تربت کے علاقے گوگدان میں سہراب ڈیم کی تعمیر پرکام کرنے والے مزدور اپنے کیمپ میں سو رہے تھے کہ ہفتہ11اپریل 2015 رات 2 بجے کے لگ بھگ ’’آزادی کی جنگ‘‘ لڑنے والے سورماؤں نے ان سوئے ہوئے مزدوروں پر فائرنگ کردی، اس بہیمانہ فائرنگ میں 20 مزدور جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس کیمپ کی حفاظت پر معمور 8 لیویز اہلکار مزدوروں کی حفاظت کرنے اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گئے محافظوں کی غیر موجودگی میں ’’مجاہدین آزادی‘‘ نے بڑی بہادری سے گہری نیند میں سوئے ہوئے مزدوروں پر فائر کھول دیا اور 20 مزدوروں کو قتل اور 3 کو زخمی کردیا۔
بلوچستان کی ایک عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ اس تنظیم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کے سامراجی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ترجمان نے اس منصوبے پر کام کرنے والی تنظیم این ڈبلیو او کو وارننگ دی ہے کہ وہ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے مزدور فراہم نہ کرے۔
اس دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے 20 مزدوروں میں 16 کا تعلق پنجاب کے دو شہروں رحیم یار خان اور صادق آباد سے ہے اور 4 کا تعلق سندھ کے ضلع حیدر آباد سے بتایا جاتا ہے۔ 20 مزدوروں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو بھیج دی گئیں جہاں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ زخمی مزدوروں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ اور زخمیوں کو 50-50 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔
اخبارات میں ایک دلدوز تصویر چھپی ہے جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک مقتول مزدور کے جنازے کو کندھا دیے ہوئے ہیں۔ یہ تصویر اس قدر دلدوز ہے کہ اس میں بلوچستان کی جنگ آزادی کی پوری تاریخ نظر آتی ہے۔ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جنگ آزادی کو کندھا دیے نظر آرہا ہے۔
بلوچستان عشروں سے جس آگ میں جل رہا ہے بدقسمتی سے اس کا ایندھن غریب طبقات ہی بن رہے ہیں۔ تربت میں سہراب ڈیم پر کام کرنے والے ان مزدوروں کا تعلق اگرچہ پنجاب اور سندھ سے ہے اور یہی تعلق ان کے قتل کا سبب بن گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہزاروں میل دور رحیم یار خان اور صادق آباد سے یہ مزدور کیا جنگ آزادی کے خلاف جنگ کرنے آئے تھے یا تربت میں راول ڈیم پر کام کرنے آئے تھے؟
بلوچستان کی جنگ آزادی کے مجاہدین کو تو یہ علم ہے کہ گوادر سے کاشغر تک بننے والی اقتصادی راہداری سامراجیوں کا منصوبہ ہے اور اس کے مفادات کے لیے یہ راہداری بنائی جا رہی ہے لیکن رحیم یار خان اور صادق آباد سے آنے والے ان مزدوروں کو بالکل یہ پتہ نہیں کہ گوادر سے کاشغر تک بننے والی راہداری کا مقصد کیا ہے اور سامراج کیا ہوتا ہے یہ بے چارے تو اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنا گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر تربت مزدوری کرنے کے لیے آئے تھے ان کا بس یہی قصور تھا۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے 4 مزدور بھی تربت مزدوری کرنے کے لیے آئے تھے مجاہدین آزادی سے لڑنے کے لیے آئے تھے نہ ان سادہ لوح مزدوروں کو یہ پتہ تھا کہ جنگ آزادی یا حقوق کی جنگ کیا ہوتی ہے وہ تو اپنی غربت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے جنھیں قتل کرکے ان کی لاشوں کو ان کے بیوی بچوں کے پاس بھیج دیا گیا۔ کیا ان معصوم اور بے گناہ مزدوروں کو معلوم تھا کہ انھیں ایک دن گولیوں سے بھون دیا جائے گا اور ان کی لاشوں کی سوغات ان کے بیوی بچوں، ماں باپ کے پاس بھیجی جائے گی؟
اس بہیمانہ قتل عام پر ہمارے حکومتی اکابرین نے دکھ کے ساتھ مذمت کا بھی اظہار کیا ہے۔ کیا ان بے گناہوں کی شہادت پر صرف دکھ کا اظہار کرنے سے حکومت کی ذمے داری پوری ہوجاتی ہے؟ سہراب ڈیم کی تعمیر کے لیے رحیم یار خان، صادق آباد اور حیدر آباد سے آنے والے ان مزدوروں کا تعلق غریب اور نادار طبقات ہی سے تھا اور انھیں قتل کرنے والوں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہوگا جو لوگ عوام کے حقوق نہیں دیتے وہ مزدور ہیں نہ کسان،وہ سردار ہیں، نواب ہیں، جاگیردار ہیں، صنعتکار ہیں، حکمران ہیں، بیوروکریسی ہے وہ محفوظ ہے مزدور مارے جا رہے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں لڑی جانے والی جنگ یا دہشت گردی حقوق کی جنگ ہے یا جنگ آزادی اگر حقوق کی جنگ ہے تو اس میں تشدد کا عنصر کہاں سے آگیا اگر آزادی کی جنگ ہے تو آزادی کی جنگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آزادی کی جنگ عوام لڑتے ہیں اور اس جنگ میں ہر زبان، ہر علاقے، ہر قومیت کے عوام کو ساتھ لیا جاتا ہے یا ان کی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں جس طرح مذہبی انتہا پسند اسلام کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اسی طرح آزادی کی جنگ لڑنے والے غریبوں اور مزدوروں کو قتل کر رہے ہیں۔ کیا غریبوں مزدوروں کو قتل کرنا جنگ آزادی ہے؟ اس ملک کے عوام کو بلاتفریق زبان رنگ نسل مسلک قومیت اس ملک کے جاگیردار صنعتکار سردار نواب خان 68 سال سے غلام بناکر انھیں لوٹ رہے ہیں۔ یہ عوام کے حقیقی دشمن ہیں جو محلوں کوٹھیوں بنگلوں میں عیش عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ فراڈ جمہوریت کے نام پر 68 سال سے اقتدار میں ہیں ان عوام دشمنوں سے چشم پوشی کرکے خود اپنے طبقے کے غریب لوگوں کو جنگ آزادی کے نام پر قتل کرنا بالواسطہ یا بلاواسطہ ایلیٹ طبقات کی حمایت نہیں ہے؟
بلوچستان میں بلوچوں کے حقوق کے خلاف طاقت کا جو استعمال کیا جا رہا ہے اس کا سلسلہ ایوب خان، بھٹو سے مشرف کے دور تک پھیلا ہوا ہے اور پاکستان کے اہل دانش، اہل فکر اور اہل قلم اس ظلم کے خلاف ہر دور میں آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن جب ’’مجاہدین آزادی‘‘ غریب طبقات مزدوروں، کسانوں کو جرم بے گناہی میں قتل کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر اہل دانش، اہل فکر، اہل قلم حیران ہوکر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا آزادی کی جنگیں یا حقوق کی جنگیں بے گناہ غریب طبقات کا خون بہا کر لڑی جاتی ہیں؟
تربت میں پنجاب اور سندھ کے جو مزدور کام کر رہے تھے وہ تعمیری تھا اور تربت کے عوام کے مفاد میں تھا اس کا اقتصادی راہداری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چین کی مدد سے گوادر سے کاشغر تک جو راہداری تعمیر کی جا رہی ہے اس پر مختلف حلقے سخت اعتراض کر رہے ہیں اور اسے جانبدارانہ قرار دے رہے ہیں اس منصوبے کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے بجائے غریب بے گناہ مزدوروں کو نیند میں قتل کرنے سے عوام کی حمایت حاصل ہوگی؟
The post مزدوروں کا قتل،تربت کے سانحے کے مضمرات appeared first on ایکسپریس اردو.