Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22962 articles
Browse latest View live

ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی مہم

$
0
0

دنیا میں سب سے پہلے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے والا ایٹمی سائنسدان ہوسکتا ہے آج دنیا میں موجود نہ ہو لیکن اس نے دنیا کو جس ہولناک خطرے سے دوچارکردیا ہے اس تباہ کن خطرے کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ انسان دشمن ہتھیار دنیا میں متعارف ہوا اور اسی ہتھیار کو ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکا نے استعمال کرکے ان دو شہروں میں قیامت صغریٰ برپا کر دی۔ امریکا دنیا کی ایک عرصے تک واحد سپر پاور رہا ہے اور دنیا میں جو تباہ کن جنگیں لڑی گئیں ان میں اس سپرپاور کا دخل رہا ہے۔

اسی سپر پاوری کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ایٹمی ہتھیاروںکا ذخیرہ ہے۔ ایٹمی ہتھیار ہیروشیما اور ناگاساکی میں اس کی تباہ کاری سے ناواقفیت  کی فضا میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ان ایٹم بموں کی تباہ کاری سے وہ ایٹمی سائنسدان بھی واقف تھے اور وہ حکمران بھی جو 1945ء میں امریکا میں برسر اقتدار تھے لیکن اس باخبری، علم اور معلومات کے باوجود جاپان کے ان دو بڑے شہروں پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو زندہ جلا دینا ایسا جرم تھا جس کی سزا اگر سو بار سزائے موت ہوتی تو وہ بھی کم تھی۔ لیکن طاقت کی برتری کے جنگل کے  تحت دنیا کے اس سنگین ترین جرم کے مجرم کے خلاف کوئی تعزیری اقدام نہیں کیا گیا اور اس جرم کا مجرم ٹھاٹھ سے حکمران رہا اور باعزت طریقے سے مرگیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلرکے فاشزم سے دنیا کی قیادت اسی قدر خوفزدہ تھی کہ امریکا کی طرف سے ایٹم بم کے استعمال پر خاموش رہی، لیکن یہ دنیا کے حکمرانوں کا فرض تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایٹمی ہتھیار تلف کرکے اس کی تیاری کو ایک عالمی جرم قرار دے دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ امریکی ایٹم بم کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ آج امریکا اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں۔

اس احمقانہ اور انسانیت کش ایٹمی دوڑکو دنیا کے بیہودہ اور بددماغ حکمرانوں نے ایٹمی ہتھیاروں سے بچاؤ کا ذریعہ اور طاقت کے توازن کا نام دیا ہے لیکن کسی حاکم کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ 1945ء میں امریکی صدر نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا اس جرم کا اعادہ کیا جا  سکتا ہے، کیونکہ امریکی صدر ٹرومن کو ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا پورا علم تھا۔

آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے دنیا کے پسماندہ ترین غریب ملک ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں اور جب بھی ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں شدید نوعیت کی خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو عوام کو اس بات کا خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں تعلقات کی یہ کشیدگی ایٹمی جنگ میں نہ بدل جائے۔ آج شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی کھلی دھمکیاں دے رہی ہے۔ اگرچہ اس صورتحال میں دونوں ملکوں کی قیادت کی جذباتیت کا دخل ہے لیکن دنیا کی کسی جنگ کو امن پسند اور نارمل سیاسی قیادت کا کارنامہ نہیں کہا جاسکتا۔جنگ دراصل ابنارمل انسانوں کا انسانیت دشمن فیصلہ ہے خواہ وہ روایتی ہتھیاروں سے لڑی جائے یا ایٹمی ہتھیاروں سے۔

شمالی کوریا کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادی ایسی ایسی اقتصادی پابندیاں لگا رہے ہیں کہ اس کی اکانومی تباہ ہو رہی ہے، ان احمقوں کا اس حوالے سے مطالبہ یہ ہے کہ شمالی کوریا ایٹمی تجربے بند کردے۔ ایٹمی تجربے خواہ کوئی ملک کرے خلاف انسانیت ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کیوں ایٹمی تجربات کر رہا ہے؟

اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ امریکا نے جنوبی کوریا میں اپنی فوج کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروںکا ذخیرہ بھی رکھا ہوا ہے، جب کہ سامراجی مفادات نے کوریا کو دو حصوں میں بانٹ کر دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رکھا ہے۔ اگر امریکی قیادت ایٹمی تباہ کاریوں سے خوفزدہ ہوتی تو اس کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اولین فرصت میں جنوبی کوریا سے اپنے ایٹمی ہتھیار اور فوج ہٹا لیتی یہی ایک عاقلانہ اور انسان دوست فیصلہ ہوتا لیکن امریکی قیادت کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں سے دست کش ہوجائے ایٹمی تجربات بند کردے لیکن جنوبی کوریا سے نہ امریکی فوج نکالی جائے گی نہ ایٹمی ہتھیار نکالے جائیں گے۔ کیا یہ طرز عمل منصفانہ اور انسان دوست ہے؟

امریکا یہی رویہ ایران کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہے۔ اسرائیل ایران کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس مسئلے کا بھی اخلاقی اور انسانی حل یہی تھا کہ امریکا اسرائیل کو ایٹمی حوالے سے غیر مسلح کردیتا لیکن امریکا کی روایتی ہٹ دھرمی یہی ہے کہ اس کے تابعدار ملک طاقتور رہیں اس کے مخالف ملک ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہیں یہ رویہ کسی مہذب ملک کا نہیں بلکہ جنگل کے قانون سے مطابقت رکھتا ہے۔

امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا سرپرست اور سب سے بڑا محافظ ہے اس کی خارجہ پالیسی اور جنگی حکمت عملی میں یہ پہلو نمایاں رہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفوں کو نیست و نابود کردیا جائے اسی رویے کا نتیجہ یہ تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوشلسٹ بلاک کو درہم برہم کردیا۔

آج سوشلسٹ بلاک کے دونوں رہنما ملک روس اور چین سرمایہ دارانہ نظام معیشت قبول کرچکے ہیں اور ان ملکوں میں وہ تمام برائیاں  در آئی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا اثاثہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام طبقات پیدا کرتا ہے اور انسانوں کو غریب اور امیر کے دو طبقوں میں بانٹ دیتا ہے۔ غریبوں کی تعداد90 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے اور مٹھی بھر اشرافیہ کو غریبوں کی کمائی کی لوٹ مارکی کھلی آزادی ہوتی ہے اور اس لوٹ مار کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ریاستی مشینری قانون اور انصاف کا ایک امتیازی اور شرمناک نظام بنایا جاتا ہے جس کا مشاہدہ دنیا کے ہر اس ملک میں کیا جاسکتا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے۔

اس کے برخلاف سوشلسٹ حیثیت کے حامل ملکوں میں طبقات ختم کر دیے جاتے ہیں اور نجی ملکیت پر پابندی کے ذریعے چند ہاتھوں میں عوام کی محنت کی 80 فیصد آمدنی کو جمع ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس نظام سے دنیا کا وہ  طبقہ سخت خوفزدہ رہتا ہے جو دنیا کی 80 فیصد دولت پر قابض ہے۔ شمالی کوریا ان چند ملکوں میں شامل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے سخت مخالف ہیں یہی وہ جرم ہے جس کی سزا امریکا شمالی کوریا کو دینا چاہتا ہے۔

اس مہم میں سرمایہ دار ملک ان حدوں کو بھی کراس کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو کرہ ارض پر انسانی بقا کے لیے ضروری ہیں یعنی وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر تیار رہتے ہیں جس کا برملا اظہار امریکی صدر ٹرمپ کر رہا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا کا مفکر دانشور فلسفی امریکا کی اس انسان دشمنی پر خاموش ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کرہ ارض پر انسانوں کی بقا کے لیے تمام ایٹمی ہتھیار تلف کردیے جائیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلے میدانوں میں پھانسی دی جائے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک مربوط عالمی مہم چلائی جائے جس کی قیادت دانشور، مفکر اور آفاقی ویژن رکھنے والے ادیب شاعر اور فنکار کریں۔

The post ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی مہم appeared first on ایکسپریس اردو.


چین اور روہنگیا کا مسئلہ

$
0
0

روہنگیا میں انسانی حقوق کی صورتحال مسلسل ابتری کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے روہنگیا کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو بنگلہ دیش سے واپس آنے کے منتقلی کے منصوبے کے تحت 60 ہزار افراد روہنگیا منتقل ہوئے، مگر روہنگیا منتقل ہونے والے مسلمان اپنی زمین، جائیداد اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوگئے ہیں اور میانمار کی حکومت انھیں اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔

چین میانمار کا پڑوسی ملک ہے۔ چین کے میانمار کی فوجی حکومت سے قریبی تعلقات ہیں۔ جب امریکا، اس کے اتحادی ممالک اور اقوام متحدہ نے میانمار پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو چین واحد بڑی طاقت تھا جو میانمار کی فوجی حکومت کا حامی تھا۔

گزشتہ دنوں چین کی برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس منعقد ہوئی۔ اس کانگریس کے موقع پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی شعبہ کے نائب صدر Guoyezhou نے صحافیوں کے سامنے ایک پالیسی بیان میں کہاکہ چین میانمار کے معاملات میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کا مخالف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار کی حکومت نے روہنگیا میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے قابل ذکر اقدامات کیے ہیں۔

چین کی حکومت کی رائے ہے کہ میانمار کے فوجی حکمرانوں کے روہنگیا میں امن و امان کی بحالی کے اقدامات سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس نے روہنگیا میں رونما ہونے والے تشدد کے واقعات کی مذمت کی ہے۔

کانگریس میں چین اور میانمار کی طویل اور گہری دوستی کے تناظر میں اس توقع کا اظہار کیا کہ میانمار حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں روہنگیا میں امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوجائے گی۔ کمیونسٹ پارٹی کسی صورت میانمار کی ریاست کو نقصان پہنچانے کے حق میں نہیں ہے۔

مسٹر جیوہو نے ایک صحافی کے سوال پر یہ بھی کہا کہ میانمار کے معاملے میں چین کی امریکا اور مغربی ممالک کے مقابلے میں پالیسی بالکل مختلف ہے اور چین کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے حق میں نہیں ہے اور اس نوعیت کی مداخلت کے ماضی میں منفی اثرات برآمد ہوئے ہیں۔ چین کو یقین ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت روہنگیا کی صورتحال پر قابو پالے گی۔

گزشتہ مہینے دنیا بھر کے اخبارات میں کراچی میں فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی روہنگیا کے مسلمانوں کی جدوجہد کرنے والی تنظیم کے سربراہ عطاء اﷲ کے بارے میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی۔ اے ایف پی کے بیورو چیف اشرف خان کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عطاء اللہ کا تعلق کراچی سے ہے۔ انھوں نے کراچی کے ایک مدرسہ میں مذہبی تعلیم حاصل کی تھی۔ پھر وہ قرآن مجید کی تعلیم دینے کی ملازمت پر سعودی عرب چلے گئے جہاں وہ شاہی خاندان کے بچوں اور نوجوانوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ عطاء اﷲ چند سال قبل بھاری مقدار میں رقم لے کر کراچی آئے اور روہنگیا میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کے لیے جلسے کیے۔

ان کی قیادت میں روہنگیا کے مسلمان نوجوانوں نے عسکری تربیت حاصل کی اور میانمار کی فو ج کے مظالم کے خلاف عسکری جدوجہد شروع کردی۔ میانمار کے فوجی حکمرانوں نے اس تحریک کو طاقت سے کچلا۔ روہنگیا کے مسلمانوں اور ہندو خاندانوں کو بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔

روہنگیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ میانمار کی حکومت انھیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، یوں لاکھوں مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑ کر بنگلادیش اور بھارت میں پناہ لینی پڑی۔ مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ میانمار کی فوجی حکومت چین کے ساتھ وہاں کی رہنما سو چی Soukyi کے ساتھ اتحاد ہوچکا ہے۔ پاکستان اور ترکی کے علاوہ امریکا اور یورپ میں بھی اس تشدد کی شدید مذمت کی گئی۔

برطانیہ کی ایک بڑی یونیورسٹی نے اپنے مرکزی دروازے پر نصب Soukyi کی تصویر ہٹادی۔ صدر ٹرمپ انتظامیہ نے مسلمان ممالک کے کسی موقف کی حمایت نہیں کی تھی لیکن اب وہ بھی کھل کر روہنگیا کے مسئلے پر میانمار کی فوجی حکومت کی مذمت کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ جس کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں برسوں تک Soukyi کی رہائی کے لیے قراردادیں منظور کی جاتی رہیں اور Soukyi کی طویل نظربندی ختم نہ کرنے پر میانمار پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں وہاں کی جنرل اسمبلی نے مسلمانوں کے حالات کار کو بہتر بنانے اور ان کی وطن واپسی کے لیے خطیر رقم پر مبنی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اب اقوام متحدہ کے اس پروگرام کے تحت روہنگیا واپس جانے والے افراد اپنے روزگار اور جائیدادوں سے محروم کردیے گئے ہیں۔ میانمار کی رہنما Hune Sansouki کا موقف یہ ہے کہ جو شخص میانمار کی قومیت کا ثبوت پیش کرے گا اس کو اپنے وطن واپسی کا حق ہے۔

میانمار کے وزیر زراعت نے واضح کیا ہے کہ جس فرد کے پاس میانمار کی قومیت ہوگی وہی زرعی زمین اور جائیداد کا مالک سمجھا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس تنازعے کے نتیجے میں 589,600 روہنگیا کے مسلمانوں اور 30 ہزار غیر مسلمانوں کو اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں 71,500 ایکڑ زرعی زمین ویران پڑی ہے۔ اس زمین پر جنوری میں چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ اگر اس زمین کے حقیقی مالکان واپس نہیں آئے تو پھر میانمار کی حکومت زمین کو زیر کاشت لانے کے لیے اقدام کرے گی۔

روہنگیا کے مسئلے پر پاکستان میں ہر سطح پر احتجاج ہوا۔ مذہبی اور کالعدم جماعتوں نے اس معاملے کو مذہب سے منسلک کردیا ۔ حتیٰ کہ پاکستان نے میانمار کے سفیر کو بار بار وزارت خارجہ میں طلب کیا اور میانمار کے سفیر کو اس طرح احتجاجی نوٹ دیا گیا جس طرح بھارت کے ہائی کمشنر کو دیا جاتا ہے۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ کی زیادہ نوعیت لسانی ہے، کیونکہ برما میں روہنگیا کے علاوہ دیگر نسلوں کے مسلمان سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔

بعض ماہرین کا یہ خیال ہے کہ امریکا یورپی ممالک اور سعودی عرب کے ذریعے اس مسئلے کے ذریعے میانمار میں چین کے اثر کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کی میانمار پر اقتصادی گرفت ہے۔ چین میانمار میں مداخلت کو اپنی اقتصادی پالیسی کے لیے خطرناک سمجھتا ہے۔ اس بنا پر چین نے اس معاملے پر سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ چین کا بھوٹان اور نیپال کے بارے میں بھی ایسا ہی موقف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے سرحدی علاقے میں بھارتی فوج کی مداخلت پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ گزشتہ ماہ 15 ابھرتے ہوئے اقتصادی ممالک برازیل، جنوبی افریقہ، روس اور چین کے سربراہ اجلاس میں پاکستان میں کالعدم مذہبی تنظیموں کے خاتمے سے متعلق قرارداد کا پس منظر بھی روہنگیا کے بارے میں پاکستان کا موقف تھا۔

پاکستان کے چین سے قریبی تعلقات خاص طور پر سی پیک منصوبہ اور امریکا کی اس معاملے میں خصوصی دلچسپی کے تناظر میں اس پورے معاملے پر نئے انداز سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ خارجہ امور سے متعلق اس اہم مسئلے کو سڑکوں پر مذہبی مسئلہ بنانے کے بجائے اس انسانی مسئلے کو انسانی بنیادوں پر اور ڈپلومیسی کے ذریعے حل کرنے کے بارے میں غور و فکر سے ہی کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے۔

The post چین اور روہنگیا کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایدھی لینڈ مافیا کی زد میں

$
0
0

گزشتہ برس آٹھ جولائی کو عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا تو بے مثال انسانی خدمات کے اعتراف میں ریاستِ پاکستان نے ان کی تجہیز و تکفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ایک دن کے لیے قومی پرچم سرنگوں ہوا۔کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان کی نمازِ جنازہ میں صدرِ مملکت ممنون حسین، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں، گورنر سندھ ، پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلی سمیت پوری ریاستی قیادت کی نمایندگی تھی۔ فوجی گاڑی میں تابوت رکھا گیا، انیس توپوں کی سلامی ہوئی اور پھر جلوسِ جنازہ ایدھی ولیج کی جانب روانہ ہوا۔ دو رویہ عوام نے انھیں آخری بار نم آنکھوں سے رخصت کیا۔

اس روز میڈیا کو کوئی کام نہ تھا۔ ہر چینل کوریج میں دوسرے سے بازی لے رہا تھا۔ بہرحال ایدھی صاحب کی تدفین کے بعد ان کی قبر کو ایک چاق و چوبند فوجی دستے نے سلامی دی۔

اس دن پورے پاکستان میں ہر شخص ٹی وی کیمروں کے سامنے ایدھی کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کے لیے  دامے درمے قدمے ہر ممکن مدد کی قسمیں کھا رہا تھا۔ چنانچہ یہ فقیر اسی وقت کھٹک گیا کہ اب ایدھی فاؤنڈیشن کے بحرانی دن آنے والے ہیں۔ کیونکہ ریاست نے ایدھی صاحب کو ریاستی اعزازی تدفین دے کر اور باقی لوگوں نے اسکرین پر قسمیں وعدے کر کے واہ واہ سمیٹ کر اپنا اپنا مردہ پرست فرض پورا کر دیا ہے۔ اب جو بھگتنا ہے وہ بلقیس ایدھی اور فیصل کو بھگتنا ہے۔

میرے منہ میں خاک۔۔ وہی ہونے لگا جس کا ڈر تھا۔ ایدھی صاحب کا کفن میلا ہونے سے پہلے پہلے ہی رمضان کا مہینہ آن پہنچا کہ جو سب سے بڑا خیراتی مہینہ ہوتا ہے اور لوگ اس ایک مہینے میں پورے سال کے برابر دان کرتے ہیں۔ مگر ایدھی صاحب کی آنکھیں مندنے کے ایک ماہ بعدآنے والے رمضان میں ایدھی فاؤنڈیشن کو گزشتہ برس سے بھی تیس فیصد کم عطیات ملے۔

ایدھی فاؤنڈیشن ریاستی مدد نہیں لیتی۔ انفرادی اعانت ہی قبول کرتی ہے۔ مگر امدادی قلت کے باوجود انسانی آپریشنز میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہ نورانی اور پھر سیہون میں بم دھماکے میں بھاری جانی نقصان کے بعد امدادی کام اسی بھرپور طریقے سے ہوا جیسا کہ ایدھی کی روایت ہے۔ چند ماہ بعد فیصل نے بتایا کہ امدادی رقوم کی ترسیل رفتہ رفتہ معمول پر آ رہی ہے اور سمندر پار پاکستانی بھی اچھا خاصا کنٹری بیوٹ کر رہے ہیں۔

لیکن پچیس اکتوبر کو (تین روز پہلے) بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی نے گویا دل پر بم گرا دیا جب انھوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ اندرونِ سندھ ان کے مراکز پر لینڈ مافیا مشکوک کاغذات عدالت میں دکھا کر ایدھی سینٹرز پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سینٹرز نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی مہربانی سے بڑی شاہراہوں پر قائم ہیں۔کیونکہ ہائی ویز کے دونوں جانب دو دو سو گز چوڑی پٹی این ایچ اے کی ملکیت ہے۔ زیادہ تر جان لیوا حادثات بھی بڑی شاہراہوں پر ہوتے ہیں اور ان شاہراہوں کے ذریعے دیگر مقامات تک تیز رفتار امدادی رسائی بھی آسان ہے (ایدھی مراکز کے لیے این ایچ اے نے زمین زبانی نہیں بلکہ تحریری طور پر دی تھی)۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی زمین ٹھٹھہ میں انیس سو پچاسی میں ملی اور یہ کراچی سے باہر ایدھی فاؤنڈیشن کے آپریشن کا نکتہِ آغاز تھا۔ مگر ایک ہزار گز پر مشتمل اس پلاٹ پر تین چار روز قبل مقامی پولیس نے مقامی عدالت کے حکم پر تالہ لگا دیا۔ ایدھی سینٹر کا وائرلیس اور دیگر آلات و ساز و سامان بھی سربمہر کر دیا گیا۔ تاہم ایمبولینسیں اب بھی متحرک ہیں مگر مرکز چھن جانے سے ان کا ہیڈ کوارٹر سے رابطہ صرف موبائل فون کے ذریعے ہے۔

بقول فیصل ایدھی ٹھٹھہ کی قبضہ مافیا نے عدالت میں انیس سو چورانوے کے شہری توسیع سروے کی آڑ میں بنائی گئی ملکیتی دستاویزات عدالت کو دکھا کر عبوری قبضہ حاصل کر لیا اور ہمارے پاس انیس سو پچاسی کے این ایچ  اے کے جو ڈاکومینٹس ہیں انھیں مسترد کر دیا گیا۔

اسی طرح حیدرآباد میں لطیف آباد کے تین ہزار مربع گز پر قائم ایدھی مرکز سے عملے کو بے دخل کر کے وہاں دکانیں بنا دی گئیں۔ یہی کام ہالہ میں ایدھی سینٹر کی جگہ پر قبضہ کر کے مخدوم خاندان کی گدی کے روایتی سیاسی و روحانی اثر و رسوخ  کے باوجود ہوا ہے۔

قاضی احمد اور مورو ضلع بینظیر آباد عرف نواب شاہ میں آتے ہیں اور قاضی احمد ایدھی سینٹر پر قبضہ کر کے دکانیں اٹھا دینے اور مورو ایدھی سینٹر پر مارکیٹ بنانے کا عمل آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا آبائی ضلع ہونے کے باوجود ہوا ہے۔ لاڑکانہ بھٹو خاندان اور موجودہ وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال کا آبائی ضلع ہے۔ پھر بھی وہاں کا ایدھی سینٹر ہتھیا لیا گیا۔ سیہون موجودہ وزیرِ اعلی مراد علی شاہ کا آبائی شہر ہے۔ مگر وہ یہاں کے ایدھی سینٹر کو لینڈ مافیا سے نہ بچا پائے۔

اب تک وزیرِ اعلیٰ نے صرف ٹھٹھ سینٹر کے چھینے جانے کا نوٹس لیا ہے اور یہ مہربانی ضرور کی ہے کہ عدالت سے حتمی فیصلہ ہونے تک ایدھی مرکز کو متبادل جگہ کی فراہمی کا حکم دیا ہے۔ اگر تمام قبضہ شدہ سینٹرز بازیاب نہیں ہوتے تو خطرہ ہے کہ لینڈ مافیا اس سرکاری تساہل کو گرین سگنل سمجھ کے سندھ میں دیگر ایدھی سینٹرز بھی ہڑپ کر لے گی۔

بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقعہ حب چوکی کے ایدھی مرکز کے ساتھ تو اور طرح کا ہاتھ ہوگیا۔ ایک گروپ نے اس سینٹر پر قبضہ کر کے اسے مدرسے میں تبدیل کر دیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس مرکز کی بازیابی کے احکامات صادر کر چکی ہیں۔ مگر ایدھی فاؤنڈیشن کے ہاتھ میں آج بھی صرف عدالتی احکامات ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اگر مدرسے والوں سے یہ سینٹر بزور طاقت چھڑوایا گیا تو اس معاملے کو بہت آسانی سے مذہبی رنگ دے کر انتظامیہ اور ایدھی کو مرتد قرار دیا جا سکتا ہے۔

میں نے عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس صاحبہ کی آنکھوں میں ایدھی صاحب کے بچھڑنے پر جو آنسو نہیں دیکھے تھے وہ تین دن پہلے اس پریس کانفرنس میں دیکھ لیے جس میں وہ نہایت بے بسی سے اپنے بیٹے کی زبانی لینڈ مافیا، مقامی سیاست اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے بے لوث انسانی خدمت پر پڑنے والی ڈکیتی کی داستان میڈیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی تھیں (سنا ہے سندھ رینجرز نے بھی یقین دلایا ہے کہ ان مراکز کو چھڑوانے کے لیے جو بھی ممکن ہوا کیا جائے گا)۔

یہ کہانی اپنے تئیں المناکی، ناسپاسی  اور بے حسی کے اجزا سے اتنی بھرپور ہے کہ اس پر ذاتی تبصرہ کرنا نہ بنتا ہے اور نہ ہی فی الحال ہمت ہے۔کس کس کو روئیں اور کیا کیا روئیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

The post ایدھی لینڈ مافیا کی زد میں appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ امن اس کی شہادت کا ثمر ہے

$
0
0

مورخ کا کراچی کی گزشتہ تیس سال کی تاریخ کو سیاہ ترین دورکے طور پر لکھنا ہم اہل کراچی کو یقینا پسند نہیں آئے گا اس لیے کہ یہ شہر نہ صرف ہماری پہچان ہے بلکہ ہماری نئی نسلوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز ہے۔ اس شہر کا یہ وصف ہے کہ یہ اپنی ابتدا سے ہی شہر مہاجرین رہا ہے بلا شبہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں آباد ہوئی تھی اور وہ اس لیے کہ یہ شہر ان کی بے سرو سامانی اور اجڑے پن کو دورکرکے سنوارنے اور استحکام بخشنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گو کہ یہ شہر پہلے سے ہی مستحکم تھا مگر مہاجرین اپنے پیارے وطن کے اس دارالخلافہ کو لکھنوکی طرح شائستگی اور تہذیب کا مسکن، دہلی کی طرح وضعدار اور جی دار اور بمبئی وکلکتہ سے بڑھ کر صنعت و حرفت کا مرکز اور ترقی یافتہ بنانے کا عزم رکھتے تھے۔

انھوں نے بجا طور پر چند ہی سالوں میں اپنے خواب کو بہت حد تک عملی جامہ پہنادیا تھا تاہم مزید کچھ کرنے کی گنجائش ضرور موجود تھی کہ ایسے میں بد قسمتی اور نحوست کے آسیب نے اسے آگھیرا، پھر تباہی بربادی اور قتل و غارت گری اس کا مقدر بن گئی ایسا کون سا دن تھا جب بیس سے پچیس افراد قتل نہ ہوجاتے ہوں ۔ انھیں کیوں قتل کیا گیا کسی کو پتا نہیں تھا، مارنے والا کون تھا کسی کو پتا نہیں تھا، جب شہر کے کارخانے بند اور بازاروں کی رونقیں ختم کرادی جائیں تو بے روزگاری بھوک افلاس اور بے چینی جنم لیتی ہے پھر یہ منتوں اور مرادوں بھرا شہر اپنی اصل سمت کھوچکا تھا۔ اسے اپنے ہی لوگوں نے اجاڑکر رکھ دیا تھا۔

اسی دور میں ہزاروں معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ کئی نامور ہستیوں کو بھی تہہ تیغ کردیاگیا ان کا غم ضرور منایاگیا مگر قاتلوں کو پکڑنا کسی کے بس میں نہ تھا اسی دور میں حکیم محمد سعید جیسی بلند ہستی کو بھی ان کے محب وطن ہونے کی پاداش میں شہید کردیاگیا گزشتہ 17 اکتوبر کو ان کا یوم شہادت خاموشی سے گزرگیا اس وطن پر مر مٹنے والے شخص کی شہادت پر کسی اخبار میں کچھ نہیں لکھا گیا اورکسی ٹی وی چینل پر کچھ نہیں دکھایاگیا بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومتی سطح  پر بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

لگتا ہے حکومت ان پر ایک ڈاک کا ٹکٹ جاری کرکے ان کے ملک و قوم پر احسانات کا صلہ چکا چکی ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان پر نثار کردی تھی ان کا قول تھا ’’پاکستان سے محبت کرو اور پاکستان کی تعمیر کرو‘‘ انھوں نے یہ ہندی نعرہ ہر پاکستانیوں کو دیا تھا ۔ ہم نے بحیثیت قوم اس پیغام پر کتنا عمل کیا اس پر ہمیں ضرور افسوس رہے گا مگر انھوں نے اپنے قول کی عملی تعبیر پیش کی۔ ان کی ہر سوچ اور عمل پاکستان کے لیے تھا۔ گو کہ وطن دشمنوں نے انھیں وطن کی مزید خدمت کرنے سے روک دیا تھا مگر ایسے لوگ مرتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور زندہ انسانوں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ وہ دلی میں تحریک پاکستان کے پرجوش نوجوانوں میں سے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد ہی وہ پاکستان تشریف لے آئے تھے گو کہ ان کے بھائی عبدالحمید نے انھیں اپنے ساتھ وہیں رک کر طب کی خدمت کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ تو پاکستان کے شیدائی تھے پاکستان آنے سے کیسے رک سکتے تھے۔ کراچی پہنچ کر ایک چھوٹے سے مطب سے مریضوں کی خدمت کرنا شروع کی چونکہ آپ عزم وہمت کی جیتی جاگتی تصویر تھے چنانچہ اپنی محنت سے جلد ہی ہمدرد کو ایک انڈسٹری کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرقی طب کو نئی زندگی دی اور مغرب جو طب مشرق کا قائل نہیں تھا اسے بھی اس کا گرویدہ بنا دیا۔ آپ نے دولت کمانے کو زندگی کا مشق بنانے کے بجائے ہر سطح پر عوامی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ آپ کی علم سے محبت لازوال تھی۔ آپ کی کوششوں سے کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور کامیابی سے آج بھی چل رہے ہیں۔ آپ پاکستان کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے ہمدرد یونی ورسٹی قائم کرکے ثابت کردیا تھا کہ آپ علم سے زبانی طور پر نہیں بلکہ دل و جان سے محبت کرتے تھے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ آپ نے اپنے اس منصب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اس کے ذریعے صرف تین ماہ میں پانچ جامعات کو چارٹر دلانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

لوگ تو بڑے عہدوں پر پہنچ کر ان سے ایسے چمٹ جاتے ہیں کہ کبھی چھوڑنے کا سوچتے تک نہیں لیکن آپ نے خود استعفیٰ دے کر مثال قائم کی تھی۔ بچوں کی دینی اخلاقی اور تہذیبی تعلیم و تربیت کے لیے مستقل ماہانہ بنیاد  پر ایک میگزین نکالا جو ہمدرد نونہال کے نام سے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی مقبول ہے اس میگزین نے بچوں کی علمی قابلیت اور ذہانت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا بار بار اعتراف ان کے والدین نے کیا۔ ملکی معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ہمیشہ کو شاں رہے۔ ملکی مفاد میں سیاست میں بھی حصہ لیا۔

آپ  ذوالفقار علی بھٹو کے دل سے شیدائی تھے۔ آپ نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا۔ آپ نے قومی  اور عالمی معاملات میں حکومت کی رہنمائی کے لیے شام ہمدرد کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کے ذریعے ملک کے معاملہ فہم اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر دسترس رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں مختلف موضوعات پر اب بھی کھلی بحث کی جاتی ہے یہ ادارہ اب شوریٰ ہمدرد کہلاتا ہے۔

اس میں ہونے والی مفید مباحث کے فوائد سے خود حکومت معترف ہے۔ آپ کہنہ مشق لکھاری تھے۔ آپ کی تحاریر دینی، اخلاقی، تہذیبی اور وطن پرستی کا شاہکار، نمونہ ہیں مسلمان سائنسدانوں، اطبا اور تاریخ دانوں پر آپ نے بہت کچھ لکھا آپ نے ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے کئی عالمی کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ آپ نے طب مشرق کو اعلیٰ مقام دلانے کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو طب کو بھی اپنے دائرہ کار میں شامل کرنے پر قائل کرلیا تھا۔ آپ نے سیرت پاکؐ اور قرآنی تعلیمات پر کئی مضامین لکھے جن سے اپنوں کے علاوہ غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

وہ انسانی عظمت کے قائل تھے۔ دکھی لوگوں کو دیکھ کر خود دکھی ہوجاتے تھے۔ کئی غریب خاندانوں کو گزر و بسر کے لیے باقاعدہ امداد پہنچائی جاتی تھی۔ آپ کو پاکستان سے جنون کی حد تک عشق تھا اسی طرح امت مسلمہ کی بہتری اور ترقی کے دل کی گہرائیوں سے خواہاں تھے۔ علم کے حوالے سے آپ نے جو خدمات انجام دیں بلاشبہ وہ سرسید احمد خاں سے آپ کی دلی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ نے ایک موقعے پر کہاتھا کہ اگر میرا بس چلے تو صرف دس سالوں میں پوری پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ بنادوں۔

آپ ہر قسم کے تعصبات سے پاک تھے۔ کراچی سے دلی محبت کرتے تھے اس کی ترقی و ترویج میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جب کراچی اجڑنا شروع ہوا اور قتل و غارت گری نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا وہ کراچی کے دن بدن بگڑتے حالات سے بہت فکر مند رہتے تھے۔ وہ اس شہر مہاجرین کو اجڑتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ حکومت سے درخواست گزار رہے ان کی وطن اور کراچی سے محبت دشمنوں کو نہ جانے کیوں پسند نہیں آتی تھی۔ وہ آئے دن انھیں دھمکیاں دیتے رہتے تھے مگر آپ نے کبھی اپنی حفاظت کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کیا۔

آپ اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں مگر میں ڈرنیوالا نہیں ہوں۔ سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے آپ کی وفات پر اپنے تاثرات میں لکھا تھا ’’ وہ کیسے شقی القلب تھے جنھوں نے ایسے پیارے انسان کو گولیوں کا نشانہ بنادیا۔ شاید حکیم صاحب جیسے عظیم انسان کی قربانی سے یہ شہر ظلم اور جبر سے نجات پانے کی راہ پر گامزن ہوجائے‘‘ خدا کا شکر ہے کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور بالآخر ظالموں کا صفایا ہوگیا اور امن بھی قائم ہوگیا، مگر یہ یقینا حکیم صاحب جیسے پاک صاف، نیک اور انسان دوست ہستی کی شہادت کا ثمر ہے۔

The post یہ امن اس کی شہادت کا ثمر ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

نیو جرسی میں ’’اجنبی آشنا‘‘ کی رونمائی

$
0
0

امریکا کی دو بڑی ریاستوں نیویارک اور نیو جرسی میں اکتوبر کا مہینہ آتے آتے امریکن پاکستانی کمیونٹی کی ثقافتی، سماجی اور ادبی سرگرمیاں سرد پڑتے ہوئے اپنے آخری مراحل میں داخل ہونے لگتی ہیں۔ کیونکہ نومبر سے سردی کے موسم کا آغاز ہوتا ہے اور دسمبر سے سردیاں اپنے شباب پر آجاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ برف باری کے سلسلے بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے اکتوبر میں تقریبات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔

گزشتہ دنوں 15 اکتوبر کو شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کی جانب سے نیو جرسی کے علاقے ایڈیسن کے شاہ نواز ریسٹورنٹ میں میرے نئے شعری مجموعے ’’اجنبی آشنا‘‘ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اسی دن شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کے ساتھ شب و روز تعاون کرنے والی کچھ شخصیات کو ان کی خدمات پر ایوارڈز بھی دیے گئے اس طرح کتاب کی تقریب اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی تھی۔

اس تقریب کے مہمان خصوصی نیو یارک میں کونسلر پاکستان کمیونٹی ویلفیئر محمد حنیف چنا تھے اور تقریب کے صدر نیو یارک کے معروف تجزیہ نگار، شاعر اور دانشور واصف حسین واصف تھے۔ جب کہ تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور شاعرہ اور کامران ادبی فاؤنڈیشن کی سرپرست فرح کامران نے ادا کیے تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا تھا اور ابتدا میں شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کے روح رواں نادر خان اور مہمان خصوصی کے ہاتھوں تقسیم ایوارڈز کا مرحلہ انجام پذیر ہوا اس دوران نیو جرسی کی مشہور سماجی شخصیت واحد شبلی نے شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس وقت دوسری کمیونٹیز کی طرح پاکستانی کمیونٹی کو بھی اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر جیسے اداروں کی شدید ضرورت ہے۔

بیشتر گھروں میں موجود عمر رسیدہ افراد تنہائی کا شکار رہتے ہیں اور انھیں اپنے افراد خانہ سے وہ مناسب توجہ نہیں ملتی جن کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ گھر کے جوان افراد اپنے بزرگوں سے اکثر دامن بچاتے ہیں اور ان کی ذہنی تفریح سے اور ان کی دلجوئی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ یہاں کے افراد کی زندگی مشینی انداز کی زندگی ہوتی ہے اسی لیے اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر میں بزرگ افراد کی نہ صرف اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان کی ذہنی تفریح کے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں اور ان ڈور گیمز کے ساتھ بعض خوشگوار ایونٹس سے بھی انھیں ہمکنار کیا جاتا ہے اور آئے دن ان کی ذہنی تفریح کے پروگرام بھی مرتب کیے جاتے ہیں۔

تقریب کا پہلا مرحلہ تقسیم ایوارڈز کا تھا اس مرحلے کے بعد کتاب ’’اجنبی آشنا‘‘ کا آغاز کیا گیا اور فرح کامران نے کتاب اور صاحب کتاب کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کے بعد یکے بعد دیگرے مقررین حضرات کو مدعو کیا سب سے پہلے پروفیسر حماد خان نے جو خود بھی ایک اچھے شاعر ہیں صاحب کتاب کے بارے میں اپنا خوبصورت مقالہ پیش کیا انھوں نے کہاکہ یونس ہمدم منفرد لہجہ کے شاعر ہیں اور بحیثیت فلمی نغمہ نگار بھی یہ صف اول کے نغمہ نگاروں میں شامل رہے ہیں، غزل گوئی کی مسلسل محنت اور ریاضت سے جہاں انھوں نے پاکستان میں اپنا مقام بنایا ہے وہاں امریکا میں بھی ان کی شاعری کے چرچے ہیں ان کے کلام میں ترنم ہے ان کی گیتوں میں بھی غزل کا انداز موجود ہے اور پھر یہ غزل کی انفرادیت کو بھی برقرار رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں ان کی غزلیں سننے والوں کو اپنے ہی دل کی آواز محسوس ہوتی ہیں۔

سینئر شاعر اور معروف کالم نگار فرحت ندیم ہمایوں نے صاحب کتاب کے بارے میں کہاکہ یہ ایک پیدائشی فنکار ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں فلم انڈسٹری میں اپنے سپر ہٹ گیتوں سے اپنی پہچان پیدا کی ان کے نغمات میں ادبی چاشنی بھی ہے پھر فرحت ندیم ہمایوں نے کتاب ’’اجنبی آشنا‘‘ سے دو منتخب اشعار بھی سنائے:

جو مقدر میں نہ ہو اس کی تمنا کیوں ہے
جب کسی کی نہیں دنیا تو یہ دنیا کیوں ہے

لوگ تقدیر بھی خود لکھتے ہیں اپنی ہمدم
ہے یہ گر جھوٹ کتابوں میں یہ لکھا کیوں ہے

فرحت ندیم ہمایوں کے بعد شاعر آفتاب قمر زیدی اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں صاحب کتاب کے تیس سال پرانے دوست اور کئی میگا فلموں ’’ان داتا، آگ ہی آگ، میری عدالت اور بارود کی چھاؤں‘‘ کے پروڈیوسر نے صاحب کتاب سے اپنی دیرینہ دوستی اور ان کے خوبصورت اور ہٹ گیتوں کے ساتھ فلم انڈسٹری کی بہت سی باتوں اور یادوں کو بھی شیئر کیا ان کے بعد مہمان خصوصی محمد حنیف چنا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نیو جرسی میں شعر و ادب کی ایسی شاندار تقریبات کا انعقاد بہت ہی خوش آئند اور اس پرہجوم تقریب کو سراہتے ہوئے صاحب کتاب کو بھی اپنے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس تقریب کو ایک یادگار تقریب بھی قرار دیا۔ مہمان خصوصی کے بعد فرح کامران نے صاحب کتاب کو ڈائس پر مدعو کرتے ہوئے کہاکہ اب مرحلہ ہے کلام شاعر بزبان شاعر پھر میں نے اپنی چند نئی غزلیں سامعین کی نذر کیں۔ ایک غزل جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا اور کئی اشعار کو بار بار سناگیا اس غزل کے چند اشعار قارئین کی نذر کررہاہوں:

مرجاتا ہے انسان مگر کردار تو زندہ رہتا ہے
نفرت کو موت آجاتی ہے پر پیار تو زندہ رہتا ہے

جو شاہ بنے محلوں میں رہیں دل ان کے چھوٹے ہوتے ہیں
کٹیا کے کشادہ دامن میں ایثار تو زندہ رہتا ہے

جو جھوٹے سکے ہوتے ہیں وہ تھوڑے دن ہی چلتے ہیں
پھر نظروں سے گرجاتے ہیں بازار تو زندہ رہتا ہے

پھولوں کے دامن میں بھی تو کچھ گھٹ گھٹ کر مرجاتے ہیں
کانٹوں سے رکھے جو یارانہ وہ یار تو زندہ رہتا ہے

دولت کے پجاری بیگانے بن جاتے ہیں اپنوں کے لیے
دو پیسے دے کر اپنوں کو نادار تو زندہ رہتا ہے

صاحب کتاب کے بعد صاحب صدر واصف حسین واصف نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ صاحب کتاب کے اندر ایک دنیا آباد ہے انھوں نے محبت کے گیت لکھے ہیں اور بے شمار نوجوان دالوں کو گرمایا ہے انھوں نے ایک طرف پیار  بانٹا ہے اور دوسری طرف اپنی شاعری سے لوگوں کو خوشیاں دی ہیں اور فی زمانہ یہ کام بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن ان کے شعر و نغمہ نے اس کام کو آسان بنادیا ہے ان کے اشعار لوگوں کو اچھے لگتے ہیں۔ دراصل شاعری بھی ایک عبادت جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی ہے اس موقع پر نیو یارک کے ایک مشہور اور نوجوان سنگر سلیم خان نے آرکسٹرا کے اہتمام کے ساتھ یونس ہمدم کا لکھا ہوا اور اے نیئر کا گایا ہوا فلم شرمیلی کا سپر ہٹ گیت:

جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا
کیسے ہم اٹھائیںگے تیرا ہر سم تنہا

سناکر ساری محفل کو لوٹ لیا۔ کتاب کی تقریب کے بعد ایک مختصر سی محفل مشاعرہ بھی سجائی گئی جس میں نیو یارک اور نیو جرسی کے چند معروف شعرا و شاعرات نے اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو نوازا جن شاعروں نے حصہ لیا ان میں فرحت ندیم ہمایوں، واصف حسین واصف، فرح کامران، حماد خان، یاسین زبیری، زرین یاسین، جمیل عثمان، آفتاب قمر اور ایک بار سامعین کی فرمائش پر یونس ہمدم نے پھر اپنا کلام سنایا اس دوران ایک پر تکلف عشائیہ کا بھی اہتمام تھا اور اس طرح یہ کتاب کی تقریب یادگار لمحات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

The post نیو جرسی میں ’’اجنبی آشنا‘‘ کی رونمائی appeared first on ایکسپریس اردو.

کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں (حصہ اول)

$
0
0

حضرت لال شہباز قلندر کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اکبر الٰہ آبادی کے یہ اشعار یاد آگئے، جس میں میرے بھی خیالات کی ترجمانی ہے:

نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

جو خرد مند ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں یہ بات
خیر خواہی وہ نہیں ہے جو ہو ڈر سے پیدا

رنج دنیا سے بہت مضطرب الحال تھا یہ
دل میں تسکین ہوئی مذہب کے اثر سے پیدا

جن حضرات نے صوفیوں کی صحبت اختیار کی انھیں دنیا بھی ملی اور دین بھی چونکہ دین اور دنیا دو مختلف چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بغیر دنیا کے کامیابی کی گرہیں کبھی نہیں کھل سکتی ہیں، جب تک حقوق کی ادائیگی اور امتحانات و آزمائشوں کی پل صراط پر برہنہ پا نہ دوڑا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کا شعور اور ہر کام میں توازن کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔

علم کی ایک شاخ ہے۔ علما و دانش وروں کی صحبت، فہم القرآن اور دنیاوی علوم سے استفادہ کرنے والے اس دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں لے کر نہیں۔ لیکن ہماری حکومت کے سربراہان اس نکتے سے غافل ہیں، مزاروں پر عرس کرانا اس میں شرکت اور دھمال ڈالنا بزرگوں اور صوفیوں کے تعلیم کے منافی ہے درویشوں نے تو وہ راستے دکھائے ہیں جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

حضرت لال شہباز قلندر 537 میں مروند افغانستان میں پیدا ہوئے 673 سیہون سندھ میں وفات پائی۔ آپؒ اپنے کشف و کرامات ، علم و ریاضت کے حوالے سے اپنی دائمی شہرت رکھتے ہیں۔ موج کوثر کے مصنف شیخ اکرام اپنی کتاب برٹن کی ’’ہسٹری آف سندھ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت لال شہباز قلندر بہت بڑے عالم تھے، لسانیات اور صرف و نحو (قواعد) میں مہارت رکھتے تھے۔ برٹن کے زمانے کی صرف و نحو کی کتابیں ’’میزان الصرف‘‘ اور ’’صرفِ صفیرہ‘‘ حضرت لال شہباز سے منسوب کی جاتی ہیں۔

حضرت لال شہباز قلندر بابا ابراہیم کے مرید تھے، بابا ابراہیم سید جمال مجرد کی مریدی میں ان دونوں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اس کے بعد حرمین شریف گئے اور حج بیت اللہ کا فرض ادا کیا۔ بغداد گئے اور پھر سندھ میں تشریف لائے اور مختلف جگہوں پر جاکر دین اسلام کی تعلیم کو عام کیا اور اس کے بعد صوبہ سندھ کے ہی ہو رہے۔ آپؒ نے سیہون شریف میں جہاں ہندوؤں کی آبادی تھی اپنے علم اور کرامات کی بدولت اسلام کے چراغ روشن کیے۔ بد کردار اور گمراہ لوگوں نے آکر اسلام کی حقانیت کو جانا اور حق کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔

ایسے کامل بزرگ کے مزار پر سیاسی ہتھکنڈوں کو آزمانا اور برائی کو پروان چڑھانا نامناسب ہے، گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جب سندھ کے دورے پر گئے تو انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جن میں شاہ محمود قریشی بھی شامل تھے لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینا چاہی لیکن افسوس مقتدر حضرات نے رکاوٹیں کھڑی کردیں ان کی اس حرکت کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بوکھلاہٹ اور روایت شکنی سے تعبیر کیا ہے۔

جس سرزمین کو لال شہباز قلندر نے کفر و الحاد سے پاک کیا، افسوس آج خود حکمرانوں کی بدولت وہاں پوجا پاٹ شروع ہوچکی ہے، ایسا کیوں ہے؟ جواب سے سب واقف ہیں کہ محض ووٹ بینک بڑھانے کے طریقے ہیں، لیکن ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وقتی فائدے کے لیے اپنا مذہب اور اپنے خالق کو بھول جائے اور کافروں کی زبان میں بات کرنے لگے انھیں خوش کرنے کے لیے بتوں کے سامنے سر جھکادے کیا ایسی صورت میں بتوں کے سامنے سر نگوں ہونے والا مسلم کہلانے کے قابل ہے، یہ تو منافقت ہوئی اور منافقوں کے لیے جہنم کی آگ دہکائی گئی ہے، وہ یہ بات ہرگز نہ بھولیں۔ دنیا کے دن تو جیسے تیسے گزر ہی جاتے ہیں لیکن عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اقتدار کی خاطر جہنم کا سودا کرنا کبھی نہ ختم ہونے والا خسارہ ہے۔

بھارت کے اینکر کو ویڈیو میں حیران ہوتے اور باآواز بلند اس خبر کو پڑھتے ہوئے بے شمار لوگوں نے دیکھا ہوگا، حقیقت اور جھوٹ کی اس نے اس طرح رونمائی کی ہے کہ ’’پاکستان میں جہاں مندروں کو توڑا جاتا ہے، اسی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پوجا پاٹ کرنے شیو کے مندر جاتے ہیں۔ انھی مقتدر حضرات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور شیری رحمان شامل ہیں، شیری رحمان کھڑی ہیں ، بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ ہاتھ میں پوجا کی تھالی لیے شیو کے سامنے پوجا کی حالت میں بیٹھے ہیں۔ سیکڑوں لوگ ان کے ساتھ تھے، کراچی کلفٹن میں یہ مندر واقع ہے، جہاں بلاول زرداری نے تقریر کرتے ہوئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا‘‘۔

اینکر نے پوجا پاٹ تو دکھادی لیکن اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کرنے کے لیے مندروں کو توڑتے، یا غیر مسلموں کے ساتھ برا سلوک ہوتے نہیں دکھا سکے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، یہاں مسلم اور غیر مسلموں کے برابر کے حقوق ہیں، رہا مندر توڑنے کا الزام، تو شاید ہی کوئی ایک آدھ واقعہ ذاتی دشمنی کے تحت ہوا ہو، ورنہ تو ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے۔ وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کرے یا مے نوشی باقاعدہ انھیں پرمٹ دیا جاتا ہے۔

ایسے لوگ جن کا دین ایمان روپیہ، پیسہ ہی ہو، وہ کیا اس ملک پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی ہو اور یہ بات آئین کی بھی نفی کرتی ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

ہاتھ بے زور ہیں‘ الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی‘ پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے‘ باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزر ہیں

نواز شریف اور آصف زرداری نے ملک کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ اب نہ علم کی خوشبو ہے اور نہ شرافت اور تہذیب، اب کوچے نہیں مہکتے ہیں، بلکہ کچرے کی بدبو ہر سو رقص کرتی ہوئی انسان کے اجسام میں داخل اور نت نئی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔ شرافت قتل و غارت کو عروج حاصل ہوا ہے۔

اب محض کھیل کود، اور 10 روپے کے نوٹ اور شرٹ پر تھوک کے چھینٹے آنے پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ مشال قتل کیس کو لے لیجیے جسے سازش کے تحت قتل کروایا گیا اور قتل بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ سیکڑوں طلبا نے اس پر ایسے چڑھائی کی جیسے قلعہ فتح کر رہے ہوں، یا تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، ایک جم غفیر تھا۔ کہاں تھی انتظامیہ پرنسپل اور اساتذہ۔ پولیس غائب اور رینجرز غائب، اس کی وجہ انھیں آواز ہی نہ دی گئی۔

(جاری ہے)

The post کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.

میں ٹیکس کیوں ادا کروں ؟

$
0
0

نصف شب کو بے چینی سے آنکھ کھل جائے اور آپ عمر کے اس حصے میںہوں کہ یوں آنکھ کا کھل جانا دل کے کسی روگ نہیں بلکہ واقعی طبیعت کی خرابی کا باعث ہو… درد اور وہ بھی دانت کا، خیر درد تو جو بھی ہو برا ہے- خیر جناب کروٹیں بدلنے سے کوئی بہتری نہ ہوئی تو بستر چھوڑنا پڑا اور بتی نہ جلائی کہ درد تو جاگا ہے مگر کوئی اور نہ جاگ جائے- غسل خانے میں جا کر پہلے تو الماری سے ہر طرح کی دوا کو نکال کر دیکھا، پھر اپنے فون پر Google سے رابطہ کیا اور پھر باورچی خانے میں جا کر لونگ کا تیل روئی پر ڈال کر بلکہ روئی کو تیل میں اچھی طرح بھگو کر متاثرہ دانت پر رکھا- میں تو اس سوچ میں تھی کہ منہ میں تیل والی روئی رکھتے ہی معجزہ ہو جائے گا مگر درد تو کیا کم ہوتا الٹا منہ میں لونگ کے تیل نے اور بھی بدمزگی پیدا کر دی- رات جاگ کر گزری، صبح اٹھ کر اسپتال جانے کا ارادہ کیا اور چیک کرنے لگی کہ کون سے اسپتال جا سکتی ہوں-

ہمارے اریب قریب تو کوئی اسپتال نہیں ہے، انتہائی ایمرجنسی میں بھی نزدیک ترین اسپتال تک پہنچنے میں بھی معمول کے دنوں میںآدھا گھنٹہ کم از کم لگتا ہے- سرکاری اسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے… راولپنڈی کے ایک سرکاری اسپتال اور اسلام آباد کے اہم ترین سرکاری اسپتال کی حالت زار اور اپنے ذاتی تجربے کے باعث اللہ سے یہی دعا کرتی ہوں کہ اللہ کسی دشمن کو بھی وہاں کا مریض نہ کرے- صفائی کا انتہائی ناقص انتظام، اور ڈاکٹروں کی عدم موجودگی، ڈیوٹی پر موجود نچلے عملے کا مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک ، ایمر جنسی میں ضرورت کی دواؤں کی عدم موجودگی، وہیل چئیر اور اسٹریچر کی کمی، مشینوں کا خراب ہونا اور زیر استعمال اوزاروں کا صاف نہ ہونا… ایسے مسائل ہیں کہ جنھیں دیکھ کر کوئی وہاں نہیں جانا چاہتا-

سسک سسک کر بندہ وقت گزار لے مگر ایسے اسپتالوں میں جانے کا تصور تو پہلے ہی مار دیتا ہے- اللہ ہمیں کسی ایسی صورت حال سے محفوظ رکھے- یقین کریں کہ کوئی اور بھی زیر علاج ہو اور صرف اس کی عیادت کو بھی جانا پڑے توعام انسان یہ سب دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے، جو نہیں پریشان ہوتے وہ حکمران کہلاتے ہیں –

اسی لیے تو ہمارے حکمران، وزراء اور مشیران اپنے سر درد کے علاج کے لیے بھی بیرون ممالک جاتے ہیں، جناب کہ وہ اس ملک کی مشینری کے اہم کل پرزے ہیں جو ان اسپتالوں میں علاج کروا کے وہ مزید بیمار پڑ جائیں تو ہمیںلوٹے گا کون؟ اس ملک میں ہزاروں اسپتال بنوانے یا موجود اسپتالوں کا انتظام بہتر کرنے کا خرچہ بہر حال ان کے بیرون ملک جا کر علاج کروانے سے کم ہے- یہاں ان اسپتالوں میں اس ناگفتہ بہ حالت کے باوصف مجبور اور بے آسرا لوگ رلتے ، ڈاکٹروں کے سامنے ہاتھ باندھتے، دوائیں خریدنے کے لیے وہیں موجود لوگوں سے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے، ڈاکٹروں کی لاپروائی کے باعث اپنے مریضوں کو تڑپتے ہوئے دیکھتے، ٹیسٹوں کے لیے قطاروں میں کھڑے، ایمرجنسی وارڈوں میں بھی اخوت اور بھائی چارے کے تحت ایک ایک بیڈ پر تین چار اکٹھے پڑے ہوئے، اسپتالوں کے کاریڈوروں میں فرشوں پر دریاں اور گدے بچھا کر لیٹے ہوئے، وہیں ڈرپیں لگی ہوئی ہیں، وہیں آپریشن کے بعد لا کر لٹا دیے جاتے ہیں،( یہ پوسٹ آپریٹو کئیر ہے)- درد سے تڑپتی ہوئی عورتیں، برآمدوں، صحنوں اور کاریڈوروں میں بچوں کو جنم دیتی ہوئیں، ایسی شرم ناک صورت حال ہے اس ملک میں، جسے دنیا ہمارے میڈیا کے ذریعے دیکھتی اور ہمیں جاہل اور پسماندہ کہتی ہے… یہ سب جان کر کیا آپ ایسے کسی اسپتال میں جانا چاہیں گے؟

خیرمیں بتا رہی تھی کہ میرے دانت میں درد تھا… کوئی سرکاری سہولت میسر نہ ہونے کے باعث اور یہ سوچ کر کہ سرکاری اسپتال سے علاج کروانے پرناقص اور غلیظ اوزاروں کے استعمال کے باعث جانے اور کتنے روگ لگ جائیں، پرائیویٹ ڈاکٹر سے جب علاج کروا کر دانت کے درد سے نجات پا کر گھر لوٹی تو بٹوہ بھی کافی ہلکا ہو چکا تھا- حساب کیا تو علم ہو اکہ اگر میں اپنے پورے بتیس دانتوں کے علاج کے لیے اسی طرح رقم دیتی رہی تو بہتر ہے کہ میں ابھی سے کمیٹی ڈال لوں اور کوئی پلاٹ خرید کر رکھ لوں ، کوئی شئیر وغیرہ خرید لوں یا سونا خرید کر رکھ لوں ورنہ تو کباڑا ہو جائے گا-

ہم اس ملک میں ہر قدم پر، ہر سانس پر ٹیکس کیوں دے رہے ہیں اگر ہمیں فقط اتنی سی سہولت بھی میسر نہیں؟ تعلیم، علاج اورسر پر چھت… ہر اسلامی اور غیر اسلامی معاشرے میں عوام کا حق ہے- اگر ہم ٹیکس دیں مگر ہمار ے بچوں کی تعلیم کے لیے سرکاری اسکولوں میں بہترتعلیم کا انتظام نہ ہو، ہمیں حکومت کی طرف سے سر چھپانے کا کوئی آسرا نہ ہو اور ہم اپنا علاج بھی خود ہی اپنے خرچے پر کروائیں تو پھر ہمارے ٹیکس کہاں جاتے ہیں ؟ ایک ٹیکس تو وہ ہے جو اس ملک کا تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے اور اس ٹیکس کی کٹوتی میں نہ کوئی چھوٹ ہے نہ دھوکہ کہ وہ ہر تنخواہ دار کی تنخواہ میں سے جبری کٹ جاتا ہے- پھر اس ملک کا وہ طبقہ ہے جن کے اپنے کاروبار ہیں، اس میں سے بھی لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، کچھ پوری دیانتداری کے ساتھ اور کچھ اس میں دھوکہ کرتے ہیں، بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں- با ضمیر ٹیکس ادا کرنے والے صرف کڑھتے ہیں اور سوچ کر رہ جاتے ہیں کہ وہ بھی ٹیکس چوری کریں –

ہم کپڑے، جوتے، دواؤں، سامان تعیشات و ضروریات، اشیائے خورونوش کی خریداری میں، بجلی، فون اور گیس کے کنکشن لینے اور ان کے بلوں کی ادائیگی میں، ہر طرح کے زمینی، سمندری اور فضائی سفر میں، گھر بنانے کے دوران ہر چیز کی خریداری میں، پھر گھر پر، پھر کرایے پر دیں تو کرائے پر- گاڑی خریدیں تو ٹیکس ادا کریں، اس کی رجسٹریشن کروائیں، اس میں پٹرول ڈلوائیں اس کی سروس کروائیں تو ٹیکس ادا کریں… غرض قدم قدم پر اتنے ٹیکس ہیں کہ گنوانا مشکل ہے- لگتا ہے کہ اس ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں سے زیادہ وہ لوگ بہتر ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، کم از کم ان کے پاس کڑھنے کی کوئی وجہ تو نہیں ہے- اس ملک کے وزیر اعظم کا ٹیکس بھی میرے جیسے عام لکھاری، کسی استاد، کسی نرس کے اعزازئیے یا تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے کٹ جانے والے ٹیکس کے لگ بھگ ہو گا-

آپ کسی صرافہ بازار میں چلے جائیں، ظاہر ہے کہ ہم سب کو کبھی نہ کبھی زیورات کی خریداری کرنا ہوتی ہے- وہاں پر دکاندار آپ سے کریڈٹ کارڈ یا چیک وصول نہیں کرتا بلکہ نقد کا مطالبہ کرتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتا- لاکھوں روپے یوں جیبوں میں ڈال کر تو کوئی بازاروں میں نہیں جاتا نہ ہی ایسا کرنا محفوظ ہے- یہ تو وہ دکاندار ہیں جن کی کمائی شاید سب سے زیادہ ہوتی ہو گی- ملک کے چھوٹے سے چھوٹے شہروں کی ڈربہ نما دکانوں میں بیٹھے ہوئے دکانداروں سے لے کر بڑے شہروں کے مہنگے ترین علاقوں میں  اربوں روپے کے زیورات بیچنے والے … کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، ان سے سوال کرو تو کہتے ہیں ، ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حکومت ہمیں اس کے بدلے میں کیا دیتی ہے؟ ہم ٹیکس دیں تا کہ وہ اپنے اللے تللوں میں خرچ کریں، اپنے ماتھوں پر تاج سجانے کے لیے سڑکوں پر سڑکیں بنواتے ہیں کہ وہ نظر آتی ہیں اور پلوں میں ان کی فیکٹریوں کا لوہا کھپتا ہے، ان منصوبوں میں وہ اربوں کا کمیشن کھا جاتے ہیں- ہمارے پیسوں سے اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیںاور جیتنے کے بعد چار چار سال تک اپنے حلقے میں نظر تک نہیں آتے-

میں بھی سوچتی ہوں کہ میں ٹیکس کیوں دیتی ہوں ۔ کیا اس کے بدلے میں میرے پاس کوئی ایسا کارڈ ہے جس پر لکھا ہو کہ میں اس ملک کی ایک ذمے دار اور ٹیکس ادا کرنے والی شہری ہوں- میں جہاں کچھ خریدنے کے لیے جاؤں وہاں وہ کارڈ پیش کروں اور اس کے بدلے میں مجھے اس خریداری پر مکمل یا کچھ فیصد چھوٹ مل جائے؟ مانا کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والوں بچوں کے والدین اور ان اسپتالوں میں علاج کے لیے وہ لوگ رل رہے ہوتے ہیںجو بظاہر کسی نوعیت کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، مگر بہت سے ٹیکس تو وہ بھی ادا کرتے ہیںجو کہ خرید و فروخت میں ادا ہوتے ہیں، بلوں کی مد میں ا ورٹیلی فونوں کے استعمال سے ادا ہوتے ہیں… کیا اس ملک میں سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کے علاوہ کوئی ایسا نظام بھی چل سکتا ہے جس سے وہ طبقہ مستفید ہو جو ایمانداری سے باقاعدہ ٹیکس ادا کرتا ہے؟

ہمارے حکمران کشکول لیے بھیک کے نام پر ہمیں مزید مقروض کیے ہوئے ہیں تو پھر بد دیانتی اور کرپشن کے سوا کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں بہتری نہیں آ رہی؟ ہم ترقی کی راہ پر ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے پھسل جاتے ہیں- لالچیوں، چوروں اور ڈاکوؤں کو چن کر اپنے سروں پر مسلط کرلیں گے تو اس کے سوا ہمارے ساتھ کیا ہو گا- ہمارے جیسے بے حس، غیر ذمے دار اور پڑھے لکھے جاہلوں کے لیے اس کے سوا اور کوئی آپشن بھی نہیں ہے اور یہی ہمارے ہر درد کا علاج ہے !!

The post میں ٹیکس کیوں ادا کروں ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان، مرکزی دھارے سے دور کیوں؟

$
0
0

22 اکتوبر 2017ء کی شا م جب میں بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر، راحیلہ درانی کے عشائیہ میں شرکت کے لیے سی پی این ای کے وفد کے ساتھ کوئٹہ کلب میں داخل ہورہا تھا،میرے بیٹے ضرار نے نیویارک سے واٹس ایپ پر ہیلوئن کاسٹیوم پہنے میرے تین پوتوں کی تصویر ارسال کی۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اب سے ٹھیک65 برس قبل 1952ء کے اوائل میں میری مرحومہ بہن شہناز (جس کی عمر اس وقت تین برس تھی) اور میں کوئٹہ کلب میں “Fancy Dress Party”  میں شریک ہوئے تھے۔کلب کے راستے میں موجود متعدد سیکیورٹی چیک پوسٹس، جو کسی قلعے کا تاثر دیتی تھیں، اُس منظر سے یکسر متصادم تھیں، جب مسز محمود جان، مسز ایرانی، مسز لیسلے، میری والدہ اور دیگر خواتین (جن کے شوہر کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج سے منسلک تھے) ٹینس اور اسکوائش کھیلنے بائی سائیکل پر کوئٹہ کلب آیا جایا کرتی تھیں۔

مجھے1967ء میں اپنے “Weapons and Tactics Course” کے دوران کمانڈنٹ انفینٹری اسکول، بریگیڈیئر محمود جان اور کمانڈر کوئٹہ لوگ ایریا، بریگیڈیئر ایس جی بی ایرانی کے اتوار کے ظہرانوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یادیں، جن کا محور کراچی میں پلی بڑھی میری بیوی شہناز ہے، مجھے 1973ء میں “Seven Streams” کے نزدیک قلی کیمپ اور مردار پہرکے مدمقابل واقع ہٹ 7/4 میں لے جاتی ہیں، جہاں نل میں پانی نہیں آتا تھا۔

میرے کمانڈنگ آفیسر، جو بعد میں بریگیڈئیر بنے، لیفٹینٹ کرنل تاج، ستارہ جرات اینڈ بار نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ میں اور میجر شمشاد، دونوں ہی کی چند ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، 44 پنجاب کے (جو اب 4 سندھ کہلاتی ہے) گورنر نواب اکبر بگٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے خصوصی درخواست پر مری قبیلے کے خلاف شروع کردہ آپریشن سے قبل ان کا فیصلہ تھا کہ ہم ہنی مون کے حق دار ہیں۔

نصابی کتب میں درج “advance and encounter battle”  کی تعریف کے مطابق ہم نے دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک یعنی سبی سے، سال کے گرم ترین دن، حکم کے مطابق ہیلمٹ پہنے یہ دشوار سفر شروع کیا۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا صاحب!

خیر، صوبائی اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ درانی کا عشائیہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ بلوچ معاشرے میں ایک خاتون کا اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا انوکھااور قابل تقلید واقعہ ہے۔ اس موقع پر درانی صاحبہ نے خاندان کی مرضی کے خلاف ایک اردو روزنامے سے بہ طور جونیئر رپورٹر کیریر کے آغاز، لا کی پریکٹس کو اپنی گزر اوقات کا ذریعہ بنانا اور آخر میں سیاست میں آنے کا قصہ بیان کیا۔ ایک نابغۂ روزگار بلوچ خاتون سے متعلق، جو کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی ہیں، سی پی این ای کے ارکان کا تاثر خاصا مثبت تھا۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ عالمی دنیا میں پاکستان کی مثبت امیج کی تشکیل میں اُن کی صلاحیتوں سے زیادہ استفادہ نہیں کیا گیا۔

ہنہ جھیل کا سفر، جسے بدقسمتی سے ہم نہیں دیکھ سکے، ماضی کی کتنی ہی حسین یادیں تازہ کر گیا۔ 1955ء میں جب ہمارے والد کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کی فیکلٹی کا حصہ تھے، منہاج علی خان (بریگیڈئیر ظفر علی خان، ایچ جے کے صاحبزادے)، شاہد امجد اور ارشد امجد (بریگیڈیئر امجد چوہدری، ایچ جے کے صاحبزادے) ڈیرک مفتی (اسٹاف کالج کی لائبریرین مسز مفتی کے صاحبزادے) اور میں اکثر پیدل یہ سفر طے کیا کرتے تھے۔ چیف منسٹر ریسٹ ہاؤس میں CPNE کے وفدکے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا، جس کے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان، نواب ثنا اللہ زہری خاصے متحرک دکھائی دیے۔ وہ قبائلی پس منظر رکھنے والے سیاستداں ہیں۔ ان کے نیک ارادوں پر شک نہیں، مگر کیا یہ ارادے نتیجہ خیزثابت ہوں گے؟

ہوٹل میںہمارے لیے چائے رکھی گئی۔ ہمارے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ تھے۔ اس اجلاس کا مقصد حکومت کی کارکردگی سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کو مضبوط سول ملٹری روابط سے منسوب کیا جسکے پیچھے پختہ سیاسی عزم کارفرما تھا۔ معدنی ذخائر سے مالامال اپنے صوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے رکودک پراجیکٹ کی ممکنہ تجدید کا بھی ذکر کیا۔ ساتھ ہی قومی اسمبلی میںبلوچستان کی نمائندگی میں رقبے اور آبادی کے تناسب سے، سوچ بچار کے بعد طے کردہ فارمولے کے تحت اضافے کی متوازن تجویز پیش کی چونکہ مردم شماری ہو چکی ہے، یہ عمل حدود کے تعین میں ترجیح بن سکتا ہے۔

جہاں تک ناراض خودساختہ جلاوطن عناصر کا تعلق ہے، اگر وہ مذاکرات کرکے واپس آنا چاہتے ہیں، تو خوش آمدید مگر ان کی جانب سے پاکستان اور اس کے آئین کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور حاصل بزنجو سے بھی سی پی این ای کے مندوبین کی ملاقات ہوئی جس میں بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔ ادھر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی انوار الحق کاکڑ کے مانند عسکریت پسندوں کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی کی صورتحال اب بڑی حد تک قابو میں ہے۔ انھوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل روکنے کی دھمکی کو مسترد کر دیا۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی ایک نفیس، جہاں دیدہ اورعمدہ میزبان ہیں۔

بلوچستان دہائیوں سے Hybrid Warfare کا نشانہ رہا ہے۔ گو کردار، مقاصد اور دشمنوں کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے مگر ہندوستان کی عداوت مستقل ہے اور کلبھوشن یادوکیس گزشتہ تین چاربرس میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تناظر میں ہندوستان کی اضافی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سی پیک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی بھی قوت رکھتا ہے اور بھارت، جسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی۔ حالیہ جنگ میں اطلاعات کی فراہمی روکنے کے لیے تازہ اقدام ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل سے باز رکھنے کی کوششیں ہیں۔

صوبے بھر میں اخبارات کی ترسیل روکنے کی ’’را‘‘کی معاونت سے رچی اِس سازش کا ہر صورت سدباب ضروری ہے۔ ہاکر برادری اپنے اور اپنے اہل خانہ کے تحفظ سے متعلق فکرمند ہے مگر عسکریت پسندوں کے مطالبات تسلیم کرنا بھی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ گو بحالی امن کی تمام علامتیں موجود ہیںمگر ماضی ہی کی طرح سیکیورٹی کے سخت اقدامات کے باعث Déjà vu کا احساس ہوتا ہے۔بڑے پیمانے پر ہونے والے سیاسی اور اقتصادی اقدامات، جن میں زراعت کے فروغ کے لیے درجنوں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی شامل ہے، بلوچستان کی مرکزی دھارے میں واپسی کے لیے از حد ضروری ہیں۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post بلوچستان، مرکزی دھارے سے دور کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


امریکا کا افغانستان

$
0
0

27 دسمبر 1979ء کی رات سابق سوویت یونین (روس) نے افغانستان کی ماسکو نواز سوشلسٹ حکومت کے خلاف پُھوٹ پڑنے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنی فوج دارالحکومت کابل میں اُتار دی۔ اس سے دو روز قبل روس کی 40 ویں کور پہلے ہی افغانستان میں زمینی راستے سے داخل ہوچکی تھی۔ امریکا کے مشیر برائے قومی سلا متی زبگینو برزنسکی نے اس موقع پر اپنے صدر جمی کارٹر کو لکھا تھا:

We Now Have The Oppertunity Of Giving To USSR Its Vietnam War.

’’یقینا اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم روس کی جھولی میں ’’اُس کی ویت نام جنگ‘‘ ڈال دیں‘‘۔ زبگینو برزنسکی نے اپنے صدر کو جو مشورہ دیا اس پر مکمل عملدرآمد ہوا۔ آج روس کے صدر ولادیمر پیوٹن کو ان کا کوئی ’’برزنسکی‘‘ مشورہ دے رہا ہو کہ ’’کیوں نہ افغانستان کو امریکا کے لیے جہنم بنا دیا جائے۔‘‘

امریکا کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ اس نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کو روس کے لیے ’’ویت نام‘‘ بنا دیا تھا۔ خطے کے نئے منظر نامے میں روس کو زخمی کرنے والے امریکی نیزے کی اَنی، یعنی پاکستان، اب امریکا کا دست و بازو نہیں اور خطے میںامریکا کا نیا اتحادی بھارت پہلے سے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا طویل کھاتہ رکھتا ہے، ایسے میں امریکا کو بالکل نئے سرے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینی تھی جو دی جا چکی۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا، اس کی ترجیحات اسی نئی حکمتِ عملی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ میں تو کہوں گا اسے افغان کے بجائے پاکستان پالیسی کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ افغانستان میں تو امریکا کو رہنا ہے، پاکستان کے لیے اس میں زیادہ سنگین خطرات اور اندیشے موجود ہیں۔

سفارتی سطح پر بات کرنے کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس کے رموز تب آشکار ہوتے ہیں جب ریاستی مشینری عملی اقدامات کرتی ہے۔ نئی امریکی حکمت عملی کے دو اہم ترین پہلو یہ نظر آتے ہیں۔ اول: جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کی ناگہانی بلا شرکت غیرے، بھارت کے پاس ہوگی اور یہ کام بھارت مفت میں نہیںکرے گا۔ ظاہر ہے امریکا اس کی قیمت بھارتی مفادات کے حصول میں مدد فراہم کرکے چکائے گا۔ دوئم یہ کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایک غیر ریاستی قوت طالبان کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ دوسری غیر ریاستی قوت داعش کو متعارف کرادیا جائے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا یہاں سے غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کا ہرگز خواہش مند نہیں۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر امریکا طالبان کی جگہ داعش کو کیوں لانا چاہتا ہے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ طالبان کو امریکا نے کھڑا کیا تھا۔ اس بارے میں مخمصہ دور کرلینا چاہیے۔ طالبان سوویت یونین (روس) کے خلاف مسلح مزاحمت ہی کی توسیع ہیں۔ امریکا انھیں بنانے والا نہیں بلکہ اسے پہلے سے موجود عسکریت پسندوں کی مجبوراً سرپرستی قبول کرنا پڑی، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو یہ تنظیم امریکا نے خالصتاً اپنے مفادات کے لیے بنائی ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ طالبان مقامی جب کہ داعش ایک باہر کی طاقت ہے۔ داعش میں مقامی افراد کی تعداد محض اتنی ہوتی ہے جو ناگزیر ہو۔ غالب اکثریت غیر افغانیوں کی ہوگی۔ جوکسی رو رعایت کے بغیر احکامات کی تعمیل کریں گے۔ افغانستان کے باسیوں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ داعش کو غلبہ حاصل ہو جائے تو ایسے غیرت کے مظاہرے سے چھٹکارہ مل جائے گا۔افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا اور ساری دنیا یک سو ہوکر افغان جہاد کی پشت پر کھڑی ہوگئی تھی جس کے باعث روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔

اب دہشتگردی کے حوالے سے عالمی امریکی پراپیگنڈہ نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ طالبان کو کسی بیرونی مدد کے بغیر قابض امریکی افواج کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن داعش کے پاس ٹینکوں، توپوں سمیت وہ سارا بھاری اسلحہ اور گولہ بارود ہوگا جو ایک جدید فوج کے پاس ہوتا ہے۔ افغان طالبان آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکا کو ایک ایسی جنگجو قوت کی ضرورت ہے جو ریاست پر یقین نہ رکھتی ہو اور ملک کی آزادی اس کے لیے بے معنی تصور ہو۔

بظاہر داعش کا ایجنڈہ اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ اسی مقصد کے نام پر کئی اسلامی ملکوں کو مکمل تباہی سے دوچار کرنیوالی یہ عسکری مشین اب ہمارے خطے میں استعمال کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ داعش کا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ گوریلا اور روایتی جنگ لڑنے کے قابل ہوگی۔ جب ہم سنتے ہیں کہ داعش کسی علاقے سے غائب ہوگئی ہے تو اس کا مطلب شکست نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی ریگولر آرمی کی طرح وہاں نمودار ہوتی ہے جہاں اس کی ضرورت ہو اور پھر اپنے حصے کا کام کرکے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

جب پاک افغان سرحدی معاملات داعش کی سرگرمیوں کے باعث دگرگوں ہوجائیں گے تو پھر پاکستان کے خلاف ایک کیس تیار کیا جائے گا۔ امریکا اقوام عالم کے سامنے ڈرامہ رچا کر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس محاذ آرائی کے باعث سی پیک سمیت چین کے تمام علاقائی منصوبے خطرے میں پڑجائیں گے۔ اس اندیشے کے باعث افغان طالبان اور پاکستان میں ان کے ہم خیال گروپ غیر معمولی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔

اب اگر داعش کے مقابل روس طالبان پر ہاتھ رکھ دے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان ہی کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی تین دہائیاں قبل افغانستان میں سرخ فوج کی موجودگی سے کہیں زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورے کے موقع پر حکومت کا رویہ معقولیت پر مبنی تھا۔ حالات مزید سنجیدگی کے متقاضی ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ہمیں عظیم چیلنجز درپیش ہوں گے۔

The post امریکا کا افغانستان appeared first on ایکسپریس اردو.

تھالی کے بینگن

$
0
0

پاکستانی معاشرے میں جو اخلاقی، تہذیبی اور سماجی زوال آیا ہے، اس میں سفارشی اور خوشامدی کلچر پورے عروج پر ہے۔ ایک ٹولہ ہے جو اپنے لیڈرکی ہر بات کو خواہ وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو، صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ یہ ٹولہ کبھی جمہوریت کا راگ الاپتا ہے اور جب جمہوریت کی ڈگڈگی کی آواز ہلکی پڑنے لگتی ہے تو یہ ’’بوٹوں‘‘ کی آہٹ سننے لگتا ہے۔ یہ ٹولہ مکمل طور پر ’’چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی‘‘ کی کھلی تفسیر ہے۔ آپ اس خوشامدی ٹولے کو ’’تھالی کا بینگن‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

بہرحال یہ خوشامدی ٹولہ آج ہر جگہ موجود ہے۔ سب سے زیادہ ان کی کثرت اسمبلیوں میں ہے اور اب تو خیر سے میڈیا میں ان کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ کبھی جب تہذیب و شائستگی، شرافت اور نجابت کی پہچان تھی، اس وقت یہ خوشامدی ٹولہ موجود نہ تھا، لوگ اپنے مخالفین کے لیے بھی ’’آپ جناب‘‘ کہہ کر بات کرتے تھے جب کہ اب کئی دہائیوں سے ’’تو تکار‘‘ ان ہی کی پہچان ہے۔

80ء کی دہائی سے لے کر آج تک جمہوریت کے نام پر جو منظر پیش کیے گئے ہیں، ان بیانات کو دیکھیے تو ایک تضاد نظر آئے گا۔ شکر ہے نام بدلنے والی تکرار آج کل سننے میں نہیں آ رہی، شاید اس کی وجہ یہ کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سے لے کر امن و آشتی کا راگ الاپنے والے، دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بہت سے کاموں کے لیے کئی نام درکار ہوں گے۔ اسی لیے ’’میرا نام بدل دینا‘‘ یا ’’میں اپنا نام بدل دوں گا‘‘ جیسے جملے اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔

ایک افسوسناک بات ہماری سوسائٹی میں یہ ہے کہ ہر سطح پر خوشامدی اور سفارشی لوگوں کی بھرمار ہے، جھوٹ، خوشامد، بے ایمانی اور دروغ گوئی کا ماحول زور پکڑ رہا ہے۔ سچ بولنے والا مجرم گردانا جاتا ہے اور جھوٹ بولنے والے کے سر پہ تاج ہوتا ہے۔ ہمارے لیڈر اور سیاست دان اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا ماحول پورے ملک میں رائج ہے۔ سیاسی کھیل تماشے مسلسل جاری ہیں۔

کسی لیڈر کے پاس نہ وقت ہے نہ توفیق کہ وہ اصلاحی کاموں پہ توجہ دے، الٹی گنگا بہہ رہی ہے جس میں کرپشن کے مگرمچھ ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ملک شدید افراتفری کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ من مانی قیمتوں پر اشیا فروخت ہو رہی ہیں۔ مردہ جانوروں کا گوشت بک رہا ہے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں مردہ اور بیمار مرغیاں سپلائی کی جا رہی ہیں، چھاپہ پڑتا ہے لیکن سفارشی کلچر آگے آجاتا ہے۔ غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں، مختلف بیماریاں چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جس ملک میں گھوڑوں کو مربے، جام جیلی اور بادام کھلائے جاتے ہوں اسے اسلامی کہنا جائز نہیں۔

ہمارا دین سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ آنحضرتؐ سے لے کر خلفائے راشدین تک سب نے زندگی بہت قناعت سے اور سادگی سے گزاری لیکن ہم مذہب کے معاملے میں نعرہ بازی تو بہت کرتے ہیں لیکن اس کی روح پر عمل پیرا ہرگز نہیں۔ ہمارے حکمران امریکا میں اپنا اور خاندان کا علاج کرواتے ہیں، چھٹیاں سوئٹزرلینڈ میں گزارتے ہیں، پاؤں میں موچ آ جائے تو دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔ خوشامدی ٹولے کے ساتھ بیرون ملک دورے کرتے ہیں تو مہنگے ہوٹلوں میں کاروان خوشامد کو ٹھہراتے ہیں۔

دنیا کی مہنگی ترین گھڑی اور ہیروں جڑے چشمے استعمال کرتے ہیں۔ اور دعویٰ ’’اسلام‘‘ سے محبت کا اور مسلمان ہونے کا۔ کیسا قول و فعل میں تضاد ہے۔ موجودہ حکمران اور وہ جو اپنی باری کے انتظار میں دانت نکالے مسکرا رہے ہیں، اپنے بیانات سے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہے۔ پنگورے سے دودھ پیتے بچوں کو نکال کر سیاست کے غلیظ سمندر میں اس یقین کے ساتھ کھڑا کردیا ہے کہ اب ان کی باری پھر آگئی۔ الٰہی خیرکرے پاکستانی عوام کب تک آلودہ پانی پیتے رہیں گے، مردہ جانوروں کا گوشت کھاتے رہیں گے اور ووٹ دیتے رہیں گے؟

پاکستان بڑی مشکلوں سے وجود میں آیا ہے، ملک کا ایک بازو بنگلادیش بن چکا ہے۔ لٹیروں نے نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس سے ساز باز کر رکھی ہے۔ اس ملک میں کبھی اصلی جمہوریت نہیں آسکتی کیونکہ یہاں تعلیم کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاکی وردی میں لپٹی جمہوریت ہی ہمارے حکمرانوں کو سوٹ کرتی ہے پاکستانی عوام گزشتہ 70 سال سے مداری کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مداری کبھی معمول کو زمین پہ لٹا کر من چاہے سوالوں کے جواب مانگتا ہے، بندریا نچاتا ہے، جمہوریت کی بندریا کبھی ناراض ہوکر میکے چلی جاتی ہے اور بے چارہ بندر اسے مناکر لے آتا ہے لیکن اصل ڈگڈگی مداری ہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ وہ اپنے سے بڑے مداریوں کے ایما پر کھیل دکھاتا اور انھیں مطلوبہ نتائج دیتا ہے کیونکہ مطلوبہ نتائج دینا مداریوں کی مجبوری ہے۔ سفارشی ٹولہ مختلف محکموں میں خوشامدی ٹولے کی مہربانی سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ ہرعہدیدار کے پیچھے ’’سفارش‘‘ کا ٹیگ لگا ہے۔

خواہ ادبی ادارے میڈیا ہو یا دیگر ادارے خوشامدی ٹولے کی کارکردگیاں ہر جگہ موجود ہیں۔ سارا زور مخالف کو پچھاڑنے میں صرف ہو رہا ہے، لیڈروں کی زبان سن کر شرم آتی ہے کہ یہ ’’اوئے‘‘ اور ’’ابے او‘‘ سے مخالفین کو مخاطب کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں جو زبان اسمبلی کے اجلاس کے دوران استعمال ہوتی ہے وہ ان نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘ کا شجرۂ نصب بتانے کے لیے کافی ہے۔ یہ زبان تفریق پیدا کر رہی ہے اور لوگوں کو تصادم کی طرف لے جا رہی ہے، شاید ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔

برما کے روہنگیا مسلمانوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ برمی فوج حکومت اور تشدد پسند بدھ بھکشوؤں نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ گوتم بدھ کے آدرشوں کو سنبھال کر رکھنے والوں نے بدھا کی تعلیمات کو کس طرح بھلا دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے 1947ء کی تقسیم کا واقعہ زندہ ہوگیا ہے، وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو برصغیر کی تقسیم کے وقت ہوا تھا، خون، لاشیں، جلاؤ گھیراؤ، گولی، ڈوبتی کشتیاں اور لقمہ اجل بنتے ہوئے بچے۔

افسوس کہ اقوام متحدہ نے اب تک کوئی سیریس ایکشن نہیں لیا۔ جو تفصیلات آرہی ہیں وہ بہت بھیانک اور دہشتناک ہیں لیکن میری پریشانی یہ سوچ کر مزید بڑھ جاتی ہے کہ آج برما کی ریاست راکھائن سے مسلمانوں کو یہ کہہ کر نکالا جا رہا ہے کہ یہ برما کے اصل شہری نہیں ہیں۔ وہ بے یار و مددگار بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ترکی اور بنگلہ دیش لائق تحسین ہیں کہ انھوں نے ان خانماں بربادوں کی مدد کی لیکن میری تشویش کی نوعیت مختلف ہے۔

آج برما سے مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے۔ کل کسی اور ملک سے بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ملک سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نکال باہر کرے۔ ذرا سوچئے کہ اگر برطانیہ سے، امریکا سے، کینیڈا سے یا جاپان سے مسلمانوں کو نکالا جانے لگا تو کیا ہو گا؟ کیونکہ برما میں ہونے والے تشدد نے اقوام متحدہ کی غیر جانبداری کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اس سانحے پر خاموش ہیں۔ انھیں چاہیے کہ یک زبان ہوکر ایک مشترکہ قرارداد اقوام متحدہ کو دیں جس میں مطالبہ ہو کہ روہنگیا مسلمانوں کو برما میں واپس بھیج کر ان کی شہریت بحال کروائے۔

صرف یہی نہیں بلکہ مسلم ممالک ان برمی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے اجناس، کپڑے، خشک دودھ، خیمے، جوتے اور ضروریات زندگی کی چیزیں بھیجیں۔ کہتے ہیں یہ بدھ مت کا انتہا پسند طبقہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔ انھیں خطرہ ہے کہ آیندہ جاکر بدھ اقلیت میں ہو جائینگے اور مسلمان اکثریت میں۔ ایسا تو دوسرے ممالک بھی سوچ سکتے ہیں جہاں مسلمان آبادی کی کثرت ہے۔ یہ احساس خطرے کی گھنٹی ہے۔ تمام مسلمانوں کے لیے جو غیر ممالک میں بس رہے ہیں۔ انتہا پسندی نے ویسے ہی مسلمانوں کا امیج دنیا بھر میں خراب کر رکھا ہے۔ اب راکھائن کے پناہ گزینوں کے لیے کوئی نئی آفت نہ کھڑی کردی جائے۔

The post تھالی کے بینگن appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک حکومت اور دو بھائی

$
0
0

میاں شہباز شریف کی یہ بڑی صائب تجویز ہے کہ ملک کے اہم اداروں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے تا کہ ترقی کا عمل جاری رہ سکے اور پاکستان کی ترقی کی خاطر گفتگو کرنا تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہے۔ عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان اس بارے میں گفتگو ہونی چاہیے یہ پاکستان کے لیے بہتر ہے اور جب تمام اکائیاں مل کر ترقی کریں گی تو یہ پاکستان کی ترقی ہو گی۔

میاں شہباز شریف کے بارے میں عمومی تاثر ایک صلح جو شخص کا ہے جو کہ ہر حال میں پاکستان کی ترقی کا خواہاں ہے اور اس کے لیے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ میاں شہباز شریف اس سے قبل بھی کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں اور کرپشن کا ناسور ابھی بھی بے قابو ہے۔

شہباز شریف کی ہمہ جہت شخصیت کو ان کے انقلابی خیالات کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا رہتا ہے اور کئی دفعہ یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے مخالف چل رہے ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ شہباز شریف کی ذات ہی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کا پنجاب کا قلعہ مضبوطی کے ساتھ ابھی اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہے، ورنہ اس سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ جیسے ہی حکومت غیر مستحکم ہوئی تو اس کے اپنے ہی اراکین اسمبلی تتر بتر ہو گئے اور نئے آشیانوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ مگر اس دفعہ کمال ہوشیاری سے نواز لیگ نے اپنے اراکین کو ابھی تک اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اس میں آنے والے وقت میں بھی کامیاب رہیں گے۔

اداروں کے درمیان گفتگو کی شہباز شریف کی تجویز کو معنی خیز کہا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان کے اہم ترین افراد جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچے شامل ہیں اپنی ہی حکومت میں احتساب کے چکر میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور ان کی کوئی بھی استدعا نہیں مانی جا رہی۔ روز روز کی یہ پیشیاں ان کی پریشانی میں اضافہ ہی کر رہی ہیں۔

اس موقع پر شہباز شریف کی جانب سے عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان ملکی مفاد کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل کی قابل عمل تجویز کا اظہار ملکی اداروں کے درمیان بہتر اور مضبوط تعلقات کی جانب پہلا قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ شہباز شریف مقتدر حلقوں میں مقبول بھی ہیں اور ان کو قبول بھی کیا جاتا ہے اس لیے شاید ان کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا جائے۔ اس کے لیے اور اسے قابل عمل بنانے کی جانب پیش رفت ممکن بنانے کے لیے تمام اداروں کو مل کر بیٹھنا پڑے گا اور ملک کو موجودہ سیاسی اور عالمی طور پر درپیش گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا پڑے گا جو کہ سب کے لیے قابل قبول بھی ہو اور قابل عمل بھی۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نواز لیگ کی مرکزی قیادت میں شہباز شریف اور چوہدری نثار ہی وہ دو اہم شخصیات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک نواز لیگ کی حکومت قائم ہے اگر ان دونوں صلح کن اور صلح جو حضرات کو نواز لیگ سے الگ کر دیا جائے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح کی عیاں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی پہلے دھرنے میں ہی رخصت ہو جاتی۔ نواز لیگ کا ووٹ بینک تو بہرحال میاں نواز شریف کی ذات سے ہی منسلک ہے لیکن وہ خود چونکہ ضدی طبیعت کے واقع ہوئے ہیں اس لیے ان کی مختلف اداروں کے بارے میں لچک نہ ہونے کی وجہ سے معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں رہے۔

یہ شہباز شریف ہی تھے جنھوں نے رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں مقتدر حلقوں میں اپنی راہ و رسم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومت کو بچایا اور اب جب کہ لبِ بام والی صورتحال رہ گئی ہے تو شہباز شریف ایک بار پھر متحرک ہیں جس میں وہ اپنی حتیٰ المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی بر سر اقتدار رہے اور سینیٹ کے الیکشن خیر خیریت سے ہو جائیں جس میں ان کی جماعت کو واضح اکثریت مل جائے گی۔ اور اگر آئندہ الیکشن میں وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں بھی آ سکتے تب بھی ایوان ِ بالا میں بیٹھ کر وہ اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ مگر کیا حالات اس بات کی اجازت دیں گے کہ آئندہ مارچ تک ملک کی سیاسی صورتحال جوں کی توں رہے۔

یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن فی الوقت کوئی ایسی صورت بھی نظر نہیں آ رہی کہ سینیٹ کے الیکشن نہ ہو سکیں کیونکہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے بارے میں افواہوں کو فوج کی جانب سے پہلے ہی رد کیا جا چکا ہے۔ ہاں قومی حکومت کی بات الگ ہے لیکن قومی حکومت کی قیادت کے لیے بھی سب اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری ہے۔

شہباز شریف کہتے ہیں ملک میں کمزور سیاسی حکومتیں عوام کی صحیح خدمت نہیں کر سکیں اور فوجی حکومتیں بھی اس مشن میں بری طرح ناکام ہی رہی ہیں۔ وہ ایک بار پھر ملک میں ہیجانی کیفیت ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہیجانی صورتحال کیوں بن گئی اس کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ اگرچہ اس بار بھی نواز لیگ کی حکومت کو واضح اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ماضی کی طرح وہ حکومت کرنے میں ناکام ہی نظر آئی۔ وہ کون سے عوامل اور غلطیاں ہیں جن کو نواز لیگ کی حکومت بار بار دہراتی ہے اور ہر بار اپنے لیے مشکلات کھڑی کر لیتی ہے۔

اس کے بارے میں نواز لیگ کی قیادت کو خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے، ان کے تمام سوالوں کے جواب اسی خود احتسابی میں پنہاں ہیں۔ اگر وہ یہ عمل کر لیتے ہیں تو پھر شہباز شریف یہ نہیں کہیں گے کہ سیاسی حکومتیں عوام کی صحیح خدمت نہیں کر پائیں ان کے برادر خورد کو بھی اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور اپنے ہی ملک کے اداروں سے ڈائیلاگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

The post ایک حکومت اور دو بھائی appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کا تعاقب

$
0
0

بہت پرانی بات ہے جب کسی کی زبان سے لفظ ’’مفلسا بیگ‘‘ سنا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا تھا کہ یہ انتہائی مفلس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ شعر بھی زباں زدِ عام تھا کہ مفلسی ایسی مجھ پہ چھائی ہے/ سر پہ ٹوپی بھی تو پرائی ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کسی کے لباس میں پیوند ہو، شیروانی گھس گئی ہو اور چہرے پر فاقے کی تحریر ہو تو اسے پاس بٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔

شیخ سعدی کا وہ قصہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جب وہ ایک دعوت میں بلائے گئے اور وہاں پہنچے تو بدن پر لباس معمولی تھا۔ ملازموں نے انھیں جوتیوں میں بٹھایا۔ وہ چپکے سے اٹھے، گھرگئے، لباسِ فاخرہ زیب تن کیا اور واپس آئے تو نہایت احترام کے ساتھ میزبان کی مسند کے برابر بٹھائے گئے۔ میزبان نے انھیں کھانے کی دعوت دی، حضرت سعدی نے شوربہ اپنی آستین میں انڈیلا اور پلاؤ اپنے دامن پر بچھایا۔ سب لوگ ششدر رہ گئے۔

میزبان نے کہا ’’شیخ صاحب! یہ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ شیخ سعدی نے چیں بہ جبیں ہوکر پوچھا’’تو اور کیا کروں؟ کچھ دیر پہلے آپ کی دعوت پر حاضر ہوا تھا۔ ملازموں نے جوتیوں میں بٹھایا۔ اب قیمتی لباس میں آیا ہوں تو صدر نشین میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ میں یہی سمجھا کہ دعوت مجھے نہیں، میرے لباس کو دی گئی تھی‘‘ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں جن میں مفلسی کو بیان کیا گیا ہے۔ ’بھوک‘ پر جاوید اختر کی نظم کا یہ مصرعہ کیسے بھلا دیا جائے جب کئی دن کے فاقے کاٹنے والا بے اختیار یہ کہتا ہے کہ ’’آسماں کی تھالی میں چاند ایک روٹی ہے۔‘‘

اس پس منظر میں دیکھیے تو الطاف فاطمہ کے ناول ’’خواب گر‘‘ کے سادہ و معصوم کردار یاد آتے ہیں، جو تبت کے اس علاقے میں رہتے ہیں جو تبت خورد (چھوٹا تبت) کہلاتا ہے۔ تبت، دنیا کی چھت اور اس کے سائے میں تبت خورد جہاں کے ایمان دار اور دیانتدار لوگ اپنی زندگیاں سلسلہ ’’کوہ ہمالہ‘‘ اور قراقرم جیسے بلند پہاڑوں کی آغوش سے نکل کر نیچے پھیلی ہوئی وادیوں میں رزقِ حلال کمانے اترتے ہیں۔ یہ تبت خورد کے ان لوگوں کی کہانی ہے جو بدترین مفلسی جھیلتے ہیں لیکن یہ مفلسی ان کے وجود کو زنگ بن کر نہیں کھاتی۔ بھوک اور احتیاج کے سامنے ان کے وقار کا یہ عالم ہے کہ میدانوں میں رہنے والے انھیں اپنے گھروں کی خدمت گزاری کے لیے منتخب کرتے ہیں، وہ اپنی چابیاں اور پہرے داریاں انھیں سونپ کر مگن ہوجاتے ہیں۔

بیرا گیری، گھروں کی خدمت گاری، پہاڑی علاقوں کے باغوں کی رکھوالی، بیکری اور تندور پر کام کرنے والے یہ دیانت دار لوگ جو لقمۂ حلال کی تلاش میں پہاڑوں پر بنے ہوئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر میدانوں کا رخ کرتے ہیں اور برسوں اپنے پیاروں کی دید سے محروم رہتے ہیں۔ خود بھوکے سوجاتے ہیں لیکن اپنے گھر والوں کے لیے پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں۔ ان کی غربت نہیں، ان کا قریبی رشتوں سے دور رہنا، ان کی زندگیوں میں زہرگھول دیتا ہے۔ یہ محرومی رشتوں اور خاندانوں میں بگاڑ پیدا کرتی ہے، جیب کے مفلس اور دل کے سخی لوگوں کا قصہ الطاف فاطمہ نے بہت درد مندی سے لکھا ہے۔

الطاف فاطمہ کا ناول’’خواب گر‘‘ اپنے مرکزی کردار،ابراہیم کے ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جو اس نے تبت خورد کی رات کو دیکھا تھا۔ وہ رات جو اس کی زندگی میں برف اورکُہرکا دوشالہ اوڑھے ہوئے آئی تھی اور اسے بے قرارکر گئی تھی۔ یہ خواب عمر بھر اس کا پیچھا کرتا رہا۔

یہ ناول، تبت خورد سے شروع ہوکر شملہ، انبالہ، سرینگر اور لاہور سے گزرتا ہوا، کئی دہائیوں بعد اسکردو کے ائیرپورٹ پر ختم ہوتا ہے۔ اس مرتبہ مسافر وہ نہیں، اس کا بیٹا ہے جو ایک مصورہ کی مہربانی سے تعلیم کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور ڈاکٹر بن کر اپنے گھر لوٹتا ہے۔ باپ اور دادا نے علم کی روشنی کا خواب دیکھا تھا، اب اسماعیل اس خواب کو تعبیر دینے آیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی محنت اور مشقت سے کشید ہونے والے نئے شہر، نئی بستیاں جو پرانی بستیوں کی کوکھ سے پھوٹیں اور جن میں رہنے والوں نے گزری ہوئی نسلوں کے خواب، اپنی آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں رکھ دیئے۔ یہ مفلسی کو شکست دینے اور شاندار خوابوں کے تعاقب کا قصہ ہے جو انسانوں کو اور ان کی نئی نسلوں کو اگلی منزلوں تک لے جاتا ہے۔ اگلی منزلیں جو دکھ اور سکھ کی پگڈنڈیوں سے پرے ہوتی ہیں۔

یہ ناول ہمیں ان جھیلوں، دریاؤں، پہاڑوں اور وادیوں کی سیر کراتا ہے جن کے رنگ ہمیں حیران کردیتے ہیں۔ ہم نے انھیں نہیں دیکھا لیکن الطاف فاطمہ کا جادو نگار قلم انھیں ہماری آنکھوں میں زندہ کردیتا ہے۔ وہ ہمیں صرف ابراہیم اور اس کے خاندان سے ہی نہیں، فریڈرک ہسٹن سے بھی روبرو کرتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان انگریزکے زیر نگیں تھا۔ اس زمانے میں بہت سے انگریزوں کا یہی کام تھا کہ وہ تبت، تبت خورد، ہنزہ، گلگت اور ایسے ہی دور دراز علاقوں میں تنہا پھریں اور علاقے کے جغرافیے کے علاوہ وہاں رہنے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کریں۔ پشتو، بلتی، دوسری مقامی زبانوں کے ساتھ ہی اردو سیکھیں اور بولیں۔ الطاف فاطمہ کا انگریز کردار جھیل ست پڑا، راکا پوشی اور دوسرے علاقوں سے گزر چکا ہے۔ ان کے بارے میں باریک بینی سے جانتا ہے۔ ایسے ہی تنہا سفر میں اس کی ملاقات ایک بلتی مسلمان سے ہوتی ہے۔ ایک مسلمان، ایک عیسائی۔ ایک معمولی بلتی محنت کش، دوسرا انگریز افسر اعلیٰ، دونوں ان بلند و بالا پہاڑوں میں تنہا سفر کررہے ہیں۔ ایک دوسرے سے محض اتفاقاً ملتے ہیں اور وہ جانے کیسی گھڑی ہے کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے سینوں میں بے وفائی کا خنجر اترا ہوا ہے، ان کی محبوب بیویوں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے، اپنے بچے چھوڑ گئی ہیں اور دونوں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے مضطرب ہیں۔

اس ناول کے صفحوں پر ایک ہی سماج کے دو چہرے نظر آتے ہیں۔ ایک آسودہ حال اور جما جمایا فوجی خاندان ہے جہاں ہر چیز کی فراوانی ہے اور دوسرے وہ بلتستانی ہیں جو مفلسی اور ناداری سے مقابلہ نہایت وقار کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے سائے میں سانس لینے والی ساعتوں کا قصہ ہے، بہت پرانی بات نہیں۔اس کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی اور صدی کا معاملہ ہے۔

’’خواب گر‘‘ کے صفحوں پر ایک ایسا سماج سانس لیتا ہے، جس کی رگوں میں روا داری اور مروت لہوکی طرح دوڑتی تھی۔ اس سماج میں رہنے والے مسلمان، ہندو،کرسچن اور سکھ ایک دوسرے کے مذہب، مسلک، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کا احترام کرتے تھے۔ اب ہمارے چاروں طرف، چہروں پر انسانوں کے مکھوٹے چڑھائے ہوئے بھیڑیے گھومتے ہیں۔ ہر طرف کفر کے فتوے ہیں اور انسان نفرت کے خنجر سے ذبح کیے جارہے ہیں ۔

وہ ہمیں 60ء کی دہائی میں لے جاتی ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں انتشار ہے۔ ہر طرف ’زندہ باد‘ ’مردہ باد‘ کے نعرے ہیں۔ کچھ پیٹ بھرے لوگ ہیں جو گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ اعلیٰ ہوٹلوں میں صبح و شام گزارتے ہیں۔ بے فکر، بے غم، ایسے میں ایک غریب اور ان پڑھ بلتستانی ہے جو آزادی سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اس سے پہلے ہماری زندگی کیا تھی؟ لدو جانوروں اور خچروں کی زندگی۔ اپنے ملک کے یاخ سے بھی بدتر کہ آخر وہ اپنی بستیوں کو دودھ تو دیتا ہے اور ہمارا لوگ برسوں نیچے محنت کرکے بھی اپنے وطن تو وطن، بال بچوں کو بھی کیا دیتا تھا۔ ہمارے بڑے ان ہی جیسے لوگوں کے ہاتھوں اپنی وفائیں اور خدمات پیش کرکے کیا صلہ پاتے تھے؟ وہی غربت، جہالت، بیماری اور بے کسی۔ اس سے پہلے تو ہم کو نمک تک میسر نہ ہوتا تھا۔ کتنے ہی لوگ بغیر نمک کے کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے تھے۔‘‘

اس قصے میں نمک کا قصہ بھی گندھا ہوا ہے۔ نمک جو ہمارے یہاں ہر کھانے کا جزوِ لازم ہے، جس کے بغیر کھانوں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ وہی نمک بیس بائیس ہزارکی بلندیوں پر زندگی کرنے والوں کے لیے ایک ایسی نعمت تھی جس کے وہ خواب دیکھتے تھے۔ کوئی بیمار ہو تو اس کے منہ میں نمک کی ڈلی رکھ دیتے اورکسی کا دم لبوں پر ہو، تب بھی نمک کی چھوٹی سی ڈلی اس کی مشکل آسان کرتی تھی ۔ ہمارے لیے یہ ناقابل یقین بات ہے لیکن الطاف فاطمہ اسے ہمارے لیے قابل یقین بناتی ہیں۔ نمک کی اس اہمیت اور حیثیت کا اندازہ پہلی مرتبہ کرشن چندرکی ایک کہانی سے ہوا تھا جس میں ان کا ہیرو اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے سینے سے لگا کر نمک کا ایک ڈلا لے کر جارہا ہے۔

الطاف فاطمہ ایک بڑی تخلیق کار ہیں۔ وہ 1927ء کے لکھنؤ میں پیدا ہوئیں، 1947ء میں لاہور آئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں۔ اس سال وہ 90 برس کی ہوگئیں۔ انھیں سالگرہ مبارک ہو اور ان کے کردار خوابوں کا تعاقب کرتے رہیں۔

The post خوابوں کا تعاقب appeared first on ایکسپریس اردو.

شام تمام

$
0
0

’’میں سات سال سے بیروزگار ہوں‘ سیاحت ختم ہو چکی ہے‘ ہوٹل انڈسٹری دم توڑ چکی ہے اور دستکار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں‘‘ ولید کی آنکھوں میں اداسی تھی‘ ہم دمشق کی پاکستان اسٹریٹ کے ایک ریستوران میں بیٹھے تھے‘ ہماری میز کھانوں سے بھری تھی‘ ولید ہمارا گائیڈ تھا‘ وہ ہمیں اداس لہجے میں جنگ کے اثرات بتا رہا تھا.

اس کا کہنا تھا شام کا ہر خاندان جنگ سے متاثر ہوا‘ پورے ملک میں کوئی ایسا خاندان نہیں جسے اس جنگ نے نقصان نہ پہنچایا ہو‘ لوگوں کی جائیدادیں چلی گئیں‘ لوگ بے گھر ہو گئے‘ لوگ بیروزگار ہو گئے اور لوگ لاشیں اور زخمی اٹھانے پر مجبور ہو گئے‘ میں نے ولید سے پوچھا ’’آپ پڑھے لکھے ہو‘ انگریزی لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا جانتے ہو‘ آپ کسی دوسرے ملک میں پناہ لے لیتے‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’دمشق اور برداشت ہم لوگوں کی عادتیں ہیں‘ ہم دمشق چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی صبر‘‘ میں بھی مسکرانے پر مجبور ہو گیا۔

میں نے دو راتیں اور تین دن دمشق میں گزارے‘ میں ان تین دنوں میں شام اور شامیوں کی قوت برداشت‘ زندگی سے بھرپور محبت اور ملک سے وفاداری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ سات سال سے خوفناک جنگ بھگت رہے ہیں‘ یہ ان سات برسوں میں اپنوں کے ہاتھوں بھی مرتے رہے اور انھیں غیر بھی مارتے رہے‘ ملک کے اندر ایک درجن گروپ برسر پیکار رہے‘ عمارتیں ڈھا دی گئیں‘ سڑکیں اور پل اڑا دیئے گئے‘ پانی اور بجلی بھی بند کر دی گئی‘ فلائیٹس اور ٹرین سروس بھی معطل ہے۔

شام عالمی پابندیوں کی زد میں بھی ہے‘ آسمان سے بھی بم برستے رہے اور یہ خودکش حملوں میں مارے جاتے رہے لیکن یہ اس کے باوجود پسپا نہیں ہوئے‘ان کا پیمانہ صبر لبریز نہیں ہوا‘ ان کی برداشت نے دم نہیں توڑا‘ آپ یقین کیجیے میں نے تین دنوں میں دمشق کی کسی سڑک‘ کسی بازار میں کسی قسم کی افراتفری نہیں دیکھی‘ ہر چیز معمول کے مطابق تھی‘ ٹریفک پولیس ٹریفک کنٹرول کر رہی تھی‘ بازار میں کھوے سے کھوا چل رہا تھا‘ دکانیں اشیاء سے بھری تھیں اور خریدارجی بھر کر خریداری کر رہے تھے۔

شام میں جنگ کے ایام میں بھی کرائم ریٹ صفر تھا‘ اشیائے صرف کی فراوانی تھی اور یہ پاکستان سے ارزاں بھی تھیں‘ بالخصوص کھانے کی کسی چیز کی قلت نہیں تھی‘ خواتین مطمئن اور مسرور نظر آ رہی تھیں‘ یہ پورے اعتماد کے ساتھ بازاروں اور گلیوں میں گھوم رہی تھیں‘ سرکاری دفتر‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں کھلی تھیں اور مسجدیں آباد تھیں‘ دمشق میں ہزاروں کی تعداد میں قہوہ خانے اور ریستوران ہیں‘ آپ کسی گلی میں نکل جائیں آپ کو وہاں قہوہ خانے اور ریستوران ملیں گے اور یہ تمام گلی تک مصروف ہونگے۔

شہر میں دریا کے دونوں کناروں پر ربوہ کا علاقہ ہے‘ اس علاقے میں بڑے بڑے ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران ہر شام آباد ہو جاتے ہیں‘ ہزاروں لوگ شام کے وقت ان ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں اور جی بھر کر ناچتے ہیں‘ ہر ریستوران میں لائیو میوزک چلتا ہے اور لوگ خاندان سمیت موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے ہیں‘ پرانے شہر کے پرانے گھروں میں بھی ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران بھی بارہ بجے تک آباد رہتے ہیں‘ موسیقی اور رقص لوگوں کے مزاج میں شامل ہے۔

قہوہ خانے صبح تک آباد رہتے ہیں‘ لوگ عموماً ناشتہ بھی باہر کرتے ہیں یا پھر باہر سے منگوا کر کھاتے ہیں‘ آٹا اور روٹی حکومت کے کنٹرول میں ہے‘ گھر میں روٹی پکانے کی اجازت نہیں‘ حکومت نے ملک بھر میں سرکاری تندور بنا دیئے ہیں‘ ملک میں کوئی بھی شخص 50 پاؤنڈ ادا کر کے روٹیوں کا پیکٹ حاصل کر سکتا ہے‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں دس روپے بنتی ہے اور پیکٹ میں آٹھ دس روٹیاں ہوتی ہیں گویا پورا خاندان دس روپے میں پیٹ بھر لیتا ہے‘ سبزیاں‘ پھل اور گوشت وافر اور سستے ہیں‘ بجلی‘ گیس اور پانی پاکستان کے مقابلے میں بہت سستے ہیں۔

پاکستانی قونصل جنرل عبدالجبارترین دو ماہ میں صرف دو ہزار روپے پاکستانی بل دیتے ہیں‘ یہ اس بل میں تین اے سی بھی چلاتے ہیں‘ گیس اور پانی بھی اتنے ہی سستے ہیں‘ آپ حکومت کا نظام بھی ملاحظہ کیجیے‘ جنگ کے دوران بیشمار علاقے حکومت کے کنٹرول سے نکل گئے لیکن حکومت اس دوران بھی متاثرہ علاقوں کے سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دیتی رہی‘ حکومت کے اہلکار ہر مہینے صندوقوں میں نوٹ بھر کر متاثرہ علاقوں میں جاتے تھے‘ باغی انھیں راستہ دیتے تھے‘ یہ ملازمین کو تنخواہ دیتے تھے اور دمشق واپس آ جاتے تھے‘ جنگ کے سات برسوں میں باغیوں اور حکومت کے دوران یہ معاہدہ رہا۔

باغی سرکاری ملازمین کو تنگ نہیں کریں گے اور یہ تنخواہوں کی فراہمی بھی نہیں روکیں گے‘ یہ معاہدہ آخر تک قائم رہا‘ حکومت 90 فیصد علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر چکی ہے‘ صرف دس فیصد علاقوں میں جنگ جاری ہے لیکن سرکاری ملازمین کو ان علاقوں میں بھی باقاعدگی سے تنخواہ ملتی ہے اور یہ اپنی سرکاری ڈیوٹی بھی دے رہے ہیں‘ شام میں فوجی ٹریننگ لازم ہے‘ ملک کا ہر اٹھارہ سال کا نوجوان فوج میں خدمات سرانجام دیتا ہے‘ صرف ان نوجوانوں کو استثنیٰ حاصل ہے جو ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں یا پھر وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتے ہیں۔

ایف اے تک تعلیم لازم بھی ہے اور مفت بھی‘ اسکول جنگ کے دوران بھی کھلے رہے‘ دمشق میں ایک پاکستانی اسکول بھی ہے‘ یہ ملک کا واحد کیمبرج اسکول ہے‘ سفارتکاروں کے بچے بھی یہاں پڑھتے ہیں اور شام کے بزنس مینوں‘ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے بچے بھی۔ صدربشار الاسد کے بیٹے نے بھی پاکستانی اسکول سے امتحان دیا تھا‘مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی بیگم غنویٰ بھٹو اس پاکستانی اسکول میں استاد تھیں‘ فاطمہ بھٹو پاکستانی اسکول کی طالبہ تھیں۔

مرتضیٰ بھٹو بیٹی کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتے تھے‘ یہ اس دوران غنویٰ بھٹو سے ملے اور دونوں نے شادی کر لی۔ دمشق یونیورسٹی عرب دنیا کی جدید اور بڑی یونیورسٹی کہلاتی ہے‘ یہ بھی جنگ کے دوران کھلی رہی‘ گاڑیاں سستی ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں‘ لوگ اپنی گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کر کے گھر چلے جاتے ہیں لیکن کسی قسم کی چوری چکاری اور واردات نہیں ہوتی‘ بھکاری بہت کم ہیں‘ لوگ صابر اور شاکر ہیں‘ یہ غربت میں بھی عزت سے گزارہ کر لیتے ہیں۔

خواتین حسن اور جمال کا مجسمہ ہیں‘ شام کی عورت حسن اور وفاداری میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتی ہے‘ فرعون بھی اپنے لیے ملکاؤں‘ خادماؤں اور کنیزوں کا انتخاب شام سے کیا کرتے تھے‘ آج بھی عرب تاجروں‘ شہزادوں اور رؤساء کی کم از کم ایک بیوی شامی ہوتی ہے‘ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں‘ آپ دکانوں پر جائیں‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس یا پھر سرکاری دفتروں کا دورہ کریں آپ کو وہاں خواتین ملیں گی‘ شامی عورت بااعتماد بھی ہے اور بے خوف بھی‘ یہ دن ہو یا رات بے خوف ہو کر باہر نکلتی ہے۔

یہ چیز ثابت کرتی ہے شام میں خواتین محفوظ ہیں‘ خواتین کو لباس میں بھی آزادی حاصل ہے‘ میں نے وہاں برقع بھی دیکھا‘ اسکارف بھی‘ جینز بھی اور اسکرٹ بھی‘ کسی کو کسی پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ معاشرے میں مساوات بھی ہے‘ کھانے کے وقت ڈرائیور اور صاحب دونوں اکٹھے میز پر بیٹھتے ہیں‘ میں نے تین دنوں میں کسی کو کسی کے ساتھ جھگڑتے‘ لڑتے‘ تکرار کرتے یا پھر اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا‘لوگ ایک دوسرے سے محبت سے ملتے ہیں‘ اختلاف بھی نرم لہجے میں کرتے ہیں۔

یہ چیز ثابت کرتی ہے تہذیب اور شائستگی ان کے جینز میں شامل ہے اور سات سال کی خوفناک جنگ اور خانہ جنگی بھی ان جینز کو متاثر نہیں کر سکی‘ یہ لوگ عربی کے علاوہ فرنچ بھی جانتے ہیں اور انگریزی بھی‘ یہ لوگ جذبے سے لبالب بھرے ہوئے ہیں‘ آپ کسی اجنبی کو سلام کریں وہ نہ صرف پورے جذبے کے ساتھ جواب دے گا بلکہ رک کر آپ کا حال احوال بھی پوچھے گا‘ یہ چند لمحوں میں آپ کے میزبان بھی بن جاتے ہیں۔

میں نے حنانیا چرچ سے واپسی پر گلی میں ایک خوبصورت قدیم گھر دیکھا‘ گھر کا دروازہ کھلا تھا‘ صحن میں ایک نوجوان بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا‘ میں نے سلام کیا‘ اس نے ہمیں اندر بلا لیا‘ وہ جارج تھا‘ کرسچین تھا‘ نسلوں سے دمشق میں رہ رہا تھا‘ گھر تین سو سال پرانا لیکن انتہائی خوبصورت تھا‘ جارج نے ہمیں قہوہ پلایا اور ہم پانچ منٹ میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ میں اگلی بار اس کے گھر میں رہوں گا اور وہ پاکستان آئے گا۔

شام کے گھر دلچسپ ہوتے ہیں‘ گھر کے چاروں اطراف کمرے ہوتے ہیں‘ درمیان میں صحن ہوتا ہے اور صحن میں پتھر کا گول فوارہ اور انگور کی بیلیں ہوتی ہیں‘ گھر کی ساری کھڑکیاں‘ سارے دروازے صحن میں کھلتے ہیں‘ شام کا یہ آرکیٹکچر مراکش گیا اور پھر وہاں سے اسپین اور پرتگال چلا گیا‘ آپ کو یہ آرکیٹکچر سسلی اور فرانس کے جنوبی علاقوں میں بھی ملتا ہے اور لاہور کی قدیم حویلیوں میں بھی‘ یہ تمام شہر دمشق سے متاثر لگتے ہیں۔

میں نے دمشق میں تین اور دلچسپ چیزیں بھی دیکھیں‘ یہ لوگ اپنے صحن کو فولڈنگ چھتوں اور پردوں سے ڈھانپ لیتے ہیں‘ یہ پردے سردیوں میں فولڈ کر دیئے جاتے ہیں اور گرمیوں اور بارشوں میں کھول دیئے جاتے ہیں‘ دو‘ یہ لوگ مصروف وقت میں مصروف بازاروں اور مصروف شاہراؤں پر کسی بھی جگہ کسی بھی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کر دیتے ہیں لیکن اپنا موبائل فون ’’ڈیش بورڈ‘‘ پر چھوڑ جاتے ہیں۔

اگلی گاڑی کا مالک آتا ہے‘ پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کو فون کرتا ہے اور وہ آ کر اپنی گاڑی ہٹا لیتا ہے اور یوں دونوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور سوم آپ دمشق کے کسی بھی شخص سے ملیں‘ آپ جنگ کے سات برسوں بعد بھی اس سے اس کا حال پوچھیں‘ وہ مسکرائے گا‘ آسمان کی طرف دیکھے گا‘ الحمد للہ کہے گا اور پھرپورے جذبے کے ساتھ جواب دے گا ’’اللہ کا بہت بہت کرم ہے‘‘ آپ کو شام کے کسی شہری کے ہونٹوں پر شکوہ یا شکایت نہیں ملے گی۔

The post شام تمام appeared first on ایکسپریس اردو.

تضادات بے نقاب ہورہے ہیں

$
0
0

سرمایہ دارانہ نظام کے اندرون خانہ اور عالمی تضادات اکثر درپردہ اور کبھی کبھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ پاکستان میں آج کل یہ تضادات ہر ایک کو نظر آرہے ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ نظام انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے تو پھر اسے چھپائے نہیں چھپایا جاسکتا۔ عالمی طور پر سوشلسٹ بلاک کے نہ ہونے پر سامراجی دندناتے پھر رہے ہیں اور من مانی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ جب سوشلسٹ بلاک وجود رکھتا تھا اس وقت ایسا نہیں کرسکتے تھے۔

کیوبا پر امریکی دھمکی اور مصر پر فرانس اور برطانیہ کے حملے پر ردعمل کے بعد سامراجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ مگر وہ لڑائی سرمایہ داری اور سوشلزم کی لڑائی تھی، لیکن آج اگر امریکا کو کہیں کہیں پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے تو سامراجیوں کے مابین تضادات ہیں، سرمایہ داری اور سوشلزم کے مابین نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کریمیا، یوکرین سے الگ ہوا، شام میں امریکا بشارالاسد کو اقتدار سے نہیں ہٹا پایا۔ ہاں مگر سوشلسٹ کوریا کے ڈٹ جانے سے عالمی سامراج حملہ نہ کرپایا۔ اس میں روس اور چین کے مفادات بھی ہیں۔ ہر چند کہ یہ مفادات ان کے سوشلسٹ مفادات نہیں ہیں، لیکن ان کے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ایک حد تک حمایت کرنی پڑرہی ہے۔

پاکستان ہمیشہ امریکا کی پالیسی کے تابع رہا ہے، امریکی احکامات پر ہی پاکستان نے افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کا خاتمہ کیا۔ اب جب وہی امریکا پاکستان سے الٹا کام لینا چاہ رہا ہے تو یہ فلم ان کے اپنے گلے پڑگئی ہے۔ امریکی سامراج کی بجا آوری کرنے والے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف آج یہ سچ بات کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’ہم امریکا کے ہاتھوں استعمال ہوئے‘۔ جو کام کل ہم سے امریکا لیتا تھا اب وہی کام چین نے ہم سے لینا شروع کردیا ہے۔

برکس کانفرنس میں پاکستان میں دہشتگردی پر چین کی تنقید اور پاکستان میں آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی چینی ٹینکرز کی خریداری پر حکومت کے دباؤ کے خلاف ہڑتال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا کی چوتھی تانبے کی بڑی کان افغانستان میں ہے اور بلوچستان میں سونا نکالنے کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا ہے، گلگت بلتستان سے تو ایک عرصے سے چشمے کا پیوریفائیڈ پانی چین لے جارہا ہے۔ امریکا کو یہ باتیں کھل رہی ہیں۔ وہ چین کو ان مفادات سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ان قدرتی وسائل پر قبضے کی خاطر امریکا اور چین، پاکستان اور افغانستان میں پراکسی وار کررہے ہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی جارحیت کے خلاف اگر دہشتگردی ہورہی ہے تو امریکا کے خلاف ویتنام اور جنوبی افریقہ میں بھی برسوں مسلح کمیونسٹ گو ریلا لڑ رہے تھے، تو یہ لڑائی بھی درست ہے۔ جی نہیں، اس لیے کہ کمیونسٹ گوریلا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور طبقاتی نظام سے نجات کے لیے لڑ رہے تھے، وہ کوئی فرقہ، مذہب، نسل، زبان یا مسلک کے لیے نہیں لڑرہے تھے۔ جب کہ آج کی دہشتگردی سامراج کی ہی پیداوار ہے اور وہ سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ پراکسی وار کر رہے ہیں۔

اس عالمی صورتحال میں پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔ عدالتیں، وردی بے وردی نوکرشاہی، اسمبلی، علمائے سو، سب کے سب اپنے اپنے مفادات کی خاطر ڈانواں ڈول نظر آتے ہیں۔ عدالتیں کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے پاس موجود 18 ہزار ایکڑ زمین کی لیز کے کاغذات کہاں ہیں؟ عمران خان اپنی دولت اور جائیداد کے حصول کے ذرایع بتائیں؟ ان کی بیوی نے اتنا تحفہ کیسے دیا، وغیرہ وغیرہ۔ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کے پاس اربوں کی دولت کہاں سے آئی؟

نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اربوں ڈالر کا انبار کہاں سے لگایا؟ یہ سارے الزامات عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں۔ ابھی مفتی قوی اور شرجیل میمن کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس سے قبل منظور کاکا، کامران کیانی اور ان گنت نوکرشاہی پر خوردبرد کے الزامات لگے، مگر ابھی تک کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ جیل میں اگر کوئی مقید ہے تو وہ پتیلی چور یا پھر ناکردہ گناہوں میں لوگ برسہا برس جیل کاٹ رہے ہیں۔ ایک طرف لوگ ہزاروں روپے کی چوری میں قید ہیں جب کہ دوسری طرف اربوں کی ڈکیتی کرکے رہنما بنے ہوئے ہیں۔

ادھر سیاسی جماعتیں نان ایشوز پر ٹاک شوز میں لگی رہتی ہیں۔ کبھی پاناما، کبھی سفارتی اور کبھی مارشل لائی دور کی لوٹ مار اور کبھی رہنماؤں کے قتل وغیرہ کے سلسلے میں مصروف ہوتی ہیں، اور یہ مصروفیت جائز بھی ہے، لیکن اس سے زیادہ ضرورت روٹی کی ہے۔ شاید انھیں روٹی کے بجائے پجارو کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ ذرا غور تو کریں، جہاں دالیں دو سو روپے کلو ہوں، گائے کا گوشت چار سو روپے، بکرے کا سات سو، تیل دو سو، ٹماٹر سو، پیاز اسی، چاول سو روپے کلو اور لہسن و ادرک بھی سو سو روپے کلو فروخت ہوتی ہیں، وہاں اس پر کوئی جماعت بولتی ہے اور نہ احتجاج اور ہڑتال کرتی ہے۔ اس لیے شاید کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہی سرمایہ داری ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سارے ملک میں علاج کیوں کر مفت کیا جاسکتا ہے۔ چلیے یہ سوشلسٹ ملک نہیں ہے کہ یہاں علاج مفت کیا جا سکے، مگر کارڈیو کراچی میں اگر مفت کیا جاسکتا ہے تو ملک بھر میں کیوں نہیں؟ اس لیے ہم یہ سب کچھ نہیں کرپاتے کہ دفاع اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے بجٹ اور قرضہ جات ادا کرنے میں سارا بجٹ خرچ ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تقریباً 751 اشیا پر ریگولریٹی ٹیکس عائد کردیا ہے، جس کے نتیجے میں روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی عوام پر ٹیکس لگا کر عوام کا ہی خون نچوڑا جارہا ہے۔ اگر ہم قرضہ نہ لیتے تو یہ ٹیکس لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ہماری خارجہ پالیسی بھی عجیب ہے، جو ہمیں لوٹتا ہے وہی ہمارا دوست ہے، امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر  14 ڈالر لے جاتا ہے، وہ ہمارا دوست ہے اور ہندوستان ایک پڑوسی ملک ہونے کے باوجود دشمن ملک ہے۔ گزشتہ ستر سال میں ہمیں سب سے زیادہ نقصان امریکا نے ہی پہنچایا ہے اور دوست بھی وہی ہے۔ اگر ہم ہندوستان سے بہتر تعلقات کرلیں تو ہمارا دفاعی بجٹ کم ہوسکتا ہے اور وہی پیسے ہم صحت اور تعلیم پر خرچ کرسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک سوشلسٹ انقلاب میں مضمر ہے، جو تیزی سے کمیونسٹ سماج کی تعمیر کی جانب رواں دواں ہوگا۔

The post تضادات بے نقاب ہورہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

تحفہ غریب کا

$
0
0

شعر و سخن اور علم و ادب اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ اب تو کھلاڑیوں، اداکاروں اور رقص و موسیقی سے ناآشنا موسیقاروں کو بھی اعلیٰ فنکاروں کا مقام دیا جاتا ہے، انھیں طرح طرح سے نوازا جاتا ہے، ان کی چال ڈھال اور انداز و ادا کی تقلید کی جاتی ہے۔ شکایت اس کی نہیں کہ ان پر یہ عنایات کیوں، شکایت یہ ہے کہ آخر علم و ادب کی قدر دانی کون اور کس طرح کرے گا۔

کیا ہمارا معاشرہ ایک عمر علمی کارناموں میں سر پھوڑنے والے اور ’’نہر پر چل رہی ہے پن چکی‘‘ بنے رہنے والوں کا اعتراف، احترام بالائے طاق رکھ کر صرف ایک چھکا یا چوکا لگادینے والے یا چند میچوں میں اچھی کارکردگی دکھاکر ریٹائر ہو جانے والے کھلاڑیوں کے احترام میں ہی سرنگوں رہے گا۔

بے چارے بادشاہ بلاوجہ ہی بدنام تھے۔ بادشاہت اس عہد کا مقبول اور واحد طرز حکمرانی تھا۔ جیسے آج جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں، چند صدی قبل بادشاہت کا بھی بدل نہ تھا اور اچھے وقتوں میں بادشاہ بزور قوت بازو اقتدار حاصل کرتے اور بوجہ فہم و فراست حکمرانی کے حق کو تسلیم کراتے تھے۔ وہ بھی فنون لطیفہ کا سرپرست ہوتے تھے۔ رقاصائیں ان کے دربار سے بھی وابستہ ہوتیں اور کبھی کبھی بلند مرتبہ پاتیں۔ مگر یہ بادشاہ کی تھکن دور کرنے اور حکمرانی کے کھکھیڑوں سے نجات دلانے کا ذریعہ ہوتیں۔

البتہ حکمراں یہ اہتمام کرتے تھے کہ علما و فضلا، شعرا اور ادیب ان کے دربار سے وابستہ رہیں اور برصغیر کے مسلم بادشاہان ایران و توران اور عرب و عجم سے علما و فضلا، شعرا اور دانشوروں کو کھینچ کھینچ کر لاتے اور سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکمرانی کی زیب و زینت کے باعث ہیں۔

اکبر خود پڑھا لکھا نہ تھا مگر کیسے کیسے لوگ دربار سے وابستہ تھے اور معاملہ صرف انارکلی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی اصل قوت ابوالفضل، فیضی اور عرفی وغیرہ تھے اور یہی سلسلہ اکبر کے اطراف میں جاری رہا۔

علم و ادب اور فکر و دانش کی حوصلہ افزائی محض وظیفۂ لب ہی نہ تھی بلکہ جس حکمران کو بھی جو جوہر قابل نظر آیا اس نے اسے بالآخر چن ہی لیا۔ اس لیے اس عہد میں صوفیا اور اولیا بھی اسی ادب و احترام کے مستحق قرار پائے جو صاحب منصب اور خطاب یافتگان کے لیے تھا۔

اب آخر ہمارے جمہوری معاشرے پر کون سی آفت آئی ہے کہ جس طرف دیکھے سطحی دلچسپیاں ہیں۔ کھیل تماشے ہیں اور ان تماشاگروں کے انٹرویوز نئی نسل کے ذہین و فریش نوجوانوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں۔

آپ یورپ سے بھی مقابلہ کر کے دیکھ لیجیے، وہ رقص میں، موسیقی میں، کھیل میں، جوئے میں، شراب نوشی میں، گلے گلے غرق ہیں مگر نئی نئی ایجادات بھی تو وہی کر رہے ہیں۔ ایسے آلات جنگ ایجاد کر لیے گئے ہیں کہ اب شاید فوج رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ صرف سائنسی آلات کی مدد سے دشمن پر قابو پایا جا سکے گا۔ صرف موبائل ہی کو لے لیجیے، اس کی مدد سے نہ صرف مجرموں اور جرائم کا فوری پتہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ امریکا میں بیٹھ کر کراچی میں آپ کی نقل و حرکت کا بخوبی جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ وہ اور یہ بناتے بھی ہیں، ان پر تحقیق بھی کرتے ہیں اور ان کی خوبیوں، خامیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ نئے نئے طریقۂ ہائے علاج وجود میں آ رہے ہیں کہ اﷲ کی قدرت نظر آنے لگتی ہے۔ پھر وہ ان کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ طب سائنس، امن و آشتی، علم و ادب کی دنیا میں قابل احترام اور لائق ہستیوں کو نوبل انعام کے علاوہ بھی طرح طرح سے نوازتے رہتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اپنے با صلاحیت لوگوں کو سر کھپانے اور گم نامی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

اسی بے حسی اور کسمپرسی کے دور میں جگنو کی طرح چمکتی ایک ننھی منی سی روشنی کی کرن ہمارے یہاں بھی دیکھنے کو ملی۔ نیکی کتنی ہی حقیر ہو قابل احترام ہوتی ہے۔

محبان بھوپال فورم کی سربراہ شگفتہ فرحت، ان کے شوہر نامدار (واقعی نامدار) اور ان کی ٹیم کے دیگر افراد جہاں اہل بھوپال کی خدمات کو اجاگر کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہیں انھوں نے ایک اور قابل ذکر سلسلہ شروع کیا ہے جب کبھی وہ اس لائق ہوتے ہیں تو شہر کے سر بر آوردہ۔ سر بر آوردہ سے مراد علمی و ادبی اور دانشوری میں سربر آوردہ افراد کو ایک مختصر سی نشست میں مدعو کرتے اور نذر کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو اپنی محبتوں اور چاہتوں کو پھولوں میں لپیٹ کر زیب گلو کر دیتے ہیں۔ اس بار انھوں نے حکیم عبدالحنان، ڈاکٹر اکرام الحق صدیقی، شوق اور پروفیسر ہارون رشید کو اعزاز سے نوازا۔ اس طرح جس طرح ایک بے سروسامان اور غریب آدمی کسی بادشاہ وقت کے اچانک ان کے غریب خانے پر آ جائے، بدحواسی میں وہ جو کچھ پیش کر سکے وہی بیش قیمت ہے۔

حکیم عبدالحنان، طب یونانی میں اہم مقام کے حامل ہیں، حکیم سعید شہید کے مطب میں مطب کرتے ہیں۔ دو بار ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں، نہایت شائستہ اطوار اور خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق صدیقی سول انجینئر ہیں اور شاید سول انجینئرنگ میں پاکستان میں پہلے پی ایچ ڈی۔ لطف یہ ہے کہ انجینئرنگ اپنی جگہ، ایک نغز گو شاعر ہیں، شوقؔ تخلص کرتے ہیں، دبستان لوح و قلم کے روح رواں ہیں اور روٹری کے ڈپٹی گورنر رہے ہیں۔ پروفیسر ہارون رشید ماہر تعلیم ہیں، درس و تدریس سے طویل وابستگی کے علاوہ انتظامی عہدوں پر فائز رہے، بات کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں، دوستی کرتے ہیں تو نبھاتے ہیں، انسانوں کی پہچان بھی رکھتے اور قدر کرنا بھی جانتے ہیں، ان کا تعارف ڈاکٹر معین قریشی نے ہی خوب کرایا۔

شگفتہ فرحت اور اویس انصاری نے ان قدآور شخصیات کو قابل اعزاز قرار دے کر ساکت پانی میں پتھر پھینکا ہے۔ لہریں تو اٹھی ہیں دیکھئے کیا ہو؟

The post تحفہ غریب کا appeared first on ایکسپریس اردو.


سرخ رو ہے وادی کشمیر میں کوہ دمن

$
0
0

آزادی خراج مانگتی ہے، لہو کا نذرانہ، تمام رشتوں و جذبوں سے آزمائش والم کا امتحان، جس میں مرد و زن، بڑے، بچے اور بوڑھے کی قید نہیں زندگی کے کسی خوبصورت رشتے کی زنجیر پیروں کی بیڑیاں نہیں بنتی، آزادی وطن کی تمنا ایسی آگ ہے جو ظالم کو خاکسترکردے گی اور مظلوم کو حق دلا کر اپنے انجام پر پہنچ کر دم لے گی۔ غلامی کی رات خواہ کتنی سیاہ ہو صبح کی سفیدی ضرور طلوع ہوتی ہے کہ یہ قدرت کا قانون ہے۔

جمعہ کو وادی کشمیر میں یوم سیاہ منایا گیا، ہر گھر میں سوگ تھا کہ 70 سال سے کشمیری ایک ظالم حکومت کی قید میں ہیں، جو نہ اسے استصواب رائے کا حق دیتی ہے، نہ اسے آزادی رائے اور دنیا سے جڑنے کی سہو لت دینا چاہتی ہے۔ ہر قسم کی پابندیوں سے جکڑ رکھا ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ان پر مسلط ہیں، جو جب چاہے کسی کو قید کرے، مار دے یا پھر غائب کردے۔ پوری دنیا کا کوئی حقوق انسانی کا قانون اس وادی میں رائج نہیں۔

کشمیر کے چناروں میں حقیقتاً آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ آگ بھارت کی غاصبانہ قبضے کی ہے، یہ آگ بھارت کے ظلم و ستم کی آگ ہے۔ درختوں کی سرخی میں ان شہیدوں کے خون کا رنگ شامل ہے جو بھارت کے ظلم و ستم کا شکار اپنے دیس کی آزادی کی جنگ میں لہو کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ آزادی کی ایسی تحریک جس میں ایک لاکھ سے زائد انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کشمیر میں سات سو نو قبرستان ان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحر کا انتظار کررہے ہیں۔ کشمیریوں کا اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے، وہ پرعزم ہیں کہ ان کے لیڈر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک جیسے کئی دوسرے لوگ چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر کو آزاد نہ کرالیں۔

اس جنگ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ غاصبوں کا مقابلہ کرتی ہیں، وہ دشمن کے لہو کو اپنی آنکھوں سے بہتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس جنگ میں نوبیاہتا کشمیری دلہن کی حنا کا رنگ شامل ہے جو اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھتی ہے، مگر آہ نہیں کرتی اور بیٹے کو بھی اس لہو رنگ میں بھیجنے کا عزم رکھتی ہے۔ اسے ان لڑکیوں کا مستقبل عزیز ہے جو آنکھوں میں محبت کے دیے جلائے ٹھنڈے آبشاروں کے کنارے بیٹھی گاتی ہیں۔

یہ جنت نظیر کشمیر! یہ فرشتوں کا دیس، جہاں پریاں آکر ٹہلتی ہیں، حوریں آکر سستاتی ہیں، یہ دیس دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ ان نوعمر بچیوں کے سارے خواب، ان کے لطیف جذبے، ممتا سب وطن پر قربان ہے۔ آج ایک کشمیری عورت گھر کے کام کاج بھی کرتی ہے اور آس پاس کے حالات پر بھی نظر رکھتی ہے۔ اسے معلوم ہے اس کی جنت نظیر وادی کے چپے چپے پر لٹیروں کا قبضہ ہے اور وطن پرست اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کا خواب ہے کہ کشمیر ہر قیمت پر آزاد ہو۔

کشمیر ان کا اپنا ہو، اس کے زعفرانی کھیت اپنے ہوں، جس کی پیداوار کے یہ خود مالک ہوں۔ اس کے لیے ہر کشمیری مرد کی طرح کشمیری عورت بھی اس قربانی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ قابض بھارتی فوج نے ان پر ظلم کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، وہ خواتین کی چوٹی کاٹ دیتے ہیں۔ بزدل ہمیشہ پشت پر ہی وار کیا کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ساڑھے تین سو خواتین کی چوٹیاں کاٹ دی گئیں جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکیں۔ لیکن جن ماؤں و بہنوں نے اپنے گھر کے بیٹے قربان کردیے ہوں ان کے لیے یہ معمولی بات ہے کہ زندگی محبت، فرض اور غلامی سے خراج مانگتی ہے۔

نوجوان برہان وانی کی شہادت کے نتیجے میں کشمیری مسلح جدوجہد کا ایک واضح نقشہ اور لائحہ عمل کا آغازکیا گیا، ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کے نعرے کے ساتھ کہ جس پر کسی شرط پر سمجھوتہ نہ کریں گے۔ اس جدوجہد کو جاری رکھنے میں زیادہ سرگرمی اس وقت بڑھی جب بھارتی افواج نے عام کشمیریوں سے ہتک آمیز سلوک، خواتین کی بے حرمتی، شناخت پریڈ، گھر گھر تلاشی اور کریک ڈاؤن کے نام پر حقارت بھرا رویہ اپنایا، جس نے کشمیریوں کی قومی انا کو زخمی کردیا۔

کشمیر میں بھارت سے نفرت اور سیاسی اضطراب پہلے ہی موجود تھا، ان حرکتوں نے صورت حال کو مزید سنگین بنادیا، یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کا یوم آزادی ہمیشہ یوم سیاہ کے طور منایا ہے۔ اس چنار لہو رنگ کی داستاں کو ایک صدی ہونے کو ہے۔ یہ داستاں 1925ء میں شروع ہوئی اور آج تک ادھوری ہے۔ 16 مارچ 1947ء کو ایک غلامی کے طوق سے دوسری غلامی اس کا مقدر بنی۔

بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمانے کے لیے جس مجرمانہ حرکت، مکاری اور سازشی جارحیت کا ارتکاب کیا، اس کی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ کھلی آنکھوں سے حقیقت کا جائزہ لے، کشمیر کا فیصلہ کرنے کا حق خود اس کے باسیوں کو دے۔ لیکن حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور پاکستان کو شامل کیے بغیر یہ مذاکرات کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ دنیا میں اب جنگیں مذاکرات کی میز پر ہوتی ہیں اور کوئی ملک کسی کو کب تک اپنی مرضی سے غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ و عالمی طاقتیں تحریک آزادی کشمیر کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی بھرپور حمایت کریں، تاکہ جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت فراہم ہوسکے۔ افسوس کہ سارک سربراہ کانفرنس میں شامل ممالک بھی اس کا فیصلہ نہیں کروا سکے۔ ہم سب کی بحیثیت مجموعی یہ ذمے داری ہے کہ قومی اور سیاسی قوتیں متحد ہو کر اس کی حمایت کریں اور اس کی آزادی کی اہمیت کو پوری دنیا میں اجاگر کریں کہ بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جلد از جلد رہائی حاصل ہوسکے۔ ان ستر دہائیوں میں کشمیریوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، ان کی آزادی پوری دنیا پر ایک قرض ہے۔ کشمیری عوام کے گلے میں بندھی غلامی کی زنجیر اب ٹوٹنی چاہیے۔

The post سرخ رو ہے وادی کشمیر میں کوہ دمن appeared first on ایکسپریس اردو.

ایدھی، قبضہ مافیا اور عوام

$
0
0

ابھی تو ایدھی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور یہ اندھیرا مچ گیا۔ اندرون سندھ ایدھی سینٹرز پر قبضہ مافیا نے سامان باہر پھینک کر اپنے تالے لگا دیے۔ بعض سینٹرز پر دکانیں بنالیں اور کرائے پر چڑھادیں، کہیں پر زمینی خداؤں نے اپنے ڈیرے بنا لیے ہیں۔ یہ جو عبدالستار ایدھی دکھی انسانوں، غربت کے ماروں کے سروں پر ہاتھ رکھتا تھا، غریب لاوارث بچوں کا ابو جان تھا، یہ جو ان بچوں کے شناختی کارڈ پر ولدیت ایدھی لکھواتا تھا۔ یہ جو ایدھی تھا، جو لاوارث لاشوں کو غسل دے کر کفن پہنا کر دفناتا تھا۔

یہ جو ایدھی تھا، جو کئی کئی دن کی تعفن زدہ لاشوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر پانی کے ٹینکوں اور گہرے گڑھوں سے نکال کر باہر لاتا تھا۔ یہ جو ایدھی تھا، جو چلتی گولیوں میں زخمی ہو ہو کر گرنے والوں کو اپنی ایمبولینسوں میں ڈال کر اسپتال روانہ کرتا تھا، ایک طرف پولیس ہے اور مقابلے پر ڈاکو، فائرنگ ہو رہی ہے، مگر پولیس اور ڈاکو خیال کرتے تھے کہ ایدھی صاحب کو گولی نہ لگے۔ یہ جو ایدھی تھا، جو سڑک پر غریبوں، لاوارثوں کے لیے بھیک مانگنے نکلتا، جو عوام اس کی جھولی بھرنے لگتے عورتیں اپنے زیور جھولی میں ڈال دیتیں، یہ منظر بھی دنیا نے دیکھا۔

لوگ منہ چھپائے آئے اور لاکھوں روپے ایدھی کی جھولی میں ڈال کر چلے گئے۔ یہ جو ایدھی تھا جس کے نام لوگوں نے اپنی جائیدادیں کردیں، اسی عظیم انسان عبدالستار ایدھی کی بیوی بلقیس ایدھی اور ایدھی کا بیٹا فیصل ایدھی، کراچی کے ہائیڈ پارک پریس کلب میں آئے اور وہ ’’انتہائی ظلم کی داستانیں‘‘ بیان کر رہے تھے۔ فیصل ایدھی نے کیا کہا سنیے۔ (جمعرات 26اکتوبر 2017ء ایکسپریس میں شایع ہونے والی خبر) سرخی ہے۔ ’’لینڈ مافیا کے دباؤ میں ایدھی سینٹر کو تالا لگادیا گیا۔

فیصل ایدھی‘‘ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ لینڈ مافیا کی جانب سے مقامی انتظامیہ کے کہنے پر 1985ء سے ٹھٹھہ شہر میں قائم ایدھی ویلفیئر سینٹر میں تالا لگادیا گیا ہے، جب کہ مذکورہ جگہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے باقاعدہ ایدھی فاؤنڈیشن کو الاٹ کی تھی، الاٹ جگہوں میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے رد و بدل عام ہوچکا ہے اور اب اس کا بدترین نشانہ ایدھی فاؤنڈیشن کی دکھی انسانیت کی خدمت بن گئی ہے۔ اندرون سندھ ایدھی فاؤنڈیشن کے نصف درجن سے زائد سینٹرز پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے۔ جن میں ایدھی ویلفیئر سینٹر لطیف آباد حیدرآباد، ایدھی ویلفیئر سینٹر مورو، تین ہزار گز کے پلاٹ پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے مارکیٹ بنادی ہے۔

ایدھی ویلفیئر سینٹر قاضی احمد شہر میں لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے دکانیں بنالی ہیں۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر سیہون میں سیکڑوں گز زمین پر لینڈ مافیا والوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر لاڑکانہ میں ایک مقامی لسانی تنظیم کے دہشتگردوں نے اپنا تالا لگادیا ہے۔

ایدھی سینٹر ہالا شہر میں لینڈ مافیا کے کارندوں نے زبردستی قبضہ کرکے دکانیں بنالی ہیں۔ جب کہ ایدھی سینٹر ہب چوکی پر بھی لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے، بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہمارے حق میں فیصلے دے چکے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لینڈ مافیا پیسوں کے بل بوتے پر انتظامیہ کو خرید رہی ہے اور یوں انسانیت کی خدمت کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے اور آج ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کی عدالت میں ایدھی فاؤنڈیشن کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔‘‘

عبدالستار ایدھی کی بیوی بلقیس ایدھی اور بیٹے فیصل ایدھی نے عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کردیا ہے۔ اس مقدمے کے لیے بالکل صحیح عدالت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایدھی عوام کے تھے اور عوام کی عدالت سے ہی ایدھی فاؤنڈیشن کو انصاف ملے گا۔ عوامی عدالت لگ چکی ہے۔ ٹھٹھہ شہر میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگ چکا ہے۔ سندھ بھر میں عوام ایدھی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت سندھ بھی ’’حرکت‘‘ میں آگئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ’’حرکت‘‘ میں آتے ہی فوری تحقیقات کے بعد رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ سیال صاحب بھی ’’حرکت‘‘ میں آگئے ہیں، اور انھوں نے انسپکٹر جنرل پولیس اور سندھ خصوصاً ٹھٹھہ شہر کے پولیس افسران کو ’’حرکت‘‘ میں آنے کا حکم دے دیا ہے۔ کہتے ہیں حرکت میں برکت ہے۔ ’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔‘‘

فیضؔ صاحب کا مصرعہ یاد آگیا ہے ’’اور کیا دیکھنے کو باقی ہے‘‘ چلیے دوسرا مصرعہ بھی سن لیجیے ’’آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا‘‘ سندھ کے عوام نے تو اپنا دل بھٹو خاندان سے لگا رکھا ہے۔ سندھ کے عوام بھوکے ننگے، پاؤں ننگے، پینے کے لیے گندا پانی، صدیوں سے اندھیروں میں قیام، مگر بھٹو بھٹو کرتے ہیں اور اب بھٹو کے ساتھ بھٹو رانی (بینظیر بھٹو) کا بھی دم بھرتے ہیں۔ یارو! یہ بھٹو خاندان بھی عجیب خاندان ہے۔ بھٹو نے انکار کیا اور پھانسی کا پھندا قبول کرکے گلے میں ڈال لیا، مرتضیٰ بھٹو نے انکار کیا اور مار دیا گیا۔

دیر تک سڑک پر گولیوں سے چھلنی مرتضیٰ پڑا، خون بہتا رہا ’’لوگ‘‘ موجود تھے (لوگ۔ پولیس والے لوگ) مگر کسی نے زخمی مرتضیٰ کو اسپتال نہیں پہنچایا۔ سب مرتضیٰ کے مرنے کا تماشا دیکھتے رہے اور پھر وہ مر گیا۔ بینظیر بھٹو اپنے نام کی طرح بینظیر، وطن واپس آئی، اسے پتہ تھا مجھے مار دیا جائے گا مگر وہ پھر بھی آئی۔ ایئرپورٹ پر اترے چند گھنٹوں بعد بینظیر پر زبردست حملہ ہوا، 170 کے قریب جاں نثاران بھٹو شہید ہوئے، مگر جو دراصل نشانہ تھی، اس کا ابھی وقت نہیں آیا تھا، سو وہ بچ گئی۔ مگر ڈیڑھ دو ماہ بعد بینظیر کا بھی وقت آخر کار آگیا۔ اور وہ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر مار دی گئی۔

ایک بھائی شاہنواز تھا، اسے بھی مار دیا گیا۔ ماں نصرت بھٹو کا جگرا بھی عجیب کہ وہ یہ صدمے سہتی سہتی جیتی مرتی، آخر مر گئی۔ سندھ کے عوام کا عشق حق ہے، سچ ہے اور اس عشق کے طفیل ’’طفیلیے‘‘ خوب موج مستی کر رہے ہیں۔ زمینوں پر قبضہ ان ’’طفیلیوں‘‘ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ غریب سرکاری ملازمین کی زمینوں پر (اسکیم 33) قبضے ہوچکے۔ وہ جو پیسہ پیسہ جوڑ کر الاٹ منٹ اور قسطوں کی رسیدیں لیے یہ چپراسی، کلرک دربدر عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں اور کوئی شنوائی نہیں۔ ان چپراسیوں کلرکوں کی سوسائٹیاں تو یہ ’’طفیلیے‘‘ کب کی کھا گئے۔

مگر کیا یہ قبضہ مافیا اور ان کے ’’سرپرست‘‘ ایدھی کو بھی نہیں بخشیں گے؟ ابھی میں نے یہ لکھا ہی ہے کہ میرے اندر سے آواز آئی ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا ’’او بے وقوف! ایدھی تو ان قبضہ مافیا اور ان کے سرپرستوں کا بہت بڑا دشمن ہے۔ جن عوام کو یہ ایدھی عزت سے کفناتا دفناتا ہے ان کے لاوارث بچوں کو پالتا ہے، لکھاتا پڑھاتا ہے، بھلا اتنے بڑے دشمن کو کوئی کھلا چھوڑ سکتا ہے۔ ثنا خوان تقدیس! کہاں ہو! آواز تو دو! قتیلؔ شفائی اپنا مصرعہ لے کر آگئے ہیں ’’تائید ستم گر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا‘‘

یارو! غریبوں سے ایدھی کا سہارا بھی چھینا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟ پورا پاکستان قبضہ مافیا کے قبضے میں ہے۔ کیا پورے ملک کا قبضہ بھی قبضہ مافیا کو کم پڑ رہا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے لیے حبیب جالبؔ کی گواہی بھی موجود ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

عبدالستار ایدھی

یہ جو تو چمکا رہا ہے آنسوؤں سے رات کو
فرق کیا پڑتا ہے پیارے جگنوؤں سے رات کو

اہل تیشہ لائے جاتے ہیں مسلسل جوئے شیر
خسرواں مہکا رہے ہیں گیسوؤں سے رات کو

خود مسلح اور ان کی پشت پر ہیں مقتدر
تو نہتا لڑ رہا ہے‘ ڈاکوؤں سے رات کو

رات کا جڑ سے اکھڑنا ہی علاج درد ہے
کر سپرد خاک لاکھوں بازوؤں سے رات کو

رات کو جڑ سے اکھاڑنے اور رات کے خاتمے کے لیے لاکھوں بازو ابھی تک بٹے ہوئے ہیں۔ عوام ذات، برادری، زبان، علاقوں میں تقسیم ہیں۔ اور قبضہ مافیا عیش کر رہے ہیں۔

The post ایدھی، قبضہ مافیا اور عوام appeared first on ایکسپریس اردو.

ہاؤس آف شریف میں وراثت کی کشمکش

$
0
0

میں نے بہت لوگوں سے پوچھا کہ انھیں مریم نواز کے نیو یارک ٹائمز کے انٹرویو پر اعتبار ہے یا بعد میں جاری ہونے والے وضاحتی ٹوئٹس پر یقین ہے۔ ہر ایک نے کہا ہے کہ انٹرویو میں ٹھیک بات سامنے آگئی ہے بعد میں تو ردعمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر کوئی مریم نواز کی اس بات پر یقین کر رہا ہے کہ ن لیگ کی قیادت مریم نواز کو دینے کے حوالہ سے شریف فیملی کے اندر فیصلہ ہو گیا ہے۔

صرف بات اتنی ہے کہ یہ فیصلہ شریف فیملی نہیں بلکہ نواز شریف کے خاندان کے اندر ہوا ہے۔ جب کہ باقی شریف فیملی کو اس پرشدید تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ قیادت مریم نواز کو منتقل کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔1993 میں جب میں نے سیاسی رپورٹنگ شروع کی تھی تو ایک دن میں پرویز رشید صاحب کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کے رہنما رانا فاروق بھی بیٹھے تھے۔

میں نے سوال کیا کہ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے بھائی سے صلح کر لینی چاہیے۔ اگر وراثت پر کوئی لڑائی ہے بھی تو بے نظیر کو قربانی دے کر بھائی کو منا لینا چاہیے۔ جائیداد بھائی سے زیادہ قیمتی نہیں۔تو دونوں سیاسی رہنماؤں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی ساری جائیداد ایک طرف، پیپلزپارٹی ایک طرف، باقی جائیداد کی تقسیم کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، مسئلہ تو پیپلزپارٹی کا ہے اس کی تقسیم کیسے کی جائے۔ لڑائی تو پیپلز پارٹی پر ہے۔

بے نظیر بھٹو کا موقف تھا انھوں نے پیپلزپارٹی کی بحالی کے لیے بہت قربانی دی ہے اس لیے اس پر ان کا حق ہے جب کہ مرتضٰی بھٹو کے پاس بھی اپنی قربانیوں کی ایک طویل فہرست تھی۔ دونوں کی ماں محترمہ نصرت بھٹو بھی اپنے  دونوں بچوں کے درمیان مفاہمت نہیں کروا سکیں۔ اور پھر پہلے ایک کی اور بعد میں دوسرے کی جان چلی گئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو میں صلح ہو جاتی وہ پیپلزپارٹی کی شراکت داری کا کوئی راستہ نکال لیتے تو دونوں بچ سکتے تھے۔ ان کے دشمنوں نے انھیں اکیلے اکیلے کر کے مارا۔

مرتضیٰ کے بعد بے نظیر کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ خاوند اندر ہو گیا۔ جلا وطنی ہو گئی۔ کیا ملا کچھ بھی نہیں ملا۔ اس سے بہتر تھا بھائی کے ساتھ مل کر کام کر لیتیں۔ صورتحال آج بھی مختلف نہیں ہے۔ شریف فیملی کو بھی بھٹو فیملی جیسی ملتی جلتی صورتحال کا سامنا ہے۔ مسئلہ آج بھی وراثت کا ہے۔ نواز شریف  ن لیگ کی وراثت اپنے بھائی شہباز شریف کو نہیں بلکہ بیٹی مریم نواز کو دینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بھتیجے حمزہ شہباز سے بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان کے بیٹی کے سامنے سرنگوں کر دے۔

اگر یہ بادشاہت ہوتی اور تخت کی وراثت آسان ہوتی تو شائد سب چپ ہی کر جاتے۔ لیکن یہ لولی لنگڑی ہی سہی لیکن جمہوریت ہے۔ یہاں وراثت ایسے منتقل نہیں ہو سکتی۔ آپ ایک حکم نامہ سے وراثت طے نہیں کر سکتے۔ کم سہی لیکن عوام کا اور پارٹی کا بھی ایک کردار ہے۔ وراثت کی منتقلی کے لیے صرف نواز شریف کی خواہش کافی نہیں۔ دیگر عوام کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق ہے تو اپنی ایک طویل جدو جہد سے وہ پیپلزپارٹی میں اپنی قیادت کا لوہا منوا چکی تھیں جب کہ پارٹی مرتضیٰ کی قربانیوں کی اس طرح مداح نہیں تھی۔

بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے بھی خود کو منوا لیا تھا۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 1988 میں اقتدار کے لیے اداروں سے مفاہمت نے ان کے لیے راستے آسان کیے جب کہ مرتضی آخری دن تک اپنے والد کی پھانسی کو بھول نہیں سکے اور اسٹبلشمنٹ سے لڑتے رہے۔ بے نظیر کی مفاہمت نے مرتضیٰ کے لیے دروازے مزید بند کر دیے۔ تب اگر مرتضیٰ بھی بے نظیر کی مفاہمت کی پالیسی مان لیتے تو ان کے لیے بھی راستے بن سکتے تھے۔

یہ درست ہے کہ مریم بی بی نے کہا ہے کہ شہباز شریف ان کے ہیرو ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان شہباز شریف کے حوالے سے ابہام باقی رکھنا چاہتا ہے۔ وہ شہباز شریف کو اپنے سے الگ بھی نہیں کرنا چاہتے لیکن شہباز شریف کو کچھ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ کوشش یہی ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کے ساتھ جس پوزیشن میں کام کر رہے تھے مریم نواز کے ساتھ بھی اسی پوزیشن میں کام کرنے کے لیے راضی ہو جائیں۔ وہ شہباز شریف کو ایک باری بھی نہیں دینا چاہتے لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ان کی اگلی باری کے راہ بھی ہموار کریں۔

شائد شہباز شریف اس پر بھی مان جاتے لیکن وہ اس کے لیے شہباز شریف کی بات ماننے کو بھی تیار نہیں۔  جہاں تک ن لیگ کی پارٹی کا تعلق ہے تو ابھی تک مریم بی بی کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پارٹی کے لیے راستے کھولنے کے بجائے بند کر رہی ہیں۔ پارٹی مفاہمت کی بات کر رہی ہے وہ روز مزاحمت کر رہی ہیں۔ اگر پارٹی میں سیکرٹ بیلٹ سے رائے دہی کی اجازت ہو تو غالباً اس وقت شہباز شریف کی قیادت پر سب متفق  جائیں۔ سوائے چند لوگوں کے سب شہباز کو موقع دینے کے حق میں ہیں۔

یہ بات تو نواز شریف نے خود بھی تسلیم کی تھی کہ جب انھوں نے پارٹی کے لوگوں سے مشاورت کی کہ ان کے بعد کس کو وزیر اعظم ہونا چاہیے تو اکثریت نے شہباز شریف کا نام لیا۔ لیکن شائد شہباز شریف کی پارٹی میں مقبولیت ہی ان کی راہ کی رکاوٹ بن گئی ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ ن لیگ کے اندر یہ رائے بھی ہے کہ نواز شریف کو  پوائنٹ آف ڈیڈ لاک نہیں بنانا چاہیے۔ انھیں پارٹی کو آگے چلنے دینا چاہیے۔ انھیں مریم کو بھی فوری قیادت نہیںدینی چاہیے۔ وہ اپنا کیرئیر شروع کریں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ملکہ کے طور پر ہی شروع کریں۔

آج وقت ہے کہ شریف فیملی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں بھی بھٹو فیملی کی طرح ہی وراثت کا فیصلہ کرنا ہے۔ جس طرح بے نظیر اور مرتضیٰ دونوں لڑتے لڑتے ہو گئے گم، کیا اسی طرح شریف فیملی بھی ایسے ہی کرے گی۔ کیا نواز شریف بھی بے نظیر کی طرح اپنے بھائی کی قربانی دے دیں گے یا بھائی کو موقع دیں گے۔ صورتحال مختلف نہیں اگر نواز شریف شہباز شریف کو قربان بھی کر دیتے ہیں تو بھی انھیں کچھ نہیں ملے گا۔ مریم کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ جس طرح بے نظیر کو کچھ نہیں ملا تھا۔

The post ہاؤس آف شریف میں وراثت کی کشمکش appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

$
0
0

25 اکتوبر سے 7 نومبر تک مجھے سکینڈے نیویا اور یورپ میں پانچ پروگراموں میں حاضری دینی ہے۔ سلسلہ اب بھی انھی چیریٹی مشاعروں کا ہے جن کی معرفت گزشتہ پانچ برس سے ہم وطن عزیز میں تعلیم کے فروغ اور عام آدمی تک اس کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے لیے اپنی سی کوشش کررہے ہیں کہ مشاعرے کی محفل کے بہانے بیرون وطن مقیم پاکستانی کمیونٹی مقامی تنظیموں کے تعاون سے کہیں نہ کہیں مل بیٹھتی ہے اور یوں دونوں کام یعنی مشاعرہ اور فروغ تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ ایک ساتھ ہوجاتے ہیں۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کا آغاز الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے موجودہ صدر میاں عبدالشکور کی الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے ایک پروگرام سے ہوا تھا جس سے میرا تعارف برادرم جاوید چوہدری کے ایک کالم کے ذریعے ہوا تھا اور تب سے اب تک یہ تعلق خاطر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔

الفلاح اور الخدمت کے مشترکہ احباب میں برادران وقاص انجم جعفری اور عامر محمود جعفری بھی تھے جو بالترتیب دارارقم اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی انتظامیہ سے متعلق ہیں کہ خدمت خلق اور بالخصوص تعلیم کا شعبہ ان سب دوستوں کا Passion ہے۔

اب یہ حسن اتفاق ہے کہ اس کے ڈانڈے ان کے Profession سے بھی مل گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ ایک بابرکت قسم کی تحریک میں ڈھل گیا ہے جس کے ایک حصے میں مجھے انور مسعود، خالد مسعود، اوریا مقبول جان اور کچھ اور لکھاری دوستوں کو بھی شامل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ سفر کی طوالت، تھکان، میری معمول کی مصروفیات اور کمٹ منٹس کی وجہ سے ایک سال میں کسی ایک غیر ملکی دورے کی حد تک تو خیر تھی مگر اس سے زیادہ کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے جب کہ ہماری کمیونٹی کے ایسے مراکز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جہاں اس طرح کی فنڈریزنگ اور شعری محافل کامیاب ہوسکتی ہیں، سو اب صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات ایک برس میں تین تین بار بھی جانا پڑتا ہے۔

بالخصوص موجودہ برس یعنی 2017ء تو بہت ہی اوور لوڈ ہوگیا ہے کہ یہ حالیہ سفر جنوری سے اب تک دس مہینوں کا چوتھا دورہ ہوگا جب کہ اس دوران میں چار اضافی پروگراموں کے لیے انگلینڈ، ڈنمارک، سویڈن، دوبئی اور بحرین کے چکر بھی لگ چکے ہیں۔

GET یعنی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام کینیڈا (سات شہر) امریکا (نوشہر) کے بعد یہ حالیہ دورہ ناروے، ڈنمارک، اسپین اور فرانس (پانچ شہر) پر مشتمل ہوگا۔ اب ذرا اندازہ کیجیے کہ کل ملا کر آٹھ ہفتوں کے دوران 21مختلف شہروں میں آنا جانا تمام تر سفری سہولتوں اور عمدہ رہائشی انتظامات کے باوجود کس قدر مشکل اور صبر طلب ہوتا ہے۔گزشتہ ماہ کے امریکی دورے کے تین مسافروں یعنی انور مسعود، وقاص جعفری اور راقم میں سے اس سفر میں بقیہ دونوں ساتھی بدل تو گئے ہیں (کہ اب شاعری کے حوالے سے انور مسعود کی جگہ خالد مسعود خان اور وقاص انجم جعفری کی جگہ ان کے برادر خورد عامر محمود جعفری میرے ہم سفر ہوں گے) لیکن اس تبدیلی کے باوجود دونوں ناموں میں ’’مسعود‘‘ اور ’’جعفری‘‘‘ کی نسبت اب بھی موجود ہے۔

پروگرام کے مطابق میں اور خالد مسعود پی آئی اے کی پرواز سے اور عامر ٹرکش ایئرلائنز سے کم و بیش ایک ہی دن میں سفر کرتے ہوئے ایک گھنٹے کے فرق سے اوسلو ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے جس کی وجہ یہ بنی کہ عامر جعفری کو واپسی پر کچھ دن ترکی رکنا ہے اور انھوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ہمیں خوامخواہ براستہ استنبول لے جاکر پانچ چھ گھنٹے کا اضافی سفر کروائیں۔ ان کی اس محبت اور احتیاط پسندی پر روحی کنجاہی کا مشہور عام مصرعہ پھر سے یاد آرہا ہے کہ ’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘

اوسلو میں ایک دن قیام کے بعد ناروے کے خوبصورت ساحلی شہر ستوانگر کا سفر درپیش ہوگا جہاں چند برس پہلے بھی ایک بار جانا ہوچکا ہے جس کی ایک یاد تو نوجوان ڈاکٹر نوخیز سے ملاقات بھی ہے کہ یہ محبتی نوجوان تب سے اب تک مجھ سے رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ وہاں سے گزشتہ روز یعنی ہفتے کے دن اوسلو میں پروگرام ہوگا اور پھر صبح ہی صبح کوپن ہیگن کی فلائٹ پکڑیں گے کہ وہاں اسی شام میں تقریب کا انعقاد ہوگا۔

عامر جعفری نے اگلے دو دن کوپن ہیگن کی سیاحت اور بذریعہ کروز ایک مختصر سمندری سفر کے لیے وقف کررکھے ہیں۔ کوپن ہیگن سے اسپین کے شہر مالاگا جائیں گے جس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ نہ صرف اگلے پروگرام کے مقام قرطبہ سے نزدیک ترین ہے بلکہ یہاں سے غرناطہ کی زمینی مسافت بھی صرف دو گھنٹے کی ہے جہاں سے مسلمانوں کو نکلے ہوئے تو پانچ سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر تاریخی اور نفسیاتی حوالے سے ہمارے لیے ہسپانیہ عرف اسپین اب بھی انھی دو شہروں سے عبارت ہے۔

پانچ نومبر کی صبح پیرس میں دیکھی جائے گی، جہاں اسی شام کو پروگرام اور اگلے دن سہ پہر کو سفارت خانہ پاکستان میں محترم سفیر صاحب کی طرف سے ایک استقبالیہ دعوت ہے۔ توقع ہے کہ بیشتر دوستوں سے دونوں جگہ ملاقات ہوجائے گی۔ چند برس قبل پیرس کے تیسرے سفر کے دوران بھتیجی مہرین ذاکر اور اس کے سسرال والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو تہذیبی اعتبار سے دنیا کے اس منتخب شہر کے اصل حسن کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور معلوم ہوا کہ موماخت، لوور، شانزے لیزے اور ایفل ٹاور کے علاوہ بھی پیرس، پیرس ہی ہے۔

اس بار عزیزی ایاز محمود ایاز نے وہاں کے ادبی حوالے سے کچھ تاریخی مقامات کی سیر کرانے کی دعوت دی ہے۔ اب دیکھیے اس کے لیے وقت نکل پاتا ہے کہ نہیں کہ سات نومبر کی شام کی فلائٹ سے گھر کو بھی لوٹنا ہے۔ انشاء اللہ حسب سابق اس سفر میں بھی آپ سب میرے ہم سفر رہیں گے۔

The post ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

احتساب پر امتیاز کا دھبہ نہ لگے

$
0
0

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جب سے عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا ہے مسلم لیگ (ن) اور دو قومی اداروں کے درمیان سخت محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ کے سربراہ اور مسلم لیگ کے وزرا کی جانب سے ان دونوں قومی اداروں کے خلاف الزام تراشی کا ایک جارحانہ سلسلہ جاری ہے۔

اگرچہ مسلم لیگ کی قیادت کو دیر ہی سے سہی، یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان اہم قومی اداروں سے محاذ آرائی نہ اس کے مفاد میں ہے نہ قومی مفاد میں۔ اس احساس کے بعد اب مسلم لیگی وزرا محتاط ہوگئے ہیں اور محاذ آرائی کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی اس تبدیل شدہ پالیسی کے تناظر میں جو احتسابی کارروائی ہورہی ہے کیا وہ ختم ہوجائے گی یا اس میں نرمی آجائے گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں، کیونکہ فہمیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ احتساب کا یہ عمل نہ کوئی اتفاقی عمل ہے نہ کسی فرد، افراد یا خاندان کے خلاف یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احتساب کی یہ کارروائی خوب غور و فکر کے بعد شروع کی گئی ہے، کیونکہ ملک کا کوئی ایسا ادارہ باقی نہ رہا تھا جس میں اربوں کی کرپشن کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو۔ ملک کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہائی لیول کی کرپشن کی داستانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس حوالے سے حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس وبائی مرض کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن کے خلاف کارروائی کرے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ سربراہ حکومت اور ان کے خاندان ہی پر اربوں کی کرپشن کے الزامات میڈیا کی زینت بن رہے تھے اور عوام میں بے چینی اور اشتعال پھیل رہا تھا۔

جب کرپشن کے خلاف احتساب کرنے والے ادارے ہی کرپشن میں ملوث دیکھے جا رہے تھے تو کسی نہ کسی کو تو اس کے خلاف اقدامات کرنا تھے، سو اعلیٰ عدلیہ نے اعلیٰ سطح سے احتساب کا آغاز کیا، اس حوالے سے پہلی بات تو یہ تھی کہ کرپشن کے ملزمان کوئی عام شہری نہ تھے بلکہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ایسی شخصیات تھیں جن کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان عالی مقام لوگوں پر کرپشن کے الزامات لگ سکتے ہیں۔

کرپشن کا یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے اور اس بیماری میں صرف پسماندہ ملک ہی مبتلا نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی اشرافیہ بھی مبتلا ہے۔ اگرچہ یہ مرض اندر ہی اندر پھل پھول رہا تھا لیکن پاناما لیکس نے اس مرض کو لیک کرکے ساری دنیا میں ایک ہلچل مچادی اور کئی ملکوں کے سربراہ اس کی زد میں آگئے۔ چونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں اخلاقیات کسی نہ کسی طرح زندہ ہے، سو ان ملکوں کے وہ سربراہ جن پر پاناما لیکس کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگے تھے انھوں نے اپنے عہدوں سے خود استعفیٰ دے دیے اور احتساب کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ نہ ان ملکوں کے سربراہوں نے احتساب کے خلاف کوئی واویلا کیا نہ احتساب کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی پروپیگنڈا مہم چلائی۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمران طبقات 70 سال سے اپنی من مانیاں کرتے آ رہے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہر قسم کے احتساب سے آزاد ہیں۔ اس ذہنیت کی وجہ احتسابی کارروائی انھیں انتقامی کارروائی نظر آنے لگی اور وہ اس کارروائی کو اپنی توہین سمجھ کر اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرنے لگے، بلکہ ان معزز اداروں کے خلاف جو احتساب کا مشکل ترین کام کر رہے تھے پر توہین آمیز الزامات لگانے لگے ۔ احتساب کے اس اقدام کو انتقام کا نام دے کر احتسابی اداروں کے خلاف ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ ان اداروں پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہونے لگا۔

بدقسمتی سے اس سنگین مسئلے کا سامنا عقل و ہوش کے ساتھ کرنے کے بجائے اس کا مقابلہ سیاسی طاقت سے کرنے کی غیر سنجیدہ کوششوں پر اتر آئے اور اپنے زیر اثر ہجوم کو 21 کروڑ عوام کی آواز کہہ کر احتساب کے عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جو غیر منطقی کوشش تھی اس لیے یہ کوشش ناکام ہوگئی اور حکومتی اشرافیہ کو عقل کے ناخن لینے پڑے۔ اس حوالے سے ایک اور غلطی یہ کی جانے لگی کہ اس احتسابی کارروائی کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جانے لگا۔

ہمارے ملک میں 70 سال سے ہماری اشرافیہ نے جمہوریت کا جو حال کر رکھا ہے اس کی وجہ سے جمہوریت اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ احتساب کو جمہوریت دشمنی کہنے سے سوائے ہنسی کے عوام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں بوجوہ نہ صرف اس احتسابی کارروائی کی حمایت کر رہی ہیں  بلکہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس احتساب کو ایک خاندان تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کرکے ان تمام ملازمین تک پھیلایا جائے جن پر کسی حوالے سے بھی ماضی قریب میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ قلمکاروں کا ایک حلقہ جو حکمران اشرافیہ کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ بھی احتساب کو امتیازی اور انتقام کا نام دے کر اس برائی کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ حلقہ حکمرانوں کی اعلیٰ کارکردگی سے متاثر ہو یا احتساب کی اس کارروائی کو امتیازی یا انتقامی کارروائی سمجھتا ہو لیکن کیا اس حلقے کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ پچھلے 70 سال سے اس ملک کی اشرافیہ انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ بلکہ پورا جسم دھوتی آرہی ہے اور اسے یقین تھا کہ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ ہماری طرف انگلی اٹھانے کی حماقت کرے۔ اس نفسیات ہی کا اثر ہے کہ احتساب کے اس ابتدائی اقدام پر ساری اشرافیہ مشتعل ہے اور اس اقدام کو طرح طرح کے نام دے کر اسے بدنام کرنے اور رکوانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ منتخب جمہوری حکومتوں میں مداخلت کرے لیکن اس حوالے سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں غیر سیاسی مداخلت ہوئی نہ صرف عوام نے اس کی حمایت کی بلکہ اعلیٰ پائے کے سیاستدانوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور ان غیر سیاسی حکومتوں میں شامل ہوگئے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں، اگر سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد ہوتا تو کسی غیر سیاسی طاقت کی یہ ہمت نہ  ہوتی کہ وہ جمہوریت کے پھٹے میں ٹانگ اڑاتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ احتساب کا آغاز ہوا ہے لیکن اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک ملک میں ایک بھی کرپٹ اشرافیہ باقی ہے ورنہ احتساب پر امتیاز کا دھبہ لگ جائے گا۔

The post احتساب پر امتیاز کا دھبہ نہ لگے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22962 articles
Browse latest View live


Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>