ہم سے اکثر لوگ شاکی رہتے ہیں کہ اتنے بڑے حادثات، فاجعات اور واقعات رونما ہوجاتے ہیں اور ہم پھر بھی سنجیدہ نہیں ہوتے، ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ نہ کوئی سنجیدہ تجزیہ، نہ کوئی دانا مشورہ اور یہ بالکل سچ ہے واقعی ہم بیکار کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے کوشش نہیں کی، بہت کوشش کی بلکہ کچھ ٹاپ کے تجزیہ نگاروں ،کالم نویسوں اور دانشوروں کی تحریریں پڑھ کر خربوزے کی طرح رنگ پکڑنے کی بھی کوشش کی، ہمیں بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ حکومت کو اپنے زریں مشوروں سے نوازیں اور سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کریں۔
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
دراصل ہمارے ساتھ ٹریجڈی بلکہ کامیڈی یہ ہوئی ہے کہ ہم ہو بہو اپنے ’’ملک‘‘ پر گئے ہیں یعنی جیسی دال ویسا ابال، جیسا تھپڑ ویسا منہ، جیسی لات ویسی بات۔
اب دیکھیے نا یہ جو تازہ تازہ ’’ہارس اینڈ کیٹل شو‘‘ یا انقلاب میلہ یا رام لیلہ بمقام اسلام آباد و لاہور چل رہا ہے، یہ مکمل طور پر ایک ’’کامیڈی شو‘‘ ہے یا نہیں، حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے سنجیدہ اداکار اتنے ’’پھکڑ‘‘ ڈرامے میں نہایت ہی ’’پھکڑ‘‘ قسم کا کردار کر کے ذرا بھی نہیں شرما رہے ہیں، راج کپور تو راج کپور تھے لیکن دلیپ کمار بھی راج کپور بنے نظر آتے ہیں اور ’’میرا نام ہے جوکر‘‘ سے اپنا تعارف کرتے کرتے فخر کر رہے ہیں۔
یہاں پر ایک بڑا خوب صورت سا ’’ٹوسٹ‘‘ کہانی میں آگیا ہے اور جب آہی گیا ہے تو اب بیان کر ہی دیں تو اچھا ہے وہ موڑ دراصل ایک معلوماتی نکتہ بھی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر پارٹیوں میں یوتھ ونگ، خواتین ونگ، یہ ونگ وہ ونگ ہوتے ہیں لیکن مسلم لیگ (اس میں ن ، ج ، ق سب شامل ہیں) میں ان سب ونگوں کے ساتھ ساتھ ایک بھنگڑا ونگ بھی ہوتا ہے، اس کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی کسی بھی راستے سے آکر دولہا بن جاتا ہے، اچانک نہ جانے کہاں سے یہ ونگ آکر اس کے گرد بھنگڑا ڈال دیتا ہے، فرمائشی دھن بجوائے جاتے ہیں اور بھنگڑے والے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک وہ ’’دلہا‘‘ رخصت نہیں ہو جاتا، ادھر وہ اٹھا اور ادھر بھنگڑا پارٹی ساکت، جو جہاں ہوتا ہے وہیں پر پتھر کا ہو جاتا ہے، لیکن صرف جسم پتھر کے ہو جاتے ہیں، آنکھیں راستے پر لگی رہتی ہیں جیسے ہی نیا دلہا آتا ہے
اس حسن کا شیوہ ہے جب ’’عشق‘‘ نظر آئے
بھنگڑے میں چلے جانا ’’بے شرماتے‘‘ ہوئے رہنا
’’بے شرماتے‘‘ پر چونکیے گا نہیں یہ دراصل مسلم لیگ اپنی گھریلو ڈکشنری کا سب سے زیادہ کثیر الاستعمال لفظ ہے۔ آخر ایسے ملک میں کوئی کیسے سنجیدہ ہو جائے جس میں الف سے لے کر ’’ی‘‘ تک اور پھر ’’ی‘‘ سے لے کر الف تک کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہوتا، جہاں تجارت ، زراعت مزاح، صحت مزاح، تعلیم مزاح اور سب سے بڑھ کر سیاست میں مزاح ہی مزاح ہو۔
ہم نے تو اس ستاسٹھ سال کے پورے ڈرامے میں ایک ’’سین‘‘ بھی ایسا نہیں دیکھا ہے جس پر سنجیدہ ہونے کی تہمت لگائی جا سکے، سب سے بڑا لطیفہ تو اس کے بناتے وقت ہو گیا کہ پورے ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک ’’جائے امان‘‘ بنانے کی بات ہوئی تھی اور جب جائے امان بنی تو وہاں جہاں مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور جن کو خطرہ تھا ان کو باقاعدہ ہاتھ پیر باندھ کر قصائیوں کے حوالے کر دیا گیا، پھر اچانک دوسرا لطیفہ ہوا کہ منزل پر وہ پہنچ گئے جو شریک سفر نہ تھے، دو بڈھوں کو ٹھکانے لگا کر ۔۔۔ جانے والوں کے جانشینوں کو آزادی مل گئی کہ جو چاہو ’’آقاؤں‘‘ کے خلاف اٹھنے والوں کا حشر نشر کر دو، اور وہ لطیفہ تو تاریخ میں ریکارڈ کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب اس ملک میں پہلی بار انسانی تاریخ میں پہلی اور آخری بار اقلیت نے اکثریت کو اتنا زچ کیا کہ اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ ہندوؤں سے بچ کر آنے والے دو بھائیوں میں سے ایک نے نہ صرف دوسرے کو لوٹا نوچا کھسوٹا بلکہ اس کے گھر بار تک پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد سرزد ہوتا ہے تاریخ بلکہ کائنات کا سب سے بڑا لطیفہ کہ پاکستان دو لخت ہوا تو یہ کہا گیا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔کیا زبردست بچ گیا تھا، اگر اسے بچنا کہتے ہیں تو لٹنا کسے کہتے ہیں، اصل میں یہی وہ نکتہ تھا جو پورے طور پر واضح ہو گیا تھا اور یہ کہ پاکستان کسی ملک کسی خطے اور کسی نظریئے کا نام نہیں ہے بلکہ ان افراد کا نام ہے جو اس جاگیر کے مالک ہیں اور جو دن رات یہی ترانہ ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے۔
وہ شخص جوپاکستان تھا اور جس نے اپنے بچنے پر خود ہی کہا تھا، شکر ہے پاکستان بچ گیا، اس نے تو بعد اس منظر نامے کو ایک قہقہہ بار ڈرامے میں بدل دیا جن کا ہر کریکٹر، ہر منظر اور ہر ڈائیلاگ مزاح سے بھرپور ہوتا ہے اور اب اوپر سے تازہ ترین مزاحیہ منظر، فل کامیڈی فل فنٹاسی اور فل ڈرامہ، اس سے زیادہ مزاحیہ سچوئیش اور کیا ہو گی کہ اچانک بہت دور کے برف زاروں میں ایک شخص نیند سے جاگتا ہے اور آسمان سے اس پر ہدایات کا نزول ہوتا ہے کہ اٹھ نجات دہندے ہوا پر سوار ہو اور پاکستان کی ریاست کو بچا،
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اور وہاں سے ’’فتنہ دجال‘‘ کو مٹانے کے سفید براق لباس میں ملبوس سفید کلغی لگائے، سفید ہوائی گھوڑے پر سوار نزول فرماتا ہے اس تنبیہہ کے ساتھ کہ ہٹو بچو ورنہ سب کو معزول کر دوں گا اگر کسی نے چوں کی یا چرا کی تو اس خطہ زمین کو اٹھا کر ہزار فٹ کی بلندی سے زمین پر الٹا دوں گا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس قہقہہ بار منظر اور مزاح سے بھرپور سچوئیشن اور ڈائیلاگ پر کوئی ہنستا نہیں ہے بل کہ نہایت ہی سنجیدہ ہو کر تالیاں بجانے لگتے ہیں
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
آخر اس انتہائی بچکانہ باتوں پر جب ہنسنے کے بجائے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس رہزن رہنماء، ڈاکٹر و ڈاکو سب مل کر سنجیدہ ہوتے ہیں تو اس سے زیادہ مزاحیہ صورت حال اور کیا ہو گی ایسے میں آخر ہم کیسے کچھ سنجیدہ بات لکھ سکتے ہیں، روم میں تو وہی کرنا پڑتا ہے جب سارے رومی کھیل تماشے میں مصروف ہوں تو ہمیں آخر کیا پڑی ہے کہ سنجیدہ ہو جائیں اور اگر سنجیدہ ہو بھی گئے تو لکھیں گے کیا؟ ریاست بچاؤ، انقلاب خرید لو، آسمانی پیغام پر لبیک کہو، دجال کے مقابلے میں ’’مہدی‘‘ کا ساتھ دو لیکن یہ تو سب کہہ ہی رہے ہیں پھر ہمیں کیا
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے