Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22306 articles
Browse latest View live

یہ گلو بٹ نہیں‘ یہ نفرت ہے

$
0
0

ہم دنیا کے ان چند زندہ لوگوں کی فہرست بنائیں جن سے پورا عالم اسلام نفرت کرتا ہے تو سلمان رشدی اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں آئے گا‘ یہ انتہائی متنازعہ اور نامعقول کردار ہے‘یہ19 جون 1947ء کوبھارت کے شہر ممبئی میں پیدا ہوا‘کیمبرج سے تعلیم حاصل کی اور 1975 ء میں لکھنا شروع کیا‘ یہ اب تک 32 کتابیں لکھ چکا ہے‘ سلمان رشدی اور اس کی کتابیں لوگوں میں مقبول تھیں لیکن پھر اس نے 1988ء میں The Satanic Verses کے نام سے ایک واہیات ناول لکھ دیا‘ اس ناول کے چند توہین آمیز فقروں نے پورے عالم اسلام میں آگ لگا دی۔

اسلامی ممالک میں مظاہرے شروع ہوگئے اور عالم اسلام کی مختلف اسلامی تنظیموں اور شخصیات نے سلمان رشدی کے خلاف قتل کے فتوے جاری کر دیے‘ ایران نے 1989ء میں اس کے سر کی قیمت طے کر دی‘ سلمان رشدی اس وقت برطانیہ میں مقیم تھا‘ برطانیہ نے فوری طور پر اس کی سیکیورٹی کا بندوبست کر دیا‘ یہ جنوری 1999ء میں وہاں سے فرانس آیا اور 2000ء میں امریکا منتقل ہو گیا‘ یہ اس وقت امریکا کے شہر نیویارک کے علاقے یونین اسکوائر میں رہائش پذیر ہے‘ یہاں اسے سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی حاصل ہے‘ یہ بلٹ اور بم پروف گھر میں رہتا ہے‘ یہ میزائل پروف گاڑی میں سفر کرتا ہے‘ یہ چارٹر جہازوں میں بیرون ملک جاتا ہے۔

پولیس اسے اپنی نگرانی میں گھر سے باہر اور گھر میں واپس لاتی ہے‘ اس کے گھر کے اردگرد ہر وقت پولیس کا پہرہ رہتا ہے‘ سلمان رشدی کو ایک خصوصی ریموٹ کنٹرول بھی دیا گیا ہے‘ یہ ’’کی چین‘‘ کی طرح کا چھوٹا سا ریموٹ کنٹرول ہے ‘ یہ ریموٹ کنٹرول ہر وقت اس کے ہاتھ میں رہتاہے‘ یہ کسی بھی ہنگامی حالت میں ریموٹ کنٹرول کابٹن دبا دیتا ہے‘ پولیس اور فوج تین منٹ میں اس تک پہنچ جاتی ہے‘ اس کے گھر  کے اندر ایک خصوصی کمرہ بھی ہے‘ یہ کمرہ بم پروف ہے‘ یہ معمولی سے کھٹکے کے بعد اس روم میں پناہ گزین ہو جاتا ہے‘ یہ اس روم میں 45 روز تک رہ سکتا ہے کیونکہ اس کمرے میں 45 دن تک کے لیے ساری ضروریات موجود ہیں‘ یہ تمام انتظامات امریکی حکومت نے کر رکھے ہیں‘ حکومت ان انتظامات پر ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔

آپ یہ ذہن میں رکھئے شاتم رسول سلمان رشدی مسلمان ہے (یا تھا) اس کے خلاف فتوے بھی مسلمانوں نے جاری کر رکھے ہیں‘ یہ اگر شدت پسند مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو مغربی ممالک اس کی موت کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ مسلمانوں کو مزید دہشت گرد ثابت کر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ آپشن اختیار کرنے کے بجائے سلمان رشدی کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس حفاظت پر ان کے لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں‘ کیوں؟ آپ کا جواب یقینا یہ ہو گا امریکی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں‘ سلمان رشدی شاتم رسول ہے اور امریکا نے مسلمانوں کی دشمنی میں اسے پناہ دے رکھی ہے۔

یہ لوگ اس سے The Satanic Verses  جیسی مزید کتابیں لکھوانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن پھر مجھے امریکا میں ایک ٹی وی بحث دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ٹیلی ویژن کی بحث میں سی آئی اے‘ نیویارک پولیس اور وزارت خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے‘ حکومت کے غیر ضروری اخراجات پر بات ہو رہی تھی‘ میزبان نے گفتگو کے دوران سلمان رشدی کا ایشو اٹھایا اور مہمانوں سے پوچھا ’’ ہم اس شخص پر ہر سال لاکھوں ڈالر کیوں ضایع کر رہے ہیں‘ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں‘‘ تینوں مہمان بیک وقت بولے ’’ سلمان رشدی کی حفاظت امریکا کی سلامتی کے لیے ضروری ہے‘‘۔

میزبان نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ سی آئی اے کے اہلکار نے جواب دیا‘ سلمان رشدی کی حفاظت کی دو وجوہات ہیں‘ اول ’’ہمارے ملک میں بے شمار لوگ‘ بے شمار لوگوں سے نفرت کرتے ہیں‘ یہ ان لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں‘ ہماری ریاست جب ایک مسلمان (نام نہاد)کی اتنی حفاظت کر رہی ہے تو یہ ہم شہریوں کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہو گی چنانچہ یہ اپنا منصوبہ ترک کر دیتے ہیں‘ دوم‘ دنیا کے بے شمار ممالک کے لوگ اور ادارے ہمارے ملک کی بے شمار اہم شخصیات کو قتل کرنا چاہتے ہیں‘یہ ادارے اور یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ ہماری سرحدوں کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتے‘‘۔

میزبان حیرت سے مہمان کو دیکھتا رہا‘ پولیس کا اعلیٰ عہدیدار بولا ’’ ہم نے اگر سلمان رشدی کی سیکیورٹی واپس لے لی اوریہ ہمارے ملک میں مارا گیا تو لوگوں کے دلوں میںموجود قانون کا خوف ختم ہو جائے گا‘ ان کی نفرت دلوں سے نکل کر گلیوں میں آ جائے گی‘ لوگ یہ جان لیں گے ہمارے ملک میں لوگوں کو مارا جا سکتا ہے‘ لوگ پھر ہر اس شخص کو مار دیں گے جس سے یہ نفرت کرتے ہیں‘دوسرا سلمان رشدی کے قتل سے دنیا کو بھی یہ پیغام جائے گا‘امریکا کمزور ملک ہے‘ آپ امریکا میں گھس کربھی کسی کو مار سکتے ہیں اور یوں ہمارا ملک مقتولوں کا معاشرہ بن جائے گا‘ ہم لوگ یہ خطیر رقم لوگوں کی نفرت کو دماغوں تک محدود رکھنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں‘‘۔

یہ میرے لیے ایک نیا نکتہ تھا‘ ہم لوگ اکثر اوقات اس نوعیت کے نکات فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ہم نہیں جانتے‘ عوامی نفرت نظام کے لیے سونامی ہوتی ہے‘ ریاست جب نفرت کو ذہنوں تک محدود رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر گلو بٹ جیسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں‘ گلو بٹ یقیناً کسی نہ کسی کا کارندہ ہو گا‘ یہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی ہو سکتا ہے‘ یہ پولیس ٹائوٹ بھی ہو سکتا ہے اور یہ لاہور انتظامیہ کا اپنا بندہ بھی ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیا کوئی اپنا بندہ‘ کوئی ٹائوٹ‘ کوئی کارکن اور کوئی کارندہ اس خوفناک طریقے سے لوگوں کی گاڑیاں توڑ سکتا ہے‘ آپ کسی کو کتنے بھی پیسے دے دیں وہ گلو بٹ کی طرح دوسروں کی گاڑیاں نہیں توڑے گا‘ لوگ گاڑیوں پر حملے کرتے ہیں‘ شیشے بھی توڑتے ہیں اور لائٹس بھی کرچی کرچی کر تے ہیں لیکن وہ لوگ گاڑی پر ایک آدھ پتھر یا ڈنڈا مار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

دنیا کا کوئی شخص اس طرح ڈنڈا اٹھا کر گاڑیاں نہیں توڑتا جس طرح گلوبٹ نے 17 جون کو ادارہ منہاج القرآن کے سامنے گاڑیاں توڑی تھیں‘ گلو بٹ سرمستی کے عالم میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسا رہا تھا‘ وہ گاڑیاں توڑ کر فاتحانہ انداز سے رقص بھی کرتا رہا یہ رویہ نارمل نہیں‘ یہ رویہ دیہاڑی پربھی نہیں خریدا جا سکتا‘ یہ ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اور کسی شخص کو صرف ’’موٹی ویٹ‘‘ کر کے اس سے یہ کام بھی نہیں لیا جا سکتا‘ یہ نفرت تھی‘یہ گلو بٹ کی نظام‘ حکمرانوں‘ اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔

یہ وہ نفرت تھی جو بیمار معاشروں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے اور جب انسان کو اس نفرت کو اگلنے کا موقع ملتا ہے تو یہ ایک ڈنڈے سے تیس تیس گاڑیاں توڑ دیتا ہے‘ فرانس میں جب انقلاب آیا تو پیرس کے بپھرے ہوئے لوگ چند منٹوں میں 25 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وارسائی میں بادشاہ کے محل تک پہنچ گئے‘ بادشاہ نے حیران ہو کر وزیر سے پوچھا ’’ یہ لوگ اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے‘‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت یہ نفرت کے گھوڑے پر سوار تھے‘ ان کے پیروں میں نفرت کی آگ لگی تھی‘‘ نفرت کی آگ اور نفرت کے گھوڑے بہت تیز ہوتے ہیں۔

یہ چند لمحوں میں ہزاروں لاکھوں میل کا سفر طے کر جاتے ہیں‘ یہ عام لوگوں کو گلو بٹ بنا دیتے ہیں‘ آپ گلو بٹ کی فوٹیج کو بار بار دیکھیں‘ آپ کو اس ملک کے ہر غریب شہری کے اندر ایک کھولتا ہوا گلو بٹ ملے گا ‘ یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں‘ بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں‘ یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچ جائیں گے یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔

یہ عوامی نفرت کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ پولیس گلو بٹ کو ریمانڈ کے لیے ماڈل ٹائون کچہری میں لے کر گئی‘ عدالت میں موجود وکلاء اور عام لوگوں نے گلو بٹ کو دیکھا تو انھوں نے اسے پولیس کی حراست میں مارنا شروع کر دیا‘ گلو بٹ کو اتنے تھپڑ‘ ٹھڈے اور مکے لگے کہ وہ فرش پر گر کر بے ہوش گیا‘ پولیس نے اسے گھسیٹ کر رکشے میں ڈالا اور اسپتال لے گئی‘ یہ نفرت کا دوسرا اظہار تھا یعنی عوام اور وکلاء نے عدالت کے احاطے میں پولیس کی موجودگی میں گلو بٹ کو پھینٹی لگا دی اور عوام کو پولیس روک سکی‘ عدالت کا احترام اور نہ ہی قانون کا ڈر۔ یہ مثال کیا ثابت کرتی ہے؟

یہ مثال ثابت کرتی ہے‘ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے عوامی انصاف کی طرف بڑھ رہا ہے اور دنیا کے جس ملک میں بھی‘ جس دور میں بھی عوامی انصاف کا سلسلہ شروع ہوا وہ ملک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوا اور وہ ملک تباہ بھی ہو گیا‘ عوامی نفرت بوتل کے جن کی طرح ہوتی ہے‘ یہ اگر ایک بار کارک توڑ کر باہر نکل آئے تو پھر اسے بوتل میں دوبارہ بند نہیںکیا جا سکتا اور ہماری سماجی بوتل کا کارک تقریباً نکل چکا ہے‘ ہم میں سے آدھے گلوبٹ ہیں اور آدھے ماڈل ٹائون کچہری کے وہ وکیل جو احاطہ عدالت میں مکوں‘ ٹھڈوں ور تھپڑوں سے انصاف شروع کر دیتے ہیں‘ ملک کی جب یہ حالت ہو گی تو پھر اندر سے طالبان آئیں گے اور باہر سے ریمنڈ ڈیوس اور ہم کسی کو روک نہیں سکیں گے‘ اندر والوں کو اور نہ ہی باہر والوں کو اور ہم آج اس عمل سے گزر رہے ہیں۔


اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

$
0
0

ایک دوست نے ہمیں ظفر اقبال کے ایک کالم کا تراشہ بھیجا ہے۔ ساتھ میں شرم دلائی ہے کہ دیکھیے ابھی تو آپ کی کتاب اپنی دانست  میں تازہ تازہ ہے۔ سرورق تک میلا نہیں ہوا ہے۔ مگر ظفر اقبال نے اس پر لکھ کر جلد ہی حساب بیباق کر دیا۔ ایک آپ ہیں کہ ان کی کلیات غزل کی چوتھی جلد بعنوان ’اب تک، کو کب سے دبائے بیٹھے ہیں۔ اسے ایسے ہی پی گئے کہ پھر سانس ڈکار ہی نہیں لی۔

یہ خط پڑھ کر ہم دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئے۔ لیکن معلوم ہے قصہ کیا ہوا۔ کلیات غزل ظفر اقبال کی تین جلدیں پہلے ہو چکی تھیں اور ہر جلد کی ضخامت کم و بیش اتنی ہی تھی جتنی اس جلد کی ہے اور اتنی جلدی جلدی ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد یہ چوتھی جلد آئی کہ ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ہم نے فوراً ہی اپنے ایک کالم میں اس واقعہ کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ’اب تک‘ برحق ۔ مگر میرے بھائی‘ آخر کب تک۔ بلکہ کب تلک۔ یہ کیا کہ؎

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

یہ جو تمہاری غزل کا دریا چڑھا ہوا ہے‘ آخر کبھی اترے گا بھی۔ اس کا جواب نہیں آیا۔ مگر دریا ہے کہ مستقل چڑھتا چلے جا رہا ہے اور گھوڑا بگٹٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ غالب بھی ایک مقام پر آ کر رک گیا تھا اس عذر کے ساتھ کہ؎

تو سن طبع چاہتا تھا لگام

ان کی زیر بحث جلد پر بیشک تبصرہ نہ کیا ہو۔ ہاں اس کی ایک وجہ یہ بھی تو تھی کہ ظفر اقبال کا اشہب قلم نثر کی روش پر بھی فراٹے بھر رہا تھا اور ہم مستقل جتا رہے تھے کہ تمہاری بات کم از کم ہم تک پہنچ گئی ہے۔ اور ایک دفعہ ہم نے اس عزیز پر یہ جتایا بھی تھا کہ تم اتنا کچھ کہہ رہے ہو مگر تمہارے ہمعصر شاعروں میں سے کوئی ہنکارا ہی نہیں بھرتا۔ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم بول کر تمہارا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ بولتے رہو۔ ایک سننے والا موجود ہے۔

لیجیے اس پہ ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مشاعرے میں حفیظ صاحب رواں تھے۔ مگر خاطر خواہ داد نہیں مل رہی تھی۔ سامنے پہلی ہی صف میں مولانا چراغ حسن حسرت بیٹھے تھے۔ حفیظ صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور کہا حسرت صاحب مصرعہ اٹھایئے۔ حسرت صاحب نے اپنے دستور کے مطابق پہلے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور پھر بولے کہ مولانا ہم تو اسی لیے رہ گئے ہیں۔ دوستوں کی میتوں کو کندھا دیتے اور ان کے مصرعوں کو اٹھاتے عمر بیت گئی۔ مطلب یہ نکلا کہ کوئی مصرعہ اٹھانے والا  اور فقرے پر فقرہ لگانے والا نہ ہو تو کیا شاعر کیا نثر نگار اس کا دل بجھ جاتا ہے۔

لیکن اگر پچھلے دنوں ہم نے بولنے سے کنارہ کیا تو اس کی وجہ تھی۔ ظفر اقبال تو تھمنے میں نہیں آ رہے تھے۔ ادھر ہم نے سوچا کہ آخر قاری کو اور سامعے کو سانس لینے کی تھوڑی مہلت تو ملنی ہی چاہیے۔ اور پھر یہ چوتھی جلد ہمارے سامنے تھی۔ اسے بھی پڑھنا ضرور تھا۔ پڑھ رہا ہوں اور سر دھن رہا ہوں۔ شاعر کتنا رواں ہے اور اسی روانی میں کیسا کیسا شعر نکالا ہے لو دیکھو کیسی بات کہہ دی ہے  ؎

نہیں اسے بھی یہ پیچیدہ راستے معلوم

سفر میں ہم نے جسے راہ بر کیا ہوا ہے

غالب نے تو سارا قصور راہ روکا بتایا تھا۔ راہ بر کو یہ کہہ کر بری کر دیا تھا کہ؎

چلتا ہوں تھوڑی دور پر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

یہاں کہا جا رہا ہے کہ راہی غریب نے تو راہ بر پر بھروسہ کیا تھا۔ مگر راہ بر اس کی راہنمائی کیا کرے گا۔ وہ تو خود راہ کے ایچ پیچ سے بے خبر ہے  ؎

ملے ہیں ہمیں رہنما کیسے کیسے

پتہ نہیں کس کا مصرعہ ہے۔ کب سرزد ہوا۔

لو یہ تو ہم ابھی سے چل نکلے۔ ابھی تو کلیات کی چوتھی جلد ہے پتہ نہیں سفر جاری ہے۔ منزلیں گرد کی مانند اڑی چلی جا رہی ہیں۔ پھر وہی سوال کہ اب تک کی خیر ہے۔ مگر آخر کب تلک۔ یا یوں ہے کہ؎

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

اصل میں ظفر اقبال نے اپنا کام بہت بڑھا لیا ہے۔ شاعر بنے رہنے پر قانع نہیں ہیں۔ نثر میں بھی اسی برق رفتاری سے رواں ہیں۔ نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ اپنے قاری کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔ لیجیے ہمیں اس تقریب سے اختر احسن کی یاد آ گئی۔؎

ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

کتنے برس وہ ہمارے آپ کے بیچ ٹی ہاؤس میں بھٹکتا رہا۔ پھر وہ پاکستان سے گزر کر امریکا کی طرف نکل گیا۔ علوم کی وادیوں میں بھٹکتے بھٹکتے اس نے وہاں علمی حلقوں سے داد بھی حاصل کر لی۔ چند سال پہلے اس نے ایک دو پھیرے لاہور کے لگائے تھے۔ جاتے جاتے جو ہمیں ایک اپنی تصنیف پکڑا گیا۔ انگریزی کی لمبی نظم۔ کہہ لیجیے کہ پورا رزمیہ۔ ہم نے کتاب کو کھولا اور دیباچہ پڑھا تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ اس عہد کے ایک عالم بشریات‘ دیو مالاؤں کے شناور جوزف کیمبل نے دیباچہ لکھا تھا۔ اس نے واقعہ یوں بیان کیا کہ ایک دن اچانک ایک نوجوان نے میرے دروازے پر دستک دی۔

آتے ہی اطلاع دی کہ میں نے ایک نظم لکھی ہے۔ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اور میں حیران اس کی نظم سنتا چلا گیا۔ اب وہ کتاب ہمارے سامنے نہیں ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جوزف کیمبل نے جس طرح اپنا یہ تجربہ بیان کیا تھا وہ ہم بیان کر سکتے۔ ایسا ماہر سامع جو اپنی جگہ پر بھی علم دریاؤ ہو کسی لکھنے والے کو مشکل ہی سے میسر آتا ہے۔ ادھر ہمارے دوستوں کا حال یہ ہے کہ اختر احسن قسم کی مخلوق کو کتنی دیر تک سنتے ہیں۔ صبر کا دامن جلد ہی ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں۔ علموں بس کریں او یار۔

ادھر ظفر اقبال نے بقول انیس مضامین نو کے اتنے انبار لگا دیے ہیں کہ ہم ایسوں کی عقل گم ہے۔ پھر بھی انھیں بہت اچھے بہت حوصلہ مند قاری میسر آئے۔؎

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

نیا سیاسی اتحاد؟

$
0
0

مولانا طاہر القادری کی عوامی تحریک اور مسلم لیگ (ق)کے درمیان لندن میں دو روزہ مذاکرات کے بعد دونوں جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے، اس اتحاد نے ایک دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے جس کا بنیادی مقصد موجودہ حکومت کو ہٹا کر ملک میں 66 سال سے جاری Status Quo کو توڑنا ہے۔ طاہر القادری 23 جون کو پاکستان آ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان آتے ہی اس تحریک کی قیادت کریں گے جو ملک میں لوٹ مار اور کرپشن کا خاتمہ کر دے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا بھر خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں لوٹ مار اور کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین ملک بنا ہوا ہے اور طاہر القادری اس لوٹ مار اور کرپشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری ایک باضمیر سیاستدان اور ایک ذہین انسان ہیں وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ لوٹ مار اور کرپشن کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتی۔

اس کے لیے ان طبقات کو بے دست و پا کرنا ہوگا جن کا پیشہ ہی لوٹ مار اور کرپشن ہے اور یہ طبقات کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتے بلکہ انھیں ختم کرنے کے لیے ان کے منہ سے وہ زہر کی تھیلیاں نکالنا پڑیں گی، وہ دانت توڑنے پڑیں گے جن سے وہ عوام کی خوشیوں، عوام کی بنیادی ضرورتوں، عوام کے حقوق کو ڈستے ہیں اور ان لٹیروں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ بلا روک ٹوک، بلا تردد عوام کو لوٹتے رہیں۔ وہ دانت وہ زہر کی تھیلیاں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ آج بھی یہ عوام دشمن طبقات قانون ساز اداروں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔

اس دو جماعتی نئے اتحاد نے جن دس نکات کا اعلان کیا ہے ان میں نہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا کوئی نکتہ ہے، نہ سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی تجویز ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کو کنفیوز کرنے کے لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاگیرداری ختم ہو چکی ہے۔ حیرت ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے ان اعداد و شمار سے بھی لاعلم ہیں جو میڈیا میں آتے ہیں کہ موجودہ قانون ساز اداروں میں جاگیردار طبقہ اکثریت میں ہے، اسی طرح مرکزی اور صوبائی کابیناؤں میں بھی اس طبقے کی اجارہ داری ہے۔ یہ بات عموماً تسلیم کی جاتی ہے کہ ایوب خان اور بھٹو کی نافذ کردہ زرعی اصلاحات کو جاگیردار طبقے نے ناکام بنا دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جاگیرداری نظام موجود ہے۔

ہم نے اس بنیادی مرض کی طرف توجہ اس لیے دلائی ہے کہ قادری، چوہدری اتحاد میں اس اہم ترین مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے ہاتھوں میں 80 فیصد قومی دولت کا ارتکاز ہے اور قادری صاحب اور ان کے ہمنوا اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دولت ناجائز طریقوں یعنی کرپشن کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر لوٹ مار اور کرپشن کو روکنا ہے تو اس کا واحد راستہ نجی ملکیت کو ضروریات زندگی تک محدود کرنا ہے، سوشلسٹ نظام میں کرپشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔

طاہر القادری اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، ہم یہاں چوہدری برادران کا ذکر اس حوالے سے اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کا سیاسی ماضی ہمیشہ حکومت وقت سے وابستہ رہا اور ان کے خاندان کے شہزادے بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں رہے ہیں۔ قادری صاحب اپنے معتقدین کی طاقت کے ذریعے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔

قادری 1968ء اور 1977ء کی تحریکوں سے اچھی طرح واقف ہوں گے، یہ تحریکیں کسی مذہبی رہنما یا مذہبی جماعت کے کارکنوں پر مشتمل نہیں تھیں، بلکہ ان تحریکوں میں ہر طبقہ فکر کے لاکھوں عوام مرد، عورت، بوڑھے، جوان سب شامل تھے، حکومت ان تحریکوں کے سامنے بے دست و پا ہو گئی تھی، فوج کو ان تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن عوام کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ فوج جلوسوں کو روکنے کے بجائے جلوسوں کی قیادت کر رہی تھی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مارشل لا لگ گیا اور فوجی آمروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

قادری صاحب اسلام آباد میں ایک انقلاب کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اپنی غیر منصوبہ بندی کی وجہ سے سخت ناکامی اور بدنامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکیلے قادری صاحب کیا ملک کے 18 کروڑ عوام کو متحرک کر سکتے ہیں؟ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام موجودہ حکومت سے بھی اسی طرح نالاں ہیں جس طرح وہ ماضی کی حکومتوں سے نالاں تھے لیکن کیا عوام 1968ء اور 1977ء کی طرح سڑکوں پر آ جائیں گے؟ اگر آ بھی گئے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ یا تو فوج اقتدار پر لامحدود مدت کے لیے قابض ہو جائے گی یا ایک مقررہ مدت میں الیکشن کروا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دے گی۔ یہ منتخب حکومت کس کی ہوگی؟

کیا اس منتخب حکومت میں مزدور، کسان، ہاری اور دوسرے مڈل اور لوئر مڈل کلاسوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثریت میں ہوں گے؟ یا وہی چور، لٹیرے، ڈاکو اقتدار میں آئیں گے جو 1970ء سے 2013ء تک آتے رہے ہیں؟ اگر قادری صاحب کی ممکنہ تحریک کا انجام 1968ء اور 1977ء جیسا ہی ہونا ہے تو قادری صاحب  تحریک کی زحمت کیوں کر رہے ہیں؟عمران خان کے پاس بھی اسٹریٹ پاور ہے۔

خیال تھا کہ عمران خان، قادری کا ساتھ دیں گے لیکن عمران خان کی سیاست کے نشیب و فراز کو سمجھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان کی نظر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر لگی ہوئی ہے، وہ ایسے محفوظ راستوں کی تلاش میں ہیں جو انھیں وزارت عظمیٰ تک پہنچا دیں۔ کیا قادری صاحب سے اتحاد کی شکل میں عمران خان کی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے؟ پھر عمران خان کو علم ہے کہ اگر کوئی بڑا اتحاد عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو نتیجہ 1968ء اور 1977ء سے مختلف نہیں ہو گا۔

سب سے پہلے انقلاب کے معنی و مطلب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کوئی کبڈی یا فٹبال کا میچ نہیں، نہ کرکٹ ہے کہ لوگ ہر گول، ہر رن پر تالیاں بجائیں۔ انقلاب ایک انتہائی بے رحم آپریشن کا نام ہے جس میں قومی جسم کے گلے سڑے حصوں کو کاٹ کر الگ کرنا پڑتا ہے۔ ان طبقات کو جو صدیوں سے معاشرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں کاٹ کر پھینکنا پڑتا ہے اور ان طبقات کے پاس جمہوریت اور مینڈیٹ کی ڈھال کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کی طاقت بھی ہے اس قدر مضبوط سیٹ اپ کو توڑنے کا کام دھرنوں اور محدود جلسوں جلوسوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سڑکوں پر لانا اور ان کی طاقت کو اس ہوشیاری اور منصوبہ بندی سے استعمال کرنا پڑتا ہے کہ غیر متعلقہ طاقتیں اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اس نئے سیاسی اتحاد کو ان بنیادی مطالبات کے لیے پہلے آگے آنا ہو گا جو موجودہ سیٹ اپ کے تحفظ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی انتخابی اصلاحات زرعی اصلاحات بلدیاتی انتخابات نجی ملکیت کے حق کو محدود کرنا وغیرہ۔ ورنہ بڑی سے بڑی تحریک بھی 1968ء اور 1977ء سے مختلف نتائج نہیں دے سکتی۔

پیر اور منگل کی درمیانی رات کا کمانڈو آپریشن

$
0
0

کئی برس تک میں خود بھی اس مغالطے میں مبتلا رہا کہ ابلاغ کے بے تحاشا نئے ذرایع کی دریافت و فروغ کے باعث لوگوں کے ذہنوں میں کشادگی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے یا واقعہ کی بے پناہ جہتوں کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی وجہ سے حقائق کو اب پرانے وقتوں کے لوگوں سے کہیں زیادہ آسانی سے جان لیتے ہیں۔ انھیں گمراہ کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔

میری اس سوچ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب 2003ء میں مجھے پہلے اُردن پھر شام اور بالآخر عراق پہنچ کر اس ملک پر امریکا کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے حوالے سے چند حقیقتوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حقائق جو میری آنکھوں نے دیکھے ان کا دُنیا بھر کے میڈیا میں کہیں ذکر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ساری خبروں کا اصل مقصد بنیادی طور پر یہ بیان کرنا تھا کہ جدید ترین اسلحے اور دیگر وسائل کی بنیاد پر حیران کن سرعت کے ساتھ امریکی افواج بغداد پر قابض ہو گئیں۔ تجزیوں کی حد تک دُنیا بھر کے تمام لکھنے والے صرف اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے کہ صدام حسین کے مبینہ طور پر Weapons of Mass Destruction  کو تباہ کرنے کے نام پر مسلط کی گئی یہ جنگ کس حد تک ’’منصفانہ‘‘ تھی۔

صرف اس حوالے سے ہوئی تحقیق نے مجھے یہ حقیقت دریافت کرنے میں مدد دی کہ ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کو بالآخر طاقتور قوتیں ہی اپنی مرضی کا ’’سچ‘‘ گھڑنے کے لیے سفاکانہ مہارت کے ساتھ استعمال کیا کرتی ہیں۔ ٹیلی ویژن اس حوالے سے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامائی مناظر کی مناسب تدوین و ترویج کے ذریعے ٹیلی وژن اسکرین گھروں میں بیٹھے افراد کو ایک چسکے دار کہانی فراہم کر دیتی ہے اور ناظرین کی اکثریت اس کہانی سے اسی طرح کا لطف اٹھانا شروع کر دیتی ہے جو عام طور پر نشے کے عادی افراد اپنی پسند کی نشہ آور چیز کے استعمال کے فوری بعد کے مرحلوں میں محسوس کرتے ہیں۔ Illusions  اور ہیولوں پر مبنی اس خیالی دُنیا کا حقائق اور اس کی تلخیوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

منگل کو لاہور میں جو کچھ ہوا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ناجائز تجاوزات ہٹانے کے نام پر جو آپریشن ہوا اس کا نشانہ ایک ایسا ادارہ تھا جس کے قائد کے سیاسی عزائم کے بارے میں ذاتی طور پر میرے بے شمار تحفظات ہیں اور میں گاہے بڑے سخت الفاظ میں ان کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔ اپنے تحفظات کے اس اعتراف کے باوجود میں لاہور میں بیٹھے اپنے صحافی دوستوں کی وساطت سے یہ ضرور جاننا چاہ رہا تھا کہ ’’ناجائز تجاوزات‘‘ کو پیر اور منگل کی درمیانی رات کسی کمانڈو آپریشن کے ذریعے ہٹانے کا فیصلہ کیوں اور کس نے کیا۔

یہ بات درست ہے کہ ماڈل ٹائون کے اس محلے کے کئی رہائشی جہاں اس ادارے کا مرکز ہے ’’ناجائز تجاوزات‘‘ کے خلاف عدالتوں میں گئے تھے۔ عدالتوں نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو یہ ’’تجاوزات‘‘ ہٹانے کی ہدایات بھی جاری کر رکھی تھیں۔ مگر ان تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ عین ان ہی دنوں میں کیوں کیا گیا جب اس ادارے کے سربراہ 23  جون کو اسلام آباد پہنچ کر پاکستان میں ایک ’’انقلابی تحریک‘‘ شروع کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

اس بنیادی سوال کی روشنی میں یہ بات جاننا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بجائے کسی باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے ’’ناجائز تجاوزات‘‘ کے بارے میں حقائق بیان کرنے کے بعد متعلقہ ادارے کے لوگوں کو انھیں رضا کارانہ طور پر اٹھانے کی ایک باقاعدہ ڈیڈ لائن کیوں نہ فراہم کی گئی۔ وہ اس ڈیڈ لائن پر عمل نہ کرتے تو دن کی روشنی میں میڈیا کی موجودگی میں کوئی آپریشن کلین اپ بھی کیا جا سکتا تھا۔

پیر اور منگل کی درمیانی رات حکام کا اچانک حرکت میں آنا میرے جیسے شکی مزاج کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ’’خفیہ‘‘ کے کسی ادارے نے کوئی ایسی رپورٹ ضرور تیار کی تھی جس میں اس خدشے کا اظہار ہوا کہ ماڈل ٹائون میں واقع  تحریک کے مرکز میں چند لوگ بھاری اسلحہ وغیرہ کے ساتھ پہنچ کر ’’جتھہ بند‘‘ ہو رہے ہیں ان پر فی الفور قابو نہ پایا گیا تو 23  جون کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے لیے معاملات کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ پیر اور منگل کی رات کو ہوا آپریشن لہذا مجھے محض اپنے ذاتی خدشات کے حوالے سے ایک “Preventive Operation”  دِکھ رہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اپنے نتائج کے حوالے سے یہ وہ منتر ثابت ہوا جو الٹا سفلی عمل کرنے والے کے گلے پڑ جاتا ہے۔

پیر اور منگل کی درمیانی رات لاہور میں ہوئے آپریشن کو  ’’خفیہ والوں‘‘ کی کارستانی شمار کرنے پر میں اس لیے بھی مجبور ہوں کہ پنجاب کے راج دلاروں کی سیوا کرنے والے ایسے ہی چند خفیہ والوں نے ایک زمانے میں قتل کے ایک ہولناک منصوبے کی طلسم ہوشربا بھی گھڑی تھی۔ پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر اس سازش کے سرغنہ ٹھہرائے گئے تھے جس کا ہدف چند اُجرتی قاتلوں کی مدد سے لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف کی جان لینا بتایا گیا تھا۔

مجھے ہر گز خبر نہیں کہ طلسم ہوشربا والی یہ داستان گھڑنے والوں کے ساتھ گڈ گورننس کی علامت سمجھے جانے والے پنجاب کے راج دلاروں نے بالآخر کیا سلوک کیا۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو پیر اور منگل کی درمیانی رات سے شروع ہونے والے آپریشن کے بارے میں تمام حقائق جمع کرنے کا ذمے سونپ دیا گیا ہے۔ خدا سے دُعا ہے اور ان سے فریاد ہے کہ جلد از جلد ہمیں حقائق کی روشنی میں سانحے کے ذمے دار افراد کی اصل صورتیں اور کردار دیکھنے کا موقعہ نصیب ہو۔

حقائق سے قطع نظر دل دہلا دینے والی بات یہ بھی تو ہے کہ اس واقعے میں ایک نہیں آٹھ کے قریب انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ مرنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی خاندان سے ہو گا۔ ان کے عزیزوں کے دلوں پر اپنے پیاروں سے جدائی کی وجہ سے جو عذاب اترا ہے اس کے بارے میں کوئی فکر مند نظر نہیں آ رہا۔ ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ والا ہولناک قصہ ہو گیا ہے۔ مگر اس سارے قصے کی بدولت ٹیلی وژن اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دھوم ہے تو کسی ’’گلوبٹ‘‘ کی۔

کئی بنیادی مگر تلخ سوال اٹھانے کے بجائے ہمارے بے شمار مبینہ طور پر پڑھے لکھے اور تخلیقی اذہان کے مالک افراد صرف اس کردار پر توجہ دے کر چسکا فروشی میں مصروف پائے جا رہے ہیں۔ آٹھ جانوں کے نقصان کے باوجود ’’گلوبٹ‘‘ کی چسکا فروشی کے حوالے سے دریافت مجھے تو خوفزدہ کر گئی ہے۔ ہم اتنے بے حس اور چسکے کی لت میں اس شدت کے ساتھ کیوں مبتلا ہو گئے ہیں؟

صحرا کی پیاس

$
0
0

ریت پر اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی ریت کے ٹھنڈے ہونے کا لطف لینے کو لیٹا ہوا ہے مگر اس کی منجمد آنکھیں اور پھیلے ہوئے ہاتھ میں خالی بوتل، صحرا کے ظلم کی داستان سنا رہی تھی وہ مرچکا تھا۔ تھر کا ایک کم عمر معصوم چرواہا جس کے جسم کو سورج کی ظالم کرنوں نے سیاہ کردیا تھا۔ صحرا کے سراب نے ایک اور زندگی نگل لی۔ پیاس نے ایک اور شکار کرلیا اور اس ایک زندگی پر ہی کیا نہ جانے یہ صحرا کیا کیا نگل گیا ہے۔

ایک رات اور وہ بھی چودھویںکی رات تھی، فاروق لغاری صدر پاکستان تھے۔ تھر میں بلیک گولڈ (Black Gold) کوئلہ دریافت ہوچکا تھا۔ صبح صدر پاکستان اس کوئلے کا معائنہ کرنے اور کان کا افتتاح کرنے اسلام کورٹ کے قریب آنے والے تھے، میں ریڈیو کی کوریج کے لیے ننگر پارکر جارہا تھا تاکہ وہاں عوامی اجتماع سے صدر کا خطاب ریکارڈ کرسکوں۔ اس رات تھر سیال چاندی کا بنا ہوا تھا، چاند کی کرنوں نے پورے تھر کو چاندی میں تبدیل کر رکھا تھا، میں ننگر پارکر جاکر بھی ساری رات سو نہ سکا۔

چاند اور صحرا کے طلسم کو دیکھتا رہا اور اسی شام جب سورج غروب ہورہا تھا اور میں ماروی کے ملیر سے مٹھی کی جانب آرہا تھا تو ڈوبتے سورج نے صحرا کو Gold Desert سونے کا صحرا بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر کولاچی نے مجھ سے پوچھا تھا جعفری! کیا دیکھ رہے ہو… میں نے کہا کل رات یہ صحرا چاندی کا تھا اور آج اس وقت یہ سونے کا ہے۔ کولاچی صاحب ہنس پڑے۔ تم بالکل تھری لگتے ہو۔ کہاں سے آئے تھے پاکستان میں؟ تو میں نے کہا اجمیر سے۔ تو ایک دم ان کی ہنسی رک گئی کہنے لگے تم ادھر سے راجستھانی اور یہاں سے تھری ہو۔ صحرا تمہاری فطرت میں ہے۔ ہاں شاید ایسا ہی ہے۔

صحرا میں چلنے والے بگولے شاید میری ذات سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ایک اور تھری رخصت ہوگیا، بکریاں چرانے گھر سے نکلا تھا، اس کو ’’ھن کھن‘‘(ھنڑکھنڑ) کا بھی خوف نہیں تھا۔ کلہاڑی، اجرک، ٹوپی ساتھ تھی مگر پیاس کا اژدھا اسے نگل گیا۔ ہن کھن کی کہانی میں نے رات ننگر پارکر میں سنی تھی جب چارپائی پر میرے سرہانے منتظمین کی جانب سے پیاز رکھی جارہی تھی تو میرے استفسار پر لوگوں نے بتایاکہ یہاں ایک سانپ ہوتا ہے جو چارپائی پر بھی چڑھ جاتاہے اور سونے والے کے سینے پر بیٹھ کر اس کے کھلے منہ میں زہر ڈال دیتاہے اور تیزی سے اتر کر غائب ہوجاتاہے۔

وہ آدمی جب کھنگھارتا ہے تو حلق میں زہر سے چھالا بن جاتا ہے اور کھانسنے سے چھالا پھوٹ کر زہر جسم میں داخل ہوجاتا ہے، پھر اس شخص کے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ اگر وہ سمجھ لے کہ کیا ہوا ہے تو کھانسے نہیں اور اسے ایک اندھیرے کمرے میں الٹا لٹکا دیا جاتا ہے اور گائوں کا ایک ماہر اس طرح اس کے منہ میں ہاتھ ڈال کر وہ چھالا توڑتا ہے کہ زہر سارا باہر گرتا ہے، کئی گھنٹے اسی حالت میں اور اندھیرے کمرے میں رکھنے کے بعد اس شخص کو اصلی گھی پلایا جاتاہے کیوں کہ محض اس عمل میں بھی وہ بہت کمزور ہوچکا ہوتاہے، سندھی میں  ھن کا مطلب ہے لگانا، مارنا اور کھن کا مطلب ہے لے جانا۔ اس کا نام ھن کھن اس لیے ہے کہ یہ جس کے ساتھ ایسا کرتا ہے وہ عموماً کم ہی سمجھ پاتا ہے اور یوں وہ انسان کو موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔ ایک کہانی میں نے اس رات سنی۔

سندھ میں ٹوپی، اجرک اور کلہاڑی گائوں دیہات میں لوگ پاس رکھتے ہیں۔ اس کا کچھ مقصد ہوتاہے، ٹوپی گرم شعاعوں سے بچاتی ہے اجرک اوڑھنے، آرام کرنے کے استعمال میں سفر کے دوران کام آتی ہے اور کلہاڑی راستے کی دشواریوں کا حل ہے۔ کوئی جھاڑی راستہ نہ دے، سانپ، بچھو نکل آئے تو یہ کلہاڑی بچائو کرتی ہے۔ عموماً صحرا میں سفر کرنے والے جب تھک جاتے ہیں تو اونچی جھاڑی کے نیچے کی ریت ہٹاتے ہیں تو وہاں ٹھنڈی ریت نکل آتی ہے جہاں وہ سستاتے ہیں، اجرک بچھاکر یا اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں، ان ہی جھاڑیوں میں ’ھن کھن‘ کا بھی بسیرا ہوتا ہے اور مڈ بھیڑ ہوتی رہتی ہے اور کلہاڑی یہاں کام آتی ہے، ایک لڑکا دوسرے گائوں جاتے ہوئے ایک ایسی ہی جھاڑی کی ریت ہٹاکر جگہ بنا رہا تھا کہ اچانک اس کی انگلی پر ’ھن کھن‘ نے ڈنک مارا، لڑکا خالص دیہاتی تھا اس نے فوراً کلہاڑی سے اپنی انگلی قطع کی۔

اجرک سے پٹی پھاڑ کر زخم سے خون روکا ھن کھن کو ہلاک کیا اور سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہاں جاکر جب سارا احوال سنایا تو لوگوں نے جان بچنے پر مبارکباد دی۔ کیا ہوا اگر ایک انگلی دے کر جان بچالی۔ دوسرے دن وہ لڑکا اسی راستے سے واپسی کا سفر کر رہا تھا اسی جگہ اسے اپنی کل کی انگلی نظر آئی، جھاڑی میں جو زہر سے پھول گئی تھی، لڑکے نے ایک تنکا لیا اور اس مردہ انگلی میں گھونپا، اچانک ایک پچکاری نکلی اور اس کی آنکھ میں وہ مواد چلا گیا۔ اس لڑکے نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ موت اس کی وہاں ہی لکھی تھی مگر کل نہیں آج۔ غریب کی موت کو کون پوچھتا ہے۔ یہ چرواہا پیاس کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ اس پیاس کا علاج نہ ہوسکا۔

تھر پیاسا ہی ہے۔ کاش کوئی بے نظیر نہر یہاں بھی بن جاتی تو تھریوں کی زندگی میں بہار آجاتی مانگے تانگے پر ان کو چھوڑنا کہاں کا انصاف ہے؟ غریب سے مذاق کب تک ہوتا رہے گا۔ چرواہا یا بھٹ شاہ کا غربت کا مارا بچہ ہیرو 20 روپے جیتنے کی خاطر بجلی کے ہائی ٹینشن پول پر چڑھ گیا اور کرنٹ لگنے سے 22 فٹ کی بلندی سے گرکر زخمی ہوگیا بازو اور پیٹ جھلس گئے۔ ہم 20 روپے کسی کو اس کھیل کے بغیر نہیں دے سکتے۔ جانتے بھی ہیں کہ ہائی ٹینشن لائن بھی ایک سراب ہی ہے جو زندگی لے لیتا ہے۔ صحرا ہو یا پول، یہ ہمیشہ ان کو آزماتے ہیں جو بہت مانے ہوئے ہوتے ہیں۔ رات دن ان سے واسطہ رکھتے ہیں۔

تفتان میں بے گناہ شہید کردیے گئے، حکومت کہتی ہے کہ اندازہ یہ ہے کہ حکومت کو ایران جانے کا یہ راستہ ترک کر دینا چاہیے۔ افسوس، کتنی مجبور حکومت ہے، کراچی ایئرپورٹ کولڈ اسٹوریج میں 7 زندہ انسان باہر نکالے جانے کی فریادوں کے ساتھ زندہ جل گئے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے، کھلی آنکھوں سے ظلم دیکھ رہے ہیں، بیوروکریسی ہر چیز کو چھپاکر صاف منظر حکمرانوں کو دکھارہی ہے سب اچھا ہے ایک ہفتے میں 300 مور مر گئے۔

مور ایک خوب صورت ترین پرندہ، جو خدا نے ہمیں تھر میں عطا کیا ہے ہم اسے نہیں بچاسکتے۔ ہم لوگوں کو نہیں بچاسکتے، ہم اپنی نہروں کے آخری سرے تک پانی نہیں پہنچا سکتے۔ ’’پونچھڑی‘‘ سندھی میں آخری حصے کو کہتے ہیں۔ وہاں کے کاشتکار رات دن پانی کو روتے ہیں کیوں کہ پانی زمینداروں کے پاس سے ہوکر گزرتا ہے۔ زمیندار یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ یہ پانی کسی اور کو بھی ملے اور اس کی فصل اچھی ہو۔ یہ بھی ہوس اور ظلم کا ایک انداز ہے۔ پھر بھلا یہ صحرا تک پانی کہاں جانے دیںگے۔ میرے دل میں آنسوئوں کا ایک سمندر ہے جو بندوں کو توڑ کر باہر جانا چاہتا ہے شاید اس سے صحرا کی پیاس بجھ جائے۔ شاید پھر کبھی کوئی چرواہا پیاسا نہ مرے۔ شاید!

لاوارث

$
0
0

قارئین! آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ مکانوں کی پچھلی گلیوں میں جہاں مکین کچرا پھینکتے ہیں، چھوٹے معصوم بچے کاندھوں پر تھیلہ ڈالے کچرا چنتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح آپ چھوٹے کارخانوں، ورکشاپس اور دکانوں میں بھی کام کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ اول الذکر بچوں کو ’’اسٹریٹ چائلڈ‘‘کہتے ہیں اور آخرالذکر بچوں کو چائلڈ لیبر کہتے ہیں۔ انھیں ہی دیکھ کر میں نے قلم اٹھایا ہے کہ دوسرے تمام موضوعات پر تو لکھتا رہتا ہوں آج ان بچوں کو اپنے کالم کا موضوع بناؤں کہ یہ پھول جیسے بچے آخر کیوں کام پر لگ گئے ہیں۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے ان کے ماں باپ انھیں کم عمری میں کام پر لگانے پر مجبور ہوگئے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ غربت میں گھرے گھرانوں میں ہی بچوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ غریب خاندان خود تنگدستی کے دن گزارتا ہے لہٰذا بچوں کی صحیح پرورش نہیں کرپاتا۔ لہٰذا وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت پر توجہ نہیں دے سکتا۔ نتیجتاً وہ بچوں کو کام پر لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ایسے خاندان زیادہ تر غریب و متوسط طبقے کی آبادیوں میں ہی ملیں گے بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں والی آبادیوں والے تو اس پہلو کا تصور بھی نہیں کرسکتے لہٰذا ان معنوں میں ان کا تذکرہ بے معنی سا ہوتا ہے۔ لیکن ایک وجہ ہے جس کی بنا پر اشرافیہ بھی ان بچوں میں گاہے بگاہے دلچسپی رکھتی ہے وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ گھر کے ملازموں کے لیے کام آتے ہیں۔ دکانوں اور ورکشاپس میں ’’چھوٹے‘‘ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کہنے کو تو انھیں ’’چھوٹے یا چھوٹو‘‘ پکارا جاتا ہے لیکن کام ان سے بڑے بڑے لیے جاتے ہیں۔

ایسی صورت میں ان بچوں کو تعلیم و تربیت کا تصور تو درکنار انھیں اپنے مستقبل کا گمان تک نہیں ہوتا۔ وہ پورا دن کام پر لگے اتنے تھک جاتے ہیں کہ جو گھر والے بچے ہوتے ہیں وہ گھروں میں داخل ہوتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں نہ ماں باپ، بہن بھائیوں سے دعا سلام نہ کھانے کی فکر بس انھیں تھکن دور کرنے کے لیے نیند کی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ صبح جلدی اٹھ سکیں گے نہ وقت پر کام پر جاسکیں گے۔ جس کے نتیجے میں انھیں اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے گا۔

معصوم اور لاوارث بچوں کی (لفظ لاوارث میں نے اسٹریٹ چائلڈز کے لیے استعمال کیا ہے اس لیے کہ میری معلومات کے مطابق یہ بچے زیادہ اغوا کیے گئے ہوتے ہیں اور اغوا کار ان پر اور ان کے کام کی جگہوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں)۔   اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے تو ان بچوں کی جاں بخشی ہوسکتی ہے ورنہ یہ اسی تاریک ماحول میں مگن زندگی گزارتے رہیں گے۔

اس پر تشویشناک صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اب معصوم بچیاں اور خواتین بھی ان میں شامل کرلی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ظالم اور درندہ صفت بدکاروں نے گھروں کی بربادی کی بنیاد ’’اغوا کاری‘‘ کی بنیاد پر رکھ دی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لیے متعلقہ حکومت (صوبائی) کیا اقدامات کر رہی ہے اور کیسے اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ فی الحال حکومت نے کوئی قدم اٹھانا تو درکنار شاید اس مسئلے کی طرف توجہ بھی نہیں دی

۔ ہاں ہاں! حکومت کسی مخالفانہ اقدامات اٹھانے سے اس لیے گریز کرتی ہوگی کہ اس نوجوان نسل (جو اب ان درندہ صفت مجرموں کے ہتھے چڑھنے کے بعد جوان ہوئی ہے) کی بربادی کے ذمے دار ان کے والدین ہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی صحیح اور کڑی نگرانی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی شریفانہ ماحول میں پرورش کی فکر کرتے ہیں۔ واہ بھئی واہ! کیسی انوکھی سوچ ہے۔ کون سے ماں باپ ایسے ہوں گے اور چاہتے ہوں گے کہ ان کی اولاد بڑی ہوکر ’’جرائم پیشہ‘‘ بنیں یا پھر ’’اسٹریٹ چائلڈ‘‘ (عام زبان میں اسے ’’آوارہ لڑکے‘‘ بھی کہا جاتا ہے) اور ’’لیبر چائلڈ‘‘ کا روپ دھار لیں۔ یہ تو فطری تقاضے کے منافی بات ہوگی۔ جو ناقابل یقین بھی ہوگی۔

اس لیے کہ ہم نے آج تک ’’لڑکیوں‘‘ کو آوارگی کرتے نہیں دیکھا۔ سوائے اس کے یہ دیکھا اور سنا ہے کہ فلاں گھر سے، فلاں مدرسے سے، فلاں لڑکی اغوا کرلی گئی ہے اور ماں باپ حیران و پریشان ہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ہوش و حواس کھو دیے ہیں۔ کیا میری باتیں اور بحث مفروضوں پر مبنی معلوم ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا سوچنے والے نہ اخبارات دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں اور تو اور شاید ٹی وی کے پروگرام ’’جرم بولتا ہے‘‘ اور “Criminal Most Wanted” جیسے پروگرام بھی نہیں دیکھتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ یہ پروگرام دیکھتے ہوتے تو میری باتوں کی حقیقت اور عکاسی کے معترض نہ ہوتے اور یہی تصور قائم کرلیتے ہیں کہ میری یہ باتیں ’’مفروضوں‘‘ پر مبنی ہیں۔

ایسا سوچنے اور ردعمل دکھانے پر میری ذات پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن ان ’’اسٹریٹ چائلڈز‘‘ اور ’’لیبر چائلڈز‘‘ کے مستقبل پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ اب آئیے! ہمارے قانون نافذ کرنے والوں کی صلاحیتوں اور کردار کی جانب۔ ان کے متعلق تو ہزاروں کی تعداد میں ’’متاثرہ خاندانوں‘‘ کی طرف سے شکایات کا انبار لگا ہے۔ مگر پھر بھی ان کی عدم توجہی اور عدم تعاون کی بنا پر ان شکایات کو دریا برد کردیا جاتا ہے یعنی ’’داخل رجسٹر‘‘ کردیا جاتا ہے کہ شکایت کنندہ یا متاثرہ خاندان کے کیسز سننے یا ان پر عملدرآمد کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ اپنی درخواست کے ساتھ رشوت کے پہیے لگا دے تو پھر دیکھیے آپ کی فائل کس تیزی سے دوڑتی نظر آئے گی۔

شاید کہ دل میں اتر جائے میری بات اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکاروں کی غیرت جاگ جائے اور یہ لوگ ان ’’اسٹریٹ چائلڈز‘‘ اور ’’لیبر چائلڈز‘‘ کی اشک شوئی اور رہائی دلانے پر کمر کس کر میدان میں اتر آئیں تاکہ اسی پیغام کا عملی مظاہرہ نظر آئے کہ ’’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے‘ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘ پھر تو یقینا ان قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو خدا کی طرف سے فتح و نصرت حاصل ہوگی اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔

’’نصر من اللہ فتح قریب‘‘ یہی نہیں بلکہ ان ستم رسیدہ ’’اسٹریٹ چائلڈز‘‘ اور ’’لیبر چائلڈز‘‘ کی دعائیں بھی ان کے دامنوں کو بھردیں گی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی سوچ ’’نیک نامی‘‘ کی طرف خال خال ہوتی ہے۔ ورنہ یہ تو ان جرائم پیشہ درندہ صفت اور شیطان صفتوں کی پشت پناہی کرکے ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی جیبیں تو جیبیں، پیٹ بھی خالی ہوتے ہیں۔ اس لیے ’’اسٹریٹ چائلڈز‘‘ اور ’’لیبر چائلڈز‘‘ تا حیات اسٹریٹ چائلڈز اور لیبر چائلڈز ہی رہیں گے۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسمان

$
0
0

کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ میرٹ اور صلاحیت کے بجائے سفارش،  رشوت اور رشتے ناتے کی بنیاد پر ہر جگہ بھرتی کیے گئے نااہل، غیر تربیت یافتہ افراد محض تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے لیے رکھے گئے لوگ کسی بھی ناگہانی آفت یا حادثے سے نمٹنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے ۔سانحہ تھر کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ حکومت سندھ کی ایک اہم شخصیت کے کم ازکم 16 بھائی بند اہم عہدوں پر براجمان تھے جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اس سانحے کے کچھ نہ کچھ ذمے دار تھے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ عرصے سے دہشت گردی کا شکار کراچی میں کسی بھی ہنگامی صورت حال پر بروقت قابو پانے کی کوئی پیشگی تیاری کہیں نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے شہر کراچی کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں نہ پانی بھرا ہوا ہے نہ ان کے پاس فوم کا انتظام ہے، نہ آگ سے بچنے والے آلات و لباس ہیں حتیٰ کہ انجن میں پٹرول تک کا نہ ہونا کیا ثابت کرتا ہے؟

جب کہ ہر ادارے کے اخراجات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں اور کارکردگی صفر سے بھی کم۔ چند برس قبل بلدیہ کی فیکٹری میں جھلس کر مرنے والوں کی موت کا سبب بھی بروقت آگ پر قابو نہ پانا اور کوئی دوسرا متبادل انتظام نہ ہونا ہی تھا۔ اگر غیر جانبدارانہ اور مبنی بر انصاف تحقیقات کرائی جاتیں (جو شاید کبھی نہ ہوں) تو معلوم ہوجائے گا کہ فائر انجنوں میں ہر روز پٹرول ڈالا جاتا رہا ہے ’’مگر وہ کہاں سے کدھر ہے‘‘ یہ کوئی بتانے والا نہ ملے گا۔

ہمارے ملک میں کافی عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے ماضی قریب میں کئی ہولناک حادثے رونما ہوچکے ہیں جن میں سے ہر ایک میں درجنوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں مگر اب تک حفاظتی اداروں کو مناسب حد تک فعال نہیں کیا گیا،  پی آئی ڈی سی کراچی کے علاوہ کئی واقعات کے بعد بھی ذمے داران اور صاحبان بست و کشاد کی سردمہری اور بے عملی کا مطلب عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ایک عام شہری، ایک متاثرہ خاندان تو یہی سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ووٹوں سے کرسی اقتدار تک پہنچنے والے حضرات اپنے اپنے عہدوں پر اس لیے براجمان ہیں کہ وہ ملکی دفاع کو ناقابل تلافی حد تک کمزور کردیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حالیہ حملہ تو صاف کہہ رہا ہے کہ سینہ ٹھونک کر کراچی کو پاکستانی معیشت کی شہ رگ، ستر فیصد ریونیو دینے والا شہر لاوارث ہے اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جو اس کے وارث ہیں وہ اس کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے چین سے بیٹھ گئے ہیں۔

اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو خود کرو کوئی بڑے سے بڑا وزیر باتدبیر آپ کے لیے آپ کے بچوں کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ کیونکہ انھوں نے بے حسی کی چادر میں خود کو لپیٹ لیا ہے آپ چیختے رہیے چلاتے رہیے ’’وہاں ایک خموشی تیری سب کے جواب میں‘‘ وہ اپنی ذمے داریاں دوسروں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ عوام حیران ہیں کہ آخر کس سے گلہ کریں۔ تھر میں بھوک سے لوگ اور بچے مر گئے تو بیان آگیا کہ وہ تو بھوک سے نہیں بیماری سے مرگئے۔ اچھا تو علاج کی سہولت مہیا کرنا کس کی ذمے داری تھی؟ بچوں کے اسپتال میں بچے آکسیجن اور عملے کے نہ ہونے کے باعث مرگئے تو فرما دیا کہ وہ تو طبعی موت مرے اور صرف چار مرے، گویا سو بچے مریں تو مریں اس سے کم کا مرنا بھی کوئی مرنا ہوا۔ لفظ ہمدردی، تسلی، خیر خواہی تو جیسے ان کی لغت میں ہے ہی نہیں۔

لوگ سوچتے ہیں کہ جب اہلیت نہیں، ہمت نہیں عمل کرنے کی عادت نہیں تو ان بڑے بڑے عہدوں پر کس لیے براجمان ہیں۔ یہ عہدے کسی جوان، باہمت، باعمل، پرجوش اور نیک نیت شخص کے حوالے کردینے میں کیا حرج ہے بطور تجربہ ہی سہی۔ ایسے ایسے المناک حادثات ہوتے رہیں ادھر گردن کی اکڑ ہی میں فرق نہ آئے۔ مہذب ممالک میں اعلیٰ اور ذمے دار شخصیات عوامی مفاد کے خلاف کسی واقعے کے رونما ہونے پر ازخود اپنی ذمے داری قبول کرکے مستعفی ہوجاتی ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کی تو ہر بات ہی نرالی ہے کیونکہ ایسے واقعات مہذب ممالک میں ہوتے ہوں گے مگر ہم تو خود کو مہذب کہلانا ہی پسند نہیں کرتے۔ اس لیے عالم یہ ہے کہ سب کہہ رہے ہیں کہ بھئی! کام نہیں ہوتا تو آرام کیجیے، مگر مقتدر شخصیات ہیں کہ اپنی کرسی سے چپک کر بیٹھی ہیں نام نہاد کراچی آپریشن بھی کسی اور کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔

بھئی! کام نہیں ہوتا نہ کیجیے اوروں کو کرنے دیجیے۔ مگر یہ ہٹ دھرمی بھی کچھ راز فاش کرتی ہے اور لوگوں میں بے یقینی، بداعتمادی کی وجہ بن رہی ہے۔ حکومت سندھ کی ایک اور شخصیت نے وفاق کو برا بھلا کہہ کر اپنی ذمے داری سے چھٹکارا پالیا۔ چلیے غلطی کسی کی بھی ہو مگر یوں کاندھے جھٹکنے کا مطلب متاثرین صرف یہ لیتے ہیں کہ سب کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں، انسانیت ختم ہوچکی ہے اور غیرت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ ورنہ عوام کا اگر احساس ہوتا تو اتنے نازک حالات میں دہشت گردی کو لگام نہ دینا بلکہ کم ازکم اس سے بروقت مناسب طور پر نمٹنے کی تیاریاں تو ہنگامی بنیادوں پر کی جانی چاہیے تھیں۔

نہ کہ صرف آگ پر قابو پانے کے بھی مناسب انتظامات نہ ہوسکیں اگر ایئرپورٹس کا تحفظ وفاق کی ذمے داری ہے تو کیا فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں پانی، فوم، آگ سے بچاؤ کے آلات و لباس مہیا کرنا بلکہ انجن میں پٹرول ڈلوانا بھی کیا وفاق کی ذمے داری ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ ’’کیا کراچی ایئرپورٹ بھارت میں ہے جو حکومت سندھ کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی‘‘ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ حالات تشویشناک ہوں ہر روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہوں تو بجائے تمام اداروں کو چوکس رکھنے کے کسی بھی صورتحال کا مردانہ وار سامنا کرنے کے بجائے انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود فارغ ہوجانا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے؟

جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور بقول شخصے مٹی پاؤ اب سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا فائدہ۔ مگر قومی اسمبلی کا اسپیکر خود کہہ رہا ہے کہ پارلیمنٹ بالکل غیر محفوظ ہے۔ پچھلے دنوں صرف ایک شخص نے دو ہتھیاروں کے زور پر پورے اسلام آباد کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا۔ گزشتہ ماہ سکھ برادری کا اچانک پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دینا اسپیکر کے بیان کی صداقت کو واضح کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ کو گھیر لیا گیا تو کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اس خدشے کے برملا اظہار کے بعد بھی کچھ حفاظتی انتظام کیا گیا؟ یا کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ عوام ہنوز لاعلم ہیں۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسمان

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

طوفاں سے آشنا

$
0
0

گزشتہ ماہ راقم نے شہری دیہی زندگی سے متعلق کالم لکھا تھا اس کی پسندیدگی کے حوالے سے بھی ردعمل موصول ہوا، جاپان جیسے ملک میں مصروف زندگی گزارنے والے ایک قاری نے بھی ہماری ہمت افزائی کی۔ آج ایک رسالے میں ہانگ کانگ سے متعلق چند اہم حقائق پڑھے جو عام قارئین کے لیے یقینا چونکا دینے والے ہیں اور میری بات کی تائید بھی کرتے ہیں۔

ان حقائق کے مطابق زمین کی قلت کے باعث ہانگ کانگ میں عجیب و غریب قسم کے مسائل نے جنم لیا ہے یہ مسائل ایسے ہیں کہ اس سے نہ صرف انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں بلکہ انسانیت بھی شرماتی ہے۔ حقائق کے مطابق 1970 کی دہائی میں ہانگ کانگ کے کثیر آبادی والے علاقے میں قبروں کی تعمیر پر پابندی اس لیے عائد کردی گئی کہ زمین کی قلت کا سامنا تھا۔ زمین کی قلت کو دور کرنے کے لیے ایک فیصلہ سرکاری سطح پر یہ بھی کیا گیا کہ پہلے سے موجود قبروں میں باقیات کو 6 سال کے بعد نکال کر تلف کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔

ہانگ کانگ میں ہر سال 40 ہزار افراد طبعی و ناگہانی موت مرتے ہیں لہٰذا قبروں کا دستیاب ہونا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، قبروں کے حصول کے لیے قرعہ اندازی کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ بعض گرجا گھر اپنا نجی قبرستان رکھتے ہیں مگر یہ بھی قبر کے لیے ایک خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے ضلع فینلنگ کے مشہور ٹمپل میں خاک دان رکھنے کی جگہ 43 اسکوائر انچ ہے اور اتنی ہی جگہ کی قیمت کسی اپارٹمنٹ کی قیمت سے کم نہیں۔ گویا مردے کو دفنانے کا مسئلہ حل نہ ہو تو جلا کر خاک رکھنا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہانگ کانگ کا نام ماضی میں تو انتہائی پرکشش ہوا کرتا تھا، سیاح یہاں کا پہلی ترجیح میں رخ کرتے تھے گوکہ آج بھی جاتے ہیں مگر ماضی میں یہ اس قدر پرکشش اور اچھوتا سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں فلم سازوں نے اپنی فلموں کی کامیابی کے لیے اس نام کو استعمال کرتے ہوئے مس ہانگ کانگ اور ہانگ کانگ کے شعلے جیسی فلمیں بنا ڈالیں۔

کہنے کا مقصد ہے کہ یہ نام حسین خوابوں کا ایک حصے کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس حسین خواب کی حقیقت کیا وہ بھیانک تعبیر ہے جو ہانگ کانگ کے باسیوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے؟ جہاں رہائش کے اپارٹمنٹ سے قیمتی قبریں یا خاک دان ہوگئے ہیں؟ یہ کیسے انسانی حقوق ہیں کہ جہاں جینا تو مشکل ہے ہی مرنا اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار ہے؟

انسان جب خوب سے خوب تر کی تلاش میں فطرت کے قوانین کو توڑدیتا ہے اور حقائق کو نظرانداز کردیتا ہے تو پھر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی نقل میں آگے کی جانب دوڑتے چلے جا رہے ہیں، بلاسوچے سمجھے، آگے کے انجام اور آنے والے حالات پر غور نہیں کرتے نہ ہی دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

غور کیجیے! ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جن سے سوال کیا جائے کہ کیا آپ اپنے شہر کو ہانگ کانگ جیسا بنانا چاہتے ہیں؟ تو وہ فوراً کہیں گے کیوں نہیں؟ لیکن ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اگر ہمارے شہریوں میں بھی یہی حال ہوجائے کہ قبرستان میں دفنانے کی جگہ نہ ہو اور قبر کے لیے کسی اپارٹمنٹ کی قیمت سے زائد رقم ادا کرکے اپنے کسی پیارے کو دفنائیں یا اس مسئلے کے حل کے لیے فلیٹس کی طرز پر کئی کئی منزلہ قبرستان آباد کریں اور بلڈر اخبارات میں اپارٹمنٹس کی طرح اپنے نئے منصوبوں کے لیے اشتہار دیں ’’10 ہزار ماہانہ پر اپنے پیاروں کی قبر کے لیے بکنگ کروائیں!‘‘

قارئین کو شاید راقم کی بات احمقانہ لگ رہی ہو لیکن جناب کراچی شہر میں اس کا آغاز تو ہوچکا! باقی دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔

سوچنے کا مقام کیا ہے؟ ہم آخر بلاسوچے سمجھے نقالی کیوں کیے جا رہے ہیں ۔ محض سرمایہ داری کے چکر میں اپنے شہر اور ملک کو داؤ پر کیوں لگا رہے ہیں؟ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک سرمایہ دار نے کراچی شہر میں اربوں روپے کے ایک مکمل رہائشی منصوبے کا اعلان کیا اور غریبوں کے لیے بھی اس میں سستے پلاٹ رکھنے کا اعلان کیا مگر جب قرعہ اندازی ہوئی اور تفصیلات سامنے آئیں تو اس میں چھوٹے پلاٹ جن کا وعدہ کیا گیا تھا نظر نہیں آئے، کم ازکم ایک پلاٹ 45 لاکھ سے اوپر کا تھا۔ ہاں البتہ کثیر المنزلہ عمارتیں اس میں ضرور شامل تھیں۔

ذرا غور کیجیے! آبادی کے کسی شہر میں اوپر تلے (کثیر المنزلہ) عمارتوں کے منصوبوں سے جب کسی شہر کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے نہ پھیلے اور آبادی اسی طرح پھیلتی جائے تو پھر کیا ہوگا؟ یہی کہ ہانگ کانگ کی طرز پر قبرستان بھی دستیاب نہ ہوں گے اور قبروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی؟ یا رہنے کے لیے فلیٹ جیسے چھوٹے کمروں کی رہائش بھی دستیاب نہ ہوگی بلکہ (جیساکہ بعض ممالک میں رواج پاچکا ہے کہ ) انسانی قد کے برابر ڈبے ہوں گے جو ایئرکنڈیشنڈ بھی ہوں گے مگر اس میں انسان صرف لیٹ اور بیٹھ سکتا ہے جیساکہ ریل کے سفر میں رات کے اوقات میں منظر نظر آتے ہیں۔ اور یہ طرز رہائش بھی مہنگی ترین ہوں گی۔

آئیے غور کریں کہ ہم کیوں مغرب کی نقالی میں اربنائزیشن کی پالیسیوں پر بھرپور طریقے سے گامزن ہیں؟ پھر اس پر غلطی یہ کہ کراچی جیسے شہر کو جس میں پھیلنے کی صلاحیت بھی ہے مخصوص دائرے میں گنجان آبادی بڑھا رہے ہیں۔ اگر کراچی جیسے شہر میں پھیلنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو اب تک نہ جانے یہاں کی زندگی کس قدر اجیرن ہوچکی ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں کو آبادی سے بہت زیادہ بھرنے کے بجائے ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ فطرتی ماحول متاثر نہ ہو۔ یہی کراچی شہر تھا کہ چھوٹے اور کچے گھروں میں رہنے والے کھلی ہوا دار اور صحن والی رہائشی رکھتے تھے بجلی نہ ہونے کے باوجود رات کو سکون سے سوتے تھے، آج ایک گھنٹے بجلی نہ آئے تو شہری سو نہیں سکتے کیونکہ طرز رہائش ہی بدل دی گئی ہے۔

ذرا سوچیے ہم تو کسی 10 یا 12 منزلہ عمارت پر لٹکنے والے نوجوان کی زندگی نہیں بچا سکتے تو بھلا کثیر المنزلہ عمارتیں خدا نخواستہ کسی ’’طوفان سے آشنا ہوگئیں‘‘ تو کیا کریں گے؟ ہمارے پاس تو آبادی کے اعتبار سے ایمبولینسیں بھی پوری نہیں جدید آلات و ماہرین تو دور کی بات۔

آئیے ہم سب غور کریں خاص کر اس ملک کی انتظامیہ میں شامل اور منصوبے بنانے والوں میں شامل تمام لوگ!


فیصلہ

$
0
0

سابق صدر جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے وہ پاکستان افواج کے سربراہ بھی رہے۔ وہ پاکستان کے واحد مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہیں کہ جب ملک میں مارشل لاء لگا تو وہ ملک سے باہر تھے۔ جب جنرل ایوب خان نے اکتوبر1958میں خود مارشل لاء لگایا اور اس کے بعد جنرل آغا محمد یحییٰ کو اقتدار سونپا جب کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کے تحت یہ اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دے سکتے تھے۔

ایوب خان جیسے آمر کو ہٹانے میں پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری کوشش کا بڑا حصّہ تھا کیونکہ ملک  بے آئین تھا لیکن انھوں نے بڑی غیر جانبداری سے پاکستان کے پہلے عام انتخابات کروائے جس کے نتیجہ میں قومیت پرستوں نے بھر پور کامیابی حاصل کی۔ بنگالی نے بنگالی کو، بلوچی نے بلوچی کو، پٹھانوں نے پٹھانوں کو ووٹ دیا مگر پنجاب نے وفاق پرستی کا ثبوت دیا اور سندھ کے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو ووٹ دیا اور سندھ کے لوگوں نے قوم پرستوںکو ووٹ نہیں دیے اس طرح مغربی پاکستان کو پنجاب اور سندھ نے مل کر مضبوط کیا اور پاکستان کو Greater Baluchistan اور Greater Pukhtonistanبننے سے بچا لیا۔

5جولائی1977کو ضیاالحق  نے اراداۃََ مارشل لاء لگایا جب کہ قومی اتحاد اور حکومت نے32نکات میں سے 31نکات پر اتفاق کر لیا تھا۔مگر یہ سب جمی کارٹر اورڈاکٹر ہنری کے اشارے پر ہوا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی ایٹمی قوت بنانے میں بڑی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کی اور پوری دنیا میں پاکستان پہلا واحد ملک تھا جس نے ایٹمی قوت حاصل کی جب کہ یہودی، عیسائی، بدھ مذہب اور کمیونسٹ کے علاوہ ہندئووں نے پہلے ہی ایٹمی قوت حاصل کر لی تھی۔ پاکستان کو جوہری قوت بنانے میں شام کے صدر حافظ الاسد، فلسطینی تحریک کے سربراہ یاسر عرفات، لیبیا کے کرنل معمر قذافی جیسے مسلم حکمرانوں نے بڑی معاونت کی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی دنیا کا رہنما تسلیم کیا تھا خاص طور پر سعودی عرب کے شاہ خالد بن عبدالعزیز نے ان کی پھانسی رکوانے کی کوشش کی تھی ۔

پاکستان کا 5جولائی1977کا مارشل لاء جب ضیاالحق نے لگایا تو تمام  اینٹی پی پی عناصر بھٹو سے خوفزدہ ہو گئے تھے ان سب نے مل کر آمر ضیاالحق کا کھل کر ساتھ دیا اس میں جماعت اسلامی ، نیپ، اصغر خان اور مسلم لیگ تھی پاکستان میںUncertainty 5 جولائی 1977ہی سے شروع ہو ئی۔ آمروں کو امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ جب امریکا حمایت کرتا ہے تویورپ بھی ساتھ دیتا ہے اور وہ تمام عرب ممالک بھی جو امریکا کے زیر اثر حکمرانی کر رہے ہیں۔

اکتوبر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔ اگر اس وقت کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو ہر ایک کی زبان پر تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے ۔ مگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں ختم ہونے سے ،سینیٹ ٹوٹنے سے اربوں روپے کی بچت ہوئی اور امریکا میں ستمبر 2002کا حادثہ ہوا ملک میں بہت remittanceآیا  مگر اس وقت کے چیف ایگزیکٹو  پرویز مشرف صاحب نے جنھیں عدالت عالیہ نے دو سال کی مدت میں عام انتخابات کروانے کا پابند کیا تھا انھوں نے اس Foreign Exchangeکو جمع تو کیا ، ملکی معاشی حالات کو کچھ بہتر کیا مگر نہ Infrastructureپر توجہ دی اور نہ Energyپر یہ سب جب شروع کیا جب انھوں نے شہری حکومت بنائی۔

یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ جنرل پرویز مشرف پر یہ الزام نہیں کہ انھوں نے ملک کو لوٹا، دولت بنائی، نہ انھوں نے نہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے، وہ ایک ذہین، نڈر اور دنیا کی سیاست کو سمجھنے والے جنرل تھے۔ وہ سیاست دان نہیں تھے۔ کیونکہ ایک اچھا جنرل کبھی بھی اچھا سیاست دان نہیں ہو سکتا خاص طور پر پاکستان کے معاملات میںکیونکہ جنرل اصول پرست ہوتا ہے جب کہ ہمارے وطن کے سیاستدان خود پرست و خودغرض ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو غریب سیاست دان بھی اس میدان سیاست میں آیا اس نے خوب مال و زر جمع کیا۔

اگر ہمارے خفیہ ادارے معلومات حاصل کریں تو حیرت ہو گی کہ ایک اسکوٹر یا بس میں سفر کرنے والےMPAیاMNAآج بڑی بڑی ایئر کنڈیشنڈ کاروں میں اور بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں ان کی دولت ملک میں بھی ہے اور ملک سے باہر بھی سب نے اپنے کاروبار کو اپنے نام سے دور رکھا ہوا ہے اس ملک میں اس طرح کا Corruptionعام ہے۔ا ن کی کوئی پکڑ نہیں۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے ایسی کوئی کرپشن نہیں کی۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو پر بھی جب کرپشن ثابت نہ ہوئی تو قتل کا مقدمہ ان پر تھوپ دیا گیا۔ جس میں کم از کم وہ براہ راست ملوث نہ تھے لیکن مقصد یہ تھا کی انھیں پھانسی دے کر ختم کر دیا جائے کیونکہ سیاسی مقابلہ ان سے نا ممکن تھا۔

اسی طرح جنرل پرویز مشرف جنہوں نے اپنے دور حکومت میں کبھی بھی عام آدمی کی آزادی اور تحریر و تقریر کی آزادی کو نہیں دبایا ان ہی کے دور میںپاکستان میں PTVکے مقابلے میں  بے شمار نجی چینلز کا آغاز ہوا۔ آج عام پاکستانی جنرل پرویز مشرف کا اس لیے حامی ہے کہ ان کے دور میں ڈالر 68روپے رہا اور سڑکیں، پل، سیورج کے نظام میں بہتری آئی۔ مگر ان سے غلطی یہ ہوئی کہ بعض سیاستدانوں کو وہ اپنا ہمدرد سمجھنے لگے جب کہ وہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ان کی وردی کی وجہ سے ساتھ تھے۔

انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بہت بے وفائی کی۔ آج عوام پھر جنرل پرویز مشرف کو ایک بہترین چیف ایگزیکٹیو سمجھتے ہیں۔ وہ اب سیاست کے میدان میں آ گئے ہیں ان سے سیاسی مقابلہ کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ حالانکہ ابھی ان کی پارٹی تنظیمی طور پر اور سیاسی طور پر اتنی مقبول نہیں جتنی ہونی چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پارٹی والے اپنی ذات پر توجہ دے رہے ہیں جب کہ انھیں اس وقت پارٹی کی ممبر شپ جاری تھی لوگ تیار ہیں مگر نہ جانے اس کام میں اتنی تاخیر کیوں۔

سابق جنرل پرویز مشرف سے بعض سیاستدانوں  کے اختلافات کی وجہ تو ہر ایک جانتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ نواز کے ارکان نے TV Channels پر کئی بار یہ کہا کہ اب سابق صدر پرویز مشرف کا مقدمہ عدالت میں ہے جو وہ فیصلہ کرے گی ہم قبول فرمائیں گے۔ مگر کھلا تضاد جب سامنے آیا جب سندھ کی عدالت نے ان کا نام ECLمیں ڈالنے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا تو حکومت نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کے بجائے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کر دیا  اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عدالت کے اس فیصلہ کو مانیں گے جو ان کی مرضی کے مطابق ہو گا۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاک افواج کا ایک سپاہی بھی ملک سے غداری نہیں کر سکتا کیونکہ ہماری فوج میں بھرتی کی بڑی کڑی شرائط ہیں جب کہ پرویز مشرف تو ایک جنرل بھی تھے اور پاک افواج کے سربراہ بھی۔ لہذٰا وہ عام آدمی نہیں ہیں نہ عوام کی نظر میں نہ قانون کی نظر میں وہ جب استعفیٰ دے کر گئے تو انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ کاش فیصلہ کرنے والے اس   Hounorکا بھی خیال کریں اور انھیں بیرون ملک بغرض علاج و عیادت والدہ کے لیے جانے سے  نہ  روکیں ۔

مکھی اور نارا…

$
0
0

جب سندھ کے قدیم دریائی راستوں کی بات کریں گے،تو ہمیں مشرق میں صحرائے تھر کے ساتھ ساتھ ایک دریائی راستہ ملتا ہے،  پانی کے بہاؤ کے راستے  پر سایہ دار پیپل اور برگدکے درخت اور آبپاشی محکمے کے بنگلوز کے نشانات آج بھی نظر آتے ہیں۔

جب پانی اس راستے سے پوری آب و تاب کے ساتھ بہتا تھا تو سکھر سے لے کربحیرہ عرب تک کئی زمینیں سیراب ہوتی تھیں، خاص طور پر ساون کی برساتوں کی موسم میں تو عجیب نظارہ دکھائی دیتا تھا۔

تاریخ دانوں کی اس بہاؤ کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ہاکڑو دریاء تھا، جس کا مقامی لوک شاعری اور گیتوں میں بھی ذکر ہے، کئی اسے دریائے سندھ کی شاخ سمجھتے ہیں، جو سکھر کے قریب سے نکلتی تھی اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ خود دریائے سندھ تھا، جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنا بہاؤ مغرب کی طرف تبدیل کرتا گیا۔

دریا کا یہی قدیم بہاؤ سانگھڑ کے علاقے مکھی کے بیچوں بیچ گزرتا ہے، جو اب ’’نارا کینال‘‘ کہلاتا ہے، جس کی مشرق میں واقع ایک قدرتی اچھڑو تھر واقع ہے، جن کی دودھیا رنگوں کے ٹیلوں میںdunes  بھی موجود ہیں، جو کسی بھی اجنبی کو ہمیشہ کے لیے اپنی گود میں پناہ دے دیتے ہیں۔

دریائی پانی کے اس قدرتی بہاؤ کی وجہ سے دونوں اطراف میں اس علاقے میں ایک گھنا جنگل بھی وجود میں آیا، تو ایک سو سے زائد قدرتی جھیلیں بھی سانگھڑ کے دیہ اکرو سے لے کر کھپرو تک وجود میں آئیں،(مکھی کہلایا)۔ سندھ میں کلھوڑوں کی حکمرانی کے دوران کئی لوگ اور قبیلے دور دراز علاقوں سے آکر اس علاقے میں آکر بسے، جن کا گزر بسر مچھلی کا شکار کرنے اور مویشی چرانے سے ہوتا تھا، جہاں یہ مال مویشی ٹولوں کی شکل میں پیٹ بھرنے جاتے تھے اور کئی لوگ اپنا گزر بسر کرنے کے لیے وہاں موجود جھیلوں میں مچھلی کا شکار کرنے جاتے تھے۔

یہ لوگ بیلے میں موجود چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر رہتے تھے، جن میں سے کچھ ابھی بھی اسی شکل میں موجود ہیں۔ ان مقامی لوگوں کے کئی عشقیہ قصے، جیسے صابل اور بہرام جمالی کا لوک قصہ مشہور ہے، تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں۔ جسے یہاں کے مقامی لوگ ایک پودے سے تیارشدہ موسیقی کے ساز  ’’نڑ‘‘سے گاتے ہیں، اس سر کو ’’صابل جوں پھوکوں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب بہرام جمالی مال چرانے جنگل میں جاتا تھا تو صابل کے گھر کے قریب جھاڑیوں میں چھپ کر وہ ’’نڑ‘‘ کے ذریعے اس کو بلاتا، اس ماحولیاتی طور زرخیز خطے میں بہت سے جانور، چرند پرند، بھیڑیا، بارہ سنگھا، تیتر ، مرغابی، نیرگی، خرگوش، مگرمچھ اور شہد کی مکھی  کی  اعلیٰ نسل پائی جاتی تھیں۔ یہاں کے لوگ دن رات لسی اور دودھ پر گزارا کرتے تھے۔

جب جاڑا اپنے آب و تاب کے ساتھ آکے پڑاؤ  کرتا تو کئی پردیسی پرندے سائبیریا کے ٹھنڈے پانیوں سے ہجرت کرکے یہاں پہنچتے، حد نظر تک پانی کالا سیاہ نظر آتا۔ مقامی لوگ شکار کرکے ان پرندوں کے گوشت اور چاول کا پلاؤ پکاتے، جس کی لذت کی بات دور دور تک پھیلتی گئی، یہاں کی مچھلی میں کرڑو (رؤ) پورے ملک میں لذیذ ذائقے کی وجہ سے مشہور ہوئی۔1843 میں جب انگریز سندھ میں وارد ہوئے، تو انھوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لی، جس سے ان کو بھی فائدہ پہنچ سکے۔

1901ء  کے بعد انھوں نے سندھ میں مختلف کینالز بنانا شروع کیے، تا کہ اس زرخیز زمین سے کچھ حاصل کیا جا سکے۔ یوں قدیم دریائی بہاؤ کو بند دے کر کینال کی شکل دی، جسے نارا کہتے ہیں۔ سندھ میں سب سے بڑی کمانڈ ایریا اس کینال کی حدود میں آتی ہے۔ لیکن انھوں نے یہ ضرور کیا کہ نارا کے بائیں جانب جھیلوں کے جال اور قدرتی جنگل محفوظ کرنے کے لیے جمڑاؤ، واڈھکی ، آجو، بقار، ڈھورو نارو کے مقامات پر چھنڈن بنائے، تا کہ برساتوں کی موسم میں پانی وافر مقدار ہونے کی صورت میں ان کے ذریعے جنگل اور جھیلوں میں بھیجا جا سکے۔ تاہم نارا کے دائیں جانب جنگل کاٹ کر اور جھیلیں خشک کر کے زمینیں آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں 1929 میں جمڑاؤ کینال، اس کے بعد مٹھڑاؤ (بان)کینال اور کھپرو کینالیں نارا میں سے نکالیں گئیں، تا کہ نہ صرف مکھی بلکہ جنوب میں تھرپارکر اور بدین کی زمینیں بھی سیراب کی جا سکیں۔ تاہم جب انگریزوں نے مکھی کے مقامی لوگوں کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنی زمینیں آباد کریں، تو انھوں نے دو ٹو ک جواب دیا کہ ھم زمینیں آباد نہیں کر سکتے، البتہ کسی نے جھیل دینے کی فرمائش کی، تو کسی نے مال مویشیوں کے لیے چراگاہ دینے کی۔

یوں ہی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھارتی پنجاب میں سے لوگ یہاں لائے گئے، جن کی تیسری نسل آج بھی یہاں آباد ہے۔ یہاں کی باقی زمینیں ان سفید پوش اورکرسی نشینوں کو دی گئیں، جو انگریز حکومت کے مفادات کے رکھوالے تھے، جو بعد میں سر، خان صاحب اور خان بہادر کہلائے۔ اس علاقے میں کپاس کی شاندار فصل ہوتی تھی، جو خام مال کی شکل میں برطانیہ کے فیکٹریوں میں جاتی تھی، یاد رہے کہ یہ علاقہ آج بھی پورے پاکستان میں کپاس کی فصل کے حوالے سے سب سے زیادہ پیداوار دینے والا علاقہ ہے۔

یوں نارا کینال یہاں کے لوگوں کی زندگی بنا رہا، یہ نارا کے پانی اور ان زمینوں کی برکتیں تھیں کہ آزادی کے بعد تنکوں کی بنی جھونپڑیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پکی بلڈنگوں میں تبدیل ہوتی گئیں اور کپاس اور ٹماٹر تجارت کی وجہ سے مکھی کے لوگ ملک کے مختلف گوشوں تک جا پہنچے۔

مکھی کا نام کچھ کے مطابق یہاں شھد کی مکھیوں کے کثرت میں ہونے کی وجہ سے اس علاقے پر پڑا، جب کہ کچھکا خیال ہے کہ یہاں مال مویشی بہت زیادہ تھے، اس لیے مکھیوں کی بھاری مقدار یہاں موجود رہتی تھی، اس لیے اسے مکھی کہتے ہیں، کچھ بھی ہو لیکن یہ نام اس علاقے کی زرخیزی کو ظاہر کرتا ہے۔

2000 میں یہاں نارا کے بائیں جانب چوٹیاری ڈیم بنا تو اس علاقے کا فطری حسن بھی کھو گیا۔ ڈیم کو بند باندھ کر پانی کو قید کیا گیا، تو باقی آس پاس کا علاقہ اجڑگیا، زمینیں خشک ہو گئیں، درخت سوکھنے لگے، تو جنگلی اور آبی زندگی بھی اپنے موت مرگئی۔ مچھلی، شھد، آبی پرندے، مال مویشی اور خاندانوں کے خاندان، سب پلک جھپکنے میں غائب ہوگئے، جو لوگ مچھلی کا شکار کرتے تھے یا ان کے بہت زیادہ مال مویشی تھے، جو پورے مکھی کے علاقے میں امیر ترین لوگ کہلاتے، کیوں کہ تب کسی کے امیر ہونے کا معیار اس کے پاس موجود، مال مویشیوں کے مطابق ہوتا تھا، جب کہ مچھلی کا بیوپار کرنے والے سیٹھ جن کے یہاں دھول اڑاتے ہوئے راستوں پر لینڈ کروزر، جیپ بھی چلتے تھے، ان کے  بھی خالی ہاتھ  ہو گئے۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا کہ زرعی زمینیں آباد ہونے سے ایک نیا زرعی کلاس وجود میں آئی اور سندھی روایتوں کے امین وڈیرے کی جگہ اسی کلاس میں سے نئے وڈیرے وجود میں آئے، تو اس معاشرے کی روایات بھی بدل گئیں۔

ہاں البتہ نارا کے بائیں جانب، اب جنگل اور پانی کی جگہ لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر صبح سویرے مرد، عورتیں اور بچے سب نارا کے پانی کو دعائیں دیتے ہیں، گیدڑ اور تیتر  بولتے ہیں۔

انسانی لہو اور سرخ رنگ

$
0
0

سیاسی دخل اندازی کے بغیر میرٹ پر تعینات ہونے والے دو افسران ایک ڈپٹی کمشنر اور ایک قابل پولیس کپتان ضلع میں امن و امان قائم رکھنے پر قادر ہوتے تھے اسی طرح ڈیوولیوشن سے قبل ایک مجسٹریٹ اور سفارش کے بغیر تعینات تھانہ SHO اپنے فرائض کو خوب جانتے تھے۔ وہ اپنے افسران اور ضمیر کو جوابدہ ہوتے تھے۔

علاقہ مجسٹریٹ کا SHO سے رابطہ ہوتا اور وہ جرائم پیشہ اور شرفاء میں اسی طرح تمیز رکھتے جو حالات و واقعات و شخصیات کا تقاضا ہوتا۔ بعض تھانے تب بھی فروخت ہوتے لیکن ان کی منڈی نہیں لگتی تھی۔ تعیناتی ہفتوں اور مہینوں کے لیے نہیں سالوں کے لیے کی جاتی تا کہ پولیس افسر بطور خاص اپنے علاقے، وہاں کے مسائل اور مکینوں کو جان اور پہچان سکے اور ہر وقت اپنی پوسٹنگ کی نگرانی کی بجائے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت پر توجہ دے سکے۔ یہ بہت پرانے دور کی نہیں ماضی قریب کی چند باتیں اور حقائق ہیں۔

جلسے جلوس دھرنے اب اس لیے خوف اور بدامنی کی علامت بن گئے ہیں کہ عدم انصاف اور شنوائی نہ ہونے کے سبب عوام میں بے صبری اور شدت پسندی کا رجحان بڑھ گیا ہے جب کہ  فیصلے انتظامی انداز کی بجائے سیاسی مقاصد کے پیش نظر ہونے لگے ہیں۔ حکمرانی امانت کی بجائے باپ دادا کی جاگیر سمجھی جا رہی ہے اور محاسبہ و جوابدہی کی ضرورت مفقود ہو رہی ہے جزا اور سزا کو اہمیت نہیں دی جا رہی، قانون کی حکمرانی غصب ہونے لگی ہے اور حکمرانی موروثیت اختیار کرنے کے درپے ہے جب کہ  شخصی آزادی سلب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سب عوامل اکٹھے ہو گئے اور جمہوریت کے نام لیوا اسے بادشاہت میں بدلنے کے درپے ہیں۔ فساد کی جڑ یہی سوچ اور طرز عمل ہے۔

اب موروثی سیاست لاہور، گجرات، پشاور، کراچی اور ملتان جیسے شہروں میں جنم لے کر کاروبار میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور کاروباری شخص گھاٹے کا سوا کرتا نہ ہی اپنے چلتے پھلتے پھولتے بزنس سے دستبردار ہوتا ہے۔ چند روز قبل بظاہر بیریئر ہٹائے جانے کے نام پر پولیس کی سیدھی فائرنگ سے دس جاں بحق ہونیوالے افراد کا قتل بلا شبہ قتل عمد تھا اور بلا جواز تھا۔ ملک میں ڈی سی اور مجسٹریسی نظام موجود رہتا تو پولیس مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر سیدھا فائر کبھی نہ کھول سکتی، یوں بھی پر تشدد مجمع ہی کیوں نہ ہو فائرنگ ہوائی ہوتی ہے یا ٹانگوں پر نہ کہ سینے یا دھڑ پر۔

ملک میں ہزاروں مقدمات قتل سالہاسال سے عدالتوں میں بوجوہ زیر کار ہیں۔ مجسٹریسی سسٹم ختم ہونے سے قبل قتل کے کیسز ابتدائی طور پر ایک کمٹمنٹ مجسٹریٹ کے روبرو شہادتیں ریکارڈ کرنے کی غرض سے فوری طور پر پیش ہوا کرتے تھے جس کے کئی مثبت اثرات ہوتے تھے۔ استغاثہ اور صفائی کے گواہ دو تین ماہ کی پولیس تفتیش کے بعد کمٹمنٹ مجسٹریٹ کے روبرو ملزم سمیت پیش کیے جاتے۔

تاخیر نہ ہونے کے سبب گواہان عدالت میں بیشتر سچ بیان ریکارڈ کراتے مخالف فریق اتنے کم عرصے میں نہ انھیں منحرف کرا سکتا نہ Win Over کر سکتا نہ ہی دھمکی یا لالچ کے ذریعے غلط بیانی پر مجبور کر سکتا۔ مجسٹریٹ کے روبرو بیان کے بعد اگر گواہ سیشن سپرد ہونے کے بعد پہلے بیان سے انحراف کرتا تو خود مجرم ہو سکتا تھا۔ اس طرح ملزموں کے بچ نکلنے کی راہ تنگ ہو کر مسدود ہو جاتی اور سیشن ٹرائیل میں انصاف اور سزا کا زیادہ امکان ہوتا۔ کمٹمنٹ پروسیڈنگز ختم کرنے سے سزاؤں میں واضح کم آئی اور تاخیر اس کے علاوہ۔ مقصد یہ کہ DC سسٹم اور کمٹمنٹ ٹرائیل ختم کرنا سزاؤں میں کمی، تاخیر اور پولیس گردی آنے کا سبب بنا۔

اگر ملک میں DC سسٹم موجود ہوتا تو DC کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات ہونے کی وجہ سے ادارہ منہاج القرآن اور طاہر القادری کی رہائش گاہ وغیرہ کے اردگرد بیریئر ہٹانے کے لیے جانیوالی پولیس کے انچارج کے طور پر اس علاقے کا علاقہ مجسٹریٹ ان کے ہمراہ ہوتا جو اس روز پولیس کو گولیاں برسانے کی کبھی اجازت نہ دیتا تا آنکہ اسے اپنی اور پولیس فورس کی جانوں کو خطرہ محسوس ہوتا اور وہ بھی شاید ہوائی فائرنگ یا منہاج القرآن ادارے کے افراد کی ٹانگوں کو مضروب کرنے کی اجازت دیتا۔ اب تک جو 10 مردوں اور خواتین کی لاشیں ملیں وہ سب چھاتی یا سر پر گولی لگنے سے زخمی ہوئے نہ کہ ٹانگوں پر لہٰذا ڈی سی سسٹم کا دوبارہ رائج کیا جانا وقت کی فوری ضرورت ہے۔

خود میں نے اپنی ملازمت کے دوران درجنوں جلوسوں کو ہمراہی پولیس کے ذریعے کبھی ہوائی فائرنگ سے اور کبھی جلوس کا پیچھا کر کے اور کبھی ڈائیلاگ سے منتشر کیا ہے لیکن ایک شخص بھی مضروب نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ دنوں پتھراؤ کے جواب میں 10 افراد کی ہلاکت اور درجنوں کی مضروبی سمجھ سے بالاتر ہے لہٰذا اسے پولیس کی دہشت گردی سے چھوٹا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ الگ بات کہ تعلیمی ادارے نے بھی بیریئر گردی کی انتہا کر رکھی تھی اور یہی جگہ نہیں ایسے بیریئر اس شہر میں سینکڑوں دفتروں، تھانوں اور رہائش گاہوں پر اس وقت بھی موجود ہیں۔ اس وقت بھی جب مولانا موصوف سال کے ساڑھے گیارہ ماہ ملک سے باہر ہوتے ہیں ان کے مکان پر بیریئر اور مسلح گارڈ موجود ہوتے ہیں جس کی حکمت حیرت کا باعث ہے لیکن اس کے باوجود ایسا پولیس آپریشن کسی بھی شخص کے لیے باعث حیرت و نفرت ہے جس میں دس افراد سیدھی آنے والی گولیوں سے مار ڈالے جائیں۔

میاں شریف فیملی اور طاہر القادری کے درمیان محبت اور قربت بھی انتہا کی رہی ہے جس کا مظہر تعلیمی ادارے کا قیام بھی ہے پھر یہ قربت اتنی نفرت اور مخالف میں کیوں بدل گئی۔ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ اس منظر پر بھی توجہ کی ضرورت ہے جو چینلز نے دکھایا کہ یک عمارت کی چھت پر مسلح لوگ بھی موجود تھے۔ قانون کے مطابق ڈنڈوں یا تھپڑوں کی لڑائی میں کوئی شخص جاں بحق ہوجائے تو جرم قتل نہیں کہلائے گا لیکن نہتے یا ڈنڈہ بردار کو سامنے سے بندوق کے فائر سے مار دیا جائے تو یہ قتل عمد ہی بنے گا۔ کیا یہ سازش تھی یا واضح احکام کی بجا آوری اس پر جوڈیشل کمیشن ضرور نتیجہ اخذ کر لے گا۔ لیکن جو مناظر چینلز نے دکھائے بہ آسانی ہضم ہونے والے نہیں۔

اسی شہر میں اسی ہفتے دو جگہوں پر سرخ رنگ دیکھا ایک ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں پولیس گردی کے دوران ٹی وی چینلز کے توسط سے تو دوسرا سرخ رنگ جو پینٹنگز کی نمائش کے دوران حمائل آرٹ گیلری میں نیشنل کالج آف آرٹس کی آرٹسٹ گریجویٹ وردہ بخاری نے دیہاتی عورت کو ذہن میں رکھ کر عام تصاویر کی بجاے ان میں تار دھاگے، گرہیں سلائی کڑھائی کے ساتھ برش کے ذریعے رنگوں کی کی آمیزش کر کے ایک نئے تجربے کی صورت میں دکھایا۔

NCA کے پرنسپل ڈاکٹر جعفری نے نمائش کا افتتاح کر لیا تو ناظرین نے تصاویر میں مصوری کو نیلے پیلے براؤن اور سرخ رنگوں میں دل و نگاہ کے ساتھ تسکین قلب کا باعث پایا۔ پینٹنگز میں سرخ رنگ اس لہو سے قطعی مختلف تھا جو پولیس نے دس عدد قتل اور بیسیوں کو گھائل کر کے ٹی وی ناظرین کو دکھایا۔ دیواروں پر لگے مصوری کے فریم قلب و نظر کو گرما رہے تھے اور میں پریشان کہ ایک ہی شہر میں چند روز کے وقفے اور چند کلو میٹر کے فاصلے پر حیوانی کھیل بھی دیکھا اور سرخ رنگ میں تسکین قلب کا سامان بھی۔

سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں

$
0
0

ماننا پڑتا ہے کہ یہ امریکی جو بھی کرتے ہیں کمال کا کرتے ہیں۔ سیکھو سیکھو امریکا سے کچھ سیکھو ۔۔۔ امریکا والے یونہی ہر کسی کے دل میں جوتوں سمیت نہیں اترے ہیں بلکہ ان کو دل میں اترنے کے ’’سارے راستے‘‘ معلوم ہوتے ہیں، پشتو کے ایک شاعر یونس خلیل کا ایک شعر ہے

مسکتیوب او پسرلے خو دواڑہ یودی
دلتہ غونڈ دے پہ یو زائے کے ھلتہ خور دے

ترجمہ : یعنی تیری مسکراہٹ اور بہار دونوں ایک ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ایک ہی جگہ سمٹ آئی ہے اور وہاں پھیل گئی ہے، اب تک ہمارا خیال تھا کہ روشن روشن پاکستان خالص ہماری یعنی حکومتوں اور لیڈروں کا کارنامہ ہے لیکن اب پاکستان میں جو کچھ ’’شائبہ خوبی امریکا‘‘ بھی ہے۔۔ کیوں کہ آج تک ہم نے جتنے بھی لوگوں کو دیکھا ہے جن کا جائز یا ناجائز کوئی بھی تعلق امریکا سے رہا ہے وہ واقعی خوش حال ہو چکے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش حال بنا رہے ہیں، خوش حالی لانے کی بات تو حق ہے۔ اپنی بدحالی دیکھ کر اکثر جی میں آتا ہے کہ

یارب اندر کنف سایہ آں سرو بلند
گر من سوختہ یکدم بنشینم چہ شود

ترجمہ : یا خدایا اگر اس سرو بلند قامت کی چھاؤں کے ایک کنارے پر مجھ سوختہ جاں کو بھی دو گھڑی بیٹھنے کا موقع مل جائے تو کیا ہو جائے گا، چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سابق ڈینگی مچھر کو تو آپ جانتے ہیں کہ انتہائی جذباتی آدمی ہے ایک دن اپنے ارد گرد چند لوگوں کو تیز رفتاری سے خوش حال ہوتے دیکھا تو خودکشی کرنے پر تل گیا، وہ تو اچھا ہے کہ بروقت کوئی آلہ خودکشی دستیاب نہیں تھا ریل کی پٹڑی دور تھی رسی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور بجلی اپنے میکے گئی ہوئی تھی مجبوراً آدھی خودکشی پر اکتفا کر کے اپنا منہ سر پٹنے لگا، پوچھا بھئی یہ سلسلہ کیا ہے ۔۔۔ بولا ۔۔۔ کیا یہ خودکشی کا مقام نہیں ہے کہ جن کو کل کوئی ’’خرولا‘‘ پر بھی لفٹ دینے کو تیار نہیں تھا وہ آج کرولا میں اڑتے پھر رہے ہیں وہ بھی صرف ہم پر دھول اڑانے کے لیے ۔۔۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے آنسوؤں کو ہاتھوں میں جمع کر رہا ہے ۔۔۔ پوچھا ۔۔۔ یہ کیا ۔۔۔ بولا چلو بھر پانی جمع کر رہا ہوں تمہارے ڈوب کر مرنے کے لیے ۔۔۔ یونہی طرم خان بنے پھرتے رہتے ہو کاغذوں کو سیاہ کر کر کے انگلیاں فگار اور خامہ خوں چکاں کر لیا اگر کسی این جی او میں گھس کر چوکیدار بھی بن جاتے تو آج یوں قرض خواہوں اور مصیبتوں سے ’’لکا چھپی‘‘ نہ کھیل رہے ہوتے، ساتھ ہی ہمارا بھی حلق تر ہو جاتا اندر ہی اندر تو ’’قلندر‘‘ کی یہ بات ہمیں پانی پانی کر رہی تھی لیکن اپنی ’’نااہلی‘‘ کو خودداری کے ذریعے چھپانے میں ہمیں عمر بھر کا تجربہ ہے، چند بھاری بھرکم کتابی بلکہ ’’کالماتی‘‘ الفاظ بول کر ہم نے اسے قائل کر لیا کہ یہ این جی اوز وغیرہ تو ہمارے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں کہ ہم اقبال کے مرد مومن ہیں اپنی خودی کو بلند رکھتے ہیں شکر ہے کہ اسے مرزا محمود سرحدی کے ان شعروں کا پتہ نہیں تھا کہ

ہم نے اقبال کا کہا مانا
اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے

پھر پینترا بدل کر بولا ۔۔۔ ایک تو یہ امریکی لوگ میری سمجھ میں نہیں آئے۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور جذباتی ہو کر غیر پارلیمانی زبان پر اتر آتا اور بہت سارے لوگوں کے استحقاق مجروح کرتا ہم نے بریک ڈال کر روکنے کی کوشش کی لیکن ہم یہ بھول گئے تھے کہ وہ قہر خداواندی ہے جو روکنے کی کوشش کو اپنی طاقت بنا کر اور بھی رواں ہو جاتا ہے۔

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

اپنی گفتگو کو ہائی اسپیڈ میں ڈال کر دو چار لیٹر ڈیزل خرچ کرنے کے بعد بولا ۔۔۔ تم تو اپنے آپ کو بڑا پھنے خان سمجھتے ہو بتاؤ آخر امریکا والوں کے ہاں ڈالر پیڑوں پر اگتے ہیں اپنے ہاں کا سب کچھ سنوار لیا ہے، امریکا کو انھوں نے فردوس گم گشتہ بنا لیا ہے جو ہمارے غم میں مبتلا ہو کر یہاں ’’ڈالر باری‘‘ کرتے ہیں کیوں آخر کیوں؟ ثواب دارین کے لیے، کار خیر کے لیے؟ انسانیت کے ناطے؟ ہماری خالہ پھوپھی کے بھائی ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ جب قہر خداوندی کی گفتگو میں سوالیہ نشانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ تو ایسے مواقع پر جواب دینے کے بجائے چپ سادھ کر خود کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کرنا چاہیے کیوں کہ وہ دراصل سوال اس لیے نہیں کرتا کہ اس کا جواب اسے چاہیے ہوتا ہے بلکہ ’’جواب‘‘ اس کے دماغ میں پک چکا ہوتا ہے۔

سوال تو محض ایک ڈھکن کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ جواب ابل ابل کر خوب زور دار ہو جائے اور پھر بھلا اس کا جواب ہم دے بھی کیا سکتے ہیں کہ امریکا کے سر پر کس بھینسے نے پاؤں رکھا ہے کس بھڑ نے اسے کاٹا ہے اور کس ڈاکٹر نے نسخے میں لکھا ہے کہ اپنے بچوں کے منہ نوالا چھین کر یہاں لاؤ اور آنکھیں بند کر کے یہاں وہاں بے تحاشا پھینکتے چلے جاؤ۔ ۔۔۔ اس احتیاط کے ساتھ کسی کا بھلا ہر گز ہونے نہ پائے اور برا ہی برا ہوتا چلا جائے، ہر شخص کرپٹ ہو جائے ہر بندہ چور بن جائے اور ہر آدمی بھکاری بن جائے، ’’نہفتن آں دیگ‘‘ کا وقت ہو چکا تھا پریشر ککر کی سیٹی بجنا شروع ہوئی، بولا صرف اور صرف اس لیے کہ یہاں کا معاشرہ کرپٹ، بے ایمان اور مفت خوروں سے بھر جائے ’’کام‘‘ کرنا بھول جائے بھیک کو اپنا پیشہ بنا لے ۔۔۔ اور نکھٹو پن کو اپنا وطیرہ سمجھ لے ۔۔۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکیوں جیسے لائق فائق حساب دان نکتہ دان ہوشیار سمجھ دار اپنے ڈالروں کو یوں ضائع کریں کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کے ذیلی اہل کار ان کے ڈالروں کو کس طرح ضائع کرتے ہیں ۔۔۔ خوب جانتے ہیں کیوں کہ یہی تو وہ چاہتے ہیں

سب سمجھے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں

آہ! یاور امان

$
0
0

آج کا دن بے حد اداس اور ویران سا تھا اس کی وجہ یاور امان تھے جو میرے بڑے بھائیوں جیسے تھے اس دنیائے آب وگل سے رخصت ہوگئے تھے، وہ کافی دن سے علیل تھے، اسپتال جاتے، داخل ہوتے اور صحت مند ہوکر گھر لوٹ آتے، لیکن اس دفعہ قضا ان کے انتظار میں تھی، 17 جون 2014 کی صبح وہ تمام دکھوں سے آزاد ہوگئے مجھے اے خیام صاحب نے میسج کرکے اطلاع دی تھی اور میسج پڑھ کر میرے اندر سے کئی چیخیں بلند ہوتے ہوتے رہ گئیں اور کچھ دیر صدمے کی کیفیت میں رہی اور پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے بیٹھ گئی۔

یاور امان کا شمار بڑے شعرا میں ہوتا تھا وہ قادر الکلام شاعر تھے کھرا اور سچا لہجہ ان کی شناخت تھا ان کی گفتگو میں حق پنہاں تھا۔ کسی کی کوئی تحریر پسند نہ آتی تو اس کا اظہار بڑی بے باکی سے کردیتے غالباً وہ آخری بار مماثلات اسرار کی تقریب میں شریک ہوئے تھے جسے زیب اذکار اور ان کے ساتھیوں نے ذوالفقارگادھی کی کتابوں کی تقریب رونمائی کے لیے سجایا تھا۔

یاور امان کا اوڑھنا بچھونا شعروسخن تھا، انھوں نے غم بھی اٹھائے اور سکھ بھی ملا۔ ابتدائی زمانے میں افسانے بھی لکھے بے شمار افسانوں اور کہانیوں کے تراجم کیے، ان کی حال ہی میں ایک کتاب آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے شایع ہوئی عنوان تھا ’’ادھوری یادیں‘‘ یہ بنگالی کہانیوں کا ترجمہ تھا۔ اس سے قبل ان کا شعری مجموعہ ’’انہدام‘‘ شایع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے اور ناقدین و قارئین میں مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔

ان کی سوچ و فکر ان کی شاعری میں نمایاں ہے ’’انہدام‘‘ میڈیا گرافکس سے شایع ہوا تھا۔ 312 صفحات پر یہ شعری مجموعہ مشتمل ہے ۔کتاب پر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، علی حیدر ملک ، الیاس احمد کی آرا موجود ہیں سرورق کے بیک پر ایک بڑا خوبصورت شعر درج ہے۔

جوانی دور پیچھے رہ گئی ہے
میں ڈھلتی عمر کا جغرافیہ ہوں

یاور امان کی شاعری کے بارے میں پروفیسر علی حیدر ملک کہتے ہیں کہ ’’یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر، تاہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہرحال اس وقت بھی قائم تھا اس وقت وہ امان ہرگانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی وبنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے، علاوہ ازیں بحیثیت صحافی اخبارات خصوصاً ہفت روزہ ’’قوم‘‘ کھلنا اور روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی کے لیے خبریں رپورٹس اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے۔‘‘

بنگلہ دیش بننے کے بعد انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے مطالعے کو اپنے رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے زیادہ نمایاں تھے، انھوں نے اردو شاعری کے اساتذہ، اپنے پیش روؤں اور اپنے ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی۔

یاور امان نے اپنے مضمون ’’من آنم کہ من دانم‘‘ میں لکھا ہے کہ میں علی حیدر ملک کی رہنمائی میں افسانے لکھنے کی طرف مائل ہوا اور میرا پہلا افسانہ لاہور سے شایع ہوا، ابتدا میں میرے افسانے قلمی و نیم ادبی جرائد میں شایع ہوتے رہے، پھر آہستہ آہستہ قلمی جریدوں سے نکل کر ادبی جریدوں کی طرف رجوع کیا۔ ان کی گفتگو اور مضمون سے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے زندگی کے ابتدائی دنوں سے ہی جدوجہد کی ، ساتھ میں سقوط مشرقی پاکستان نے پورا وجود زخمی کردیا اور بے شمار دکھ اٹھانے پڑے۔

زندگی ہر شخص کو آزمائش اور غموں میں مبتلا کرتی ہے کسی کی قسمت میں کم اور کسی کے نصیب میں بے شمار اور آزمائشیں لکھ دی جاتی ہیں، تخلیق کار کا غم، درد اس کی تحریروں میں جگہ بنالیتا ہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات اور اپنے اوپر بیتنے والے غم کو تحریر کے سانچے میں مختلف شکلوں میں منتقل کردیتا ہے۔

یاور امان اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن وہ اپنی تحریروں کے حوالے سے زندہ سلامت ہیں ان کی شاعری اور تصویر ان سے محبت و عزت کرنے والوں کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر رہی ہے۔

عجب ناپختہ بود و باش کے منظر بناتا ہوں
لکیریں کھینچتا ہوں ریت پر میں گھر بناتا ہوں
دکھاوے کے لیے کچھ اور ہوتا ہے مرا چہرہ
چھپا رہتا ہے جس کو جسم کے اندر بناتا ہوں
میں اپنا کام کرتا ہوں وہ اپنا کام کرتے ہیں
وہ سنگ رہ بناتے ہیں میں تیشہ گر بناتا ہوں
ایک اور غزل کے چند شعر:
پہلے تو مرے گھر کا اک نقشہ بنا دینا
ہوجائے مکمل تو ’’لاکر‘‘ میں سجا دینا
یہ جسم ہے مٹی کا مٹی ہی رہے سائیں
کیا چاند ستاروں کی پھر اس کو قبا دینا
گو دور نہیں مسجد پر یہ بھی عبادت ہے
روتے ہوئے بچے کو کچھ دیر ہنسا دینا

یاور امان بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جس سے ملتے نہایت خلوص کے ساتھ، منافقت اور کینہ پروری ان کے مزاج سے بہت دور تھی صاف اور سچی بات کہنے میں ہر گز تکلف نہ برتتے تھے، میں سمجھتی ہوں منافقت کرنے والوں سے ایسے لوگ بے حد اچھے ہوتے ہیں جو کم ازکم منہ دکھاوے کی بات نہیں کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس محفل میں بیٹھ کر جو لوگ جس شخص کی تعریف میں قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں، ان کے جانے کے بعد بغیر کسی شرمندگی یا جھجک کے اس کی ’’ہجو‘‘ شروع کردیتے ہیں اور دل کھول کر اپنے دل کا بغض و عناد نکالتے ہیں، دانا و بینا حضرات ایسے لوگوں سے ہوشیار ہوجاتے ہیں، لیکن اکثریت منافقوں کی ہے، تحریر میں کچھ ہے اور بان کچھ کہہ رہی ہے۔ بہرحال اللہ محفوظ رکھے ان بلاؤں سے۔ یعنی حسد اور بغض وعناد سے۔

اتفاق ایسا ہے کہ ان دنوں میری طبیعت کافی عرصے سے خراب ہے۔ نزلہ، زکام، بخار، لکھنے پڑھنے کا کام نہ ہونے کے برابر اس ہفتے کالم بھی نہ آتا، لیکن یاور امان کی اچانک موت نے جہاں بہت بڑا صدمہ پہنچایا وہاں میرے ہاتھ میں قلم بھی تھمادیا، میرے ان سے سالہا سال سے تعلقات تھے، انھوں نے میرے ناول ’’ٹرک‘‘ پر بے حد وقیع مضمون لکھا، پڑھا اور پاکستان و انڈیا کے رسالے ’’مژگاں‘‘ میں اشاعت کے لیے دیا اور جب چھپ کر آگیا، تب انھوں نے پرچہ تحفتاً دیا۔

امان بھائی نے میری کتاب ’’خاک میں صورتیں‘‘ اور ’’اردو شاعری میں تصور زن‘‘ کو پسند کیا اور مضمون لکھنے کا وعدہ کیا لیکن بار بار بیمار ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے، ہوسکتا ہے کہ مضمون لکھ چکے ہوں میری 15 دن یا پھر ماہ دو ماہ بعد ان سے تفصیلی گفتگو ہوتی وہ اپنے دکھ بیماری کی باتیں کیا کرتے کہ مرتے مرتے بچے ہیں ، لیکن اس بار وہ خواب میں ضرور کہیں گے کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں بچ نہ سکے، جانا تو تھا ہی لیکن خوش ہیں کہ انھوں نے بہت سے کام کرلیے تھے کچھ باقی تھے، لیکن کام تو ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اقبال کی اس دعا کے ساتھ اپنے بہت اچھے بھائی ، بہت اچھے انسان سے اور امان سے اجازت چاہتی ہوں۔

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Three Filters Test

$
0
0

آپ بیٹھے ہیں، اچانک آپ کا کوئی ماتحت یا کولیگ آپ کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے، ’’ سر آپ فارغ ہیں؟ ‘‘ آپ سر اٹھا کر دیکھتے ہیں، اس کے انداز سے آپ کے اندر تجسس پیدا ہوتا ہے، آپ اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ ہاں ! میں فارغ ہوں ،کہو کیا کہنا ہے؟ ‘‘ وہ کرسی کھینچ کر آپ کے قریب بیٹھے گا، پراسرار انداز سے دائیں بائیں دیکھے گا، اٹھ کر آپ کے دفتر کا دروازہ کھول کر باہر دیکھے گا کہ دفترکے باہر کوئی کان لگائے تو نہیں کھڑا ہے، دروازہ دبا کر بند کرے گا، دوبارہ اسی کرسی پر آپ کے قریب آ بیٹھے گا، آپ کی طرف جھک کر سرگوشی میں پوچھے گا، ’’ سر آپ نے سنا؟ ‘‘ آپ کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ایسی کون سی اہم خبر ہے جس کے لیے اتنی رازداری کی بھی شرط ہے اور آپ نے نہیں سنی۔ آپ دائیں سے بائیں سر ہلا کر اسے جواب دیتے ہیں… ’’ بڑے غافل ہیں آپ سر… ‘‘ آپ کا منہ شرمساری سے لٹک جاتا ہے کہ آپ کس قدر غافل ہیں، آپ کا تجسس کا غبارہ پھول کر پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہوتا ہے، آپ کہتے ہیں، ’’ یار جلدی بتاؤ ، کیا بات ہے؟ ‘‘

’’ سر… انصاری صاحب کی اپنی بیوی سے ناچاقی ہو گئی ہے اور روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں…‘‘ مزید زور بیان کے لیے وہ یہ بھی کہے گا، ’’سر سنا ہے کہ وہ انصاری صاحب کی کنجوسی کے باعث انھیں چھوڑ گئی ہیں اور ان کا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں…‘‘ کہنے والا اپنی بات کہہ کر چلاجاتا ہے، آپ اپنا کام بھول بھال کر اس کی گفتگو کے سحر میں کھو جاتے ہیں… بسا اوقات آپ اپنا ضروری کام چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور اس مزیدار گفتگوکو چار اور لوگوں کو سنا کر اس’’ اہم کام‘‘ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
……
’’ باجی جی… ‘‘ آپ کی کام والی فرش پر پچارا لگاتے لگاتے آپ کے قریب آ کر پچارا روک دیتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہے، ’’ ایک بات بتاؤں آپ کو؟ ‘‘ آپ پورے انہماک سے ٹیلی وژن دیکھ رہی ہوتی ہیں، اس کا انداز آپ کے کان کھڑے کر دیتا ہے، آپ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھتی ہیں اور وہ دائیں بائیں۔

’’ کیا بات ہے، جلدی پھوٹو!‘‘ آپ غصے سے اس سے پوچھتی ہیں … ’’ وہ سامنے والے گھر میں میری نند کام کرتی ہے نا، اس نے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا کسی سے آنکھ مٹکا ہو گیا ہے ، گھر والوں نے اسے گھر کے ایک کمرے میں قید کر کے رکھ دیا ہے، کیونکہ اس نے ماں باپ کے سامنے کھڑے ہو کر ضد سے کہا کہ وہ شادی کرے گی تو اسی سے… ‘‘

’’ شکل سے کیسی شریف لگتی ہے… ‘‘ آپ حیرت سے کہتی ہیں، ’’ اسی لیے کہتے ہیں شکل مومناں ، کرتوت کافراں ! ‘‘ آپ اپنی ملازمہ سے مزید کرید کرید کر تفصیل پوچھتی ہیں، وہ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی باتیں ملا کر اور چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے، اتنا مرچ مسالہ لگا کر کہ آپ ’’متاثر‘‘ ہوئے بنا نہ رہ سکیں۔ اسے ڈانٹ کر کام کرنے کا تو کہہ دیں مگر آپ کو خود سکون اسی وقت ملے گا جب آپ اس داستان کو اپنے ارد گرد کے چند گھروں میں رہنے والی اپنی سہیلیوں کو نہ بتا دیں۔
……
’’ بھابی… ‘‘ آپ کی نند آپ کو کال کرتی ہے، ’’ کام کر رہی ہیں کہ فارغ ہیں؟ ‘‘ آپ کہتی ہیں کہ آپ فارغ ہیں، اس سے وجہ پوچھتی ہیں تو وہ بتاتی ہے… ’’ ہماری کلاس فیلو تھی نا ببلی، جس کا اصل نام فرح تھا؟ ‘‘ آپ فوراً پہچان کر کہتی ہیں، ’’ ہاں ، ہاں ! کیا ہوا اسے؟ ‘‘ ’’ اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ جہاں کیا ہے نا… وہ بڑے شرابی اور جواری لوگ ہیں اور ہر طرح کی برائی میں مبتلا ہیں… ‘‘

’’ اچھا… ‘‘ آپ حیرت سے پوچھتی ہیں، ’ ’ وہ تو بڑا پرچار کیا کرتی تھی حلال اور حرام کا…‘‘

’’ صرف یہی نہیں بھابی، مجھے تو بتانے والے نے بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کا آپس میں چکر تھا…اور اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ کہ لڑکے کے والد سے شادی سے پہلے ببلی کا اپنا چکر تھا، شادی نہ ہو سکی تو اب ان دونوں نے یہ راستہ ڈھونڈ لیا کہ بیٹے بیٹی کو بیاہ کر اپنا راستہ بھی سیدھا کر لیا ہے دونوں نے!!‘‘

آپ اس کی چکر دار بات سنتی ہیں، اس میں آپ کو خوب مواد ملتا ہے، آپ ٹیلی فون ڈائری اٹھا کر اپنی ان سہیلیوں سے رابطہ کرتی ہیں جن کے ساتھ کالج کے بعد سالوں سے آپ کا کبھی رابطہ نہیں ہوا ہو گا… مگر اس اہم موقع کو تو آپ نہیں گنوا سکتیں نا… ‘‘

یہ مناظر تخیلاتی نہیں ہیں… ایسا حقیقت میں ہوتا ہے، اس طرح کے غلط اطوار کو بآسانی بدلا جا سکتا ہے۔
تجسس انسانی فطرت کا اہم جزو ہے، دنیا کی بڑی بڑی ایجادات اور دریافتیں اسی عادت کی وجہ سے ہوتی ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی چیز پکڑا دیں تو وہ اسی عادت کے باعث اسے ہر ہر زاویے سے الٹ پلٹ کر دیکھے گا، اس سے بڑا بچہ یہ جاننے کو کوشش کرے گا کہ اس کا مصرف کیا ہے، ایک نوجوان جاننا چاہے گا کہ وہ چیز بنی کیسے… اسی تجسس کے باعث ہم ایک عام بات کو بھی کریدتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے خیالات کی آمیزش کر کے اسے اور بھی مسالہ دار بنا دیتے ہیں۔
……
یونان میں ایک شخص سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہا ، ’’ میں تمہیں تمہارے ایک دوست کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں !‘‘ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا، ’’ اس سے قبل کہ تم مجھے یہ بات بتاؤ، میں چاہوں گا کہ تم ایک چھوٹا سا امتحان پاس کرو، یہ تہری تقطیر(three filters test) کا ٹیسٹ ہے…
’’ جو کچھ تم مجھے بتانے جا رہے ہو، اس کے بارے میں تمہیں پورا یقین ہے کہ وہ سچ ہے؟ ‘‘
’’ نہیں … ‘‘ اس آدمی نے کہا، ’’ اصل میں، میں نے کسی سے یہ سنا ہے! ‘‘

’’ اچھا!‘‘ سقراط نے کہا، ’’ تو گویا تم پہلے سوال کو پاس نہیں کر سکے، اس لیے کہ تم نے فقط سنا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہ رہے ہو، کوئی اچھی بات ہے؟ ‘‘
’’نہیں… ‘‘ اس نے کہا ’’ اس کے الٹ! ‘‘
’’ تو گویا تم مجھے میرے دوست کے بارے میں کچھ ایسا بتانا چاہ رہے ہو جو کہ اچھا بھی نہیں اور تمہیں اس کے سچ ہونے پر بھی یقین نہیں؟ ‘‘ سقراط رکا، ’’ چلو… پھر بھی میں تم سے ٹیسٹ کا تیسرا سوال پوچھوں گا، کیا معلوم کہ تم پہلے دو سوالوں میں پاس نہیں کر سکے مگر تیسرے سوال میں پاس کر لو! ‘‘ اس آدمی نے سوالیہ نظروں سے سقراط کو دیکھا۔

’’ کیا جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہتے ہو، سچ یا جھوٹ اور اچھا بھی نہیں… اس بات کے جاننے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا اور نہ جاننے سے کوئی نقصان؟‘‘’’ نہیں … ‘‘ وہ بولا، ’’ حقیقت میں نہیں، تمہیں اس کے جاننے سے کوئی فائدہ ہو گا نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان !‘‘
’’ اچھا !‘‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا، ’’ جو کچھ تم مجھے بتانا چاہتے ہو، نہ وہ سچ ہے، نہ اچھا، نہ اس کے جاننے کا مجھے کوئی فائدہ ، نہ لاعلمی سے کوئی نقصان تو میں تمہاری اس بات کو کیوں سنوں !! ‘‘
آپ کے پاس کوئی آئے، پراسرار انداز میں آپ سے کوئی بات کہنا چاہے تو اس سے تین سوال پوچھیں، اس تقطیری ٹیسٹ سے اگر وہ شخص پاس ہو جائے تو ہی اس کی بات کو اہمیت دیں۔
… جو بات تم مجھے بتانے والے ہو ، وہ سچ ہے؟
… کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کسی کے بارے میں جو تم بتاؤگے؟
… کیا اس کا جاننا میرے لیے فائدہ مند یا نہ جاننا نقصان دہ ہے؟
سب سے اہم بات… صرف دوسروں کو ہی اس ٹیسٹ سے نہ گزاریں بلکہ جب کسی کو کوئی بات بتانے لگیں تو خود سے بھی پوچھیں کہ آیا وہ بات سچ ہے، کوئی اچھی بات ہے اور اس کے بتانے کا اس شخص کو کوئی فائدہ ہے جسے آپ بتا رہے ہیں اور نہ بتائیں تو نقصان؟؟؟
اس ٹیسٹ سے کسی کو گزارنا اتنا مشکل کام نہیں، مگر ہم بہت سی ایسی برائیوں سے بچ جائیں گے جو بظاہر بڑی معلوم نہیں ہوتیں ، مگر ہم غلط اور جھوٹی باتوں پر یقین کر کے، ان کے carrier بن کے، ان جھوٹی اورناقص معلومات کو پھیلا کر اپنے لیے آخرت میں بڑے بڑے عذاب مول لینے کا سود ا کرتے ہیں!!

قادری صاحب کا لانگ مارچ

$
0
0

پروفیسر طاہر القادری جب بھی پاکستان واپسی کا اعلان کرتے ہیں پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں دونوں میں بھونچال آجاتا ہے۔ ان کے ماضی و حال کے معاملات و تنازعات کا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے بعض ان کی شخصیت کو کرشماتی اور بعض پراسرار سمجھتے ہیں ان سے متعلق سیاسی و غیر سیاسی اور مذہبی حلقوں میں بھی دلچسپ بحثیں چھڑ جاتی ہیں۔

اس مرتبہ بھی انھوں نے کینیڈا سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا ہے کہ وہ 23 تاریخ کو 20 کروڑ عوام کی خاطر عوام دشمن نظام سے جنگ کرنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان واپس آرہے ہیں اگر قیام کے دوران (یعنی ان کی یہ آمد و قیام عارضی ہے) ان کو، ان کے خاندان کے کسی فرد یا رہنما کو نقصان پہنچا تو ذمے دار وفاق اور پنجاب کی حکومت ہوگی انھوں نے اپنی پیشگی ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ اگر انھیں کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ آصف، سعد رفیق، پرویز رشید، رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی ہوں گے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میری آمد پر سیکیورٹی فوج خود سنبھالے لیکن وزارت داخلہ نے خود ہی تمام اسلام آباد کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کردی ہے۔

پیشگی ایف آئی آر (First Information Report) کی اصطلاح کی وضاحت وہ خود ہی پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ قانون دان ہیں قانون پڑھاتے رہے ہیں اور ان کے شاگردوں میں بڑے بڑے نامی گرامی وکلا اور سپریم کورٹ کے ججز شامل ہیں ویسے بھی ان پر کشف اور الہام ہوتے رہتے ہیں وہ اپنے خوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے بڑے مشہور ہیں اگر ان کی عمر کے بارے میں بشارت غلط نکل بھی جائے تو ضروری نہیں کہ ہر بشارت یا الہام غلط اور بے معنی ہو۔

قادری صاحب کے انقلابی مارچ جس کی کوئی سمت بھی مقرر نہیں ہے کہ یہ مذہبی انقلاب ہوگا، سیاسی انقلاب ہوگا یا پھر معاشی یا کسی اور نوع کا انقلاب ہوگا اس کے بھرپور استقبال اور اس میں شمولیت کے لیے سابق نگراں وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم اور شیخ رشید نے غیر مشروط اعلان کردیا ہے۔ پارلیمنٹ میں کوئی بھی نشست نہ رکھنے والی جماعت اور اس کے غیر ملکی شہریت کے حامل سربراہ جس کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں اور سپریم کورٹ نے اس کی پٹیشن بھی اس بنیاد پر خارج کردی تھی کہ وہ ایک غیر ملکی ہے، چوہدری برادران نے اپنے کارکن فراہم کرنے اور ان کا خود استقبال کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔

وہ اس سلسلے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی بات چیت کر رہے ہیں کہ حکومت کو گرانے کے لیے ان کے گرینڈ الائنس میں شرکت کریں اس سلسلے میں انھوں نے خودکش سیاسی بمبار بھی تیار کرلیے ہیں۔ 20 مارچ کو تاریخی ٹرین مارچ کا اعلان کرنے والے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ہم خودکش سیاستدان ہیں اپنا تابوت کندھے پر لیے پھرتے ہیں ،انھوں نے کہا کہ طاہر القادری اور ہم ایک دوسرے کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ ان دونوں شخصیات کی سیاسی ہمدردیاں بدلنے کی طویل فہرست ہے۔ چوہدری برادران نے کہا ہے کہ غریبوں کے حقوق اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ گرینڈ الائنس بنا رہے ہیں۔ دینی و انقلابی اصلاحات کے لیے اہل فکر یکجا ہوجائیں۔ اپنے مختلف دور اقتدار میں انھوں نے غریبوں کے حقوق اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے کون سے کارنامے انجام دیے ہیں ان کی کون سی دینی و انقلابی اصلاحات ہیں اور اس کے لیے وہ کون سے اہل فکر کو یکجا کرنے میں سرگرداں ہیں یہ بات سمجھ سے قاصر ہے۔

عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ ہمارا اور طاہر القادری کا ایجنڈا مختلف ہے میں خود سڑکوں پر نکلوں گا تو حکومت برداشت نہیں کر پائے گی وہ بھی ایک سانس میں کئی متضاد باتیں کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے ملک کے مفاد میں انتخابات تسلیم کیے تھے اس وقت جمہوریت کو خطرہ ہے ۔اس کو سب سے زیادہ خطرہ انتخابات میں دھاندلی سے ہے جب حکومت نے ان ہی کی پارٹی کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے ذریعے انکوائری کی پیشکش کی تو اس پر مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی ہے جو بڑی معنی خیز ہے۔  22 جون کو عمران خان نے بہاولپور میں سونامی کی وارننگ جاری کردی ہے اور 23 جون کو قادری صاحب نے عوام دشمن نظام کو زمین بوس کرنے کے لیے انقلابی مارچ کا اعلان کردیا ہے۔

علامہ طاہر القادری اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں اپنی ہر سیاسی مہم جوئی میں بہت سی قوتوں کی تائید و اعانت حاصل ہوجاتی ہے یا پھر وہ کسی کی پشت پناہی و آشیرباد سے ایسا کرتے ہیں اس کا بھی ایک طویل ریکارڈ ہے۔ پچھلے انقلابی مارچ میں بھی وہ بڑے پروٹوکول کے ساتھ پاکستان تشریف لائے تھے اور سیاسی مہم جوئی کے دوران موسم کی سختیوں سے بے نیاز پرتعیش قسم کے بم پروف ایئرکنڈیشن کنٹینر میں مقیم رہ کر شعلہ بیانی کرتے رہے۔

وزرا کی جانب سے ان کی دلچسپ پیروڈی نے اس مہم بلکہ تشہیری مہم جس پر 70 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے مزید دلچسپی پیدا کردی تھی۔ سردی اور بارش میں ٹھٹھرتے ہوئے اور اسپتال میں داخل ہوتے خواتین، بچوں اور مردوں کو اپنی شعلہ بیانی سے حرارت پیدا کرنے کے لیے انھوں نے بڑے جذباتی خطابات کیے کہ مارچ میں شریک افراد اپنے مکان، دکانیں، گاڑیاں، سائیکل، زیورات اور موبائل بیچ کر دھرنے میں شریک ہوئے ہیں وہ تو اللہ بھلا کرے پیروڈی کرنے والے وزرا کا جو کنٹینر میں جاکر علامہ صاحب سے بغل گیر ہوئے۔ مسکراہٹوں و محبتوں کے تبادلے ہوئے اور پھر ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے ذریعے کسی سبکی سے بچنے کا محفوظ راستہ فراہم کردیا گیا۔

ایک ایسے شخص کی امامت اور سربراہی قبول کرنے والے سیاستدانوں کو قومی اسمبلی میں پشتون خواہ ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے فکر انگیز خطاب پر غور کرلینا چاہیے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت چاروں صوبوں میں علیحدگی کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ افغانستان اور انڈیا میں آنے والی حکومتیں ہماری خیر خواہ نہیں ہیں جمہوریت پر خطرات منڈلا رہے ہیں پارلیمنٹ اس پر دھیان دیں ، وزیر اعظم مشترکہ اجلاس یا کل جماعتی کانفرنس بلائیں۔ طاہر القادری کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے جو غیر ملکی بھی ہیں ۔ یہ واقعات کہ مسٹر قادری اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں ۔ وہ خوابوں کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے ہیں اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں ۔


ڈھنڈورچی

$
0
0

حضرت علی ؓفرماتے ہیں خدا سے جب بھی مانگو مقدر مانگو کیونکہ میں نے بہت سے عقلمندوں کو مقدر والوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے دیکھا ہے۔ اس فرمان کی حقیقت ہر آدمی ہر روز دیکھتا ہے۔ جس شاخ پے جو بھی اُلو بیٹھا ہے محض مقدروں کے بل بوتے پر بیٹھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انجام گلستاں صاف صاف نظر آرہا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کی اڑان مقدورں کے باعث ہو وہ مزید اونچی اڑان کے لیے بھی ماں کی دعا کے علاوہ کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں کرتا۔ کہتے ہیں جب قسمت ساتھ ہو تو مٹی میں ہاتھ ڈالنے سے سونا نکل آتا ہے اور بد نصیبی کی صورت میں سونا بھی چھونے سے مٹی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدر والوں کو قدرت لا تعداد ڈھنڈورچی عطا کردیتی ہے جس سے ایک طرف تو قدرت کی بے نیازی اور دوسری طرف ڈھنڈورچی کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ڈھنڈورچی کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈھنڈورچی کسی شخصیت کا تعارف نہیں ہے یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ کوئی بھی شخص ڈھنڈورچی ہونے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔  ڈھنڈورچی کے لیے صرف ایک مقدر والا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ وہ جڑسکے۔ جس کسی کو بھی کسی مقدر والے کی سرسری توجہ میسر ہوگئی سمجھو وہ بیٹھے بیٹھے ڈھنڈورچی بن گیا کیونکہ ڈھنڈورچی کو اس معمولی اور اکثر بے نیاز توجہ اور سرپرستی کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ڈھنڈورچی کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہوسکتا ہے۔ ڈھنڈورچی نائب قاصد سے لے کر گریڈ بائیس کا افسر بھی ہوسکتا ہے، مسکین فقیر سے لے کر امیر کبیر اور وزیر مشیر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی کوئی بھی جب چاہے خواہ اس کا تعلق کسی پیشے سے ہو ڈھنڈورچی بن سکتا ہے۔

ڈھنڈورچی کا کوئی دین کوئی مذہب کوئی دھرم نہیں ہوتا اس کا کام صرف مالک کے لیے ڈھول بجانا ہوتا ہے۔

ڈھنڈورچی کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اس کا کام موجوں کے ساتھ تیرنا ہوتا ہے۔ مقدر والے کو عزت کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ عز ت وتکریم اس نے محض مقدروں کی بل بوتے پر حاصل کی ہوتی ہے اور ڈھنڈورچی اپنی سرشت میں عزت وتکریم سے عاری ہو تا ہے لہذا دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہے۔

ڈھنڈورچی کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ پہچان صرف اس کے مالک کی ہوتی ہے۔ جس کا وجود جھوٹ اور دھاندلی سے پیدا ہوتا ہے۔ مقدر والے مالکوں کو اپنا جھوٹ اور دھاندلی چھپانے کے لیے ڈھنڈورچیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حق پھیلانے والا حق کا پر تو بن جاتا ہے جب کہ باطل کا چیلا باطل کی طرح ہوتا ہی مٹ جانے کے لیے ہے۔ حق بات کرنے والا مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور باطل کا ڈھنڈورچی وقتی کامیابیوں کے باوجود جلد یا بدیر نیست و نابود ہوجاتا ہے۔

بری امام داتا گنج بخش پیر بابا سچل سرمست لال شہباز قلندر عبداللہ شاہ غازی مرکر بھی زندہ ہیں اور ناصرف زندہ ہیں بلکہ دلوں پر راج کرتے ہیں کیوں؟  اس لیے کہ حق زندہ ہے حق زندہ رہنے کے لیے ہے کیونکہ حئی و قیوم کی طرف سے ہے جب کہ باطل صرف اور صرف مٹ جانے کے لیے اس لیے کہ حق کا مقابل ہے۔ حق کو پھیلانے کے لیے خلوص نیت سے ایمان اور انتھک محنت صبر و استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اُسے کسی ڈھنڈورچی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا وجوہات اور باتوں کے بیان کے بعد ڈھنڈورچی کا ’’مرتبہ‘‘ اور ’’مقام‘‘ اب مزید کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا اگر ہم اپنے ملک کی گذشتہ 67 سالہ تاریخ میں ڈھنڈروچیوں کے مکروہ کردار کا سرسری جائزہ بھی لیں تو پتہ چلے گا کہ اس طبقے نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کس کس انداز سے کتنی دیدہ دلیری کے ساتھ کھوکھلا کیا جس کے باعث آج ہم اس کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈھنڈورچی اپنی کسی بھی ذو معنی بامعنی یا بے معنی بات سے اپنے مالک پر اثرانداز نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈھنڈورچی اپنے مالک کو اپنے خول سے باہر نکلنے بھی نہیں دیتا وہ مالک کی ہر بہودہ اور لغو بات کو اسقدر متبرک بنا دیتا کہ مالک اپنے آپ کو ہر عیب سے پاک اور ہر غلطی سے مبرا سمجھنے کے علاوہ سوچ ہی نہیں سکتا۔ انھی ڈھنڈورچیوں کے باعث چالیس سال بعد پاکستان کی سڑکوں پر خون بہایا گیا۔ گیارہ معصوم نہتے لوگ، پر امن لوگ، وہ لوگ آئین شکنی جن کے وہم وگمان میں نہ تھی، وہ لوگ جو صرف اپنے محبوب قائد کی آمد کے منتظر تھے اور اس سلسلے میں صلاح مشوروں کے لیے اپنے مرکز پہنچے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے کوئی ایسی چھیڑ خانی نہیں کی تھی کہ ان پر اسقد ر بربریت روارکھی جاتی۔ پاکستان کی سڑکوں پر غالباً پہلی مرتبہ ریاستی پولیس کی گولیوں سے دوخواتین نے بھی جام شہادت نوش کیا۔

چونکہ قدرت کے ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں اس لیے پورے اعتماد اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جو کام ان گیارہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کر دیا ہے وہ کام شاہد سیکڑوں شہادتیں بھی نہ کرسکتیں کیونکہ ان گیارہ شہادتوں نے سیکڑوں شہادتوں کے ہونے سے ملک اور قوم کو بچالیا۔ جس تحریک میں خون کا رنگ بھی شامل ہوجائے اس کی منزل اور زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ قانون قدرت دیکھئے کہ ان گیارہ شہادتوں نے گلو بٹ کی بھی شناخت کرا دی۔ گلو بٹ ڈھنڈورچیوں کے ڈھنڈورچی ہوتے ہیں ۔

جن کے چہرے بشرے ضرور ہوتے ہیں پہچان نہیں ہوتی کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ تو کمیوں کے بھی کمی ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ پولیس کی قیادت کرتے ہوئے گاڑیوں کو فخراً ڈنڈے برسا برسا کر تباہ و برباد کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے دن اسی پولیس کی موجودگی میں ٹھڈوں لاتوں اور گھونسوں سے سرعام پٹ رہے ہوتے ہیں۔ گلو بٹ کا یہ حال ڈھنڈورچیوں کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہونا چاہیے کیونکہ اب جو آواز قصاص لینے کا نعرہ لگا رہی ہے وہ پیغام جو مخلوق خدا کو برابر سمجھتی ہے جس کے نزدیک فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ وہ آواز جس سے چہرے خوف کا شکار بدن میں جھرجھریاں اور وجود لرزاں ہیں وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز ہے۔

خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

قومیت کے جذبے سے مسائل کا خاتمہ ممکن

$
0
0

17 جون 1858 کو امریکی ریاست illinois کے شہر Springfield میں ابراہم لنکن نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “A House divided against itself cannot stand” I believe this government cannot endure permanently half slave and half free…. I do not expect the house to fall, but I do expect it will cease to be divided. it will become all one living or all the other.

یعنی ’’اندرونی طور پر منقسم گھر کبھی قائم نہیں رہ سکتا، میرا پختہ یقین ہے کہ یہ حکومت مستقل طور پر آدھی غلام اور آدھی آزاد ریاست کی متحمل نہیں ہوسکتی، مجھے اس بات کی توقع تو نہیں کہ یہ ریاست ختم ہوجائے گی لیکن یہ توقع ضرور ہے کہ اس ریاست کو منقسم ہونے پر مجبور کردیا جائے گا یا ہم ایک ہوجائیں گے یا ایک دوسرے کے لیے غیر۔‘‘ اپنے اسی پختہ نقطہ نظر پر قائم رہتے ہوئے اس عظیم شخصیت نے 1860 کا الیکشن جیتا اور یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کا صدر منتخب ہوا، اور اپنے کیے ہوئے وعدے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور اپنے بہادر اور نڈر جنرل Ulysses.S.Grant کی قیادت میں مسلسل چار سال تک غلامی کے خاتمے کے لیے اپنے ہم وطنوں کے ہی خلاف اپنی فوج کو مصروف پیکار رکھا اور بالآخر شدید انسانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے کے بعد اس جنگ میں سرخ رو ہونے میں کامیاب ہوا اور انسانیت پر سب سے بڑا احسان کرتے ہوئے غلام رکھنے کی ہزاروں سال پر محیط روایت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور جب غلام ریاستوں کے کمانڈر Robert.E.Lee نے 9 اپریل 1865 کو “Appomattox Court House” ورجینیا میں جنرل Grant کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور شمالی یونین کی فوجوں نے خوشی کے نعرے بلند کرنا شروع کیے تو جنرل Grant نے یہ تاریخی الفاظ بیان کرتے ہوئے اپنی فوج کو جیت کی خوشی منانے سے روک دیا کہ “The war is over the Rebels are our Countrymen again”

پاکستانی قوم بھی آج اپنی تاریخ کے انتہائی اور تباہ کن اندرونی بحران اور خلفشار سے نبرد آزما ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہاپسندی پورے ملک اور قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، 103 ارب روپے کا معاشی نقصان برداشت کرچکی ہے، ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ معصوم شہریوں کو اپنی انمول زندگیوں سے محروم کردیا گیا، عام انسانوں کی زندگی میں خوف و ہراس کو پھیلاکر ان کے روز مرہ کے معمولات کو شدید متاثر کردیا گیا، اندیشے اور پریشانیاں ان کا مقدر بنادی گئیں۔

انسانی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے لوگ اس بات سے پوری طرح متفق ہوں گے کہ قوموں کی، معاشروں کی تاریخ میں جب بڑے اور خطرناک اور انتہائی تشویشناک حالات وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ایسی قومیں ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرکے ان حالات سے کامیابی سے نکلنے کی دانشمندانہ حکمت عملی ترتیب دیا کرتی ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب پوری قوم پہلے سے ان حالات کی سنگینی کا دانشمندانہ اور حقیقی ادراک کرتی ہے اور اسی حقیقی ادراک کے مطابق اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔ قومی اتفاق اور اتحاد کو مضبوط کیا جاتا ہے، Threat کے مطابق آپریشنل تیاری کی جاتی ہے، اخراجات کے لیے وسائل کا بندوبست کیا جاتا ہے، قوم کے اعتماد کو مضبوط کیا جاتا ہے، قومی اتفاق رائے کی تعمیر کرکے قوم کے ہر شخص کو اس سنگین اور خطرناک مسئلے کو ختم کرنے میں اس کا کردار نبھانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، حب الوطنی کے جذبات کو ابھار کر قوم کو پوری طرح متحد کرکے اس مسئلے، فتنے یا Threat سے قوم کو نجات دلانے کی بھرپور کارروائی کی جاتی ہے۔

مذہب کے بعد قومیت ہی وہ عظیم جذبہ ہے جسے اجاگر کرکے ہی کوئی قوم اپنی سالمیت کو ناقابل تسخیر بناتی ہے۔ چونکہ قومیت ہی وہ عظیم روحانی جذبہ ہے جو ایک مخصوص جغرافیے میں رہنے والے انسانوں کے درمیان ایک خاص اتحاد کا تصور پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے اور اسی خاص جذبے کی وجہ سے وہ لوگ باقی انسانیت سے الگ ہوکر اپنی انفرادی شناخت کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مشترکہ مقاصد، مشترکہ تاریخ، مشترکہ مفادات اور مشترکہ روایات، یہ تمام چیزیں اس مخصوص جغرافیہ میں رہنے والوں کے دلوں میں بھائی چارے، احساس اور اتحاد کے جذبے کو پروان چڑھاکر انھیں وحدت کے مضبوط رشتے میں جوڑ دیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ایک فرد کو اپنی انفرادی خواہشات کو قوم کی اجتماعی خواہش پر قربان کرنے کے لیے تیار کردیتا ہے۔

یہی وہ قومی جذبہ تھا جس کی بنیاد پر امریکا (USA) نے اپنی آزادی کے 90 سال بعد ہی غلامی کو صفحہ ہستی سے مٹانے، غلام رکھنے کے عمل کو دنیا کا بدترین جرم قرار دے کر ملک کی 15 جنوبی ریاستوں کو باغی قرار دے کر اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر مجبور کردیا اور بالآخر اس بغاوت کو کچلنے میں کامیاب رہا۔ اسی جذبے کے تحت روسی قوم نے 1812 میں فرانسیسی حکمران نپولین بونا پارٹ کی طاقت ور ترین فوجوں کا مقابلہ کرکے انھیں بری طرح شکست فاش دے کر اپنی قوم کا دفاع کیا۔ یہ حب الوطنی اور قومیت کا ہی جذبہ تھا جس نے برطانیہ کو ہٹلر جیسے وحشی صفت حکمراں کی درندہ صفت فوجوں کے خلاف بحیثیت قوم خود قائم و دائم رکھا۔ یہ قومی جذبہ ہی ہے جس نے عشروں پہلے مغربی اور مشرقی جرمنی کو دوبارہ متحد کردیا اور مضبوط دیوار برلن کو زمین بوس ہونا پڑا۔ یہ قومی جذبہ ہی تھا جس نے یونین کی ریاستوں کو 490 ق م میں میراتھن جنگ میں اس وقت کی سپرپاور ’’ایران‘‘ کو تباہ و برباد کرکے داغ شکست لیے واپس ایران لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یہ قومی جذبہ ہی تھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجیت سے رہائی حاصل کرنے، خونی لڑائیاں لڑنے پر مجبور کردیا۔ ثابت ہوا کہ دنیا میں مضبوط قومی دفاع کو حقیقی جذبہ قومیت اور حب الوطنی سے ہی طاقتور اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر پچھلے دو عشروں کی قومی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بحیثیت قوم اس صفت (قومی جذبے) سے دن بہ دن محروم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں میں پاکستانیت انتہائی کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، ہر فرد پاکستان کے بجائے اپنے مستقبل کو اپنی انفرادی معاشی مضبوطی سے تعبیر کیے ہوئے نظر آتا ہے۔ اپنے خاندان کی اچھی صحت، اعلیٰ تعلیم اور زندگی کے تحفظ کا سب سے بہترین ذریعہ ’’ریاست‘‘ کے بجائے دولت اور زیادہ دولت کے حصول کو سمجھ بیٹھا ہے۔ اور یہی رجحان انداز فکر پاکستانی قومی جذبے کو کمزور اور مجروح کرنے کا باعث بن رہا ہے جوکہ قوموں کی زندگی اور بقا کے لیے انتہائی خطرناک تصور ہوتا ہے۔

آج وطن عزیز تاریخ کے بدترین اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے، ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ہماری سالمیت کے دشمن ہم پر اعلانیہ جنگ مسلط کرنے کی جرأت تو شاید نہ کرسکیں مگر اندرونی طور پر ہمیں آپس میں لڑوا کر ہمیں خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے خواہش مند ضرور ہیں۔

لہٰذا وقت آچکا ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہ آپس میں بڑھتی ہوئی رقابتوں، رنجشوں کو ختم کرنے کا فوراً اعلان کریں۔ احتجاجی دھرنوں، جلسے جلوسوں کو آپریشن کے کامیاب ہونے تک معطل کرنے کا اعلان کریں۔ مغرورانہ انداز گفتگو، خود نمائی اور ذاتی عناد پر مبنی انداز سیاست سے اجتناب کریں اور فوجی آپریشن کو کامیاب بنانے اور اس کے مثبت نتائج کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے وطن کے سجیلے جوانوں کو اخلاقی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر اقتصادی سپورٹ فراہم کرنے کا اپنا فریضہ نبھائیں اور اگر بحیثیت قوم ہم نے اب بھی دانش، فہم، اتحاد و یگانگت، تنظیم اور یقین محکم کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر تباہی اور بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔

مثبت منفی ارادہ اور نفس ناطقہ

$
0
0

کمزور ذہن رکھنے والے، حساس اور اثر پذیر افراد درحقیقت ضعف ارادہ کے مارے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی قوت ارادہ دو حصوں میں بٹ چکی ہوتی ہے، مثبت ارادہ اور منفی ارادہ۔ مثبت ارادہ یہ کہ میں صحیح طریقے پر زندگی بسر کروں، منفی ارادہ یہ کہ میں اپنی شخصیت کو تبادہ کردوں۔ اصولی طور پر ہر انسان کے اندر مثبت اور منفی ارادے کی جھلک پائی جاتی ہے۔

نفس انسانی کے بے شمار پہلو یا دریچے ہیں۔ نفس امارہ ہے جو ہمیں خواہشوں کی پیروی کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔ تمام اخلاقی عیوب (جھوٹ، حسد، حرص، خودغرضی، انسان دشمن، جنسی کج روی، تشدد، تند خوئی، حیوانیت) نفس امارہ کی ترغیب سے وجود میں آتے ہیں۔ ہم نفس امارہ کی ترغیب و تحریک سے جھوٹ بولتے ہیں، لیکن اس پر کسی نہ کسی وقت پچھتاتے بھی ہیں یہ پچھتانے کی کیفیت نفس لوامہ کے عمل سے طاری ہوتی ہے۔ نفس امارہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائی کا راستہ دکھلائے۔ نفس لوامہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائیوں پر ملامت کرے۔ مشہور نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ نے نفس امارہ اور نفس لوامہ کے بجائے اِڈ اور سپر ایگو کی اصطلاحیں ایجاد کی ہیں۔

اصطلاحوں میں الجھے بغیر تعمیر و تنظیم شخصیت کا بنیادی عمل یہ ہے کہ نفس امارہ (منفی ارادے) پر نفس لوامہ (ملامت کرنے والی قوت) کی گرفت کو مضبوط کرکے انسانی نفس کے اس اعلیٰ ترین حصے کو بروئے کار لایا جائے جسے قدیم علم النفس اور علم الاخلاق کی زبان میں ’’نفس ناطقہ‘‘ کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ تمام عقل و دانش اور برتر اوصاف کا سرچشمہ ہے اور صرف انسان کے لیے مخصوص ہے۔ نفس ناطقہ کے سبب سے ہی انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ حیوان میں نفس امارہ بھی ہوتا ہے، نفس لوامہ بھی، لیکن حیوان ناطق (انسان) نفس ناطقہ سے بھی آراستہ پیراستہ ہے، اور یہی اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔

ہم انسان کے مثبت ارادے کو مضبوط بنانے، یعنی نفس لوامہ کو بروئے کار لانے کے لیے سانس کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔ انسانی نظام اعصاب کا سب سے بڑا مظہر سانس کا عمل ہے۔ ہماری دماغی اور ذہنی کیفیت کا سب سے پہلا اظہار سانس کی رفتار سے ہوتا ہے۔ شدید محویت کے عالم میں سانس کی رفتار دھیمی اور ہلکی ہوجاتی ہے اور ہیجان کی حالت میں سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتا ہے۔ سانس کی مشق کا انسانی ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے اور کیسے کیسے نادر تجربات ہوتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو ان تجربات سے گزرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔

آپ نے تن سازی کا نام سنا ہوگا یعنی Body Building، جس میں مختلف مشقوں اور ریاضتوں اور داؤ پیچ کے ذریعے جسم کے رگ و پٹھوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں تن سازی یا باڈی بلڈنگ کے مختلف ادارے قائم ہیں اور فزیکل کلچر کے نام سے ایک تحریک ملک بھر میں چلائی جارہی ہے۔ پہلوانی اور تن سازی کی منظم تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے، جب سے انسان اس کرۂ ارض پر موجود ہے وہ جسم کو مضبوط بنانے اور مردانگی، جوانمردی اور شہ زوری کی صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا رہا ہے۔

درحقیقت انسان کی پوری تاریخ ہی تن سازی اور تربیت جسم کے مختلف کارناموں پر مشتمل ہے۔ تن سازی کے دوش بدوش ذہن سازی کی تحریک بھی مختلف ناموں، مختلف عنوانوں اور مختلف مجاہدوں و ریاضتوں کے ذریعے دنیا کے ہر ملک میں رہی ہے، بلکہ ذہن سازی (سیلف کلچر ٹریننگ) کو تن سازی پر ہمیشہ بالادستی رہی ہے۔ کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ صرف ایک مضبوط، روشن اور توانا ذہن ہی طاقت ور جسم کو وجود میں لاسکتا ہے۔ آپ کا جسم مضبوط ہے مگر دماغ توانا نہیں، تو آپ ہاتھی، گھوڑے کی طرح ہیں کہ اتنے تن و توش کے باوجود یہ انسان ذہن کے محکوم ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ ہم مختلف ورزشوں کے ذریعے جسم کو مضبوط بناسکتے ہیں لیکن ذہن ایک ایسی خودمختار طاقت ہے کہ اسے اپنا محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔ ذہن کو محکوم و مطیع بنانے کا مطلب کیا ہے؟ چند لفظوں میں اس کی وضاحت بھی کردی جائے۔ ذہن ایک ایسی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے جس پر ہمیشہ شعور کے مختلف قافلے اور مختلف لہریں ہماری مرضی اور ارادے کے بغیر رواں دواں رہتی ہیں۔ ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی خیال کی کسی لہر کو روک سکیں۔ ذہنی عمل بڑا پیچیدہ عمل ہے۔

خیال یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں دو، یا ایک منٹ میں ایک سو بیس خیالات (جو ایک دوسرے سے گتھے ہوئے ہیں) ذہن سے گزر جاتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ شعور ہر لمحہ حرکت اور جنبش میں رہتا ہے اور اس مسلسل حرکت اور لگاتار جنبش کے سبب بے شمار ذہنی توانائی خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جسم کم قوت صرف کرتا ہے، ذہن زیادہ قوت صرف کرتا ہے۔ سائنسی تجربہ گاہوں میں جو ٹیسٹ کیے گئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ایک گھنٹہ کی دماغی محنت چار گھنٹے تک پھاؤڑا چلانے، لکڑی چیرنے، بوجھ اٹھانے، ڈنڈ پیلنے، مگدر ہلانے اور بھاگ دوڑ میں جتنی توانائی صرف کرتے ہیں، ایک گھنٹے کی دماغی مشقت میں اتنی ہی یا اس سے زیادہ اعصابی توانائی خرچ ہوجاتی ہے۔

’’میں سوچتے سوچتے تھک گیا‘‘ یہ شاعرانہ فقرہ نہیں، حقیقت ہے اور جسمانی حقیقت۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی ان مشقوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ شعور خیال اور توجہ کی فضول خرچی ختم کرکے ذہن کو بے دریغ اعصابی قوت کے اسراف سے روکا جائے اور انسانی ارادے کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے صرف ایک نقطے (Point) پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، یعنی مشقوں کا بنیادی سبق ارتکاز توجہ (Concentration) کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ پریشان حال اور پراگندہ فکر آدمی زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، وہ ہمیشہ اپنے خیالوں، خوابوں اور تصورات کے جالے میں اسیر رہتا ہے۔ نفسیاتی صحت مندی کی بنیادی شرط ہے ارادے کی قوت۔

قوی ارادہ صرف اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ہم ارتکاز توجہ کی قوت سے مالامال ہوں۔ جب ذہن پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی کو ’’لاشعوری مزاحمت‘‘ کہتے ہیں۔ نفسیاتی مریضوں میں یہ لاشعوری مزاحمت بے حد شدید ہوتی ہے، شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نفسیاتی معالج بڑی نرمی، احتیاط اور سوجھ بوجھ کے ساتھ ترغیب و تلقین کے ذریعے رفتہ رفتہ ذہن کے دونوں کٹے ہوئے حصوں کے درمیان ’’حقیقت پسندی‘‘ کا پل بناتا ہے اور اس طرح جذباتی الجھنوں کے معقول حل کے راستے خودبخود پیدا ہوجاتے ہیں۔

ایک اور محاذ

$
0
0

سچ ہے انسان کے لیے ایک بہترین گڑھا اس کے اپنے سوا کوئی اور نہیں کھود سکتا۔ ایک ایسی جماعت کو شہید فراہم کردیے گئے، جس کے کارکنوں کی کبھی شاید انگلی بھی نہ کٹی ہو۔ سفید ریش بزرگ پر برستی لاٹھیاں، خواتین کے سینوں میں اتاری گئی گولیوں اور سروں سے اتاری گئیں رداؤں کا بوجھ اٹھانے کی اس حکومت میں کتنی سکت ہے آنے والا وقت ہی اس کا فیصلہ کر گا۔ علامہ قادری اس سانحے کے بعد انقلاب لاتے ہیں یا نہیں مگر حکومتی قلعے میں یہ واقعہ گہری دراڑیں ڈال چکا ہے۔

دن رات غوروخوض کے بعد محمود خان اچکزئی کے مشورے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا گیا۔ عوامی تحریک کے رہنما کی کمزوریوں کو زیر بحث لایا گیا ہو گا جو آج جس مقام پر ہیں اس میں بڑے میاں کا بڑا ہاتھ ہے۔ حکومتی ایوانوں میں موجود کسی عالی دماغ کی نظر منہاج القرآن کے مرکز کے سامنے ان رکاوٹوں پر جا ٹکی ہو گی جو عرصہ چار سال سے موجود ہیں اور باقاعدہ عدالتی احکامات کا تحفظ جنھیں حاصل ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر علامہ قادری کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا سوچا گیا۔ خیال رہا ہو گا کہ اس طرح کی کارروائی سے عوامی تحریک  کے کارکنان میں اشتعال پھیلے گا، جلاؤ گھیراؤ کی کیفیت پیدا ہو گی۔ افراتفری پر قابو پانے کے لیے حکومت داروگیر کا سلسہ شروع کرے گی اور موقع دیکھ کر علامہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔ ایرپورٹ پر اترتے ہی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی اور ڈرا دھمکا کر واپس بھیج دیا جائے گا۔

منصوبہ شاندار تھا مگر اندازے کی معمولی سی غلطی جو پولیس کے پروفیشنلزم کے حوالے سے تھی الٹا آنتوں کا گلے پڑنے کا سبب بن گئی۔ مبینہ طور پر پولیس پر فائرنگ کے بعد ہماری بہادر پولیس نے عورتوں اور بچوں پر براہ راست گولیاں چلائیں اور اس بات کو غلط ثابت کیا کہ ان کے پاس زنگ آلود  بندوقیں ہوتی ہیں اور یہ کہ وہ انھیں چلانا نہیں جانتے۔ پولیس کی تمام جانبازی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لی گئی۔ ایک اعلی پولیس افسر کس دلیری سے ایک خاتون کا بازو مروڑ رہے تھے۔

کس جانفشانی سے جوان، بنتِ حوا پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ دکانیں توڑ کر مشروبات کی بوتلیں نکالتے نوش کرنے کے بعد مشتعل ہجوم پر اچھال دیتے۔ اس سب میں جس چیز نے جوش و ولولے کو یک لخت مہمیز کیا وہ شیر لاہور گلو بٹ کے ایمان افروز نعرے تھے جو پولیس کی قیادت کر رہا تھا  ہاتھ میں ڈنڈا لہراتا ایک بہترین سپہ سالار کی مانند وہ  سب سے آگے تھا۔ پاکستانی عوام ایسے نادرالوجود شخص کو کبھی نہ جان پاتی اگر گاڑیوں کی ایسی کی تیسی کرتے ہوئے اس کی وڈیو منظر عام پر نہ آجاتی۔ کہنے والے کہتے ہیں گلو بٹ خادم ِاعلیٰ کے ترکش کا ایک ادنیٰ تیر ہے۔ حیران کن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے سورماؤں کے ہوتے کیا طالبان اس ملک پر قابض ہو سکتے ہیں؟

ایک سابق وزیر صاحب کی منطق ہے کہتے ہیں پنجاب میں نو گو ایریاز کی کوئی گنجائش نہیں، بیرئیر تو ان کے گھر کے سامنے بھی ہو گا۔ باقی حکمرانوں کے بنگلوں کے آس پاس ایسے انتظامات تو ہیں ہی۔ حکمران تو اپنی سیکیورٹی کے بارے میں اتنے حساس ہیں کہ پولیس پر اعتبار نہیں اور فوج سے حفاظتی اقدامات کی درخواست کر ڈالی۔ اوپر سے ان کی سادگی تو دیکھا چاہیے۔ کہتے ہیں اگر ذمے دار ثابت ہوا تو استعفٰی دے دوں گا۔ شاید ان کی دانست میں ذمے داری تب بنتی ہے جب بذات خود بندہ بندوق اٹھا کر فائرنگ کرے۔ آٹھ افراد جاں بحق ہوئے، 100 کے قریب زخمی جن میں سے 20 آئی سی یو میں ہیں اور جوابدہی کے لیے کوئی تیار نہیں۔ وزیراعظم نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور یہ اچنبھے کی بات تو ہونی نہیں چاہیے کہ اس عمل کو سر انجام دینے والے وہی ہیں جن سے یہ عمل سر زد ہوا ہے۔ حالیہ آپریشن نے سُکھ کے چند لمحے میاں صاحب کو فراہم کیے تھے جس میں وہ آئندہ کے لائحہ عمل پر سوچ بچار کر سکتے تھے۔ اپنوں کی بیوقوفی نے انھیں ایک اورمحاذ کی جانب دھکیل دیا۔

علامہ طاہرالقادری مذہبی اور سیاسی دونوں حوالوں سے متنازعہ شخصیت ہیں۔ جان کا خوف انھیں ملک سے باہر لے گیا۔ کینیڈا کی شہریت وہ ترک کرنے پر تیار نہیں، دھاتی مگر پر آسائش کنٹینر میں بیٹھ کر وہ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ان باتوں کو لے کر اکثر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہیے کہ ان کے معتقدین کی تعداد اتنی ضرور ہے کہ  حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا سکتے ہیں۔ مگر اب پہلے کی طرح محض دھرنا، مذاکرات اور پھر واپسی پر بات منتج نہیں رہ پائے گی۔ اب معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔

طاہر القادری فقط پر امن دھرنوں، اپنی پرجوش تقریروں سے انقلاب  لانے کے آرزو مند تھے یہ مار دھاڑ ان کے منصوبے کا حصّہ کبھی بھی نہیں رہی۔ اب جب کہ وہ 23 جو ن کو وطن واپس آرہے ہیںتو ان کی اصلیت سب کے سامنے آ جائے گی آیا وہ صرف گفتار کے غازی ہیں یا وہ واقعی سب کر دکھائیں گے جو انھوں نے کہا اور ایک بچی سے ( جس کی والدہ اور پھپھی کو قتل کر دیا گیا جس کا ماموں جیل میں ہے) کیاگیا وعدہ ایفاکریں گے، جسے دلاسہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ظالموں سے ٹکرا جائیں گے چاہے انھیں شہید ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔

بہرحال بیٹھے بیٹھائے علامہ قادری کو انقلاب کے لے شہدا مل گئے، لوگوں کی ہمدردیاں اب عوامی تحریک کے ساتھ ہوں گی۔ تحریک انصاف کو ٹاک شوز میں کف اڑانے کے لیے مواد ہاتھ آگیا اور عمران خان جو گو مگو کی کیفیت میں تھے کہ علامہ کا ساتھ دیا جائے یا نہیں اب ڈنکے کی چوٹ پر ببانگ دہل علامہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس ملک کو جمہوریت سے نجات دلوا سکتے ہیں اور اس کام کے لیے حکومت وقت اپنی کامیابی کا راز آشکار کر کے بنیاد فراہم کر چکی۔ عوامی حلقوں کے شدید دباؤ پر اس راز کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔

جون ایلیا، سرتاپا شاعر

$
0
0

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

جون ایلیا سر تاپا شاعر تھے، ان کو فطرت نے بڑی فیاضی سے علم کے خزانے عطا کیے تھے جن کا انھوں نے بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فطرت یا قدرت کی دی ہوئی چیز کو انسان ناطق بڑے سنبھال کر استعمال کرے۔ بحیثیت مجموعی کیونکہ اس کے حصول میں انسان کی اپنی کوئی سعی نہیں ہوتی، لہٰذا اس کے کھو جانے کا ملال بھی نہیں ہوتا۔ جون ایلیا کا پہلا مجموعہ کلام ’’شاید‘‘ ان کی شعری زندگی میں بہت پہلے آجانا چاہیے تھا لیکن وہ 30 سال کے بعد آیا وہ بھی احباب کے پرزور اصرار پر۔ کیونکہ جون ایلیا خود کہتے ہیں ’’آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں کیا؟ اس کی وجہ میرا ایک احساس جرم اور روحانی اذیت ہے۔‘‘ اردو شعر و ادب میں ان کا نام جلی حروف میں رقم ہوگا۔

ان کی نجی زندگی یوں تو ناکام اور کرب انگیز تھی مگر وہ پیدا ہی شاعری کے لیے ہوئے تھے یوں کہیے کہ جس کے لیے وہ خلق ہوئے تھے وہ بلاشبہ نہایت کامیاب تھی۔ لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے تھے مجھے یہاں ان کی ہر دل عزیزی کے ثبوت نہیں پیش کرنے۔ شعری نشستیں اور معاشرے میں ثبوت ہیں۔ وہ مشاعروں کو لوٹ لینے کا فن جانتے تھے ان کی ایک خاصیت ان کا خوبصورت انداز بیان اور دوسرا وہ اپنی پسند کو سامعین کی پسند بنا دیا کرتے تھے ۔ جون ایلیا کی غزل میں ایک انداز سجاوٹ اور لفظی جمالیات کا ہے تو دوسرا درشتی اور کھردراہٹ کا، یہی اسلوب نگارش ہمیں ان کی نظموں میں بھی نظر آتا ہے، وہ بڑی سے بڑی فلسفیانہ گفتگو کو انتہائی سادہ پیرائے میں کہہ جاتے ہیں اس سے ان کے علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، ان کے یہاں ہمیں ایک جھنجھلاہٹ، غصہ، بے راہ روی، بے اعتمادی، شکوک و شبہات نظر آتے ہیں، جبھی تو

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
سایہ ذات سے بھی رم‘ عکس صفات سے بھی رم
دشت غزل میں آکے دیکھ‘ ہم تو غزال ہوگئے

ان کی نظمیں توجہ کی طالب ہیں ’دو آوازیں‘ یہ نظم تو مقبول و منظور ٹھہری مگر جشن کا آسیب ، سو فسطا اور رمز کچھ ایسی نظمیں ہیں جو اپنی رمزیت اور معنویت میں یکتا ہیں۔

جون ایلیا جیسے میں نے پہلے کہا کہ وہ صرف شاعر، شاعر اور شاعر تھے، لیکن اتنے ہی مستند عالم بھی تھے، عربی، فارسی ، عبرانی، اردو اور انگریزی پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ فنون لطیفہ سے وابستہ امروہہ سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں میں ’’جون ایلیا، اقبال مہدی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، صادقین، سید قمر رضی‘‘ یہ وہ اسلاف ہیں جن کے ہونے سے ادب ہے، تنقید ہے، غزل ہے، مصوری ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ فنون لطیفہ کو ان پر ناز ہونا چاہیے تو غالباً بیجا نے ہوگا۔ جون ایلیا اندرون ذات کا مغنی ہے اور یہ کچھ جون ہی پر موقوف نہیں۔ کوئی بھی فنکار بشرطیکہ وہ حساس، صاحب فکر اور بے ریا ہو، جب یہ دیکھتا ہو کہ باہر کی دنیا اس کے اندر کی دنیا سے الگ ہے تو وہ بھیڑ میں بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے اور یہ احساس بیگانگی، رفتہ رفتہ شدت تنہائی میں ضم ہوجاتی ہے، فنکار کا یہ کرب اسے مجہول ذہنی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔

روشنی بھر گئی نگاہوں میں …ہوگئے خواب بے اماں جاناں
حال یہ ہے کہ خواہش‘ پرسش حال بھی نہیں‘ اس کا خیال بھی نہیں‘ اپنا خیال بھی نہیں
میرے زمان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب صبح فراق بھی نہیں‘ شام وصال بھی نہیں

شاعر مثالیت پسند ہواکرتا ہے۔اس کا اندرون ذات اپنے مثالیے کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہتا ہے اور جب وہ مثالیہ اسے باہر کی دنیا میں کہیں نہیں ملتا تو شکست خوردہ شاعر پھر اپنے اندر کی دنیا میں پلٹ آتا ہے۔ پھر وہ صرف خواب دیکھتا ہے۔

جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہوچکے‘ اب کئی سال ہوگئے

میں نے کسی دوسرے شخص کو اپنے خیالوں میں اس طرح غلطیدہ نہیں پایا جیساکہ جون کو۔ وہ اپنے خیالوں کی دنیا میں ہی رہتے تھے۔ وہ ہمارے یہاں ٹھہرتے تھے اور اس دوران شعر و ادب کی محفلیں سجتی تھیں جن میں زاہدہ حنا، حسن عابد مرحوم، اقبال مہدی، واحد بشیر انکل آتے تھے۔ دنوں کو پر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح دن گزر گئے جیسے ہتھیلی سے ریت۔ وہ نہایت ہی ذہین و فطین واقع ہوئے تھے، ان کے علم کا شمار مجھ ایسا شخص تو کیا کرے گا انھوں نے اسماعیلیت، شام و عراق میں اسماعیلیت، جزیرہ عرب میں، اسماعیلیت یمن میں، حسن بن صباح، جوہرصیقلی، اخبار الحلاج، کتاب الطواسین، مسائل تجرید، رسالہ حکمتی اور نجانے کیا کیا کچھ لکھا، پڑھا اور کہا۔ ان کو ایک قلق غالباً یہ بھی تھا کہ اپنے بابا جان یعنی علامہ شفیق حسن ایلیا کا کام وہ شایع نہ کراسکے اور ضایع ہوگیا وہ خود کہتے ہیں ’’موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی، میرے لڑکپن کا زمانہ تھا، بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گئے۔

نجانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہوگیا۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا۔ ’’بتائیے کیا؟بتائیے بابا! کیا وعدہ؟‘‘ انھوں نے کہا ’’یہ کہ تم بڑے ہوکر میری کتابیں ضرور چھپواؤ گے۔‘‘ میں نے کہا ’’بابا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کی کتابیں ضرور چھپواؤں گا۔‘‘ مگر میں بابا سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کر سکا۔ میں بڑا نہیں ہوسکا اور میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضایع ہوگئیں۔ بس چند مسودے رہ گئے ہیں۔ یہی میرا احساس جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔‘‘

جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جون قادر الکلام شاعر اور مستند عالم تھے اور زبانوں کے عروض ، ان کی نمو ان کی صوتی حیثیت کے بارے میں بہت ہی دقیق معلومات رکھتے تھے وہ مجھ سے کہتے تھے بالے! میں تمہیں ایک مصرعہ سنا دیتا ہوں۔اس سے شعر بناؤ 11 سال کا بچہ ایک دم چونک ہی جائے گا ایک طرف والد محترم اور دوسری طرف جون ایلیا ، شعر تو ہونا ہی تھا وہ کہتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ شاعری کے لیے عربی اور فارسی پر دسترس نہیں تو کم ازکم وہ زبانیں آتی تو ہوں ۔

جس شاعر کی فارسی جتنی کمزور ہوگی۔ اس کی شاعری بھی اتنی ہی کمزور ہوگی یہی وجہ ہے کہ ن۔م راشد کی شاعری فیض احمد فیض کی شاعری سے زیادہ توانا اور مضبوط نظر آتی ہے۔ فارسی ایک لحاظ سے اردو شاعری کی ماں ہے اور اسے کافی حد تک جانے بغیر وہ معجزہ بپا نہیں ہوسکتا جو شعر کہنے کا جواز بن سکتا ہو۔ ؎

تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

میری اب تک کی زندگی میں اردو شاعری میں اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کو کن شاعروں نے متاثر کیا ہے تو میں کہوں گا فیض، فراز اور جون ایلیا۔
انھوں نے سہل ممتنع اور سادہ زبان میں چھوٹی بحروں میں اتنے سچے اور زندگی سے بے حد قریب قطعات کہے ہیں کہ نوجوانوں نے نہ صرف انھیں یاد کرلیا بلکہ وقت ضرورت کام میں بھی لانے لگے۔ یہ وصف خاص میرا نہیں خیال کہ کسی اور شاعر کو ملا ہو، ایک خوبصورت سے رچاؤ لیے۔ ایک ہچکچاہٹ لیے، اپنے ہی اندر ایک حیا کا پیکر، وہ شام، وہ حیا کا منبع جب کسی شعر کے قالب میں ڈھل جائے تو کچھ ایسا شعر معرض وجود میں آتا ہے کہ

ہے محبت حیات کی لذت
ورنہ لذت حیات کچھ بھی نہیں
کیا اجازت ہے‘ ایک بات کہوں؟
وہ مگر خیر کوئی بات نہیں

جون چچا اپنی محنت کو لے کر ذرا بھی احتیاط نہیں کرتے تھے وہ اعتدال پسند نہیں تھے، شک و بدگمانیاں لیے ہوئے۔ ایک دم بھڑک جانے والے، کانوں کے کچے، حد درجہ سینے میں آگ پالنے والے آتش دان ۔ ان سب باتوں کے باوجود میرا ان سے ریشم کے دھاگے میں بندھا ایک رشتہ تھا اور اس رشتے کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ بہترین چچا، بہترین دوست اور بہترین استاد تھے ۔ گوکہ شاعری میں نے کی لیکن خود کو اس قابل نہ سمجھ سکا لہٰذا اس کو چھوڑ کر مصوری کی طرف آگیا، یعنی رنگوں سے شاعری جون ایلیا کی ایک خوبصورت نظم

بوئے خوش ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے رنگ ہو اور دمک رہی ہو تم
بوئے خوش خود کو روبرو توکرو
رنگ تم مجھ سے گفتگو توکرو

آخر میں خالد انصاری بھائی کی ہمت کو سلام جنھوں نے جون چچا کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ ان کو سنبھالا اور ایک اچھے بیٹے، اچھے دوست، اچھے رازداں ہونے کا حق ادا کردیا۔

Viewing all 22306 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>