دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے غریب اور پسماندہ ممالک کو وبائی بیماریوں کے سدباب کی خاطر آئندہ تین برسوں میں 12 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا کی طرف سے اس مقصد کے لیے 15 ارب ڈالر کے عطیات کی تجویز دی گئی تھی تاہم بعض مغربی ممالک نے اپنی معیشت کو درپیش مشکلات کی بناء پر مطلوبہ مقدار میں فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کر لی ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے جن وبائی امراض کے پھیلنے پر تشویش ظاہر کی ہے، ان میں ایڈز، ملیریا اور تپ دق (ٹی بیِ) شامل ہیں۔ قدرت کی مہربانی سے پاکستان بڑی حد تک ایڈز سے محفوظ ہے تاہم ٹی بی اور ملیریا کے کیسز کی اپنے یہاں بھی کمی نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کے متعلقہ حکام کو کوشش کرنی چاہیے کہ عالمی امدادی فنڈ سے اسے بھی کچھ حصہ مل سکے تا کہ متذکرہ امراض کے تدارک کی کوئی سبیل پیدا ہو سکے۔ بارہ ارب ڈالر کی امداد کا فیصلہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کے دوران کیا گیا۔
تین برس قبل بھی اسی نوعیت کی ایک کانفرنس میں 9 ارب ڈالر کے عطیات کے وعدے ہوئے تھے۔ اس اعتبار سے 12 ارب ڈالر کی موجودہ رقم پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ 12 ارب ڈالر کی امدادی رقم کے لیے سب سے زیادہ عطیہ دینے والا ملک امریکا ہے۔ صدر اوباما نے کہا تھا کہ اگر دیگر ممالک 10ارب ڈالر کا عطیہ دیں گے تو امریکا اس میں 5 ارب ڈالر شامل کرے گا۔ مگر امداد دینے والے دیگر ممالک کی طرف سے صرف 8 ارب ڈالر موصول ہوئے چنانچہ امریکا نے بھی پانچ ارب کی بجائے اپنے حصے کے4 ارب ڈالر دیے ہیں۔یوں دیکھا جائے تو وبائی امراض کی روک تھام کے لیے پسماندہ اور غریب ملکوں کو بھاری امداد ملتی ہے لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں یہ بیماریاں عام ہیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ انتظامی سطح پر کرپشن کی وجہ سے لوگوں تک یہ امداد نہیں پہنچتی۔اگر ایمانداری سے رقوم خرچ ہوں تو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر غریب ممالک سے بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔