شاید یہ عمر ہی کا تقاضا ہو گا کہ ان دنوں ہمارے خیالات کچھ ’’نیک‘‘ ہو رہے ہیں یا شاید اتنا عرصہ برے خیالات‘ برے ارادے اور بری نیت رکھ کر کچھ نہیں کر پائے تو چلو یہ دوسرا آپشن آزما لیتے ہیں، نیکی کا سب سے اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ کسی کو کچھ دیدیں۔ اب اس ’’کچھ‘‘ دیدیں میں تو ’’بہت کچھ‘‘ آ سکتا ہے لیکن اس بہت کچھ کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا کر ’’درہم و دام‘‘ سے جڑتے ہیں اور وہ تو ہم تم سب جانتے ہیں کہ
درہم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
بزرگوں نے ’’نیکی‘‘ کے بارے میں ایک تو وہ دریا والی بات کہی ہے لیکن ایک تو دریا ہم سے کافی دور ہے اور دوسرے دریا میں ڈالنے لائق جتنی بھی ’’نیکیاں‘‘ ہیں وہ ان دنوں بلدیاتی الیکشن میں ’’بزی‘‘ ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک تو ایسی نیکی کریں جس کے دل میں درہم و دام کا لالچ نہ ہو اور پھر وہ نیکی ایسی ہو جس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا بھلا ہو سکے اور ایسی صرف ایک نیکی ہے اور وہ ہے خلق خدا کو نیک نیک مشورے دینا اور وہ بھی بالکل مفت۔ سو آج سے ہم اس نیک کام بلکہ صدقہ جاریہ کی ابتداء کر رہے ہیں
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
ہم نے اپنے دل میں ٹھانی اور ہے
ویسے تو ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو ہمارے نیک مشوروں کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں سب سے زیادہ استحقاق موبائل فون بنانے اور پھر چلانے والے ہیں۔ یہاں پر آپ کو ہماری ذہانت کی داد دینا پڑے گی کہ ایسے لوگوں کے لیے صرف وہ کام پرکشش ہوتے ہیں جن میں دو پیسے کا نفع ہو۔کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس دلیل کے طور پر اس یہودی کا تاریخی بیان ہے جو اس نے کسی شخص کے یہ پوچھنے پر دیا تھا کہ تم جنت میں جانا پسند کرو گے یا دوزخ میں تو یہودی نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا کہ جہاں چار پیسے کا منافع ہو،ہم مشورے سے پہلے یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس سے موبائل فون سیٹوں کی خریداری کئی گنا بڑھ جائے گی اور وہ بھی مستقل بنیادوں پر ۔۔۔ یہ تو اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ تقریباً اسی فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو موبائل سیٹ تو خرید لیتے ہیں جن کا ایک نمبر بھی ہوتا ہے اور وہ نمبر اپنے کارڈز وغیرہ پر درج کر دیتے ہیں یا ویسے ہی بانٹتے پھرتے ہیں یا اخباروں میں چھپوا بھی دیتے ہیں لیکن کال کرنے پر فون کبھی نہیں اٹھاتے۔ کال کرنے والا دنوں تک ٹرائی کرتا رہتا ہے لیکن واں ایک خاموشی ترے سب کے جواب میں یعنی وہی کریپا رانی یا شکریہ خانم کہ آپ کے مطلوبہ نمبر سے اس وقت رابطہ ممکن نہیں‘ تھوڑی دیر بعد کوشش کریں‘ پھر یہ تھوڑی دیر بعد کی کوشش ہفتوں چلتی ہے لیکن
جانان بہ غگ راتہ او نہ کڑی
کہ د تمبے پورے ولاڑہ اوچہ شمہ
یعنی میرا محبوب میری طرف کبھی نہ دیکھے گا نہ بولے گا چاہے میں دروازے سے لگی لگی سوکھ کیوں نہ جاؤں، ظاہر ہے کہ اس سے فون کرنے والے کو تو گولی ماریئے لیکن کاروبار کرنے والا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا اگر ایسی تمام فون کالز ’’بانجھ‘‘ رہ جانے کے بجائے سرسبز ہوں تو چار پیسے کا فائدہ ہو جائے گا۔ گویا جو لوگ کال ریسور نہیں کرتے وہ نہ صرف کاروبار بلکہ خلق خدا کا بھی نقصان کرتے ہیںاور عام آدمی کا وقت برباد کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسے ہٹ دھرم کال نادہندہ کا کچھ نہ کچھ علاج تو ہونا چاہیے لیکن کیا؟ وہی تو ہم عرض کرنے چلے ہیں۔
ہمارا آج کا نیک مشورہ اسی کے بارے میں ہے ویسے کرنے کو تو کچھ بھی ممکن ہے۔ فون بنانے والی کمپنیاں جہاں ہر روز موبائل فون میں طرح طرح کی ’’خوبیاں‘‘ ڈالتی رہتی ہیں ایسی نئی نئی کہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ایسا فون سیٹ بھی مارکیٹ میں آنے ہی والا ہے جس سے آپ کھانا یا پانی منگوا سکیں گے بلکہ خطرے کے وقت ایک بٹن دبانے پر پستول یا کلاشن کوف بھی آپ کے ہاتھ پر رکھ سکے گا یا اگر ٹریفک جام ہو پارکنگ کے لیے جگہ نہ مل رہی ہو تو آپ آرام سے ایک بٹن ٹچ کر کے اپنی گاڑی سمیٹ کر اس میں گھس سکیں گے اور پھر اس فون کو جیب میں ڈال کر جہاں مرضی ہو آ جا سکیں گے۔
حیراں ہونے کی ضرورت اس لیے نہی ہے کہ اب تک جو کچھ دستیاب ہوا ہے اس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا تھا؟ چنانچہ آپ کے سیل فون میں یہ خوبی فٹ کی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی آپ کی کال ریسو نہ کرے تو آپ یہاں سے گھونسا مار کر اسے سیدھا اس شخص کے جبڑے پر رسید کر دیں اگر ایسا ’’فی الحال‘‘ ممکن نہ ہو تو اس کے ساتھ ایک اور متبادل تجویز یا نیک مشورہ بھی ہمارے پاس موجود ہے ۔۔۔ ھوالشافی: ہر فون سیٹ میں ایک عدد چماٹ فٹ ہو تو اور بھی اچھے نتائج نکل سکتے ہیں‘ جو دو تین مس کالوں کے بعد اچانک ڈز ہو جائے۔
ایک اور ترمیم شدہ بلکہ ترقی دادہ مشورہ حاضر ہے موبائل فون سیٹ میں کوئی ٹائمر کوئی ٹریکر ایسا لگایا جا سکتا ہے کہ تین کالوں کو مسلسل وصول نہ کرنے پر وہ موبائل سیٹ اسی جگہ راکھ کا ڈھیر بن جائے۔ اپنے تمام ’’مال و متاع‘‘ کے ساتھ ۔۔۔ اور اس میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے جتنے زیادہ موبائل نسٹ اور بھرشٹ ہوں گے اتنا ہی خریداروں میں روزانہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا، یہ بھی پسند نہیں آیا؟ کوئی بات نہیں ہمارے پاس مشوروں کا بھنڈار پڑا ہوا ہے۔
ہاں جب کاروبار ہی کرنا ہے تو اسٹاک میں مال تو رکھنا پڑے گا، اور یہ آخری تجویز تو بے حد پسند آئے گی کیوں کہ اس میں وارے ہی وارے اور نیارے ہی۔ نیارے ہیں کرنا صرف یہ پڑے گا کہ صرف سم کارڈ یا جتنا بیلنس ہے وہ صفر ہو جائے ۔۔۔ ذرا سوچئے ۔ ادھر کسی نے خلاف ورزی کی اور مال ’’دوستوں‘‘ کا۔اس طریقے سے جو لوگ کسی کی کال نہیں سنتے انھیں عقل آ جائے گی اور انھیں پتہ چلے گا کہ جو کال کر رہا ہوتا ہے اسے بعض اوقات کوئی ایمرجنسی بھی ہو سکتی ہے۔
The post ایک مفت مشورہ appeared first on ایکسپریس اردو.