میرؔ کی سادگی کا ثبوت تو اسی عطار کا برخوردار ہے جس سے دوا اور مرض دونوں مول لینے کے لیے وہ اتاولے ہوئے جاتے ہیں گو اس کا سبب سادگی کے علاوہ کچھ اور بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوا تو خود عطار سے بھی لی جا سکتی تھی البتہ ہماری سادگی کا سبب کونسا میر ہے یہ ہنوز تحقیق و تفتیش طلب ہے۔ بھلا ہو وزیر داخلہ کا جنہوں نے اپنی تقریر میں امریکا اور مصر کی ملٹری کورٹس کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات کافی حد تک رفع کر دیے ورنہ ہم تو اس خوش فہمی میں مارے جاتے کہ شاید اس بار دوا اثر کر جائے۔
نائن الیون کے بعد، جو بھی اس کے پس پردہ حقائق رہے ہوں، امریکا نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ساری دنیا سے بالعموم اور ہم سے بالخصوص دریافت کیا کہ خودی تو تمہاری بلند ہونے سے رہی صاف صاف بتاؤ تمہاری رضا کیا ہے۔ ہماری رضا وہی تھی جو اس پیشہ ور خاتون کے بھائی نے اس کی بے حرمتی کے بعد مجرمان کا پیچھا کرنے سے پہلے دریافت کی کہ باجی، صاف بتاو۔ بدلہ لینا ہے یا پیسے؟
امریکا نے جب یہ فیصلہ کیا کہ اسے ہر صورت اپنے دشمنوں سے نمٹنا ہے تو اس نے دو فیصلے کیے۔ ایک روایتی جنگ کا دوسرا قانونی ٹرائل کا۔ پہلی جنگ اس نے اپنے ملک سے دور افغانستان میں تیرہ سال لڑی۔ دوسری جنگ اس نے اپنے ملک کے اندر اپنی عدالتوں میں چھیڑی۔ جارج بش نے 13نومبر 2001 میں ایک ایگزیٹو آرڈر کے ذریعے خفیہ ملٹری کورٹس قائم کیں۔ جن کے جج ملٹری آفیسرز تھے۔ یہ ملٹری کورٹس جب قائم کی گئیں تو ملک میں سول عدالتیں اپنا کام کر رہی تھیں۔ لوگوں کو انصاف مل رہا تھا۔ یہ عدالتیں ان کے لیے نہیں تھیں۔ یہ ان غیر ملکی دہشت گردوں کے لیے تھیں جو امریکا میں نائن الیون کے ذمے دار تھے یا افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف بر سر پیکار تھے۔
اس کا فیصلہ امریکی حکومت نے ہی کرنا تھا کہ وہ کسے دہشت گرد سمجھتی ہے۔ پروفیسر Francis Boyle جو University of Illinois College of Law کے پروفیسر ہیں نے 2001 میں ہی اپنے ایک انٹرویو میں ان ملٹری کورٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ملٹری کورٹس کو قابل عمل بنانے کے لیے ہم نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ہم پانچویں ترمیم اور آرٹیکل 3 جو ملزمان کو صفائی کا حق دیتا ہے، کی سنگین خلاف ورزی کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم القاعدہ کے ملزمان کا ٹرائل کرتے ہوئے جنیوا کنوینشن 1949کی بھی خلاف ورزی کریں گے جو ملکی اور غیر ملکی ہر طرح کے جنگی ملزمان کو صفائی کا حق دیتا ہے۔
اس طرح ہم اپنے فوجیوں کو جو دشمن کے قبضے میں آئیں گے خطرے سے دو چار کریں گے کیونکہ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا۔ یہ پریکٹس رفتہ رفتہ امریکا کو بنانا اسٹیٹ میں تبدیل کر دے گی جیسا کہ ہم نے لاطینی امریکا میں70 اور 80 کی دہائی میں دیکھا جب لوگ لاپتہ ہو جایا کرتے تھے۔ اس انٹرویو کے وقت تک گیارہ سو عرب مسلمان امریکا سے لاپتہ ہو چکے تھے جو امریکی شہری بھی تھے۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا۔ صرف پندرہ دن میں یہ تعداد بارہ سو ہو گئی۔ اب یہ تعداد کیا ہے اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر موصوف کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے۔ امریکا نے اپنے گھر کو محفوظ کر لیا لیکن ساری دنیا میں امریکی شہری غیر محفوظ ہو گئے۔
گھر کے اند ر کی سیکیورٹی بھی بے حساب بجٹ کے بعد ممکن ہوئی۔ افغانستان میں تیرہ سال اور دس ٹریلین ڈالر الگ خرچ ہوئے۔ ان ملٹری کورٹس نے اپنے مقاصد بھی حاصل نہیں کیے۔ ان کے مقابلے میں سول کورٹس زیادہ کامیاب رہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ امریکی سول کورٹس تھیں لیکن یہ ملٹری کمیشن جو خاص غیر ملکی دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے بنائے گئے تھے بھی امریکی ہی تھے جو مقابلتا ناکام رہے اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ سول کورٹس نے 500 سے زائد مقدمات نبٹائے جب کہ ان ملٹری کمیشن نے صرف آٹھ۔ سول جیلوں کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ دہشت گردوں کو ’’ہولڈ‘‘ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں لیکن یہ تاثر بھی غلط ثابت ہوا جو تین سو سے زائد دہشت گردوں کو قید کیے ہوئے ہیں اور کوئی فرار نہ ہو سکا۔
گوانتاموبے جس کے متعلق حالیہ دنوں میں سی آئی اے نے رپورٹ بھی جاری کی، ان سول جیلوں کے مقابلے میں بے حد مہنگا بھی ثابت ہوا۔ جہاں ایک قیدی پہ تین ملین ڈالر خرچ ہوئے جب کہ فیڈرل کورٹس میں یہ رقم ۳۵ ہزار ڈالر سے بھی کم ہے۔ گوانتاناموبے پہ خرچ کی جانے والی رقم ظاہر ہے کہ امریکی شہریوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کی گئی۔ یہ رقم 2002سے اب تک ۵ بلین ڈالر ہو چکی ہے جس میں ہر سال 493 ملین کا اضافہ ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ جنگی مجرموں اور دہشت گردوں کے فرق کو ملحوظ رکھنا سول کورٹس کے لیے ہی ممکن تھا۔
دوسری طرف مصر میں جس کی مثال دینے کے لیے بھی وزیر داخلہ جیسا جگر درکار ہے، ملٹری کورٹس اگر کچھ کر رہی ہیں تو وہ اخوان المسلمون کا ٹرائل ہے۔ جب کہ سنگین کرپشن اور قتل کے مجرم حسنی مبارک اور ان کے ساتھیوں کو بری کیا جا چکا ہے جس کی تفصیل کسی گزشتہ کالم میں بیان کی جا چکی ہے۔ وہاں کے سیاسی حالات کس کے لیے آئیڈیل ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امریکا میں حالات واضح تھے۔ ایک تو یہ کہ ان کے عوام بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ کسی اور حق سے واقف نہیں تھے۔ مذہب ان کے لیے مسئلہ نہیں تھا۔ ان کی معیشت اس سارے خرچ کو سہار سکتی تھی۔ ان کے مجرم غیر ملکی تھے جن کی جڑیں نہ عوام میں تھیں نہ کسی نظریئے میں۔ وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں تھے بلکہ خود ایک فریق تھے۔ انھوں نے اپنی جنگ اپنی زمین پہ نہیں لڑی بلکہ کہیں اور لے گئے کیونکہ وہ یہ افورڈ کر سکتے تھے۔ پھر بھی وہ ناکام ہی رہے صرف یہ ہوا کہ انھوں نے اپنا ملک (بظاہر) محفوظ کر لیا لیکن اس کی شرائط اور قیمت دونوں ہم سے مختلف تھیں۔ ہم جو کچھ کرنے جا رہے ہیں اس میں تحفظات ہی تحفظات ہیں۔
ہم نے یہ جنگ اپنے ہی خطے میں آپریشن کی صورت چھیڑ رکھی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنھیں نظریاتی غذا بھی یہیں سے فراہم ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اپنے لوگوں کی تشریح ہمارے لیے مختلف ہو سکتی ہے ان کے لیے نہیں جو ہماری تعریف کے مطابق بھی ہمارے ہیں اور جن کے لیے وہ بھی اپنے ہیں جو ہمارے نہیں ہیں۔ ڈرون حملے ان آپریشنز کے علاوہ ہیں جو مسلسل ہورہے ہیں۔ آخری ڈرون حملہ دتہ خیل میں پچھلے ہی ہفتے کیا گیا۔ ادھر آرمی ایکٹ کے تحت جو جرائم قابل مقدمہ سازی ہونگے ان کی فہرست پڑھ کر ہمیں وہ طالبعلم یاد آ گیا جس کو پرچے میں قائد اعظم کے چودہ نکات لکھنے کو کہا گیا تو اس نے کچھ یوں لکھا۔۱۔سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر دیا جائے،۲۔ بمبئی کو سندھ سے علیحدہ کر دیا جائے،۳۔ دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے ۔۔ علی ہذالقیاس۔ کیونکہ اسے یہی ایک نکتہ یاد تھا۔
ملٹری کورٹس میں بھی جو مقدمات درج کیے جائیں گے وہ یہ ہونگے: پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے، فوج پہ حملہ کرنے والے، مذہب اور فرقے کے نام پہ ہتھیار اٹھانے والے، فوجی تنصیبات پہ حملہ کرنے والے، ان سب کو مالی امداد فراہم کرنے والے اور وہ غیر ملکی جو باہر سے دہشت گردی کرنے پاکستان آئیں۔ یہ تمام نکات درحقیقت ایک ہی نکتہ ہیں جسے مذہبی بلکہ مسلکی مسلح سرگرمی کہنا چاہیے یعنی سادہ ترین الفاظ میں طالبان اور ان کے ہمدرد۔ یہ مقدمات حکومت کی منظوری کے بعد فوجی عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔ ایسے میں کیا فضا پیدا ہو گی اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو ایک خاص طریقے سے چھیڑا جا رہا ہے جس کا فطری نتیجہ انارکی کی صورت میں نکلے گا۔ آپ پاکستان کو سیکولر ریاست صرف ایک مخصوص، غیر محسوس، طویل اور صبر آزما مسلسل عمل کے ذریعے بنا سکتے ہیں جس کی گارنٹی بہرحال کوئی نہیں ہے لیکن یہ طریقہ جو اختیار کیا جا رہا ہے وہ کھنچے ہوئے ربربینڈ کی طرح منہ پہ پڑنے والا ہے۔
بہرحال ہم نے آپریشن کی صورت میں ایک جنگ پہلے ہی چھیڑ رکھی تھی اب دوسری بھی چھیڑنے جا رہے ہیں۔ اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔