Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

مذاکرات کے لیے بھارت کی پہل

$
0
0

پاک بھارت تعلقات تاریخ کے وسیع تر تناظر میں ہمیشہ سرد گرم ماحول کا شکار رہے ہیں، جب کہ دوطرفہ مذاکراتی نشیب و فراز میں دو عملی کے باعث بھارت کبھی کھل کر بات چیت کی میز پر نہیں آیا، اور اگر جامع مذاکرات یا آگرہ بات چیت کے لیے ماضی میں آیا بھی تو بے نتیجہ ڈرامائیت اور الزامات و تضادات بھرے بیانات کے ساتھ پیچھے ہٹتا رہا اور یوں ابھی تک کشمیر سمیت دیگر تنازعات پر پاک بھارت مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آئی اور بنیادی اور دیرینہ حل طلب مسائل و تنازعات پر ڈائیلاگ کا تسلسل جاری نہیں رکھا جا سکا۔

بھارت کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس کی چانکیائی سیاست اور ڈپلومیسی میں استقامت، سنجیدگی، زمینی حقائق اور خطے کی صورتحال سے کمٹمنٹ کا فقدان بھی ہے، وہ الزامات اور خطے میں بالادستی کے غیر ضروری اور لایعنی غرور میں مبتلا رہنے کی وجہ سے پاکستان کی ہر پیشکش اور پیش رفت کو سبوتاژ کر کے عالمی برادری کو بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل میں سرگرم رہنے کا جعلی تاثر دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود دو طرفہ مذاکرات کا سابقہ ریکارڈ اس امر کا غماز ہے کہ بھارت کے معاندانہ رویے کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے میں پاکستان نے ہمیشہ ابتدا کی ہے لیکن گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات ختم کرنے کے بعد پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت نے خود مذاکرات ختم کیے اور اسے ہی دوبارہ پہل کرنا ہو گی۔ اور اب لگتا ہے کہ بھارت کو بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان اپنے موقف پر اٹل ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اصولی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت نے دو طرفہ رابطوں کی بحالی کے لیے خود پہل کی ہے۔

جس سے پاکستان و بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ جمعہ کو بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو فون کر کے کہا کہ بھارت کے نئے سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر جلد جنوبی ایشیا کے ممالک کا دورہ کریں گے اور وہ پاکستان بھی آنا چاہیں گے، نریندر مودی نے گفتگو کے آغاز میں نیک خواہشات اور خیر سگالی کے جذبات کا بھی اظہار کیا۔ دیر آید درست آید کے مصداق کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھارت نے ہٹ دھرمی کی روش کو ترک کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کو نتیجہ خیز بنانے میں دلچسپی لی تو اسے خوش آئند کہا جا سکتا ہے۔

نوازشریف نے27 مئی 2014ء کو بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے باہمی دلچسپی کے تمام امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کیا ہے۔ ادھر بھارتی وزیراعظم نے آئندہ ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کی بھی دعا کی۔ اگرچہ کرکٹ ڈپلومیسی کا کوئی امکان اس بار نظر نہیں آتا تاہم انھوں نے ٹویٹر پر بتایا کہ کرکٹ کا کھیل ہمارے خطے میں عوام کو جوڑتا ہے اور خیرسگالی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے، میں نے جمعہ کو افغان صدر اشرف غنی، بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد، پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور سری لنکا کے صدر سری سینا سے فون پر رابطہ کیا اور ورلڈ کپ کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ امید ہے کہ جنوبی ایشیا کی کرکٹ ٹیمیں جذبے کے ساتھ کھیلیں گی اور خطے کے لیے جیت لائیں گی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے بتایا کہ سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر اسلام آباد جائیں گے اور بات چیت کے دوران بھارت اپنا ایجنڈا آگے بڑھائے گا۔ میڈیا کے مطابق نواز، مودی بات چیت میں دوطرفہ تعلقات، ورکنگ باؤنڈری اور خطے کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر 10 منٹ تک تبادلہ خیال کیا گیا۔ ترجمان وزیراعظم ہاؤس کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات اور تصفیہ طلب مسائل کا مذاکرات سے حل چاہتے ہیں۔

خطے میں قیام امن کے لیے خوشگوار پاک بھارت تعلقات ضروری ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ بھارتی موقف اور طرز عمل میں تبدیلی امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ دورہ بھارت پر پاکستان کے شدید ردعمل کا نتیجہ ہی ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بے چین ہے جب کہ اسے اندازہ ہے کہ پاکستان کشمیر کے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ پہلی بار موجودہ حکومت نے کشمیر کاز دنیا کے سامنے پوری قوت اور شدت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔

گزشتہ روز فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان اور تحریک طالبان پاکستان کے پیچھے بھارت ہے، وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوباما سے فون پر بات چیت کے دوران واضح کیا کہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل نہیں کیونکہ اس نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے، وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بننا چاہتا ہے، ادھر چین نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور نئے مستقل ممبران پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے بھارت کو سبق سیکھنا چاہیے۔ خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے، اسی میں خطے کا مفاد ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>