بھارت نے جب دیکھا کہ پاکستان پانی کے عذاب میں مبتلا ہو چکا ہے تو اس نے پانی کا ایک زبردست ریلا ہماری طرف چھوڑ دیا۔ ہمارے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بھارتی پانی نے سیلاب کے راستے صاف کر دیے اور ہمارا بارشی پانی کھل کھیلنے لگا اس نے جو تباہی مچائی یہ دیکھی نہیں جا سکتی۔ میں جو پانی سے دور ایک محفوظ گھر میں ہوں جی چاہتا ہے گھر کی چھت پر دری بچھا کر بیٹھ جاؤں جیسے میرا گھر بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور میں اپنے گھر میں پناہ گزین ہوں تا کہ اپنے پاکستانی سیلاب زدگان کے ساتھ کچھ تو غمگساری کر سکوں حال دل ملا سکوں اور جب سے سنا ہے کہ بھارت نے موقع پا کر ہمارے اس دکھ کو دوبالا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے اور اس کے متعلقہ لوگوں نے کہا ہے کہ غلطی ہو گئی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہے کہ یوں ہو گا اور ووں ہو گا لیکن یہ قتل کے بعد جفا سے توبہ کرنے والی بات ہے لیکن ہم نے کمال فیاضی اور کشادہ دلی سے کام لے کر جواب میں میٹھے آم بھجوائے ہیں۔
وزیر اعظم کو صدر انڈیا کو اور وزیر خارجہ کو شاید کسی اور کو بھی کہ ع تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر۔ بھارت کو موقع ملا تو اس نے مشق ناز کر لی ہمیں بھی موقع ملا تو میٹھے آم خدمت میں پیش کر دیے اس پر ایک فارسی شعر یاد آ گیا ہے جو مرحوم سردار عبدالرب نشتر گورنر نے لاہور قلعے کا بند عالمگیری دروازہ جو شاہی مسجد کی جانب کھلتا تھا اور اب بند تھا اسے کھولنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پڑھا تھا۔ حضوری باغ میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں یہ شعر پڑھا گیا
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب می شنوم
کہ میرے اور تمہارے سننے میں یہ فرق ہے کہ تم دروازے کے کواڑ کی آواز کو دروازہ بند ہونے کی آواز سمجھتے ہو اور میں اسے دروازہ کھلنے کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکمرانوں میں بھی پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ بہر کیف ہم نے بھارت کی قوت سماعت کے جواب میں دروازہ کھلنے یعنی آم کا تحفہ بھیجنے کو دروازہ کھلنے سے تعبیر کیا۔ قدیمی دشمنوں سے جو دشمنی کے کسی موقعے سے باز نہیں آتے ہماری جانب سے دوستی کا یہ انداز اپنی مثال ہے اور یہ بہر حال غیر سیاسی حکمرانوں کا انداز ہے۔ موقع محل نہ سہی لیکن یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ اسی بھارت نے سقوط ڈھاکہ پر اپنی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زبان سے کہلوایا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔
اصل مسئلہ تو ان دنوں ایک پاکستانی ادارے کا ہے جسے پارلیمنٹ کہا جاتا ہے اور جو ملک کا سب سے بڑا اور بااختیار ادارہ ہے۔ یہ سیلاب اور آم وغیرہ تو بیچ میں آ گئے۔ ہماری پارلیمنٹ کیوں ہے شاید اس لیے کہ پاکستان ایسے جمہوری ملکوں میں یہ ہوا کرتی ہے جس میں سینیٹ کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے جو رپورٹر اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی رپورٹ کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس پارلیمنٹ نے آج تک کبھی پاکستان کے عوام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی اور عوامی مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی جب کہ ان کے کسی اجلاس کا فی منٹ 60 ہزار روپے کا خرچہ پاکستانی عوام ادا کرتے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ کی عام آدمی کو خوفزدہ کر دینے والی مراعات تنخواہ الاؤنس اور دیگر مالی مراعات سرکاری ہوتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اپنی شاندار زندگی سرکاری خرچ پر گزارتے ہیں۔ اسمبلی میں ان کی کنٹین اور ریسٹوران کی قیمتیں ملک بھر میں کھانے وغیرہ کھلانے والے ادارے سے کم ہیں۔ اس پر ایک رپورٹر نے جل کر کہا کہ ان کی اپنی قیمت یہاں کی چائے کی پیالی سے بھی کم ہے۔
ابھی ابھی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا ہے۔ اس کی کارروائی اخبارات میں پڑھ لیں اس میں عوام کا ذکر بھی آیا ہو تو جو سزا چور کی وہ اس اخبار نویس کی۔ ایک صاحب نے تصحیح کی ہے کہ ایک رکن نے اپنی تقریر میں عوام کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن صرف لفظ ہی عوام کے کسی مسئلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ ہیں وہ اس ملک کے اصل ’مہربان‘ ہیں۔ یہ اشرافیہ کہلاتے ہیں اور ان کھوٹے سکوں کی اولاد ہیں جو بانیٔ پاکستان کے بقول ان کی جیب میں یعنی ان کے ساتھی تھے۔
قائد نے اسٹیٹ بینک کی تقریب میں یہ بر محل بات فرمائی تھی۔ جب قائد کے جمہوری پاکستان کو الٹ کر اس میں مارشل لاء لگایا گیا تو ایوب خان کو کچھ وقت بعد حکومت چلانے کے لیے ایسے کھوٹے سکوں کی ضرورت پڑی اپنی جمہوری نمائش کے لیے اس وقت قائد کی مرکزی مجلس عاملہ کے جتنے رکن زندہ تھے وہ سب ایوب خان کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ یہی لوگ ہیں جن کی اولاد پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ ان کے بزرگوں نے انگریزوں سے غلامانہ حکمرانی کا جو سبق سیکھا تھا وہی اپنی اولاد کو سکھا گئے۔ جو لوگ انتہائی غیر سیاسی لوگوں کو سیاسی اور حکمران سمجھتے ہیں وہ یہی لوگ ہیں جو نسل در نسل اقتدار کو مائی باپ سمجھتے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی بھی ہو سکتے ہیں پارلیمنٹ کے اندر بھی اور باہر بھی لیکن اس وقت پارلیمنٹ سے یہ مودبانہ شکوہ ہے کہ وہ ان عوام کے لیے بھی کچھ کریں جن کے ووٹوں سے وہ یہاں پہنچے ہیں۔ صرف آم نہ کھاتے رہیں۔
دشمنی کرنا اور دشمنی کو زندہ رکھنا کوئی وصف نہیں ہے۔ اسلام میں تو انسان کے ساتھ کسی انسان کی دشمنی بہت بڑا گناہ ہے لیکن ہم جس دنیا میں رہتے ہیں یا تو اس کو بدلنے کی کوشش کریں یا پھر اس میں ڈٹ کر رہنا سیکھیں۔ ہماری بدقسمتی سے بھارت ہمیں شروع دن سے ایک دشمن کی حیثیت سے مل گیا۔ ہندو ’ہندوستان‘ کو صرف ہندوؤں کا ملک سمجھتا ہے اور غیر ہندو کو یہاں رہنے کا حق نہیں دیتا۔ یہ اس کا ایمان ہے ان دنوں چونکہ ایک خالص اور متعصب ہندو کی حکومت ہے اس لیے بھارت میں مقیم مسلمانوں اور پاکستان سب کے لیے بھارت ایک دشمن بن کر زندہ ہے اور دشمنی کے کسی چھوٹے بڑے موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جیسے ان دنوں پاکستان میں پانی چھوڑ دینا کہ پاکستانی سیلاب میں اضافہ ہو سکے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی بھارت کے کسی پڑوسی ملک سری لنکا وغیرہ میں جانا ہوتا تو وہاں کے لوگ بھارت سے تحفظ کے لیے پاکستان سے امیدیں رکھتے حتیٰ کہ دنیا کا واحد ہندو ملک بھی پاکستان کو ہی نجات دہندہ سمجھتا تھا لیکن اگر پاکستان خود بھارت کو آم بھجواتا رہے گا تو اس خطے کے کمزور ملک کہاں جائیں گے۔ موجودہ حالات میں آم صرف آم نہیں بھارت کے ساتھ کسی شیریں دوستی کا استعارہ بن چکے ہیں۔
آخر میں ایک نہایت ہی ضروری بات کہ میں دو دن سے بجلی کے عیش کر رہا ہوں اور اس کی وجہ میرا ایک دوست ہے چونکہ میرا یہ عزیز دوست بہت ہی مشہور ہے اس لیے میں اس کے نام کے افشاء کی اجازت لیے بغیر اس کا نام نہیں لکھ سکتا۔ کام اس نے بڑی ہی مہربانی کا کیا ہے لیکن نام ظاہر ہو تو پھر وہ کس کس کا کام کرے گا کیونکہ سارا شہر تو اندھا ہو چکا ہے۔