پچھلے کسی کالم میں، میں نے تھوڑا سا ڈر ڈر کر اس موضوع پر کچھ ایسے ’’سیاسی انداز‘‘میں بات کی تھی کہ اگر گلے پڑ گئی تو ایک ’’اچھے اور سچے‘‘ لیڈر کی طرح آسانی سے صاف مکر جائیں گے کہ ہمارا مطلب بینگن نہیں آلو تھا لیکن مخالفوں نے اسے خواہ مخوا بینگن کا بھرتہ بنا دیا، لیکن اس ’’ردعلم‘‘ کا ردعمل بڑا حوصلہ افزا آیا۔ صرف ہم ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے انسان کے ڈسے ہوئے اور بھی بہت ہیں یعنی
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں۔
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
اصل میں اس کاروبار یا دھندے بلکہ انڈسٹری سے جسے تعلیم یا پڑھائی لکھائی کہتے ہیں، اتنے زیادہ لوگوں کی روزی روٹی بندھی ہوئی ہے، اتنے زیادہ نکمے نکھٹو اس کا دیا کھاتے ہیں اور اتنے لوگوں کے چولہوں سے لے کر سوئس بینکوں تک کے کام چل رہے ہیں کہ ان کو چھیڑنا مکھیوں کے چھتے کو ڈھیلا مارنے کے برابر ہے ورنہ من ہی من سب جانتے ہیں کہ اے باد صبا ایں ھمہ آوردہ تست ۔۔۔ اے روشنی علم تو برمن بلا شدی، آپ تو جانتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختون خوا عرف کے پی کے میں موجود حساس، قانون نافذ کرنے اور تحقیق و تفتیش میں بے پناہ مہارت رکھنے والوں کی صحبت صالح اور پشتو اکیڈمی کی شجر سایہ دار نے ہمارے اندر تحقیق کی ایک ایسی اضافی رگ پیدا کی ہوئی ہے کہ بات بات پر پھڑکنے لگتی ہے چنانچہ جب ہم نے تحقیق کی اپنی رگ پھڑکائی تو اس انسان تک پہنچ گئی جو اس سارے فساد کی جڑ تھا۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب انسان صرف ایک عدد پیٹ رکھتا تھا اور جب جہاں اور جیسے چاہو بھر لیتا تھا۔ پھر کسی درخت کے سائے میں پڑ کر اس وقت تک اینڈتا رہتا جب تک دوبارہ بھوک نہ ستاتی۔ فراغت آرام اور بے غمی کا سنہرا دور تھا، کچھ لوگ اسے جنت کا زمانہ بھی کہتے ہیں کیونکہ
بہشت آں جا کہ آزادے نہ باشد
کسے رابا کسے کارے نہ باشد
پھر نہ جانے کیوں؟ کیسے؟ اور کب ایک بدبخت شری و فسادی ناہنجار و نابکار انسان نے پتھروں کی رگڑ سے آگ دریافت کی جو انسان کی پہلی ایجاد ، دریافت اور علمی کارنامہ تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہی دو چیزیں ’’آگ اور علم‘‘ انسان کی جان کا روگ بنی ہوئی ہیں اور یہ آگ اور علم کا چسکہ ایسا چمٹ گیا کہ
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
آگ کو ترقی دے کر اس نے ’’نار حامیہ‘‘ یعنی ایٹم تک پہنچا دیا اور علم کو گلی کوچوں تک پھیلا دیا اور انسان کو ان دونوں عذابوں یا آگوں یا آتشوں کے درمیان کھڑا کر کے ’’تندوری‘‘ بنا دیا۔ یہ تو انسان کی خوش قسمتی ہے کہ کچھ لوگ اب بھی یہاں وہاں کونے کھدروں میں بچے ہوئے ہیں جو زمین جوتتے ہیں، مویشی پالتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں ورنہ اگر سارے ہی عالم فاضل اور پڑھے لکھے ہوتے تو بھوکوں مر چکے ہوتے کیونکہ علم نے اسے بہت کچھ سیکھا دیا ہے۔
مشینیں، کرنسیاں، ہیرے، موتی، موٹر لاریاں، کارخانے، سڑکیں، کئی منزلہ عمارتیں حتیٰ کہ دولت سے بھرپور بینک، ہوا میں اڑنے والے ذرائع مواصلات سب اسے دے دیا ہے یعنی
خوش نصیب اور یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
لیکن ان مشینوں، کارخانوں، موٹروں، ہوائی جہازوں، بلڈنگوں، کرنسیوں، بینکوں اور ہیرے موتی کو اکٹھا کر کے ایک بھی روٹی نہیں بنائی جا سکتی۔ روٹی کے لیے اسے پھر بھی اس جاہل کو ڈھونڈنا پڑے گا جو اس خطرناک زیور علم سے آراستہ نہیں ہے، گوشت ، دودھ، سبزی، انڈے، مرغی سب کے سب پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس زہریلی روشنی سے بچا ہوا ہو کیوں کہ جہاں کسی پر روشنی پڑی وہ دانا و بینا ہو گیا اور دانا و بینا عالم فاضل پڑھے لکھے صرف وہ چیزیں پیدا کر سکتے ہیں جسے انسان کھا نہیں سکتا بلکہ انسان کو کھاتی ہیں۔
آپ خود ہی بتائیں ایسے میں ہم اگر مدح لکھیں گے تو کس کی لکھیں گے اور ہجو کریں گے تو کس کی کریں گے۔ سو ہم نے ایسا ہی کیا ہے اور ایسا ہی کر رہے ہیں، ’’درمدح جہالت و رد علم‘‘ اس میں ہم نے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان آج زندہ ہے تو ’’جہالت اور جاہلوں‘‘ کے طفیل زندہ ہے ورنہ علم نے تو اسے گور کنارے پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔
آخر میں ہم نے عرض کیا ہے کہ کاش یہ سب کچھ بنانے کے بجائے انسان کا آپریشن کر کے کسی نہ کسی طرح اسے پیٹ کے اس ام الامراض سے بچا لیتا تو کتنا اچھا ہوتا کیونکہ اپنی تمام تر ایجادات و اختراعات کمالات و ہنرات، پڑھائی لکھائی اور اونچائی کے باوجود اس کا ہاتھ آج بھی جاہلوں اور ان پڑھوں کے ہاتھ کے نیچے پھیلا ہوا روٹی مانگ رہا ہے۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کہ کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
اور یہ سوال بڑا اہم سوال ہے جو جاہلیت کی طرف سے کیا گیا ہے، چونکہ علم کے پاس ہر سوال کا جواب ہونا چاہیے لہٰذا اتنی صدیوں علم اور کتابوں نے اگر کیا ہے تو کیا کیا ہے؟ اتنی مشینیں بنالیں، پانی میں گھسے ، ہوا میں تیرے، کرنسیاں بنائیں، سونا دریافت کیا، جواہرات کھودے، حتیٰ کہ بغیر کسی وسیلے کے اپنی آواز اور تصویر ہزاروں میل تک پہنچائی، ستاروں پر کمند ڈالی ، لیکن انسان کی اس چھوٹی سی چار حرفی ضرورت روٹی کو پورا نہیں کر سکے اور اس کے لیے بدستور جہالت کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔
زرعی مشینوں کی تو بات ہی نہ کریں اگر اس نے ایجاد کی ہیں تو زمین اور زمین زادوں کی بہبود کے لیے نہیں بلکہ اس کا مزید اور زیادہ استعمال کرنے کے لیے، چلیے روٹی آٹا یا گندم تو یہ پیدا نہیں کر سکتا کیوں کہ حقیقت میں یہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا صرف پیدا شدہ چیزوں کو اوپر تلے کر کے کچھ کر لیتا ہے لیکن پھر بھی انسان کے طرح طرح کے امراض کا علاج تو اس نے دریافت کیا ہے دل بدل دیتا ہے ہاتھ پاؤں بنا لیتا ہے۔
دانتوں آنکھوں اور کانوں کو درست کر لیتا ہے تو اتنی سی سرجری اور بھی کر لیتا کہ انسان اس کم بخت پیٹ کو کاٹ کر کہیں پھینک دیتا نہ ہوتا بانس نہ بچتی بانسری، پیٹ ہی نہ ہوتا تو بھوک نہ لگتی، بھوک نہ لگتی تو روٹی نہ مانگتا، روٹی نہ مانگتا تو جاہلوں کا ہاتھ اوپر اور اس کا نیچے والا نہ ہوتا، پیٹ کی جگہ اور بھی بہت کچھ فٹ کر سکتا تھا ، آخر اتنا علم جو ہے اس کے پاس، اس کی جگہ کوئی اور آلہ کوئی اور چیز فٹ کر دیتا جو تیل یا بجلی وغیرہ سے چلتی اور یہ مزے سے بغیر کھائے پیے چل رہا ہوتا اور اگر اس نے انسان کی اتنی چھوٹی ضرورت پوری نہیں کی، انسان کے اندر کی یہ پیٹ نام کی رسولی نہیں نکال پایا ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں بنا پایا ۔
خود علم ہی نے جو حکایات اور مقولات بنائی ہیں، ان میں سے ایک عرض ہے تو لمبی لیکن مختصر طورپر یوں ہے کہ کسی نے ایک شخص سے کہا کہ تم دن بھر بیکار پڑے رہتے ہو، کچھ کرتے کیوں نہیں۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے کروں گا لیکن اس سے ہو گا کیا؟ ناصح نے کہا کام کرو تو پیسہ کماؤ گے، پیسہ آئے گا تو گھر بناؤ گے اور گھر میں خواب گاہ بستر وغیرہ آئے گا اور آرام سے رہو گے۔
اس پر وہ لیٹا ہوا شخص بولا مگر آرام سے تو میں اب بھی پڑا ہوں پھر اتنا لمبا کھڑاگ پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب حضرت علم سے بھی یہ کون پوچھے کہ حضرت اگر اتنا کچھ کرنے اور ساری دنیا کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد بھی صرف ’’بھوک‘‘ ہی دے پائے ہو تو یہ ’’دولت‘‘ تو انسان کو پہلے بھی میسر تھی تم نے تیر کیا مارا ہے؟۔
The post اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی appeared first on ایکسپریس اردو.