بعض وقت سیاسی حالات تبدیلیوں کے لیے اس قدر سازگار ہو جاتے ہیں کہ اگر تبدیلیوں کا ایجنڈا رکھنے والی طاقتیں ان حالات کو دانائی سے مہمیز کریں تو تبدیلیوں کا عمل نہ صرف تیز ہو جاتا ہے بلکہ تبدیلیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں روایتی بایاں بازو ان تبدیلیوں کو انقلاب کا نام دے کر انقلاب کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بایاں بازو انقلابی جدوجہد میں بڑی مالی اور جانی قربانیاں دینے کے باوجود عوام کو اتنے بڑے پیمانے پر متحرک نہ کر سکا جتنے بڑے پیمانے پر آج تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
ہمارا حکمران طبقہ عمران اور قادری کے ان جلسوں کی اہمیت کم کرنے اور عوام میں کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے اور ان تحریکوں کی قیادت پر ایسے بیہودہ اور تضحیک آمیز الزام لگا رہا ہے کہ عوام میں ان کا امیج خراب ہو۔ یہ کوئی اتفاقی بات ہے نہ جذباتی انداز بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے کہ اتنی بڑی تحریک کے قائدین کو بے توقیر کر کے عوام میں ان کا امیج مجروح کیا جائے یہ سیاسی ہتھکنڈے ہیں جن کا مقصد تحریکوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اور یہ اوچھی حرکتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ تحریکوں میں پھوٹ ڈالی جائے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ عوام اس ظالمانہ اور استحصالی نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور عمران خان اور طاہر القادری عوام کی قیادت کر رہے ہیں لیکن جو بات اب تک مبہم اور تشنہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ عمران خان واضح طور پر ’’نئے پاکستان‘‘ کی تشریح کر پا رہے ہیں نہ طاہر القادری اپنے انقلاب کا مطلب واضح کر پا رہے ہیں۔سیاسی کارکنوں بلکہ ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی فرسودہ ذہنیت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے منشور سے لاتعلق ہیں اور اشرافیائی پارٹیوں کی اشرافیہ کے وفادار ہیں پرانے سیاسی کھلاڑی عوام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اپنے خاندانوں کے ولی عہدوں کو بڑے طمطراق سے آگے لا رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام اس نئی اور نوجوان قیادت کے ساتھ ہیں یہ پرانا پاکستان ہے نئے پاکستان کی پہلی ضرورت صدیوں سے اقتدار پر قابض اشرافیہ اور جاگیردارانہ نظام اور قبائلی روایات کو ختم کر کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے قیادت کو آگے لانا ہے۔
عوام کو خاص طور پر سیاسی کارکنوں کو اشرافیہ اور ان کے ولی عہدوں کی وفاداری کے سحر سے نکال کر انھیں پارٹیوں کے منشور کا وفادار بنانا ہے اور منشور کو عوامی مفادات کا ترجمان بنانا ہے عوام میں سائنسی طرز فکر پیدا کرنا اور سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق و ایجادات کے شعبوں کو ترقی دے کر ملک کو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔نئے پاکستان کا مطلب نئی سوچ نیا طرز فکر اور قبائلی اور جاگیردارانہ روایات کو ختم کرنا ہے اس کے لیے زرعی اصلاحات لازمی ہیں جو نئے پاکستان کی شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے جب جاگیردارانہ نظام ختم ہو گا تو صنعتی ترقی کے لیے راستے کھلیں گے۔ اور ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو گا۔
عمران اور قادری کے جلسوں دھرنوں میں ہزاروں خواتین کی شرکت بذات خود نئے پاکستان کی علامت بن گئی ہے کیونکہ پرانے پاکستان میں عورت کا مقام اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ گھرکی چہار دیواری تک محدود ہے ہماری آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ خواتین پر مشتمل ہے اس آبادی کو محض بچے پیدا کرنے کے عمل سے نکال کر قومی پیداوار میں شامل کرنا نئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ 67 سالوں سے میرٹ کے بجائے ذاتی پسند ناپسند ذاتی مفادات ہر شعبے پر حاوی ہے جس کی وجہ ٹیلنٹ کو نظروں سے اوجھل کر دیا گیا ہے اگر ہر شعبے میں میرٹ کو اولیت دی جائے تو کارکردگی میں بہتری ہی نہیں انقلاب آ جائے گا۔ نئے پاکستان کے حوالے سے ہم نے یہاں چند اقدامات کا ذکر کیا ہے لیکن اس کی مکمل تشریح ضروری ہے تا کہ نئے پاکستان کا عوام پر مطلب واضح ہو اور وہ زیادہ دلچسپی کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بن سکیں۔
طاہر القادری انقلاب کی بات کر رہے ہیں طاہر القادری کا انقلاب بھی ابھی تک ایک مبہم اور تشنہ نعرہ ہے قادری صاحب کس قسم کا انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ اس کی مکمل وضاحت ضروری ہے۔ موجودہ دور سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، تحقیق اور ایجادات کا دور ہے اور اس دور میں روایتی فکر و فلسفے کا کوئی گزر ممکن نہیں ہمارا ملک ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ طرز معاشرت و معیشت میں پھنسا ہوا ہے مذہبی انتہا پسندی اسی سسٹم کی عطا ہے اگر اس معاشرت اور معیشت سے باہر آنا ہے تو تعلیم کو عام اور لازمی کرنا اور زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ناگزیر ہے یہ دونوں اقدامات بذات خود ایک انقلاب ہیں جاگیردارانہ نظام ہماری معاشرتی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر اس رکاوٹ کو دور کر دیا جائے تو صنعتی ترقی کی راہیں کھلیں گی یہ ایک انقلاب ہے۔
ہم نے یہاں بہت مختصراً انقلاب کے حوالے سے چند بنیادی نکات اور اقدامات کا ذکر کیا ہے طاہر القادری کی ذمے داری ہے کہ وہ جس انقلاب کی بات کر رہے ہیں اس کی مکمل وضاحت کریں تا کہ عوام اور خواص ان کے انقلاب کے مقصد سے واقف ہو کر اس ابہام سے نکل سکیں جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں ایک مختصر سے کالم میں ہم بھی نہ نئے پاکستان کے بارے میں کوئی جامع نقشہ پیش کر سکتے ہیں نہ انقلاب کی تعبیر و تشریح کر سکتے ہیں یہ کام عمران خان اور طاہر القادری کا ہے کہ وہ اپنے اہل دانش اور معاشی ماہرین کی مدد سے نئے پاکستان اور انقلاب کو ایک جامع منشور کی شکل میں پیش کر کے عوام کے ذہنوں میں موجود تشنگی کو دور کریں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے ملک کے وہ اہل فکر اہل دانش جو موجودہ 67 سالہ استحصالی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں یکسو ہوکر اپنا وزن تبدیلیوں کی قوتوں کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان اصلاحات کے بغیر اگر عمران اور قادری اسی بدعنوانیوں کے مرتکب انتخابی نظام اور کرپٹ جمہوریت میں گھسیں گے تو اس کا مطلب کان میں جا کر منہ کالا کرانے کے کچھ نہ ہو گا۔ہمارا بایاں بازو جو انقلاب کی اہلیت رکھتا ہے نہ عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس تبدیلی کے ماحول میں دانشمندی کے ساتھ اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ انقلابی رومانیت کے سراب سے نکل کر موجودہ عوامی بے چینی کو مثبت رخ دینے کی حکمت عملی اپنائے اور تبدیلیوں کے اس عمل کا ایک فعال اور سرگرم حصہ بن کر اپنی شناخت حاصل کرے۔