Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

نیا پاکستان تعمیر ہوا ہی سمجھئے

$
0
0

اب کچھ کچھ لگنے لگا ہے کہ شاید ’’گنجی‘‘ کی شادی ہو ہی جائے کیوں کہ بے چاری نے دوسروں کی بہت ساری باراتیں چڑھتیں اور اپنی ٹوٹتی ہوئی دیکھ لی ہیں اور ہر بارات کو دیکھ کر بہت روئی کہ

سب کی باراتیں آئیں تو بھی لے کے آنا
دلہن بنا کے سیاں اپنے گھر لے جانا

آپ جان چکے ہوں گے کیوں کہ آپ پاکستانی ہیں اور پاکستانی لوگ ’’جانتے‘‘ ہیں اور ورلڈ نمبر ون ہیں البتہ ’’پہچاننے‘‘ میں اس لیے صفر ہیں کہ ان کے اندر وہ پرزہ ہی نہیں ہے جس سے پہچان کا کام لیا جاتا ہے، لیکن باقی دو یعنی ’’جاننے اور ماننے‘‘ والے پرزے بڑے زبردست ہیں اگر آج کوئی اٹھا اور اس نے کہا کہ میں پاکستان کے سارے پہاڑوں کو سونا، مٹی کو چاندی اور پانی کو مشک و زعفران بناؤں گا تو یہ فٹ سے جان کر اور مان کر اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں اور وہ بانسری بجاتے ہوئے انھیں دریا برد کر دے گا، اس لیے اپنی اس خداداد صلاحیتوں کی بناء پر وہ یہ بھی جان اور مان گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ کس ’’گنجی‘‘ کی طرف ہے جس کی بارات بس اب چڑھنے ہی والی ہے جی ہاں اس گنجی کا نام پاکستانی جنتا ہے۔

اگرچہ اٹھاسٹھ سال میں اس کی لگ بھگ ایک سو اٹھاسٹھ منگنیاں شادیاں اور رشتے ٹوٹ چکے ہیں اور لگ بھگ اتنی باراتیں بھی چڑھی ہیں جو قریب آنے پر ’’جنازے‘‘ نکلے لیکن اب کے ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ جو لوگ رشتہ طے کرنے بیٹھے ہیں وہ اپنی عمروں سے چار گنا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک طرف اگر پی ٹی آئی کنسٹرکشن کمپنی کے تجزیہ کار آزمودہ کار کلاکار انجینئرز، کنٹریکٹرز جیسے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین معمار ہیں تو دوسری طرف الاماشاء اللہ مسلم لیگ (ن) میں ایک سے بڑھ کر ایک گوہر یک دانہ شامل ہیں جو پیدائشی معمار اور ضیاء الحق سے لے کر مشرف تک کے صحبت یافتہ ہیں، پی ٹی آئی ٹیم کے کریڈٹ پر ایک عدد ’’نیا خیبر پختونخوا‘‘ تعمیر کرنے کا کارنامہ بھی ہے جسے کئی کنسٹرکشن کمپنیوں سے چن چن کر لائے ہوئے انجینئروں اور ٹھیکیداروں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔

اس ’’تعمیراتی معجزے‘‘ یعنی خیبر پختونخوا کو جدید بنانے میں اگرچہ سب سے زیادہ ہاتھ مشہور ٹھیکیدار + انجینئر جناب پرویز خٹک کا ہے جو نہ صرف کئی پشت سے یہی تعمیراتی کام ہر دور حکومت میں کرتے رہے ہیں اور نہ صرف خود ہی یدطولیٰ رکھتے ہیں بلکہ اپنے پورے خاندان اور گھرانے بلکہ گاؤں کو بھی تعمیر کے اس عظیم الشان منصوبے میں شامل کیے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ’’نیا پختونخوا‘‘ نام کا جو ’’تاج محل‘‘ وجود میں آیا ہے اسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے علاوہ ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں سے بھی جوق در جوق سیاح چلے آرہے ہیں، عین ممکن ہے کہ سارا خرچہ ان ’’سیاحوں‘‘ ہی سے پورا ہو جائے، دوسری طرف ن لیگ نام کی جدی پشتی تعمیراتی کمپنی کے پاس جو ’’جواہر قابل‘‘ ہیں ان کا نام لینے سے ہم اس لیے کترا رہے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا نام ہماری نطق ہماری زبان کے اتنے بوسے لینا شروع کر دے گی کہ زبان اور نُطق(قوت گویائی) دونوں کے گھس جانے کا خطرہ ہے۔

ہم نے اپنی روایتی تحقیقی صلاحیتوں سے کام لے کر منصوبے کی تھوڑی بہت سن گن لے لی ہے جس کے مطابق سب سے پہلے تو تعمیراتی ٹیمیں ترتیب و تشکیل دی جائیں گی اور اس کام میں یقیناً ہر دو فریقوں کی جھولیاں اچھی خاصی بھری ہوئی ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر تجربہ کار انجینئر اور معمار پڑا ہوا ہے اور سنا ہے کہ اس سلسلے میں ’’میرٹ‘‘ کا سختی سے خیال رکھا جا رہا ہے، مثال کے طور پر پی ٹی آئی تعمیراتی کمپنی میں تو میرٹ کی سختی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی نوآموز یا کم تجربہ کار کو نہیں لیا جارہا ہے اور اس کا ثبوت عملی طور پر بھی اس نے نئے خیبر پختونخوا کی تعمیر میں دیا ہے مثلاً اسد قیصر، شوکت یوسف زئی وغیرہ ٹاپ کے نمبر لائے تھے لیکن تجربے کی کمی میں مار کھا گئے اور ان لوگوں کو سامنے لایا گیا جن کے پاس تقریباً ہر حکومت میں وزارت یا مشاورت کا تجربہ تھا‘ جناب عمران خان کا خیال ہے کہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ وہ خود بہ نفس نفیس اس نئی تعمیر کے ہر شعبے کے لیے خود کو ٹریننگ دے رہے ہیں ۔

چنانچہ وزارت عظمیٰ سے لے کر پٹواری تک اور صدر مملکت سے لے کر تھانے کے محرر تک سارا کام وہ خود کریں گے جیسا کہ پرانے پاکستان کی مدعی ٹیم میں سارا کام صرف شریف لوگ خود کر رہے ہیں، لیکن یہاں تھوڑا سا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئے پاکستان کے معمار اعظم جناب عمران خان کے خاندان میں کچھ زیادہ جواہر قابل نہیں ہیں کہ وہ بھی میاں صاحبان یا پرویز خٹک کی طرح سارا بوجھ اپنے خاندان کے ممبروں پر ڈال سکیں لیکن اس کا بھی حل ہے جناب پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی صاحبان … جناب عمران خان کی صحبت میں رہ کر ’’کمال ہم نشین‘‘ سے بھر چکے ہیں اور ان کے خاندان بھی ہیں، ممکن ہے کچھ لوگوں کو ’’کمال ہم نشین‘‘ کے اثرات کا علم نہ ہو اس لیے ان کو شیخ سعدی کی زبان میں سمجھانا ضروری ہے، شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ

گل خوشبوئے در حمام روزے، رسید از دست مجبولی بہ دستم
بدوگفتم کہ مشکی یا عیبری، کہ خوشبوئے دلاویز تو مستم
بگفتا من گل ناچیز بودم، ولے یک مدتے باگل نشتم
کمال ہم نشیں درمن اتر کرد، وگرنہ من ھماں خاکم کہ ہستم

یعنی ایک دن حمام میں ایک محبوب کے ساتھ مجھے مٹی کا ایک ٹکڑا ملا (صابن کے متبادل کے طور پر اس زمانے میں پختہ مٹی کے ایک کھردرے ٹکڑے کو استعمال کیا جاتا تھا) اس ٹکڑے کی بے پناہ خوش بو سے حیران ہو کر میں نے اس سے پوچھا کہ تم مشک ہو یا عنبر جو اتنے خوشبودار ہو، اس نے جواب دیا کہ میں ہوں تو صرف مٹی کا ایک ٹکڑا ہی لیکن گل کے بدن سے رگڑ کھاتا رہا ہوں چناں چہ اس محبوب خوشبودار کی خوشبو مجھ میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ اس لیے یہ بعض لوگ جو ایسی ویسی باتیں نئے پاکستان اور پرانے پاپپوں کے بارے میں کر رہے ہیں ان کو جان لینا چاہیے کہ کیا تم شیخ سعدی سے بھی زیادہ دانا ہو … جب ان کا یہ کہنا ہے کہ گل کی صحبت سے مٹی بھی خوشبودار ہو جاتی ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>