Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

روشنی کا تبرک بانٹنے والی

$
0
0

ہماری نئی نسل‘ نسلی امتیاز‘ کی اصطلاح سے واقف نہیں۔ وہ ٹیلی وژن اور سنیما اسکرین پر سفید فام ہیروئنوں کو سیاہ فام ہیرو سے عشق کرتے دیکھتی ہے۔ اس نے سیاست کے میدان میں کونڈا لیزا رائس اور باراک اوباما کو امریکا اور دنیا پر حکومت کرتے دیکھا ہے۔ وہ یہ کیسے تصور کر سکتی ہے کہ رنگ کی بنیاد پر ابھی صرف 50 برس پہلے امریکا اور افریقہ میں سیاہ فام افراد کی بستیاں الگ تھیں۔ وہ ان اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے جہاں سفید فام طلبا کی اجارہ داری تھی۔ وہ جنوبی افریقہ کی بد ترین نسل پرست حکومت کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔

ان کے بر عکس ہم جس دنیا میں بڑے ہوئے اور جس سیاست کو ہم نے اپنے ارد گرد دیکھا وہ نسلی امتیاز کے درد بھرے معاملات اور المناک واقعات سے بھری ہوئی تھی۔ نسلی امتیاز جسے Apartheid کہا جاتا ہے‘ اس کا مفہوم ہے ‘ ایک دوسرے سے جدا ہونے کی حالت۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر جنوبی افریقہ کی نیشنل پارٹی نے جنوبی افریقہ میں 1948ء سے 1994ء کے درمیان حکومت کرتے ہوئے نسلی امتیاز کو قانونی اعتبار سے نافذ کیا۔ اس نسل پرست قانون کو سارے ملک پر نافذ کرنا اس کا دین ایمان تھا۔

یہ ایک الم ناک بات تھی کہ سیاہ فام اکثریت میں تھے اور سفید فام جو ان پر سفاکی سے حکومت کرتے تھے‘ انھوں نے وہ حالات پیدا کیے تھے جن کی بنا پر سیاہ فام غریب‘ نا خواندہ اور پسماندہ تھے۔ یہی وہ معاملات تھے جنھوں نے اس ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف ایک نہایت پُر جوش احتجاجی تحریک کو جنم دیا جس نے بعد میں تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا۔ یہی وہ تحریک تھی جس کے سرخیل بن کر نیلسن منڈیلا اور دوسرے افریقی رہنما ابھرے ۔ یہ لوگ عالمی سیاست کے منظر نامے پر لگ بھگ 40 برس تک چھائے رہے اور انھوں نے دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کو متاثر کیا ۔

اس وقت یہ تمام باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ اس دور کی سب سے بے باک اور منصف مزاج ادیبہ ناڈین گورڈیمر دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں۔ وہ سفید فام یہودی تارکین وطن کے ایک گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے اپنے ارد گرد بد ترین نا انصافیاں اور سیاہ فام بچوں کی بھوک‘ محرومیوں‘ غربت اور کچلی ہوئی عزت نفس کو دیکھا ۔ ان کے ساتھ زندگی گزارنے والی سہیلیاں اور ان  کے اہل خانہ خود کو ’آسمان سے اترا ہوا‘ سمجھتے تھے جب کہ رنگ دار افراد تحت الثریٰ میں رہنے والے تھے جن کے سائے سے بھی بچنے کی ضرورت تھی۔

یہ ایک ایسی متضاد اور دل کے ٹکڑے کر دینے والی صورت حال تھی جس نے ناڈین کو اپنی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ انھوں نے پہلی کہانی 9 برس کی عمر میں لکھی اور پھر لکھتی ہی چلی گئیں۔ وہ جس حکمران اقلیت سے تعلق رکھتی تھیں‘ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ تمام نصیحتوں اور نا پسندیدگی کے باوجود ناڈین کے اندر سیاہ فاموں سے ہمدردی کے یہ جراثیم کہاں سے آئے؟

مشکل یہ تھی کہ ناڈین ان جراثیم سے نجات تو کیا حاصل کرتیں ان کے اندر کے ادیب میں انصاف کا پودا بڑھتا اور پھلتا پھولتا چلا گیا اور ان کا تحریری سفر بلندیوں پر پہنچا۔ انھوں نے متعدد ادبی اعزازات حاصل کیے جن میں سب سے اہم نوبیل ادبی انعام تھا۔ یہ انھیں 1991ء میں دیا گیا اور اس نے انھیں بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ بنا دیا۔ اس عزت و اعزاز کے حصول کے ساتھ ہی انھیں اس تلخ حقیقت کا بھی سامنا تھا۔ ان کے اپنے ملک جنوبی افریقہ میں ان کے تین ناولوں پر پابندی رہی اور چوتھا ناول سنسر شپ کی قینچی کا شکار ہوا۔ وہ ان ناولوں کو دنیا کے دوسرے ملکوں میں کسی بک اسٹال پر دیکھ سکتی تھیں‘ خرید سکتی تھیں لیکن انھیں اپنے ملک میں نہیں لا سکتی تھیں کیونکہ یہ قانوناً جرم تھا۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے نوبیل خطبے میں کہا تھا :

ہم میں سے بہتوں نے دیکھا کہ ہمارے اپنے ملک میں ہماری اپنی کتابیں برسوں قاری کو ترستی رہیں، ممنوع کی گئیں اور ہم لکھتے رہے۔ بہت سے لکھنے والے قید کیے گئے۔ بر اعظم افریقہ اور ہمارے ملک جنوبی افریقہ  میں متعدد لکھنے والوں نے لکھنے کے سلسلے میں اپنی ہمت کے اظہار کے باعث قید کاٹی ہے اور شاعر ہونے کی حیثیت میں پیڑوں سے باتیں کرنے کا اپنا حق استعمال کیا ہے۔ ٹامس مان سے چنیوا چبے تک‘ جنھیں مختلف ممالک میں سیاسی تنازعات اور جبر کی بنا پر لکھنے والوں کو مسترد کیا گیا تھا‘ ملک بدری کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں‘ جس کی وجہ سے کئی تو ادب میں باقی بھی نہ رہ سکے۔ مجھے جنوبی افریقہ  کے کئی ادیبوں کے نام یاد آ رہے ہیں اور کچھ لکھنے والوں کو تو نصف صدی کے عرصے میں جوزف روتھ سے میلان کنڈیرا تک اپنی تخلیقات پہلے ان زبانوں میں شائع کرانی پڑیں جو ان کی اپنی نہیں، غیر ملکی تھیں ۔

جدید دور کی روشن خیالی کے زمانے میں، لکھنے والوں کو حقارت آمیز ملامت‘ بندش حتیٰ کہ سیاسی وجوہ کی بنا پر ملک بدری بھی جھیلنی پڑی۔ ایک سخت گیر نسل پرست سماج میں ناڈین کا نمودار ہونا ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس بارے میں انھوں نے کہا کہ :

’جب میں نے ایک سخت نسل پرست نو آبادیاتی معاشرے میں ایک بہت نو عمر فرد کی طرح لکھنا شروع کیا تو اوروں کی طرح میں نے بھی محسوس کیا کہ میرا وجود خیالوں اور خوبصورتی کی دنیا کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ شاعری اور افسانے میں‘ ڈرامے میں‘ مصوری اور سنگ تراشی میں ڈھلتی ہوئی میری تخلیقات اس دور افتادہ مملکت کے لیے مخصوص تھیں جس کو ’سمندر پار‘ کہا جاتا ہے۔ میرے ہم عصر ادیبوں کا خواب تھا کہ وہیں قسمت آزمائی کی جائے، کہ فن کاروں کی دنیا میں داخلے کا صرف وہی ایک راستہ ہے۔‘

لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ زمینی حقائق سے اپنا رشتہ نہیں توڑ سکتی تھیں۔ وہ زندگی کے ابتدائی برسوں سے ہی ایک دلیر اور باغی انسان تھیں۔ کم عمری سے انھوں نے نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی تحریک سے وابستگی اختیار کی‘ سیاہ فاموں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی افریقن نیشنل کانگریس کی وہ رکن ہوئیں۔ یہ وہ دن تھے جب یہ جماعت غیر قانونی قرار دی جا چکی تھی۔ نیلسن منڈیلا کا مقدمہ لڑنے والے وکیلوں سے ان کی دوستی رہی اور وہ ان کی حمایت کرتی رہیں ۔

1958ء سے 1981ء کے دوران چھپنے والے ان کے 4 ناول ممنوع قرار دیے گئے۔ ان کا چھاپنا‘ ان کا رکھنا‘ انھیں پڑھنا جرم کے زمرے میں آتا تھا۔ نسلی امتیاز کے خلاف ان کی کہانیوں‘ ناولوں اور مضامین نے انھیں اتنی شہرت دی کہ جب 1990ء میں نیلسن منڈیلا کو رہائی ملی تو انھوں نے سب سے پہلے جس شخصیت سے ملنے کی خواہش ظاہر کی‘ وہ ناڈین کی تھی اور بعد کے دنوں میں بھی منڈیلا اور ناڈین گہرے دوست رہے۔

اپنی تحریروں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کئی بار یہ بات کہی کہ میں بنیادی طور پر سیاسی فرد نہیں ہوں۔ شعوری طور پر میں نے نسل پرستی کے خلاف لکھنے کی کوشش بھی نہیں کی لیکن جب 1948 ء میں نسل پرست حکومت بر سر اقتدار آئی اور اس نے سیاہ قوانین بنائے اور انھیں نافذ کرنا شروع کیا ‘ تو میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی کہانیاں یا ناول لکھوں جن کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ مجھے نہیں معلوم اگر میں کسی اور ملک میں پیدا ہوئی ہوتی‘ اگر میرے ارد گرد کا ماحول کچھ اور ہوتا تو کیا تب بھی میرے ناولوں اور کہانیوں پر سیاست کا گہرا سایہ ہوتا۔

انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نا انصافی کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا تھا اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ان کا قلم زیادہ دھار دار‘ ان کے لفظ زیادہ تیکھے اور تند ہوتے چلے گئے۔ وہ تمام انسانوں کو عزت سے جینے کا حق دار سمجھتی تھیں۔ وہ انسانوں کی بھوک‘ بیماری‘ ناخواندگی اور نا انصافی کے خلاف لڑتی رہیں۔

ان کی یہی خوبیاں تھیں جن کی بنا پر لوگ انہیں روشنی  کا تبرک بانٹنے والی  خیال کرتے تھے۔ ایک ایسی لکھنے والی کا رخصت ہو جانا ادیبوں کی عالمی برادری کے ساتھ ہی دنیا بھر کے قارئین کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن اس نقصان کو ان کے لکھے ہوئے لفظ شکست دے دیتے ہیں۔ وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی تحریروں کی روشنی میں آنے والی نسلیں زندگی کے پیچاک اور انسانی رشتوں کی خوبصورتی اور درد مندی کو سمجھنے کے سفر میں رہیں گی۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>