Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

ونگز

$
0
0

سیاسی ونگز کی اصطلاح نئی نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح پاکستان میں سیاسی جماعت کے قیام کے ساتھ ہی متعارف ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دوسرے نصف میں سیاست صرف دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی ایک حصہ دایاں بازو کہلاتا تھا دوسرا بایاں بازو۔ دونوں بازوؤں کی سیاسی جماعتوں کے سیاسی ونگز تھے جن میں لیبر ونگ، طلبا ونگ، کسان ونگ، وکلا ونگ، ڈاکٹروں کا ونگ ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کے ونگز شامل تھے ۔

ان ونگز کا کام اپنی سیاسی جماعتوں کی سیاسی تحریکوں میں اعانت اور شرکت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان ونگز کا کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا، نیشنل عوامی پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت، جماعت اسلامی کے سیاسی ونگز بہت معروف تھے۔ تشدد، لڑائی، جھگڑے ان ونگز کی شرع میں ناپسندیدہ سرگرمیاں سمجھی جاتی تھیں لیکن دائیں بازو کی ایک مخصوص جماعت اپنے کام کے آغاز ہی کے ساتھ ایک تھنڈر اسکواڈ  رکھتی تھی جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں عسکری ونگ کہا جا سکتا ہے۔

یہ ونگز طلبا اور مزدوروں میں فعال رہتے تھے اور ان کی فعالیت کے رد عمل میں تشدد کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہو جاتی تھیں جنھیں ان کی قیادت بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ کنٹرول کر لیتی تھی۔ہماری آج کی سیاست میں جن سیاسی یا عسکری ونگز کا وجود ہے ان کی شریعت میں کلنگ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان بڑی بڑی بینک ڈکیتیاں اسٹریٹ کرائم نہ صرف جائز ہیں بلکہ ناگزیر بھی ہیں، اس غلیظ اور دہشت ناک کلچر کے آغاز کی اگرچہ  ایک سے زیادہ وجوہات ہیں اور اس کے آغاز کا سہرا کسی ایک جماعت کے سر باندھنا مشکل ہے لیکن اس کا سب سے بڑا سبب پاکستان کی سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں شمولیت ہے۔

سابق صدر نے جو اپنے آپ کو فرزند اسلام کہتے تھے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا کے متعارف کردہ جہاد میں پاکستان کو دھکیل دیا۔جب افغانستان کی جنگ ختم ہو گئی تو امریکا انتہائی بے شرمی سے مجاہدین کو تنہا، بے آسرا اور بے منزل چھوڑ کر چلا گیا۔ امریکا کی افغانستان سے رخصتی کے بعد مجاہدین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں اگرچہ ان مجاہدین کے ایک حصے کو کشمیر کی آزادی کی جنگ میں مصروف کر دیا گیالیکن یہ لہلہاتی ہوئی فصل اس قدر وسیع تھی کہ منطقی طور پر ان کا مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ناگزیر ہو گیا۔ سو یہ مجاہدین مختلف گروہوں میں بٹ گئے، ان میں سے سب سے زیادہ معروف گروہ طالبان کا تھا۔ ہماری عقلمندطاقتوں کو افغانستان پر قبضے کی سوجھی سو، انھوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کر دی۔

ہماری مقتدر قوتیں جو افغانستان کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی تھیں۔ طالبان کی زد میں اس طرح آ گئیں کہ نہ ان کے لیے جائے رفتن رہی نہ پائے ماندن۔

9/11 کے بعد جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جبریہ مہم کا آغاز کیا تو پاکستان کو اس نے فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا، دہشت گردی کے خلاف یہ امریکی مہم چونکہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف تھی اور اس مہم میں چونکہ پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا، لہٰذا پاکستان بھی مذہبی انتہا پسندوں کی ہٹ لسٹ پر آ گیا اور 50 ہزار سے زیادہ پاکستانی جرم بے گناہی میں انتہائی وحشیانہ انداز میں قتل کر دیے گئے۔

پاکستان میں عسکری ونگز کا آغاز ان ہی مذہبی انتہا پسندوں کی مہربانی تھا۔ افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد جدید ترین اسلحے کے جو ڈھیر افغانستان میں رہ گئے تھے وہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان پہنچنے لگے اور صورت حال یہ ہو گئی کہ پاکستان کا چپہ چپہ اور پاکستانی شہروں کی گلی گلی میں اسلحے کے ڈھیر لگ گئے اور کراچی اس کاروبار کا مرکز بن گیا۔ سہراب گوٹھ اس حوالے سے مرکز بن گیا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کو الگ کر کے ہم کراچی کی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کو نہیں دیکھ سکتے۔ کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اسی پس منظر میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلروں، بھتہ خوروں، لینڈ مافیا، ہتھیار مافیا، ڈرگ مافیا کا شہر بن گیا۔

ہم نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے آغاز میں جن سیاسی جماعتوں کے ونگز کا ذکر کیا تھا وہ ونگز عوام کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں میں سیاسی جماعتوں کے دست و بازو ہوا کرتے تھے۔ یہ ونگز کلنگ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں کے کلچر ہی سے نا آشنا تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ونگز کا جن سیاسی جماعتوں سے تعلق تھا ان کا منشور عوام کی تباہ حال زندگی کو بدلنا تھا، شہروں پر قبضہ کرنا تھا نہ قتل و غارت اور لوٹ مار تھا۔ جب سیاست میں شہروں اور صوبوں پر قبضہ کرنے کا کلچر متعارف ہوا تو پھر ان سیاسی ونگز کا منطقی کام وہی ہو گیا جو ہو رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی ایک معاشی حب  ہونے کی وجہ سے قبضہ گیروں کی آماجگاہ بن گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری قومی سیاست قبضہ گیری کے علاوہ کچھ اور رہ گئی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں قبضے کی لڑائی بڑی خونی ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی بے شمار سنگین جرائم کا مرکز بن گیا ہے لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہماری پوری قومی سیاست قبضے کے محور پر گھوم رہی ہے۔

قومی سیاست میں چونکہ ایلیٹ کلاس ملوث ہے، لہٰذا یہاں اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور یہ نیک کام بڑے پر امن انداز میں ہو رہا ہے، کراچی پر قبضے کی مہم میں چونکہ چھٹ بھیے ملوث ہیں اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی قبضہ گیریوں میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور افغانستان کا جدید اسلحہ بڑی بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ، کلنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ،  اغوا، ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم ایسے عذاب ہیں جنھیں ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے اور ان جرائم پر عمل در آمد کرنے والے عسکری ونگز کا نام و نشان مٹا دینا چاہیے، لیکن یہ کام سو فی صد غیر جانبداری اور امتیازات کے بغیر ہونا چاہیے اگر اس میں جانبداری اور امتیاز برتا گیا تو کراچی ایک ایسی تباہی سے دو چار ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

The post ونگز appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>