میری سرزمین پاکستان کی ایک مختصر سی کہانی۔ بچوں کے قاتل کتے بھی پاکستانی تھے ان کتوں کے مالک بھی پاکستانی تھے ان کے سدھائے ہوئے کتوں کے شکار بھی پاکستانی تھے اور اس ظالمانہ اور سنگدلانہ واردات کا ’نوٹس‘ لینے والے حکمران بھی پاکستانی ہی تھے لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ کتوں کی خوراک بننے والے بچے ایک بہت ہی غریب پاکستانی کھیت مزدور کے بچے تھے اور شاید پاکستانی بھی تھے۔
حملہ آور کتوں سے بچانے کے لیے بچوں کی صرف ماں وہاں موجود تھی جو شیر خوار بچے کو دودھ پلا کر اسے سونے کے لیے اپنے سامنے خاردار کھیت کے بستر پر لٹا رہی تھی کہ قریب کے کھیتوں سے نکل کر چند کتے اچانک ان بچوں پر حملہ آور ہو گئے کتوں نے تین کمسن بچوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا ایک خوش نصیب قریب کے درخت پر چڑھ گیا اور بچ گیا اپنے لخت جگر بچوں کو بچانے والی ماں خود کتوں کا نشانہ بن گئی اسے کاٹ کاٹ کر شدید زخمی کردیا گیا جو اپنے بچھڑ جانے والے بچوں کے پاس جانے کے لیے اب اسپتال میں زیر علاج ہے اور حکمران بہت دور اپنے دارالحکومتوں میں ہمارے جیسے خوش نصیب لوگوں کے لیے کوئی نئی قسم کی گاڑیاں چلانے کی فکر میں مست الست اور خوف خدا سے بے فکر ہیں۔ رحیم یار خان کے ان پاکستانی بچوں کی طرح جو اب ایک ابدی کھیل میں مصروف ہو چکے ہیں ان کی گاڑی ایک نئے اسٹیشن سے چل چکی ہے اور نہ جانے کہاں رکے گی اور کیا تماشا کرے گی۔
خبر میں بتایا گیا ہے اور داد دیجیے اس اخباری رپورٹر کی جس نے یہ اسٹوری لکھنے کی ہمت کی ہے وہ ہوش و حواس میں بتاتا ہے کہ کتوں کے حملے میں تین کمسن بچے ہلاک ہو گئے یعنی جاں بحق اور ان کی والدہ شدید زخمی ہو گئی۔ اصل خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہی واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ رحیم یار خان کے نواحی چک 80 فیروزہ میں محمد ارشاد نامی ایک مزدور کاشتکار اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ کھیتوں میں پانی دینے گیا۔ اس دوران تینوں بیٹے اور اس کی بیوی سکینہ قریب ہی درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے۔ پانچ چھ خونخوار کتوں نے کھیتوں سے نکل کر اچانک ان پر حملہ کر دیا۔ دو سالہ عبید چار سالہ عبداللہ اور آٹھ سالہ علی حسنین موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ ان کی والدہ اپنے بچوں کو بچاتی ہوئی خود شدید زخمی ہو گئی اسے فیروزہ کے رورل ہیلتھ سینٹر میں منتقل کر دیا گیا جو اب تک شدید خطرے میں ہے اور شاید ہی بچ سکے گی۔ تین بچوں کو اپنے سامنے مرتا دیکھ کر بچ بھی کیسے سکے گی اور زندگی بھر کے ماتم سے نہ ہی بچے تو بہتر ہے۔
پولیس چوکی گلشن فرید نے کتوں کی ملکیت کے شبے میں تین افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ یہ تین افراد محمد صدیق جاوید اور منظور ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ کتوں کو پال کر ان سے کتوں کی لڑائی کرایا کرتے تھے۔ تھانہ تبسم شہید پولیس نے کتوں کی تلاش بھی شروع کر دی ہے اور کتوں کے مالک کو بڑی آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے لوگ اپنے علاقے میں بہت معروف ہوتے ہیں لیکن یہ بااثر بھی ہوتے ہیں اور پولیس کو بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے اب بھی میرا اندازہ ہے کہ اگر کتوں کے مالک پکڑے گئے تو بہت جلد ان پر ایک کمزور سا مقدمہ بنا دیا جائے گا جو قابل ضمانت ہو گا اور کوئی بھی کتوں کے ان مالکان کو بچوں کے قتل میں ملوث نہیں کرے گا کیونکہ یہ قتل انھوں نے نہیں ان کے کتوں نے کیا ہے ان کو بیشک پکڑ لیں۔
بعض علاقوں میں دشمنوں کو گولی مارنے کے بجائے ان پر سدھایا ہوا کتا چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسان کا کام تمام کردیتا ہے اور قاتل بھی بچ جاتا ہے کہ وہ خود اس میں ملوث نہیں ہوتا۔ خیبرپختونخوا میں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ پہلے تو زیادہ تھیں مگر اب بہت کم ہیں۔ بات کتوں کی لڑائی کی ہو رہی تھی۔ یہ کھیل کے طور پر پنجاب کے دیہی علاقوں میں رائج ہے اور فرصت کے اوقات میں جب فارغ کاشتکار جمع ہو سکتے ہیں تو کہیں نہ کہیں کتوںکی لڑائی کا مقابلہ کرالیا جاتا ہے جسے پنجاب میں کتوں کی لڑائی اور مقابلہ نہیں کتوں کا ’بھیڑ‘ کہا جاتا ہے۔
لڑنا بھڑنا۔ کتوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے اس مقصد کے لیے کتوں کی تربیت کرتے ہیں اور ایسی نسل کے کتے پالتے ہیں جو لڑائی بھڑائی میں مشہور ہیں مثلاً بل ڈاگ سب سے مقبول نسل ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں کی کچھ نسلیں بھی بہت پسند کی جاتی ہیں لیکن کتا پالنا اب آسان نہیں رہا یہ ایک مہنگا اور مشکل کام ہے اب رفتہ رفتہ یہ کھیل ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن بعض دیہی علاقوں میں یہ رائج ہے اس کی ضرورت ڈیرہ داری کی حفاظت کے لیے بھی پڑتی ہے کیونکہ کھلے ڈیروں میں انسانوں کے لیے ان کی حفاظت آسان نہیں ہوتی جب کہ ایک دو کتے یہ کام آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو کتوں کی ذہانت پر حیرت ہوتی ہے۔ بکریوں کے ریوڑ میں ایک آدھ کتا ضرور ہوتا ہے جو ادھر ادھر ہو جانے والی بکریوں کو گم نہیں ہونے دیتا۔ ریوڑوں کے محافظ یہ کتے ہر بکری کو پہچانتے ہیں اور اسے ریوڑ سے علیحدہ نہیں ہونے دیتے۔
آپ کسی بھی ریوڑ کا محافظ کتے کے بغیر تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کوئی انسان اتنی مشقت نہیں کر سکتا۔ بکری چرانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے آپ کسی کو ریوڑ کی نگہبانی کرتے زیادہ دیر دیکھ بھی نہیں سکتے ایک چرواہا کہنے لگا کہ بکری چرانا دوزخیوں کا پیشہ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی یہ تو پیغمبروں کا پیشہ بھی ہے اس پر اس جنگلی نے جواب دیا کہ یہی وہ تربیت ہے جو کسی کو کامیابی سے مکمل کرنے پر اسے پیغمبری کا درجہ مل سکتا ہے۔
عام دیہی زندگی میں کتا ہمارا بہترین ساتھی ہے وفادار اور ہر دم چاک و چوبند جو کام عام انسان نہیں کر پاتا وہ کام یہ کتا کر لیتا ہے لیکن جب غلط لوگ ان محافظ کتوں کو بھیڑیا بنا دیتے ہیں تو وہ پھر انسانی المیوں کو جنم دیتے ہیں جیسے یہ رحیم یار خان کے گاؤں کا ناقابل برداشت المیہ۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسے کتوں کے مالکوں کا پتہ چلانا پولیس کے لیے ایک آسان عمل ہے۔
ان لوگوں کو قانون کے حوالے کر دینے سے پولیس نہ جانے کتنے گناہوں کو معاف کرا سکتی ہے۔ ان بچوں کے زندہ ماں باپ بھی معاف کر دیں گے کہ وہ بہت غریب لوگ ہیں ان کے لیے معاف کر کے جان بچا لینا بڑی بات ہے وہ معاف نہ کریں گے تو کیا کریں گے باقی زندگی اور درخت پر چڑھ کر زندگی بچانے والے بچے کی زندگی کا بھی سوال ہے اور کھیت میں پڑے ہوئے نوزائیدہ بچے کا بھی۔ ہمارے غریب غربا کو زندہ رہنے کا فن سیکھنا چاہیے اس دولت مند اور بڑے لوگوں کے معاشرے میں زندگی گزارنا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ معافی کا لفظ آپ کی زبان کا ورد بن کر زندہ رہے۔ رحیم یار خان کے ان والدین کی مدد ان کے شہید بچے کریں گے جو خدا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں اور وہاں ان کا کوئی بڑا نہیں ہے جس سے معافی مانگ کر وہ زندہ رہیں‘ وہاں جو بڑا ہے اس کا رحم و کرم ہی بڑا ہے اور اسی میں کسی غریب کی زندگی ہے۔
The post قاتل کتے گمنام مالک اور معصوم بچے appeared first on ایکسپریس اردو.