Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

صدر سے ایک ملاقات

$
0
0

صدر ممنون حسین کا کہنا ہے کہ وہ وفاق کے زیر انتظام 16یونیورسٹیوں اور پولیو کی بیماری کی روک تھام کے لیے قطرے پلانے کی مہم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ صدر پاکستان گزشتہ ہفتے کراچی تشریف لائے۔ انھوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں اخبارات کے مدیروں اور کالم نگاروں سے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے تک مختلف معاملات پر کھل کر بات چیت کی ۔ کراچی کے صحافیوں اور کالم نگاروں کو ایک عوامی صدر سے کھل کر بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ مسلم لیگ ن کے متحرک رہنما ناصر الدین محمود اور صدر کے معاون برائے میڈیا فاروق عادل نے اس ملاقات کومنظم کرنے میںبنیادی کردار ادا کیا۔ صدر ممنون حسین نے پروٹوکول کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صحافیوں کو سوالات کرنے کی دعوت دی۔ یوں بھارت کی ذیلی ریاست دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجروال کے کفایت شعاری کے اقدامات سے گفتگو کا آغاز ہوا۔

طالبان سے بات چیت سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی آئین کی گئی ترمیم 58(2)B کراچی میں جاری آپریشن، وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی کارروائی سے صدر کو آگاہی، ملک میں شریعت کے نفاذ ، فاٹا کے مسائل ، حکومت کی نجکاری کی پالیسی ، محتسب کے نظام میں بہتری اور بہت سے اہم معاملات پر تبادلہ خیال ہوا۔ صدر ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے اور ہمیشہ عوام کے ساتھ رہے ہیں ، اس بناء پر انھیں اس بات کا قلق ہے کہ و ہ ا ب عوام سے آسانی سے گھل مل نہیں سکتے ۔ ممنون حسین صاحب نے بتایا کہ جب انھوں نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو وہ بیوروکریسی کے مختلف ضوابط پر عمل کرنے پر ذہنی طور پر آمادہ نہیں تھے ، خاص طور پر اپنے سفر کے دوران سیکیورٹی کی پابندیوں کو عوام سے رابطے کے لیے رکاوٹ سمجھتے تھے اورانھیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ محدود ہوجائیں گے یوں عہدہ سنبھالنے کے بعد انھوں نے سیکیورٹی کے تقاضوں کو اہمیت نہیں دی مگر جب ا نہیں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے اس ماحول میں کسی وقت کوئی خوفناک حادثہ رونما ہوسکتا ہے تو انھیں صورتحال کاادراک ہوا۔ وہ کراچی میں ڈیفنس اتھارٹی میں موجود اپنے گھر میں قیام کرنا چاہتے ہیں مگر سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس مکان کا محل وقوع ایسا ہے کہ وہ سیکیورٹی کو سوفیصد یقینی نہیں بتایا جاسکتا ، اس بناء پر وہ مجبوراََ کراچی میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے ہیں پھر وہ کراچی میں سیاسی کارکنوں ، دوستوں، عزیزوں سے ہمیشہ ملنے کے خواہاں رہتے ہیں مگر شہر میں سفر کے دوران سڑکیں کئی کئی گھنٹے بند رہتی ہیں اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس بناء پر انھوں نے اپنی آمدورفت کو بھی محدود کردیا ہے وہ اب کراچی ایئر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس جاتے ہیں ۔ صدر صاحب کو اس بات پر تشویش تھی کہ اگر دہشت گردی پر قابونہیں پایا گیا خاص طورپر کراچی میںامن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی تو پھر ملک کی معیشت کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔

صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ مسلم لیگ ن کے رکن نہیں رہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے ذریعے ملکی معیشت کے بحران پر قابوپایا جاسکتا ہے ۔ انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اربوں روپے کے خسارے میں چلنے والے قومی صنعتی اداروں کے ملکی معیشت پر بوجھ کم کیے بغیر ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی جاسکتی ۔ صدر پاکستان نے کہا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے اور تمام بات چیت آئین کے دائرے میں ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے فقہ حنفی سے متعلق جو بات کی ہے وہ طالبان کا موقف ہے ۔ اس طرح بعض سیاسی رہنماؤں کا موقف ہے کہ ملک میں شریعت نافذ ہے ۔ 1973کے آئین کے تحت قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ بعض لوگ احیائے خلافت کی بات کررہے ہیں ، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمام خلفائے راشدہ کا انتخاب ایک طریقے سے نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مختلف طریقوں سے منتخب ہوتے تھے۔ صدر صاحب نے کہا کہ آئینی طور پر فاٹا ریجن صدر پاکستان کے دائرہ اختیار میں ہے چنانچہ وہ فاٹا میں قوانین کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچ بچار کررہے ہیں ۔ ایک سینئر مدیر نے ان سے سوال کیا کہ انھیں 58(2)Bیاد آتی ہے تو صدر نے واضح طور پر کہا انھیں کبھی اس شق کا خیال نہیں آیا ، اس طرح کچھ مدیروں نے صدر صاحب سے پوچھا کہ وفاقی کابینہ کی کارروائی کی تفصیلات انھیں فراہم کی جاتی ہیں جو کہ آئین کا تقاضہ ہیں تو انھوں نے کہا کہ کابینہ کی کارروائی کی روداد انھیں فراہم نہیں کی جاتی نہ انھیں اس روداد کی ضرورت ہے ، اسی طرح گورنر سندھ نے کراچی میں آپریشن کے بارے میں کوئی رپورٹ نہیں بھیجی ہے ۔

صدر پاکستان ملک کی 17یونیورسٹیوں کے چانسلرز ہیں یہ یونیورسٹیاں اسلام آباد اور کراچی میں ہیں ان میں سے کچھ یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار اور انتظامی معاملات ابتری کا شکار ہیں ۔ صد ر کو مسلسل ان یونیورسٹیوں کا دورہ کرنا چاہیے اور اساتذہ و طلبا سے ملاقات کرنی چاہیے وہ محض ایوان صدر میں آنے والی بریفنگ پر اکتفا کریں گے یا محض رسمی طور پر ان یونیورسٹیوں کے اداروں کے اجلاسوں میں رسمی طور پر شرکت کریں گے  تو معیار تعلیم کا معاملہ التواء کا شکار رہے گا۔ جب بھارت میں ڈاکٹر ابو الکلام صدر تھے تو انھوں نے اسکولوں میں ریاضی کے نصاب میں اصلاحات کے لیے اہم آراء کا کردار ادا کیا تھا  ۔ اگر ایوان صدر تعلیم کے بارے میں مشاورت کا طریقہ اختیار کرے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خاصی مدد مل سکتی ہے ۔1973کے آئین کے تحت صدر پاکستان ریاست کا سربراہ ہوتا ہے مگر اس کو کسی قسم کے آئینی اور انتظامی اختیار ات حاصل نہیں ہوتے ۔

یہ صورتحال پارلیمانی نظام کی بالادستی اور وفاق کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ برطانیہ میں ملکہ برطانیہ اور بھارت کے صدر بھی ریاست کے سربراہ ہیں مگر انھیں کوئی آئینی اور قانونی اختیارات حاصل نہیں ہے۔1973کے آئین کے نفاذ کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری فضل الٰہی صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے سب سے پہلے اپنی جماعت پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دیا تھا اور آئین کی مکمل پاسداری کی تھی ۔ جب ملک میں سیاسی کشمکش بڑھی تو طالع آزما قوتوں نے صدر فضل الٰہی کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی مگر چوہدری فضل الٰہی نے ان مذموم کوششوں کو اہمیت نہیں دی تو پورے ملک میں صدر کے بے اختیار ہونے کا پروپیگنڈہ کیا اور دائیں بازوکے معروف صحافی  اس مہم میں شریک ہوگئے ۔

سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1985 کے انتخابات کے بعد 1973کا آئین بحال کیا تو انھوں نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو قابو کرنے کے لیے طاقت کے ذریعے آئین میں آٹھویں ترمیم کرائی ۔ اس ترمیم میں مارشل لا ء کے نفاذ کو آئینی جواز فراہم کرنے کے علاوہ صدر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ توڑنے کا اختیار حاصل ہوا ، یوں ان کے پیش رو غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف حکومتوں کو برطرف کیا ، میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی مدد سے آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم کو ختم کیا یوں صدر فاروق لغاری بے اختیار ہوئے ۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002میں 1973کے آئین کے بحال کرنے کے ساتھ آئین میں58(2)Bکی شق کو شامل کرایا یوں اب پھر پارلیمانی نظام پر صدر کی بالادستی حاصل ہوئی ۔ گزشتہ دور حکومت میں آئین میں کی گئی 18ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کے نٖفاذ کے ساتھ 58(2)Bختم ہوئی ، اس وقت پیپلزپارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری صدر تھے یوں آئینی طور پر توان کے اختیارات ختم ہوئے مگر پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی پورے نظام پر بالادستی رہی ،  مگر گزشتہ سال ستمبر میں ممنون حسین کے صدر منتخب ہونے سے ملک میں پارلیمانی نظام کی بالادستی کا عمل شروع ہوا۔ بعض صحافیوں نے آمرانہ دور کی ترمیم 58(2)Bکا ذکر کرکے اور کابینہ کی کارروائی کی روداد صدر کو فراہم نہ کرنے کے بارے میں سوالات کرکے ایک اچھوتی خبر حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ جمہوری نظام کی بقاء پارلیمانی نظام کے استحکام میں ہے۔

بہر حال صدر پاکستان نے صحافیوں کے ساتھ مل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ، اگرچہ  اب وہ مسلم لیگ ن کے رکن نہیں ہیں مگر ان کے خیالات مسلم لیگ کی قیادت کے خیالات بھی ہیں، یوں انھیں صحافیو ں نے مشورے دیے اور اپنے خبروں ، اداریوں اور کالموں میں اس بارے میں اپنے رائے کا اظہار کریں گے ۔ صدر یہ رائے وزیراعظم تک پہنچا سکتے ہیں یوں ایک ظہرانہ پر اختتام ہونے والی نشست مفید ثابت ہوسکتی ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 22334

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>