وہ مشہور و معروف مکالمہ تو آپ نے یقیناً سنا ہو گا جو صحرائے نجد کے سیاح عظیم میاں مجنوں اور اس کی ہونے بلکہ ’’نہ ہونے والی‘‘ ساس یعنی لیلیٰ کی ماں کے درمیان کسی نامعلوم مقام پر ہوا تھا۔ اس مکالمے کے راوی اکبر الہ آبادی ہیں۔ ہمیں پورا مکالمہ لفظ بہ لفظ یاد نہیں رہا تھا، اس لیے درمیان میں ہم نے اپنی طرف سے فل ان دی بلینک کا تھوڑا سا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ مکالمہ کچھ یوں ہے۔
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تم اگر کر لو بی اے پاس
تو میں لیلیٰ کو تم سے بیاہ دوں گی
خوشی سے بن جاؤں گی میں تری ساس
یہ سن کر حضرت مجنوں بولا
مجھے یہ شرط نامنظور، رونا راس
اگر یہ ہی ہے شرط وصل لیلیٰ
تو استعفا مرا باحسرت و یاس
یہ اپنی شرط نامنظور سمجھو
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
اتنا طویل مکالمہ ہم نے محض کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے درج نہیں کیا اور نہ ہی ہم یہاں ’’عشق مجنوں‘‘ کی مثنوی لکھ رہے ہیں بلکہ اس سے ہمارا مقصد ایک بہت بڑی تحقیق کا ذکر کرنا ہے جو میاں مجنوں سے شروع ہو کر آج کے ’’مجانین‘‘ یعنی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں اور صحرائے نجد سے لے کر بمقام پاکستان شہر اسلام آباد تک پھیلا ہوا ہے۔
اس مکالمے کے بارے میں تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضرت اکبر الہ آبادی نہایت ضعیف راوی ہیں، اس قسم کے فرضی مکالمے ان کے ہاں اکثر مل جاتے ہیں اور آخری عمر میں تو بہت زیادہ ضعیف ہو گئے تھے اور یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ اس زمانے میں صحرائے نجد یا اس کے آس پاس کوئی کالج تھا یا نہیں کیونکہ بغیر کالج کے میاں مجنوں سے اس کی نہ ہونے والی ساس کا یہ مطالبہ ہی غلط تھا لیکن میاں مجنوں کے بارے میں ہمیں اور بہت ساری جانکاریاں حاصل ہیں اور پھر وہ ہمارے ’’ہم زلف‘‘ بھی لگتے ہیں کیونکہ سنا ہے کہ لیلیٰ بھی کنڈولیزا رائس کی طرح اپنے وقت کی بہت بڑی اور مستند ’’کلوٹن‘‘ تھی۔
چنانچہ ہماری ہی طرح مجنوں میاں کے بارے میں بھی اس وقت کے علمائے کرام اور فضلائے عظام نے فیصلہ دیا تھا کہ اس کی بینائی میں بھی کچھ خلل تھا اور ’’دماغ‘‘ میں بھی کوئی ’’لوچا‘‘ یعنی اس کی بصارت اور بصیرت یعنی ’’آئی سائٹ‘‘ اور ’’آئی کیو‘‘ دونوں میں کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ تھا اور اس کا شمار اس وقت کے ’’ڈی فیکٹیوپیسز‘‘ میں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ مذہب عشق کے بانی اور عشاق عالم کے امام اول کا معاملہ ہے۔
ہم بھی چونکہ عشق کے چھوٹے موٹے طرف داروں میں سے ہیں، دن رات تحقیق و تفتیش کے نئے نئے جھنڈے گاڑتے رہتے ہیں اگر کوئی چیونٹی بھی اپنے منہ میں روٹی کا کوئی ریزہ یا خشخاس کا دانہ بھی لے جارہی ہو تو اتنی زیادہ تحقیقی و تفتیشی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں کہ جیسے
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس چیونٹی اور اس کے ’’مال و اسباب‘‘ کی تحقیق و تفتیش اتنی ماہرانہ پیشہ ورانہ اور شریفانہ انداز میں کی جاتی ہے کہ بعض اوقات تو چیونٹی خود ہی چیخنے لگتی ہے کہ ہاں میں خودکش حملہ آور ہوں ۔ کل کے بارے میں یہ بڑی خبر آتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک بہت بڑا اور تباہ کن حملہ ناکام بنا دیا، چنانچہ ان تحقیقی و تفتیشی اداروں کی روزانہ صحبت نے ہمیں بھی اچھا خاصا محقق اور تفتیشر بنا دیا ہے مثلاً ہم کسی سیاسی لیڈر کے کسی چمچے کو دیکھ کر ہی اس کے سوئس اکاؤنٹ کی تفصیل بتا سکتے ہیں ۔
کسی وزیر کے کسی دور پار کے عزیز یا عزیزہ کے جنازے کا اژدہام دیکھ کر ہم ٹھیک ٹھیک بتا سکتے ہیں کہ خود اس وزیر کا جنازہ کتنے افراد پر مشتمل ہوگا، کسی منتخب نمایندے کی تعمیرات سے ملک کی تخریبات کا اندازہ تو کوئی بچہ بھی لگا سکتا ہے لیکن ہم ایک روڈ دیکھ کر اس کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بتا سکتے ہیں، اور یہ تو اپنے پیر و مرشد کا معاملہ تھا بلکہ ہم بتا چکے ہیں کہ ان سے ہمارا رشتہ صرف مرشد اور مرید کا نہیں بلکہ ایک اور رشتہ بھی ہے جیسے ہم زلف یا معشوقہ ہم رنگ کا رشتہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہماری آبنوسی حسینہ اور لیلیٰ ہماری معلومات کے مطابق جڑواں بہنیں ہیں لیکن ایک نے پیدائش میں ذرا جلدی کی اور دوسری نے حضرت منیر نیازی کی طرح دیر کر دی ہے۔
اس تمہید اور نیت باندھنے کے بعد اب اصل معاملے کی طرف آتے ہیں اور اس مشہور و معروف ’’مجنونی‘‘ قول سے ابتدا کرتے ہیں کہ لیلیٰ رابہ چشم مجنوں یعنی لیلیٰ کو مجنوں کی آنکھ سے دیکھو اور یہ سن کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ جب مجنوں صحرائے نجد کے ایک ببول کے ’’گھنے‘‘ سائے میں آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو اپنے سارے ’’مراتب و مقامات‘‘ تو اس نے رحمان بابا کو سونپ دیے۔ خود رحمان بابا نے ایسا کہا ہے کہ اپنی آنکھیں ہمیں ڈونیٹ کر دی تھیں، وہی آنکھیں جن سے وہ لیلیٰ کو دیکھتا تھا اور ہم کنڈولیزا رائس کو دیکھا کرتے ہیں۔ وصیت کے الفاظ بھی ہمیں یاد ہیں کہ
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دو نیناں رہنے دو موہے پیا ملن کی آس
اصل چیز حسن یا گورا پن نہیں ہے بلکہ عشق ہے اور عاشق کی آنکھیں ہیں، اور ایسا ہم نے خود انھی آنکھوں سے دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں ،کیسی کسی کالی کلوٹی لیلاؤں کو مجنوں لوگ کس کس نظر سے دیکھتے ہیں، مثلاً عظیم بھٹو کو اور ہمارے عمران خان کو آپ لیلیٰ فرض کریں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ سارا حسن عاشق کی آنکھوں میں ہوتا ہے نہ کہ معشوق کے روپ و رنگ میں، جناب عمران خان تو ابھی تازہ تازہ لیلیٰ ہیں لیکن بھٹو کو زمانہ ہو گیا لیکن اس کے عاشق اب بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ پورے ملک کو روٹی کپڑا مکان دیں گے۔
دنیا بھلے ہی کچھ بھی کہیے اس کی پارٹی کو پارٹی کے بجائے شاہی خاندان قرار دے، پارٹی کے اندر کبھی الیکشن نہ ہونے کا ذکر کر کے آمریت و جمہوریت کے راگ الاپے لیکن عشاق کی آنکھیں کسی کو نہیں دیکھ پاتیں۔ کالی ہو کلوٹی ہو لیلیٰ تو لیلیٰ ہوتی ہے اور اسے ہمیشہ مجنوں کی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔
عمران خان کے بارے میں تو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پرانے پاکستان کی جگہ اب بھی نیا پاکستان بنائے چلے جارہے ہیں یہاں پر ہماری سمجھ میں تھوڑا سا لوچا پیدا ہو جاتا ہے لیکن خیر ہمیں تو بتانا یہ تھا کہ عشق کے لیے معشوق میں حسن ضروری نہیں بلکہ عشق اور عاشق صادق ہو تو لیلیٰ کتنی ہی کالی کلوٹی کیوں نہ ہو چندے آفتاب چند ماہتاب بن جاتی ہے بلکہ اب تو ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ مجنوں کی وہ آنکھیں صرف ہمیںنہیں بلکہ پورے پاکستان کو لگائی گئیں ہیں۔