Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

باپ بننا آسان، والد بننا مشکل

$
0
0

’’ہمارے آبائی علاقے میں ہماری خاندانی مخالفت تھی، ہمارا مخالف خاندان دہائیوں سے ہمارے خلاف لڑ رہا تھا، یہ تگڑے زمیندار تھے، بیورو کریسی میں بھی ان کی رشتے داریاں تھیں اور یہ افرادی قوت کے لحاظ سے بھی مضبوط تھے،مخالف خاندان کا ایک جوان اٹھا اور بڑی تیزی سے ہمیں نقصان پہنچانے لگا، میں پریشان ہو گیا، میں نے ایک دن اپنے ایک بزرگ دوست سے مشورہ کیا،میں نے ان سے کہا، ہم نے اگر اس کو نہ روکا تو یہ ہمیں لے کر بیٹھ جائے گا۔

میرے بزرگ دوست ہنسے اور انھوں نے کہا، صدیق تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،یہ زیادہ دنوں تک نہیں بچ سکے گا، میں نے وجہ پوچھی، بزرگ ہنس کر بولے، یہ نوجوان طاقتور بھی ہے، دولت مند بھی اور غصیلا بھی۔ میرا تجربہ ہے جہاں یہ تینوں چیزیں جمع ہو جائیں، وہاں بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا، میں نے وضاحت چاہی ، بزرگ نے جواب دیا، طاقت اور دولت نشہ ہوتی ہے، یہ نشہ انسان میں غرور پیدا کرتا ہے، آپ کی شخصیت میں اگر پہلے سے غصہ موجود ہو تو یہ غصہ غرور کو دس گنا بڑھا دیتا ہے۔

آپ آگ کا گولہ بن جاتے ہیں، میں نے زندگی میں ہمیشہ مغرور غصیلے لوگوں کو غیر طبعی موت مرتے دیکھا، یہ نوجوان بھی مغرور اور غصیلا ہے، یہ بہت جلد مارا جائے گا، مجھے ان سے اتفاق نہیں تھا لیکن میں احترام میں خاموش رہا، ہمارے بزرگ کی بات ایک سال بعد سچ ثابت ہوگئی، ہمارا مخالف اپنے مزارعے کے ہاتھوں مارا گیا‘‘۔

مجھے یہ واقعہ صدیق کانجو صاحب نے سنایا تھا، کانجو صاحب ملک کے مشہور سیاست دان تھے، یہ لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کے رہنے والے تھے، وہاں ان کا خاندانی گاؤں اور وسیع جاگیر تھی، یہ 1977ء میں سیاست میں آئے، تین بار قومی اسمبلی کے رکن بنے، یہ پاکستان مسلم لیگ ن میں تھے، میاں نواز شریف نے اپنے سابق دور حکومت میں انھیں خارجہ امور کا وزیرمملکت بنا دیا، گوہر ایوب اس دور میں وزیر خارجہ ہوتے تھے۔

صدیق کانجو کی وجہ سے گوہر ایوب اور میاں نواز شریف کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، ان غلط فہمیوں کے نتیجے میں گوہر ایوب نے اگست 1998ء میں وزارت خارجہ کا قلم دان چھوڑ دیا اور یہ پانی و بجلی کے وزیر بن گئے، کانجو صاحب انگلش لٹریچر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، وہ دیر تک انگلش ڈرامہ نویسوں، ناول نگاروں اور شاعروں کے حوالے دیتے رہتے تھے، میاں نواز شریف 1997-99ء میں جلد غصے میں آ جاتے تھے، آپ اگر نواز شریف کی پچھلی حکومت کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا میاں صاحب کے اس دور کے زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد غصہ تھی، یہ غصہ بالآخر میاں صاحب کی حکومت نگل گیا، صدیق کانجو نے بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ق جوائن کر لی، یہ 2001ء کی بات ہے۔

میں نے ان سے میاں صاحب کی حکومت کے خاتمے کی وجہ پوچھی، کانجو صاحب نے یہ واقعہ سنایا اور جواب دیا ’’میاں صاحب میں تکبر کے ساتھ ساتھ غصہ پیدا ہو گیا تھا چنانچہ ان کا غصہ اور تکبر پوری حکومت کو لے کر بیٹھ گیا اور ہم بھی میاں نواز شریف کے ساتھ فارغ ہو گئے‘‘ صدیق کانجو یہ واقعہ سنانے کے چند دن بعد قتل ہو گئے، وہ 2001ء کے بلدیاتی الیکشن کی مہم پر تھے، مہم کے دوران حملہ ہوا، کانجو صاحب کو گولی لگی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے،آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے، صدیق کانجو کا انتقال ٹھیک اس جگہ ہوا جہاں سے انھوں نے 1977ء میں سیاست شروع کی ، مجھے آج بھی ان کا افسوس ہے، وہ اچھے، سمجھ دار اور ریفائن سیاستدان تھے، وہ اگر ہمارے سیاسی افق پر قائم رہتے تو ملک کو بہت فائدہ ہوتا مگر بہرحال یہ دنیا سرائے ہے اور اس کے ہر مسافر نے بالآخر رخصت ہو جانا ہے۔

صدیق کانجو نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی تھیں، ان کی خاندانی بیگم گاؤں میں رہتی تھیں جب کہ دوسری بیگم کا تعلق لاہور سے تھا، یہ آج بھی کیولری گراؤنڈ میں رہتی ہیں، لاہور والی بیگم صاحبہ کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، ایک بیٹی۔ بیٹوں میں ایک کا نام مصطفی کانجو ہے، یہ ’’چیکو‘‘ کے نام سے مشہور ہے،چیکو نے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی، یہ اس وقت 34 برس کا جوان ہے، صدیق کانجو کے بعد جائیداد تقسیم ہوئی ، کیولری گراؤنڈ کا گھر ’’چیکو‘‘ کی والدہ کے حصے میں آگیا، یہ اس وقت لاہور کی مشہور سوشل خاتون ہیں، چیکو بڑے باپ کا بیٹا تھا، اس نے زندگی میں طاقت بھی دیکھی اور دولت بھی۔مزاج بھی غصیلا تھا، یہ آدھی زندگی گزار چکا ہے لیکن یہ ابھی تک ’’سیٹل‘‘ نہیں ہوا، یہ نشے کا عادی بھی ہے۔

بدتمیز بھی ہے اور بد کلام بھی۔ یکم اپریل بدھ کی شب چیکو نے وہ کام کیا جس کا حوالہ صدیق کانجو صاحب نے 15 سال قبل دیا تھا، چیکو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا، یہ نشے میں دھت تھا، گاڑی گلی میں مڑنے لگی تو دوسری طرف سے ایک چھوٹی گاڑی آ رہی تھی، اس گاڑی میں دو خواتین سوار تھیں، جگہ تنگ تھی، گاڑیاں گزارنے کی کوشش میں دونوں گاڑیوں کے سائیڈ شیشے ٹکرا گئے، چیکو کو غصہ آ گیا،چیکو نے شیشہ نیچے کیا اور خواتین کو ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کر دیں، خواتین بھی غصے میں آ گئیں، بات آگے بڑھ گئی، چیکو گاڑی سے اترا، گلی میں کھڑا ہوا اور چیخنا شروع کر دیا، گلی کے چوکیدار، محلے میں کام کرنے والے ملازمین اور آس پاس کے گارڈز وہاں پہنچ گئے۔

چیکو کو بدتمیزی کرتے دیکھا تو وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے، چیکو مزید بگڑ گیا اور اس نے انھیں بھی گالیاں دینا شروع کر دیں، وہ چیکو کو سمجھارہے تھے لیکن طاقت، دولت، غرور اور غصہ چاروں ایک جگہ جمع ہو چکے تھے، چیکو کا غصہ آسمان کو چھونے لگا، وہ سیدھا گھر گیا، گرل فرینڈ کو اتارا، بیڈروم سے کلاشنکوف اٹھائی، ملازموں اور گارڈز کو ساتھ لیا اور جھگڑے کی جگہ پہنچ گیا، وہ خواتین جن سے چیکو کا جھگڑا ہوا تھا وہ جا چکی تھیں لیکن محلے کے ملازمین اور چوکیدار وہیں موجود تھے، چیکو نے ملازمین کو گالیاں دیں اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

ایک 13 سال کا بچہ زین موٹر سائیکل پر وہاں سے گزر رہا تھا، وہ بچہ یتیم تھا اور دو بہنوں اور ماں کا اکیلا سہارا تھا، چیکو کی گولی زین کی گردن پر لگ گئی، زین نیچے گرا اور تڑپنے لگا، وہاں سے حسنین بھی گزر رہا تھا، یہ محلے میں گھریلو ملازم تھا، ایک گولی حسنین کے پیٹ میں بھی لگ گئی، وہ بھی گر کر تڑپنے لگا، چیکو نے دو لوگوں کو گرتے دیکھا تو وہ اپنے ملازمین کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا، اس نے کلاشنکوف گھر میں پھینکی اور اپنے گاؤں کہروڑ پکا چلا گیا، پولیس ایکٹو ہوئی، مصطفی کانجو عرف چیکو گاؤں سے گرفتار ہوا، لاہور لایا گیا، حوالات میں بند کیا گیا اور میڈیا کو اس کی شکل دکھائی گئی۔

یہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے، قتل ثابت ہو چکا ہے، یہ اعتراف جرم کر چکا ہے، خاندان معافی، صلح اور خون بہا کی کوشش کر رہا ہے لیکن زین کی والدہ نہیں مان رہی لہٰذا یہ کیس اگر اسی طرح چلتا رہا تومصطفی کانجو کو سزائے موت ہو جائے گی، یہ پھانسی چڑھ جائے گا۔

ہم اب اس واقعے کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں، چیکو کو وراثت میں دولت اور طاقت ملی تھی، اس نے بچپن میں والد کا دبدبہ اور نام دیکھاتھا، یہ اس دبدبے کے ساتھ جوان ہوا، غصہ فطرت میں تھا، والد فوت ہوا تو کروڑوں روپے کی جائیداد مفت ہاتھ آ گئی، یہ بری صحبت کا شکار بھی ہو گیا، شراب کا عادی ہوا، بے راہ روی کے کیچڑ میں گرا اور مکمل طور پر خراب ہو گیا، یہ تمام خرابیاں جمع ہوتی رہیں یہاں تک کہ یکم اپریل 2015ء کا دن آگیااور ایک معمولی واقعے نے چیکو کو قاتل بنا دیا، آج وہ گاڑی گھر پر کھڑی ہے جس کا شیشہ ٹکرانے پر چیکو غصے سے پاگل ہو گیا، یہ گاڑی سال چھ مہینے میں بک بھی جائے گی۔

وہ دونوں خواتین اپنے گھر میں بیٹھی ہیں جن کی چیکو سے تو تکار ہوئی تھی، یہ خواتین بھی بہت جلد یہ واقعہ بھول جائیں گے، گلی کے وہ تمام ملازمین بھی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں جنھوں نے اس دن چیکو کو سمجھانے کی کوشش کی، گلی کے لوگ بھی آہستہ آہستہ یہ واقعہ بھول جائیں گے بس پیچھے رہ جائے گا تو وہ چیکو ہو گا اور کال کوٹھڑی ہو گی، آپ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں چیکو کو کم اور مرحوم صدیق کانجو کو زیادہ مجرم سمجھتا ہوں کیونکہ کانجو صاحب نے چیکو کے لیے دولت اور دبدبہ چھوڑتے وقت یہ نہیں سوچا تھا ’’ کیایہ بچہ اس کا اہل بھی ہے ؟‘‘ اور’’ یہ دولت کہیں اسے کال کوٹھڑی تک تو نہیں لے جائے گی؟‘‘ مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا، کانجو صاحب سمیت ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ نہیں سوچتے چنانچہ ہمارے امراء کے زیادہ تر بچے سڑکوں پر حادثوں میں مرتے ہیں یا یہ قاتل بن جاتے ہیں۔

سزائے موت پاتے ہیں یا پھر پوری دولت خون بہا میں مقتول خاندان کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر نشے کے ہاتھوں برباد ہو جاتے ہیں یا پھر بزرگوں کی سو سال کی کمائی طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں، یہ وہ کہانی ہے جو ہمارے خطے میں سیکڑوں سال سے دہرائی جا رہی ہے، ہم لوگ جتنی محنت دولت کمانے پر کرتے ہیں، ہم اگر اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے بچوں کی پرورش پر لگا دیں تو ہمارے بچے ذمے دار بھی ہوں، یہ غصہ بھی کنٹرول کر لیں اور یہ باعزت زندگی گزارنے کا فن بھی سیکھ لیں لیکن ہم بدقسمتی سے اپنا تمام وقت اور تمام توانائی دولت اور طاقت جمع کرنے پر ضایع کر دیتے ہیں۔

ہم اس دوڑ میں زندگی کی سرحدیں عبور کر جاتے ہیں اور ہمارے بعد ہماری پوری زندگی کی جمع پونجی ہمارے ایک داماد، ہمارے ایک چیکو اور ہمارے ایک نالائق سالے کا نوالہ ثابت ہوتی ہے، ہم جس بچے کو گود میں کھلاتے رہے، وہ بچہ زندگی کا آخری حصہ کال کوٹھڑی میں گزارتا ہے، کاش ہم یہ سمجھ لیں باپ بننا آسان لیکن والد بننا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کاش ہم بچے پیدا نہ کریں، ہم انسان پیدا کریں لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیونکہ انسان پیدا کرنے کے لیے آپ کا انسان ہونا ضروری ہے اور ہم پوری دنیا کو انسان دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود انسان بننے کے لیے تیار نہیں ہیں چنانچہ پھر ہمارے لخت جگر چیکو بن جاتے ہیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>