Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22715 articles
Browse latest View live

نوشتہ دیوار

$
0
0

ایک پرانے محاورے ’’میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘‘ کے مصداق نہ چاہتے ہوئے بھی آج  سیاست سے متعلق ایک موضوع پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ اب یہ معاملہ تمیز‘ شرافت‘ اخلاق‘ انسانیت‘ تحمل‘ انصاف‘ ذہنی پستی اور اجتماعی انارکی سمیت اور بہت سے لمحات فکر کا مجموعہ بن گیا ہے۔

پاناما کیس میں میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی اور بعدازاں مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہلی کے فیصلوں سے لے کر سینیٹ کے حالیہ ہنگامے اور اس دوران میں ہونے والے ضمنی انتخابات میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی پر زور اور پرشور احتجاجی اور انقلابی تقریروں اور حالیہ چند دنوں میں سیاسی لیڈروں پر سیاہی اور جوتا پھینکنے کی انتہائی قابل افسوس وارداتوں تک جو بھی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کا سب قومی حوالے سے ہماری عمومی ذہنی ناپختگی اور اہل سیاست کی ناقص سیاسی تربیت کا ایک ایسا منظرنامہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ اس میں عام کارندوں سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت میں شامل سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کے سربراہ بھی برابر کے شریک ہیں۔

سیاسی اور نظریاتی اختلافات میں تلخی اور شدت کا وقتی یا ہنگامی طور پر آجانا بلاشبہ کوئی خوشگوار بات نہیں لیکن یہ کوئی بہت زیادہ غیرمعمولی بات بھی نہیں کہ لمحاتی گرما گرمی میں کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے لیکن اس کیفیت کا مستقل اظہار اور گھٹیا اور بازاری زبان کا مسلسل استعمال یقیناً ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے کہ ایک غلط العام تصور کے برعکس نہ محبت میں ہر چیز جائز ہے اور نہ سیاست میں۔اس بحث سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط! آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا یا برباد کیا اور عمران خان نیا پاکستان بنا سکتا ہے یا نہیں؟

سب سے پہلے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں کے یہ سربراہ پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے جس پروگرام اور نظام کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور اس ضمن میں ان کی ذات اور ان کے تھنک ٹینکس کی سوچ‘ اپروچ اور صلاحیت کیا ہے درست کہ نیتوں کا حال صرف رب دو جہاں ہی جانتا ہے مگر آپ کے اب تک کے اعمال اور ٹریک ریکارڈ ایک ایسی بنیاد یقیناً فراہم کر دیتے ہیں جس سے آپ ان کے وزن اور اہلیت کا ایک عمومی اندازہ ضرور قائم کر سکتے ہیں سو مسلم لیگ ن کے مرکز اور پنجاب‘ پیپلز پارٹی کے مرکز اور سندھ اور تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا میں پانچ پانچ سال کی کارکردگیاں اس حوالے سے دیکھی جا سکتی ہیں، شرط یہ ہے کہ سب کے لیے رعایت اور جرمانے کا پیمانہ ایک سا ہو اورتجزیہ نگار ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر ارادے اور عمل کا حساب اور احتساب کریں۔

بدقسمتی سے ہمارے عوام‘ میڈیا‘ تجزیہ کار اور خود سیاسی رہنما بھی اپنے اپنے مسائل کی وجہ سے اس وقت اس انصاف پسندی‘ بالغ نظری‘ برداشت اور کشادگی قلب و نظر سے تقریباً محروم ہیں جن پر کسی مہذب اور باشعور معاشرے کی عمارت استوار ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سو فی صد صحیح اور دوسرے کو یکسر غلط سمجھتا اور بتاتا ہے۔

ہر ایک کا جلسہ سب سے بڑا کامیاب اور پرہجوم ہوتا ہے اور ہر لیڈر اسٹیج پر اپنے دیدہ اور نادیدہ مخالفین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتا ہے جس میں سے اگر گالیوں بڑھکوں اور دھمکیوں کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا اور مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ساری کردار کشی‘ گالم گلوچ اور ذاتیات پر مبنی ڈرامہ ان عوام کے نام پر کیا جاتا ہے جن کا رول اس سارے تماشے میں کرداروں کے بجائے تماش بینوں کا سا ہو کر رہ گیا ہے کہ ان کا کام صرف گالی دینا یا تالی بجانا رہ گیا ہے۔ تسلیم کہ اس ساری صورت حال میں ہماری تاریخ‘ جغرافیے‘ ہمسایوں اور بین الاقوامی سازشوں اور مفادات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

مذہب‘ مسلک‘ ذات برادری اور طبقاتی حوالے سے بھی ہم لوگ گوناگوں مسائل کے شکار ہیں۔ صوبائیت‘ زبان اور کلچر کے تنازعات بھی ہمیں تقسیم کیے رکھتے ہیں مگر کیا یہ مسائل صرف ہم ہی کو درپیش ہیں؟ اور کیا ہر شہری کے بنیادی حقوق یعنی تعلیم‘ صحت‘ روز گار‘ چھت‘ قانون کی حکمرانی‘ مساوی اور بلا قیمت انصاف کی فراہمی اور عقیدے کی آزادی کے بغیر کسی سیاسی جماعت کے منشور کا کوئی تصور ممکن ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ہماری سیاست ان کے بجائے چند شخصیات اور ان کے ذاتی تعصبات اور مفادات کی غلام بن کر کیوں رہ گئی ہے؟

بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہب کے نام پر چلائی جانے والی نام نہاد تحریکیں یا ان کے حوالے سے سینٹر اسٹیج پر نظر آنے والے چھوٹے بڑے نام اگر ان کی موجودگی سے وطن عزیز کے شہریوں اور اللہ کی مخلوق کی زندگی میں آسانی اور سہولت پیدا نہیں ہوتی تو ان کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔

اگر ان لیڈر حضرات نے ایک دوسرے کو گالیاں ہی دینی ہیں اور الزام تراشیوں کی لڈو ہی کھیلتے رہنا ہے تو انھیں جان لینا چاہیے کہ خدا کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہر طرف سے جو جوڑ توڑ ہوئے اور اس کا جو ردعمل سامنے آ رہا ہے وہ جیتنے اور ہارنے والوں کے لیے ایک برابر کا لمحہ فکریہ ہے اور وہ یہ کہ اگر بدزبانی اور قومی سلامتی کے اداروں سے مخاصمت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سب لوگ نہ صرف عوام کے دلوں سے اتر جائیں گے بلکہ تقدیر اپنا وہ بے رحمانہ فیصلہ بھی سنا دے گی جس میں نہ سر سلامت رہیں گے اور نہ دستاریں۔

اور اگر کوئی بچے گا تو صرف وہ کہ جس نے اپنی ذات پر خلق خدا کی خدمت اور بھلائی کو ترجیح دی اور اداروں کی مضبوطی کے لیے کام اور ان کا احترام کیا۔ اختلاف ضرور کیجیے مگر اس کا مقصد عوام کی بہتری اور فلاح کے راستوں اور طریقوں کی تلاش ہونا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو بے عزت کر کے اپنی دکان چمکانا۔ غلط کام ہمیشہ غلط اور صحیح‘ صحیح ہوتا ہے چاہے وہ میاں نواز شریف کریں‘ آصف زرداری یا عمران خان یا کوئی اور۔

The post نوشتہ دیوار appeared first on ایکسپریس اردو.


عدل وانصاف کی خاطر

$
0
0

سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب بھی مکمل ہوا ۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ حاصل گفتگو یہ ٹہرا کہ بالادست طبقات پارلیمان سے بھی بالادست ہیں۔ نادیدہ قوتوں کی سیاست اور سیاسی عمل میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں ۔ روز اول سے جاری اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جس کو جب اور جہاں موقع ملا، اس نے جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی کمر میں چھرا  گھونپا ہے، چونکہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ، اس لیے شکوہ و شکایت بے معنی ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکمران اشرافیہ میں نہ اہلیت ہے اور نہ وژن کہ نظم حکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوں کے ازالے کی کوشش کرسکے۔ یوں ہر الیکشن، خواہ عام ہوکہ بلدیاتی یا پھر سینیٹ کا گزشتہ41 برس سے منڈیِ مویشیاں  بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس معاملے پر نوحہ گری کو نظر انداز کرتے ہوئے،ایک ایسے حساس مسئلے کی طرف آتے ہیں، جو پہلے سے زد پذیر (Fragile)ملک کو مزید زد پذیری (Vulnerability) کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے۔

سب سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے، یعنی یہ سمجھنا لازم ہے کہ کسی عدالتی فیصلے یا کسی فاضل جج کے رویے کے بارے میں اظہار رائے یا تنقیدی نقطہ نظر کسی طور پر توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اس لیے کسی حساس معاملے پر دیے گئے کسی کمزور فیصلے پر خاموشی یا تنقید سے گریز یا تو قانون اور عدالتی نظام کے بارے میں آگہی کی کمی ہوتی ہے یا پھر تاریخی حقائق سے عدم واقفیت ۔ ویسے بھی جب ایک مولوی کی جانب سے عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب کے بارے میں گفتگو پر توہین عدالت کا اطلاق نہیں ہوتا ، تو پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کسی جج کے فیصلے اور شہریوںکے مختلف طبقات کے بارے میں ان کے رویے سے اختلاف کو بھی توہین عدالت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیزعالمی سطح پر مختلف نوعیت کے الزامات کی زد میں ہو، یہ بات تشویشناک ہے کہ ملک میں منصفی کے اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن منصفین کی جانب سے ایسے ریمارکس بیانات اور احکامات سامنے آئیں، جن پر اصولاً کھل کر بات ہونی چاہیے تاکہ خرد افروزی کو فروغ ملے اور کچھ نئی اوراچھی باتیں بھی سامنے آ سکیں۔ چند ماہ قبل کہا گیا تھا کہ برٹش انڈیا میں دو قومیں آباد تھیں، ایک مسلمان اور دوسری کا نام لینا گوارا  نہیں کیا گیا۔

اب چند روز قبل ایک فیصلہ سامنے آیا ہے کہ ہر سرکاری عہدیدار اور اہلکارکو اپنے عقیدے کے بارے میں حلف نامہ جمع کرنا ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے احکامات آئین کی انسانی حقوق کی شقوں سے متصادم تو نہیں؟ بانی پاکستان کی جانب سے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں دیے گئے اس پالیسی بیان کو کیسے دیکھا جائے‘ جس میں کہا گیاتھا کہ”In the state of Pakistan Muslims would  cease to be  Muslims and Hindus would cease to be Hindus, not in terms of religion but as a citizen of Pakistan. You are free to go to your masques, churches, temples or anyother place of worship”.

مجھے کہنے دیجیے کہ اس قسم کے فیصلوں سے مزید ابہام اور پیچیدگی پیدا ہو گی۔ پاکستان جس پر  پہلے ہی مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کے ان گنت الزامات ہیں ، ایسے فیصلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر مزید الجھنوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں نظام عدل روز اول ہی سے مختلف نوعیت کی مصلحتوں کا شکار اور غیر جمہوری قوتوں کی خواہشات کے زیر اثر رہا ہے۔ عدالتیں عوام کو عدل وانصاف مہیا کرنے اور ریلیف دینے کے بجائے غیر جمہوری حکومتوں اور ان کے عوام دشمن اقدامات کوتحفظ فراہم کرنے کا سبب بنی رہی ہیں۔ جسٹس منیر نے ملک غلام محمد کے آمرانہ اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے جو ’’نظریہ ضرورت‘‘ تخلیق کیا، وہ بعد میں آنے والے ہر طالع آزما کے لیے نسخہ اکسیر ثابت ہوا، یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے۔

جسٹس حمود الرحمان، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس ایم آرکیانی، جسٹس صفدر شاہ، جسٹس حلیم ، جسٹس ناصر اسلم زاہد سمیت ایسے کئی منصفین عہدہ قضا پر فائز رہے ہیں، جنہوں نے اپنے عقائد، نظریات اور نسلی و لسانی وابستگی سے بالاتر ہو کراس طرح حق منصفی ادا کیا کہ  آج بھی عوام و خواص میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ مسئلہ ججوں کی ذاتی قابلیت یا ان کی قانون کے بارے میں بصیرت کا نہیں ، بلکہ ملک میں رائج نظام عدل میں پائی جانے والی خامیوں کا ہے۔ اس نظام کو درست کرنے پر دانستہ توجہ نہیں دی جارہی، کیونکہ نظام عدل کی درستی اور عوام دوست ہونا، ان حلقوں کے حق میں نہیں، جو اقتدار و اختیار پر سانپ کی مانند کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے آئین کی مختلف شقیں شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ خاص طور پر آئین کی شق 3کہتی ہے کہ “The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation and the gradual fulfillment of the fundamental principle, from each according to his ability to each according to his work”۔اسی طرح شق 8سے 27تک ہر شق شہریوں کے مختلف حقوق کے بارے میں آگہی دیتی ہے ،  اگر ان شقوں کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور شہریت کے اصولوں کا درست ادراک کرلیا جائے، تو متنازع ، سطحی اور غیر ذمے دارانہ قسم کے احکامات جاری نہ ہوں ۔ پاکستان ریاستی اداروں کے غیر ذمے دارانہ اقدامات کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آنے والی پارلیمان خود کوAssert کرتے ہوئے انتظامی اور عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش کرے ۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے آئین کی ایک دوسرے سے متصادم شقوں کر ختم  یا ان میں مناسب ترامیم کی جائیں ۔ اس کے بعد ترجیحی بنیادوں پر عدالتی نظام کو بہتر بنانا ہوگا، خاص طور پر ججوں کے انتخاب کے حالیہ طریقہ کار پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

The post عدل وانصاف کی خاطر appeared first on ایکسپریس اردو.

ووٹ کو عزت نہیں ملے گی

$
0
0

ہماری سیاسی قیادتوں کو کس قسم کے کارکن‘ کس قسم کے سیاسی مزارع درکار ہیں‘ رضا ربانی اس کی ’’شاندار‘‘ مثال ہیں‘ رضا ربانی سر سے لے کر پاؤں تک ناقابل برداشت اور سیاسی لحاظ سے انتہائی غیر ضروری سیاستدان ہیں‘ کیوں؟کیونکہ یہ ایک ذہین‘ پڑھے لکھے اور ذہنی لحاظ سے بالغ انسان ہیں اور یہ غلطی کسی بھی شخص کے لیے ملک کی کسی بڑی سیاسی جماعت سے بے دخلی کی وجہ بن سکتی ہے۔

ہماری جماعتوں کو ذہنی لحاظ سے چھوٹے بلکہ زبیر گل جیسے لوگ چاہئیں‘ ہماری پارٹیاں بالغ النظر ‘ پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کو برداشت نہیں کرتیں اور رضا ربانی میں یہ بدقسمتی کوٹ کوٹ کر بھری ہے‘ ان کا دوسرا جرم سیاسی ایمانداری ہے‘ یہ اپنے خیالات اور نظریات میں ایماندار ہیں‘ یہ رات کو دن اور دن کو رات کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگوں کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

ہماری قیادت کو صرف اور صرف ’’واہ جی واہ‘‘ چاہیے‘ آپ اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کریں‘ سامنے سے واہ جی واہ کی آوازیں آنی چاہئیں‘ آپ پھر وہی اینٹیں اٹھا کر اپنے سر میں مارنا شروع کر دیں سامنے سے اس بار بھی واہ جی واہ اور سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کی صدائیں آنی چاہئیں‘ ہمارا کوئی لیڈر اپنے کارکن سے آزاد رائے سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

یہ لوگ کسی شخص کی نظریاتی ایمانداری بھی قبول نہیں کرتے اور رضا ربانی میں یہ خرابی بھی بدرجہ اتم موجود ہے‘ ان کا تیسرا جرم آئین اور قانون بنا‘ یہ اپنا قدم قانون اور آئین کے دائرے سے باہر نہیں رکھتے‘ آپ حکومت ہیں‘ آپ اسٹیبلشمنٹ ہیں‘ آپ سپریم کورٹ ہیں ‘ آپ امریکا ہیں یا پھر آپ پارٹی کے چیئرمین ہیں‘ آپ رضا ربانی کے سامنے آئین اور قانون سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے‘ یہ آپ کو روکیں گے‘ آپ نہیں رکیں گے تو یہ احتجاج کریں گے۔

یہ خاموش نہیں رہیں گے‘ یہ عادت بھی سیاسی پنڈتوں کو قبول نہیں‘ یہ لوگ اپنے ہر فیصلے کو قانون اور اپنی ہر بات کو آئین دیکھنا چاہتے ہیں اور رضا ربانی اس معاملے میں گستاخ ہیں‘ یہ ناقابل برداشت ہیں اور ان کی آخری خرابی‘ ان کا آخری جرم‘ یہ تین سال سینیٹ کے چیئرمین رہے‘ یہ اس دوران 100بار سینیٹ میں حاضر ہوئے‘ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی چیئرمین کی سب سے زیادہ حاضریاں ہیں‘ یہ صرف پانچ مرتبہ غیر حاضر ہوئے اور یہ بھی وہ دن تھے جب یہ سرکاری دورے پر بیرون ملک تھے‘ یہ کبھی نہیں ہوا یہ ملک میں ہوں اور یہ سینیٹ کے سیشن میں نہ آئیں اور رضا ربانی پر آج تک کرپشن کا کوئی چارج بھی نہیں لگا۔

یہ آئین کے ایکسپرٹ بھی ہیں‘ آپ آئین کی کسی شق کا ذکر کریں‘ یہ حیران کن تشریح کریں گے‘ یہ جرات مند بھی ہیں‘ آپ ان کی زبان نہیں روک سکتے‘ آپ انھیں احتیاط پر مجبور بھی نہیں کر سکتے اور یہ بھی اس ملک میں چھوٹے جرائم نہیں چنانچہ رضا ربانی کو پارٹی نے متفقہ امیدوار بنانے سے انکار کر دیا‘ رضا ربانی اور ان کے اصول پسپا ہو گئے اور صادق سنجرانی کا میرٹ اور غیر جانبداری جیت گئی‘ یہ ایوان بالا کے سربراہ منتخب ہوگئے۔

آصف علی زرداری اور رضا ربانی کے درمیان کشمکش ایک طویل داستان ہے‘ رضا ربانی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں آصف علی زرداری کے مخالف کیمپ میں تھے‘ مخدوم امین فہیم‘ صفدر عباسی‘ رضا ربانی‘ ناہید خان اور اعتزاز احسن ہمیشہ آصف علی زرداری سے فاصلے پر رہتے تھے‘ یہ لوگ محترمہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کو پارٹی کا سربراہ نہیں بنانا چاہتے تھے‘ پارٹی مخدوم امین فہیم کی سربراہی پر متفق تھی‘ اس مشکل وقت میں اگر میاں نواز شریف آصف علی زرداری کا ساتھ نہ دیتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی‘ میاں نواز شریف نے اس دور میں خواجہ آصف کے ذریعے آصف علی زرداری کی مدد کی تھی‘ خواجہ محمد آصف اور آصف علی زرداری کے درمیان قریبی تعلقات تھے‘ یہ جیل کے دوست بھی تھے اور خواجہ آصف کے خالہ زاد بھائی اور برادر نسبتی فاروق نائیک بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وکیل بھی تھے۔

آصف علی زرداری نے 2006ء میں نیویارک سے فون کر کے خواجہ آصف کو بے نظیر بھٹو کا ایک پیغام دیا تھا‘ وہ ایک ناممکن کام تھا لیکن خواجہ آصف نے اپوزیشن میں رہ کر بھی وہ کام کرا دیا‘ بے نظیر بھٹو نے شکریہ کے لیے خواجہ آصف کو فون کیا تھا‘ میاں نواز شریف29 دسمبر2007ء کو بے نظیر بھٹو کی تعزیت کے لیے نوڈیروگئے‘ خواجہ آصف بھی ساتھ تھے‘ تعزیت کے بعد زرداری صاحب نے خواجہ آصف کو کہنی ماری اور تنہائی میں بات کرنے کا اشارہ کیا۔

خواجہ آصف ان کے ساتھ چلے گئے‘ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ تمام لوگ بی بی کی کرسی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ مجھے ان سے بچا لو‘ خواجہ آصف نے جواب دیا‘ میاں نواز شریف میرے قائد ہیں‘ میں ان کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا‘ زرداری صاحب نے اس کے بعد ان کے کان میں ایک سرگوشی کی اور یہ الگ الگ ہو گئے۔

وہ سرگوشی مخدوم امین فہیم سے متعلق تھی‘ مخدوم امین فہیم 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم بن رہے تھے‘ وہ پارٹی کے اندر مضبوط تھے‘ زرداری صاحب کے لیے انھیں ہٹانا آسان نہیں تھا‘ یہ انھیں میاں نواز شریف کے ذریعے ہٹانا چاہتے تھے‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان 9 مارچ 2008ء کو بھوربن میں ’’مری ڈکلیئریشن‘‘ہوا‘ یہ دونوں لیڈر ڈکلیئریشن کے بعد کمرے میں چلے گئے۔

زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کو قائل کر لیا ‘ خواجہ آصف کو اندر بلایا گیا اور انھیں مخدوم امین فہیم کا پتہ کاٹنے کا ٹاسک دے دیاگیا‘ اس رات خواجہ آصف نے ٹیلی ویژن پر اعلان کر دیا مخدوم امین فہیم پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے قابل قبول نہیں ہیں‘ اس اعلان نے مخدوم امین فہیم کو فارغ کرا دیا‘ اگلی رات آصف علی زرداری نے خواجہ آصف کو کھانے پر بلایا‘ بلاول بھٹو کو مخاطب کیا اور کہا ’’یہ شخص تمہارے والد کا سب سے بڑا محسن ہے۔

اس کا احسان کبھی نہ بھولنا‘‘ 17 مارچ 2008ء کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا‘ خواجہ آصف حلف لینے کے لیے قومی اسمبلی گئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر ایم این ایز نے انھیں گھیر لیا اور کہا ’’ خواجہ صاحب آپ نے بہت بڑا ظلم کیا‘آپ نے ہمارے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی تباہ کر لیا‘ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنی اس حرکت پر پچھتائیں گے‘ آپ ملامت کریں گے‘‘ 2008ء کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن پر جب بھی ملامت کا وقت آیا‘ رضا ربانی سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈر خواجہ آصف کی طرف دیکھتے تھے‘ مسکراتے تھے اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے اور خواجہ آصف شرمندگی سے اپنا منہ نیچے کر لیتے تھے۔

میں نے 7 فروری2018ء کو اس واقعے کی تصدیق کے لیے خواجہ آصف سے رابطہ کیا‘ خواجہ صاحب نے واقعے کی تصدیق کر دی‘میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ رضا ربانی کے الفاظ تھے‘‘ خواجہ آصف نے جواب دیا ’’نہیں‘ پچھتانے والی بات رضا ربانی نے نہیں کی تھی‘ یہ بات جس صاحب نے کی تھی وہ اس وقت بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘‘ تاہم جہاں تک میری معلومات ہیں یہ الفاظ قیادت کی ڈائری میں آج بھی رضا ربانی کے سامنے درج ہیں۔

رضا ربانی پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ناپسندیدہ شخصیت رہے‘آصف علی زرداری سے ان کے اختلافات صدر جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے پر شروع ہوئے‘ یہ خود بھی وزیر نہیں بنے اور یہ کابینہ کو بھی حلف سے روکتے رہے‘قیادت کو یہ رویہ پسند نہ آیا‘2009ء میں ایک اور واقعہ بہت مشہور ہوا ‘ صدر آصف علی زرداری نے نصف درجن لوگوں کی موجودگی میں رضا ربانی کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دے دیا‘ یہ بھی کہا تم جتنی سنجیدگی مجھے سمجھانے میں دکھاتے ہو تم اتنے سنجیدہ اگر اپنے اوپر ہو جاتے تو آج صاحب اولاد ہوتے (یہ اصل الفاظ نہیں ہیں‘ میں بدقسمتی سے وہ الفاظ یہاں درج نہیں کر سکتا) مجھے یوسف رضا گیلانی کے اسٹاف نے بتایا‘ رضا ربانی ایک بار وزیراعظم سے ملاقات کے لیے آئے۔

یہ ملٹری سیکریٹری کے دفتر پہنچے تو ایوان صدر سے یوسف رضا گیلانی کو فون آ گیا ’’تم رضا ربانی سے نہیں ملو گے‘‘ اس کے بعد وزیراعظم اپنے دفتر میں بیٹھے رہے‘ رضا ربانی ایم ایس کے دفتر میں اور ایم ایس اپنے کمرے کی چھت دیکھتے رہے یہاں تک کہ رضا ربانی تھک کر واپس چلے گئے لیکن پھر وہ وقت بھی آ گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی نے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنادیا‘ پارٹی کا خیال تھا رضا ربانی کے علاوہ کسی شخص پر اتفاق رائے نہیں ہو سکے گا چنانچہ پارٹی ان کے نام پر مجبور ہو گئی۔

آصف علی زرداری چیئرمین شپ کے ان تین برسوں میں بھی رضا ربانی سے مطمئن نہیں تھے‘ یہ پارٹی قیادت کی بات نہیں مانتے تھے چنانچہ 7 مارچ کو جب میاں نواز شریف نے انھیں متفقہ امیدوار بنانے کی پیش کش کی تو زرداری صاحب نے نہایت تکبر کے ساتھ یہ آفر مسترد کر دی اور یوں صادق سنجرانی جیسے نابغہ ایوان بالا کے چیئرمین بن گئے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے ہمارے لیڈر جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں لیکن یہ کبھی اپنی اداؤں پر غور نہیں کرتے‘ یہ کبھی اپنے آپ سے نہیں پوچھتے کیا ہمارے رویئے جمہوری ہیں؟ کیا ہم کسی ایسے شخص کو اپنے پاس پھٹکنے دیتے ہیں جس کے بارے میں ہمارا خیال ہو یہ ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرے گا‘ ہم اپنے لیے کک‘ مالی اور ڈرائیور کے لیے بھی بہترین لوگوں میں سے بہتر کا انتخاب کرتے ہیں لیکن جب وزیر‘ مشیر اور چیئرمین کی باری آتی ہے تو ہم صرف اور صرف کٹھ پتلی کو چنتے ہیں‘کیوں؟

ہمارے لیڈروں نے کبھی سوچا یہ جب حلقے میں سے بدترین اور ان پڑھ ترین شخص کو ٹکٹ دیں گے تو پھر جمہوریت کا کیا حال ہو گا؟کیا پھر جمہوریت اسی طرح ہارتی اور ایمپائر اسی طرح جیتتے نہیں رہیں گے؟ میں دل سے سمجھتا ہوں یہ لوگ جب تک رضا ربانی جیسے لوگوں کو عزت نہیں دیں گے ملک میں اس وقت تک ووٹ کو عزت نہیں ملے گی‘ ووٹ اسی طرح ذلیل ہوتا رہے گا۔

The post ووٹ کو عزت نہیں ملے گی appeared first on ایکسپریس اردو.

معصوم ذہانت

$
0
0

میری چھوٹی بہن گڑیا ، جو ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی واقعی ایک گڑیا ہی تھی، خوبصورت گول مٹول اور معصوم۔ جی ہاں وہ ایک اسپیشل چائلڈ تھی۔آج اس کے جیسے کچھ بچوں کو دیکھا تو وہ بہت یاد آئی اور پھر اس سے متعلق ہر بات یاد آتی چلی گئی۔

سب سے زیادہ اپنی ماں کا صبر ، برداشت اور اللہ پر توکل یاد آیاکہ اس کی پرورش کے دوران امی کو بحیثیت ماں کے کون کون سی دشواریاں پیش آئیں۔ شروع میں وہ چل نہیں سکتی تھی، چلنا تو دور وہ کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی،کوئی چھ آٹھ سال تک گود میں یا پھر پکڑ کر چلایا جاتا تھا، بولنا بھی اس کا صاف نہیں تھا۔

وہ ایک ایسی لینگویج بولتی تھی جو صرف ہم گھر والے ہی سمجھ سکتے تھے، پھر وہ بڑی ہوگئی اور سمجھدار بھی۔رویے پہچانتی تھی اور لوگوں سے اسی حساب سے پیش آتی تھی۔بہت ہنس مکھ اور ملنسار تھی۔پھر ہوا یوں کہ ایک ایک کرکے بہن بھائی گھر سے رخصت ہونے لگے کوئی دوسرے شہر چلا گیا تو کوئی دوسرے ملک۔ہم بہنیں بھی شادی کے بعد دوسرے شہر آگئیں سوائے باجی کے۔ گڑیا بجھتی چلی گئی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سب کیوں اورکہاں چلے گئے۔امی کے بعد گڑیا چند سال زندہ رہی شدید بیماری کی حالت میںاکتیس سال کی عمر میں رخصت ہوگئی۔گو کہ باجی اور ان کے بچوں نے اس کا بے حد خیال رکھا مگر شاید اس کو جانا ہی تھا ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن گھروں میں ایسے بچے اللہ تعالی بھیجتا ہے ۔ ان لوگوں کو ایسے بچوں سے قدرتی طور پر ایک قلبی لگاؤ ہوتا ہے،چند روز پہلے میرا ایک ایسے ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جو ایسے ہی بچوںکی skill development  کے لیے کام کررہا ہے ۔ میری درخواست پر وہاں کی انتظامیہ نے مجھے اجازت دی کہ ادارے کا وزٹ کرسکتی ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کے ادارہ کس طرح ان بچوں کے اندر مخفی ذہانت اور اہلیت کو ان کے اندر سے نکالتا ہے۔

سب سے پہلے تو میں وہاں کی صفائی ستھرائی اور ڈسپلن سے ہی متاثر ہوگئی۔میں نے بچوں کی کلاسوں کا وزٹ کیا اور انھیں مختلف ہنر اپنے ہاتھوں سے کرتے ہوئے دیکھا۔کچھ بچیاں مشین پر سلائی اور کڑھائی سیکھ رہی تھیں اور کچھ اڈے پر ہاتھ کا کام یا ہاتھ کی کڑھائی جو ہم عموماََ باہر سے مہنگے نرخوں میں بنوایا کرتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور شعبہ بھی موجود تھا جو بچوں کو بلاک پرنٹنگ اور اسکرین پرنٹنگ کی تربیت دے رہا تھا۔ کچھ بچے ابھی سیکھنے کے مراحل میں جب کہ کچھ بڑی مہارت سے کام کررہے تھے ۔

پھر آجائیں کمپیوٹر پروگرامنگ کی طرف ، وہاں بھی بچے مختلف پروگرام سیکھتے دکھائی دیے ۔ اسپرے پینٹنگ کا شعبہ مجھے کافی انٹرسٹنگ لگا وہاں کے انچارج نے بتایا کہ ہمارے بچے کئی گاڑیاں پینٹ کرچکے ہیں، بچوں کے ذہنی معیارکا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، اگر ہم سیلف گرومنگ کی بات کریں تو ہر بچہ اس کا منہ بولتا ثبوت نظر آیا۔وہاں پرفی الوقت 130بچے اور بچیاں زیر ِتربیت ہیں۔وہاں جاکر میں بہت متاثر ہوئی اور پھر میں نے کافی وقت وہاں گزارا۔ چھٹی کے وقت قطاریں بنائے ایک ڈسپلن میں ان کی گھروں کو روانگی کا منظر بھی دیکھا اور مجھے پل پل گڑیا یاد آتی رہی۔

کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر اپنی نوعیت کا سندھ میں واحد ادارہ ہے جو بہترین طریقے پر نہ صرف ان بچوں کی ذہنی اور فنی صلاحیتوں کو نکھار رہا ہے بلکہ بہترین زندگی گزارنے کے لیے مختلف امور کے متعلق آگاہی اور مطلوبہ امداد بھی فراہم کررہا ہے۔ان بچوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے اور انفرادی طور پران کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے لیے پوری ٹیم جس میں ٹیچرز ، ٹرینر،کوچ ، سائیکاٹرسٹ ، ڈاکٹر، غرض بہت سے افراد کی انتھک محنت سے ایک بچے کی تمام تر صلاحیتیں باہر آتی ہیں اور بلا شبہ یہ لوگ مثالی کردار ادا کررہے ہیں اور ان میں سے بیشتر ٹرینیز کو بڑے ادارے جاب بھی آفر کرتے ہیں۔

اس وقت kvtcکے ٹرینڈ کیے ہوئے تقریباََ پانچ سو ہنر مند مختلف اداروں میںکام کررہے ہیں جن میں اینگرو، یونی لیور، اٹک پٹرولیم، ایچ ،ایس ، بی، سی، مسٹر برگر،ایکسپریسو شامل ہیں۔ ان بچوں کے درمیان رہ کر انسان خود کو زندگی کے بہت قریب محسوس کرتا ہے، اور جان لیتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ، جو ملک کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارکیے جا رہے ہیں۔ واپسی سارے سفر میں ، میں یہی سوچتی رہی کہ گڑیا کو ایسا ادارہ مل جاتا تو اس کی زندگی کتنی الگ ہوتی، عمر تو بہرحال جتنی لکھوا کر آئی تھی اتنی ہی رہتی مگر زندگی بہت الگ انداز سے گزارتی۔

The post معصوم ذہانت appeared first on ایکسپریس اردو.

خطرہ

$
0
0

قابل اجمیری کا معروف شعر ہے:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان کوئی آن کی آن میں نہیں بن گیا، اس کے لیے کئی نسلوں نے قربانیاں دیں، برسوں سختیاں جھیلی گئیں،کیا بچہ کیا بوڑھا ،کیا مرد کیا عورت ، سب نے آگے بڑھ کر تن من دھن سب قربان کردیا۔ یہ بہت پرانی بات نہیں بس 70برس پہلے کی بات ہے، جب لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ تج کر یہاں آئے۔ بہت سے چلے مگر پہنچ نہ سکے، ہزاروں گھرانے برباد ہوگئے۔

کسی کا باپ کسی کا بیٹا کسی کی بیوی کسی کی بہن اورکسی کی ماں قربان ہوئی، یہ اتنی پرانی بات نہیں کہ اس قدر جلدی بھلا دی جائے، یہ قربانیاں جن کے نقوش اب بھی لوگوں کے دلوں پرکندہ ہیں کیا اتنی جلدی بھلائی جا سکتی ہیں، یہ قربانیاں کس لیے تھیں کیا ان سیاستدانوں کے لیے جن کے مفاد پر کوئی گزند لگتی ہے تو انھیں ملک فوراً خطرے میں نظرآنے لگتا ہے، کسی کی کرسی جاتی ہے تو اسے ملک خطرے میں نظرآتا ہے،کسی کوکرسی نہیں ملتی تو اسے ملک خطرے میں نظرآتا ہے، حتیٰ کہ کسی کو جوتا پڑ جاتا ہے تو بھی ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے اورکچھ قلم فروشوں کو ملک میں خانہ جنگی نظرآنے لگتی ہے، کیا یہ ملک ان ضمیرفروشوں کی جاگیر ہے؟

یہ سیاستدان جو ہر روز پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور صرف کرسی کے لیے اس کھیل تماشے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے لیے ملکی سلامتی کے خلاف باتیں کرنے پرکس طرح چوک سکتے ہیں، اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتے تو شاید ان ایوانوں میں پھٹک بھی نہیں سکتے تھے جسے آج یہ گھر بنائے بیٹھے ہیں، ان کا تو دین ایمان ہی نہیں ہے، اگر ہوتا توآج جو بے حرمتی انھوں نے اپنے مینڈیٹ کی، کی ہے وہ کرنے سے پہلے کم ازکم مستعفی ہی ہو جاتے۔ آج سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں غیرنمایندہ ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میںبھی لوٹا کریسی ہوئی۔

یہ جن کے ٹکٹ اور نام پر پارلیمنٹ میں آئے ان سے غداری کی تو مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا مگر دیکھا جائے تو اب ان اسمبلیوں کی کیا قانونی حیثیت ہے بلکہ بعض پارٹیوں کی بھی کوئی قانونی حیثیت باقی نہیں رہی۔

ایم کیوایم اس کی مثال ہے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی پی ایس پی کی اخلاقیات بھی دیکھیے پہلے تھالی میں چھیدکیا اور پھر غیرنمایندہ ہونے کے باوجود سینیٹ الیکشن میں حصہ بھی لے لیا، یہ ایمان ہے ان کا، آئینہ دیکھتے ہوں گے تو کیا نظر آتا ہوگا اور اگر الگ ہوہی گئے تھے تو وہاں سے جوکچھ ملا سب کچھ واپس کردیا ہوتا، مگر ایسا نہ کرنا ہی ضمیرفروشی کہلاتا ہے، پی آئی بی اور بہادر آباد بھی اخلاقی پستیوں میں ہیں، بلوچستان اسمبلی میں راتوں رات جو ہوا اسے کیا کہیے گا، خیبر پختونخوامیں بھی رات دن یہی کھیل ہو رہا ہے، ایک وزیراعظم بھی نااہل ہوگیا، اس کے بھی کئی ساتھی ساتھ چھوڑ گئے۔

2013 میں جب انتخابات کے بعد اسمبلیاں آئی تھیں وہ وہ نہیں جو آج ہیں، جن کے نام پر ووٹ لیے گئے تھے ان میں سے ایک بڑا سیاسی کردار ختم، دوسری بڑی پارٹی کا لیڈر قانونی طور پر نااہل ہوا،چند ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی، نئی پارٹیاں بننے کے ساتھ ایک صوبے میں تو حکومت بھی بدل گئی بلکہ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت نا اہلی کے بعد جس طرح جلسے کر رہے ہیں اس سے لگتا ہی نہیں کہ وہ حکومت میں ہیں اور جب انھیں بھی لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، حکمرانی ان کی جماعت کی نہیں کسی اور کی ہے، زورکسی اور کا چل رہا ہے، فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں، حکومت کوئی اور چلا رہا ہے تو پھر وہ نام کو بھی اقتدار سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔

کیا چیز انھیں تازہ مینڈیٹ لینے سے روکے ہوئے ہے، حقیقت میں اس وقت جو ایکویشن ہے وہ واضح کرتی ہے کہ عوام نے 2013 میں جس طرح جن پارٹیوں کو جیسے بھی مینڈیٹ دیاتھا وہ اب ویسا نہیں رہا بلکہ سیاستدانوں کے پارٹیاں بدلنے سے عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی ہے، پھر یہ فوری طور پر اسمبلیاں توڑ کر عوام سے رجوع کیوں نہیں کرتے، یہ عجیب بات ہے کہ اقتدار میں نہ ہونے کا راگ آلاپ رہے ہیں اور اپنے سے ظلم وزیادتی کا ہرجگہ واویلا کر رہے ہیں مگر جسے یہ عوامی عدالت کہتے ہیں اس عدالت سے انصاف لینے کے لیے جاتے بھی نہیں، انھیں کس چیز کا انتظار ہے کیا یہ ٹکٹ پر لگے پیسے پورے کرنے چاہتے ہیں۔

کیوں نہیں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرتے، کیوں نہیں فریش مینڈیٹ لیا جاتا، جمہوریت کا راستہ تو یہی ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ باقی نہ رہے اور اس میں کوئی حائل ہو جائے تو ایک بار پھر عوام سے رجوع کیا جائے، یہ عین قانونی اور جمہوری راستہ ہے، موجودہ اسمبلیوں میں تو اس قدر خریدوفروخت ہوئی کہ اس کی سیاسی ساخت ہی بدل گئی ہے، اس کے بعد تو انتخابات نہایت ضروری ہو گئے ہیں مگر چونکہ یہ حقیقت میں غیرنمایندہ ہیں اور ڈلیور کرنے کے اہل نہیں اس لیے انھیں عوام سے رجوع کرنے سے خوف آتا ہے کیونکہ آج اسمبلیوں میں موجود بہت سے نام نہاد ’منتخب‘ لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹ گیا ہے۔

وہ کھل کر سب کے سامنے آ گئے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب وہ پھر سے یہاں نہیں آ سکتے، اسی لیے وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے جمہوری راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ انھیں خود کو بچانے کے لیے ملک خطرے میں نظرآنے لگتا ہے، یہ اخلاقی بدحالی اور مردہ ضمیری کی واضح مثال ہے لیکن ان کی تمام چالیں ہی ناکام ہو گئی ہیں وہ خود کو بچانے کے لیے جس قدر آگے بڑھ رہے ہیں اور جو چال بھی چلتے ہیں وہ الٹی پڑتی ہے اور وہ اور زیادہ عریاں ہو جاتے ہیں، صد شکر ہے کہ ان کی تمام چالیں عوام کو شعور دے رہی ہیں اور اسی شعور سے آج وطن عزیز مزید محفوظ اور توانا ہوتا جا رہا ہے، عاقبت نااندیش سیاستدانوں کی مفاد پرستی کے ساتھ بیرونی دشمن بھی بے نقاب ہو رہا ہے لیکن نااہل حکمرانوں نے ملکی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی، بھارت کو لگام دینے کے لیے سفارتی محاذ پر کوئی سرگرمی نظرنہیں آتی۔

بنگلہ دیش اور افغانستان کی حرکتوں کے خلاف بھی کوئی کام سامنے نہیں آیا، امریکی دھمکیوں کو بھی خاموشی سے برداشت کرلیاگیا، دہشت گردی کی مالی معاونت کی فہرست میں شمولیت کی تلوار لٹکنے تک کوئی حکمت عملی بھی سامنے نہیں آئی اور آج بھی بغلیں جانکیں جا رہی ہیں، لگتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس بیرونی محاذ پر لڑنے کی کوئی پالیسی ہے نہ سمت، انھیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔

حال ہی میں کشمیر کے محاذ کو کشمیریوں نے گرم کیا، پوری وادی میں کشمیری اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوگئے مگر ہم نے اخلاقی وسفارتی محاذ پرکیا کیا، پرامن کشمیریوں کو اس وقت صرف سفارتی محاذ پر سپورٹ کرنے سے بہت زیادہ کامیابی ملنے کی امید ہے مگر حکومت کی پالیسی 5 فروری کی چھٹی کے سوا کیا رہی بلکہ اقوام متحدہ میں تصویر لہرانے کے اسکینڈل کے ذریعے اس اہم کاز کا نقصان پہنچایا گیا، جن حکمرانوں کے منہ سے دنیا دکھاؤے کو بھی دشمن کا نام نہیں نکلتا یہ اسے آنکھیں کیا دکھائیں گے۔

آج وطن کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ نااہل حکمران اور سیاستدان ہیں جن کے پاس کوئی سوجھ بوجھ ہی نہیں، جو ذاتی مفاد کے لیے اقتدار و اختیار کی جنگ لڑ رہے ہیں پارٹی بدلنا تو ایک طرف یہ تو اس کے لیے کچھ بھی کرگزرتے، بہت زیادہ صاف ستھرے سمجھے جانے والے سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے، اسلام آباد سے منتخب ہونے والا ایک سینیٹر اس کی واضح مثال ہے، پھر کس پر تکیہ کریں اور کس کے لیے قسم کھائیں، یہاں تو حمام میں سب ہی ننگے ہیں، بہتر یہی ہے کہ ملکی مفاد سے بے خبر ان بلائے جان نماسیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جس کا واحد حل انتخابات ہیں۔

The post خطرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اسوہ صدیق اکبرؓ

$
0
0

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تمام اصحاب رسول ﷺ میں بڑی عظمت و بزرگی حاصل ہے۔ آپؓ کا نام عبداللہ، لقب صدیق و عتیق اورکنیت ابو بکر تھی۔ آپؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ صدیق اکبرؓ اپنی قوم میں ہر دل عزیز اور علم الانساب کے ماہر تھے۔ قریش مکہ کے تمام خاندانوں کے نسب انھیں زبانی یاد تھے۔ آپ خلیق، ایماندار اور ملنسار تاجر تھے۔ لوگ آپ کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ برتاؤ کے معترف تھے۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول کریم ﷺ سے تقریباً سوا سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کا خاندان بنی تیم مکہ کے معزز خاندانوں میں سے تھا۔ اخلاق و عادات کے اعتبار سے آپ حضور ﷺ سے بہت مشابہ تھے۔ بچپن ہی سے رسول اکرم ﷺ کے مخلص دوست تھے، پوری عمر نبی رحمت دوجہاں ﷺ کے ہمدم و ہم نشین رہے، یہ خصوصیت کسی اور صحابی کو حاصل نہیں۔ آپؓ مکہ کے باوقار، معزز اور سنجیدہ ترین لوگوں میں سے تھے۔ تجارت آپ کا ذریعہ معاش تھی، کاروبار نہایت دیانتداری کے ساتھ کرتے تھے۔ شہر کے مال دار لوگوں میں آپ کا شمار تھا۔ جب رسول مکرم ﷺ نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے صدیق اکبرؓ کو قبول اسلام کی دعوت دی جسے آپؓ نے بلا جھجک قبول کرلیا۔

صدیق اکبرؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے خود فرمایا ’’میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی، اسے قبول کرنے میں کچھ نہ کچھ جھجک ضرور ہوئی، سوائے صدیق اکبرؓ کے۔‘‘

قبول اسلام سے پہلے بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ نہ باطل عقیدہ میں مبتلا رہے اور نہ کبھی جھوٹ بولا، نہ کبھی شرک کیا اور نہ ہی کبھی شراب پی، دل و زبان کی اس سچائی کی بدولت آپؓ کا لقب صدیق قرار پایا۔ سب سے پہلے آپؓ ہی نے واقعہ معراج کی تصدیق کی۔

ابو بکرؓ بذات خود، آپ کے والد، آپ کے بیٹے اور پوتے، سب رسول کریم ﷺ کے زمانے ہی میں ایمان لاچکے تھے، گویا آپؓ کی چار پشتیں صحابی ہیں، یہ امتیاز کسی اور صحابی کو حاصل نہیں ہے ۔ قبول اسلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہر دور اور ہر حال میں نبی کریمﷺ کے ساتھی اور مددگار رہے۔ اپنا تمام مال و متاع اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے وقف کردیا۔

حضرت ابو بکرصدیقؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے۔ آپؓ نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپؓ کی مساعی سے بہت جلد بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، حضرت طلحہ بن عبداللہ، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت سعد بن زیدؓ آپ ہی کی کوششوں سے اسلام لائے۔ صدیق اکبرؓ نے اپنا مال ومتاع غریب لوگوں پر دل کھول کر خرچ کیا۔

ہجرت کے بعد حضرت ابوبکرؓ تمام غزوات میں شریک ہوئے، غزوہ بدر میں آپؓ نے اسیران بدر کی سفارش کی۔ نبی رحمت ﷺ نے آپ ہی کے مشورے پر تمام قیدی زرفدیہ کے عوض رہا کردیے، غزوہ تبوک کے موقعے پرگھر کا سارا سامان اٹھا لائے فتح مکہ کے دوسرے سال رسول کریمﷺ نے صدیق اکبر کو امیر حج مقرر فرمایا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی علالت کے دوران حضرت ابو بکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد جانشینی کا مسئلہ فتنے کی صورت اختیار کرنے والا تھا کہ صدیق اکبرؓ نے ذاتی تدبر اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اسے حل کیا۔ مسلمانوں نے باہمی اتفاق رائے سے آپ کو مسند خلافت کے لیے منتخب کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! مجھے تمہارا امیر منتخب کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، میں نے حکومت اور امارات کی کبھی خواہش نہیں کی، نہ خلوت میں نہ جلوت میں، اب جب کہ میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں تو میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میں اچھے کام کروں تو تم میری مدد کرنا اور اگر مجھے برائی کی طرف دیکھو تو میری اطاعت تم پر لازم نہیں، بلکہ مجھ سے باز پرس کرنا۔

سچائی امانت ہے جب کہ جھوٹ خیانت ہے۔ جو قوم خدا کی راہ میں جہاد ترک کردیتی ہے، خدا اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ جس قوم میں برائیاں اور گناہ پھیل جاتے ہیں، خدا کی جانب سے اس پر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کروں تو تم بھی میری پیروی کرنا، اگر میں اس کے خلاف چلوں تو تم پر میری پیروی لازم نہیں۔‘‘

خلیفہ بننے کے بعد آپ کے فیصلوں نے جو حکمت و بصیرت سے بھرپور تھے، تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ ڈالا۔ صدیق اکبر نے پہلے خلیفہ کی حیثیت سے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ لشکر اسامہ شام کی جانب روانہ ہو حالانکہ اس موقعے پر صحابہ کرام نے یہاں تک کہ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی مخالفت کی لیکن آپ کے عزم اور استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا اور اس لشکر کی کامیابی کے بعد آپ دوسرے مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔

دوسرا مسئلہ اسلام سے پھرنے والے مرتدین یا فتنہ ارتداد کا تھا۔ آپ نے سب کو ایک ایک کرکے راہ راست پر لانے کی کوشش کی، جنھوں نے آپ کا حکم نہیں مانا، ان کے خلاف جہاد کیا۔ مرتدین کے خلاف جنگوں میں ’’جنگ یمامہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، ان میں اکابرین صحابہ اور حفاظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شامل تھی آپ نے مدعیان نبوت کے خلاف بھی جہاد کیا اور ان کی سرکوبی کی، ان میں مسلیمہ کذاب طلیحہ اسری، اسود عنسی اور ایک خاتون سباح شامل تھی۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سامنے منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ بھی تھا، آپ نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ غرض صدیق اکبر نے اپنے مختصر دور خلافت میں ملک میں امن و امان قائم کیا اور بہترین انتظام سلطنت کے ساتھ ساتھ ایسی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ آپ نے اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی طرف خصوصی توجہ دی اور انھیں دشمنوں سے محفوظ کرنے کے لیے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔

آپ کے دور خلافت میں قیصر کسریٰ یعنی روم اور ایران کی عظیم الشان سلطنتوں کی جانب مسلمانوں کی پیش قدمی شروع ہوئی اور آپ کے بعد آنے والے خلفا نے ان فتوحات کو مزید آگے بڑھایا اور ایشیا اور افریقہ کا بہت بڑا علاقہ اسلامی قلم رو میں شامل کیا۔

ابو بکر صدیقؓ کے عہد کا ایک اہم کارنامہ جمع و تدوین قرآن حکیم ہے۔ جنگ یمامہ میں حفاظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی تھی۔ یہ ایسا نقصان تھا جس کی تلافی ممکن نہ تھی اور یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ قرآن محفوظ نہیں رہے گا۔ ان حالات میں حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یہ مشورہ دیا کہ قرآن حکیم کی تمام تحریریں جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ہڈیوں، لکڑی، پتھر اور پتوں وغیرہ پر لکھی گئی تھیں، انھیں اسی ترتیب سے جمع کردیا جائے تاکہ قرآن حکیم محفوظ ہوجائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے یہ مشورہ قبول کرلیا اور رسول کریم ﷺ کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو اس کام پر مقرر کیا اس طرح قرآن حکیم کتابی شکل میں جمع ہوگیا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول مکرم ﷺ کی وفات کے بعد صرف دو برس تین ماہ اور گیارہ دن زندہ رہے۔ 22 جمادی الآخر 13 ہجری، پیر کے دن عشا اور مغرب کے درمیان آپؓ خالق حقیقی سے جا ملے، وفات کے وقت عمر مبارک 63 سال تھی۔ آپ کی مدت خلافت دو برس، تین ماہ اور گیارہ دن رہی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نبی آخر الزماں ﷺ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

The post اسوہ صدیق اکبرؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی شکستیں

$
0
0

ملک کی تاریخ میں عوام نے چھ نشستوں کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوتے دیکھا وہیں حکومتی اتحاد کے امیدوار کی شکست بھی دیکھی ۔ قوم نے یہ بھی دیکھا کہ دو روز قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کوکسی صورت بھی ووٹ نہ دینے کا اعلان کرنے والے عمران خان بھی ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر پی ٹی آئی کے ووٹ دلانے پر مجبور ہوئے کہ کہیں مسلم لیگ یہ چھوٹا عہدہ ہی حاصل نہ کرلے۔

عمران خان اسی سلسلے میں اتنے تو ضرورکامیاب ہوئے کہ حکومت کے دونوں امیدوار ہار گئے مگر ڈپٹی چیئرمین پیپلزپارٹی کا منتخب کراکر اپنی بائیس سالہ جدوجہد پر بھی سوالیہ نشان لگوالیا اور ان پر پیپلزپارٹی کی حمایت کا الزام بھی لگ گیا جب کہ انھوں نے چند ماہ بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف انتخاب بھی لڑنا ہے۔

اصولوں کے برخلاف خفیہ سمجھوتے سیاست میں ہونا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اصولوں پر تو سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ اصولوں کے محض دعوے کرنے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی شامل ہیں اور ان تین بڑے سیاست دانوں کے اصول بدلتے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں اور امید یہی ہے کہ مستقبل میں بھی بدلتے رہیںگے۔

میاں نواز شریف پاناما کی بجائے اقامہ پر اپنی نااہلی کے بعد وزارت عظمیٰ کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے سیاست میں رہنے کے لیے قوم کو، ووٹ کوعزت دو کا بیانیہ دے دیا جو واقعی مقبول بھی ہورہا ہے اور ملک میں بدلتی صورتحال پر عوام بھی اپنی مرضی کی رائے زنی کررہے ہیں اور وہ بھی اب اتنی سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ہوگئے ہیں کہ سمجھ سکیں کہ کون درست ہے اور کون غلط اور کون اپنے مفاد کے لیے کیا کر رہا ہے۔

عوام کو یہ بھی مسلم لیگ ن کی طرف سے بتایا جارہاہے کہ سارے فیصلے ان کے خلاف آرہے ہیں اور ان کے قائد کو اپنی بیرون ملک زیر علاج بیگم کی عیادت سے روک لیا جاتا ہے اور عمران خان کو حاضری سے استثنیٰ مل جاتا ہے۔ عدالتی اور بالاتروں کے فیصلے اپنی جگہ میں شکستوں سے دو چار نواز شریف بھی سیاست میں رہنے کے لیے جو فیصلے کررہے ہیں وہ بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔

مسلم لیگ کی صدارت جانے کے بعد انھوں نے تو اپنا نام بھیچھین لینے کی بات کی تھی جو ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ نام سیاست میں آنے سے قبل ان کے والدین نے رکھا تھا اور انھیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ نواز شریف تین بار وزیراعظم بننے کے بعد برطرف ہوگا۔ نواز شریف کے والدین نے انھیں جو نام دیا تھا وہ تو محفوظ رہے گا مگر ان کی سیاست انھیں کیا نشیب و فراز دکھائے گی وہ ڈکٹیشن نہ لینے کے دعویدارکو بھی توقع نہیں تھی۔

نااہلی کے سات ماہ گزرنے کے بعد ماضی کا وزیراعظم وفاق اور پنجاب میں بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود مشکلات اور شکستوں سے دو چار ہے اور حیرت انگیز طور پر مستقبل کی منصوبہ بندی میں مختلف چیلنجز نظر آ رہا ہے۔

عدالتوں ، چیف الیکشن کمشنر سے انھیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا جیسا ریلیف ملک کے عوام ان کے دور اقتدار میں چاہتے تھے۔ سینیٹ میں نواز شریف کی حالیہ شکست میں جہاں بھاری اور بالادست کا کردار موثر ثابت ہوا ہے وہاں مسلم لیگ ن بلوچستان میں اپنی حکومت کے اچانک صدمے ہی میں تھی، ان کے اپنوں کی بغاوت سے مسلم لیگ ق کا وہاں وزیراعلیٰ آگیا جس نے پیپلزپارٹی کی قربت حاصل کرکے ن لیگ کے خواب چکنا چور کرا دیے اور سینیٹ میں ن لیگ بلوچستانی بغاوت کے باعث اکثریت نہ لے سکی۔

اور بالادستوں نے سینیٹ میں اس شخص کے نعرے لگوادیے جو انھیں ماضی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا خواہاں تھا مگر اس نے آنے والے حالات کا ادراک کرکے نہ صرف خود کو بچایا بلکہ اپنی پارٹی کی سیاست بھی بچالی جب کہ نواز شریف سے یہ بھی نہ ہوسکا اور وہ شکستوں کے بعد اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ غلط فیصلوں سے میاں صاحب کا اقتدار اور ن لیگی صدارت تو گئی مگر بعدازاں وہ اپنی پارٹی کی قیادت کرتے رہیںگے یا کوئی ان کی قیادت کو بھی عدالت میں چیلنج کردے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

آصف زرداری نے اپنے فیصلوں سے جہاں اپنے لیے راہ ہموار کرلی اور عمران خان کے اصول ختم کرادیے وہاں نواز شریف کے لیے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بہت اہم تھا جو آصف زرداری کی سیاست سے پیپلزپارٹی دونوں عہدے لینے میں کامیاب رہی۔ میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے والے آصف زرداری نے مسلم لیگ کی حمایت کے باوجود دوبارہ نامزد نہیں کیا اور چھ سینیٹروں کے گروپ کو چیئرمین بنواکر بلوچستان کو پہلی بار یہ عہدہ دلادیا ، نواز شریف کو بھی چاہیے تھا کہ وہ راجا ظفر الحق کی بجائے بلوچستان ہی کے اپنے اتحادی حاصل بزنجو کو نامزد کرتے۔

بلوچستان میں پہلے ہی حق نہ ملنے کا احساس ہے ایسے میں پنجاب کے راجا ظفر الحق کو نامزد نہ کیا جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت یہاں بھی اس بلوچ سے مات کھاگئی جس نے اپنی صدارت میں بلوچستان سے معافی ضرور مانگی تھی مگر دیا کچھ نہیں تھا اور پنجاب ہی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا مگر آج وہ سرحد کو کے پی کے بنواکر اور اب بلوچستان چیئرمین سینیٹ منتخب کراکر بلوچستان میں بھی اپنے نمبر بڑھاچکے ہیں جب کہ پنجاب کے دعویداروں کو پنجاب میں بھی سیاسی وفاداریاں بدلتی نظر آ سکتی ہیں۔

The post سیاسی شکستیں appeared first on ایکسپریس اردو.

نواز شریف سے یہ سلوک؟ افسوس!!

$
0
0

نارووال، سیالکوٹ اور لاہور میں مسلم لیگ نون کے تین لیڈروں سے یکے بعد دیگرے جو بد سلوکی اور بیہودگی کی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ آیاہمارے دلوں میں کسی پاکستانی کی کوئی عزت، کوئی توقیر، کوئی حُرمت باقی رہ گئی ہے؟ایک دنیا سناٹے میں ہے۔ ہمارے ایک عظیم شاعر کو کئی عشرے قبل جب لینن امن انعام سے نوازا گیا، ہم نے اجتماعی سطح پر اُس کی بھی پگڑی اچھال دی تھی۔ اُسے ’’اشتراکیوں اور ملحدوں کا ایجنٹ‘‘ کہا گیا۔

ساری دنیا میں اُس کا احترام کیا جارہا تھا اور ہم اُسے راندئہ درگاہ قرار دینے پر تُلے بیٹھے تھے۔ ہمارے دو پاکستانیوں کو نوبل انعام ایسے عالمی اعزاز سے نوازا گیا، تب بھی ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی جنہوں نے اِ س اعزاز کو اپنا اعزاز اور اپنی خوشی کہا۔ دونوں کے بارے میں ہمارے ہاں بالعموم یہ بات بکثرت کہی گئی کہ ’’مغرب نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ان دونوں کو نوبل انعام سے نوازا ہے۔‘‘

صرف وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی میں یہ مناظر رُونما نہیں ہُوئے، باقی عالمِ اسلام کا بھی کم وبیش یہی حال دیکھا گیا ہے۔ مصر کے ڈاکٹر نجیب محفوظ کو ادب کا، بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کو معاشیات کا، ایران کی ڈاکٹر شیریں عبادی کو امن کا اور ترکی کے اورہان پامک کو ادب کا ۔۔۔۔اِن سب نامور مسلمانوں کو نوبل انعام دیے گئے لیکن اُن کے اپنے اپنے ممالک  میں کسی کا بھی قومی سطح پر اکرام نہیں کیا گیا۔ سب کو مشکوک، مغرب اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کا خطاب دے دیا گیا۔ مصری ادیب ڈاکٹر نجیب محفوظ کو تو مصریوں نے خنجر مار دیا تھا۔افسوس، صد افسوس!!

بیہودگی کرنے والوں نے نہ تو ہمارے وزیر داخلہ کو چھوڑا ہے، نہ ہمارے وزیر خارجہ کو اور نہ ہی تین بار وزیر اعظم بننے والے صاحب کو۔ پہلے احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا، پھر خواجہ آصف پر کالی سیاہی پھینک دی گئی اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ نواز شریف کی طرف بھی جوتا اچھال دیا گیا۔ اُن کے کندھے پر لگا لیکن ضبط اور صبر دیکھئے کہ نواز شریف کی زبان سے حملہ آور کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہ ہُوا۔ وہ پریشان تو یقیناً ہُوئے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مَیں نے یہ منظر ٹی وی پر دیکھا تو،سچی بات ہے، ششدر رہ گیا۔

معاً سوچا: وہ شخص جو تین بار ہمارا وزیر اعظم رہ چکا ہے، کیا ہم اُس کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک بھی کر سکتے ہیں؟ اور یہ بد سلوکی بھی کہاں کی گئی؟ لاہور کے ایک محترم اور معروف دینی مدرسے میں۔ گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ میں۔مفتی محمد حسین نعیمی علیہ رحمہ ایسے مہذب، شائستہ مزاج اور درویش صفت ممتاز ترین عالمِ دین نے جس کی بنیادیں رکھیں۔ سارے لاہور میں جو محبت اور اپنائیت کی علامت تھے۔ سارے ملک میں جو اتحادِ امت کے غیر متنازع داعی تھے۔ جامعہ نعیمیہ کی حدود میں جناب نواز شریف سے یہ بدتمیزی کی گئی ہے تو دل بہت اداس ہے کہ یہ وہ مدرسہ ہے جہاں دہشتگردوں اور انتہا پسندوں نے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب علیہ رحمہ کے عالم فاضل فرزند ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو شہید کر دیا تھا۔ جس فرش پر ڈاکٹر سرفراز شہید کا لہو بہا تھا، اب وہیں پر انتہا پسندی کا یہ منظر اُبھرا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے سپریم لیڈر کی طرف جوتا اچھال دیا گیا ہے۔ افسوس، ہائے افسوس، صد افسوس!!

جامعہ نعیمیہ صوفیا اور محبتوں کا مرکز ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا منفرد محور۔ یہاں سیکڑوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیںلیکن اِس کے موجودہ مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب دامت برکاتہ نے کبھی اس کا اشتہار نہیں بنایا۔جرمن اور امریکی سفارتکار بھی روشنی اور ہدایت کی تلاش میں یہاں حاضری لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر  لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں افراد، بِلا مبالغہ، اس دلکشا درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اِس توسط سے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب شہید کے درجات بھی مسلسل بلند ہورہے ہیں اور اُن کے قبر کا نُور بھی بڑھتا جارہا ہے۔

ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔یہ واقعہ نہیں، دلفگار سانحہ ہے۔دنیا بھر میں ہماری ندامت اور شرمندگی کا باعث۔ حملہ آور شاید نادم ہیں نہ شرمندہ۔ چھ دن گزر گئے ہیں لیکن نواز شریف پر جوتا پھینکنے والا منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا۔ ظالمو!تم نے مسجد اور مدرسے کی تقدیس اور عظمت کی بھی پرواہ نہیں کی؟پھر تم میں اور اُن لوگوں میں کیا فرق رہ گیا ہے جنہوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کیا تھا؟ جناب ڈاکٹر راغب نعیمی سے فون پر دو بار بات ہُوئی تو انھیں سخت رنجیدہ اور مجروح قلب پایا۔انھیں اِس امر کا زیادہ صدمہ تھا کہ اُن کے گھر آئے معزز اور معروف مہمان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔

وہ ایک اُردو معاصر میں شایع ہونے والی ایک خبر پر بھی کفِ افسوس مَل رہے تھے جو، بقول اُن کے، بے بنیاد بھی تھی اور کردار کشی کے مترادف بھی۔ ناراضی سے کہہ رہے تھے: ’’اِس میں رتّی بھر صداقت نہیں ہے۔‘‘ خبر میں کہا گیا تھا کہ جامعہ نعیمیہ کے بہت سے ذمے داران اور وابستگان قطعی نہیں چاہتے تھے کہ نواز شریف، مفتی محمد حسین نعیمی صاحب مرحوم کے عرس میں شریک ہوں۔ میرے استفسار پر ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے بتایا:’’یہ بالکل غلط بات لکھی گئی ہے۔ ہم نعیمی فیملی، جس میں میرے بزرگ چچا تاجور نعیمی صاحب بھی شریک اور شامل تھے، کا متفقہ فیصلہ تھا کہ میاں نواز شریف صاحب کو عرس میں شرکت کرنی چاہیے۔‘‘راغب صاحب کو یہ بات زیادہ مرغوب ہے کہ وہ کسی پر تہمت عائد نہ کریں۔ کئی دیگر افراد کی طرح وہ بھی شائد یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ کوئی منظّم،  مربوط اور منصوبہ بند گروہ نون لیگی قیادت پر حملہ آور ہے۔

یہ انفرادی اقدام کہے جا سکتے ہیں۔ اپنی تمام تر احتیاط پسندی کے باوصف ڈاکٹر راغب صاحب دو تین اطراف میں شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔ معلوم نہیں حقیقت کیا ہے؟ جن تین ملزموں کو میاں صاحب پر حملے کے الزام میں پکڑا گیا ہے، ممکن ہے اُن سے پوچھ گچھ کے دوران کوئی سرا مل جائے۔ ہمارے ہاں مگر مروّج مشہور ٹالرنس، رواداری کو دھچکا ضرور لگا ہے۔ مکالمے کے بجائے، گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین بھی اِس ضمن میں دُکھی اور دلگیر نظر آرہے ہیں۔

اِس سانحہ کے دوسرے روز چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا رَن پڑا ہُوا تھا۔ اس لیے یہ معاملہ میڈیا میں نسبتاً دَب کر رہ گیا۔مگر رُوح اور دل پر لگے پھَٹ کون بھر سکے گا؟ سینیٹ میں نواز شریف کے امیدوار کا ہار جانا میاں صاحب کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔شائد تیسری شکست۔ جو قوتیں بلوچستان میں نواز شریف کے وزیر اعلیٰ (ثنا اللہ زہری) کو ہٹا کر اپنا وزیر اعلیٰ(قدوس بزنجو)لے آئی تھیں، وہی اب اپنا چیئرمین سینیٹ (محمد صادق سنجرانی) بھی منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ صد سلام ہے ایسی جمہوریت کو!!

The post نواز شریف سے یہ سلوک؟ افسوس!! appeared first on ایکسپریس اردو.


نیرنگیٔ سیاست تو دیکھیے

$
0
0

جمہوریت کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں ایک بار عوام کے ووٹ سے جو شخص قانون ساز اداروں کا رکن منتخب ہوجاتا ہے تو پھر وہ ذاتی مفاد کے گورکھ دھندے میں اس طرح پڑجاتا ہے کہ اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ عوام سے اس نے ووٹ کن وعدوں پر لیے تھے اور عوام نے اسے ووٹ کن شرائط پر دیے تھے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کا اعجاز یہی ہے کہ اس جمہوریت میں منتخب نمایندوں کی ترجیح ذاتی مفادات بن جاتی ہے اور عوام کے مسائل ثانوی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر انتخابات لڑنے والی پارٹیاں عوام کے سامنے اپنا ایک منشور پیش کرتی ہیں جن میں عوام کے مسائل کا اور ان کے حل کا ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے اس کے بعد انتخابی مہم کے دوران بھی عوام سے ان کے مسائل حل کرنے اور ان کی تقدیر سنوارنے کے بے شمار وعدے کیے جاتے ہیں۔ ان وعدہ خلافیوں ان بددیانتیوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔

ستر سال پہلے عوام کے مسائل حل کرنے کے اہل سیاست نے جو وعدے کیے تھے جن میں بھوک، بیماری، بیروزگاری، غربت تعلیم اور علاج جیسی سہولتوں کی فراہمی سرفہرست تھی۔ اس دوران میں کتنے منتخب نمایندے آئے اور گئے کتنی منتخب حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوام کے مسائل روز اول کی طرح تر وتازہ عوام کے سامنے موجود ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹ لینے سے پہلے عوام کی زندگی بہتر بنانے کے وعدے کرنے والے سارا وقت اپنی زندگی بہتر بنانے میں صرف کردیتے ہیں۔ عوام بے چارے اس بددیانتی کو دیکھتے ہیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے کیونکہ ان کے ووٹوں پر پل کر جوان ہونے والے اس قدر طاقتور ہوجاتے ہیں کہ اگرکوئی ووٹر ان کے خلاف زبان کھولے تو اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ منتخب نمایندوں کو خدا کا خوف ہو لیکن اکثریت وعدہ خلاف، مفاد پرست اور خودغرض ہی ہوتی ہے۔

چیئرمین سینیٹ ایوان بالا کا سربراہ ہوتا ہے اس کی بڑی ذمے داریاں ہوتی ہیں، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی پچھلے عرصے میں غیر متنازعہ ہی نہیں بلکہ ساری جماعتوں کے لیے قابل قبول رہے۔ جب ان کی مدت ختم ہو گئی تو نئے چیئرمین کے انتخابات کا مرحلہ پیش آیا ہے ابھی حال میں سینیٹروں کا انتخاب ہوا اور میڈیا سینیٹروں کی خرید وفروخت کی داستانوں سے اٹ گیا، ایک ایک سینیٹر کی قیمت کروڑوں تک پہنچ گئی۔

میڈیا میں آنے والی خبروں میں بتایا گیا کہ بلوچستان کی ساری سینیٹ بک گئی۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی خرید و فروخت کی خبریں آتی رہیں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل مذمت ہی نہیں قابل شرم ہے لیکن شرم ہو تو شرم کی بات کی جاسکتی ہے ہم تو ایسے شرم پروف ہیں کہ شرم کو بھی ہم پر شرم آتی ہوگی۔

ارکان سینیٹ ہوں، ارکان قومی اسمبلی ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ہوں، ان کے دو بنیادی کام ہوتے ہیں اول عوام کی خدمت عوام کے مسائل کا حل دوسرے عوام کے مفادات کے تناظر میں قانون سازی۔ کیا ہمارے منتخب نمایندے اپنی یہ ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی زندگی بہتر بنانے کے ذمے دار صرف اپنی زندگی بہتر بنانے میں کیوں مصروف ہو جاتے ہیں؟

اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جو لوگ انتخابی مہم پر اگر 10 کروڑ روپوں کا خرچہ کریں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ دس کروڑ کے پچاس کروڑ حاصل کرنا چاہیں گے اور اس چاہیں گے میں عوام کے مسائل عوام کی ذمے داریاں ڈوب جاتی ہیں اور بے چارے عوام حسرت سے جمہوریت کے نام پر لگنے والے یہ تماشے دیکھتے رہتے ہیں۔

اخبار کی لیڈ تھی ’’چیئرمین سینیٹ، نواز شریف رضا ربانی کے حامی، زرداری مخالف نواز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ ربانی پر اتفاق نہ ہوا تو اپنا امیدوار لائیں گے۔ فضل الرحمن زرداری سے ملے سابق صدر نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ کل جو اپنے تھے سیاسی مفادات نے انھیں پرایا کردیا۔

سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یہ حق ضرور حاصل ہے کہ وہ اس قسم کے الیکشن کے وقت اپنی طرف سے کسی بھی زید بکر کو اپنا نمایندہ مقرر کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ نمایندگی میرٹ پر ہوتی ہے؟ یا اس میں سیاسی ضرورتوں سیاسی مفادات کا دخل ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہماری پوری جمہوری تاریخ پڑی ہوئی ہے۔

ان ساری خرابیوں ان ساری برائیوں کو افراد اور جماعتوں میں تلاش کریں گے تو کچھ نہیں ملے گا ان برائیوں کو تلاش کرنا بھی ضروری ہے اور انھیں دور کرنا بھی ضروری ہے اور ہماری  عدلیہ ان حوالوں سے کوششیں بھی کر رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں عدلیہ کی کوششوں سے کچھ بہتری بھی آئی ہے لیکن وہ کہا جاتا ہے نا کہ جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی گئی ہو اس پر عمارت کو سیدھا کھڑا کرنا خیال است محال است و جنوں کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟

سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بنیادوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی طرح کرپشن موجود ہوتی ہے۔ آپ لاکھ کوششیں کرلیں لاکھ اصلاحات لائیں کرپشن سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بنیادوں میں ضرور موجود ہوگی۔ اس کو کرپشن سے پاک کرنا ہو تو دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام سے پاک کرنا ہوگا۔

ہم نے عوامی مسائل اور عوام کے منتخب نمایندوں کے کردار کے حوالے سے کالم کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں بھی وہی سرمایہ دارانہ جمہوریت نافذ ہے جو دوسرے سارے جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ پسماندہ ملکوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں کی جمہوریت میں اول سے آخر تک خواص کے مفادات کو ہی اولیت حاصل رہتی ہے عوام کے مفادات سیکنڈری ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی نافذ ہے لیکن وہاں کے عوام کے مسائل بھی حل ہوتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب نمایندوں میں اخلاقیات اور ووٹ کی ذمے داری کا کچھ نہ کچھ احساس ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے عوام میں ڈھائی سو سال کے دوران سماجی اور سیاسی شعور پیدا ہوگیا ہے وہاں کے عوام ووٹ دینے سے پہلے امیدوار کی خدمات اس کی پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں۔ ماضی میں پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور ہر طرح سے مطمئن ہوکر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کا منتخب نمایندہ ان کی آبادی کا باشندہ ہوتا ہے اور ہمیشہ عوام کی دسترس میں رہتا ہے۔

ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہمارا کوئی لیڈر کراچی میں رہنے والے کو بھاولپور سے الیکشن لڑواتا ہے اور جتواتا ہے کیونکہ کراچی کی طرح بھاولپور پر بھی اس کی بالادستی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ نام کی جو چیز بستی ہے اس کی جڑیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ جس علاقے سے چاہے اپنی بات منوا سکتی ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا اگر میں کھمبے کو بھی ووٹ دینے کے لیے کہوں تو عوام کھمبے کو ووٹ دیں گے۔ یہ جمہور کی طاقت نہیں بلکہ اشرافیہ کی طاقت ہے جو ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔

The post نیرنگیٔ سیاست تو دیکھیے appeared first on ایکسپریس اردو.

طلبا تحریک کی داستان

$
0
0

طلبا یونینوں پر پابندی کے 40 برس سے زائد وقت گزرنے کے بعد ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی کہ پاکستان کے طلبا تحریک پر ایک دلکش اور مستند کتاب  ’’سورج پہ کمند‘‘ کے نام سے سامنے آگئی ہے جو 600 صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں 110 جانبازوں کی کہانی درج ہے۔

سرورق و صورت گری سید علی واصف کی فنکاری کا جمال ہے جو عالمی شہرت یافتہ مصور صادقین کے شاگرد تھے اسی لیے اس میں تجریدی و نیم تجریدی آرٹ کا حسین امتزاج موجود ہے کہ سورج جو سرخ ہے اس پر کمند ڈالی جا رہی ہے اور انگلیاں فگار ہونے کے باوجود طالب علم کی ہمت میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔

اس کتاب کے ان گنت اوصاف ہیں، پہلا وصف تو اس کے مورخین حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے الفاظ سے مزین کیا ہے جو این ایس ایف کے دو مختلف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسن جاوید کا تعلق رشید گروپ سے ہے۔ عام طور پر اس گروپ کو چین نواز کہا جاتا تھا۔

دوسرے گروپ کو کاظمی گروپ کے نام سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ قومی اور بین الاقوامی امور پر سوویت یونین کے ہم خیال تھے۔ یہ دو دھڑے اکتوبر 1965ء میں الگ ہوئے اور اب جب دونوں گروپ عملاً ختم ہوگئے اور وقت اور سیاست کی ہوائیں رخ بدل چکی ہیں نہ روس کا وہ کمیونسٹ بلاک رہا اور نہ چین ماؤ نواز، تو آپس میں منطقی طور پر الگ الگ سوچ اور راہ کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔

سورج پہ کمند عہد بہ عہد کی بولتی مسکراتی گرجتی اور جگمگاتی تصویر ہے۔ این ایس ایف یا ڈی ایس ایف دراصل ایک ہی تنظیم کے دو رخ ہیں۔ ان طالب علم رہنماؤں کی چشم بینا صرف اپنے ملک کے عوام تک محدود نہ تھی بلکہ پیٹرس لوممبا، جبلپور میں کیے جانے والے مظالم ہوں یا ویت نام و فلسطین، حق کی آواز کراچی سے اٹھتی رہی اور پھر اس کی دھوم ملک بھر میں مچتی رہی۔

کتاب کھولتے ہی پہلے رہنما ڈاکٹر محمد سرور کے انداز گفتگو منصوبہ بندی اور اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین پر اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر سرور نہ صرف پرجوش و بہادر شخص تھے بلکہ ان کی گفتگو سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ شہر کراچی جو ملک کا دارالحکومت تھا یہاں کے عوام ان کے ساتھ تھے اور اسٹوڈنٹس لیڈر ملک کی عوامی قیادت سے جڑے ہوئے تھے اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حکمرانوں نے عوام کو کچلنا شروع کردیا پھر ایک بار طالب علم متحد ہوئے۔

جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو بام عروج نصیب ہوا مگر عوامی راج پھر بھی ایسا آیا کہ دونوں گروپ کمزور ہوگئے لہٰذا حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا کے اشارے پر ملک میں مارشل لا لگانے کا پروگرام بنا لیا اور ذوالفقار علی بھٹو گوکہ نہایت ہوشیار سیاستدان تھے ان کو بھی زیر دست بنانے کا پروگرام بنالیا مگر بھٹو صاحب اور این ایس ایف کے دونوں گروپ اس سے ناواقف تھے، اگر آپ کو موقع ملے تو اس کتاب کے اس حصے کو غور سے پڑھیں جو حسام الحق پر لکھے گئے ہیں تو آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ رشید حسن خان تو این ایس ایف کے صدر ہونے کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ اتنا نہ رکھتے تھے جتنا کہ حسام الحق رکھتے تھے بلکہ ایک موقعہ ایسا آیا کہ بھٹو  نے حسام کو پنجاب کا گورنر بنانا چاہا مگر حسام نے کسی سیاسی وجہ سے انکار کردیا (یہ جملے کتاب میں درج نہیں)۔

حسام کے علاوہ صلاح الدین گنڈا پور بھی ایک بااثر کارکن تھے جن کا اثر خیبر پختونخوا تک پھیلا ہوا تھا اور انھی دو سیاسی کارکنوں کی بنیاد پر رشید گروپ براہ راست پنجاب اور پختونخوا علاقوں میں 1983-1984ء میں بھی خاصا سرگرم تھا جب کہ کاظمی گروپ جس کو روس نواز کہا جاتا تھا وہ ہر صوبے میں وہاں کی مقامی تنظیم سے تعاون کرکے ان سے مربوط انداز میں کام کرتا تھا جیساکہ پختون علاقے میں مطیع اللہ ناشاد اور بلوچستان میں عبدالحئی بلوچ اور پنجاب میں غزالہ شبنم جو کبھی رشید گروپ میں ہوا کرتی تھیں۔

اندرون سندھ میں سندھ این ایس ایف کے روح رواں جام ساقی جو ایک دیو مالائی شخصیت کے مالک تھے غریب طبقات کے لیے کام کرنے میں ان کا مقام ہمیشہ بلند تر رہے گا۔ بات جب سندھ کے اندرونی علاقوں کی ہوگی تو اردو زبان کے معروف شاعر یونس شرر بھی یاد کیے جائیں گے جو امریکا میں مقیم ہیں انھوں نے سندھی زبان کی تعلیم جو ایوب خان نے ختم کردی تھی اس کے لیے قریہ بہ قریہ کو بہ کو مہم چلائی۔

یہ بھی این ایس ایف کے رکن تھے اور سندھی زبان کو آخر کار پڑھائے جانے کا اہتمام ایوب خان کو کرنا پڑا۔ انھوں نے سندھیوں کے دل جیتے اور سندھی اردو میں ملاپ کا دیا جلایا مگر بھٹو صاحب کے برسر اقتدار آنے کے بعد جو توقعات این ایس ایف رشید گروپ نے لگا رکھی تھیں وہ پوری تو دورکی بات چند باتیں ہی بمشکل پوری ہوئیں اور طرفہ تماشا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم نے عوام کو تقسیم کردیا جو پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام دو متضاد نام پیپلز کے ساتھ اسٹوڈنٹس کا الحاق ایک لسانی عمل تھا خصوصاً ان ترقی پسند اردو دانشوروں کے لیے جو سندھی زبان کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے پس زنداں گئے۔

ممتاز بھٹو جب سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے اردو کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا اردو کو سندھ بدر کرنے کی کوشش کی جس پر رئیس امروہوی نے ایک مشہور نظم لکھی جو آگ پر تیل کا کام کرگئی جس کا ایک مشہور مصرعہ یہ ہے ’’اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے‘‘ کراچی صوبہ تحریک پر غور و فکر شروع ہوا اور اردو داں طبقے میں اپنی شناخت کا تصور پیدا ہوا۔ جس کو ضیا الحق نے کمک پہنچائی اور کراچی میں ایم کیو ایم کے تصور کو تقویت ملی اور این ایس ایف کمزور ہوتی گئی ایک تو بشریٰ زیدی کی موت نے کراچی کو سوگ می نہلا رکھا تھا اس کے بعد پھر حکومتی سطح پر پٹھان مہاجر تنازعہ بھی پھوٹ پڑا تو این ایس ایف کا مرکز کمزور ہوگیا اور پورے ملک کو لسانی اور صوبائی عفریت نے حکومتی شے پر جکڑ لیا، طبقاتی تحریک کو لسانی اور افغان مسئلے کی وجہ سے مذہبی گروہی سیاست کو فروغ ملا۔

سورج پہ کمند جیسی اس برس ایک اور کتاب بھی سامنے آئی تھی جس کو محترم عزیزی نے اس ملک کے ترقی پسند دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے تذکرے شامل کیے ہیں جو عوامی انقلاب کی راہ میں جاں سے گئے یا دربدر ہوئے ان میں 37 جانبازوں کے نام ہیں جو ’’رفیقان صدق و صفا‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ جن میں شہید حسن ناصر کے علاوہ اور بھی اکابرین کی تفصیل ہے مگر سورج پہ کمند زیادہ ضخیم ہے اور طلبا اور طالبات کا فرداً فرداً انٹرویو ہے۔

سورج پہ کمند میں ڈاکٹر سرور کے علاوہ اور بھی شخصیات ہیں جنھوں نے ملک میں عوامی کام کا نیا رنگ پیش کیا ان میں ایس آئی یو ٹی کے روح رواں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور خواتین میں بہت سے گراں قدر نام ہیں جن کو نظرانداز کرنا بڑا مشکل ہے۔

مسز ذکیہ سرور، انیتا غلام علی، خواتین کی نمایندہ رہنما تھیں۔ صفہ جارچوی دلیر اور جانباز پٹ فیڈر تحریک کی مایہ ناز کسان رہنما تھیں۔ بقیہ ہر ایک اپنے کام اور نام میں مختلف نگینوں کے اوصاف رکھنے والی لڑکیاں لالہ رخ انصاری، بیگم زین الدین، حمزہ واحد، مہ ناز رحمن، زلیخا واحد جو میرے ساتھ ایک جلوس میں ویت نام کے لیے گئیں اور ان کی ساتھیوں نے ویت نام کی حمایت میں امریکا کا پرچم صدر قونصلیٹ آفس سے اتار دیا تھا جب یہ آفس میرٹ ہوٹل کے قرب میں تھا مجھے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں کہ این ایس ایف کی تقسیم میں کاظمی کے ساتھ ڈاکٹر قمر عباس ندیم، ڈاکٹر مظہر حیدر اور سیاسی وابستگی سے لبریز روس نواز ڈاکٹر شیر افضل ملک ساتھ تھے اور کاظمی صاحب عبدالباری خان کی سیاسی رہنمائی کرتے رہے۔

جس طرح ابتدا میں ڈاکٹر رشید حسن کے لیے معراج کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کاظمی صاحب کے ذاتی اور فکری دوست راشد تقی کو بھی  نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب کا آخری مضمون عاصم علی شاہ پر جنھوں نے نامساعد حالات میں بھی رشید گروپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ 600 صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ طلبا نے بھٹو صاحب کو اپنی منزل کی سمت موڑنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہوسکا اور طلبا کی آپس کی نظریاتی جنگ نے این ایس ایف میں دھڑے بندی کے انبار لگا دیے جو این ایس ایف کے زوال کا سبب بنی ۔

ہم اگر اب غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سیاسی خلا ملک میں عروج پر ہے اور کراچی سیاسی اعتبار سے ایک بڑے خلا سے گزر رہا ہے جہاں عوام کو سکھ پہنچانے والی جماعت کی ضرورت ہے اور اب نئی کمندیں بنانے اور ڈالنے والوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ موروثی جمہوریت کا خاتمہ ہو اور عوام کو حقوق ملیں۔

The post طلبا تحریک کی داستان appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ایک شاہانہ باغی‘‘

$
0
0

بقول حبیب جالبؔ کے ’’رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا‘‘ہمارا بھی آج کل یہی کام رہ گیا ہے، یہاں ہر دوسرا تیسرا شخص اُٹھتا ہے اور بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے۔ہم اس پر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، جسے بغاوت کے معنی کا علم نہیں وہ اعلان کرتا ہے کہ میں اس سسٹم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہوں، موجودہ 2 تین سال میں اتنی ’’بغاوتیں ہو چکی ہیں کہ یہاں بیان کرنا مشکل ہو گا؟

اور پھر یہ حالیہ بغاوت کیسی شاہانہ بغاوت ہے کہ نواز شریف زبردست پروٹوکول کے ساتھ جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں، نہ کہیں دھوپ، بارش نہ کہیں جنگل، نہ بھوک کا مسئلہ، نہ پیدل مارچ، بیماری کے مسئلے مسائل، نہ فکر معاش۔ انھیں کیا علم بغاوت کیا ہوتی ہے؟

سرزمینِ پنجاب اور خطہ کشمیر نے کئی باغی پیدا کیے۔ایک باغی رائے عبداللہ خان بھٹی تھا، جس نے 20 سال تک اکبر بادشاہ کو مسلسل للکارا، پنجاب پر شمالی لشکریوں کی یلغار کے راستے روکے، تلواروں سے سینہ چھلنی کرایا۔ لیکن سمجھوتہ یا ’’ڈیل‘‘ نہیں کی۔ یہ آج کے کیسے باغی ہیں جو پس پردہ ڈیل بھی کرلیتے ہیں۔

نواز شریف ڈیل کے ذریعے ہی سعودیہ گئے تھے لیکن ساتھیوں کو علم بھی نہیں تھا کہ ’’ڈیل‘‘ ہو چکی ہے۔اب سینیٹ کے الیکشن میں آصف زرداری اور عمران خان نے کسی کے ایما پر پس پردہ ہاتھ بھی ملا لیا اور خود کو جمہوریت پسند بھی کہلوا رہے ہیں، یہ کیا تماشا ہے۔ پنجاب کا دوسرا باغی بھگت سنگھ ہے، جس نے بغاوت سے شادی کی اور 26 سالہ جوانی نچھاورکر دی۔

اک اور بڑا باغی راجپوت رائے احمد خان کھرل تھا۔ پھانسی ان سب کا مقدر کر دی گئی۔ باغی تو ماؤزے تنگ تھا جس کے ساتھ نوے ہزار لوگ روانہ ہوئے اور منزل تک پہنچے صرف تیس ہزار، باقی سب لوگ کٹھن راستوں کی نذر ہو گئے۔ چھ ہزار میل کاسفر طے کیا۔ مصر کا جمال عبدالناصر باغی تھا جس نے استعمار اور امریکا کی نیندیں اُڑا دی تھیں، وہ آخری دم تک لڑتا رہا، پھر ویت نام کے ہو چی منہ، وینزویلا کے ہوگو شاویز، پھر روس کے لینن کے باغی پن سے کون واقف نہیں جس کا پروگرام زار شاہی کے خلاف عوامی مسلح بغاوت تھا جس نے ایک عبوری حکومت تشکیل دے کر مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت کو منظم کیا تاکہ ملک کو غلامی اور زارازم سے نجات مل سکے۔

پھر ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی بغاوت سے کون واقف نہیں جن کی جدو جہد ہمارے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں بھی موجود ہے۔ پھر بھٹو جس نے ڈیل نہیں کی اور پھانسی کے پھندے کو گلے لگا لیا۔ لیکن ان کے برعکس ہمارے باغیوں کو ذرا سی شرم یا رتّی برابر حیابھی نہیں آتی۔ میرے خیال میں باغی تو عوام ہیں جنھیں خوراک دو نمبر ملتی ہے، انتظامیہ دو نمبر ملتی ہیں، سیاستدان دو نمبر ملتے ہیں، دوائیاں بھی دو نمبر ملتی ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ باغی بھی دونمبر مل رہے ہیں۔

اور تو اور بغاوت کا اعلان کس سے کیا جا رہا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے؟ حالانکہ نواز شریف ہوں یا عمران خان یا پھر زرداری، سب ڈیل کے محتاج ہیں۔ میرے خیال میں بغاوت حکومت میں رہ کر نہیں کی جا سکتی۔ حکومت سے باہر نکل ہوتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں حکومت میں ہے، پیپلز پارٹی سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے، جب کہ اب تو وہ بلوچستان کو اپنا کہہ رہی ہے، تحریک انصاف خیبر پی کے پر حاکم ہے، آپ ہی سوچیں، یہ کیسے انقلاب لائیں گے۔

جب یہ سب لوگ حکومت سے باہر جائیں گے تو ان کا انقلاب اور بغاوت ماضی کا قصہ بن جائے گا۔اور کیا نواز شریف بھول گئے ہیں کہ وہ جنرل ضیا کے دعا کی تاثیر سے حکومتی ایوانوں تک پہنچے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد جمہوریت پسند قوتیں ایم آر ڈی کی شکل  میں اکٹھی ہو رہی تھیں تو میاں نواز شریف اس وقت 1980ء میں جنرل جیلانی کے قائم کردہ بورڈ کے ممبر بن گئے۔

پھر 1983ء میں صوبائی وزیر خزانہ کا عہدہ حاصل کیا۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کی حمایت سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کی۔ 29 مئی 1988ء کو جب جنرل ضیاء نے اپنی بنائی ہوئی اسمبلی کو توڑ دیا اور وزیر اعظم جونیجو کو برطرف کر دیا گیا تو میاں صاحب اپنی پارٹی کے صدر جونیجو کی حمایت کرنے کے بجائے صدر ضیاء کے اقدامات کی حمایت کر کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اور پھر جنرل مشرف کے لطفِ خاص سے اٹک قلعے سے وکٹری بنا کر نکلے اور جدہ کے سرور پیلس تک کا باعزت سفر طے کیا۔

اب دوسری طرف آئیے، نئے پاکستان والے عمران خان جنرل مشرف کے حامی رہے، جن لیڈروں پر تبریٰ بھیجتے رہے، انھی کے ساتھ گھی شکر ہوگئے، تازہ مثال زرداری کی۔ زرداری صاحب اب غیر مرئی قوتوں کے ساتھ ہیں۔

یہی ہمارے لیڈر ہیں۔ آج نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں پچھلے 70 سال میں بڑے ظلم ہوئے،پاکستان کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ ملک اس وقت تک آگے نہیں جاسکتا جب تک 70 سال کے مظالم کا حساب نہ لے لیا جائے، میں ان مظالم کے خلاف بغاوت کرتا ہوں۔ ہم کسی کو ووٹ کی عزت پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ حق نہ ملے تو حق چھیننا پڑے گا۔قارئین حیرت ہے ۔ اب جو کچھ نواز شریف کہہ رہے ہیں، ہمارے عمران خان اور زرداری یا بلاول صاحب بھی وہی بات کررہے ہیں لیکن ان کا طریقہ واردات مختلف ہے۔

اب سمجھ نہیں آرہی کہ ہم یعنی عوام کدھر جائیں۔ نواز شریف کی بغاوت کا ساتھ دیں یا نئے پاکستان کے لیے عمران خان کو چن لیں یا پھر سب پر بھاری آصف زرداری کی جمہوریت کو چن لیں۔ غور کریں تو فرق کسی میں نہیں ہے ، ہر کوئی اپنے آپ کو سسٹم کا باغی کہہ رہا ہے۔ اگر یہی شاہانہ بغاوتیں جارہی رہیں تو یقینا اس ملک کی ’’تقدیر‘‘ ضرور بدلے گی، اللہ ہم سب پر رحم فرمائے (آمین)آخر میں حبیب جالبؔ کے ہی شعر ملاحظہ فرمائیں

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

The post ’’ایک شاہانہ باغی‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

آپریشن بلیو اسٹار ناگزیر نہیں تھا

$
0
0

اندرا گاندھی نے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل(یادربار صاحب امرتسر)میں پناہ لینے والے سکھ عسکریت پسندوں کے خلاف خون آشام فوجی کارروائی آپریشن بلیو اسٹار کے نام سے کی تھی جس میں سیکڑوں سکھ مارے گئے تھے۔ اب لندن میں مقیم سکھ کمیونٹی نے حکومت برطانیہ سے درخواست کی ہے کہ آپریشن بلیواسٹار کے حوالے سے تمام سرکاری دستاویزات کو عوام کے لیے عام کر دیا جائے مگر حکومت برطانیہ نے سکھوں کی یہ اپیل مسترد کر دی ہے۔

بھارتی حکومت نے سکھوں کے خلاف یہ فوجی کارروائی یکم جون سے 8 جون 1984ء کے درمیان کی تھی جس میں سکھوں کے عسکریت پسند مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ہر مندر صاحب کمپلیکس میں بھنڈرانوالہ کے بہت سے ساتھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔

اس زمانے میں مسز مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی وزیراعظم تھیں جن کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے بہت قربت تھی اور اندرا نے دربار صاحب پر فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کے لیے تھیچر سے صلاح مشورہ کیا تھا۔ اب اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ایک برطانوی افسر امرتسر تک گیا تھا جہاں اس نے گولڈن ٹیمپل میں پناہ لینے والے سکھ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھارتی فوج سے تمام معلومات حاصل کیں۔

بھارتی فوج نے بعدازاں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا لیکن اب اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ سکھوں کے خلاف اتنے سخت آپریشن کی ضرورت نہیں تھی اور یہ کہ اکال تخت کو کسی اور طریقے سے بھی گولڈن ٹیمپل کے اندر سے باہر نکالا جا سکتا تھا۔ اب اس واقعے کو 34 سال بیت چکے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو آگاہی نہیں ہو سکی کہ اس فوجی کارروائی کی اصل وجہ کیا تھی۔ سکھوں کی اس متبرک عبادت گاہ پر فوجی کارروائی نے سکھوں کو سخت ناراض کر دیا۔ اس فوجی کارروائی میں ٹینک بھی استعمال کیے گئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ وزیراعظم اندرا گاندھی آدھی رات کے وقت نیند سے جاگ پڑی تھیں کیونکہ گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کرنے والے بھارتی فوج کے ہراول دستے بھنڈرانوالہ کے پیروکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ آج بھی ہر مندر صاحب کی دیواروں پر گولیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام نے لبرل سکھوں کو بھی ناراض کر دیا جو گولڈن ٹیمپل کو ویٹی کن کی طرح مقدس خیال کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت کے پاس وہ تمام معلومات ہیں جن کی بنا پر بھارتی فوج ہرمندر صاحب میں داخل ہوئی۔

سکھ وار لارڈز کے خلاف فوجی کارروائی کرنا ضروری خیال کیا گیا کیونکہ ان میں دہشت گرد بھی شامل ہوگئے تھے۔ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بہت سے سکھوں نے بھارتی فوج سے استعفے دیدئے بلکہ بعض سکھوں نے تو وہ اعزازات بھی واپس کردیے جو حکومت نے ان کی شاندار کارکردگی کی بنا پر عطاء کیے تھے۔ مسز اندرا گاندھی کو پورا احساس تھا کہ فوجی کارروائی کے جواب میں سکھ شدید ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اندرا نے بھونیشور میں ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ اسے لگتا ہے کہ اسے سکھ جان سے مار دیں گے لیکن حکومت کی ذمے داریاں انھیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ سکھوں کے خلاف کارروائی کریں۔

اندرا کا یہ ڈر چار مہینے کے بعد حقیقت بن گیا اور ان کے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے انھیں قتل کر دیا۔ سکھوں کا غصہ صرف اندرا کے قتل پر ٹھنڈا نہیں ہوا۔ صرف دہلی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اندرکمار گجرال وزیراعظم بن گئے اور ان کی ٹیم میں جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور ایئرمارشل ارجن سنگھ بھی شامل تھے جب کہ خود مجھے بھی اس ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔

ہماری تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا کہ فوجی کارروائی ناگزیر نہیں تھی اور بھنڈرانوالہ پر کسی اور طریقے سے بھی قابو پایا جا سکتا تھا۔ یہ بات ہم نے پنجابی گروپ کے روبرو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہی۔ کیونکہ ہمیں سکھوں کے خلاف فسادات کی تحقیقات کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔

پی وی نرسیما راؤ اس وقت وزیر داخلہ تھے۔ ہماری ٹیم نے ان سے ملاقات کی اور سرکاری ایکشن کے ردعمل پر تبادلہ خیال کیا۔ سب نے ایک ہی بات کی کہ حکومت کی سکھوں کے خلاف کارروائی بلاجواز تھی۔

دہلی اور اس کے گردونواح میں سکھوں کے خلاف جو فسادات ہوئے ان پر فی الفور قابو پایا جا سکتا تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے جان بوجھ کر پولیس یا فوج کو مداخلت کرنے کے لیے نہیں کہا۔ اس نے مبینہ طور پر ریمارک دیا کہ فسادات خود بخود شروع ہوگئے تھے بلکہ راجیو نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی بڑا درخت گرتا ہے تو زمین ہل جاتی ہے۔ اب اس واقعے کو تین عشروں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔

جب بھارتی فوج نے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی۔ برطانوی حکومت نے ان خفیہ دستاویزات کو عوام کے لیے کھول دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کو فوجی طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا تھا جس کے نتیجے میں نئی دہلی اور لندن کے علاوہ اور بھی کئی جگہوں پر سکھوں کے فسادات شروع ہوگئے۔برطانوی حکومت نے اس انکشاف کے بعد تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا جب کہ بی جے پی کی حکومت نے اس حوالے سے وضاحت طلب کرلی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس آفیسرز جو سکھوں کے خلاف آپریشن میں ملوث تھے نیز وہ فوجی کمانڈر جنہوں نے اس آپریشن بلیو اسٹار کی قیادت کی ان دونوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اس آپریشن کے لیے برطانوی منصوبے کو استعمال کیا ہے بلکہ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کی بھارتی فوج نے ہی منصوبہ بندی کی تھی اور اپنے بل بوتے پر کارروائی کی۔

یوکے کی نیشنل آرکائیو نے 30 سال کے بعد ان دستاویز کو قوم کے لیے کھول دیا ہے جس کے لیے 23 فروری 1984ء کو سکھ کمیونٹی کے عنوان سے جو کاغذات تیار کیے گئے تھے جن میں کہ بہت سے سرکاری مکتوبات بھی شامل تھے۔

خارجہ سیکریٹری کے دفتر کے ایک افسر نے سیکریٹری داخلہ کے پرائیویٹ سیکریٹری کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں سکھوں کی رنجش دور کرنے کے بارے میں کچھ معلومات سے آگاہی ہو۔ بھارتی حکام نے حال ہی میں برطانوی حکومت سے مشورہ طلب کیا کہ انھیں گولڈن ٹیمپل سے انتہا پسند سکھوں کو باہر نکالنے کا کوئی طریقہ بتائے۔ اگر برطانوی حکومت نے مسز اندرا گاندھی کے مطالبے پر اپنی ایک ٹیم بھارت بھیجی اور برطانوی خارجہ سیکریٹری کو یقین ہے کہ بھارتی حکومت برطانیہ کے تیار کردہ منصوبے پر جلد عملدرآمد کرے گی۔

برطانیہ کے سرکاری مکتوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بھارت نے 1984ء کی فوجی کارروائی کے حوالے سے برطانوی منصوبے پر قطعاً عمل درآمد نہیں کیا۔ لندن میں برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرائے گی کہ برطانوی حکومت اس آپریشن میں کس حد تک ملوث تھی۔

آپریشن بلیو اسٹار کے نتیجے میں بھارت کا بہت بھاری جانی نقصان ہوا۔ لہٰذا اس وقت کے حالات کے بارے میں جاننے کی خواہش فطری ہے۔ اس کا اعلان برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کیا۔ لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپریشن بلیو اسٹار کی دستاویزات کو عوام کے لیے کھول دینا چاہیے کیونکہ وقت گزرنے کے بعد یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ اس فوجی آپریشن کرنے کی شدید ضرورت ہرگز نہیں تھی۔        (ترجمہ: مظہر منہاس)

The post آپریشن بلیو اسٹار ناگزیر نہیں تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

پاگل خانہ

$
0
0

ان دنوں میرا زیادہ وقت پاگل خانے میں گزرتا تھا‘ لاہور میں پاگلوں کے دو بڑے ڈاکٹر میرے دوست تھے‘ میں جب بھی فارغ ہوتا تھا میں ان کے پاس چلا جاتا تھا اور وہ بڑے بڑے شاندار پاگلوں کے ساتھ میری ملاقات کرواتے تھے‘ ڈاکٹر رشید چوہدری ایلیٹ فیملیز اور پڑھے لکھے پاگلوں کے ڈاکٹر تھے‘ ان کے پاس آکسفورڈ‘ کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹی کے کوالیفائیڈ پاگل آتے تھے۔

میں ایک دن ان کے دفتر گیا تو وہاں ایک نہایت پڑھا لکھا اور رئیس پاگل بیٹھا تھا‘ پاگل نے قیمتی اطالوی سوٹ پہن رکھا تھا‘مہنگی خوشبو لگا رکھی تھی اور انگلیوں میں کیوبا کا سگاردبا رکھا تھا‘ کمرے سے سگار کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی اور پڑھا لکھا پاگل نہایت انہماک کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو پنجابی‘ اردو اور انگریزی تین زبانوں میں ماں بہن کی گالیاں دے رہا تھا ‘ ڈاکٹر صاحب بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ گالیاں سن رہے تھے‘ جب پاگل تھک گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا اور عملہ پاگل کو کرسی سمیت اٹھا کر لے گیا۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’سر آپ کو یہ غلیظ گالیاں سن کر غصہ کیوں نہیں آ رہا تھا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’کیونکہ میں جانتا ہوں یہ پاگل ہے اور اگر آپ کو پاگلوں کی بات پر غصہ آ جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے آپ ان سے بڑے پاگل ہیں‘‘ میں نے اس دن یہ بات پلے باندھ لی‘ ہم اگر نارمل ہیں تو پھر ہمیں پاگلوں کی باتوں پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔

ہمیں پاگلوں کی گالیاں بھی اطمینان سے سن لینی چاہئیں چنانچہ میں جب بھی کسی مشکل صورت حال کا شکار ہوتا ہوں‘ مجھے جب کوئی پاگل ٹکر جاتا ہے تو مجھے ڈاکٹر رشید چوہدری یاد آ جاتے ہیں‘ میں پاگل سے معافی مانگتا ہوں‘ اپنا جرم‘ گناہ اور غلطی تسلیم کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں‘ میں پاگل کے ساتھ ڈائیلاگ یا آرگومنٹ کی غلطی نہیں کرتا‘ میں جس دن یہ غلطی کر بیٹھوں میں اس دن نیند کی گولی کے بغیر سو نہیں پاتا‘ دوسرے ڈاکٹرصاحب غریب پاگلوں کے معالج تھے۔

وہ لاہور کے سرکاری پاگل خانے میں کام کرتے تھے‘ میں ہفتے میں دو دن گپ شپ کے لیے ان کے پاس چلا جاتا تھا‘ ان کے پاس بڑے بڑے معرکۃ الآراء پاگل ہوتے تھے‘ مثلاً مجھے ایک دن وہاں ایک ایسا پاگل ملا جس کا خیال تھا وہ (نعوذ باللہ) خدا ہے اور اس نے قیامت لانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ وہ اس وقت تک بات نہیں کرتا تھا جب تک مخاطب اسے ’’باری تعالیٰ‘‘ نہیں کہتا تھا‘ میں نے ایک دن اس سے قیامت لانے کی وجہ پوچھ لی‘ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چلا کر بولا ’’وہ دنیا جس میں آلو چار روپے کلو ہو جائیں کیا اسے تباہ نہیں ہو جانا چاہیے‘‘ میں نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ خوش ہو گیا اور بولا ’’مجھے دس برسوں میں صرف تم ایک عقل مند آدمی ملے ہو ورنہ اس ملک میں ہر شخص پاگل‘ ہر شخص نالائق ہے‘‘ اس کا فرمان تھا ’’تم مجھے ملتے رہا کرو‘ میں تمہیں بہت جلد اپنا ڈپٹی لگا دوں گا‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کر لیا لیکن اس کا کہنا تھا ’’میں جب بھی آؤں میں اس کے لیے کے ٹو فلٹر کی دو ڈبیاں لے کر آؤں‘‘ میں نے یہ وعدہ بھی کر لیا اور میں اس وقت تک اسے سگریٹ فراہم کرتا رہا جب تک آلو سستے نہیں ہوئے اور اس نے قیامت برپا کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لے لیا‘ مجھے اس پاگل خانے میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق دونوں سے ملاقات کا شرف بھی نصیب ہوا۔

یہ دونوں ایک ہی بیرک میں رہتے تھے‘ ایک ہی ٹرے میں کھانا کھاتے تھے اور ایک دوسرے کو پھانسی لگانے کا اعلان کرتے تھے‘ بھٹو چلا کر کہتا تھا‘ ضیاء دیکھ لینا میں تمہاری مونچھوں کے ساتھ اپنے بوٹ لٹکاؤں گا اور جنرل ضیاء قہقہہ لگا کر جواب دیتا تھا ’’بھٹو صاحب!میں نے اپنی مونچھیں ہی چھوٹی کرا لی ہیں‘ آپ بوٹ کیسے لٹکاؤ گے‘‘ اور بھٹو چیخ چیخ کر کہتا تھا ’’اوئے بزدل‘ اوئے ڈرپوک اگر مرد کے بچے ہو تو اپنی مونچھیں بڑی کر کے دکھاؤ‘‘ اور پھر اس کے بعد وہاں ایک عجیب منظر ہوتا تھا۔

بھٹو اپنے کارکنوں کو للکار کر کہتا تھا آگے بڑھو اور اس غاصب کی وردی پھاڑ دو اور جنرل ضیاء عزیز ہم وطنو سے مخاطب ہو جاتا تھا‘ وہ اپنے رفقاء کار کو قوم کی رہنمائی کا حکم بھی صادر کرنے لگتا تھا‘ میری وہاں بنی اسرائیل کے ایک ایسے ’’عالم‘‘ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی جو حضرت موسیٰ  ؑکے ساتھ مصر سے فلسطین ’’تشریف‘‘ لایا تھا‘ وہ بحر احمر کی تقسیم کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی بیان کرتا تھا اور یہ بھی کہتا تھا میں خود حضرت موسیٰ  ؑکو کوہ طور تک چھوڑ کر آتا تھا۔

وہ دعویٰ کرتا تھا تابوت سکینہ اس کے پاس تھا لیکن پھر لاہور کے چند بدبخت کشمیریوں نے تابوت چوری کر لیا‘ وہ کہتا تھا آپ میرے ساتھ شاہ عالمی چلو‘ میں تمہیں بتاتا ہوں ان لوگوں نے تابوت سکینہ کہاں چھپا رکھا ہے‘ وہ یہ ساری کہانی بڑے یقین اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتا تھا‘ وہ اس دوران ہیبرو زبان کے بے شمار فقرے بھی بولتا تھا‘ہمیں بعض اوقات اس کی باتوں پر یقین آنے لگتا تھا‘ بس وہ ایک چیز سے پکڑا جاتا تھا‘ وہ ہمیشہ کہتا تھا‘ میں حضرت موسیٰ  ؑ کو (نعوذ باللہ) سائیکل پر بٹھا کر کوہ طور پہنچاتا تھا۔

اگر اس دوران بدقسمتی سے کسی کے منہ سے یہ نکل جاتا ’’جناب سائیکل تو اس وقت تھی ہی نہیں‘‘ اور بس اس کے بعد ہو‘ ہو‘ ہو‘ وہ سائیکل کی ایسی زبردست تاریخ بیان کرتا تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے‘ اس کا دعویٰ تھا سائیکل ایجاد نہیں ہوئی تھی‘ یہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی‘ وہ سائیکل کے نزول کا ایسا روح پرور واقعہ بیان کرتا تھا کہ توبہ توبہ۔ میری وہاں بے شمار شاندار علماء کرام سے ملاقات بھی ہوئی‘ میں وہاں امام غزالی سے بھی ملا‘ میری وہاں ابن رشد سے بھی ملاقات ہوئی اور بو علی سینا تو وہاں وافر تعداد میں موجود تھے۔

میں وہاں ایک ایسے حاذق طبیب سے بھی ملا جس کا دعویٰ تھا وہ چیونٹیوں کے ذریعے گردے کی پتھری نکال سکتا ہے‘ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘ وہ بولا ’’گردے کی پتھری میٹھی ہوتی ہے‘ آپ مریض کو آدھی چھٹانک زندہ چیونٹیاں کھلا دیں‘ یہ چیونٹیاں گردے میں پہنچ کر پتھری توڑ دیں گی‘‘ اس کا دعویٰ تھا یہ علاج کیونکہ مفت ہے چنانچہ یہودی فارما سوٹیکل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ مل کر اسے پاگل خانے میں بند کرا دیا ہے۔

یہ جس دن باہر آ گیا یہ پوری میڈیکل سائنس بدل کر رکھ دے گا‘ مجھے وہاں بے شمار سیاستدان بھی ملے‘ وہ سب قوم کی نبض کو بھی سمجھتے تھے اور ان کے پاس ہر ملکی مسئلے کا حل بھی تھا‘ مثلاً ایک ’’لیڈر‘‘ کا دعویٰ تھا وہ ایک مہینے میں بے روزگاری کا مسئلہ جڑ سے ختم کر دے گا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘ وہ بولا ’’حکومت اٹھارہ سال سے اوپر ملک کی ساری آبادی بھرتی کر لے‘ بے روزگاری ختم ہو جائے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن تنخواہوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے‘‘ اس نے اس کا ایک ایسا شاندار حل بتایا کہ میں فرش پر لیٹ گیا‘ اس کا کہنا تھا‘ آپ سعودی عرب کو اپنے گلیشیئر بیچ دیں‘ سعودی عرب ٹھنڈا ہو جائے گا‘ عمرے کا سیزن بڑا ہو جائے گا۔

آپ ان سے عمرے کی رائلٹی لیں اور لوگوں کو تنخواہیں دیتے رہیں‘ وہاں موجود ایک سائنس دان کے پاس لوڈ شیڈنگ کا حل بھی موجود تھا‘ اس کا کہنا تھا حکومت دس کروڑ چھوٹی چھوٹی ٹربائنیں بنائے‘ ان کے آگے آوارہ کتے جوت دے‘ یہ کتے روزانہ دس کروڑ یونٹ بجلی پیدا کر دیں گے یوں بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ میں نے پوچھا ’’لیکن جناب کتوں کے لیے خوراک کہاں سے آئے گی‘‘ مسکرا کر بولا ’’جو کتا بجلی پیدا کرنے کے عمل کے دوران مر جائے وہ کاٹ کر دوسرے کتوں کو کھلا دیا جائے‘‘۔

میں دو سال لاہور کے ان دونوں پاگل خانوں میں جاتا رہا‘ وہ میری زندگی کے دلچسپ ترین سال تھے کیونکہ میں نے ان دو سالوں میں سیکھا‘ دنیا کے ہر پاگل میں چھ خوبیاں ہوتی ہیں‘ پاگل بے تحاشہ بولتا ہے‘ یہ بولے گا اور پھر بولتا چلا جائے گا‘ یہ کبھی آپ کی باری نہیں آنے دے گا‘ دو‘ یہ غیر فطری حد تک سنجیدہ ہو گا‘ آپ کبھی کسی پاگل کو ہنستا ہوا نہیں دیکھیں گے‘ وہ قہقہہ بھی لگائے گا تو آپ کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی نظر آئے گی‘ تین‘ دنیا کے 90 فیصد پاگلوں کے پاس بے تحاشہ مذہبی اور روحانی معلومات ہوتی ہیں‘ یہ آپ کو اپنی معلومات سے حیران کر دیں گے‘ چار‘ آپ جتنے بڑے پاگل ہوتے ہیں۔

آپ کے لہجے میں اتنا ہی زیادہ یقین ہوتا ہے‘ آپ کسی پاگل سے مل لیں آپ کو اس کا یقین حیران کر دے گا‘ وہ قسم کھا جائے گا سورج مغرب سے نکلتا ہے اور یہودیوں نے دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے مغرب کا نام مشرق رکھ دیا تھا‘ پانچ‘ دنیا کا ہر پاگل دن میں خواب دیکھتا ہے اور یہ اس خواب کو حقیقت سمجھتا رہتا ہے اور چھ‘ دنیا کا ہر پاگل بحث کا استاد ہوتا ہے‘ آپ اسے بحث میں نہیں ہرا سکتے لہٰذا آپ کے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

آپ کو اگر میری آبزرویشن پر یقین نہ آئے تو آپ کسی پاگل خانے کو وزٹ کر لیں‘ آپ میری’’پاگل شناسی‘‘ کے قائل ہو جائیں گے اور اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو پاگل خانے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ یہ پورا ملک پاگل خانہ بن چکا ہے‘آپ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک کروڑوں عالم‘ سائنس دان‘ سیاستدان‘ دانشور‘ طبیب اور پیر مل جائیں گے‘ آپ کو ان سب میں یہ چھ کی چھ خوبیاں بھی مل جائیں گی۔

The post پاگل خانہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر بات پہ رونا آئے

$
0
0

کوئی 30 سال قبل، جب ہم لیاقت آباد نمبر 2 میں سپر مارکیٹ کے پیچھے واقع بندوق والی گلی میں رہتے تھے، اسکولوں کی تعطیلات میں نواب شاہ سے آپا بچوں کوکراچی گھمانے لائی تھیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ساجدہ، جو اب ساجدہ ارسلان ہے اورکینیڈا میں رہتی ہے، اس وقت کوئی آٹھ دس سال کی رہی ہوگی۔ وہ اور میرا بڑا بیٹا مسعود ہم عمر ہیں، مجھے ان دونوں کا بچپن میں، جب انھیں ابھی چلنا بھی نہیں آتا تھا، یکساں طریقے سے ایک گھٹنا موڑکر بیٹھے بیٹھے کرالنگ کرنا ابھی تک یاد ہے۔

اس عجیب مماثلت پر سب لوگ حیرت کیا کرتے تھے کیونکہ عام طور پر اس عمر میں بچے ہاتھوں اورگھٹنوں کی مدد سے کرالنگ کرتے ہیں ۔ساجدہ نے تعلیم نوابشاہ ہی میں حاصل کی اور پیپلزگرلز میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر بطور ڈاکٹر فارغ تحصیل ہوئی۔ اس کی شادی فیصل آباد کے برکی خاندان میں ہوئی جس میں بھائی جان اور میں اس کے وکیل اورگواہ بنے تھے۔

آپا اس شادی کے لیے بڑی مشکل سے راضی ہوئی تھیں کیونکہ وہ اپنی چہیتی بیٹی کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ساجدہ کی شادی وہیں کہیں نوابشاہ یا آس پاس میں ہو۔ ساجدہ کے بڑے بھائی اعجاز احمد چیمہ بھی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ڈاکٹر تھے اور نواب شاہ میں پریکٹس کرتے تھے۔

اْن دنوں پیش آنے والا ایک واقعہ بھلائے نہیں بھولتا، میں سگریٹ نوشی کا عادی تھا جب کہ ساجدہ بیٹی کو اس سے سخت چڑ تھی۔ وہ اکثر مجھے اسے ترک کرنے کے لیے کہا کرتی اور میں اچھا اچھا کہہ کر ٹال دیا کرتا۔ انھیں گھمانے لے جانے کے لیے میں نے ایک روز چھٹی کی، ساجدہ سے پوچھا کہاں جانا ہے تو بولی کہیں نہیں، میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی،کراچی گھومنے آئی ہو اورکہتی ہو کہیں نہیں جانا۔ بولی آپ میری بات جو نہیں مانتے، میں نے پوچھا کونسی بات تو اس نے پھرسگریٹ نوشی ترک کرنے کی ضد شروع کر دی۔ میں نے کہا اچھا بابا چھوڑ دوں گا، فی الحال یہ بتاؤ کہاں کہاں گھومنے جانا ہے۔

میرا جواب سن کر اس نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے ساتھ آئی ہوئی اس کی باقی تینوں بہنیں فرزانہ، ریحانہ اور روزینہ جو چلنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں، ساجدہ کے منہ پھلانے کی وجہ سے پریشان ہوگئیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اسے چھوڑ کر جانے سے تو رہے۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی کہ میں جب تک اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر سگریٹ نوشی ترک کرنے کا وعدہ نہیں کروںگا، وہ نہ صرف گھومنے نہیں جائے گی بلکہ کھانا بھی نہیں کھائے گی۔

یک نہ شد دو شد، اب اس نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز میں ایک اور مطالبے کا اضافہ کر دیا تھا۔ آپا نے بھی ساجدہ کو منانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن سب بے سود، تنگ آکرآپا نے نوابشاہ واپس چلنے کی دھمکی دی مگر ساجدہ پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ آپا کو اس کی ضد کا پتہ تھا سو انھوں نے مجھے اس روز کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا اور بولیں کل ول چلیں گے، آج رہنے دو۔

گھر بیٹھ کر بور ہونے کے بجائے میں دفتر چلا گیا، ساجدہ سوگئی تھی اس لیے اس سے بات بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا، میرا خیال تھا اٹھ کرکھا لے گی لیکن رات دو بجے کے قریب جب میں گھر لوٹا تو پتہ چلا ساجدہ نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا، گویا اس نے دو وقت کا فاقہ کیا تھا، میں یہ سن کر پریشان ہوگیا اور ساری رات سو نہیں سکا، نہ ہی کھانا کھایا گیا۔ صبح ناشتہ کرنے بیٹھے تو ساجدہ الگ ہوکر بیٹھ گئی، بولی وہ ناشتہ نہیں کرے گی، آپا نے ڈانٹا تو لگی رونے اور بسورنے۔ میں نے پھر منانے کی کوشش کی اور سر پرائزگفٹ کا لالچ دیا لیکن اس نے صاف انکارکر دیا اور بولی جب تک میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کا قسم کھا کر وعدہ نہیں کروں گا وہ ہماری کوئی بات نہیں مانے گی۔

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ کئی سال پرانی عادت چھوٹتے چھوٹتے ہی چھوٹے گی، میں وعدہ کرتا ہوں کہ پہلے مرحلے میں سگریٹ پینا کم کردوں گا اور بتدریج بالکل چھوڑ دوں گا، لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوا۔

بالآخر مجھے ہی ہتھیار ڈالنا پڑے اور میں نے اس سے وعدہ کرلیا کہ میں آج اوراسی وقت سگریٹ نوشی ترک کررہا ہوں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ اتنا سننا تھا کہ ساجدہ بیٹی اچھل کرکھڑی ہوگئی اور میرے گلے لگ گئی۔ اسے اتنا خوش دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ پھر ہم نے دو تین دن خوب سیر تفریح کی، بچیوں نے سمندر میں کشتی کی سیرکوخصوصاً بہت انجوائے کیا اور خوب گھوم پھرکر یہ لوگ واپس نواب شاہ چلے گئے۔ میں نے بھی اپنی گڑیا سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کی پوری کوشش کی اور اگلے آٹھ سال سگریٹ کو چھوا تک نہیں۔

اس دوران ساجدہ پہلے میٹرک اور پھر انٹر پاس کرکے میڈیکل کالج میں داخلہ لے چکی تھی تاہم اپنی کزنز (میری بیٹیوں خصوصاً عائشہ) سے اس کی خط وکتابت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ عائشہ اسے خط لکھتی تو پوسٹ کرنے کے لیے مجھے ہی دیتی، لفافے پر پتہ لکھتے وقت میں ہمیشہ اس کے نام کے ساتھ وڈ بی ڈاکٹر (ہونے والی ڈاکٹر) لکھتا تھا کیونکہ وہ دْھن کی پکی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر ہی نکلے گی۔

اللہ نے اسے کامیابی عطا کی اور وہ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر بن گئی، مجھے اس کی جتنی خوشی ہوئی وہ میں بیان نہیں کرسکتا اور اسے مبارکباد دینے بطور خاص نوابشاہ گیا۔ شادی کے بعد وہ فیصل آباد منتقل ہوگئی تو ہماری آپا بہت اداس رہنے لگیں، میں انھیں سمجھاتا کہ فیصل آباد کون سا دور ہے، چند گھنٹوں ہی کی مسافت پر تو ہے،آنا جانا لگا رہے گا۔ آخر انھیں صبر آ ہی گیا، ساجدہ فیصل آباد میں اپنی ساس سسر کے ساتھ رہتی تھی جب کہ اس کے دوسرے سارے سسرالی رشتے دار کینیڈا میں جا بسے تھے۔ اس نے کچھ عرصہ اپنے چیسٹ اسپیشلسٹ سسر کے ساتھ انھی کے کلینک میں پریکٹس کی اور پھر سرکاری نوکری اختیار کر لی۔

اللہ تعالیٰ نے اسے دو پھول سے بچے بھی عطا کیے جو اب ماشاء اللہ جوان ہوچکے ہیں اور زیر تعلیم ہیں۔ دوران ملازمت وہ کسی کورس کے سلسلے میں کراچی آئی تو شادمان ٹاؤن، نارتھ کراچی میں ہمارے پاس ہی ٹھہری تھی، تب اس کے دونوں بچے چھوٹے تھے، میں زرغام کو نقلی پٹھان کہتا تو وہ مچل کرکہتا وہ اصلی پٹھان ہے، فیصل آباد آ کر کسی سے بھی پوچھ لوں اور الٹا مجھے نقلی پٹھان کہتا۔

پھر پہلے ساجدہ کے ساس، سسر اور پھر ان دونوں میاں بیوی کوکینیڈا کی شہریت مل گئی اور یہ سب بھی وہاں منتقل ہوگئے، میں آپا کوکہتا کہ دیکھیں دانا، پانی انسان کوکہاں کہاں لے جاتا ہے ، کہاں تو وہ ساجدہ کی شادی فیصل آباد میں کرنے کے خلاف تھیں اورکہاں وہ سات سمندر پارکینیڈا میں جا بسی ہے اور وہ بے بسی کے اظہارکے طور پر آنکھیں بند کر کے کہتیں بس یہ تو نصیبوں کی بات ہے، دعا کرو وہ جہاں بھی رہے بچوں کے ساتھ خوش رہے۔ ان کے کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے میری ساجدہ سے اسلام آباد میں مختصر ملاقات ہوئی تھی جہاں میں اپنی بھابی کی تجہیز وتکفین میں شریک ہونے گیا تھا اور وہ تعزیت کے لیے آئی تھی۔

پھر خبر ملی کہ ننھے زرغام کا ایک گردہ کینسر سے متاثر تھا، اس کا علاج ہوا اور اللہ کے فضل وکرم سے وہ مکمل صحتیاب ہوگیا۔ ہم سب بہت خوش تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ کیا پتہ تھا کہ ایک اور بری خبر ملنے والی ہے، اچانک ساجدہ کی علالت کی خبر ملی، ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق خود اس کے جسم میں بھی کینسر کی علامات پائی گئی تھیں۔

کینیڈا منتقلی سے پہلے وہ یہاں کافی عرصہ زیر علاج رہی اور اب وہاں اس کا علاج ہو رہا ہے، فون اور ویڈیو لنک پر اس سے آپا، بھائی بہنوں اور ہمارا رابطہ رہتا ہے، سب اس کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں، اللہ اسے شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور بچوں کے سر پر اس کا سایہ سلامت رکھے، میں ہر نماز میں اللہ سے اس کی صحتیابی کے لیے دعا مانگتا اور تنہائی میں اپنی پیاری بھانجی کی ایک ایک بات یادکرکے آنسو بہاتا ہوں۔

The post ہر بات پہ رونا آئے appeared first on ایکسپریس اردو.

اس جمہوریت سے اس جمہوریت تک

$
0
0

سیاست کے اس اکھا ڑے میں کیا کیا نہیں ہوتا۔ سیاست زمینی حقائق پر ہوتی ہے، باقی سب خیالی باتیں ہیں۔ سیاست اقتدارکو پانے کے لیے ہوتی ہے۔ سیاست کا مطمع نظر اقتدارکو حاصل کرنا ہی ہے، جوکچھ اوپر بیان کیا ہے وہ سیاست کا فقط ایک زوایہ ہے۔ سیاست میں فلسفی بھی ہوتے ہیں۔ انھیں اقتدارکی ہوس اور لالچ نہیں ہوتا وہ حالات کو پرکھتے بھی ہیں اور حل بھی بتاتے ہیں۔ سیاست میں قلمکار بھی ہوتے ہیں،کچھ نقاد اورکچھ درباری بھی۔

سیاست میں پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور اینکرز بھی ہوتے ہیں۔کچھ فیک نیوزکا کاروبار بھی کرتے ہیںاورکچھ حقائق بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ جو بھی ہے آج معاشرہ ان کے لیے میدان جنگ ہے جہاں کئی سورج طلوع وغروب ہوتے ہیں۔کبھی انقلا ب برپا ہوتے ہیں توکبھی بیلٹ باکسز میں اتنی بڑی تبدیلی آ جاتی ہے جوکہ شاید انقلا ب بھی نہ لاسکے، مگر بات یہ ہے کہ معاشرہ منزل بہ منزل اپنی ماہیت تبدیل کرتا ہوا ارتقائی منازل طے کرتا ہے، آگے بڑھتا رہتا ہے۔

کتنے نشیب و فراز آئے ہوں گے، پا کستان بنا، کشمیر پر قبضہ ہو ا، پاکستان کے وجود میں آتے ہی پہلی جنگ 1948ء میں ہندوستان کے ساتھ ہوئی۔گوروں نے جو قوانین بنائے کہ متحدہ ہندوستان کی ریاستوں جہاں راجہ اور مہاراجاؤں کا راج ہے، ان ریا ستوں کے جانے کا فیصلہ وہاں کے عوام نہیں، بلکہ راجا اور مہاراجہ کریں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کی ریاستوں کو جو آزادی ملی وہ تھی تو جمہوریت کے فیصلوں پر مگر Adult Franchise نہ تھا یقینی بالغ فرنچائز نہ تھی۔

یہ حق پاکستانی شہری کو 1970ء کے انتخابات میں ملا اور پھر دیکھا جائے تو بالغ فرنچائزکس طرح سے استعمال ہوا کبھی انڈیاکو مودی دیا توکبھی جرمنی کو ہٹلر اور امریکا کو ٹرمپ۔ جمہوریت جب اپنی ارتقائی منزل کی طرف رواں ہوتی ہے تو اس میں بھی بڑے نشیب وفراز آتے ہیں۔کبھی ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے پرکبھی مکمل ہو نہیں پاتی، کبھی Diluted جمہوریت تو کبھی Non-Diluted تو کبھی Quasi جمہوریت۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاپولر لیڈر کو لائسنس مل گیا ہو، تاریخ مسخ کرنے کا لائسنس۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے کا لائسنس۔ وہ اتنا پاپولر ہو جاتا ہے کہ پارٹی کو بلیک میل کرنا شروع ہو جاتا ہے اور پارٹی اس کے خاندان کی میراث بن جاتی ہے جیسے کوئی پرائیوٹ لمیٹڈکمپنی ہو۔

باپ جائے تو بیٹے کو وراثت مل جاتی ہے پھر پوتوں اورنواسوںکو ۔آج پاکستان میں مسلسل تین بیلٹ باکس ہونے کی تاریخ بننے جا رہی ہے مگر آمریت ہو یا جمہوریت لوگوں کے لیے نہ اسکول، نہ اسپتال اور نہ عدالتیں ہیں۔ باقی گرین بس اور میٹرو ٹرین جیسے پروجیکٹس ملتان میں اربوں روپے کی مالیت سے بنے ان پروجیکٹس کی بسیں خالی ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ موٹروے بن گئے، راستوں کو بنایا گیا مگر نہ اسکول نہ اسپتال بنے، نہ صاف پانی کے لیے واٹرٹریٹمنٹ پلانٹس بچوں کی اموات کے حوالے سے ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔

عورتوں کی پسماندگی میں بھی اول نمبر پر ہیں۔ بچوں کی اسکول میں انرولمنٹ کے حوا لے سے بھی ہم دنیا کے چند بدترین ممالک میں سے ایک ہیں۔ ہم ذہنی معذور بچوں کے حوالے سے بھی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں، جسمانی طور پرکمزور اورذہنی مفلوج اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ یہ غذائی قلت کے شکار ہوتے ہیں۔

میں یہ اعتراف کرتا ہوںکہ سندھی بحیثیت ایک قومMalnutrition قوم ہے۔ پہلے انگریزوں نے غلام بنایا پھر وڈیروں نے اور پھر آمریتوں نے اور پھر تیسر ے بیلٹ باکس کے ذریعے سندھ میں ایک غلامی اور سہی۔ ہمارے سندھ کا مڈل کلاس جو بنا وہ بھی سرکاری نوکریوں سے بنا ۔کارخانے لگے نہ سروس سیکٹر میں کچھ ہو ا۔ یہ نوکریاں بھی وڈیروں کے ہاتھوں سے بانٹی گئیں شاید ذلت و رسوائی کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد ۔کمیشن درکمیشن ہے ہر چیز میں ملاوٹ، دودھ میں، دوائیوں میں، پانی میں، اجناس میں مطلب سب چور ہیں۔ بجٹ کے چور، ٹیکسزکے چور، ترقیاتی کامو ں کے چور، سرکاری زمینوںکے قابض اور جو بیانیہ پر ووٹ دیتے ہیں وہ بھی ڈسے ہوئے ہیں کیونکہ بیانیہ میں بھی ملاوٹ ہے کیونکہ بیانیے کی تاریخ میں ملاوٹ ہے۔

جس تاریخ میں غاصب ہیرو ہے اور نفرت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اصل ہیرو غدار ۔ایک طویل فہرست ہے اندوہناکی کی۔ معاملہ ٹھیک ہو تو شروعات کہاں سے کریں آغاز کہاں سے کریں اور انجا م کہاں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اس شہر نابینا میں، جن کے پاس آنکھیںہیں، ان کو چیخنا چلانا پڑے گا کہ ان بہروں کے کانوں تک بھی کچھ بات پہنچے۔

ورنہ خطرہ یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی یرغمال ہوجائے گی۔ جس طرح کل وکلاء کی تحریک یرغمال ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے انقلاب بھی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ سویت یونین میں کیا ہوا، پورا سوشلسٹ بلاک ٹوٹ گیا کہ خرابی کال مارکس کے فلسفے میں نہ تھی مگر سماج اتنے کمزور تھے کہ وہ سوشلسٹ انقلاب کو سمو نہ سکے۔

جمہوریت کیا ہے؟ مارکیٹ اکانومی کا دوسرا پہلو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب Capitalism ہے اور اس کی وسعتیں۔ سرمایہ داری کیا ہے؟ لالچ اس کا بنیادی محور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت آج اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے اور امریکا ٹرمپ کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ کئی ایسی خانہ جنگی ہے شام سے لے کر عراق تک یا دونوں عظیم جنگیں Capitalism کی تشریح کا ہی نتیجہ ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ داری کے سب سے بڑے نقاد کال مارکس ہیں جیسے فرعون کے گھر میں موسیٰ کی پرورش۔

جس طرح اسپارٹیکس نے غلاموںکی جنگ لڑی تھی اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی تمام ایجادات اسی سرمایہ داری کی دین ہیں اور اس کی سب سے بڑی برائی ہے کہ بالائی اور نچلے طبقے کے فرق کو مضبوط کرتا ہے۔Haves اور Have not میں تقسیم کر دیا ہے دنیا کو اس تمام فرق کو مٹانے کے لیے خود سرمایہ داری کو ختم کرنا پڑے گا۔

یہ تو شروعات ہے اِس جنگ کی، ہمیں اس جمہوریت کو انسانی اقتدارکے ساتھ جوڑنا پڑے گا۔ بنیادی حقوق کی پاسداری کرنی پڑے گی۔ سرمایہ داری کی وسعت کو محدود کرنا پڑے گا` اس یقین کے سا تھ کہ ہماری پارلیمنٹ میں صرف اشرافیہ ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی جا سکتا ہے اور اس کے لیے ہمیں رنگ ونسل کے امتیازی فرق کو مٹا کر ایک ہونا پڑے گا۔

The post اس جمہوریت سے اس جمہوریت تک appeared first on ایکسپریس اردو.


دیوتاؤں کے بارہ مخالفین

$
0
0

زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوتوں کے پوشیدہ سرچشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا کہ انسان میں ایک تعجب خیزخوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے ۔’’دیوتاؤں کے بارہ مخالفین‘‘ کے مصنف ولیم بولیتھو اسے یوں بیان کرتے ہیں دنیا میں اہم ترین چیز یہ نہیں ہے کہ تم اپنے منافعے کو بڑھاتے رہو، بے وقوف بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ درحقیقت اہم ترین چیز یہ ہے کہ تم اپنے خسارے سے منافع حاصل کرو، یہاں ذہانت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ہی عقل مند اور بے وقوف کے درمیان حد فاصل قائم کرتی ہے۔

بولیتھو نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ریل کے ایک حادثے میں اس کی ایک ٹانگ جاتی رہی، دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگیوں کا جس قدر زیادہ مطالعہ کیا جائے تو اتنا ہی یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا کہ ان لوگوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رکاوٹوں اور مشکلوں سے آغاز کیا جنہوں نے ان کی عظیم کامیابیوں اور فتح مندیوں کے لیے مہمیزکا کام دیا۔ ولیم جیمز کے الفاظ میں ہماری کمزوریاں غیر متوقع طور پر ہماری امداد کرتی ہیں۔ یہ بالکل حقیقت ہے ملٹن بہترین شاعری اس لیے لکھ سکا کیونکہ و ہ اندھا تھا۔ بیتھوون نے موسیقی کی آفا قی دھنیں ایجاد کیں کیونکہ وہ بہرا تھا۔

ہیلن کیلر کی درخشاں حیات کے پیچھے اس کی عدم بصارت اور بہر ے پن کا ہاتھ ہے اگر چیکو وسکی اپنی المناک شادی سے مایوس ہوکر خو دکشی کرنے کے لیے تقریباًآمادہ نہ ہو جاتا اور اگر اس کی اپنی زندگی دردنا ک نہ ہوتی تو وہ شاید کبھی بھی اپنی غیر فانی رقت انگیز سمفنی ایجاد نہ کر سکتا۔ اگر دوستوفسکی اور ٹالسٹائی کی زندگیاں دکھ بھری اور اذیت ناک نہ ہوتیں تو غالباً وہ کبھی بھی اپنے غیر فانی ناول تصنیف نہ کرسکتے۔

نامور ناول نگار مسز تھامپسن اپنی کہانی سناتے ہوئی کہتی ہیں ’’دوران جنگ میرے شوہر کو نیو میکسیکو میں صحرائے موجیو کے قریب ایک فوجی تربیتی کیمپ میں تعینات کیاگیا۔ میں بھی وہیں چلی گئی تاکہ اس کے پاس رہوں، مجھے اس جگہ سے نفرت تھی میں ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں رہتی تھی، گرمی ناقابل برداشت تھی۔

میکسیکو اور حبشیوں کے سوا وہاں بات چیت کرنے کے لیے کوئی دوسری مخلوق نہیں تھی اور وہ بھی انگریزی سے نابلد اور میں ان کی زبان سے ناآشنا۔ ہر وقت لو چلتی رہتی تھی میرا کھانا ریت سے بھر جاتا تھا جس فضا میں سانس لیتی تھی وہ ریت سے اٹی ہوئی ہوتی تھی ، میں اس قدر دکھی تھی کہ مجھے اپنے اوپر ترس آنے لگا اور گھبرا کر اپنے والدین کو خط لکھ دیا کہ میں یہاں کی زندگی ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتی، اس سے تو جیل کی چار دیواری ہی اچھی ہے۔

میرے والد نے اس کے جواب میں صرف دو سطریں لکھیں ان دو سطروں نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔ انھوں نے لکھا ’’دو آدمیوں نے جیل کی سلاخوں سے جھانک کر باہر دیکھا ایک نے ستارے دیکھے اور دوسرے کوکیچڑ نظر آئی‘‘ میں نے ان سطروں کو بار بار پڑھا مجھے اپنے اوپر شرم آنے لگی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ میں ستاروں کو تلاش کرونگی۔ پھر میں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ دوستی کر لی تو انھوں نے مجھے اپنی ایسی ایسی شاندار چیزیں بطور تحفہ دیں جنہیں وہ سیاحوں کے پاس بیچنے سے انکارکر دیتے تھے۔

صحرا میں آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے نظاروں کو دیکھتی سمندری سیپیوں کی تلاش کرتی جو وہاں لاکھوں سال سے پڑی تھیں جب صحرا سمندر ہوا کرتا تھا اور مجھ میں تعجب خیز تبدیلی پیدا ہو گئی۔ صحرائے موجیو نہیں بدلا تھا حبشی نہیں بدلے تھے لیکن میں ضرور بدل گئی تھی میرا ذہنی رویہ بدل گیا تھا میں نے ایک نئی دنیا دریافت کر لی تھی جس نے میرے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کر دیا تھا اس نے میرے جذبات کو اس قدر ابھار دیا کہ میں نے اس کے متعلق ایک ناول لکھا جو ’’روشن پشتے‘‘ کے نام سے شایع ہوا میں نے اپنے بنائے ہوئے زندان کی سلاخوں سے با ہر جھانکا اور ستاروں کو پا لیا۔‘‘

مسز تھامپس نے ایک بہت پرانی حقیقت کو دریا فت کر لیا تھا جس کا پانچ سو سال قبل از مسیح یونانی پرچار کیا کرتے تھے ’’بہترین چیزیں انتہائی مشکل ہوتی ہیں ‘‘میرے ہم وطنوں یاد رکھیں کہ آپ میں بھی منفی کو مثبت میں تبدیل کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے آپ بھی ہر ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں۔

ذہن نشین رکھیے گا اس زیادہ مشکلات ممکن نہیں ہیں جو آپ برداشت کر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنی مشکلات کی عزت کرنے لگے ہیں تو پھر ہر بات بیکار ہے اگر نہیں تو پھر آئیں مل کر اپنی مشکلات کی بے عزتی کرتے ہیں انھیں ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انھیں اتنا پریشان کر دیتے ہیں کہ کبھی دوبارہ ہماری طرف رخ کرنے کا سوچیں بھی نہیں۔ اس سے پہلے بس ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہونگے کیونکہ آسانی، خوشحالی اور ترقی کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہوتا ہے۔

تبدیلی رویے تبدیل کرنے کا نام ہے سوچ کو تبدیل کرنے سے رویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہم ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملتے ہیں بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیتے ہیں، اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غور و فکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس لیے عمر گزرنے کے ساتھ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

معاف کیجیے گا ہم 67 سال سے کچھ نہیں کر رہے بس چوراہے پر بیٹھے آنے جانے والوں کو دیکھ رہے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو گھر جاکر سوجاتے ہیں اور صبح دوبارہ وہیں آکر بیٹھ جاتے ہیں نہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہے نہ ہمیں اپنی منزلوں کا پتہ ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے حالات کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔

بس ایک ہی گیت گائے جا رہے ہیں جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا ۔ تو پھر ظاہر ہے پیدا گیروں، لٹیروں، غاصبوں کی عید تو ہونی ہی ہے۔ ان کے لیے اس سے زیاد ہ اچھے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں۔ جب انسان اپنا دشمن آپ ہو تو پھر اسے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ معاف کیجیے گا ہم اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں اگر ہم اپنے حالات تبدیل کرنا چاہتے تو پھر ہمیں اپنے آپ سے محبت کرنا ہوگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہمیں اپنے آپ پر ترس آجائے گا۔

The post دیوتاؤں کے بارہ مخالفین appeared first on ایکسپریس اردو.

قاضی واجد کوچۂ فن کو اداس کرگیا

$
0
0

ہنستے بولتے اور اپنے کرداروں کے رنگ بکھیرتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ دنوں نامور فنکار قاضی واجد بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور کوچۂ فن کو اداس کر گیا۔ قاضی واجد ایک سینئر صداکار اور اسٹیج و ٹی وی کا نامور اداکار ہی نہیں تھا وہ اپنی ذات میں ایک اسکول آف تھاٹ تھا۔ وہ ریڈیو کے سنہرے دور کی کبھی بھلائی نہ جانے والی چاہت بھری شخصیت تھا۔

میری قاضی واجد سے پہلی ملاقات اور پھر شناسائی ریڈیو ہی کے زمانے سے ہوئی تھی اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ریڈیو اسٹیج اور ٹی وی سے جڑتے ہوئے ہر شخص کی آنکھوں کا تارا اور سب ہی کی پسندیدہ شخصیت تھا، جب کہ ریڈیو قاضی واجد کا گھر آنگن تھا۔

ریڈیو ہی اس کی زندگی اور اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ہر طرف بہار ہوتی تھی اور اس دور میں آنکھیں ریڈیو کے آرٹسٹوں کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں جب سلیم احمد، امیر خان، افضل صدیقی، ظفر صدیقی، عبدالقیوم، محمود علی سبحانی بایونس، قربان جیلانی اور طلعت حسین کی مقبولیت تھی انھی ناموں میں پھر ایک نام قاضی واجد کا بھی شامل ہوگیا تھا۔

پھر جب قاضی واجد ریڈیو سے اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی طرف آیا تو اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت ہر میدان میں اپنی جیت کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اور ہر وقت منفرد اور اچھوتے کرداروں کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ جتنا بڑا اداکار بنتا گیا اور جتنی شہرت اس کے حصے میں آتی رہی وہ اتنا ہی ملنسار اور دوست نواز ہوتا چلا گیا۔ سادگی اور محبت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ خواجہ معین الدین کے شہرۂ آفاق ڈرامہ ’’تعلیم بالغاں‘‘ میں آیا تو اس کی کردار نگاری نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ شوکت صدیقی کا مشہور ناول ’’خدا کی بستی‘‘ سیریل جب ٹیلی ویژن سے شروع کی گئی تو اس کی اداکاری کے ناظرین بے چینی سے منتظر رہا کرتے تھے۔

یہ اپنے ہر کردار میں ڈوب جاتا تھا اور اس کے ہر کردار میں حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک فلمی صحافی سے ایک فلم اسکرپٹ رائٹر بنا اور مجھے فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھنے کا موقع ملا تو میں نے اس فلم کے آرٹسٹوں کو منتخب کرنے میں بھی بڑی دلچسپی لی تھی۔ بطور فلمی صحافی میری فلمی دنیا میں بھی ایک پہچان بن چکی تھی۔

سنگیتا اور ناظم کو ہیروئن اور ہیرو کاسٹ کرنے کے بعد میں نے ہی مذکورہ فلم میں سنتوش رسل، کمال ایرانی کے ساتھ ساتھ پہلی بار معین اختر اور قاضی واجد کو فلم تم سا نہیں دیکھا کی کاسٹ میں شامل کیا تھا۔ سنگیتا اس فلم سے پہلے ڈھاکا کے اداکار فلمساز و ہدایت کار رحمان کی فلم کنگن میں کام کر چکی تھی اور ان دنوں اداکار ناظم ہدایتکار اکبر بنگلوری کی فلم محمد بن قاسم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ ان دوں آرٹسٹوں کی دوسری فلم تھی اور معین اختر اور قاضی واجد کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔

معین اختر اور قاضی واجد دونوں ہی میرے اچھے دوست تھے اور پھر جب سنگیتا چند مہینوں کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئی تھی اور اس نے لاہور کی فلمی مصروفیات کی وجہ سے کراچی آنے سے انکار کردیا تھا تو پھر فلم تم سا نہیں دیکھا کی بقیہ شوٹنگ ہم نے لاہور کے اے ایم اسٹوڈیو میں کی تھی جہاں کراچی سے ناظم، معین اختر اور قاضی واجد فلم یونٹ کے ساتھ لاہور گئے تھے اور دو ہفتے وہاں شوٹنگ میں مصروف رہے تھے۔

پھر اداکار ناظم کو لاہور میں فلمساز و اداکار رنگیلا کی فلم میں سائیڈ ہیرو کا کردار مل گیا اور معین اختر کے ساتھ قاضی واجد واپس کراچی آگئے تھے۔ ان دونوں آرٹسٹوں کا لاہور کی فلم انڈسٹری سے مزاج میل نہیں کھاتا تھا جب کہ معین اختر کراچی کے فنکشنوں کی جان تھا اور کوئی شام ایسی نہ ہوتی تھی جس میں معین اختر کا کوئی فنکشن نہ ہوتا ہو۔ شادی بیاہ کے فنکشنوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے فنکشنوں کی میزبانی بھی اسی کے حصے میں آتی تھی اور وہ کراچی کے فنکشنوں کا شہزادہ کہلاتا تھا۔

پھر معین اختر کے ساتھ قاضی واجد بھی ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا حصہ بنتا چلا گیا اور یہ دونوں آرٹسٹ پی ٹی وی کی جان اور ٹیلی ویژن کا سرمایا سمجھتے جاتے تھے۔ اسی دوران یہ دونوں آرٹسٹ کراچی اسٹیج کی رونقیں بھی بڑھاتے رہے۔ یہ دونوں آرٹسٹ فن کی دنیا کے منجھے ہوئے کھلاڑی بن گئے تھے۔ یہ اپنے ہر کردار کو فن کے آسمان پر چاندنی کی طرح پھیلادیا کرتے تھے۔

پی ٹی وی کے بعد بہت سے اور چینلز بھی منظر عام پر آگئے تھے قاضی واجد ہر چینل کے ڈراموں میں کاسٹ کیا جانے لگا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قاضی واجد دن میں، رات میں کئی کئی پرائیویٹ چینلز کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا اور بعض اوقات تو اسے گھر جانے کے لیے بھی مشکل سے فرصت ملا کرتی تھی۔ ہاں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ نارتھ ناظم آباد میں جس علی دولت اسکوائر میں میری سکونت تھی ابتدا میں اسی اسکوائر میں قاضی واجد بھی رہتا تھا۔

اسی اپارٹمنٹ میں ریڈیو کی مشہور پروڈیوسر خواجہ بیگم، ریڈیو کا سنگر اور کمپوزر جاوید اختر، ریڈیو پاکستان کراچی کا مشہور اناؤنسر ظہیر احمد خان بھی رہتا تھا۔ ہماری اکثر ملاقاتیں اور عید، بقر عید اور محرم کے دنوں میں اکثر و بیشتر بیٹھکیں بھی رہا کرتی تھیں اور نویں محرم کی رات کو سب مل کر گلی میں حلیم کی دیگیں بھی پکوایا کرتے تھے اور رات بھر کا رت جگا بھی رہا کرتاتھا۔

پھر خواجہ بیگم کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ جاوید اختر اور قاضی واجد نے یہاں کے فلیٹس چھوڑ کر اپنے اپنے بڑے گھر لے لیے مگر محرم کی نویں اور دسویں کو پھر سارے فنکار دوست یکجا ہو جایا کرتے تھے اور ان سب دوستوں کو یکجا کرنے میں علی دولت کے جیلانی بھائی کی کاوشوں کا بڑا دخل رہتا تھا۔ میں جب امریکا سے کراچی آیا تو قاضی واجد کے اچانک انتقال کی خبر مجھے سب سے پہلے جیلانی بھائی ہی نے دی تھی اور وہ علی دولت اسکوائر کے جگت بھائی کھلاتے ہیں۔

قاضی واجد کی رحلت نے تمام دوستوں، احباب اور اپنے چاہنے والوں کو اداس کردیا تھا۔ اس نے ڈراموں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اس کے ڈراموں کی تعداد دیگر آرٹسٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ خدا کی بستی ڈرامہ سیریل میں قاضی واجد نے راجا کا کردار کیا تھا جو لافانی کردار بن گیا تھا۔

قاضی واجد کا پہلا ٹی وی ڈرامہ ’’ایک ہی راستہ تھا‘‘ پھر قاضی واجد ٹی وی ڈراموں کی ضرورت بنتا چلا گیا اس کے مشہور ڈراموں میں ’’کسک، سوتیلی، بے چین، ان کہی، آنگن ٹیڑھا، تنہائیاں، دھوپ کنارے، سنگِ مرمر، یہ کیسی محبت ‘‘ کے ساتھ اس کے نام سے اتنے ڈرامے جڑے ہیں کہ اگر سب کا تذکرہ کیا جائے تو میرے کالم کا دامن ہی چھوٹا پڑ جائے گا، قاضی واجد کے اسٹیج ڈراموں میں جو بہت ہی مشہور ڈرامے ہیں ان میں ’’مرزا غالب بندر روڈ پر، لال قلعہ سے لالوکھیت اور وادیٔ کشمیر کے نام قابل ذکر اور ناقابل فراموش ہیں۔

قاضی واجد کے کریڈٹ پر ایک ڈرامہ رشتے اور راستے بھی ہے جو حکومت پاکستان اور چین کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔ قاضی واجد کو حکومت کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ قاضی واجد کے ڈرامے انڈیا کی آرٹ سے وابستہ پونا انسٹیٹیوٹ میں نئے آنے والے فنکاروں کی تربیت کے لیے بھی دکھائے جاتے تھے۔

قاضی واجد اچانک زندگی کے ڈرامے سے لے کر موت کے ڈرامے میں کاسٹ کرلیا گیا اور پھر یہ نامور اداکار ستاسی برس کی عمر میں 11 فروری 2018ء کو اس دنیا کے ڈراموں کو خیر باد کہہ کر آخرت کے اسٹیج کی طرف چلا گیا۔ قاضی واجد کا اصلی نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ یہ ہندوستان کے شہرگوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔بلاشبہ قاضی واجد صف اول کا بڑا چہیتا اداکار تھا۔ اس اداکار کا خلا برسوں بعد بھی پورا نہ ہوسکے گا، میرے پاس اب کہنے کے لیے الفاظ بھی دم توڑ رہے ہیں بس اتنا ہی کہوںگا آہ قاضی واجد:

ریڈیو جس کا آنگن سدا سے رہا

قاضی واجد بھی دنیا سے رخصت ہوا

فن کی دنیا کا وہ ایک سرمایا تھا

آہ اِک اور روشن دیا بجھ گیا

The post قاضی واجد کوچۂ فن کو اداس کرگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بالواسطہ ‘‘ دھوکا

$
0
0

حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ سینیٹ الیکشن ان کے ہاتھ سے ’’چھین‘‘ لیا گیا اور حزب اختلاف کے پینل کو توقع کے برخلاف زیادہ ووٹ ملے۔ کوئی شے اسی وقت کسی کے ہاتھ سے ’’چھینی‘‘ جاسکتی ہے جب وہ اس کے ہاتھ میں بھی تو ہو۔ کیا انتخابات کے انعقاد سے پہلے واقعی سینیٹ نواز شریف کے ’’پاس‘‘ تھی؟ ان کے نزدیک جمہوریت کی انوکھی تعبیر ہے کہ انتخابی نتائج عدالتی فیصلوں کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ ہیں، اسی لیے حزب اختلاف کی کام یابی سے ان پر جو پریشانی کی حالت طاری ہے وہ اس میں حق بجانب ہیں۔

ان کی اسی منطق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نااہلی کا عدالتی فیصلہ درست تھا! مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو بطور ’’آزاد امیدوار‘‘ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے کر  سینیٹ انتخابات میں سر اٹھانے والے تنازعات کو مزید ہوا دی گئی۔ اگران امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چیلنج کر دیے جائیں تو ، کیا عجب کہ سینیٹ کے انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے ہوسکتے ہیں؟

ایک مدت ہوئی، ایوان بالا کے بالواسطہ انتخاب پر ووٹوں کی کھلم کھلا خریدوفروخت کی وجہ سے شدید تنقید ہورہی ہے۔ پاکستان میں حقیقی روح کے مطابق جمہوریت کی نشو و نما میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ صورت حال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ کوئی اس مضحکہ خیز صورت حال کی وضاحت کرسکتا ہے کہ ہماری سینیٹ برطانیہ کے غیر منتخب ہاؤس آف لارڈز کے بجائے امریکا میں براہ راست منتخب ہونے والی سینیٹ کی طرح کیوں نہیں ہوسکتی؟

برطانوی نظام کے ماڈل پر ہماری قومی اسمبلی کے لیے براہ راست انتخاب ہوتاہے جب کہ سینیٹ کے لیے یہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت نوآبادیاتی دور کی یاد گار ہے، یہ جاگیرداری کے سامنے سرنگوں اور دراصل جمہوریت کے نام پر مذاق ہے اور من مانی تعبیرات ہی سے اسے جمہوریت ثابت کیا جاسکتا ہے۔

میگنا کارٹا نے گیارہ صدیوں پہلے ہی یہ بات ثابت کردی تھی کہ جاگیرداروں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ یہ وہی وعدہ کرتے ہیں جسے بلاخوف و خطر اور جوابدہی کے بغیر بہ آسانی توڑا جاسکے۔ انھوں نے بے خوف ہوکر صدیوں سے چلی آتی اپنی موروثی جاگیرداری کو ’’جمہوریت‘‘کا بہروپ دیا، برطانوی فخر سے اسے ’’آئینی بادشاہت‘‘ کہتے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران میں برطانیہ میں ہونے والے جرمن مخالف احتجاج کو دیکھتے ہوئے شاہی خاندان نے، اپنے ’’آئینی بادشاہت‘‘کے فریب کو جاری رکھنے کے لیے، 1917میں اپنا پرانا نام “Saxe-Coburg and Gotha” تبدیل کرکے ’’ہاؤس آف ونڈسور‘‘ رکھ دیا، جو سننے میں زیادہ برطانوی محسوس ہوتا تھا۔ حکومت ’’عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کے بنیادی اصول کو مسخ کرنے کی وجہ سے ہماری ’’جمہوریت‘‘ اپنے باطن میں ’’آئینی بادشاہت‘‘ کے مقابلے میں زیادہ ناقص ہے۔

کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ ہمارے ’’جمہوری‘‘ جاگیردار لیڈر کبھی ’’مقامی حکومتوں‘‘ کو چلنے دیں گے۔ اگست 2015کے ’’ٹیلی گراف‘‘ میں لیو مک انسٹری نے بالواسطہ انتخاب پر جو شدید تنقید کی تھی وہ پاکستان میں جاری صورت حال کی جھلک تھی۔ انھوں نے لکھا تھا:’’دارالامرا کا تسلسل برطانوی سیاست پر بزدلی اور جمود کی فرد جرم کے مترادف ہے۔ جدید جمہوریت میں اس قدر بڑے اور فرسودہ ایوان کی کوئی گنجایش نہیں۔۔۔اس کے وجود کو جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کی جانے والی ہر دلیل غلط ہے۔

اس کا دفاع کرنے والے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایوان دانش مند سیاسی مدبرین، اعلیٰ پائے کے ماہرین  اور ممتاز سرکاری ملازمین سے بھرا پڑا ہے۔ اس بات میں اب سچائی باقی نہیں رہی۔ اس کے ارکان میں طاقت ور کونسلرز، سیاسی جماعتوں کے عہدے داران، ناکام ارکان پارلیمان اور پارٹیوں کو چندہ دینے والوں کی اکثریت ہے۔‘‘ ہمارے ہاں ’’بالواسطہ‘‘ منتخب ہونے والی سینیٹ مک انسٹری کی ان سطور پر پوری اترتی ہے۔ اس بالواسطہ انتخاب میں فریب کاری اور چال بازی کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اسے جمہوری تصورات کی توہین ہی کہا جاسکتا ہے۔

بالواسطہ منتخب ہونے والے یہ افراد بعد میں بالواسطہ منتخب ہونے والے صدر کے لیے حلقہ انتخاب بنتے ہیں اور نظام مزید کرپشن کا شکار ہوتا ہے۔ رومی جمہوریہ میں زیادہ تر حکام ، سینیٹ کے ارکان کے بشمول، گنے چُنے دولت مند اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے آتے تھے۔ طاقتور رومیوں کی اقلیت شاطرانہ حربوں سے پورے نظام پر مضبوط گرفت قائم رکھے ہوئے تھی۔ ہمارے ہاں منتخب ہونے والے سینیٹر اپنی مقبولیت، اہلیت، یا دیانت کے بل بوتے پر ایوان میں نہیں پہنچتے اور نہ ہی وہ دنیا بھر میں مروج طریقہ انتخاب میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا یہ بیس صدیوں پرانی رومی سینیٹ سے کسی بھی طور مختلف ہیں؟

ہم سینیٹ نشستوں پر ایسے لوگوں کا انتخاب تو کیا روکتے جو اسے اپنا ’’پیدائشی حق‘‘ سمجھتے ہیں، اس سے بڑھ کر بالواسطہ انتخاب نے ایک اور بدترین صورت اختیار کرلی ہے۔ سینیٹ انتخابات 2018 کو سبھی ’’جمہوری‘‘ پارٹیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیوں اس کے طریقۂ انتخاب کی اصلاح ناگزیر ہوچکی ہے۔

تمام صوبوں کو یکساں نمایندگی دینا ہی کافی نہیں۔ اچھے طرز حکمرانی کے ہدف حاصل کرنے لیے سینیٹرز کو پاکستان کے وفاقی نظام کا گہرا فہم حاصل ہونا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظام کیوں مؤثر انداز میں فعال نہیں۔ انھیں ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے بنائے گئے قواعد و ضوابط ہی کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ دیگر قابلیتوں کے ساتھ عوامی خدمت ، پیشہ ورانہ شعبوں میں کام کا تجربہ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے منصب کی مدت پوری کرنے کے ساتھ کوئی مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھی کام کرنے کے قابل ہوں۔

موجودہ طریقہ کار میں سینیٹ کے لیے ’’چنیدہ‘‘ افراد بالواسطہ ’’منتخب‘‘ ہوجاتے ہیں۔ اس عمل میں ہارس ٹریڈنگ کے بدترین الزامات نے جمہوریت ہی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ مدتوں سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ سینیٹ میں بھی کھلے عام رائے دہی اور براہ راست انتخاب کاطریقہ اپنایا جائے۔ تبھی اس ایوان کا اعتبار قائم ہوگا اور اس پر صرف ہونے والے کثیر قومی سرمائے سے صرف نظر کیا جاسکے گا۔

اگرچہ سینیٹ کی بنیاد تمام صوبوں کو یکساں نمایندگی فراہم کرنے کے تصور پر رکھی گئی تھی لیکن یہ اپنے اصل مقصد کے برخلاف سیاسی جماعتوں کی نمایندگی کا ایوان بن چکا ہے۔ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہونے والے حالیہ انتخاب میں یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے لیے لین دین اور بھید بھاؤ میں مصروف رہیں، ان میں سے کچھ کے نام آخری وقت تک راز میں رکھے گئے۔

2018کے سینیٹ انتخابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت جمہوریت کا کتنا فہم رکھتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے کتنی آمادہ ہے۔ یہ سینیٹ انتخابات ہمارے سیاسی منظر نامے پر ، آیندہ عام انتخابات کے دوران بھی، اثرانداز ہوں گے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وفاداریوں کی خرید و فروخت اس انداز میں آیندہ عام انتخابات(جب بھی منعقد ہوں) میں سامنے  نہیں آئے گی۔ نواز شریف پہلے ہی سپریم کورٹ سے نااہلی کے خلاف ووٹ کو حقیقی فیصلہ قرار دے چکے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو بھی اسی لیے ہوگی۔

روایتی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی راہ اپنانے کے بجائے افواج عام طور مسئلہ ’’حل‘‘ کرنے کا انتخاب کرتی ہیں، موجودہ حالات عدلیہ کو پورا جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عدالتی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو استعمال میں لائے۔

جسٹس اولیور وینڈل ہولمز نے یہ تصور دیا تھا کہ واضح درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون کے الفاظ کے بجائے اس کی روح کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔  کیا ایسے وقت میں صرف آئین کی اندھی پاسداری کی جاسکتی ہے جب جمہوریت سماج میں جرائم عام کرنے والوں کے لیے خوش نما نقاب بن کر رہ گئی ہو؟ اخلاقی طور پر قوم اور عوام کی جانب سے عائد ہونے والی ذمے داریوں اور فریضوں سے دامن نہیں چھڑایا جاسکتا، اس کے لیے آئین کی عبارتوں کی تشریحات میں پناہ لے کر فرار اختیار کرنا بددیانتی اور بزدلی کے مترادف ہوگا۔

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)

The post ’’بالواسطہ ‘‘ دھوکا appeared first on ایکسپریس اردو.

روہنگیا کے بعد سری لنکا

$
0
0

اخباری اطلاعات کے مطابق سری لنکا میں ایمرجنسی کے باوجود مسجدوں، دکانوں، گھروں پر پٹرول بموں سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے پولیس اہلکار بھی بے بس ہیں۔ اب تک 200 گھروں، دکانوں، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ 3مسلمان شہریوں کو ہلاک کردیاگیا ہے۔

ایک گھر سے ایک مسلم نوجوان کی لاش بھی ملی ہے۔ علاقے میں تا حال انٹرنیٹ سروس اور سوشل میڈیا بند ہے۔ امریکی دفتر خارجہ، سری لنکن صدر اور وزیراعظم کی طرف سے فسادات کی مذمت کی گئی ہے۔ اب تک 85 افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ بودھ انتہا پسند لیڈر گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ گرفتار افراد میں 10 افراد انتہائی مطلوب بتائے جاتے ہیں۔

روہنگیا کے بعد اب فسادات کا سلسلہ سری لنکا تک پھیل گیا ہے۔ اکثریتی سنہالی آبادی بلا روک ٹوک بلا خوف و خطر مسلمانوں کے گھروں پر حملے کررہی ہے جس سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہے۔

روہنگیا کے بعد اب سری لنکا میں بودھ کمیونٹی کی طرف سے قتل وغارت، جلاؤ گھیراؤ ایک انتہائی تشویش انگیز بات ہے۔ بودھا دنیا کی تاریخ میں امن و آشتی کا استعارہ تھا، گوتم کو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ امن و آشتی کی علامت کہا گیا۔ بدھا کے معتقدین کی سادگی اور امن پسندی کا عالم یہ رہا ہے کہ وہ بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے رہے ہیں ۔ایسی بے ضرر اور امن پسند قوم اچانک اس قدر جارح اور قاتل کیسے بن گئی ہے؟ یہ ایک بہت بڑا اور گہرا سوال ہے جس پر سری لنکا کے اہل علم، اہل دانش کو غورکرنا چاہیے۔

پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار اور امن پسندانہ رہے ہیں پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستان کی حکومت اور عوام نے اسے بہت سنجیدگی سے لیا اور مدتوں اس سانحے کا ذکر ہوتا رہا، ایسے بہتر تعلقات والے ملک میں مسلمانوں کے خلاف بدھوں کے وحشیانہ حملے دونوں ملکوں کے عوام کے لیے تکلیف دہ ہیں۔

میانمار میں ایک طویل عرصے تک روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بدھوں کے حملوں اور قتل و غارت سے خوفزدہ 6 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور روہنگیا میں اب بھی خوف وہراس کی فضا قائم ہے۔ سری لنکا کا المیہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ایک ایسی قوم امن اور آشتی جس کے حوالے سے جانا جاتا تھا وہ اچانک اس طرح جارحیت پر کیوں اتر آئی۔

دنیا میں انسانی حقوق کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم ہے اور دنیا کے ہر ملک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں قائم ہیں۔ حیرت ہے کہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں پر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں لیپا پوتی کی کارروائیوں کے علاوہ کوئی ٹھوس کام کرتی نہیں دکھائی دیتیں۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام انسانی حقوق کی ایسی بد ترین خلاف ورزی ہے جس کے خلاف نہ صرف میانمار کی حکومت کو سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں تھے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا میں انسانوں اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کو بھی نہ صرف بودھوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی بلکہ ان خونی فسادات کی اپنے ادارے کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے ان عوامل کا جائزہ لینا چاہیے تھا جو روہنگی مسلمانوں کے قتل کا باعث بنے ہیں۔

بد قسمتی سے اقوام متحدہ بذاتِ خود ایک ایسی خانقاہ میں بدل گئی ہے جہاں بے فکرے گداگر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اقوام متحدہ پر عالمی امن کے تحفظ کی بھاری ذمے داری ہے لیکن یہ ادارہ بد قسمتی سے امریکا کا ذیلی ادارہ بن کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ذمے داریاں جو عالمی امن کی برقراری کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں پس منظر میں چلی گئی ہیں اور پیش منظر میں صرف امریکی مفادات رہ گئے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں 70 سالوں سے انسانی جانوں کا بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے لیکن اقوام متحدہ آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔

6 لاکھ روہنگی مسلمان بنگلہ دیش کے کیمپوں میں انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں، بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیوں کو بنگلہ دیش سے نکلنے پر اصرار کررہی ہے ۔ روہنگیا میں مقامی بودھ آبادی روہنگیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چھ سات لاکھ روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

دنیا کی بڑی طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں کے عوام کے مسائل کے حل کو پہلی ترجیح کی حیثیت دے کر انھیں حل کرنے کی کوشش کریں لیکن ان ترقی یافتہ وحشی ملکوں کا حال یہ ہے کہ شام، یمن، عراق میں ہر روز ہونے والی قتل و غارت سے دہشت زدہ عوام اپنے  وطن کو چھوڑ کر پاگلوں کی طرح ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں میں سوار ہوکر امن کی زندگی کی خواہش میں یورپی ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں سمندر میں ڈوب کر مررہے ہیں جن میں مرد بھی ہیں، خواتین بھی، معصوم بچے بھی۔

کیا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل امریکا اور مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہوں کی نظروں سے روز پیش آنے والے یہ انسانی المیے نہیں گزرتے؟ اگر گزرتے ہیں تو ان کے سر ندامت سے جھکتے ہیں؟

روہنگیا کے بعد سری لنکا کے یہ خونیں فسادات بڑھتے ہیں تو کیا روہنگیا مسلمانوں کی طرح سری لنکن مسلمان بھی ترک وطن پر مجبور ہوںگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ساری دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی مسئلہ دہشت گردی ہے اور ساری دنیا اس خطرے سے سہمی ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ملک بھی اس بلا سے خوف زدہ ہیں لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ روس اور امریکا اس نازک گھڑی میں بھی مفاداتی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس کا شاہکار شام بنا ہوا ہے۔

شام میں روس صدر اسد کا حامی ہے اور امریکا صدر اسد کا کٹر دشمن ہے اور دونوں گروہوں کی چپقلش کے نتیجے میں ایک دوسرے کے علاقوں پر اندھا دھند بمباری سے ہر روز سیکڑوں بے گناہ شہری ہلاک ہورہے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ جب تک دنیا ہے سیاست دانوں کی حکومت قائم ہے امن کے حصول کا خیال، خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے قومی مفادات کے تحفظ کا جو نشہ سیاست دانوں کو پلادیا ہے اس کی جب تک غلط تشریح ہوتی رہیںگی دنیا جہنم بنی رہے گی ۔ دنیا ہزاروں سال سے خون خرابے کا شکار ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ ہی کیوں نہ ہو اب انسان ماضی کا جاہل انسان نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی مفادات کو عالمی مفادات کے تابع کیا جائے اور انسانوں کی تقسیم کو صرف انسانوں کی شناخت تک محدود کردیا جائے تو خون خرابے اور نفرتوں میں کمی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

The post روہنگیا کے بعد سری لنکا appeared first on ایکسپریس اردو.

جماعت کا نیا انداز

$
0
0

سینیٹ کے الیکشن کا مرحلہ بھی بالآخر بغیر کسی بدمزگی کے مکمل ہو گیا ماضی کی طرح سینیٹ الیکشن کے پہلے مرحلے میں سینیٹرز کے انتخاب سے لے کر دوسرے مرحلے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات تک ووٹوں کی خریدو فروخت کا شور و غوغا رہا ، ووٹوں کی خریداری کے الزامات لگائے گئے جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے اعلان کیا ہے کہ ووٹ کی خریداری کی تحقیقات کی جائیں گی۔

اگر دیکھا جائے تو اس خریدو فروخت میں کوئی عام لوگ ملوث نہیں تھے بلکہ یہ اشرافیہ کے الیکشن تھے اور اشرافیہ ہی ایک دوسرے کی خریدار رہی اور بکتی بھی رہی اور اب اشرافیہ سے ہی پوچھا جائے گا کہ ان کو کتنے میں خریدا گیا۔

پہلے مرحلے میں سینیٹرز کی عددی تعداد کے حساب سے مسلم لیگ نواز بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی لیکن دوسرے مرحلے میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے وقت یہ عددی برتری مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کے کسی کام نہ آسکی اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پر مشتمل مشترکہ اپوزیشن کے متفقہ امیدواروں نے میدان مار لیا جس کو مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں نے بد ترین ہارس ٹریڈنگ قرار دیا بلکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حاصل بزنجو نے تو چیئرمین سینیٹ کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہمارے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان سے ہوا ہے اور اس میں مرکزی کردار بھی بلوچستان کے سیاسی لیڈروں نے ادا کیا، انھوں نے جناب آصف علی زرداری کو اس بات کے لیے راضی کر لیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی چیئرمینی سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ صرف اسی صورت میں تحریک انصاف کے ووٹ مشترکہ امیدوار کو مل سکتے تھے اس پر لبیک کہتے ہوئے جناب زرداری نے چھوٹی چیئرمینی پر ہی اکتفا کیا اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکمران پارٹی کو شکست سے دوچار کر کے اپنے کئی ماہ پہلے کے اس چیلنج کو سچ ثابت کر دیا کہ چیئرمین سینیٹ حکمران پارٹی سے نہیں ہوگا۔ اس سارے قصے میں سب سے اہم کردار پاکستان تحریک انصاف نے ادا کیا جنہوں نے اپنے تمام ووٹ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈال دیے۔

عمران خان آہستہ آہستہ پاکستان کی سیاست کے رنگوں میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک نازک موقع پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سینیٹ کا الیکشن لڑنا ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا تھا لیکن عمران خان نے چھوٹے صوبے سے چیئرمین کا امیدوار لا کر اس متوقع نقصان کا ازالہ کر دیا اور مسلم لیگ نواز کو ایک اور دھکا دینے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ عمران خان نے پہلی دفعہ سیاسی بصیرت اور داؤ پیچ استعمال کرتے ہوئے سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔ آیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن اس کے لیے انھیں جوش کے بجائے ہوش اورعقلمندی سے اپنے کارڈ کھیلنے ہوں گے۔

پاکستانی سیاست ایک مشکل سیاست کا نام ہے ہمارے جماندرو سیاست دان کسی نئے کی مداخلت بالکل برداشت نہیں کرتے اسی لیے عمران خان کی پارٹی کو ہر روز ایک نئے اسکینڈل کا سامنا رہتا ہے ان میں سے کچھ اسکینڈلز کے تو وہ خود ذمے دار ہیں اور باقی ان کے سیاسی مخالفین کا پراپیگنڈہ کہے جا سکتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کی سینیٹ میں شکست نے ان کی مقبولیت میں کمی کی ہے اور نواز لیگ کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوام میں جو بیانیہ پیش کر رہے ہیں سینیٹ میں جیت اس پر مہر تصدیق ہو گی لیکن سینیٹ میں نتیجہ ان کے خلاف آیا جس کا گلہ وہ اب اپنی اتحادی پارٹیوں سے کرتے پھر رہے ہیں کہ انھوں نے ان کو ووٹ نہیں دیے ۔

میاں نواز شریف کے اتحادیوں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حاصل بزنجو کے علاوہ محمود خان اچکزئی بھی ہیں جو کہ شروع دن سے نواز لیگ کے ساتھ ہیں ان کے سیاسی نظریات کے متعلق سب جانتے ہیں ، وہ بھی اس انتخاب کے بارے میں اپنے شک وشبہ کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایک اور حیرت انگیز بات جو سینیٹ کے الیکشن کے دوران دیکھنے میں آئی وہ جماعت اسلامی کا اس الیکشن میں کردار تھا ،انھوں نے آخری لمحات میں نواز لیگ کی حمایت کا اعلان کر کے اپنے چاہنے والے کو حیران و پریشان کر دیا مجھے بھی ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کس بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا اور کیا یہ فیصلہ فرد واحد کا تھا یا جماعت کی شوریٰ کی بھی اس فیصلے کو حمایت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی ہر محاذ پرموجودہ حکومت کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے ۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے اتحادی ہیں، پاناما کیس میں وہ نوازشریف کے خلاف کیس میں اہم فریق ہیں ہر روز ان کے امیر کی جانب سے موجودہ حکومت اور نظام پر تنقیدکی جاتی ہے اس سب کے باوجود میری سمجھ سے تو بالاتر ہے کہ وہ کون سے وجوہات تھیں جن کی بنا پر انھوں نے نواز لیگ کا ساتھ دیا۔ آیندہ الیکشن میں بھی نواز لیگ اور جماعت کا اتحاد نظر نہیں آرہا جہاں تک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہے تو جماعت اسلامی والے اس غلط فہمی سے باہر آجائیں کہ وہ پنجاب اورخاص طور پر لاہورسے کوئی کامیابی حاصل کر سکیں گے ۔

گزشتہ ضمنی الیکشن میں جتنے کم ووٹ جماعت کے امیدوار کو ملے اس سے تو اچھا تھا کہ وہ اپنا امیدوار کھڑا ہی نہ کرتے تا کہ جو بھرم قائم تھا وہی رہ جاتا لیکن جماعت میں شاید اب فیصلوں کا فقدان ہے اور شوریٰ عوام کی نبض پہچان نہیں رہی۔ بہر کیف یہ جماعت کا فیصلہ تھا اس کی اچھائی برائی کے وہ خود ذمے دار ہیں ہم جیسے تو پھر بھی ان کے لیے ہمیشہ خیر ہی مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے۔

سینیٹ کا اہم مرحلہ تمام ہوااب اگلا مرحلہ عام انتخابات ہیں جو کہ کچھ زیادہ دور نہیں ۔ سیاسی پارٹیاں اپنے جلسے جلوس شروع کر چکی ہیں ،عوام نئے حکمران منتخب کرنے کے انتظار میں ہیں،دیکھتے ہیں عوامی فیصلہ کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ الیکشن مہم میں ہی نظر آجائے گا جو کہ کچھ زیادہ دور نہیں ۔

The post جماعت کا نیا انداز appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22715 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>