کچھی برادری سے تعلق رکھنے والے 5 ہزار افراد پناہ لینے کے لیے اندرون سندھ منتقل ہوگئے۔ وفاقی حکومت نے سیکریٹری داخلہ کو صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے لیاری بھیجا۔ سیکریٹری داخلہ نے صوبائی وزیراعلیٰ کا موقف معلوم کیے بغیر اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ اب لیاری کا مسئلہ انتظامی سے زیادہ سیاسی ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ نے لیاری میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی ہے۔ کمیٹی کے رکن پیپلزپارٹی کے دانشور تاج حیدر کا کہنا ہے کہ لیاری میں شہریوں کے تحفظ کے لیے 80 سے زیادہ چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔
بعض اخبارات میں یہ حیران کن خبریں شایع ہوئی ہیں کہ کچھی اور بلوچ برادریوں کی آبادیوں کے درمیان باقاعدہ دیوار تعمیر کی جائے گی۔ لیاری کراچی کا قدیم علاقہ ہے، جہاں سے کراچی شہر کی ابتدا ہوئی اور یہاں ہمیشہ مسلمانوں کی اکثریت رہی۔ لیاری میں بلوچ، کچھی، سندھی صدیوں سے آباد ہیں۔ بلوچستان میں مکران کے ساحلی علاقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ، کچھی ، مہانڑ اور میگوار برادری کے لوگوں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی تعمیر میں حصہ لیا۔ افغانستان میں 19 ویں صدی میں پیدا ہونے والی بے چینی کے نتیجے میں پٹھانوں کا ایک حصہ اپنا وطن چھوڑ کر لیاری میں آباد ہوگیا۔
انگریزوں کے دور میں جب پنجابیوں کو سانگھڑمیں آباد کیا گیا توکچھ لوگ لیاری کے مضافاتی علاقے میں آگئے جوکہ اب باقاعدہ شہر کے درمیان میں آگیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بہار کالونی بن گئی۔ جب منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر سے میرپور، جہلم اور ہزارہ میں لوگ بے گھر ہوئے تو ان کا کچھ حصہ لیاری میں بھی آباد ہوا۔ خیبر پختونخوا، ہزارہ سے تعلق رکھنے والے کچھ خاندان پاکستان بننے سے پہلے لیاری میں آباد تھے۔ لیاری میں آباد بلوچوں اور کچھی برادری کے رابطے اندرون سندھ بلوچستان اور سرائیکی وسیب میں ہیں مگر مختلف علاقوں سے آکر آباد ہونے والے لیاری کے کلچر میں مدغم ہوگئے۔
صرف انگریزوں کے دور سے ہی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ لیاری میں انڈین نیشنل کانگریس مقبول تھی، محمد علی جناح کے دیگر ساتھیوں عبداﷲ ہارون، اﷲ بخش گبول وغیرہ کی کوششوں سے لیاری مسلم لیگ کا گڑھ بن گیا۔ لیاری کے علاقے کھڈہ میں قائم قدیم مدرسہ ریشمی رومال تحریک کا مرکز بنا، اگرچہ مولانا عبیداﷲ سندھی اس تحریک کے روح رواں تھے مگر مسلم لیگی رہنما بھی اس تحریک میں اپنا حصہ بٹاتے تھے۔
بلوچستان میں جب قوم پرست تحریک شروع ہوئی تو لیاری میں اس کے اثرات رونما ہوئے۔ بلوچستان کے عظیم رہنما میر غوث بخش بزنجو نے جب بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے خلاف قلات کے دیوان میں آواز اٹھائی تو ان کے ساتھیوں نے لیاری میں ان کی حمایت کی۔لیاری ان کا فورم بنا۔ اگرچہ پاکستان کے قیام کے بعد تک مسلم لیگ لیاری کی مقبول جماعت تھی مگر اس کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی اس کی ذیلی تنظیموں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مزدور یونینوں نے لیاری میں جڑیں پکڑ لیں، قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم ہوگئے، لیاری کے فرزند لعل بخش رند نے 60 کی دہائی میں تنظیم منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جب میر غوث بزنجو ایوب حکومت میں کئی سال جیل کاٹ کر رہا ہوئے تو انھیں لیاری سے مسلم لیگ کے رہنما حبیب اﷲ پراچہ کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا۔ لیاری سے میر بزنجو کامیاب ہوئے۔ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے بلوچستان آپریشن کے خلاف لیاری کے عوام نے منظم احتجاج کیا تھا۔ لیاری کے سیاسی کارکنوں نے بنگالی عوام کے خلاف جنرل یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمتی تحریک منظم کی، ٹریڈ یونین کارکن عثمان بلوچ نے کراچی میں ٹریڈ یونین تحریک کو منظم کیا اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی مگر بھٹو دور میں عثمان بلوچ کی قیادت میں چلنے والی مزدور تحریک کو لیاری سے بھی تقویت ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلزپارٹی اور کمیونسٹ کارکنوں نے تاریخی قربانیاں دیں۔
1983کی ایم آر ڈی کی تحریک میں میر غوث بخش بزنجو لیاری کے مرکز چاکیواڑہ میں گرفتاری دینے آئے تو لیاری کے ہزاروں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی، ہوائی فائرنگ کا بدترین استعمال کیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اس موقعے پر چاکیواڑہ پر موجود تھے انھیں لیاری کے لوگوں نے اپنے گھروں میں چھپا کر پولیس کی کوششوں کو ناکام کیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ کارکن لیاری سے گرفتار ہوئے، ان میں سے بیشتر نے قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں برداشت کیں مگر جب نئی صدی کے آغاز کے ساتھ بلوچستان میں ایجنسیوں کا آپریشن شروع ہوا تو لیاری میں غیر سیاسی قوتوں نے زور پکڑنا شروع کیا۔
جرائم پیشہ افراد نے اپنی اپنی کمین گاہوں میں توسیع شروع کی، پولیس اور اس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک کمزور ہوتا چلا گیا۔ سیاسی، سماجی کارکنوں کو اجنبی ہونے کا احساس ہونے لگا، لیاری کی سیاسی وارث پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے جرائم پیشہ افراد سے سمجھوتہ شروع کیا۔ ایک سیاسی رہنما انور بھائی جان کا سفاکانہ قتل ہوا مگر 2004 میں لیاری کے فرزند عثمان بلوچ نے یوسف مستی خان اور معروف استاد پروفیسر علی محمد شاہین کی معاونت سے لیاری کے تعلیمی مسائل پر لیاری میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، یہ کانفرنس پورا دن جاری رہی۔
اس کانفرنس میں لیاری کے اساتذہ، صحافیوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں نے لیاری کے تعلیمی مسائل کی ابتری کا جائزہ لیا۔ لیاری کے اساتذہ طالب علموں خواتین نے کانفرنس کی کارروائی میں گہری دلچسپی لی۔ یہ کراچی میں سیاسی کارکنوں کی اپنی نوعیت کی مخصوص کوشش تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ لیاری کے نوجوان تعلیمی شعبے میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں مگر پھر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگ حاوی ہونا شروع ہوئے اور اس گینگ وار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو یونیورسٹی کے ایک استاد نے جن کے خاندان نے بلوچستان کے حقوق کے لیے قربانیاں دی تھیں خودکشی کرلی تھی، یہ استاد اپنے گھر کے اطراف مہینوں سے ہونے والی فائرنگ کے بعد عدم تحفظ کا شکار تھے۔
2008 کے انتخابات کے انتخابات کے بعد لیاری ایک نئی تباہی کا شکار ہوا، اس تباہی میں واجہ کریم داد، ملک محمد خان جیسے سیاسی کارکن قتل ہوئے۔ لیاری کے لیے جدوجہد کرنے والے استاد رحیم بخش آزاد، نادر شاہ عادل اور عثمان بلوچ جیسے کارکن بے اثر ہوئے، اب لیاری میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور قوم پرستوں کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں، اسٹریٹ اسکول، اسٹڈی سرکل ، فٹبال میچ منعقد کرانے والے ماضی کا حصہ ہوگئے، اس گینگ وار کی لڑائی کے باعث لیاری کی یکجہتی کی علامت برادریوں میں تضاد پیدا ہوئے، نسلی جماعتوں انتہا پسند مذہبی عناصر کو لیاری میں پیر جمانے کے مواقعے ملے۔ اب لیاری میں سیاسی رہنماؤں کے بجائے جرائم پیشہ افراد اور فوجی افسروں کی تصاویر کھمبوں اور دیواروں پر آویزاں نظر آنے لگی۔ کچھی برادری کے بہت سے خاندان لیاری چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ لیاری تباہ و برباد ہوگیا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا لیاری میں امن نہیں ہوگا۔ کراچی میں سندھی قوم پرستوں نے ایک حالیہ اجلاس میں کچھی برادری سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں Internally Displaced persons قرار دینے کا مطالبہ کیا تاکہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں سے مدد لی جائے۔ یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناکامی کا اظہار ہے مگر اس تجویز سے لیاری کا شیرازہ بکھر جائے گا جس کا نقصان جمہوری تحریک کو ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی عناصر لیاری کی مختلف برادریوں میں یکجہتی کے لیے کوششیں کریں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے لیاری میں ریاست کی رٹ قائم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ وفاقی حکومت کو اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت کی مدد کرنی چاہیے، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں خفیہ سول اور عسکری ایجنسیوں کو ایک کمانڈ میں فرائض انجام دینے چاہئیں۔ وفاقی حکومت کو اپنی سیکیورٹی پالیسی میں ملک میں اسلحہ کلچر کے خاتمے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تاکہ لیاری اور کراچی میں حقیقی امن قائم ہوسکے۔