مسجد کے امام نے جیسے ہی سلام پھیرا فوراً ہی ایک مسکین صورت شخص کھڑا ہو گیا اور ابھی نمازیوں کو سلام کر کے اپنا مدعا بیان کرنا شروع کیا ہی تھا کہ آوازیں بلند ہونے لگیں باہر جاؤ باہر۔ مسجد میں مانگنا جائز نہیں، گناہ ہے مسجد سے باہر جا کر مانگو۔ مانگنے والا بولا میرے بچے بھوکے ہیں راشن مانگنے آیا ہوں کوئی میری مدد کرے، اور کھانا دلا دے۔
جواب میں پہلے سے زیادہ آوازیں بلند ہوئیں باہر نکلو، دعا مانگنے دو، ایک منفرد آواز ابھری کہ ہم تو خود اللہ سے مانگنے آئے ہیں اور تم ہم سے مانگ رہے ہو، ہمیں دعائیں اللہ سے مانگنے دو اور باہر جا کر مانگو۔
یہ مناظر مساجد میں پیش امام کے سلام پھیرتے ہی اکثر نظر آتے ہیں کہ امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہی کوئی ضرورت مند کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی ایک صدا کے جواب میں متعدد نمازیوں کی آوازیں اسے باہر نکالنے کے لیے بلند ہونے لگتی ہیں اور بعض اسے سختی سے جھڑک بھی دیتے ہیں ۔
جس سے ڈر کر مانگنے والا وہیں بیٹھ جاتا ہے یا باہر جانے کی کوشش کرتا ہے مگر دیر سے جماعت میں شامل ہونے والوں کے باعث اسے باہر جانے کا راستہ نہیں ملتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض نمازیوں کے سخت جملوں کے باعث مانگنے والا خوفزدہ ہو گیا اور باہر جانے کے بجائے وہیں کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے لگا اور مانگنا بھول گیا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی سخت دل نمازی مانگنے والے پر اس قدر مشتعل ہو گیا کہ مانگنے والے کو گریبان سے پکڑ کر مسجد کے باہر کھینچ لایا جس پر نمازی بھی مانگنے والے کے حق میں اور مخالفت میں تقسیم ہو گئے اور مسجد میں جھگڑا ہوتے ہوتے بچا۔
مساجد کے باہر جب نمازی نماز کے بعد نکلتے ہیں تو مانگنے والوں کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں جو صدا نہیں لگا سکتے ان کے ہاتھوں میں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی دوائیں لکھے ہوئے پرچے ہوتے ہیں تو کچھ کے گلے میں لکھی ہوئی تحریریں اور کچھ صرف ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان مانگنے والوں میں کچھ پیشہ ور بھکاری بھی کھڑے اور بیٹھے ہوتے ہیں جو آئے دن یا مستقل نظر آتے ہیں مگر اب ایسے سفید پوش بھی مانگنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں جن کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اور خیرات نہ دینے والا بھی کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سرکاری دفاتر کے قریب واقع مساجد کے باہر مانگنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے کیونکہ وہاں رشوت لے کر نماز پڑھنے والے بھی آتے ہیں اور اپنی اوپر کی آمدنی سے کچھ نہ کچھ مانگنے والوں کو بھی دے دیتے ہیں جس سے مانگنے والوں کا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور دینے والے بھی شاید ایسا کر کے سمجھتے ہیں کہ اللہ راضی ہو جائے گا۔ ایک بڑی مسجد کے سائیڈ والے دروازے کے پاس ایک برقعہ پوش خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو کسی اسکول کے یونیفارم میں تھے اور ان کے ہاتھ میں موجود کاغذ پر لکھا تھا کہ ہمیں اسکول فیس ادا نہ کرنے پر اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔
بعض خواتین اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ راشن دلانے کی استدعا کرتی نظر آتی ہیں۔ کچھ دوائیں دلانے، اسپتال کا بل ادا کرنے کی اپیل کرتی ہیں۔ ان مانگنے والوں میں نوجوان بھی نظر آتے ہیں جو اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کے ساتھ التجا کرتے نظر آتے ہیں جنھیں دیکھ کر بعض نمازی طعنے دیتے ہیں شرم نہیں آتی مانگتے ہو۔ جوان ہو، کما کر انھیں کھلاؤ۔
اب برقعے میں ایسی خواتین بھی ایک دو بچوں کے ساتھ کھڑی نظر آئیں گی جو خود خاموش رہیں گی مگر ان کے ساتھ موجود بچے فر فر بولتے نظر آئیں گے کہ ہمارے ہاں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ باپ مر چکا ہے یا بیمار ہے۔ ہمارے پاس دوائیں اور راشن نہیں ہے۔ بچے اگر خاموش ہوں تو زمین پر بیٹھی ماں کی آواز آئے گی کہ میرے بچے بھوکے ہیں کھانا دلا دو۔ کھانا بھی اب سستا نہیں رہا اس لیے دینے والے پانچ کا سکہ یا دس بیس کا نوٹ دے کر کچھ ان کی مدد کر دیتے ہیں۔
بعض مسجدوں کو مانگنے والوں نے مستقل ٹھکانہ بھی بنا رکھا ہے جہاں بے پردہ دار خواتین بچوں کے ہمراہ بیٹھی نظر آتی ہیں جہاں بیٹھے بیٹھے وہ اپنے کمسن بچوں کو دودھ پلاتی اور سالن رکھی ہوئی روٹی بھی کھلاتی موجود رہتی ہیں اور ہفتوں ایک ہی مسجد کو ٹھکانہ بنائے رکھتی ہیں۔
یہ وہ خواتین ہیں جو گزشتہ سالوں کے سیلاب میں بے گھر ہو کر کراچی آئیں بلکہ سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے انھیں اپنے خاندانوں سمیت بلوائی تھیں مگر انھیں کراچی میں رہنے کو فلیٹ ملے نہ گھر بنانے کو پلاٹ۔ ایسے خاندان سپرہائی وے پر جھونپڑیوں میں ایک عرصے تک نظر آئے جن میں کچھ حکومتی وعدوں سے مایوس ہو کر لوٹ گئے اور غربت کے ماروں نے کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ مساجد کے باہر بھیک مانگنے والی خواتین وہ ہیں جن کے مرد خود کوئی کام نہیں کرتے اور بیوی بچوں کو مساجد کے پاس خیرات مانگنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور اس طرح انھیں خوراک اور نشہ کرنے والوں کو منشیات خریدنے کی رقم میسر آ جاتی ہے۔
کراچی کی چورنگیوں اور سگنلز پر نوعمر لڑکیاں اور چھوٹے بچے ہاتھوں میں وائپر لیے نظر آتے ہیں جو گاڑی رکتے ہی بوتل میں موجود پانی کی پھوار فرنٹ اسکرین پر مار کر منع کرنے کے باوجود وائپر سے صاف کرنے لگتے ہیں اور ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جب کہ ان جگہوں پر تیسری جنس بھی خیرات کے لیے موجود ملتی ہے۔
گلشن اقبال کی ایک بڑی مسجد سے ایک مانگنے والے کو جبری باہر نکالنے پر بعض نمازیوں نے مذکورہ شخص کو اس سختی سے روکا تو وہ بولے کہ امام مانگنے والوں کو باہر جانے کا کہتے ہیں مگر وہ نہیں جاتا تو نمازیوں کا بھی کام ہے کہ ایسے لوگوں کو مسجد میں مانگنے نہ دیں کیونکہ مسجد میں مانگنا سخت گناہ ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔
ان مانگنے والوں میں مستحق بھی ہوتے ہیں اور پیشہ ور بھکاری بھی اور کچھ معذور بھی اور خیرات مانگنے کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے رمضان المبارک میں بڑے شہروں میں یہ تعداد بے حد بڑھ جاتی ہے اور ملک بھر سے بھکاری اسے سیزن سمجھ کر آتے ہیں اور عید کما کر واپس چلے جاتے ہیں تو کچھ مستقل بھی آباد ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں بھیک منگوانے والوں کی منظم مافیا بھی موجود ہے جو کمائی کے مقامات پر اپنے معذور بھکاریوں کو لا کر بٹھاتے اور واپس لے جاتے ہیں مگر اس مافیا کے خلاف حکومتی کارروائی نہیں ہوتی اور کبھی کبھی پولیس بھکاریوں کو پکڑ کر تھانے لے جا کر تنبیہہ کر کے چھوڑ دیتی ہے بھیک مانگنے والوں میں ضرورت مند سفید پوشوں کی بڑھتی تعداد ملک میں غربت و بیروزگاری کا واضح ثبوت ہے مگر اس کی وجوہات جاننے اور دور کرنے کی فکر، اچھا کھانا نہ ہونے کی شکایت کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کو ہے نہ سابق صدر زرداری کو نہ 12 طعام کھلانے والے مولانا کو، مگر یہ عوام ہی ہیں جو اللہ سے مانگنے مسجد آنے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مانگنے والوں کی صدائیں بھی پوری کر دیتے ہیں مگر غربت، بیروزگاری اور بگڑتی معاشی صورتحال میں بھکاریوں کی بڑھتی تعداد سے لاعلم حکمرانوں کے منہ سے خوشحالی کی باتیں پھر بھی بند نہیں ہوتیں۔
The post مانگنے والے کہاں جائیں appeared first on ایکسپریس اردو.