Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

فوجی ترقیاں اور وزیراعظم

$
0
0

عوام کے ذریعے اور سو فیصد سیاستدانوں کی کوششوں سے بنائے ہوئے جمہوری ملک پاکستان کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ یہاں ابتدائی دور سے اب تک فوجی جرنیلوں کو برتری حاصل رہی ہے اور ملک بنانے والے سیاستدانوں کو ثانوی حیثیت لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے فی الحال خود جرنیلوں کی اور سیاست دانوں کی ضیافت طبع کے لیے ہی کچھ عرض ہے اور یہ زیادہ تر ماضی سے متعلق ہے۔

سیاست دانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی ہے کہ اقتدار ان کا حق ہے اور فوج ہو یا کوئی اور شعبہ سب اس کے ماتحت ہیں لیکن پاکستان کی حد تک اس کے الٹ ہوتا رہا ہے۔ شاید بھارت میں بھی اس کے الٹ ہی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن اس ملک کے ابتدائی برسوں میں پنڈت نہرو زندہ رہے اور انھوں نے سیاست دانوں کی برتری کمزور نہ ہونے دی جب کہ پاکستان میں قائداعظم چلے گئے اور پھر کمزور لوگ آ گئے جن کو فوجی طاقتور ایک کھلونا سمجھ کر ان سے کھیلتے رہے۔

بھارت میں وزیراعظم پنڈت نہرو کے سامنے ابتدائی دنوں میں ایک چھوٹا سا فوجی کیس پیش ہوا۔ فوج نے اپنی ایک چھاؤنی میں کسی جگہ دیوار بنانے کی اجازت چاہی تھی لیکن پنڈت نہرو نے پہلے تو یہ فائل روکے رکھی پھر جب دیر بعد اس پر فیصلہ کرنا چاہا تو اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم کے ایک ساتھی نے کہا کہ جناب یہ ایک معمولی سی بات تھی اگر کہیں یہ دیوار بن جاتی تو کیا ہو جاتا۔

اس پر عالم و فاضل پنڈت نہرو نے کہا کہ ان لوگوں (فوجیوں) کو انکار کرنا ضروری تھا۔ ان کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے یہی مناسب تھا۔ اس واقع کے بعد بھارت میں فوج اپنی اوقات اور بیرکوں میں ہی رہی جب کہ پاکستان میں معاملہ بالکل الٹ رہا تاہم بعض دفعہ اور ایسا بہت کم ہی ہوا کہ کسی سیاست دان نے اپنے اختیارات کو فوج کی مرضی کے خلاف بھی استعمال کیا۔

پاکستان کے ایک وزیراعظم تھے جناب محمد خان جونیجو، بڑے دیانت دار اور شریف۔ ان کے دور میں فوجیوں کی ترقی کی فائل آخری منظوری کے لیے وزیراعظم کو پیش کی گئی۔ جیسے اِن دنوں 28 بریگیڈیئر میجر جنرل بنائے گئے ہیں ان کے زمانے میں ایک بار ایسا ہی ہوا۔ آج معلوم نہیں اس وقت کے قانون قاعدے کے مطابق ان ترقیوں کی آخری منظوری وزیراعظم دیا کرتا تھا۔ فوج میں یہ معمول رہا کہ ایسی ترقیاں آج کی طرح فوج کے اعلیٰ ترین افسر کیا کرتے تھے لیکن ان کو خفیہ رکھا جاتا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جن افسروں کے کیس ترقی کے لیے جاتے تھے وہ اپنے بارے میں کسی فیصلے سے بے خبر رہتے تھے چنانچہ اس کا پتہ کرنے کے لیے فوج کے اعلیٰ حلقوں اور خاندانوں میں ایک بے قراری سی پیدا ہو جاتی تھی اور ہلچل سی مچی رہتی تھی کہ نہ جانے کیا فیصلہ ہوا ہے چنانچہ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے یہ طے ہوا کہ ترقی کے فیصلے کو ظاہر کر دیا جائے اور غیر یقینی کی یہ کیفیت ختم کر دی جائے۔

اب یہی ہوتا ہے کہ ترقی پانے نہ پانے والے ہر بریگیڈیئر کو بتا دیا جاتا ہے اور سب آرام کے ساتھ گھر بیٹھ جاتے لیکن ایک مرحلہ پھر بھی باقی رہتا کہ اس فائل کی آخری اور حتمی منظوری وزیراعظم دیا کرتا جو ان فوجی فیصلوں کی توثیق ہی ہوا کرتی لیکن بہرحال اختیار وزیراعظم کے پاس ہی ہوتا کہ وہ کسی کی ترقی منظور کر دے۔ جونیجو صاحب کے زمانے میں ان کے پاس ترقیوں کی ایک فائل بھیجی گئی جو انھوں نے دبا لی۔ جی ایچ کیو میں انتظار ہوتا رہا۔ وزیراعظم کے دفتر سے بار بار رابطہ کیا گیا لیکن کوئی حتمی جواب نہ ملا چنانچہ ڈیڑھ دو ماہ بعد جونیجو صاحب نے یہ فائل منظور کر کے واپس بھجوا دی اور ترقی پانے والوں کی سانس بحال ہوئی۔

اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ طریق کار باقی ہے یا نہیں اور ان ترقیوں کا حتمی فیصلہ ترقیاتی بورڈ ہی کر دیتا ہے۔ وزیراعظم کے پاس فائل جاتی ہے یا نہیں لیکن اگر جاتی ہے تو وزیراعظم ہر کام روک کر اسے منظور کر کے واپس بھجوا دیتا ہو گا۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے اور سیاست دان بھی اب وہ نہیں رہے۔ محمد خان جونیجو کی طرح۔ جونیجو صاحب کا ذکر آیا ہے تو یاد پڑتا ہے کہ ان کے زمانے میں خزانے کو پوری طرح پاکستان کی سرزمین پر لگایا گیا۔ لاتعداد اسکول صحت کے مراکز اور دوسرے اداروں کی عمارات تعمیر ہوئیں اور آباد کی گئیں۔ پاکستانی قوم کو پتہ چلا کہ ان کی کوئی حکومت بھی ہے جسے ان کی بہبود کا دھیان ہے۔ کھاتی نہیں کھلاتی ہے۔

فوج جب اقتدار میں آتی ہے تو عوام کو وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ بس کسی دن پتہ چلتا ہے کہ جناب کمانڈر انچیف نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے اور مارشل لاء لگ گیا ہے۔ اسے عرف عام میں آمریت کہا جاتا ہے۔

پاکستان کے ان آمروں میں سے پہلا آمر ایوب خان کسی حد تک پاکستانی نکلا اور اس کے دور میں صنعت و زراعت میں خوب ترقی ہوئی۔ باہر کی ترقی پذیر ریاستیں ہماری صنعتی ترقی کا مطالعہ کرنے کے لیے اپنے ماہرین ہمارے ہاں بھجوایا کرتی تھیں جو اب ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ اس طرح زراعت میں بھی بہت کام ہوا۔ گورنر نواب امیر محمد خان خود زراعت پیشہ تھے اور زراعت کو جانتے تھے۔ وہ حکومت کے صنعتی ادارے کے چیئرمین بھی رہے اور اس طرح صنعت و زراعت دونوں شعبوں میں وہ ماہر تھے۔ غرض ایوب خان اور نواب صاحب دونوں نے ملک کو بسانے میں بہت زور مارا اور بڑی کامیابی بھی حاصل کی لیکن ہمارے ساتھ وہی ہوا کہ

ہری ہوئی جو کبھی شاخ آشیانے کی
وہی ہوا کہ نظر کھا گئی زمانے کی

ایوب خان گیا تو ان کے فرزند یعنی ان کو ڈیڈی کہنے والے سیاست دان وزیر جناب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آ گئے اور صنعتوں کو قومیانے کا ایسا چکر چلایا کہ پاکستانیوں کے ہوش اڑ گئے۔ سب کچھ تہس نہس کر دیا گیا۔ تمام ترقیاں الٹ پلٹ ہو گئیں اور ہم ایوب خان سے بھی پیچھے کے دور میں چلے گئے اور بڑی حد تک یہی دور جاری ہے۔ عمران خان اگر کہتے ہیں کہ کوئی اچھا آمر بھی آ جاتا تو حالات ایسے خراب نہ ہوتے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

دنیا میں اچھے آمروں کے زمانوں میں بھی بہت ترقی ہوئی ہے مگر ہمیں قائداعظم کے بعد نہ کوئی اچھا سیاسی حکمران ملا نہ کوئی فوجی حکمران۔ ملک نصف کر دیا اور اب دشمنوں کے نشانے پر ہیں اور انھوں نے ہمارے خلاف ’’دفاعی جارحیت‘‘ شروع کر رکھی ہے کہ جنگ نہ کرو لیکن جنگ کے بغیر ہی اپنا مقصد حاصل کر لو۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>