ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی عنایات خسروانہ ہیں، حالانکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں جو کمی ہوئی ہے اس کے پیش نظر ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی ہونا چاہیے تھی یعنی پٹرول 50 روپے لیٹر فروخت کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ہوا یہ کہ 50 فیصد کے بجائے صرف 30 فیصد کمی کی گئی اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ دو بار پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔
حالیہ اضافہ ٹیکس میں 22 فیصد کو 27 فیصد کر کے کیا گیا۔ ہمارے معاشی نظام کا یہ کمال ہے کہ وہ عوام کا گلا اس طرح کاٹتا ہے کہ خون کی ایک بوند بھی نہیں گرتی اور گلا کٹ جاتا ہے، پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا جس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے تناظر میں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کا ذکر خیر بس بھولے بھٹکے کر دیا گیا، یہ ہمارے نظام استحصال کی ایسی خوبی ہے کہ اس کی داد دی جانی چاہیے۔ بے چارے عوام پٹرول کی قیمت میں کمی پر پھولے نہیں سماتے لیکن اس فیاضی کا گلا اس مہارت سے ٹیکسوں میں اضافے کی شکل میں کیا گیا کہ عوام کو اپنی جیبیں کٹنے کا احساس تک نہیں ہوا۔
جب بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں آٹومیٹک طریقے سے اس طرح اضافہ ہو جاتا ہے کہ عوام کے پہلے سے جھکے ہوئے کندھے اور زیادہ جھک جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کو دوسری تمام ضروریات زندگی یا اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا جواز قرار دینے والے حکومتی اکابرین کی زبانوں پر اس وقت تالا پڑ جاتا ہے، جب پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں معمولی کمی بھی نہیں ہوتی۔
یہ ایک ایسا سرکاری فراڈ ہے جو عوام کے ساتھ بار بار کیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں صارفین کی انجمنیں اور سول سوسائٹی اس قدر متحرک ہوتی ہیں کہ اس قسم کی بے ایمانی کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں لیکن مردوں کے اس ملک میں صارفین کی انجمنیں اور سول سوسائٹی وغیرہ اس قدر بے کار ہوگئی ہیں کہ ان کی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے آقاؤں نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے بے شمار تنظیمیں بنا رکھی ہیں مثال کے طور پر انسانی حقوق کی حشراۃالارض کی طرح پھیلی ہوئی انجمنوں کو لے لیں یہ انجمنیں بازار حسن کے لیے لائسنس کی عدم فراہمی کو تو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کہہ کر واویلا کرتی ہیں لیکن پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے لاچار عورتوں کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی پر کوئی مظاہرہ نہیں کرتیں۔
اس قسم کی بے شمار انجمنیں آپ کو قدم قدم پر پھیلی نظر آئیں گی لیکن ان انجمنوں کا سارا وقت میٹنگوں، کانفرنسوں، ورکشاپوں میں گزر جاتا ہے جس کے لیے مغربی فنڈنگ ایجنسیاں بھاری فنڈ مہیا کرتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف پٹرول کی قیمتیں کم کر کے دوسری طرف پٹرول کے ٹیکس میں اضافے کے ذریعے قیمتوں میں کمی کو بے اثر بنانے کی حکومتی سازش کے خلاف کسی صارفین کی انجمن کسی غیر سرکاری تنظیم کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے کوئی تحریک چلائی؟
بعض تنظیموں کی طرف سے ان حوالوں سے مذمتی بیانات اور چھوٹے موٹے احتجاج اس لیے نہیں کیے جاتے کہ ٹیکسوں میں اضافے کو واپس لینے کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے بلکہ اس لیے یہ ’’موثر اقدامات‘‘ کیے جاتے ہیں کہ ان کی فوٹو کاپیاں ان کی تصاویر فنڈنگ ایجنسیوں کو بھیج کر اپنی فعالیت اور اپنے فنڈ کا جواز فراہم کیا جائے۔ یہ صورتحال صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں بلکہ تمام پسماندہ ملکوں میں یہی شرمناک صورت حال موجود ہے۔
ہماری محترم اپوزیشن حکومت کے ان کارناموں کے خلاف بیانات تو دیتی ہے اور حکومت کی مذمت تو کرتی ہے لیکن وہ اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوتی ہے کہ نہ بیانات دینے سے حکومت کے کانوں پر جوں رینگے گی نہ چھوٹے موٹے مظاہرے کرنے سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑے گا۔ اکیسویں آئینی ترمیم ہو یا 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ان کا تعلق عوامی مفادات سے بالکل نہیں نہ ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عوامی مفادات کا کوئی تعلق ہے لیکن ان کے حوالے سے بڑی بڑی تحریکیں چلتی ہیں لانگ مارچ ہوتے ہیں دھرنے دیے جاتے ہیں لیکن مہنگائی کے خلاف سکوت ہی سکوت ہے۔
عموماً سرکار کا ان حوالوں سے استدلال یہ ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس نقصان کے ازالے کے لیے سرکار کو ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ حیرت ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی سرکار نے اس کمی کا عوام کو پورا فائدہ دینے کے بجائے 20 فیصد خود ہڑپ کر گئی۔ اس پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ پٹرولیم پر ٹیکس میں اضافہ کر کے ’’سرکاری خزانے کو بچانے کی کوشش کی گئی۔‘‘
کیا ہمارے ملک میں ماہرین معاشیات غفلت کی نیند سو رہے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں صارفین کی انجمنیں نشہ کرتی ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں سول سوسائٹی نیند کی گولیاں کھا کر سو رہی ہے؟ کیا ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اندھی بہری اور گونگی ہیں؟ کیا ملک میں اپوزیشن کا کام صرف اقتدار کی لڑائی لڑنا ہی رہ گیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا عوام جواب چاہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ماشا اللہ مذہبی جماعتیں طاقتور بھی ہیں فعال بھی ہیں، کیا ان طاقتور جماعتوں کے نزدیک مہنگائی، بے روزگاری بے معنی حیثیت کی حامل ہیں؟ کیا بھوک بیماری سے تنگ آ کر خودکشی کرنے والے غربا کی موت اور زندگی ان محترم جماعتوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟ کیا یہ جماعتیں خودکش حملوں کے ذریعے خودکشی کرنے والوں اور بھوک بے کاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے والوں میں کوئی فرق محسوس کرتی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مذہبی جماعتوں کی ذہین قیادت عصر حاضر کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے مزدوروں، کسانوں، غریبوں کی بات کر رہی ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریبوں کی زندگی کو جہنم بنانے والی مہنگائی کے خلاف یہ باکمال لوگ لاجواب پرواز سے کیوں گریزاں ہیں؟
ہم یہاں ترقی پسند جماعتوں کے کردار کا ذکر اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ زندہ مسائل کے حوالے سے مرحومین کا ذکر وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں؟ لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اگر اب بھی یہ کامریڈ اپنی نظریاتی قبروں سے باہر نہ نکلے تو ان کا حال: ’’تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ جیسا ہوجائے گا۔
ہم نے ابتدا میں اس بات یا حکومتی بہانے کی نشان دہی کر دی تھی کہ سرکار قیمتوں میں کمی کر کے اس کا نقصان ٹیکسوں سے پورا کرنے کی ماہرانہ کوشش کرتی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ چیخ رہا ہے کہ ملک کے 200 ارب ڈالر باہر کی بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ 200 ارب ڈالر مزدوروں، کسانوں، غریب طبقات کے نہیں ہیں بلکہ اسی ایلیٹ کلاس کے ہیں جو حکمرانوں کی طبقاتی بھائی ہے۔
حکومت باہر کی بینکوں میں پڑے ان 200 ارب ڈالر واپس لانے کا بندوبست کیوں نہیں کرتی؟ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 200 کھرب روپے ہوتی ہے۔ کیا اس رقم سے حکومت اپنا مفروضہ نقصان پورا نہیں کر سکتی ہے؟ کئی قومی اداروں میں اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا میں عرصے سے گونج رہی ہیں کرپشن کی یہ اربوں روپوں کی رقم ملک کے اندر ہی ہو گی اسے بازیاب کیوں نہیں کرایا جاتا؟
کوئی دو کھرب روپے بینکوں کے قرض نادہندگان کی غاصبانہ تحویل میں ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں کی میزوں پر رکھی بدنما حقیقت ہے اس قدر بھاری قرض کی وصولی کیوں نہیں کی جاتی؟ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کالم میں جگہ نہیں ہے۔ کیا حکومت اس تھوڑے کو بہت جان کر ان حوالوں سے رقوم حاصل کر کے عوام کو ٹیکسوں سے بچائے گی؟