجی اعتبار سے شکست کھا چکا تھا مگر جاپانیوں کا جنگی جنون بدستو ر قائم تھا جاپانیوں کا جنگی جنون اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنے جسم میں بم باندھ کر جہازوں کی چمنی میں کود جاتے تھے۔ ا ب جنرل میکارتھر کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس جنگی جنون کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔ جنرل میکارتھر نے اس کا حل اس تدبیر میں تلاش کیا کہ جاپانیوں کے جذبے کو جنگ سے ہٹا کر معاشی سرگرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔ امریکی مبصر اینتھو نی لیوس نے 1985 میں لکھا جب جاپان نے 40 سال پہلے ہتھیار ڈالے تو جنرل میکارتھر نے نہ صرف جاپان پر فوجی قبضہ کر لیا بلکہ اس کے ساتھ ان کی مہم یہ تھی کہ وہ ملک کی از سرنو تشکیل کر یں اگر اس وقت ان سے پو چھا جاتا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ کہتے کہ جاپان کے جار ح عوام کے جو ش کو جنگ کے بجائے اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا۔ ‘‘ اس وقت جاپان کے لیے ایک صورت یہ تھی کہ وہ اپنے جنگی جوش کو باقی رکھتا اگر کھلے طور پر میدان جنگ میں لڑنے کے مواقعے نہیں تھے تو وہ خفیہ طور پر امریکا کے خلاف اپنی مقابلہ آرائی کو جاری رکھتا مگر جاپان نے فاتح کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فوراً اپنے عمل کا رخ بدل دیا۔

اس نے امریکا سے براہ راست ٹکرائو کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنس، تعلیم اور ٹیکنیکل ترقی کے راستے میں لگا دیا۔ جاپان کو اس عقل مندی نے اس کے لیے نیا عظیم ترامکان کھول دیا۔ جنگی میدان میں اقدام کے مواقعے نہ پا کر اس نے اقتصادی میدانوں میں اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف 30 سال میں جاپان نے پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت حاصل کر لی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک مبصر لکھتے ہیں یہ پر ل ہاربر کے واقعے کا بڑا عجیب اختتام ہے مگر تاریخ میں اس طرح سے راستہ نکال لینے کی بہت سے مثالیں ہیں اور پرل ہاربر ان میں سے ایک ہے ۔ 1945 میں امریکا نے جاپان کے اوپر فتح کی خو شی منائی تھی۔ آج 1945 کا مفتوح جاپان امریکا کے اوپر اپنی اقتصادی فتح کی خو شی منا رہا ہے امریکا آج سب سے بڑا قرض دار ملک ہے۔ اس کے برعکس جاپان نے دنیا کو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے ۔1945 میں امریکا نے جنگ جیتی تھی مگر جاپان نے امن جیت لیا۔ ‘‘نیوز ویک میں 12 اگست 1985میں ایک رپورٹ بعنوانJapan the 40 year Miracle  چھپی اس میں1945میں جاپان کی مکمل بربادی کے چالیس سال بعد اس کی غیر معمولی ترقی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاپانی قوم افسانوی پرندہ کی طرح خود اپنی راکھ کے اندر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

جاپان کو خود اپنے فاتح کے مقابلے میں کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا تھا، حقیقت کا اعتراف ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک درست سمت میں ہے اور وہ اپنی حکمت عملی، پالیسیوں اور نظریے کی وجہ سے روز بروز طاقتور سے طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ عوام آزاد، خو شحال ہو چکے ہیں ملک کے تمام ادارے مستحکم ہو چکے ہیں۔ پاکستان بنا نے کے تمام مقاصد ہم نے حاصل کر لیے ہیں تو پھر آپ اپنی موجود ہ پالیسیوں، حکمت عملی اور نظریہ پر قائم و دائم رہیں آپ کو نہ کوئی روکے گا اور نہ ہی کوئی ٹو کے گا لیکن اگر آپ ملک کے18 کروڑ عوام کی طرح یہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنی موجودہ پالیسیوں، حکمت عملیوں، نظریے، خارجہ پالیسی، پڑوسیوں سے خراب تعلقات، اقتصادی پالیسیوں، عدم مساوات، عدم برداشت، اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے مکمل ناکامی، تباہی اور بربادی سے دو چار ہو چکے ہیں۔ تو پھرآپ ملک کے 18 کروڑ عوام کی طرح صحیح سوچتے ہیں۔

میتیھو نے کہا تھا جب اندھے کی رہنمائی اندھا کر رہا ہو تو دونوں گڑھے میں گرتے ہیں اور ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ جب ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہم گڑھے میں گر چکے ہیں تو ظاہر ہے ہم اس سے باہر نکلنے کی کوئی نہ کوئی صورت اور راستہ نکال لیں گے اور یہ ہی وہ وقت ہو گا جب ہمارے نئے سفر کا ناکامی سے کامیابی کی طرف آغاز ہو جائے گا۔ سائرس نے اس موقعے کے لیے یہ کہا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی بلند مقام تک پہنچا جائے تو پھر کہیں سے بھی سفر شروع کر دیں۔ سیڑھی پر چڑھنے کے لیے پہلے زینے پر قدم ضرور رکھنا پڑتا ہے ۔ آپ اپنا پہلا قدم اٹھا کر دیکھیں پھر کس طرح ہماری ناکامی کی راکھ سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ بس ہمیں اپنا رخ تبدیل کرنا ہے اور عوام کے جوش کو اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا ہے۔ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ جو سوچتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں دوسرے وہ جو بلا سوچے سمجھے ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں تیسر ے وہ جو سوچتے بھی اور کرتے بھی ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو مٹی کو سونا بنا لیتے ہیں۔ آئیں !ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے آنے والوں کے لیے سوچیں اور کرتے بھی جائیں ۔ مایوسی کفر ہے صبح جتنی قریب ہو گی رات اتنی ہی تاریک ہو گی۔ نپو لین نے بالکل صحیح کہا تھا فتح ہمیشہ مستقل مزاج لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ پاکستانیوں کو بس یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ مستقل مزاج ہیں ۔

کاریوں کا قبرستان

$
0
0

8 مارچ کو تپتی ہوئی ریت پر، کانٹے دار جھاڑیوں سے بچتے بچاتے کراچی اور حیدر آباد کی عورتوں کا ایک گروپ شہداد کوٹ کی روبینہ کی رہنمائی میں مٹی کی ان ڈھیریوں کی طرف جا رہا تھا جو دراصل ان عورتوں کی قبریں تھیں جنھیں ان کے گھر اور گاؤں کے مردوں نے ’’کاری‘‘ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔ ان عورتوں کو مرنے کے بعد بھی بخشا نہیں جاتا، انھیں کفن نہیں پہنایا جاتا اور نہ ہی انھیں عام قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے بلکہ قتل کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی کسی ویران جگہ پر ان پر مٹی ڈال کے ان کی قبر بنا دی جاتی ہے، نہ ہی کبھی کوئی ان پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہے، نہ پھول چڑھانے اور نہ چراغ جلانے لیکن اس مرتبہ خواتین محاذ محفل سے تعلق رکھنے والی کراچی اور حیدر آباد کی اٹھارہ بیس خواتین نے طے کیا تھا کہ وہ عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر ان قبروں پر حاضری دیں گی، ان پر پھول چڑھائیں گی اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں گی کیونکہ یہ عورتیں ’’کاری‘‘ نہیں بلکہ ’’مزاحمتی‘‘ عورتیں تھیں جنھوں نے معاشرے کے فرسودہ رسوم و رواج سے بغاوت کر کے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق مانگا تھا۔

ہم ’’کاریوں کا قبرستان‘‘ نہیں بلکہ ’’مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ‘‘ دیکھنے گئے تھے جہاں سوائے چار پانچ مٹی کی ڈھیریوں کے باقی قبروں کے نام و نشاں مٹ چکے تھے صرف ایک قبر پختہ نظر آئی، روبینہ نے بتایا کہ اس لڑکی کی ماں نے اس کی قبر کو پختہ کروایا تھا اور اس جرم میں ماں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا، پاس ہی واقع کچی قبر ماں کی تھی۔ تب ہی ایک عجیب سی بات ہوئی، اس چلچلاتی دوپہر میں اچانک ہمارے سر پر بادل آ گیا اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہمیں چُھو کر گزر گیا۔ شاید مظلوم ماں بیٹی کی روحیں ہمارا خیرمقدم کر رہی تھیں۔ ہم نے ان قبروں پر پھول چڑھائے۔ عطیہ داؤد نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی نظم ’’کاری‘‘ پڑھی ان مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ میں کچھ وقت گزار کے ہم شہداد کوٹ روانہ ہوئے جہاں پر بھات نامی تنظیم کے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ہونیوالے پروگرام میں دو سو سے زائد عورتیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ہم سب کو دعوت خطاب دی گئی۔ خوش آیند بات یہ تھی کہ مقررین اور شرکا میں مرد حضرات بھی شامل تھے جو بڑے جذبے کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی حمایت کر رہے تھے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔

دوپہر کا کھانا جو منتظمین اپنے گھروں سے بنوا کر ہمارے لیے لائے تھے خاص طور پر چاول کی روٹی اور ذائقے دار پلہ مچھلی کھا کے ہم خیرپور روانہ ہوئے جہاں شاہ لطیف یونیورسٹی میں وائس چانسلر پروین شاہ اور بھٹائی ویلفیئر کے خادم میرانی نے عالم یوم خواتین کے موقعے پر ایک شاندار پروگرام میں ہمیں مدعو کیا تھا۔ ہمارے قیام کا انتظام یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ اگلے روز ہم نے سکھر میں سادھو بیلا کا مندر دیکھا اور سہ پہر میں سکھر پریس کلب میں اپنے دورے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کر کے کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ کراچی کی ایکٹیوسٹ خواتین ہر سال عالمی یوم خواتین کراچی میں ہی منایا کرتی ہیں لیکن امسال 2014میں ہم نے یہ دن اندرون سندھ جا کے منانے کا فیصلہ کیا، سب سے زیادہ تحریک ہمیں کاریوں کے قبرستان کو دیکھنے کے خیال سے ملی۔ یہ خیال ہمیں اس وقت آیا جب ویمنز ایکشن فورم کراچی چیپٹر کی ارکان یکم اور دو فروری کو حیدرآباد چیپٹر کے کنونشن میں شرکت کرنے گئیں۔ یہ دو روزہ پروگرام انتہائی ولولہ انگیز تھا۔ جس میں لاہور سے نگہت سعید خاں نے بطور مبصر شرکت کی۔

کراچی چیپٹر کی سینئر ارکان نے حیدر آباد چیپٹر کی نوجوان ارکان کی سرگرمیوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا، دونوں چیپٹرز کی کوشش ہے کہ عورتوں کی تحریک کو پورے سندھ میں پھیلایا جائے۔ عالمی یوم خواتین اندرون سندھ جا کے منانے کا مقصد بھی یہی تھا۔ یہاں ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ خواتین محاذ عمل یا ویمنز ایکشن فورم کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی سے فنڈنگ لیتا ہے۔ اس کی ابتدا 1981 میں ضیا الحق کے دور میں اس وقت ہوئی جب فہمیدہ اللہ بخش کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی تو شرکت گاہ کے دفتر میں چند خواتین جمع ہوئیں اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف احتجاج کے لیے خواتین محاذ عمل تشکیل دیا۔ 12 فروری 1983 کو لاہور میں مال روڈ پر واف کی خواتین ضیا الحق کے بنائے ہوئے قانون شہادت کے خلاف اسمبلی میں جا کے عرضداشت جمع کرانے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ ان کے ساتھ عوامی شاعر حبیب جالبؔ بھی تھے۔ پولیس نے بے دردی سے ان سب پر لاٹھیاں برسائیں۔ حبیب جالبؔ کا سر پھٹ گیا۔ بہت سی خواتین زخمی ہوئیں اور بہت سی جیل پہنچ گئیں۔ اس واقعے کی بدولت ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ ویمنز ایکشن فورم کی جانب مبذول ہو گئی اور سول سوسائٹی 12 فروری کو پاکستانی عورتوں کے دن کے طور منانے لگی۔

2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 12 فروری کو سرکاری طور پر پاکستانی عورتوں کا قومی دن قرار دیا اور یوں اس دن کو سرکاری طور پر بھی منایا جانے لگا۔ 1981 میں ویمنز ایکشن فورم کے قیام کے بعد سے پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ عورتوں کے خلاف ہونیوالے ظلم و زیادتی اور امتیازی قوانین اور رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ اس تحریک میں شامل خواتین نے بعد میں اپنی این جی اوز بھی بنائیں۔ شرکت گاہ تو پہلے سے بن چکی تھی۔ نگار احمد اور شہلا ضیا نے 1986 میں عورت فاؤنڈیشن بنائی۔ عاصمہ جہانگیر نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بنایا۔ حنا جیلانی ’’دستک‘‘ نامی ادارہ چلاتی ہیں جہاں مظلوم عورتوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ نگہت سعید خاں نے ASR کے نام سے ایک تحقیقی و علمی ادارہ قائم کیا۔ نیلم حسن سیمرغ نامی ادارہ چلاتی ہیں۔ غرض یہ کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنیوالے اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا مگر ویمنز ایکشن فورم نے اپنا تشخص برقرار رکھا۔ اس نے نہ کبھی کسی سے فنڈنگ لی اور نہ ہی کوئی نظام مراتب اپنایا بلکہ سارے فیصلے باہمی صلح و مشاورت سے کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔

امسال کراچی کی اہم این جی اوز نے آرٹس کونسل کے تعاون سے عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر ایک پروگرام 7 مارچ کو منعقد کیا جس میں شیما کرمانی کی پرفارمنس بھی شامل تھی۔ انیس ہارون کے ابتدائی کلمات کے بعد شام 4بجے ویمنز ایکشن فورم کی ارکان آرٹس کونسل سے سیدھے خیرپور کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ وفد کی آدھی خواتین نے تاخیر ہو جانے کے باعث رات دادو کے ایک گیسٹ ہاؤس میں بسر کی جب کہ دوسرا گروپ جو پہلے نکل گیا تھا اس نے خیرپور یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں رات گزاری۔ دوسری صبح دونوں گروپس شہداد کوٹ سے ہوتے ہوئے کاریوں کے قبرستان پہنچے اور ان مظلوم عورتوں کی قبروں پر پھول چڑھا کے اور اشک بہا کے عورتوں کا عالمی دن منایا اور یوں ویمنز ایکشن فورم کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔

اپنا شہر!

$
0
0

انسانوں کی اکثریت فطری طور پر ماضی پسند واقع ہوئی ہے۔ خصوصاً جب ہاتھ پیروں میں رعشہ آ جائے، نظر چندھیانے لگے اور آدمی کو بھائی یا چچا سے بابا جی کہہ کر پکارا جانے لگے تو گزرا زمانہ شدت سے یاد آنے لگتا ہے، خصوصیت سے شباب کا زمانہ، جب جوانی کا خمار کسی پل چین نہیں لینے دیتا، جب رگوں میں خون نہیں بجلی دوڑتی محسوس ہوتی ہے، اور حوصلوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ آسمان کے ستارے سچ مچ اپنی دسترس میں محسوس ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کے گھر میں کوئی بزرگ دادا، دادی… نانا، نانی یا چلیں اماں جان یا ابا حضور ہی کو لے لیجیے، آپ جب کبھی ان کے پاس بیٹھیں، آپ نوٹ کریں گے کہ بات کوئی بھی چل رہی ہو، وہ اس کا سرا پکڑ کر ماضی میں لے جائیں گے ۔

ماضی… پیارا ماضی…وہ سنہرا وقت جب بقول اُن کے سب لوگ خوشیوں کے ہنڈولے پر جھولتے تھے ،جب آٹا، دالیں اور چاول ٹکے سیر ملا کرتے تھے، جب محبت تھی، دیدوں میں مروت تھی اور پڑوسیوں میں ماں جایوں جیسی چاہتیں تھیں اور جب جب… یہ بہت سارے ’جب‘ بیان کرتے ہوئے ان کے دمکتے پر جوش چہروں کو دیکھا کیجیے۔ وہاں انوکھے رنگ جھلملاتے آپ کو نظر آئیں گے، وقتِ پیری شباب کی باتیں کرتے ہوئے ان کی جھریوں بھرے پپوٹوں سے جھانکتی زمانہ شناس آنکھیں خواب ناک ہو جائیں گی۔ اس وقت ان کی نگاہیں ماضی میں جھانک رہی ہوتی ہیں، گویا ان کا بچپن اور جوانی مجسم ان کے سامنے آ گئے ہوں، آواز میں چمک، لہجے میں لچک… خوشی اور حسرت کا ملا جلا امتزاج !

ہائے واقعی یہ ماضی بھی عجیب ہے… ہر ایک کو اپنا ’دور‘ ہی اچھا لگتا ہے، لیکن آپ ذرا غور کیجیے کہ بے شک ہمارے بزرگوں کا دور آج کے اعتبار سے مثالی تھا، لیکن کیا اس وقت خونریزی نہیں ہوتی تھی؟… کیا جنگ عظیم اول دوم ماضی کی جنگیں نہیں؟ کیا تقسیم کے وقت کی سفاکیت اور درندگی ہمارے بزرگوں کا ماضی نہیں؟ اگر چیزیں سستی تھیں تو آمدنی بھی تو کم تھی! ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ’گزرا ہوا کل‘ اور ہمارا ’آج‘ اقدار اور امن و امان کے حوالے سے برابر ہیں، نہیں آج دنیا زیادہ بری ہو گئی ہے، دنیا والے زیادہ ظالم اور مادہ پرست ہو گئے ہیں، لیکن یہ کوئی انہونی نہیں تکوینی بات ہے، ہمارے بزرگوں کا دور اور اُن کے بزرگوں کا دور بھی تو برابر نہیں ہوں گے… اُن کے بزرگ ان کے سامنے اپنے ’دور‘ کو یاد کر کے سرد آہیں بھرتے ہوں گے…ایسا تو شروع سے ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے، صحابہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد ہم نے تغیر محسوس کیا، ہماری وہ حالت نہیں رہی، جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تھی۔ پھر جیسے جیسے دنیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد سے دور ہو تی گئی، ویسے ویسے ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا، نہ پہلے کے سے نفوس رہے، نہ ان کے سے کردار و عمل۔

بہرحال بات ہو رہی تھی کہ انسان جبلی طور پر ماضی پسند ہوتا ہے اور ہم تو شروع ہی سے کچھ بنیاد پرست اور قدامت پسند واقع ہوئے ہیں، ابھی بابا جی بننے کا مرحلہ بہت دور ہے لیکن اکثر ’گزرا‘ وقت بہت یاد آتا ہے۔ کاموں کا ہجوم جب سر پر سوار ہوتا ہے، فکروں اور پریشانیوں کے اژدھام میں جب دل گھبرا جاتا ہے تو ایسے میں بے اختیار اپنے بچپن اور لڑکپن کا پیارا دور نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ جب کوئی فکر نہ تھی… اپنے شہر کی گلیاں… اپنا اسکول، اساتذہ اور دوست یاد آتے چلے جاتے ہیں اور دل ہمک ہمک کر اس چاند کی خواہش کرتا ہے جو آسمان کی وسعتوں میں نہیں بلکہ صرف چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ جی کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کچھ دن کے لیے اپنے شہر کا رخ کیا جائے، لیکن کتنی ذمے داریاں ہیں، جو قدم جکڑ لیتی ہیں۔ دفتر کا کام، گھر کا انتظام، بیگم اور بچے، لیکن اس بار جب ہم ایک تھکا دینے والی مصروفیت سے کچھ فارغ ہوئے اور ایک پیغام موصول ہوا کہ بچپن کے دوست سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اسکول کا چکر لگانے کا بھی پروگرام ہے تو ہم نے ساری رسیاں توڑیں اور دو دن کا پروگرام بنا ہی لیا۔ سوچا بچوں کو بھی لے جائیں اور ٹرین سے جایا جائے تا کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ پاکستان میں ٹرینیں بند ہی ہو جائیں، ان کا شوق پورا ہو جائے… لیکن افسوس یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بہرحال ہم نے خود ہی اندرونِ سندھ ’ٹنڈوآدم‘ کی راہ لی…چار گھنٹے میں بس نے ہمیں پہنچا دیا۔

اگلے دو دن ہم عادت سے مجبور ہو کر اپنا اور اپنے شہر کا تجزیہ کرتے رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جہاں دوستوں سے مل کر انمول خوشی نصیب ہوئی۔ ماضی کے پرلطف قصے، شرارتیں، قہقہے اور مسکراہٹوں نے دل و دماغ کو فریش کر دیا۔ وہیں ایک پہلو سے دل اداس بھی ہو گیا…ہمارے ننھے سے پیارے شہر میں بھی ’بڑے‘ شہر وں والے سارے ’نخرے‘ آ گئے تھے۔ وہی پراپرٹی کی باتیں…وہی اونچی اونچی عمارتیں، جن کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا بڑے شہروں سے فخریہ موازنہ کرتے چہکتے لب اور چمکتی آنکھیں، وہی نفسانفسی اور بدامنی۔ اسکول کا حال دیکھ کر تو دل بہت برا ہو ا…ایک کھنڈر سامنے تھا۔ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں گلیاں بن گئی تھیں اور گلیاں ابلتے جوہڑ۔ ہمیں لگا، جو سوچا تھا غلط تھا، کیسا بچپن، کیسا لڑکپن!… سب ان عمارتوں کے جنگل میں گم ہو گیا۔ ہم جس خوبصورت ماضی کو کھوجنے آئے تھے۔ وہ تو جدیدیت میں کہیں تحلیل ہو گیا…بس خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لیے ہم لوٹ کر اپنے کراچی آئے، اب تو بس یہی اپنا شہر ہے!… شہرِ غریباں… ایشیا کا گیٹ وے، شہر زرنگار… عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر …جو اب ’’لاشوں کا شہر‘‘بن گیا ہے! جس دن ہم آئے اسی دن لیاری میں گینگ وار میں ایک دن میں خواتین اور بچوں سمیت بارہ نفوس جاں بحق ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ لیاری کے ڈیڑھ لاکھ مکیں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں…نہ جانے کب لیاری والوں کے درد کا درماں کیا جائے گا؟ کب ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کیا جائے گا؟ اللہ سب کی جان و مال، عزت آبرو اور ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو اپنی اقدار اور روایات کی حفاظت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔

کیا وقت دعا ہے؟

$
0
0

بیشک چند دہشت گرد مسافروں سے بھری لانچ کو ڈبو سکتے ہیں لیکن ویسی لانچ بنا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔ پاکستان کی محرومی یہ ہے کہ اس کے پاس خودکش بمباری کا توڑ نہیں ہے کیونکہ سایوں کا تعاقب تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے نہ ان کا قلع قمع۔ طالبان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں، حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں اور عوام کو دہشت زدہ بھی کر سکتے ہیں لیکن پاکستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ان کو اپنی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکلنا پڑے گا پھر وہ ناقابل تسخیر سایے نہیں رہتے بلکہ جیتے جاگتے انسان بن جاتے ہیں اور ان کے مقابل 18کروڑ ستم رسیدہ عوام اور لاکھوں افواج کھڑی ہونگی۔ جنگ کی بنیاد طاقت کے بل بوتے پر کمزور حریف پر ’’غلبہ‘‘ حاصل کرنے کی خواہش ہوتی جب کہ اور امن مذاکرات کی بنیاد ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے تحت ’’بقائے باہمی‘‘ کی تمنا۔ یہی وجہ ہے کہ بات چیت اور طاقت، جنگ اور امن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ امن مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ’’باہمی اعتماد پر ہوتا ہے جب کہ جنگ میں دھوکا دہی کو ’’حکمت عملی‘‘ کہتے ہیں۔

سانحہ اسلام آباد کے بعد امن مذاکرات پر ’’ٹھنڈک‘‘ طاری ہو گئی تھی۔ میاں نواز شریف کی خواہش اور کوشش سے اس وقت نہ صرف دوبارہ مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں بلکہ مشاورت میں عمران خان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ نئی حکومتی مذاکراتی ٹیم زیر تکمیل ہے جو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گی (اگر ’’خفیہ ہاتھ‘‘ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا رہا تو) مذاکرات پر مزید تبصرے سے پہلے چند اہم نکات پر ایک نظر۔

A۔ آج کی پیچیدہ، سنگین صورتحال کی بنیاد یہ ہے کہ TTP کی چھتری تلے جتنی بھی پارٹیاں ہیں ان سب کے ایجنڈے اپنے اپنے ہیں۔ صرف حکمت عملی یعنی دہشت گردی مشترکہ ہے۔ کارروائی کوئی بھی کرے ذمے داری TTP قبول کرتی ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے خلاف تخریبی کارروائی ہوئی، فوج نے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کر دی۔ باقی تو کالعدم ہیں۔

B۔ اس وقت نفاذ شریعت کے تین ممکن حل ہیں۔(1)۔ ایسا ملک جہاں کی غالب اکثریت کسی ایک مسلک کے پیروکاروں پر مشتمل ہو تو وہاں شریعت کا نفاذ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ہمارے پڑوس میں ہی دو مسلم ممالک ایسے ہیں۔ (2)۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر ملک میں مسالک کی کثرت ہے تو تمام علمائے دین سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور شریعت کے بنیادی احکامات پر ایک ہو جائیں۔ یہ مسئلہ دین اسلام کا ہے اس کا حل بھی علمائے دین ہی نکال سکتے ہیں۔ جاہلان مطلق (حکومت) نہیں۔ (3)۔ اگر یہ بھی ناممکن ہے تو پھر پاکستان میں رائج صورت حال آئیڈیل ہے ۔ 1973 کے متفقہ آئین کی رو سے (جس پر تمام جید بزرگ علمائے دین کے بھی دستخط ہیں) شریعت کے خلاف قانون سازی کی ہی نہیں جا سکتی۔ اگر کوئی قانون شریعت کے خلاف پایا گیا تو وہ شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اگر رہنمائی کی ضرورت ہے تو اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے۔

C۔ معطل شدہ میرٹ بحال کرنے کے لیے طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنے ہی ملک میں اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ آخری آپشن سے پہلے ہر قابل عمل آپشن آزما لینا عقلمندی ہے۔

چنانچہ جب بھی اس ملک میں معطل ریاستی رٹ کو بحال کرنے کے لیے (سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے مطابق ایکسپریس، ٹریبیون، 2 مارچ ) ہارڈ پاور (ریاستی طاقت) استعمال کی جائے۔ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فوراً سوفٹ پاور (سول انتظامیہ) حرکت میں آ جائے تا کہ شورش زدہ علاقے میں قانون کی حکمرانی قائم ہو اور سیاسی سرگرمیاں بحال ہو جائیں۔ اس کے بعد ہارڈ پاور بتدریج وہیں چلا جائے۔ یہاں میں ایک اور ضرورت کی طرف بھی توجہ دلاؤں گا کہ ان مثبت نتائج کو دوام بخشنے کے لیے علاقے میں تعلیم کا چلن، مفلسی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

پرانے وقتوں کی بات ہمارے اسکول میں ایک کرسچین ڈرائنگ ٹیچر ’’نائیڈو صاحب‘‘ ہوا کرتے تھے جن کے پاس ہمیشہ ایک بوتل ہوا کرتی تھی جس میں سیال ہریرہ، دلیہ وغیرہ بھرا رہتا تھا جس سے وہ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد دو چار گھونٹ لے لیا کرتے تھے۔ یہی ان کا ناشتہ ، لنچ، ڈنر تھا۔ ایک دن دریافت کرنے پر بتایا کہ سال میں ایک دو مرتبہ ان کے پیٹ میں اتنا شدید درد اٹھتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ برداشت کر سکتے تھے پھر بیہوش ہو جاتے تھے پھر رفتہ رفتہ ایسے دوروں کی تعداد بڑھنے لگی اور ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہو گئی۔ ہر قسم کا علاج معالجہ، تعویذ گنڈے، ٹونے ٹوٹکے کرا لیے لیکن ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوا۔ پھر انھوں نے ساری دوا دارو چھوڑ کر تہیہ کر لیا کہ جب بھی برداشت جواب دے گی خودکشی کر لیں گے۔ اس دوران ان کی مڈبھیڑ ایک سادھو سے ہو گئی وہ اس کے گلے پڑ گئے اور اس کے پیر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اپنی بپتا سنائی اور کسی ’’چٹکلے‘‘ کا تقاضا کرنے لگے۔ جب سادھو مجبور ہو گیا تو اسے ایک پڑیا دی اور کہا کہ اس کو کسی محفوظ جگہ رکھ کر بھول جائیں۔ جب خودکشی کرنے لگیں تب بجائے زہر کھانے کے وہ پڑیا پھانک لیں۔ اتنا شدید درد اٹھے گا کہ منٹوں میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اگر ہوش آ گیا تو سمجھ لیں کہ وہ صحت یاب ہو گئے۔ ہمیشہ کے لیے۔ اس کے بعد ان کو چاہیے کہ سیال غذا استعمال کریں۔ خالی پیٹ نہ رہیں۔

اس وقت مرگ مسلسل دہشتگردی سے تنگ آئے ہوئے عوام ’’پڑیا‘‘ پھانکنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے انتظار کا پیمانہ کرچی کرچی (کراچی کراچی نہیں) ہو گیا ہے اور صبر کا دامن اس تار تار۔ وہ دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں۔ بات چیت سے ہو یا طاقت سے۔ فریقین (حکومت + طالبان) زور و شور سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ نئی حکومتی مذاکراتی ٹیم تشکیل کی جا چکی، وزیر اعظم اور عمران خان ملاقات بھی ہو چکی۔ لیکن ذہنوں میں اندیشوں کا راج بھی ہے۔ فضا پر بے یقینی کی دھند بھی چھائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ حد نظر صفر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود مذاکرات کو ہونا چاہیے۔ یہ آخری موقعہ ہے۔ دونوں فریق (حکومت+طالبان) یہ سمجھ کر مذاکرات کریں کہ اس کے علاوہ کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ کیوں۔۔۔؟ کیونکہ اب اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو TTP کا سب سے طاقتور بانی گروپ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے پیج پر اگر نہیں بھی آتا ہے تو اس کا غیر جانبدار ہو جانا بھی بڑی کامیابی ہے۔ عمر بن عبدالعزیز (عمر ثانی) سے سوال کیا گیا ’’آپ اپنے دشمن سے کس طرح پیش آتے ہیں؟ ’’جواب ملا ’’میں اسے نیست و نابود کر دیتا ہوں‘‘ پھر سوال کیا گیا ’’کیسے؟‘‘ پھر جواب ملا ’’میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔‘‘

Viewing all 22600 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>