میں اکثر کہا کرتا ہوں اگر پاکستان کو یہ ہستیاں جن میں سرسید احمد خان، محمد علی جناحؒ، مولانا محمد علی جوہر، سید الاحرار حسرت موہانی، عبدالستار ایدھی الحمدﷲ بقید حیات ہیں، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اور مولوی ریاض الدین احمد اکبر آبادی جیسی ہستیاں یا ان جیسی ہستیوں کی ایک ٹیم بن جائے تو اﷲ کی قسم، پاکستان کی گاڑی ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گی، ان مندرجہ بالا تمام قابل احترام شخصیات میں جو مشترکہ جوہر قابل ہے وہ ہے حقیقی اور سچی لگن، دوم ان کے قول و فعل میں سچائی کا جوہر۔ 15 سال پہلے 11 اگست کو دنیا سے ایک ایسی ہستی رخصت ہو گئی جس نے 19 تعلیمی اداروں کو یتیم کر دیا، درحقیقت ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بھی ایسی عظیم ہستیوں کے بارے میں تین تین سطروں کی خبریں وہ بھی بغیر تصویر کے شایع کرتے ہیں جب کہ نہایت خوش نصیب فنکاروں، اداکاروں اور گلوکاروں کی رنگین تصویریں آدھے آدھے صفحے پر لگاتے ہیں یقینی امر ہے کہ قاری انھیں ہی دیکھے گا اور پڑھے گا۔
دوسری طرف مولوی ریاض الدین احمد اکبر آبادی جنھیں اس خاکسار نے پاکستان کی پہلی خواتین یونیورسٹی کی تقریب میں ریاض الدین مرحوم کو سرسید ثانی کا خطاب دیا تھا، آپ نے دیکھا ہو گا ہم سرسید کو کتنا مقام دیتے ہیں صرف ان کی تصویر بڑے بڑے ہورڈنگز میں اشتہار کی صورت میں آویزاں کر دیتے ہیں یا ایک سرسید یونیورسٹی بنا دی ہے، کسی بھی بچے سے پوچھ لیں یہ سرسید احمد خان یا مولوی ریاض الدین احمد کون تھے بچہ تو کیا بڑا بھی نہیں بتا پائے گا لیکن اگر آپ امیتابھ بچن کی تصویر کسی بچے کو دکھائیں یا ریما کا فوٹو تو بچہ فوراً کہہ دے گا یہ ریما ہے یہ امیتابھ بچن ہے۔ بہرحال یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ آج ہم جس موضوع کو لے کر چلے ہیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ یہ ہے جس ہستی نے اپنی ساری زندگی فروغ تعلیم کے لیے وقف کر دی اور 19 تعلیمی ادارے کراچی میں قائم کر دیے جن میں ٹیکنیکل کالج اور اسکول کے علاوہ جناح کالج 1954ء میں قائم کیا۔
1950ء میں کراچی کا پہلا تعلیمی ادارہ وسیم گرلز سیکنڈری اسکول لیاقت آباد دس نمبر میں انجمن اسلامیہ ہائی اسکول، جناح پولی ٹیکنیک کالج، پیر الٰہی بخش کتب خانہ، جمال الدین افغانی کتب خانہ قائم کیا۔ اﷲ تعالیٰ انھیں ان خدمات پر کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے کیا۔ کیا نہ تھا ان کے دل میں قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ لائبریریاں قائم کیں، صنعت و حرفت کے مراکز بنائے، کتب خانے قائم کیے، ان کی خواہش تھی کہ قوم کے ہونہار بچے ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، لائبریریوں سے کتابیں پڑھ کر نصاب سے آگے علمیت حاصل ہو، لڑکیاں سینا پرونا کڑھائی کا کام سیکھ کر اچھی بیوی اور اچھی ماں بن جائیں۔ یہ صوفی فیاض الدین سلیمی ابوالعلائی کا قابل جوہر بیٹا آگرہ میں مسلم لیگ کا نڈر سپاہی تھا اور 1943ء میں آگرہ شو مارکیٹ میں مسلم لیگ کا جلسہ تھا۔
قائد اعظمؒ کی زیر صدارت جلسے میں نوجوان ریاض الدین نے 20 ہزار روپے جمع کیے، آج تو 20 ہزار ایک چوکیدار کی تنخواہ ہے، اس زمانے میں ایک پائی بھی بھاری ہوا کرتی تھی، یہ محب وطن اور جناح صاحب کا سپاہی کس طرح یہ 20 ہزار لے کر آیا اور امانت اپنے قائدؒ کو دے دی۔ سبحان اﷲ آج ان کی روح خوش ہو گی کہ جناح خواتین یونیورسٹی کا ان کا دیرینہ خواب نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے بلکہ ہزاروں طالبات جناح خواتین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں اور وائس چانسلر ڈاکٹر نعیم فاروقی اور چانسلر وجیہہ الدین احمد جو فرزند ارجمند بھی ہیں، اپنے والد کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کر رہے ہیں، لیکن مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے جناح خواتین یونیورسٹی کی Public Relationing بہت مایوس کن ہے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی اس عظیم ہستی کے لیے دعا کریں اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل ہو سکے۔