دنیا میں سب سے پہلے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے والا ایٹمی سائنسدان ہوسکتا ہے آج دنیا میں موجود نہ ہو لیکن اس نے دنیا کو جس ہولناک خطرے سے دوچارکردیا ہے اس تباہ کن خطرے کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ انسان دشمن ہتھیار دنیا میں متعارف ہوا اور اسی ہتھیار کو ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکا نے استعمال کرکے ان دو شہروں میں قیامت صغریٰ برپا کر دی۔ امریکا دنیا کی ایک عرصے تک واحد سپر پاور رہا ہے اور دنیا میں جو تباہ کن جنگیں لڑی گئیں ان میں اس سپرپاور کا دخل رہا ہے۔
اسی سپر پاوری کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ایٹمی ہتھیاروںکا ذخیرہ ہے۔ ایٹمی ہتھیار ہیروشیما اور ناگاساکی میں اس کی تباہ کاری سے ناواقفیت کی فضا میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ان ایٹم بموں کی تباہ کاری سے وہ ایٹمی سائنسدان بھی واقف تھے اور وہ حکمران بھی جو 1945ء میں امریکا میں برسر اقتدار تھے لیکن اس باخبری، علم اور معلومات کے باوجود جاپان کے ان دو بڑے شہروں پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو زندہ جلا دینا ایسا جرم تھا جس کی سزا اگر سو بار سزائے موت ہوتی تو وہ بھی کم تھی۔ لیکن طاقت کی برتری کے جنگل کے تحت دنیا کے اس سنگین ترین جرم کے مجرم کے خلاف کوئی تعزیری اقدام نہیں کیا گیا اور اس جرم کا مجرم ٹھاٹھ سے حکمران رہا اور باعزت طریقے سے مرگیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلرکے فاشزم سے دنیا کی قیادت اسی قدر خوفزدہ تھی کہ امریکا کی طرف سے ایٹم بم کے استعمال پر خاموش رہی، لیکن یہ دنیا کے حکمرانوں کا فرض تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایٹمی ہتھیار تلف کرکے اس کی تیاری کو ایک عالمی جرم قرار دے دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ امریکی ایٹم بم کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ آج امریکا اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں۔
اس احمقانہ اور انسانیت کش ایٹمی دوڑکو دنیا کے بیہودہ اور بددماغ حکمرانوں نے ایٹمی ہتھیاروں سے بچاؤ کا ذریعہ اور طاقت کے توازن کا نام دیا ہے لیکن کسی حاکم کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ 1945ء میں امریکی صدر نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا اس جرم کا اعادہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ امریکی صدر ٹرومن کو ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا پورا علم تھا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے دنیا کے پسماندہ ترین غریب ملک ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں اور جب بھی ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں شدید نوعیت کی خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو عوام کو اس بات کا خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں تعلقات کی یہ کشیدگی ایٹمی جنگ میں نہ بدل جائے۔ آج شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی کھلی دھمکیاں دے رہی ہے۔ اگرچہ اس صورتحال میں دونوں ملکوں کی قیادت کی جذباتیت کا دخل ہے لیکن دنیا کی کسی جنگ کو امن پسند اور نارمل سیاسی قیادت کا کارنامہ نہیں کہا جاسکتا۔جنگ دراصل ابنارمل انسانوں کا انسانیت دشمن فیصلہ ہے خواہ وہ روایتی ہتھیاروں سے لڑی جائے یا ایٹمی ہتھیاروں سے۔
شمالی کوریا کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادی ایسی ایسی اقتصادی پابندیاں لگا رہے ہیں کہ اس کی اکانومی تباہ ہو رہی ہے، ان احمقوں کا اس حوالے سے مطالبہ یہ ہے کہ شمالی کوریا ایٹمی تجربے بند کردے۔ ایٹمی تجربے خواہ کوئی ملک کرے خلاف انسانیت ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کیوں ایٹمی تجربات کر رہا ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ امریکا نے جنوبی کوریا میں اپنی فوج کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروںکا ذخیرہ بھی رکھا ہوا ہے، جب کہ سامراجی مفادات نے کوریا کو دو حصوں میں بانٹ کر دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رکھا ہے۔ اگر امریکی قیادت ایٹمی تباہ کاریوں سے خوفزدہ ہوتی تو اس کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اولین فرصت میں جنوبی کوریا سے اپنے ایٹمی ہتھیار اور فوج ہٹا لیتی یہی ایک عاقلانہ اور انسان دوست فیصلہ ہوتا لیکن امریکی قیادت کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں سے دست کش ہوجائے ایٹمی تجربات بند کردے لیکن جنوبی کوریا سے نہ امریکی فوج نکالی جائے گی نہ ایٹمی ہتھیار نکالے جائیں گے۔ کیا یہ طرز عمل منصفانہ اور انسان دوست ہے؟
امریکا یہی رویہ ایران کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہے۔ اسرائیل ایران کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس مسئلے کا بھی اخلاقی اور انسانی حل یہی تھا کہ امریکا اسرائیل کو ایٹمی حوالے سے غیر مسلح کردیتا لیکن امریکا کی روایتی ہٹ دھرمی یہی ہے کہ اس کے تابعدار ملک طاقتور رہیں اس کے مخالف ملک ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہیں یہ رویہ کسی مہذب ملک کا نہیں بلکہ جنگل کے قانون سے مطابقت رکھتا ہے۔
امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا سرپرست اور سب سے بڑا محافظ ہے اس کی خارجہ پالیسی اور جنگی حکمت عملی میں یہ پہلو نمایاں رہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفوں کو نیست و نابود کردیا جائے اسی رویے کا نتیجہ یہ تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوشلسٹ بلاک کو درہم برہم کردیا۔
آج سوشلسٹ بلاک کے دونوں رہنما ملک روس اور چین سرمایہ دارانہ نظام معیشت قبول کرچکے ہیں اور ان ملکوں میں وہ تمام برائیاں در آئی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا اثاثہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام طبقات پیدا کرتا ہے اور انسانوں کو غریب اور امیر کے دو طبقوں میں بانٹ دیتا ہے۔ غریبوں کی تعداد90 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے اور مٹھی بھر اشرافیہ کو غریبوں کی کمائی کی لوٹ مارکی کھلی آزادی ہوتی ہے اور اس لوٹ مار کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ریاستی مشینری قانون اور انصاف کا ایک امتیازی اور شرمناک نظام بنایا جاتا ہے جس کا مشاہدہ دنیا کے ہر اس ملک میں کیا جاسکتا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے۔
اس کے برخلاف سوشلسٹ حیثیت کے حامل ملکوں میں طبقات ختم کر دیے جاتے ہیں اور نجی ملکیت پر پابندی کے ذریعے چند ہاتھوں میں عوام کی محنت کی 80 فیصد آمدنی کو جمع ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس نظام سے دنیا کا وہ طبقہ سخت خوفزدہ رہتا ہے جو دنیا کی 80 فیصد دولت پر قابض ہے۔ شمالی کوریا ان چند ملکوں میں شامل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے سخت مخالف ہیں یہی وہ جرم ہے جس کی سزا امریکا شمالی کوریا کو دینا چاہتا ہے۔
اس مہم میں سرمایہ دار ملک ان حدوں کو بھی کراس کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو کرہ ارض پر انسانی بقا کے لیے ضروری ہیں یعنی وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر تیار رہتے ہیں جس کا برملا اظہار امریکی صدر ٹرمپ کر رہا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا کا مفکر دانشور فلسفی امریکا کی اس انسان دشمنی پر خاموش ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کرہ ارض پر انسانوں کی بقا کے لیے تمام ایٹمی ہتھیار تلف کردیے جائیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلے میدانوں میں پھانسی دی جائے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک مربوط عالمی مہم چلائی جائے جس کی قیادت دانشور، مفکر اور آفاقی ویژن رکھنے والے ادیب شاعر اور فنکار کریں۔
The post ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی مہم appeared first on ایکسپریس اردو.