پاکستان مخالف اور انسانیت دشمن عناصر نے اپنی شدت پسندانہ کارروائیاں تیز کر دی ہیں، دہشت گردوں نے بازاروں، اسکول اور مساجد جیسے پرہجوم مذہبی مقامات کو نشانہ بنا کر اپنی بربریت و سفاکی کا واضح اعلان کیا ہے۔ جمعہ کو پشاور ایک بار پھر لہولہان ہو گیا جب پشاور کے علاقہ حیات آباد فیز فائیو میں واقع امامیہ مسجد و امام بارگاہ میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملہ آوروں نے حملہ کر دیا۔ دھماکوں کے نتیجے میں ڈی ایس پی حیات آباد نوید بنگش سمیت 21 افراد شہید اور 56 زخمی ہو گئے۔
حملے کی ذمے داری طالبان لشکر اسلام (ایل آئی) نے قبول کر لی ہے۔ واضح رہے کہ محکمہ داخلہ نے ایک روز قبل پشاور میں ممکنہ حملے کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ برطانوی ویب سائٹ کے مطابق جمعرات کو محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پشاور میں دھماکے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ مراسلے میں نشاندہی کی گئی تھی کہ دہشت گرد اہم عمارتوں اور بڑے ہوٹل کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ مراسلہ جاری کیے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ دہشت گرد اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق حملہ آور 4 تھے، 3نے خود کو اڑا دیا جب کہ ایک فائرنگ کے تبادلہ میں مارا گیا، رپورٹ کے مطابق خودکش بمبار شکل سے ازبک باشندے لگتے ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے بدترین حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت پشاور میں تمام اسکولوں، اہم مقامات، امام بارگاہوں کی سیکیورٹی نہ صرف سخت کر دی گئی تھی بلکہ نفری میں بھی مزید اضافہ کیا گیا تھا، پورے شہر میں جگہ جگہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے ناکوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی تھی مگر دہشت گردوں نے تقریباً دو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر پشاور کے انتہائی پوش علاقہ حیات آباد میں امامیہ مسجد پر آرمی پبلک اسکول کی طرز پر دھاوا بول کر حفاظتی اقدامات پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔
آخر کیا وجوہات ہیں کہ اس قدر سیکیورٹی انتظامات ہونے کے باوجود بھی شرپسند اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس سیکیورٹی لیپس کو پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قوم پے در پے ہونے والے ان خونچکاں واقعات سے سخت ذہنی اضطراب کا شکار ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حملے کے ماسٹر مائنڈ خالد عمر خراسانی جب کہ حملے میں مہمند ایجنسی اور خیبر ایجنسی کے دہشت گرد استعمال ہوئے۔ رپورٹ میں یہ بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا اگلا ہدف مساجد اور اسپتال ہو سکتے ہیں۔
پشاور امام بارگاہ پر حملے کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کی ہدایت پر لاہور کی تمام بڑی اور اہم مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں پر پولیس نفری کو بڑھا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیاب پیش رفت کے بعد دہشت گردوں کے حملوں میں خاطر خواہ کمی آئی تھی لیکن 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔
اے پی ایس اسکول اور حیات آباد حملے میں یہ مماثلت سامنے آئی ہے کہ اسکول حملے کی طرح دہشت گردوں نے سیکیورٹی کو منتشر کرنے کے لیے اپنی گاڑی جلا دی، دستی بم استعمال کیا، فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے اور پھر دھماکے کر کے خود کو اڑایا۔ محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کو امامیہ مسجد و امام بارگاہ خودکش دھماکے کے شواہد مل گئے ہیں، ہلاک ہونے والا 22 سالہ خودکش حملہ آور تھا جس کا تعلق باڑہ خیبر ایجنسی سے ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق سے صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اسپیشل فنڈز طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر خیبرپختونخوا ہوا ہے، اسے بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امام بارگاہ حملے پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اکابرین نے مذمت کی ہے، وزیراعظم نے زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا ہر حال میں خاتمہ کر کے رہیں گے۔ دوسری جانب ڈیرہ بگٹی کے علاقے لوٹی میں گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس سے پلانٹ کو گیس کی فراہمی معطل ہو گئی۔ علاوہ ازیں ہفتہ کو نوشکی میں خاران روڈ پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کے قافلے کے قریب دھماکا کیا گیا۔ شرپسند اپنی پوری شدت سے مصروف عمل ہیں۔
وفاقی حکومت کے انتہائی باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ وفاقی حکومت کو اہم اداروں نے آگاہ کیا ہے کہ حکومت نے جن تنظیموں پر پابندی عائد کی تھی، ان میں سے بعض تنظیمیں نام تبدیل کر کے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان تنظیموں کے بعض رہنما اور کارکنان سنگین وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ملک میں نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھنے والی کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی اعلیٰ سطح پر مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ ملک مزید انارکی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، ان شرپسندوں دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف حکومت، سیکیورٹی اداروں بلکہ پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر فرد واحد بھی ان انسانیت دشمنوں کے خلاف میدان عمل میں آ جائے۔