ترقی پذیر ملکوں کی سیاست میں طلبا کا کردار عموماً بہت اہم رہا ہے، پاکستان میں بھی طلبا تنظیمیں بہت فعال رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب سیاست واضح طورپر دو حصوں یعنی دائیں اور بائیں میں تقسیم ہوگئی تو دائیں بازو کی سیاست میں جمعیت طلبا سرگرم رہی اور بائیں بازو کی سیاست میں پہلے ڈی ایس ایف اس کے بعد این ایس ایف سر گرمی کے ساتھ حصہ لیتی رہی لیکن اس زمانے میں طلبا کی دونوں تنظیمیں ایک حدود کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی تھیں جو عموماً پرامن ہوتی تھیں۔ اگرچہ جمعیت طلبا بعض اوقات تشدد کا راستہ بھی اپناتی تھی جس کے لیے اس نے تھنڈر اسکواڈ بنارکھے تھے لیکن مجموعی طورپر طلبا کی سرگرمیاں پرامن ہی رہتی تھیں۔ جمعیت طلبا چونکہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم تھی سو اس کی سرگرمیاں جماعت کی نظریاتی سیاست سے ہم آہنگ رہتی تھیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ جماعت ملک کے مسائل کا واحد حل اسلامی نظام کا نفاذ مانتی تھی اور جمعیت طلبا کی ساری سرگرمیاں بھی اسی دائرے میں رہتی تھیں۔
جب کہ ڈی ایس ایف اور این ایس ایف چونکہ بائیں بازو کی جماعتوں سے منسلک رہی تھیں، لہٰذا ان کی سرگرمیاں بھی بائیں بازو کے نظریات سے ہم آہنگ رہتی تھیں۔ڈی ایس ایف کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا تھا کہ اس تنظیم میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھرمار تھی، خاص طور پر ڈاکٹرز اور ایم بی بی ایس کے زیر تعلیم طلبا کی بڑی تعداد ڈی ایس ایف میں شامل تھی، ڈاکٹر شیر افضل اس کے روح رواں تھے تو ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر عزیز، ڈاکٹر منظور احمد وغیرہ ڈی ایس ایف کی سرگرم کارکن تھے۔ یہ وہ نظریاتی نوجوان تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ڈی ایس ایف کو دیا۔ڈی ایس ایف کے بعد جب این ایس ایف وجود میں آئی تو معراج محمد خان، ڈاکٹر رشید حسن خان، امیر حیدر کاظمی وغیرہ اس تنظیم کی سرپرستی کرنے لگے۔ نیشنل عوامی پارٹی جب تک فعال رہی این ایس ایف اس کے ساتھ جڑی رہی، نیپ کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے ممتاز ترین سیاست دان اس جماعت سے وابستہ رہے تھے جن میں غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اﷲ مینگل، وحی خان بھاشانی، پروفیسر مظفر جیسے جید سیاست دان اس جماعت سے وابستہ تھے۔
کراچی ہمیشہ سیاسی تحریکوں کا مرکز رہا اور ان تحریکوں میں بایاں بازو پیش پیش رہا لیکن بائیں بازو کی سرگرمیوں میں اس وقت انتشار پیدا ہوا جب بین الاقوامی سطح پر روس اور چین کے درمیان نظریاتی اختلافات پیدا ہوئے اور پاکستان کا بایاں بازو بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک نے اپنے آپ کو چین سے جوڑ لیا دوسرے نے روس سے۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کا ارتکاب پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کے بائیں بازو نے کیا، حالانکہ روس چین کے نظریاتی اختلافات کا پسماندہ ملکوں سے کوئی تعلق نہیں بنتا کیوں کہ ان ملکوں کے مسائل اور سیاسی ایجنڈے بالکل مختلف تھے مثلاً پاکستان اس دور سے لے کر اب تک ایک نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام میں جکڑا ہوا ہے اور سب سے پہلے اس ملک کو اس نظام اور اسٹیبلشمنٹ کی برتری سے نجات دلانا ضروری تھا اور اس کا روس چین جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا لیکن پاکستان کے بائیں بازو کی ناسمجھ قیادت نے بائیں بازو کو اس جھگڑے میں ملوث کرکے بائیں بازو کی طاقت کو منتشر کردیا۔
بائیں بازو کے اس انتشار کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں بھی بائیں بازو کی تحریکیں کمزور پڑ گئیں اور اس کا ایک خطرناک نتیجہ تعلیمی اداروں میں زبان اور قومیت کی سیاست کی شکل میں سامنے آیا۔ طلبا برادری سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان، بلوچ کے علاوہ مختلف فقہی تنظیموں میں بٹ گئی اور تعلیمی اداروں پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہوا اور تعلیمی ادارے تشدد، قتل و غارت گری کے اکھاڑے بن گئے۔ بدقسمتی سے طلبا تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی سیاسی جماعتوں نے طلبا کو جدید ترین ہتھیار فراہم کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ مالی سرپرستی بھی شروع کردی۔ یوں طلبا تنظیمیں سیاسی جدوجہد سے نکل کر آپس کے سرپھٹول میں مصروف ہوگئیں اور سیاسی مسائل پر جدوجہد ان کے ایجنڈے سے نکل گئی۔ماضی میں اگرچہ طلبا تنظیمیں سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہی تھیں لیکن ان کا سیاسی ایجنڈا واضح ہوتا تھا، اس دور میں بھی طلبا برادری منقسم تھی لیکن یہ تقسیم نظریاتی تھی، زبان اور قومیت کا اس تقسیم میں کوئی دخل نہ تھا اس لیے بائیں اور دائیں بازو کی طلبا برادری اپنے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق سرگرم رہتی تھی۔
تعلیمی اداروں پر طاقت کے زور پر قبضوں کی روایت موجود نہ تھی۔ آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ طلبا کے جو ہوسٹل تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کے مرکز ہوا کرتے تھے، آج ہتھیاروں کے ڈپو بن گئے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان ہاسٹلز میں دہشت گردوں کے انبار جمع کیے جارہے ہیں، دنیا کے مختلف مسلم ملکوں کے دہشت گرد ان ہاسٹلوں میں رہائش پذیر ہیں اور یہ ہاسٹل اب دہشت گردی کے مراکز میں بدل گئے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ترقی پسند طلبا تنظیموں کی غیر موجودگی ہے۔ہر سیاسی اور مذہبی جماعت نے تعلیمی اداروں میں اپنے ونگز بنا رکھے ہیں۔
انھیں ہتھیار اور سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان بھولے بادشاہوں کو سیاسی تحریکوں کے بجائے ا پنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کلچر کی وجہ سے پورا تعلیمی ماحول گندا ہوکر رہ گیا ہے۔ طلبا برادری زبان، رنگ، نسل، قومیت اور فرقہ وارانہ دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور اپنی طاقت ایک دوسرے کو زیر کرنے میں صرف کررہی ہے۔ تعلیمی ادارے طلبا کی کردار سازی کے بجائے گوریلا جنگوں کی تربیت دے رہے ہیں اور یہ گوریلا جنگیں نہ قومی استحصالی طاقتوں کے خلاف لڑی جارہی ہیں نہ سامراجی ریشہ دوانیوں کے خلاف یہ جنگیں ایک دوسرے کے خلاف لڑی جارہی ہیں اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ طلبا تنظیموں پر سامراجی جماعتوں کا قبضہ رہے گا۔