Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

مزدور قیادت کی ذمے داریاں

$
0
0

ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان سمیت ساری دنیا میں یکم مئی کو یوم مزدور منایاگیا۔ یکم مئی کی اہمیت کی اصل وجہ محض شکا گو کے مزدوروں کی قربانیاں نہیں بلکہ وہ مقصد تھا جس کے لیے یہ قربانیاں دی گئی تھیں اور وہ مقصد تھا لامحدود اوقات کار کو محدود کرنا یعنی 18،20 گھنٹے کے اوقات کار کو 8گھنٹے میں بدلنا۔ جب شکاگو کے مزدور اس نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو سرمایہ داروں کا غلام قانون اور انصاف آگے آئے اور انھوں نے مزدوروں پر گولیاں چلائیں اور انھیں سزائے موت دیکر یہ ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور انصاف کی حیثیت طبقہ اشرافیہ کی داشتہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔

ہر سال یکم مئی کو آنے والے ایک سال کا ایجنڈا طے کرنا چاہیے کہ آنے والے یکم مئی تک مزدور تنظیموں کو کیاکرنا ہے۔ ہمارے ملک میں مزدور طبقے کے ساتھ ویسے تو بے شمار نا انصافیاں ہورہی ہیں لیکن ایک نا انصافی ایسی ہے جس نے 1886 کی نا انصافیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ نا انصافی ہے ’’ٹھیکیداری نظام‘‘ اس نظام میں وہ ساری نا انصافیاں شامل ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی سرشت میں شامل ہیں۔ میں نے مزدور تنظیموں سے گزارش کی تھی کہ وہ آنے والے ایک سال کی جدوجہد میں ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کو سر فہرست رکھیں۔ لیکن پاکستان میں مزدور تحریک جس افرا تفری اورانتشار کا شکار ہے اس کے پس منظر میں فی الوقت یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ مزدور تنظیمیں اپنے غیر ضروری، غیر نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کسی ایک ایجنڈے پر متفق ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ مزدور قیادت نظریاتی رہی ہے نہ مزدوروں کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا جارہاہے۔

پاکستان کی مزدور تحریک کی تاریخ میں 1973-1968 کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے اس دور میں مزدور تحریک میں جو ابھار تھا وہ مزدور تحریک کا منفرد واقعہ تھا۔ یہ ابھار کیسے پیدا ہوا؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ظلم کی انتہا مزاحمت کو جنم دیتی ہے۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروہ ابھرا تھا جس نے ٹریڈ یونین کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اسی گروہ کی کوششوں سے مزدور تحریک میں وہ ابھار پیدا ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہاں میں چند ایسے حقائق پیش کرنا چاہوں گا جو اس مزدور ابھار میں بڑا اہم کردار ادا کرنے کے باوجود اب تک نظروں سے اوجھل ہیں۔ غالباً یہ 1967 کی بات ہے لاہور میں پارٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا  جس میں طے کیا گیا کہ مزدور طبقے کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا جانا چاہیے۔

چوں کہ اس دور تک پارٹی تقسیم ہوچکی تھی لہٰذا اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ جس پارٹی کا اجلاس ہوا تھا وہ سی آر اسلم کے حوالے سے جانی جاتی تھی۔ اس اجلاس میں یہ ذمے داری مجھ پر ڈالی گئی کہ میں کراچی میں ٹریڈ یونین کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کروں۔ میں نے اپنے کام کی ابتدا کراچی گیس کی طاقت ور یونین سے کی۔ شاہ رضا خان اور عثمان بلوچ سے اس حوالے سے ابتدائی مشاورت ہوئی اور متحدہ مزدور فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ایک انتہائی ملی ٹینٹ تنظیم تھی جس کی قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کررہے تھے۔ اس کا دائرہ کار سائٹ تک محدود تھا لیکن یہ تنظیم اس تیزی سے مزدوروں میں مقبول ہوئی کہ قانونی لڑائی لڑنے والی مشہور تنظیموں کی ساری دکانیں بند ہوگئیں۔

لانڈھی کورنگی انڈسٹریل ایریا میں کوئی مضبوط مزدور تنظیم موجود نہ تھی۔ یہ 1968کی بات ہے مولانا بھاشانی کراچی میں موجود تھے اور مسیح الرحمن کے مکان میں ٹھہرے تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے کہاکہ کل لانڈھی میں مزدوروں کا جلسہ کراؤ میں تقریر کروںگا۔ اتنے کم وقت میں ایک ایسے علاقے میں بڑا جلسہ کرانا جہاں ہماری جڑیں نہ ہوں بڑا مشکل کام تھا لیکن ہم نے طے کیا کہ یہ جلسہ ہوگا۔ دوسرے دن صبح 7بجے داؤد کاٹن ملز کے گیٹ پر ہم عبدالوحید صدیقی، علاؤ الدین عباسی، کنیز فاطمہ پہنچ گئے اور تیز وتند تقاریر کے ذریعے آنے والی شفٹ کے مزدوروں کو جلوس میں شامل ہونے کے لیے تیار کرلیا۔ پھر کیا تھا داؤد کاٹن ملز سے نکلنے والا یہ جلوس ایک ایک مل کے مزدوروں کو ساتھ لیتا ہوا جب جلسہ گاہ پہنچا تو مولانا نے تقریر کی یوں لانڈھی کورنگی انڈسٹریل ایریا مزدوروں کے آتش فشاں میں بدل گیا۔ یہاں ’’لیبر آرگنائزنگ کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی، سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن تھی، مزدور ان دو تنظیموں میں جمع ہوگئے۔

یہ دونوں تنظیمیں اس قدر طاقت ور ہوگئیں کہ ساری پیشہ ورانہ تنظیموں کے چراغ گل ہوگئے۔ اس دور میں مزدوروں کی ایک نئی با شعور قیادت ابھری، لاکھوں  مزدور اس کے گرد اکٹھا ہوگئے۔ بد قسمتی سے پیپلزپارٹی کی حکومت نوکر شاہی کی سازشوں کا شکار ہوکر سائٹ میں مزدوروں پر گولیاں چلوادیں۔ پورا کراچی زیر  زبر ہوگیا۔ سائٹ لانڈھی کورنگی  میں ہڑتال ہوگئی، بھٹو صاحب نے مرکزی وزیر محنت رانا حنیف کو مزدوروں کے اشتعال کو کم کرنے کے لیے کراچی بھیجا ، رانا حنیف نے قیصر ناز میں کراچی کے معروف مزدور رہنماؤں کا ایک اجلاس بلایا۔ اجلاس میں شریک رہنماؤں نے کراچی کے مزدوروں کے مسائل کے لیے مختلف حل اور مطالبات پیش کیے، رانا حنیف نے جب مجھ سے  کہاکہ آپ کے کوئی مطالبات ہوں تو بتایئے۔ میں نے بہت سوچ کر دو مطالبے پیش کیے، ایک یوم مئی پر پاکستان بھر میں سرکاری طور پر یوم مئی منایا جائے اور یکم مئی کو عام تعطیل ہو، دوسرا مطالبہ یوم حسن ناصر پر چھٹی کا تھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ہمارا ایک مطالبہ یکم مئی کو چھٹی مان لیا جس کے مضمرات کا اندازہ مشکل نہیں۔

میں نے اس دور کی تحریکوں کا انتہائی مختصر ذکر اس لیے کیا کہ آج کی نوجوان مزدور قیادت کو احساس ہو کہ مزدوروں کی طبقاتی بنیادوں پر تنظیم کس قدر ضروری ہے کیوں کہ قانونی جنگ میں مزدور کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ 1967،1973 کی مزدور تحریک پاکستان کی مزدور تحریک کی تاریخی تحریک تھی جس میں بے شمار دوستوں نے بڑی قربانیاں دیں جس کا احاطہ میں ایک کتاب میں کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہوں تاکہ آنے والے دور کی مزدور قیادت ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکے۔ میں نے مزدور رہنماؤں سے گزارش کی تھی کہ وہ یوم مئی کو محض جلسوں، جلوسوں تک محدود نہ کریں بلکہ ایک تو متحد ہوکر ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کے لیے جد وجہد کریں دوسرے مزدوروں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرکے انھیں تقسیم در تقسیم اور تعصبات کے دلدلوں سے نکالیں جس کے لیے مزدور طبقات سے کمٹمنٹ اور خلوص نیت کے ساتھ منصوبہ بند لڑائی کی ضرورت ہے کیا آج کی مزدور قیادت یہ ذمے داری پوری کرے گی؟


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>