پیپلزپارٹی کی گزشتہ سندھ حکومت میں بھی سندھ بدامنی اور لا قانونیت کا شکار تھا اور اب بھی 9ماہ کی نئی حکومت جس کے وزیراعلیٰ بھی قائم علی شاہ ہی ہیں نے بد امنی کی صورت حال پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جس کے نتیجے میں اندرون سندھ امن و امان کی صورت حال پہلے سے بھی سنگین ہوچکی ہے اور سندھ کی وزارت داخلہ جو وزیراعلیٰ کے پاس ہے سندھ کو امن فراہم کرانے میں مکمل طورپر ناکام رہی ہے ۔ سندھ حکومت کے وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی، ارکان اسمبلی اور پی پی کے جیالے عہدیداروں کا سارا زور اپنے علاقوں میں پولیس کے من پسند افسروں اور بات نہ ماننے والوں کو تبادلے کرانے پر ہے اور حسب سابق سندھ میں افسروں کے تقرر و تبادلے وزیراعلیٰ کی بجائے کسی اور کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔
سندھ میں آئی جی پولیس جیسا اہم عہدہ گزشتہ ایک ماہ سے خالی ہے اور سندھ حکومت کو وفاق سے من پسند آئی جی پولیس نہیں مل رہا ۔ اخباری اطلاع کے مطابق حکومت سندھ میں پہلے بھی ناکام ثابت ہونے والے اپنی پسند کے آئی جی پولیس کا تقرر چاہتی ہے اور وفاقی حکومت اچھی شہرت کا حامل مگر ایسا آئی جی پولیس دینا چاہتی ہے جو سیاست دانوں کی بجائے غیر جانبدار اور قانون پر عمل کرانے پر یقین رکھتا ہو مگر سندھ حکومت اس کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ 6سال سے سندھ میں پی پی کی حکومت غیر قانونی طور پر اپنی پسند کے ان افسروں کو اہم عہدے بانٹتی رہی ہے جو نہ اس عہدے کے اہل ہیں اور نہ غیر جانبدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اہل اور سینئر افسران کو نظر انداز کرکے نا اہل اور جونیئر افسران کو اہم عہدے دیے جائیںگے تو وہ اپنے فرائض سے انصاف نہ کرسکیںگے اور وہ سیاست دانوں کے کہنے پر چلنے پر مجبور ہوںگے۔
سندھ حکومت کی اس اقربا پروری سے اہل پولیس افسران میں بھی مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور ایسے افسر متعدد اعلیٰ افسران کے تقرر کو عدالت عالیہ میں چیلنج بھی کرچکے ہیں۔ جو عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں اور حکومت کے ایسے من پسند افسران اپنے سینئرز کا حق کھائے بیٹھے ہیں اور ویسے بھی عدالتی احکامات کی سندھ حکومت کے پاس کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ عدالتی فیصلے پر ہٹائے گئے افسروں کو دوبارہ رکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
یوں تو اندرون سندھ پی پی پی کے با اثر بڑوں کے ہائوسز موجود ہیں جہاں سے جرائم پیشہ عناصر کی نہ صرف سرپرستی ہوتی آرہی ہے اور وہاں کے احکامات پر پولیس تھانے عمل کے لیے مجبور ہیں ایسے ہائوسز کا اعتراف خود پیپلزپارٹی کے شکارپور سے تعلق رکھنے والے رہنما اور سابق ن لیگی وزیر مقبول احمد شیخ نے سرعام ایک اجتماع میں کرکے لوگوں کو حیران کردیا کہ جس میں انھوں نے اپنے ضلعے کے چار بڑوں کا کھلے عام نام لیا اور کہاکہ اگر ان چاروں ہائوسز سے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی اور ملزموں کی رہائی کے لیے جاری ہونے والے احکامات بند ہوجائیں تو ضلع میں فوری امن قائم ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ مقبول احمد شیخ کے چھوٹے بھائی امتیاز احمد شیخ فنکشنل لیگ کے منتخب رکن اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں اور مقبول شیخ نے اپنے شیخ ہائوس کا نام لے کر دوسروں کے لیے مثال قائم کی ہے جب کہ باقیوں میں ایسا کرنے کی جرأت نہیں ہے اور اندرون سندھ ہر جگہ ایسے سیاسی ہائوسز موجود ہیں۔ سندھ میں بڑے بڑے سیاست دانوں کی کمیٹیاں بھی موجود ہیں اور کچے کے علاقے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں جہاں جرائم پیشہ عناصر پناہ لیتے ہیں اور مغویوں کو بھی وہاں رکھا جاتا ہے۔
اندرون سندھ ڈکیتیاں، چوریاں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے چھینے جانے کی وارداتوں اور اغوا برائے تاوان سے کوئی ضلع محفوظ نہیں ہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مغویوں کے تاوان کی وصولی کے اندرون سندھ کے فیصلے بھی شکارپور میں ہوتے ہیں۔ مقبول شیخ کی بات کی تردید نہ ہونے سے ان کے عائد کردہ الزام کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ شکارپور اس وقت سندھ کے اہم سیاست دان اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا بھی آبائی ضلع ہے اور وہ سندھ کے انتہائی با اثر وزیر بھی رہے ہیں۔ سندھ میں ملک کے چاروں صوبوں کو جانے والی قومی شاہراہیں موجود ہیں اور ہر شاہراہ غیر محفوظ ہے، سندھ کی شاہراہوں کے ذریعے ہی پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان جایا جاسکتا ہے جہاں سے روزانہ سیکڑوں بسیں، ویگنیں اور ہزاروں مال بردار ٹرالر اور ٹرک چلتے ہیں اور بمشکل ہی ایسا کوئی دن ہوتا ہے جب ان شاہراہوں پر وارداتیں نہ ہوتی ہوں۔ اب تو سندھ میں ٹرینوں کا سفر محفوظ رہا ہے نہ گیس اور تیل کی لائنیں۔
کراچی سے تاوان کے لیے اغوا کیے گئے مغوی اندرون سندھ اور کچے کے علاقوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیں اس سے ہر ضلعے کی پولیس اور سیاسی لوگ پوری طرح واقف ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے سے منشیات اور اسلحہ کراچی ان ہی شاہراہوں کے ذریعے پہنچتا ہے، غیر قانونی افغان مہاجرین اور کالعدم سیاسی تنظیموں کے دہشت گرد سندھ کے شاہراہوں پر جگہ جگہ چیکنگ کے باوجود کراچی پہنچ کیسے جاتے ہیں ان سے بھی ہر سرکاری ادارہ واقف ہے اور لا قانونیت کے ان تمام کاموں میں پولیس پوری طرح ملوث ہے اور ایکسائز عملہ بھی مکمل شریک ہوتا ہے۔ موٹر ویز سے گزر کر ہائی ویز پولیس کو چکر دیکر اسلحہ، منشیات اور مغویوں کو محفوظ مقامات پر کامیابی سے پہنچانے والے جرائم پیشہ عناصر بھی ظاہر ہے کسی کی سرپرستی ہی میں ہیں اور بہت کم گرفت میں آتے ہیں۔
اندرون سندھ دیہاتوں میں مویشیوں کی چوری بھی عام ہے جو رسہ گیر کراتے ہیں اور بھونگہ وصول کرکے مسروقہ مال واپس کراتے ہیں، اندرون سندھ اقلیتی ہندو برادری کے افراد اور سیاسی شخصیات بھی اغوا ہوئی ہیں جن کی بازیابی کے لیے احتجاج اور دھرنے ہوچکے ہیں۔ بعض مغوی جج، ڈاکٹرز، وکیل اور تاجر بھی تاوان ادا کرکے واپس آئے مگر پولیس ان کی بازیابی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتی ہے۔ سندھ کے حکومتی حلقوں کی طرف سے اندرون سندھ میں کراچی جیسے ٹارگٹڈ آپریشن کے بیان تو دیے جارہے ہیں مگر نہ جانے آپریشن کی نوبت کب آئے گی اور اندرون سندھ کے عوام کو سکون اور تحفظ کب میسر آئے گا اس کا تو سندھ کے حکمرانوں کو ہی پتہ ہے مگر حیرت اندرون سندھ سے منتخب ہونے والے حکمرانوں پر ہے جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انھیں پتہ ہے کہ وزیراعظم ماضی جیسا آپریشن نہیں کرا سکتے کیوں کہ اب سندھ میں مسلم لیگ کی نہیں پی پی کی حکومت ہے۔