Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

ماحولیات کی تباہی

$
0
0

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سالانہ 67500 ایکڑجنگلات کا خاتمہ ہورہا ہے،اخبار نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درختوں کی کٹائی میں اضافے سے پاکستان زیادہ تباہ کن سیلاب اور مٹی کے تودوں کے گرنے جیسے واقعات کا شکار ہورہا ہے، بیکٹیریا ملے پانی اورفضائی آلودگی میں اضافہ ہورہاہے، موسمیاتی تبدیلی شدت اختیار کرتی جارہی ہے،قدرتی آفات اور تباہی سے بچنے کے لیے پاکستان کو ڈیڑھ سے دو سو ٹریلین درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ حکام کے مطابق سالانہ 10کروڑ پودے لگائے جاتے ہیں مگر اس میں سے نصف 2 سال کی مدت میں ختم ہوجاتے ہیں۔ دسمبر میں پاکستان نے عالمی بینک سے جنگلات کی کمی پر تحقیق کے لیے 3.8 ملین ڈالر کی گرانٹ حاصل کی ہے۔

پاکستان میں ماحولیات سے متعلق تنظیمیں اور ادارے جنگلات کے خاتمے اور ماحولیاتی آلودگی اور شجر کاری مہم کے متعلق حکومت کی توجہ دلاتی رہی ہیں اور اپنے طور پر کام بھی کر رہی ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا تناسب 4 فیصد سے بھی کم ہے جو ایشیا کا سب سے کم تناسب ہے۔ چھوٹے چھوٹے اور غریب ممالک اپنے جنگلات کی شرح میں اضافہ کررہے ہیں، ہمارے ہاں یہ شرح کم ہورہی ہے۔ جنگلات اور کھیتوں کی جگہ آبادیاں اور صنعتیں قائم ہورہی ہیں، سب سے زیادہ نقصان جنگلات کی غیر قانونی کٹائی سے ہو رہا ہے، جس کے منظم گروہ اور مافیا قائم ہے، جن کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک ہے۔ متعلقہ محکموں کے افسران ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یا مجبور ہیں،سابق حکمراناس مافیا کا اثر و رسوخ دیکھ چکے ہیں۔ جب ٹمبر موومنٹ پالیسی کے تحت چند دنوں میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی لکڑی کی ترسیل کی گئی۔ اگر ماریہ اورنگزیب اسمبلی میں تحریک التوا پیش نہ کرتی تو ملک کو عظیم نقصان پہنچتا۔ جنگلات اور درخت انسانوں اور جانوروں کو خوراک اور آسائشات فراہم کرتے ہیں۔ ماحولیات کو بہتر رکھتے ہیں، قدرتی آفات سے محفوظ رکھنے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔

سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ کو کنٹرول کرتے ہیں، پرندوں اور آبی حیات کی افزائش میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے آکسیجن کی فراہمی کا ذریعہ بنتے ہیں، حیاتیات اورنباتات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درختوں کے بغیر حیوانی زندگی کا تصور بھی نا ممکن ہے، لہٰذا انسان کی زندگی کی طرح درختوں کی زندگی کو بھی یکساں اہمیت وحیثیت دی جانی چاہیے اور ان کے بلا سبب اتلاف کو سختی سے روکنا چاہیے۔ پاکستان میں Cutting of Trees (Prohibition) Act 1992 کے تحت بغیر پیشگی اجازت درخت کاٹنا جرم اور قابل سزا عمل ہے جس کے تحت مرتکب شخص پر 5000 روپے جرمانہ اور اوزار کی ضبطگی کی سزا موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایاجاتا،کیوںکہ ہمارے یہاں طاقتور اور کمزور کے لیے اصول و قانون الگ الگ ہیں۔ ہماری حکومتیں اور ادارے ’’ایندھن بچالیں بس میں جائیں‘‘ اور ’’ماحول دوست سی این جی بسیں‘‘ جیسے نعرے تو لگاتی ہیں لیکن شہروں کو چنگ چی زدہ کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں کرتیں۔ جن سے کراچی جیسے شہر کا چہرہ چیچک زدہ اور ماحولیات خراب ہورہی ہے۔

شہر کی گرین بیلٹ کے درختوں کو کاٹ کر شہر کو گنجا کردیا جاتا ہے، سمندروں سے جنگلات کا غیر قانونی طورپر خاتمہ کیا جارہاہے جس پر وہاں کے باسی سراپا احتجاج ہیں، ان کا کاروبار اور آبی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے،ان کا الزام ہے اور اس بات کے ثبوت ہیں کہ اس غیر قانونی عمل میں حکومتی ارباب اختیار ملوث ہیں،کراچی کا ضایع شدہ پانی اور صنعتی فضلہ بھی سمندری ماحول اور آبی حیات کو متاثر کررہاہے،کلفٹن کی آبادی کے نزدیک گہرے سمندر میں آئل ٹرمینل کی تعمیر جاری ہے، جس سے براہ راست ساحل سمندر متاثر ہوگا۔ عوام سے ایک تفریحی مقام چھن جائے گا۔ جاپانی سروے کمپنی نے بھی اس مقام پر منصوبے کی مخالفت کی تھی لیکن حکومت کی آنکھیں بند ہیں، شہریوں نے اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے اس حکومتی اقدام سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ ماحول آلودہ ہوگا۔ زیر زمین بھاری تعمیرات سے سمندری نظام متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس سے قدرتی آفات کے خلاف بڑی رکاوٹ ختم ہوجائے گی، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وہ 15کلومیٹر کے رقبے پر محیط اس غیر قانونی تعمیرات کو رکوائے، عدالت عالیہ نے اس سلسلے میں حکومت اور متعلقہ اداروں سے جواب طلب کرلیا ہے۔

کراچی میں ایک اداریخ کے زیر اہتمام ایک سیمینار بعنوان ’’کیا کراچی ایک تباہ کن زلزلے کے لیے تیار ہے‘‘ سے خطاب میں کمشنر کراچی نے کہاکہ حکومت سندھ اور دیگر اداروں کے تعاون سے کسی بھی بڑی آفت مثلاً سمندری طوفان، سیلاب، آتشزدگی کے سانحات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ انھوںنے قومی رضاکاروں سے کہاکہ وہ آفات سے نمٹنے کے لیے مربوط طریقہ کار وضع کریں، سوال یہ ہے کہ پالیسی، طریقہ کار اور ادارے قائم کرنا حکومت کا کام ہے یا قومی رضاکاروں کا؟ آزاد کشمیر کے زلزلے اور پھر سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کا شکار ہونے والے سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک، بیرون ملک، حکومتوں، بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ملنے والی خطیر رقوم اور حکومت کی جانب سے مختص کیے جانے والے بجٹ و امدادی رقوم اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی متاثرین کی بحالی کے سلسلے میں کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آئی۔ ملک میں کچھ رفاہی ادارے ہی مخیر حضرات اور ملکی و غیر ملکی اداروں کے تعاون سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمدرد یونیورسٹی،کراچی یونیورسٹی، پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے کچھ ادارے اپنے تئیں ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے پودوں کی افزائش اور تحقیق کے کاموں میں مصروف عمل ہیں، خاص طورپر اسٹیل ملزکے ہار ٹیکلچر ڈپارٹمنٹ اور فروٹ فارم سے شہر میں بھی سبزیاں اور پھل وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں۔ ایسی کوششیں تمام اداروں کو کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں حکومت کو موثر قانون سازی اور اس کی عمل داری کو یقینی بنانا چاہیے۔ اگر ڈیموں کے قیام پر سیاست، مفادات اور انا کو بالائے طاق نہیں رکھا گیا اور ماحولیاتی تباہی پر آنکھیں بند رکھی گئیں تو ہمارا حشر افریقی ممالک سے مختلف نہیں ہوگا۔ آج دنیا کے ممالک حشرات الارض کو غذا بنانے اور مصنوعی غذائیں تلاش کرنے پر تحقیق کررہے ہیں اور ہم قدرت کے مہیا کردہ بیش بہا غذائی ذرایع اور وسائل کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کرکے کہیں کفران نعمت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں؟


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22327

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>