Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

سندھ میں تبدیلی کی ضرورت

$
0
0

تھرکا المیہ اس وقت میڈیا کی پوری توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ہر روز تھر کے مختلف علاقوں میں کتنے بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں میڈیا میں اس کی پوری تفصیل پیش کی جا رہی ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق 17 نومبر کو تھر میں 11 بچوں کی اموات ہوئیں اور 18 نومبر کو 9 بچوں نے غذائی قلت دودھ کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کو گلے لگالیا۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں سو سے زیادہ بچے جاں بحق ہوچکے ہیں اور رواں سال میں مرنے والوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔

تھر کی المناک اموات کے حوالے سے حکومت سندھ کا موقف اس قدر احمقانہ تھا کہ سندھ کے حکمرانوں کی غیر ذمے داری پر حیرت ہوتی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں ہونے والی اموات کوئی نئی بات نہیں یہاں ہر سال یہی صورت حال رہتی ہے ماضی میں چونکہ میڈیا اتنا فعال نہیں تھا اس لیے تھر کے واقعات سے عوام لاعلم رہتے تھے اب میڈیا چونکہ فعال ہوگیا ہے اس لیے تھر کی صورت حال تشویشناک نظر آرہی ہے۔ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں بلکہ بیماری سے ہو رہی ہیں جب کہ سارا میڈیا عوامی اور سیاسی حلقے تھر میں ہونے والی اموات کو بھوک کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے کچھ اموات بیماریوں کا نتیجہ بھی ہوں لیکن تھر میں ہونے والی اموات کی اصل وجہ غذائی قلت ہے۔ اس حوالے سے بھی سندھ حکومت کا موقف بڑا حیرت انگیز ہے کہ اگر تھر میں ہونے والی اموات کی وجہ خشک سالی اور بیماریاں ہیں تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اگر یہ المیہ نیا نہیں بلکہ ایسا ہر سال ہوتا ہے تو حکومت نے اس نقصان کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے؟ کیا تھر کے عوام کو خشک سالی اور بیماریوں سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے؟ کیا تھر کی بیماریاں ناقابل علاج ہیں؟

تھر کا مسئلہ بقول قائم علی شاہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے بلکہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے قیام پاکستان کے بعد سندھ میں پانچ بار پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ 2008 سے اب تک پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور بقول قائم علی شاہ تھر میں قحط کی صورت حال اور جانی نقصان ہر سال کا معمول ہے۔ قائم علی شاہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میڈیا کی وجہ سے اب یہ مسئلہ منظر عام پر آیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طویل عرصے میں سندھ کی حکومت اس مسئلے سے ناواقف رہی؟ اگر سندھ کی حکومت اس مسئلے سے واقف تھی تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس نے کیا کیا؟ ڈیڑھ ماہ میں 100 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تھر میں ڈاکٹروں کے فرائض کمپاؤنڈر اور دوسرا عملہ ادا کر رہا ہے دوائیں نایاب ہیں عوام کو کوئی طبی سہولت حاصل نہیں۔ جو غذائی اجناس اور مالی امداد تھر بھیجی جا رہی ہے وہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ رہی ہے بلکہ بدعنوانیوں اور کرپشن کی نظر ہو رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ تھر میں کابینہ کے اجلاس کر رہے ہیں لیکن نتیجہ صفر اس لیے ہے کہ میڈیا کے مطابق کابینہ کے اجلاس پکنک میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ تھر میں سیکڑوں بچوں کے جانی نقصان کے بعد حکومت کا فرض تھا کہ وہ ہنگامی بنیاد پر یہاں امدادی کام کرتی وزیر صحت یہاں مستقل پڑاؤ ڈالتے اور بدعنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرکے تھری عوام خصوصاً بچوں کی غذا اور علاج کا بہترین بندوبست کرتے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اس کے برخلاف یا تو اس مسئلے کے احمقانہ جواز پیش کیے جا رہے ہیں یا پھر اخباری بیانات اور عذرلنگ سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ایک منتخب اور جمہوری حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔

2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ان پانچ سالوں میں سوائے الزامات کے کوئی نیک نامی پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013 میں عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کردیا۔ اب عملاً پیپلز پارٹی سندھ دیہی تک سکڑ کر رہ گئی ہے بلکہ سیاسی حلقے اب پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ کی پارٹی کہہ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی پورے ملک میں نہ سہی کم ازکم سندھ میں اپنی کارکردگی بہتر کرتی لیکن حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے تھر کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی تھر میں اگرچہ امدادی کام کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ہر روز ہونے والی اموات جو صرف دو دن میں 20 تک پہنچ گئی ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دعوؤں کا منہ چڑا رہی ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سندھ کی صوبائی حکومت کا صدر مقام بھی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عشروں سے کراچی کے غیر محفوظ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اس شہر میں کوئی گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ ہر بستی ہر علاقہ ہر گلی محلہ جرائم کے اڈوں میں بدل گیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی ہمت کا عالم یہ ہے کہ دن کی روشنی میں دھڑلے سے چوری ڈکیتی چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں میڈیا مجرموں کی حوصلہ مندیوں کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے ماں باپ بچوں کو اسکولوں کالجوں میں بھیجتے ہوئے ان کی خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ بیوی بچے اپنے شوہروں اور سرپرستوں کو ملازمتوں اور کاروبار کے لیے گھروں سے نکلتے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تیرتے نظر آتے ہیں۔ یہ صورت حال حکومت کی بدنامیوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

سیاسی پارٹیوں کی قیادت اپنی پارٹی اور عوام سے مخلص ہو تو ایسے حکمرانوں کی جو پارٹی کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں سختی سے نوٹس لیتی ہے اور ضروری سمجھے تو انھیں ان کی ذمے داریوں سے سبکدوش کرکے کسی زیادہ باصلاحیت رہنما کو آگے لانے میں ذرا برابر توقف نہیں کرتی۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اپنے طویل دور حکومت میں نہ اچھی کارکردگی دکھا سکے نہ پارٹی کی نیک نامی کا باعث بن سکے۔ قائم علی شاہ کی ذاتی شرافت اور متانت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن سندھ جیسا مشکل ترین صوبہ جس قسم کی گورننس مانگتا ہے سندھ حکومت اس معیار پر پورا نہیں اترسکی۔ 2008 سے اب تک صوبہ خصوصاً کراچی اور اب تھر جس بدترین صورتحال کا شکار ہے منطقی طور پر اس کی ذمے داری وزیر اعلیٰ ہی پر آتی ہے۔

پچھلے دنوں میں میڈیا میں یہ خبریں آئی تھیں کہ پارٹی سندھ کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرکے دوسرا وزیر اعلیٰ لا رہی ہے اس حوالے سے ایک اور پارٹی رہنما مراد علی شاہ کا نام بھی میڈیا میں آیا لیکن پارٹی کی طرف سے اس تبدیلی کی تردید کردی گئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پارٹی کی قیادت صوبہ سندھ خصوصاً کراچی اور تھر کے بدترین حالات میں بہتری لانے سے کیوں گریزاں ہے لیکن عوام بہرحال موجودہ حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور ایک بہتر فعال اور متحرک قیادت چاہتے ہیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles