ازل سے یہی دستور رہا ہے کہ جو قومیں دن رات کام کرتی ہیں، علم حاصل کرتی ہیں‘ عقل استعمال کرتی ہیں اس طرح ’’ گلشن کا کاروبار‘‘ چلاتی ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر کے سپر پاور بن جاتی ہیں مگر ہم اپنا ایک الگ فلسفہ رکھتے ہیں اور عام ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں ہمیں کام کرنے‘ علم حاصل کرنے یا عقل استعمال کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ
ہماری مشکلیں آسان ہو جائیں گی پل بھر میں
فرشتے جلد اتریں گے یارو آسمانوں سے
(تشنہ)
ہماری گاڑی چلتی رہتی ہے ۔ پیٹرول ہو یا نہ ہو حتیٰ کہ انجن بھی نہ ہو تب بھی رواں رہتی ہے۔ ایسا بھلا کیوں؟ اس لیے کہ ہماری گاڑی دھکا اسٹارٹ ہے اور دھکا لگانے کے لیے فرشتے حاضر ہیں۔ اسٹیئرنگ وہیل سنبھالے ڈرائیور بڑی شان سے فوٹو کھنچواتا ہے اور بارعب پسنجر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہم میں کچھ ایسی خوبی ہے کہ فرشتے ہمارے اشاروں پر ناچتے ہیں اور پلک جھپکتے میں ہمارے مسائل حل کر دیتے ہیں۔
ان میں ایک سُپر فرشتہ بھی ہے جو ہماری پیدائش سے ہی ہم پر عاشق ہے اور عنایتوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ ہمیں اس نے ایسا ’’رام‘‘ کیا ہے کہ ہم بھی اس پر عاشق ہو گئے ہیں۔ فرشتہ ہم سے کہتا ہے ’’فلاں‘‘ سے دوستی مت کرو۔ ہم اس کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ پھر کہتا ہے کہ ہمیں راستہ دو کہ ہم فلاں کے گھر میں جھانک سکیں۔ کبھی اس فرشتے سے ہمارے تعلقات ’’خراب‘‘ بھی ہو جاتے ہیں مگر نوازشوں اور (سازشوں) کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ فرشتہ ہمیں اپنا ’’اخلاق‘‘ درست کرنے کا مشورہ بھی دیتا ہے جب کہ خود خاصا بد اخلاق ہے۔ ہمارے گھر میں پتھر بھی پھینکتا ہے مگر ہمارے حکام اور ’’بااثر لوگ‘‘ بالکل مائنڈ نہیں کرتے اس لیے کہ اس فرشتے کے پاس ہر ے رنگ کا ایک ایسا طلسمی گلاب ہے کہ جس کی خوشبو ہر ایک کو مست و بے خود کر دیتی ہے یہ گلاب جنت کا ٹکٹ بھی ہے۔ایک اور فرشتہ ہے جو شروع میں تو سینہ سپر فرشتہ تھا مگر مرور ِایام اور زبردست کے بعد اب یہ فرشتہ بھی تقریباً سُپر فرشتہ بن گیا ہے۔
اصلی سُپر فرشتے کو اس کی سُپر فرشتگی بہت کھلتی ہے۔ مگر وہ طرح دیتا ہے کہ وہ اس کا بڑا مقروض ہے۔ یہ سینہ سپر فرشتہ بھی ہم پر فدا ہے ہماری ناز برداریوں پر مصروف ہے کہ اسے ہماری راہداریوں سے عشق ہے۔ ورنہ وہ تو بھول بھلیوں میں کھو جائے۔ نکلنے کی راہ بھی نہ پائے۔ ایک اور فرشتہ بھی ہے جو ہماری بغل میں بیٹھا رہتا ہے جس طرح ہر فلم میں ایک ’’ولن‘‘ ہوتا ہے، لہذا ہم اسے ولن فرشتہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی بڑے کام کا فرشتہ ہے۔ ویسے تو اس سے ہمارے تعلقات بگڑے رہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کو خراب کرتا رہتا ہے۔
مگر اس کے بغیر ہمیں چین بھی نہیں آتا۔ یہ فرشتہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ ہمارا آنگن ٹیڑھا ہونے کے باوجود یہ ہمیں ایسا ناچ نچاتا ہے کہ دیکھنے والے غش کھا جائیں۔ یہ ہمیں گانا بھی سناتا ہے جس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا یہ فرشتہ چور بھی ہے اور چوری کا مال واپس نہیں کرتا مگر ویسے بہت میٹھا ہے۔ نہ اس کے بغیر ہمیں چین آئے نہ ہمارے بغیر اسے۔ اب اس ولن فرشتے اور سپر فرشتے کی دوستی بہت پکی ہو چکی ہے۔ ارادے خطرناک ہیں۔ایک اور فرشتہ ہے جو بہت مقدس ہے اور حاتم کی قبر پر لات مارنا اس کا مشغلہ ہے۔ وہ ہم پر بہت مہربان ہے بلکہ ہم اسے ’’مشکل کشا‘‘ فرشتہ کہہ سکتے ہیں کوئی بھی مشکل ہو ہم روتے ہوئے اس کے پیروں سے لپٹ جاتے ہیں۔ وہ ہمارے آنسو پونچھتا ہے۔ ہمیں عطر سنگھاتا ہے اور خوش کر دیتا ہے۔
اس فرشتہ نے ہمارا وظیفہ باندھا ہوا ہے اور ہم اس بندھن سے بہت خوش ہیں۔ ان فرشتوں کے علاوہ بھی کئی ایک فرشتے ہیں جو ہمار ے پیر دباتے ہیں‘ سر کی مالش کرتے ہیں‘ کہانی سناتے ہیں کیونکہ ہمیں کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے۔یہاں ایک خاص فرشتہ کا بھی ذکر ہو جائے تو بہتر ہے۔ اس کے پاس ایک گرز ہے جس کو وہ گھماتا رہتا ہے۔ اصلی سپر فرشتہ ویسے تو سب کے آگے شیر ہے لیکن اس فرشتے کے سامنے لومڑ بن جاتا ہے۔ اس فرشتے سے ہم نے دور رہنے میں عافیت سمجھی اس لیے کہ نہ تو سپر فرشتہ اس کو پسند کرتا ہے اور نہ سینئر سپر فرشتہ۔ مگر اب یہ بھی ہمیں میٹھی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ مگر یہ ہمیں دے گا کیا؟یورپ اور امریکا میں صنعتی انقلاب آیا تو وہ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔
ہمارے یہاں بھی صنعتی انقلاب آیا۔ لگے ہوئے کارخانوں کو تباہ کرنے کے بعد ہم نے سپر فرشتے کی ’’مہربانی‘‘ سے ’’ایک فرشتہ ساز فیکٹری‘‘ قائم کر لی۔ دھڑا دھڑ پر جوش و جاں فروش فرشتے پیدا ہونے لگے۔ یہ فرشتے بہت ’’صالح‘‘ تھے اس لیے ان کا نام پڑ گیا ’’صالحان‘‘ فرشتے۔ سپر فرشتے نے ان صالحان کو لندھور کے خلاف استعمال کیا اور اُس کو اَدھ مُوا کر دیا۔ ہم پر نوازشات کی بارش ہوئی اور لمبی لمبی جیبیں بھر گئیں۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ یہ صالحان فرشتے تو اپنے ’’خالقان‘‘ ہی کے خلاف ہو گئے یعنی FRANKENSTEIN بن گئے۔
انھوں نے سپر فرشتے کو بہت نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور ہمیں بھی۔ ان کی ’’حرکتیں‘‘ ناقابل برداشت ہوتی گئیں لیکن ہمارے خمیر اور ضمیر میں کچھ ایسی مضبوطی ہے کہ ہم ہر ’’ستم‘‘ برداشت کرتے گئے۔ کیونکہ یہ ’’حرکتیں‘‘ مقدّس فرشتوںْ کی طرف سے ہوتی تھیں اس لیے ان کا جواز ڈھونڈنے کے لیے بڑے بڑے عاملان اور عاقلان میدان میں آ گئے۔ دلائل کا وہ بازار گرم ہوا کہ سب نرم پڑ گئے۔ کہا گیا کہ صالحان میں کچھ بُرے ہیں اور کچھ اچھے۔ ہم بُروں سے دور رہیں گے اور اچھے صالحان کو گلے لگائیں گے۔
اب اچھے اور برے کی پہچان کیسے ہو؟ لہذا ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس نے ایک درجن بڑے کھانوں کے بعد فیصلہ سنایا کہ صالحان کی پیشانی پر صحیح اور غلط کا نشان لگایا جائے۔ مسئلے کے اس شاندار حل پر سب نے بغلیں بجائیں۔مقدس فرشتوں کی یہ ’’کارستانیاں‘‘ ہمارے علاقے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ افریقہ میں بھی ’’ بے قابو‘‘ فرشتوں نے ’’کہرام‘‘ مچایا ہوا ہے اور وہ ’’شہابِ‘‘ ثاقب بن کر شہروں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔ ’’درویش‘‘ فرشتوں نے تو شرق الاوسط میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ ہمارے اپنے مقدس فرشتے علم اور فلم کے دشمن ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں پہنچ جائیں۔ بڑے بڑے عالم اُن کے ساتھ ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا؟
فرشتے کر رہے ہیں کام اپنا
ڈراتا ہے ہمیں انجام اپنا
(تشنہ)