ہم دیدہ و دانستہ ذرا دیر کر کے یہ کالم لکھ رہے ہیں تا کہ ان کے مزار پر لگنے والا ’’میلہ‘‘ اختتام پذیر ہو جائے، مزاروں پر ’’میلے‘‘ تو ہمیشہ سے لگتے آ رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب سیاست میں بھی چل نکلا اور تقریباً ہر پارٹی نے اپنا اپنا میلہ لگانے کے لیے ایک دو مزار رکھے ہوئے ہیں جہاں بڑے بڑے سوداگر، پیشہ ور دکان دار، ہنر مند کرتب باز جمع ہو کر اپنی دکان داری چمکاتے رہتے ہیں، ہم نے سوچا کہ ہمیں ’’سودا‘‘ تو بیچنا نہیں ہے بلکہ ان مزاروں پر کچھ پھول نچھاور کرنا ہیں اس لیے میلہ ختم ہو جائے دکان دار اپنے تمبو سمیٹ لیں تب اپنا اظہار عقیدت کر لیں گے کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے کہ
ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
باچا خان بھی ایسی ہستیوں میں سے ایک تھے جو سیاست دان نہ ہوتے ہوئے بھی مجبوراً اس کوچہ ملامت میں آ گئے تھے جس کے دونوں کناروں پر انتہائی گندے غلیظ اور بدبو دار پانی کے گڑھے اور نالے ہیں جن میں اکثر پتھر پھینکے جاتے ہیں اور چھینٹے اڑتے رہتے ہیں ، باچا خان بنیادی طور پر ایک مصلح ایک ریفامر نظریہ ساز تھے انھوں نے آغاز کسی سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ ابتداء’’انجمن اصلاح افاغنہ‘‘ سے کی اور کام اسکول قائم کرنے کا شروع کیا تھا اور مشعل راہ حاجی صاحب ترنگ زئی کو بنایا تھا، ان دونوں کا ہدف اسکولوں کے ذریعے پشتونوں کی جہالت دور کرنا تھا کیونکہ پشتون جہالت میں خود کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کرنے لگے تھے، جو فرنگی کے لیے فائدوں سے بھرپور تھا۔
اس کا علاج ایک اور صرف ایک تھا کہ پشتون علم کی روشنی پا کر دوست دشمن، برے بھلے اور نشیب و فراز سے واقف ہو جائیں، ظاہر ہے کہ اس روشنی کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم اور تعلیم کے لیے اسکولز ضروری تھے جس کی ابتدا ان دونوں مردان باصفا نے کی، بظاہر ان دنوں انگریزوں کی طرف سے بھی ’’تعلیم اور اسکول‘‘ کا سلسلہ چل رہا تھا لیکن یہ اسکول نہیں بلکہ انگریزوں کے لیے غلام پیدا کرنے کے کارخانے تھے ان سرکاری اسکولوں میں یا تو ’’ملازمت‘‘ سکھائی جاتی تھی اور یا ذرا اونچے لوگوں کی اولادوں کو ان غلاموں کے استعمال کرنے کے لیے رنگ ماسٹر بنایا جاتا تھا۔
ایک عام پشتون کی زندگی کا محور صرف یہ تھا کہ غلط طور پر بنائی گئی ’’غیرت اور پشتو‘‘ کے نام پر اپنے بھائی اپنے شریک پڑوسی یا عزیز سے الجھا رہے، غیرت دکھا کر اسے قتل کر ڈالے اور پھر کسی نہ کسی وڈیرے کا دامن تھام کر تباہی کے راستے پر چل پڑے اور جو بھی ممکن ہو بیچ باچ کر غیرت اور پشتو کا شملہ اونچا کرے، ان حالات میں حاجی ترنگ زئی نے آغاز کیا اور باچا خان نے اس پر قدم بڑھایا، اسکول قائم ہونے لگے پشتونوں کو روشنی دی جانے لگی۔
حاجی ترنگ زئی تو بہت جلد انگریزی سیاست کے شکار ہو کر اسی راہ پر چل پڑے جس پر انگریز اسے چلانا چاہتے تھے یعنی ان کو سیاست اور جہاد کی راہ پر ڈالا گیا تا کہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز مل سکے، لیکن باچا خان نے تلوار اٹھا کر انگریزوں کی خواہش کے مطابق خود کو تباہ کرنے کے بجائے ایک ایسا ہتھیار نکالا بلکہ استعمال کیا جس کا توڑ انگریزوں کے پاس نہیں تھا اور یہ ہتھیار عدم تشدد کا تھا دوسروں کو مارنے کے بجائے خود کو مرنے کے لیے پیش کرنا، بہت سارے لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے تھے کہ باچا خان نے عدم تشدد کا نظریہ گاندھی سے لیا ہے اور اسی بنیاد پر ان کو سرحدی گاندھی کا غلط خطاب بھی دیا گیا ہے حالانکہ بات بالکل اس کے برعکس ہے ۔
عدم تشدد کا نظریہ باچا خان نے گاندھی سے نہیں لیا ہے بلکہ گاندھی نے باچا خان سے لیا ہے کیوں کہ جس زمانے (1910ء) کے لگ بھگ جب باچا خان نے عدم تشدد کا نعرہ لگایا اور اس پر عمل کیا‘ گاندھی جی اس وقت ماریشس افریقہ میں وکالت کر رہے تھے، باچا خان کو سرحدی گاندھی نہیں بلکہ گاندھی کو ہندی باچا خان کہنا چاہیے، ویسے بھی علاج کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں مرض ہوتا ہے تشدد پشتونوں میں تھا ہندوستان میں نہیں اور اس علاج کی ضرورت اہل ہند کو نہیں بلکہ پشتونوں کو تھی جو تشدد میں اتنے زیادہ آگے بڑھ گئے تھے کہ اپنے بھائی، بیٹی، بہن اور قریبی عزیزوں تک کو نشانہ بنا لیتے تھے۔
حیرت ہوتی ہے پشتونوں جیسی تیز مزاج اور بات بات پر بھڑکنے والی قوم کو ’’عدم تشدد‘‘ کا خوگر بنانا ایک معجزے سے کم بات نہیں تھی لیکن باچا خان نے اپنی سحر انگیز اور موثر شخصیت کے ذریعے یہ کر دکھایا، کسی مقصد کے لیے جان دینا تو دنیا میں ہوتا رہا ہے لیکن ان تمام تحریکوں میں جان دینے سے پہلے جان لینے کا عنصر بھی ہوتا تھا خود مرو لیکن دشمنوں کو بھی مار دو ’’حشیشین‘‘ سے لے کر آج کے خودکش لوگوں تک یہ سلسلہ دراز ہے، لیکن ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ ٹینکوں کے آگے لیٹ جاؤ یا لاٹھی چارج کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاؤ اور گولیوں کے سامنے صف باندھ کر کھڑے ہو جاؤ مرو لیکن خود کبھی ہاتھ نہ اٹھاؤ، انگریز اپنی تمام تر سامراجیت اور جارحیت کے باوجود بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا مہذب امیج خراب نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ باچا خان کے اسی ہتھیار کے آگے بے بس ہوگئے۔
بے بس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئے بلکہ تشدد کا راستہ کسی حد تک اختیار کر سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے بھی جواباً یہ حربہ آزمایا کہ باچا خان کو کدھیڑ کر سیاست کے میدان میں لے آئے تا کہ انگریزوں کو ان کے خلاف کارروائی کا جواز مل سکے، اسکول قائم کرنے پر تو ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں تھی لیکن جانتے تھے کہ اسکولوں کی یہی چنگاری ایک تباہ کن آگ میں بدل سکتی تھی تعلیم کی روشنی پا کر اگر پشتونوں نے اپنا برا بھلا پہچان لیا کیونکہ اجالے میں دوست دشمن یا چور اور شریف کو پہچاننا آسان ہو جاتا ہے چنانچہ کافی محنت منصوبہ بندی اور ہنر مندی سے باچا خان کو اپنی مرضی کے میدان ’’سیاست‘‘ میں لے آئے۔
حالانکہ آخر تک وہ سیاسی مزاج کے نہیں بن پائے لیکن انگریزوں کا مقصد تو پورا ہو گیا سیاست کے میدان میں لا کر ان کو اس راستے سے بھٹکا دیا گیا جس پر چلا کر وہ پشتونوں کو منزل تک پہنچا سکتے تھے اور ان کو بھٹکانے سیاست کی گندگی میں ڈالنے اور پشتونوں کو روشنی سے محروم رکھنے میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی شامل تھے، ولی خان نے کسی نہ کسی طرح اس شمع کو روشن کیے رکھا لیکن اس کے بعد جو آئے ان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ
اڑ گیا مقصد کا پنچھی رہ گئے پر ہاتھ میں
چلے تھے چین پہنچ گئے جاپان
اپنے پانچ سالہ دور میں پشتونوں کو نہ صرف اس راستے سے قطعی الٹ چلایا گیا بلکہ دور دراز کی پرائی جنگ کو لا کر پشتونوں کے گھر میں برپا کیا گیا۔