Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

شکریہ خانم تیرا بہت بہت شکریہ

$
0
0

ویسے تو اس دنیا میں ایسی چیزیں بہت ساری ہیں جن کی وجہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہماری جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے مثلاً لیڈر ہیں ان کے چمچے ہیں پھر چمچوں کے چمچوں کے چمچے ہیں اینکر ہیں۔

اور پھر ان اینکروں کے طفیل بالکل تھوک کے حساب سے دانشور تجزیہ نگار اور ماہرین ہیں مطلب یہ کہ ہماری جان کو عذاب میں ڈالنے کے لیے اس دنیا میں عذابوں کی کمی نہیں ہے لیکن تازہ ترین فتنہ جو ہمارے اعصاب پر صرف سوار ہی نہیں پیر تسمہ پا بنی ہوئی ہے وہ ’’شکریہ خانم‘‘ ہے ، پھر سو خوب صورتیوں کی ایک خوب صورتی تو مونث ہونے کی ہے یہ تو پھر بھی ’‘شکریہ خانم‘‘ ہے۔ شاعر لوگ تو موت جیسی بھیانک چیز کو بھی مونث ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں

موت بھی اس لیے گوارا ہے
موت آتا نہیں ہے آتی ہے

یہ شکریہ خانم جسے ہم نے ابھی تک دیکھا نہیں لیکن دیکھنے کی ہوس ہے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے اسے ہم نے ابھی صرف سنا ہے لیکن ’’سنا‘‘ بھی ایسا کہ اس پر ’’دیکھنا‘‘ ہزار مرتبہ قربان ہو جائے واہ کیا سنا ہے ایسا سنا ہے ایسا سنا ہے کہ سن ہو کر رہ گئے اور سارے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی اور منہ سے بے اختیار نکلا

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

یہ شکریہ خانم آج کل ہمارے پانچوں بلکہ جتنے بھی حواس ہمارے ہیں ان سب پر چھائی ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے بھی ہم سے دل چسپی ہے کیونکہ جب بھی کسی کو ٹیلی فون کرتے ہیں بلکہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کی آواز سنائی دیتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان بھر کے سارے ٹیلی فون لائنوں پر اس کی نگاہ لگی ہوئی ہے جہاں ہم نے کوئی نمبر ڈائیل کیا اور اس کی آواز کانوں میں رس ٹپکانے لگی، دھیان نہیں دیا ہے بلکہ دھیان دینے کا موقع ہی کہاں ہم تو آواز سن کر ہی پتھر کے ہو جاتے ہیں۔

کانوں کے سوا، پھر کہاں کی سمجھ اور کہاں کی فہم، ایسے کھو جاتے ہیں بلکہ وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمیں خود ہماری خبر نہیں آتی، صرف آخر میں شکریہ کا لفظ کانوں ہی میں رہ جاتا ہے اس لیے ہم نے اس کا نام اپنی طرف سے شکریہ خانم رکھا ہوا ہے کیا بتائیں جب وہ اپنی سریلی جلترنگ جیسی آواز میں نہایت ہی میٹھے اور دیسی گھی بنی ہوئی مٹھائی جیسے لہجے میں شکریہ کہتی ہے تو مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری وہ تو شکریہ کہہ کر بلکہ ’’مار کر‘‘ چلی بھی جاتی ہے اور کافی دیر تک ہمارے چراغوں میں روشنی نہیں ہوتی، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ بار بار کوئی نمبر ڈائل کرتے رہیں چاہے وہ کسی کالے چور ہی کا نمبر کیوں نہ ہو، مگر واں ایک شکریہ ترے سب کے جواب میں ارے خدا کی بندی یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو، ہم لاکھ کہتے ہیں کہ ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ابھی ابھی تو آئی ہو خوشیاں ساتھ لائی ہو لیکن دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے کیوں کہ وہ صرف سناتی ہے سنتی بالکل بھی نہیں

کیا کہا پھر سے کہو ہم نہیں سنتے تیری
آپ سنتے بھی نہیں ہم کو سناتے بھی نہیں

دراصل ہمارے ساتھ یہ پرابلم صرف اسی ایک ’’شکریہ خانم‘‘ کا نہیں جسے پاکستان کی تمام ٹیلی فون کمپنیوں نے شاید کسی خاص مٹیریل سے بنوا کر ہمارے اعصاب پر سوار کیا ہوا ہے، بہت عرصے پہلے بھارت میں بھی ہمیں ایسا ہی ایک روگ لگا تھا امرتسر سے ریل میں بیٹھتے ہی اچانک کچھ کھڑ بڑ ہوئی اور پھر … کیا بتائیں کہ کیا ہوا شاید ہم ہوا میں اڑے یا ستاروں میں پہنچے یا دور کسی کہکشاں پر جا اترے، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا شاید ہم رہے ہی نہیں یا شاید عابدہ پروین ہو گئے تھے کہ

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشین رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

بعد میں وقفے وقفے سے ہر اسٹیشن پر اس نے ہم پر اپنی آواز کے ’’ڈرون‘‘ حملے جاری رکھے، دلی اسٹیشن پر ہمارے ساتھیوں اور مہمان داروں نے ہمیں بڑی منت سماجت کر کے ٹرین سے اتارا ورنہ ہم تو تہیہ کیے ہوئے تھے کہ بس بہت ہو گیا اس کم بخت ’’کڑوی کسیلی‘‘ نے ہمارے حلق تک کڑواہٹ بھر دی ہے اب باقی زندگی‘ اس ’’کرپیا رانی‘‘ کی ’’آکاش وانی‘‘ سے اپنی تنہائی کا مداوا کریں گے۔جس کام کے لیے گئے تھے وہ ہو گیا اور وہاں رہنے کے جتنے دن تھے وہ بھی گزار لیے تو ’’کرپیا رانی‘‘ سے وابستگی اور بھی پکی ہو گئی دلی سے بھوپال اور پھر بھوپال سے دلی تک بھی اسی ’’کرپیا رانی‘‘ کی آواز اور ہونٹوں کے سرابوں میں دشت تنہائی میں خود کو بہلاتے رہے آخر کار وہ دن بھی آگیا جب دلی سے پھر امرتسر کا سفر ایک ’’رقیب روسیاہ‘‘ کی طرح کھڑا ہو گیا، گویا ’’شام فراق‘‘ کا آغاز ہونے والا تھا۔

اتنے دنوں میں ہم نے دیکھ لیا کہ دلی شہر کے سارے بھکاری فقیر اور بے گھر بے در لوگ دن بھر شہر میں اپنا دھندہ کرنے کے بعد شب بسری کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتے تھے کیوں کہ وہاں ویٹنگ روموں، برآمدوں ، کوریڈروں اور بے شمار اوور ہیڈ برجوں کے اوپر تلے پڑے رہنے پر کوئی پابندی نہیں کیوں کہ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ کوئی مسافر کسی ٹرین کا انتظار کر رہا ہے یا یہ لوگ شہروں میں دن گزارنے کے بعد اپنے اس ’’گھر‘‘ میں رات گزارنے آئے ہیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22341

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>