جس کسی کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں اسے اس زمین پر اپنا وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ کسی انسان کی زندگی کا ثبوت اس کی زندگی کا مصرف ہے ورنہ وہ زندہ نہیں ہے صرف زمین کا بوجھ ہے۔ ہمارے پرانے دوست الطاف حسن قریشی اپنی زندگی کا کوئی مقصد رکھتے ہیں اور اس کا اظہار وہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی حکمران کو ناراض کر کے جیل چلے جاتے ہیں اور کبھی اپنے قارئین کی دعائوں کے بدلے وہ آزاد ہو جاتے ہیں۔
الطاف بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں اور ہر روز کے لکھنے والے کے لیے ہر روز بچ کر رہنا بہت مشکل ہے۔ وہ بھی ہر روز کسی نہ کسی چھوٹے بڑے امتحان سے گزرتے رہتے ہیں اپنے ان مسلسل امتحانوں کو آسان بنانے کے جو حیلے وہ کرتے ہیں ان میں صرف صحافت ہی نہیں دوسرے ذرایع بھی ہیں مثلاً سیمینار جلسے اور چھوٹے بڑے اجتماعات۔ ہمیں تو ان کے ان مسلسل اجتماعات میں حاضری کی سعادت بھی نصیب نہیں ہوتی مگر ایک وہ ہیں کہ ان اجتماعات کا انتظام کرتے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل چلاتے رہتے ہیں۔ ان دنوں ہم پاکستانی دہشت گردی کے شکار ہیں اور ہمارے قومی جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جو اس سے محفوظ ہو۔
ہماری فوج اپنی زندگی کی بازی لگا کر ان دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہے خون بہا رہی ہے اور اپنے کڑیل جوانوں کو قربان کر رہی ہے۔ ہم لوگ جو میدان جنگ سے باہر امن کی دنیا میں آباد ہیں اخباروں میں اپنی سپاہ کی قربانیوں کی خبریں پڑھتے ہیں زیادہ سے زیادہ بے گھر ہونے والے پاکستانیوں کی مالی مدد کر سکتے ہیں یا کسی تقریب میں ان کے ساتھ یکجہتی اور یکجائی کا اظہار کر سکتے ہیں کہ تم اکیلے نہ سمجھو ہمارے ہموطن تمہارے ساتھ ہیں اور اس رفاقت کو خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔
الطاف قریشی لکھتے ہیں اور ایک پاپولر رسالہ شایع کرتے ہیں‘ بظاہر وہ اپنا فرض بھرپور انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ کوئی دن ان کی تحریر سے خالی نہیں جاتا لیکن ان کا جنون صرف تحریر تک محدود نہیں رہا انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جہاد میں مصروف اور اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے قبائلی کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں کیا جس میں ہم بھی اپنا قیمتی وقت تھوڑی سی دیر کے لیے قربان کرنے حاضر ہو گئے۔ کچھ تقریریں سن کر اور افطاری کھا کر ٹھنڈی موٹر کار میں گھر لوٹ آئے۔ اب اس کالم میں اپنے ساتھی کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اسے فرض کفائیہ سمجھ لیجیے۔ یعنی ہماری شرکت کو۔
کوئی نو دس لاکھ قبائلی بے گھر ہو کر پاکستان میں بکھر چکے ہیں۔ اپنے ٹوٹے پھوٹے سامان کے ساتھ یا خالی ہاتھ البتہ اپنی قوم کے ساتھ وہ بھی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میں ان کے قافلے دیکھ رہا ہوں جو ان کی زندہ قربانی کے قافلے ہیں الطاف نے اپنے ملک کے لیے ہمارے آپ کے لیے قربانی کرنے والے انھی قافلوں کے قدموں تلے آنکھیں بچھانے کی کوشش کی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے ان قافلوں آباد گھروں کے مکینوں اور بے گھر ہو کر گھروں سے باہر آنے والے ان پاکستانیوں کو ہم شاید پہلے کی زندگی تو نہ لوٹا سکیں لیکن ان کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں یکجہتی کے لیے ہر لمحے تیار ہیں اور ان کے حوصلوں کی استقامت کی دعا مانگتے ہیں۔
ہم کوئی بیس کروڑ کے قریب پاکستانی ہیں اور یہ متاثرین اب تک دس لاکھ بھی نہیں ہیں۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیں کہ ہم پاکستانی کتنی آسانی کے ساتھ اپنے ان بھائیوں کو ایک آباد زندگی دے سکتے ہیں اور اگر انھیں مہاجرین ہی سمجھ لیں تو ان کی خدمت ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور باعث ثواب اور نجات ہے ضرورت صرف تنظیم کی ہے۔ ہم کسی منظم طریقے کے ساتھ بڑی آسانی سے ان لوگوں کو بحال کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس قومی سرمایہ بھی ہے اور انفرادی قربانی بھی ہے۔
ہم پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ صدقات دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ ایسے ایسے رئوسا موجود ہیں جن کی انگوٹھیوں کے زیور اور جن کی کلائی کی گھڑیاں ہی ان نقل مکانی والوں کے لیے کافی ہیں۔ ایک پرانا واقعہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کراچی کے ایک برلب سڑک قہوہ خانے میں دو سیٹھ خاص کھڑے چمچے والی چائے پی رہے تھے اور زیر بعث موضوع تھا پاکستان کا غیر ملکی قرضہ‘ دوران گفتگو ایک سیٹھ نے دوسرے سے کہا کہ کیا تم یہ قرضہ ادا نہیں کر سکتے اس نے جواب دیا کہ کیا تم یہ نہیں کر سکتے اور اس طرح چائے ختم ہوئی اور وہ دونوں کاروبار میں مصروف ہوگئے۔
آج ہمارے ہاں تو ایسے ایسے سیٹھ موجود ہیں جن کی بیرون ملک دولت ان کے اپنے اعتراف کے مطابق اتنی ہے کہ دنیا میں سے کوئی بھی ان قبائلی مہمانوں کی مکمل دیکھ بھال کر سکتا ہے۔ دنیا کی آسودگی انسان کا حق ہے لیکن اس دنیا کو کسی جنت کے برابر بنانا کسی کا حق نہیں ہے۔ عید آنے والی ہے ایسی ہی عید کے موقع پر بیگم نے کہا کہ بچیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں۔ اس کا بندوبست کیجیے میرے پاس تو کچھ نہیں۔ یہ ماضی کی ایک شہزادی تھی۔ شوہر بھی شہزادے ہوا کرتے تھے لیکن وہ امیر المومنین تھے۔ قانون کے پابند۔ بیت المال کے خزانچی کے پاس گئے اور تنخواہ ایڈوانس کی درخواست دی۔
خزانچی بھی ایک خدا کے خوف کا مارا ہوا تھا اس نے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ مالک ہیں لیکن ایک عرض ہے کہ کیا آپ آیندہ ماہ کی تنخواہ تک زندہ رہیں گے اور بیت المال کا یہ قرض ادا کر دیں گے۔ اس کا جواب اپنے وقت کے حکمران کے پاس نہیں تھا وہ خاموشی سے گھر آئے اور بیوی سے کہا کہ بندوبست نہیں ہو سکا۔ بچیوں کو کسی طرح راضی کر لو یہ ماں شہزادی فاطمہ تھی اور شوہر شہزادہ عمر بن عبدالعزیز تھا دونوں نے محبت کی شادی کی تھی اور بہت خوشی سے زندگی بسر کر رہے تھے لیکن وہ اپنی اولاد کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے تھے۔
آپ ہمارے آج کے حکمرانوں اور رئوساء کو دیکھیں کیا یہ نو دس لاکھ بے گھر پاکستانی ان کے لیے کوئی مسئلہ ہیں جن کی امداد پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی الطاف حسن تقریبات منعقد کرے۔ ہمارے تو قومی خزانے میں عوامی چندوں کا ڈھیر لگا ہونا چاہیے۔ بہر کیف جو کچھ ہے سب کے سامنے ہے کسی سے چھپا نہیں اور ہم جو ہیں وہ اپنے آپ پر روشن ہیں۔