Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

نئی نسل کا مستقبل

$
0
0

خیبر پختونخوا میں تعلیم عام کرنے کی تحریک کا سہرا خان عبدالغفار خان کو جاتا ہے۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران 1919ء میں مسلمانوں نے افغانستان ہجرت کی۔ خان عبدالغفار خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان ہجرت کر گئے۔ ہجرت تحریک کی ناکامی کے بعد واپس آئے تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کوئی بھی قوم علم حاصل کیے بغیر اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ یوں انھوں نے پختون نوجوانوں کا جرگہ بنایا، جس کا نام انجمنِ اصلاح الافاغنہ رکھا ۔

پھر اپریل 1921ء میں آزاد اسلامیہ مدرسہ قائم کیا ۔ باچا خان کی پختونوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے خدمات اور انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کے بارے میں نصاب کی کتابوں میں ذکر نہیں ہوتا تھا۔ 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے باچا خان کی خدمات کے عنوان سے باب نصاب کی کتابوں میں شامل کرایا۔ اب سیاسی دباؤ پر تحریک انصاف کی حکومت نے اسکولوں کے نصاب سے اس کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دسویں جماعت کی پشتو کی کتاب سے باچاخان کے علاوہ رنجیت سنگھ، خوشحال خان خٹک اور حاجی خان ترنگزئی سے متعلق مواد کو بھی حذف کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح حالات حاضرہ سے متعلق ایک اہم باب، اس خطے میں کیا کھیل کھیلا گیا جس سے سب برباد ہونے کو بھی نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس باب میں لاکھوں افغان باشندوں کی آمدکا ذکر تھا ۔

انسان نے ہمیشہ طاقت استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر مظالم ڈھائے تا کہ وہ ان پر اپنا مذہبی، سیاسی، قومی اور معاشی ایجنڈا اور خیالات تھوپ سکے۔ غریب لوگ اس گیم کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ امیر ممالک اس خطے میں اپنے تمام وسائل استعمال کرتے آئے ہیں تا کہ وہ اپنا ایجنڈا مسلط کر سکیں اور اپنا اثر و رسوخ تیسری دنیا کے ممالک میں استعمال کرتے رہیں۔ یہ امیر ممالک ارادتاً یا غیر ارادی طور پر ہم جیسے غریب لوگوں کی روزانہ کی تھوڑی سی ضروریات پوری کر کے اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ اقدامات بڑے اچھے اور نیک معلوم ہوتے ہیں اور غریبوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ان کے ایجنڈے پر چلتے رہے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گاتاہم فی الحقیقت اس نیکی کے پیچھے وہ تشدد پھیلانا چاہتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ جو وسائل کی کمی کی وجہ سے بچوں کو تعلیم نہ دلوا سکا، ان طاقتوں کے لیے استعمال ہوا، جس سے پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی پاکستان کے مختلف انتہا پسند گروہ پیسے دے کر غریب طبقات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسروں کو اس دوڑ میں شکست دینے کے لیے مذہبی شدت پسندی سے اختلافات بڑھتے ہیں جو کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی ذمے دار ہے۔ اس باب میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات پر بھی لکھا گیا ہے کہ ملک میں بے تحاشا آبادی بڑھنے کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں، بچے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں اور وسائل کم ہیں، اکثریت اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پاتی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر اور بھیک مانگنے کا کلچر بڑھ گیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے جہاں نوکریاں نہیں ملتیں وہاں خودکشی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں اور نشے کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ انتہاپسندی معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ انتہاپسندی انسانی ذہن کو مفلوج کر دیتی ہے۔

انسانی ذہن کے ارتقاء میں نصاب کی کتابوں اور اساتذہ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں امریکی سی آئی اے کے افغانستان میں مداخلت کے پروجیکٹ میں شرکت کی تو سی آئی اے کے ماہرین نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت اور سوویت یونین کے خاتمے کے لیے مذہبی انتہاپسندی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ اس حکمت عملی کے تحت ایک طرف تو مدرسوں کا جال بچھایا گیا تو دوسری طرف جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں جنونی مواد شامل کیا گیا۔ یوں تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا ۔ امریکی سی آئی اے نے کتابوں کا دری، ازبک اور چینی زبانوں میں ترجمہ کرایا۔ یہ کتابیں افعانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ میں تقسیم کی گئیں۔

پھر ملکی نصاب میں انگریز راج کے خلاف جدوجہد کرنے والی شخصیتوں کا ذکر حذف کر دیا گیا اور خواتین کے بارے میں ہتک آمیز مواد شامل کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نافذ ہونے والے نصاب میں سائنس کے بنیادی مضامین میں بھی سائنسی طرز فکر کے ارتقاء کو روکا گیا۔ یوں اس ساری صورتحال کا نقصان معاشرے میں انتہاپسندی کی صورت میں سامنے آیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے خودکش حملوںکے ذریعے تبدیلی کے فلسفے کو اپنا لیا۔ تربیتی کیمپ قائم ہو گئے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے والے افراد کا تعلق پاکستان سے ثابت ہونے لگا۔ دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ قتل ہونے لگے۔ پھر طالبان نے سوات پر قبضہ کیا۔ قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں خواتین کے اسکولوں کو تباہ کیا جانے لگا۔ ملک بھر میں خودکش حملے ہوئے۔ بعض انتہاپسندوں نے جنرل ہیڈ کوارٹر سمیت پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے اڈوں پر حملے کیے۔ شمالی وزیرستان میں خودکش حملہ آوروں کی تربیت گاہیں قائم ہوگئیں۔

وہ وقت بھی آیا کہ فوج کو شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنا پڑا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگوں میں فوج کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا دہشت گردی کی جنگ میں ہوا۔ مگر سماجی علوم کے ماہرین نے ہمیشہ اس بات کا اعادہ کیا کہ فوجی آپریشن انتہاپسندی کے خاتمے کا وقتی حل ہے، انتہاپسندی کا مکمل خاتمہ نوجوانوں کے ذہنوں کو تبدیل کر کے کیا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری اسکولوں کے نصاب کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوا مگر اب پھر نصاب میں تبدیلی کی جا رہی ہے، ان کا مقصد جہادی پیدا کرنا ہے۔

تحریک انصاف بظاہر خواتین کو اپنی سرگرمیوں میں شریک  کر کے بیرون دنیا کو جدید چہرہ دکھاتی ہے۔ کے پی کے، کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں جدوجہد آزادی کے رہنماؤں سے متعلق باب حذف کرنے اور نوجوانوں کو دہشت گردی کے اسباب جاننے سے روکنے اور انتہاپسندانہ ذہن تیار کرنے کی کوشش میں شریک ہے۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کے پی کے، کے وزیر عنایت اﷲ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نصاب میں پیش کیے جانے والے بیانیہ Narrative کو درست کر رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بیانیہ تو جنرل ضیاء حکومت کا ہے ۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>