Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22369 articles
Browse latest View live

آلہ

$
0
0

ہماری پیشانی پرناک کے دونوں سمت ایک آلہ لگا ہوا ہے یہ ان قدرتی نشانیوں میں سے ایک ہے جو قدرت نے انسانی جسم پر قائم کی ہوئی ہیں۔ کیونکہ انسانی جسم ہی قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے کہ اب تک انسان اپنے جسم پر بھی تجربات کیے جا رہا ہے۔ وہ جو مشاہدات روح کے عہد وپیماں درمیان خالق ومخلوق تھے وہ انسان نے فراموش کردیے ہیں۔ مقصود فطرت تو یہ تھا کہ انسان اپنی بھلائی کے کاموں میں ’’خودکفیل‘‘ ہوجائے، ہوئے بھی ہیں مغربی ممالک دین اسلام کے اصولوں پر عمل کرکے اور ہم مسلمان Barbarian بن گئے ہر اعتبار سے (تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ خود چیک کرسکتے ہیں حلیے سے لے کر سر قلم کرنے کے عمل تک) انسان محض لباس یا اپنے رسم و رواج سے وہ نہیں ہوسکتا جو بھی وہ کہلاتا بلکہ اس کا سو فی صد تعلق عمل اور کردار سے ہے اور اس میں ایک فی صد کی کمی بھی اسے متاثر کرتی ہے اب آپ اس اصول پر دنیا بھر کی اقوام کو پرکھ لیجیے بشمول خود اپنی قوم کے۔ نہ جانے ہم کہاں سے کہاں چلے گئے ہم تو بات کر رہے تھے انسانی پیشانی کی کہ جہاں ناک کے اوپر دونوں سمتوں میں ایک لکیر آپ کو نظر آتی ہے دونوں جانب یہ دو لکیریں دراصل آپ کی فطرت کی عکاس بھی ہیں اور یہ ایک ایسا میٹر بھی جو اصلاح احوال کا کام بھی کرتا ہے۔

یعنی ان دو لکیروں کو اصل میں تو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان دو لکیروں کا مقصد مثبت بہت کم ہے۔آپ کسی بھی سخت گیر اور ظالم انسان کو دیکھیں تو آپ کو یہ دو لکیریں بہت گہری نظر آئیں گی، ان کے علاوہ یہ لکیریں گہری آپ کو غور و فکر کرنے والوں میں نظر آئیں گی۔ لیکن کیونکہ ہم دونوں کو الگ الگ جانتے ہیں لہٰذا ہمیں معلوم ہے کہ مفکر، محقق کا انداز کچھ اور ہے مقصد کچھ اور ہے جب کہ دوسرے لوگ جو ہم نے بیان کیے پہلے ان کے مقاصد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہیں، اب اس کی اور تشریح کریں گے تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی اور ہمارا مقصد فوت ہوجائے گا۔ دراصل ان لکیروں کو تو جسم کی نشانیوں سے کردار کی تشریح کرنے والے ماہرین زیادہ اچھا بیان کرسکتے ہیں ہم نے خود اپنے آپ پر اس کا فرق دیکھ کر کچھ محسوس کیا تو سوچا کہ آپ کو بھی اس میں شریک کرلیں ہیں، کم زیادہ کے موضوع کی تفصیل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔کیونکہ رواج ہی ’’ردعمل‘‘ یعنی Response کا کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ پڑھنے کا رواج دم توڑ رہا ہے۔ عام طور پر Net کی آمد کو لوگ اس کا سبب قرار دیتے ہیں مگر اس سے پہلے کون سا لوگ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر دور میں ’’کاپی کلچر‘‘ تھا کہیں ہم ’’ادبی کاپی کلچر‘‘ کا ذکر کرچکے ہیں جو آج سے چوتھائی صدی سے بھی پہلے کی بات ہے۔ اب صرف اس کے باقاعدہ ’’عوامی ادارے‘‘ قائم ہوچکے ہیں ۔ آپ نے اس بڑے پیمانے پر اسے پروموٹ کیا ہے کہ وزرائے۔۔۔۔۔ جانے دیں کیا فائدہ! نقارخانہ ہے ۔۔۔۔ سنتا کون ہے۔

کراچی بورڈ میں کیا ہوا۔ ایک دن تو بھانڈا پھوٹنا ہی تھا۔ عرصہ دراز سے یہ کام ہو رہا ہوگا اب زیادہ ہوگیا۔ کہاں نہیں ہو رہا۔ تو مسئلہ وہی چہرے کی دو لکیریں جو ناک کے دونوں طرف پیشانی پر ہیں۔ انھوں نے لاہور کے ایک بڑے کالج اسکول کے پرنسپل کا ملازمت سے خاتمہ کردیا کیسے ہمت کی انھوں نے ’’سچ بولنے اور کرنے کی‘‘۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جو سب سے بلند چہرے ہیں ملک میں ان پر بھی دو لکیریں ہیں ہر چہرے پر یہ غور و فکر کی لکیریں نہیں ہیں۔ یہ دوسری لکیریں ہیں جو ہم اسی کالم میں لکھ چکے ہیں اوپر۔ یہ وہی دو لکیریں ہیں جنھیں آپ نے کنٹینر پر بھی دیکھا تھا، سعد رفیق کے چہرے پر بھی دیکھا تھا اور دونوں چہروں کو وقت پر شکست کھاتے ہوئے دیکھا ہے اپنے اپنے وقت پر۔ خصوصاً کنٹینر والا چہرہ تو اب مکمل شکست سے دوچار ہے۔ کیونکہ آپ کو بنیادیں ٹھیک کرنی چاہئیں دیوار تب ہی سلامت رہتی ہے۔ اگر دیوار میں ہر قسم کی اینٹ لگا دی جائے تو پھر دیوار کا خدا ہی خیال رکھے تو رکھے بندے کے بس کی بات تو نہیں رہتی یہ حالیہ اور اس سے پہلے کے سیلابوں نے بھی ثابت کیا ہے اب سیلاب بھی سیاست کا ایک Show بن گیا ہے۔ شاید (اللہ معاف کرے)سیاستدان یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ سیلاب آئے تو پچھلے دکھڑے ختم ہوجائیں گے (سیاستدانوں کے) سب کچھ سیلاب فنڈ سے حل ہوجائے گا آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں عوام کے حوالے سے سیاستدانوں کے کردار پر تبصرہ کر رہا ہوں اور تعریف کر رہا ہوں۔

سیاستدانوں کی تعریف صرف Definitionمیں کی جاسکتی ہے کہ ’’یہ ایک ایسا۔۔۔۔ ہے(یہاں جو چاہے لکھ لیں اپنے ذاتی یا معلوماتی تجربے کی بنیاد پر) جو عوام میں سے پیدا ہوتا ہے، عوام میں سے نظر آتا ہے، اور عوام کو ہی ختم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ بات کہاں سے چلی کہاں تک جا پہنچی۔ ہم تو گفتگو کر رہے تھے پیشانی پر ناک کے دونوں طرف کی لکیروں کی اب وہ لکیریں ’’بگٹی‘‘ کی بھی ہوسکتی ہیں اور ’’مشرقی‘‘ بھی، یہ ابھی حال ہی کا تو ماضی ہے۔ مشرف نے کہا کہ لیویز کی تنخواہ لیویز کو دی جائے گی بگٹی نے کہا ہمیشہ تنخواہ ہمارے ذریعے تقسیم ہوتی ہے ہم ہی تقسیم کریں گے۔ اب ’’سردارانہ‘‘ تقسیم کیسی ہوگی یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ہم مذہب کو درمیان میں نہیں لانا چاہتے۔

بلوچستان میں چار سال قیام کے دوران ہم نے اختر مینگل سے لے کر سردار بگٹی تک کی ’’سردارانہ تقسیم‘‘ دیکھی ہے۔’’حق کو بھیک کی طرح‘‘ ادھورا ملتے دیکھا ہے (برا ماننے کا کوئی فائدہ نہیں اب قدرت کی لاٹھی کا وقت ہے تو برداشت تو کرنا پڑے گا) اور سردار بگٹی اپنے ہاتھ سے اس اختیار کو کیسے جاتے دیکھ سکتے تھے لہٰذا پرانا وطیرہ پہاڑوں پر رہنا اور ظاہر ہے کہ وہی طور طریق اختیار کرنا۔ آگے کیا ہوا تاریخ اب تک فیصلہ نہیں کرسکی۔ یہاں بھی مسئلہ صرف چار لکیروں کا تھا دو مشرف کے چہرے پر اور دو سردار صاحب کے چہرے پر، روایت یہی ہے جو ہم نے عرض کی ہے حقائق ہمیشہ مسخ شدہ ہی میسر آتے ہیں۔ ہمارے ’’بکے ہوئے‘‘ تاریخ داں ہیں شہنشاہوں کے درباروں کی طرح جو ’’سب اچھا‘‘ لکھتے ہیں اور اس کی شکایت ہر قوم کو ہے، کراچی سے خیبر تک قوم کو مایوس کرنا مقصود نہیں ہے مگر ’’جھوٹے خواب‘‘ آئی ایم ایف کا قرضہ ہوتے ہیں ،ہر چند ماہ خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ قرض کی اگلی قسط مل جائے گی۔

حکومت نے اس جملے ’’قرض کی اگلی قسط‘‘ کو دو حصوں میں دو لکیروں کی طرح تقسیم کردیا ہے۔ ’’قرض‘‘ ۔۔۔۔عوام کو ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔ قسط۔۔۔۔ حکومت کو ملے گی جس سے وہ ’’اپنے‘‘ ترقیاتی منصوبے مکمل کرے گی۔ عوام کی حالت کس قدر اچھی ہوچکی ہے۔ شدید گرمی ہونے کے بعد کفن ایدھی کا نصیب ہوا اور ملکی ترقی کے منصوبوں کا رخ اور Site کہاں ہے۔ سب کچھ آپ کے علم میں ہے۔ گھوٹکی میں آپ نے یہ دو لکیریں واضح دیکھی ہوں گی کچھ دیر A/cسے باہر رہنا پڑا ’’عوام کے ساتھ‘‘ تو یہ حال ہوگیا ’’صاحب‘‘ کا۔ یہی تو ہیں وہ بدبخت بے چارے جو ہر پانچ سال بعد آپ کو (جو بھی جس طرح جیتے) کاندھوں پر چڑھا کر اسلام آباد کے ’’سنگھاسن‘‘ پر بٹھاتے ہیں جس کی آرزو میں عمران بھی بے چین ہیں۔ شوگر ملوں، کارخانوں، فیکٹریوں، پولٹری،پولٹری فیڈ، گندم کے کاروبار سے لے کر سونے کے کاروبار تک کے کرنے والے اپنے آپ کو عوام کا ’’ہم درد‘‘ کہتے ہیں یہاں بھی ہم اور درد الگ الگ ہیں۔ ’’درد‘‘ عوام کا حصہ ہے، ’’ہم‘‘ کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اب اگر یہ حالات ہوں جو نہ بدلنے والے ہوں کیونکہ عوام بدلیں تو حالات بدلیں، جو ہر ’’مداری‘‘ کے پیچھے تماشا دیکھنے لگ جائیں جس کے ’’بندر‘‘ بھی وہ خود ہوں تو آپ بتائیں میرے چہرے پر ناک کے اوپر پیشانی پر دونوں طرف لکیریں گہری نہ ہوں۔ اور یہ ہرگز غور و فکر سے گہری نہیں ہیں شدید دکھ اور غصے سے گہری ہیں، آپ کا حال بھی مجھ سے مختلف نہ ہوگا اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں۔

The post آلہ appeared first on ایکسپریس اردو.


میاں صاحب! سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں…

$
0
0

عبداللہ صاحب شہر میں ہی پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنا بی اے اور ایم اے کر کے انھوں نے برن ہال کالج ایبٹ آباد میں اپنی پہلی ملازمت کی۔ لگ بھگ تین چار سال کی ملازمت کے بعد انھوں نے پاکستان نیوی کے شعبہء تعلیم میں شمولیت اختیار کی، چند برس کی ملازمت کے دوران ان کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا اور انھوں نے گجرات کے ایک نواحی گاؤں میں جو کہ ان کا آبائی گاؤں تھا، وہاں پر ایک نجی اسکول کا آغاز کیا جو کہ اس علاقے کا اپنی نوعیت اور اپنے پائے کا پہلا اسکول تھا۔ پہلا سال انھوں نے فقط ساٹھ طلباء و طالبات کے ساتھ گزارا، اس علاقے میں آج سے پندرہ برس قبل دو سو روپے کی فیس کو بہت زیادہ سمجھا جاتا تھا اور یہی ایک وجہ ان کے اسکول میں طالب علموں کی قلیل تعداد رہی۔

پہلا برس گزرا تو لوگوں کی نظر میں ان کے اسکول کے بچے نمایاں نظر آنے لگے، گاؤں کی گلیوں میں چلتے اور کھیلتے ہوئے بچے ہوں ، کسی کے ہاں کسی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے ، کسی بزرگ کے پاس بیٹھے ہوئے یا کسی سے بات کرتے ہوئے، لوگوں کو نظر آنے لگا کہ یہ بچہ عبداللہ صاحب کے اسکول میں پڑھتا ہے۔ جو تصور عبداللہ صاحب کے ذہن میں تھا وہ ایک پیکر میں ڈھل چکا تھا، انھوں نے خود کو اس مٹی کا مقروض سمجھا جہاں سے ان کے آباؤ اجداد کا خمیر اٹھا تھا اور یہ قرض اپنے گاؤں کی مٹی کو لوٹانے کے لیے ہی انھوں نے اپنے اس خواب کو تعبیر بخشی تھی۔

چند برسوںمیں جب ان کے اسکول کی نویں اور دسویں جماعتیں بورڈ کے امتحانات میں سے شاندار نتائج لائیں تو لوگوں کو اندازہ ہو ا کہ ان کے بچوں کو کس قدر بہترین رہنمائی مل رہی تھی۔ وہ اسکول کسی بھی طور شہر کے کسی بہترین نجی ادارے سے کم نہ تھا، ان میں بھی وہی کتب پڑھائی جا رہی تھیں جو شہروں کے بہترین انگلش میڈیم تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں اور اس کے علاوہ سب سے اہم ان کے لیے ان بچوں کی کردار سازی اور ان کی شخصیت کی بہترین پرداخت تھی۔ صاف ستھرے یونیفارم میں ، تمیز سے بات کرتے اور شان سے چلتے ہوئے بچے ، والدین کے لیے باعث فخر بنتے گئے اور پندرہ سال کے اس عرصے میں انھوں نے وہ چراغ جلائے ہیں کہ جن کی لو اس وقت ملک کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی ہے۔

مگر میں نے عبداللہ صاحب کو اس وقت اتنا پریشان دیکھا ہے کہ ا س سے قبل کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اس وقت بھی نہیں جب شہر کا عیش و آرام چھوڑ کر وہ ہر روز اپنے گھر سے چھتیس کلومیٹر کا سفر کر کے، سردی ہو یا گرمی، دھند ہو یا بارش، ہر روز صبح وقت پر اسکول پہنچتے ہیں، امتحانات کے دنوں میں بچوں کو اسکول کے بعد اضافی وقت بھی دیتے ہیں، گھر والوں سے اس بات کے طعنے بھی سنتے ہیں کہ ان کے لیے سب کچھ اسکول ہی ہے۔ درست ہے کہ ان کے لیے سب کچھ اسکول ہی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ اس اسکول کو کسی فلاحی ادارے کی طرح چلا رہے ہیں، یہ اسکول ہی ان کے گھر کو بھی چلاتا ہے مگر صرف اتنا کہ ان کے گھر کا ماہانہ خرچہ نکل آتا ہے اور ان کے والدین سمیت گھر کے آٹھ نفوس اپنے گھر کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنا مسئلہ مجھے تفصیل سے بتایا تا کہ میں اس پر لکھوں اور وزیر اعلی پنجاب تک یہ اطلاع پہنچے کہ انھیںایسے قوانین اور آرڈنینس جاری کرتے ہوئے سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔

ان کے اسکول کی عمارت کا مالک اس عمارت کا سالانہ دس فیصد کرایہ بڑھاتا ہے اور ان کے اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ کی سالانہ انکریمنٹ بھی پانچ سے دس فیصد ہے، اسکول کے اساتذہ ماہانہ نو ہزار سے لے کر تیرہ ہزار تک تنخواہیں لیتے ہیں ، اسکول میں بچوں کی ماہانہ فیس پندرہ سال میں دو سو سے بڑھ کر کچھ جماعتوں کی بارہ سو اور کچھ کی پندرہ سو تک پہنچی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مختلف اہلیت کے حامل اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ اوسطاً آٹھ بچوں کی ایک ماہ کی فیس کے برابر ہے… آپ نے غیر کسی تفصیلی جائزے کے ایک آرڈنینس جاری کر کے ’’تمام‘‘ پرائیویٹ اسکولوںکے لیے یکساں قانون فوری طور پر نافذ کر دیا ہے۔ کیا آپ اس ایک اسکول کا مقابلہ ان اسکولوں سے کر سکتے ہیں جو اس وقت ہر بڑے چھوٹے شہر میں اپنے اسکولوں کی دو دو تین تین سو برانچیں کھولے ہوئے ہیں یا ان اسکولوں سے جن کے بارے میں ہر روز ٹیلی وژن پر دکھایا جا رہا ہے ، جہاں ایک نرسری کلاس کے بچے کی ماہانہ فیس پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے، وہاں نرسری کی ٹیچر کو بیس سے چوبیس ہزار روپے ماہانہ پر رکھا جاتا ہے، یہ رقم اس جماعت کے سوا بچے کی ماہانہ فیس کے برابر ہے۔

ان اسکولوں میں کئی ایسی قسم کے فنڈز لیے جاتے ہیں جن کی کوئی تک ہی نہیں بنتی، بچوں کے والدین کا ایسے اسکولوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور احتجاج کرنا کوئی معنی رکھتا ہے… آپ نجی تعلیم کے اداروں میں سے ایسی گندی مچھلیوں کو چن کر نکالیں جنہوں نے تعلیم کو قطعی کاروبار بنا رکھا ہے انھیں چیک کریں، آپ تمام اداروں کے لیے ایک جیسے آرڈنینس کی منظوری کیسے دے سکتے ہیں؟ فیس میں سالانہ اضافہ اس روز افزوں مہنگائی کے دور میں ناگزیر ہے کیونکہ اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں مگر آپ حد بندی کریں کہ کتنی رقم سالانہ فیس کی مد میں بڑھائی جا سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ فیس کی حد مقرر کریں ۔

عبداللہ صاحب کے اسکول کی ایک مثال ہے، اس اسکول کا لگ بھگ ایک ایکڑ کا کیمپس ہے اور اس کے اخراجات بھی اسی طرح ہیں، وہ عموما دو سال کے بعد فیس بڑھاتے ہیں اور اس کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے… ان کے اسکول میں شہداء کے بچوں، یتیموں اور حافظ قرآن بچوں کو بالکل مفت تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی کتب کے اخراجات بھی اسکول اٹھاتا ہے۔ اس برس انھوں نے کوئی فیس نہیں بڑھائی اس لیے ان کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا مشکل ہو رہا ہے اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ان جیسے اسکولوں والے سالانہ کیا گیا دو تین سو روپیہ فی طالب علم کا اضافہ بھی واپس لے لیں اور یہی نہیں، وصول کی گئی فیس بھی واپس کریں اور آیندہ برس بھی فیس نہ بڑھائیں !! کیا آپ ان پرائیویٹ اداروں کو سبسڈی دے رہے ہیں؟؟ ان کے اسکول کی طرح اس ملک میں لاکھوں اسکول ہیں جو ان مشہور زمانہ برانڈڈ اسکولوں کے متوازی چل رہے ہیں اور پسماندہ علاقوںمیں بچوں کو گورنمنٹ کے اسکولوں کی نسبت معیاری تعلیم مہیا کر رہے ہیں ، ان اسکولوں میں تعلیم کا کاروبار نہیں کیا جاتا مگر ان اسکولوں کے لیے مسائل آپ نے کھڑے کر دیے ہیں کہ انھیں چلایا کیسے جائے۔

پہلے آپ نے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کے حکم کے وقت بھی اس جیسے نجی تعلیمی اداروں کے لیے انتہائی مشکل حالات پیدا کر دیے تھے جو کہ ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ہیں، ان اداروں کے لیے اس نوعیت کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ ان میں عوام پڑھتے ہیں نہ کہ خواص کے بچے… مگر آپ کے احکامات کی لاٹھی سب کو ایک جیسا ہانکتی ہے … اسکولوں کی بیرونی دیواریں بلند کروانا ، جنھیں ان کے مالکوں نے بلند کروا کر دینے سے انکار کر دیا تھا، سیکیورٹی کیمرے اور سیکیورٹی گیٹوں کی تنصیب اور اب اسلحہ رکھنا لازمی قرار دے کر آپ نے ایک کے بعد دوسرے مسائل کا انبار لگا رکھا ہے، اس پر یہ حالیہ فیصلے ان لوگوں کے لیے کئی مشکلات لے کر آئے ہیں اور انھیں کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں… ایسا نہ ہو کہ دلوں میں علم کی لو پھیلانے کا جذبہ لیے عبداللہ صاحب جیسے لوگ بد دل ہو جائیں ۔

بڑے شہروں میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے رہائشی علاقوں میں ایک ایک کنال کی کوٹھیوںمیں چپے چپے پر نام نہاد تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں جن میں بچوں کو چوزوں کی طرح ٹھونسا ہوا ہوتا ہے حتی کہ بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں بھی ایک ایک فلیٹ میں بنی ہوئی ہیں، ان یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے فی سمسٹر کے حساب سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ اگر آپ نے واقعی کچھ کرنا ہے تو رہائشی علاقوں میں ان رہائشی عمارتوںمیں بنی ہوئی ڈربہ نما یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں کے خلاف آپریشن کریک ڈاؤن کریں اور آرڈنینس لاگو کریں کہ ہر تعلیمی ادارہ کم از کم فی طالب علم ایک مربع گز کی عمارت اور اتنا ہی کھیل کا میدان کا حامل کیمپس رکھتا ہو ، ا س سے کم پر کوئی اسکول چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ تعلیم کے نام پر دھبہ یہ تعلیمی ادارے والدین سے بھی فیسیں بٹورتے ہیں اور فی بچہ فیس کی رقوم اوراساتذہ کی تنخواہوں کی مد میں ان این جی اوز سے وصولی کر کے اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور ملک میں نظام تعلیم کو بدنام کرتے ہیں۔

دفتروں میں بیٹھ کر قوانین بنانے والوں کی بجائے شعبے سے متعلقہ لوگوں سے کہیں کہ ائیر کنڈیشنڈ دفاتر سے نکلیں اور تعلیمی اداروں کو چیک کریں، ہر شہر ، قصبے اور دیہات میں اسکولوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق قوانین بنائیں۔ آ پ کا کام لوگوں کے مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہے نہ کہ چند لوگوں کی غلطیوں کی سزا کے طور پر سب کو رگید دینا۔

The post میاں صاحب! سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں… appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک سرکاری اسکول کے ’’بڑے‘‘ طالب علم

$
0
0

پاکستان بن گیا تو متحدہ ہندوستان سے لاکھوں لوگوں نے کراچی کا رخ کیا۔ خصوصاً سرکاری ملازمین کراچی آئے کیونکہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ نئے ملک میں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ ہر طرف مسائل ہی مسائل تھے جنھیں سنہرے مستقبل کی چاہ میں بھرے پرے گھر چھوڑکرآنے والوں نے قبول کرلیا تھا۔ 1947 میں ہندوستان سے آنے والوں نے کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔ جیکب لائن، جٹ لائن، اے بی سینیا لائن، ٹیونیشیا لائن، بزرٹہ لائن، بی ہائنڈ جیکب لائن نام کی لائنز میلوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔

یہ علاقہ شہرکے مرکز صدر ایمپریس مارکیٹ سے عین متصل تھا۔ آنے والوں کو اپنے بچے بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا تھا۔ سو لائنز ایریا کی سب سے اہم لائن جیکب لائن میں تین بیرکوں میں دو سرکاری اسکولز قائم کردیے گئے۔ایک اسکول لڑکوں کے لیے اور دوسرا لڑکیوں کے لیے۔ ان اسکولوں میں بڑے بڑے سرکاری افسروں کے بچے بچیاں ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے صف اول کے ایک بہت نامور اور صاحب کردار رہنما کا بیٹا بھی پڑھتا تھا۔ جس نے کبھی کسی کوکانوں کان خبر نہ ہونے دی تھی کہ وہ کتنے عظیم باپ کا بیٹا ہے۔

آزاد وطن کی چاہ میں سبھی مست تھے۔جذبے جوان تھے امنگوں آرزوؤں سے دل لبریز تھے۔ سب ایک تھے، ایک دوسرے کے لیے پیار محبت تھا، ایثار تھا، قربانی تھی۔ گرے ہوئے کو ہاتھ بڑھا کر اٹھاتے تھے۔ ساتھ لے کر چلتے تھے۔ مشکلات بہت تھیں پھر بھی سب خوش تھے۔ جالب کا شعر ہے:

یہ بجا زیست پاپیادہ تھی
دھوپ سے چھاؤں تو زیادہ تھی

اب تو لٹیروں نے درخت بھی نہیں چھوڑے اور بیچ کھائے، خیر یہ تو یوں ہی درمیان میں بات آگئی۔ میں آپ کو 1947 کے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیکب لائن کراچی لیے چلتا ہوں، جہاں اپنے زمانے کے مشہور کالم نویس نصر اللہ خاں تاریخ اور اردو کے استاد تھے۔ ان کا کالم ’’حرف و حکایت‘‘ بہت پڑھا جاتا تھا۔ نصراللہ خاں کے ہم عصر کالم نگاروں میں ابراہیم جلیس اور انعام درانی کے کالم بھی بہت مقبول تھے۔

نصر اللہ خاں نے اپنے ایک کالم میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر مرحوم اے۔ٹی چوہدری جن کا انگریزی زبان کے صف اول کے صحافیوں میں شمار ہوتا تھا اور انگریزی ادب پر بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔ یہ گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن میں انگریزی کے استاد تھے۔ دیکھ لیں قیام پاکستان کے وقت گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ کا معیارکیا تھا۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ حکومتیں پاکستان کی ترقی کے لیے سرکاری اسکولوں کے معیارکو اورآگے بڑھاتی، مگر جب صرف ’’ذاتی ترقی‘‘ مقصد بن جائے تو وطن ترقی کیسے کرتا؟ ذرا غورکریں ایک طرف پاکستان ٹائمزکے ایڈیٹر انگریزی کے معروف صحافی اے ٹی چوہدری انگریزی کے استاد اور نصر اللہ خاں اردو اور تاریخ کے استاد اور دوسری طرف آج کے سرکاری اسکولوں کے استادوں کو دیکھ لیں، گھوسٹ اسکول ہیں،گھوسٹ استاد ہیں، جو ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہیں گھر بیٹھے لے رہے ہیں۔ اسکولوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

نصراللہ خاں مزید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اسکول میں ایک طالب علم ایسا بھی تھا کہ جو سائیکل پر اسکول آتا تھا۔ یوں ہم اساتذہ دوپہر میں اسے صدر بازار بھیج کر اپنے لیے سالن روٹی منگوا لیا کرتے تھے اور وہ سائیکل والا طالب علم بلا چوں چرا اساتذہ کے لیے سالن روٹی لینے چلا جاتا تھا۔ ہم اسکول کے ٹیچروں نے بھی اس سائیکل والے شاگرد سے کبھی نہیں پوچھا کہ بھئی! تم کون ہو،کس کے بیٹے ہو اورنہ کبھی اس نے ہمیں بتانے کی کوشش کی۔ معلوم نہیں یہ بات کیسے ہمیں پتہ چلی کہ یہ سائیکل والا طالب علم تحریک پاکستان کے صف اول کے ہردل عزیز رہنما اور مرکزی وزیر داخلہ سردارعبدالرب نشترکا بیٹا ہے۔ نصر اللہ خاں لکھتے ہیں کہ بعد کو یہی سائیکل والا طالب علم پاکستان بینکنگ کونسل کا چیئرمین بنا اور اس کا نام تھا جمیل نشتر۔

غریب طالب علموں کے ساتھ پڑھ لکھ کرگورنمنٹ اسکول کے ماحول میں پروان چڑھ کر ایک مرکزی وزیر اور اتنے بڑے رہنما کا بیٹا اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوا۔ ذرا اس بات کا موازنہ اپنے آج سے کریں اور سوچیں کہ تعلیمی میدان میں ہمیں کہاں پہنچنا تھا اور ہم کدھر نکل گئے۔

اسی گورنمنٹ بوائزسیکنڈری اسکول سے کئی اور بھی بڑے طالب علم پڑھ کر نکلے۔ دہلی کے بہت بڑے ادبی خاندان کے جسٹس حاذق الخیری نے بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ عدالتی منصب تک پہنچے۔ اسی اسکول سے معروف شاعر پیرزادہ قاسم نے بھی پڑھا اورکراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے،آج کل ضیا الدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔

نصر اللہ خاں نے اپنے اسکول کے ایک اور طالب علم کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ طالب علم بہت غریب گھر کا بچہ تھا۔ ماں باپ کی انتہائی خواہش تھی کہ ان کا بچہ میٹرک پاس کرلے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح سرکاری دفتر میں کلرک بھرتی ہوجائے، مگر غریب ماں باپ کے اس بچے کا پڑھنے لکھنے میں بالکل جی نہیں لگتا تھا۔ نصر اللہ خاں لکھتے ہیں کہ یہ لڑکا بہت ذہین تھا اور اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ میں بھی مقبول تھا۔ درسی کتب سے کہیں زیادہ اسے شاعری سے دلچسپی تھی۔ گریبان کھلا ہوا، سر کے گھنے بال کاندھوں پر جھولتے ہوئے۔اس طالب علم نے اپنا تخلص مست رکھا ہوا تھا۔ اس زمانے کے استاد بھی اپنے شاگردوں کے لیے بہت زیادہ ہی کوشش کرتے تھے کہ شاگرد بھٹک نہ جائے۔ لہٰذا نصر اللہ خاں مست کو اپنے گھر لے گئے تاکہ اسے مزید توجہ سے پڑھا سکیں مگر مست نے نہ پڑھنا تھا اور نہ وہ پڑھا۔ بلکہ ہوا یوں کہ ایک رات دو بجے مست نے اپنے استاد نصر اللہ خاں کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نصر اللہ خاں نیند سے بیدار ہوئے اور اندر سے ہی پوچھا ’’مست! کیا بات ہے؟‘‘ مست نے جواب دیا۔ ’’حضور! غزل ہوگئی ہے سن لیں۔‘‘ نصراللہ خاں بولے ’’مست! صبح سن لیں گے، ابھی سو جاؤ۔‘‘ مگر مست بضد تھا اور بولا ’’حضور! ابھی سن لیں۔‘‘ خیر نصر اللہ خاں اور ان کی بیگم اٹھے، مست کی غزل سنی۔ مست تو اپنا بوجھ ہلکا کرکے گہری نیند سو گیا، مگر نصر اللہ خاں اور ان کی بیگم کو مست کی غزل اور سحر انگیز ترنم نے بقیہ رات سونے نہیں دیا۔ نصر اللہ خاں کے اسکول کا یہ مست تھا۔ جسے زمانہ حبیب جالب کے نام سے جانتا ہے۔

ہمارے ملک کے بڑے چھوٹے شہروں اورگاؤں گوٹھوں میں خستہ حال اسکول آج بھی کسی مرکزی وزیر داخلہ سردارعبدالرب نشتر کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ جو اپنے بچے کو داخل کرانے آئے اور ان اسکولوں کی ہر طرح کی خستہ حالی کا خاتمہ ہو۔ دردمند دل رکھنے والے اپنے خستہ حال اسکولوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری اٹھالیں، تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ ہمارے شہروں میں ایسے لوگ ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کام کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔

The post ایک سرکاری اسکول کے ’’بڑے‘‘ طالب علم appeared first on ایکسپریس اردو.

PUSH

$
0
0

ملکہ برطانیہ کو ایک بیکری کے بسکٹ اورکیک پسند آگئے۔ انھوں نے اس بیکری کو شاہی محل کے لیے چیزیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔ سوچیے کہ ملکہ کی حوصلہ افزائی سے بیکری کی اہمیت کس قدر بڑھ گئی ہوگی۔ اس نے اپنی دکان کے باہر لکھ کر لگوادیا کہ ’’برمنگھم پیلس میں پیسٹری اور کیک ہم فراہم کرتے ہیں‘‘ کالم کے حوالے سے بات یہیں ختم ہوجاتی ہے کہ ملکہ نے کسی کو پسند کرلیا تو وہ Push ہوگیا یعنی آگے بڑھ گیا، اگر قارئین کو آگے بڑھ کر لطیفہ سننا ہو تو کہا جائے گا کہ برابرکی بیکری والے نے بھی ایک بورڈ لگوایا کہ ’’خدا ملکہ عالیہ کی صحت پر رحم فرمائے۔‘‘

اداکار ندیم گلوکار بننا چاہتے تھے۔ ہدایت کار احتشام ان دنوں فلم ’’چکوری‘‘ بنارہے تھے۔ ان کی نظر نذیر بیگ پر پڑگئی اور فلم میں انھیں ندیم کے نام سے متعارف کروایا گیا۔ فلم چل پڑی اور اس کے ساتھ ندیم بھی چل پڑے۔ پھر فلمی ہیرو ندیم نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔آپ کاروبار کرتے ہوں یا پروفیشنل ہوں یا کہیں سروس کرتے ہوں۔کوئی چاہے مزدوری کررہاہو یا ٹھیلا لگاتا ہو، اگر؟ جی ہاں اگر اس شعبے کا ٹاپ پر بیٹھا آدمی آپ کو پسند کرے توکیا ہوگا؟ یعنی اس کی سمجھ میں آپ یا آپ کی کوئی خوبی آجائے تو؟ پھر آپ اپنے شعبے میں تیزی سے ترقی کرتے جائیںگے۔ اسے آپ کی تدبیر بھی کہا جاسکتا ہے اورتقدیر بھی۔ ممکن ہے کہ واقعی آپ میں کوئی خوبی ہے جو سب سے اوپر بیٹھے شخص کی سمجھ میں آگئی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ سے زیادہ عقلمند، ذہین، ہنرمند اور محنتی لوگ آپ کے شعبے میں ہوں لیکن ان پرکامیاب ترین شخص کی نظر نہ پڑی ہو۔ اگر کسی عام سے فرد پر اس شعبے کے خوش قسمت ترین آدمی کی نظر پڑجائے تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ پھر اسے دیکھ کر دوسرے بھی اس پر نظرکرم کرتے ہیں۔

آفتاب اقبال نے اپنے پروگرام کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو پاکستانی اور انڈین فلمی گانوں کو سن کر ان کے ہدایت کار،گلوکار،اداکار اور فلم کا نام بتاسکتا ہے۔ پہلے اس شخص پر کسی کی نظر نہ گئی۔ یوں ایک شعبے کے کامیاب فرد نے ایک آدمی کوکہاں سے کہاں پہنچادیا۔ اس طرح کی نظرکرم کسی شخص کی کامیابی کا سفرآسان بنادیتی ہے یوں وہ شخص عشروں کا سفر برسوں میں اور برسوں کا سفر مہینوں میں طے کرسکتا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے کامیاب ترین شخص کی پسندیدگی یا کسی کو آگے بڑھانا یا دھکیلنا اسے خوشحال بھی بنادیتا ہے اور کامیاب بھی، اسی دھکیلنے کو ہم نے “Push” کا نام دیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کے ایک ہیئر ڈریسر پسند آگئے۔ وہ اپنے بال اسی شخص کی دکان سے کٹواتے۔ بھٹو دورکے بڑے بڑے وزیر اس دکان کے طواف کرنے لگے۔ وہ ایک عام سے نائی سے درخواست کرتے کہ بھٹو صاحب کے سامنے ان کی تعریف کریں۔ شاہ رخ کی فلم ’’بلوہاربر‘‘ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایک بڑے فلمی ہیروکا دوست اگر ایک باربر ہو تو بھی گاؤں کے لوگ بھی اسے کس قدراہمیت دیتے تھے۔ ایک بڑا کاروباری شخص کئی کئی جہازوں میں مال امپورٹ کرتا، دال، چاول، اورکیمیکل وغیرہ۔ گودام کے گودام بھرے ہوتے اور روز کئی کئی ملین روپے بینکوں کو مارک اپ کی ادائیگی ہوتی۔ اس بزنس مین کا طریقہ ہوتا کہ وہ ہر شعبے کے لیے کوئی ایک بروکر مقررکردیتا۔ وہ اس شخص کوکہتا کہ اتنا مال اس قیمت پر بیچنا ہے، رقم خریدار سے مجھ تک پہنچانا تمہارا ذمے ہے۔ ایک بہت بڑے کاروباری شخص کی پسندیدگی نے ایک عام دلال کو بڑے بڑے بیوپاریوں سے بڑا بیوپاری بنادیا۔امپورٹر چاہے کمائے یا نقصان اٹھائے، مال خریدنے والا نفع کمائے یا گھاٹا اٹھائے، وہ دلال اپنی دلالی وصول کرتا،یوں ایک آدمی بلکہ یوں کہیے کہ بڑے بزنس مین کی نظر کرم نے ایک عام شخص کو چند برسوں میں کروڑ پتی بنادیا۔

ضیا الحق کے دور میں علما و مشائخ کے علاوہ قاری حضرات اور نعت خوانوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس دور میں مشہور تو منظور وارثی کا یہ کلام ہوا کہ ’’یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے‘‘ لیکن زیادہ کامیاب ہونے والے نعت خواں صدیق اسماعیل تھے۔ جنرل ضیا کو ان کا انداز پسند آیا اور انھیں اپنی نجی محفل میں بلایا۔ بس پھرکیا تھا وہ پی ٹی وی کے بھی پسندیدہ ہوگئے۔ واقعی وہ باصلاحیت ہیں اورآواز پر سوز ہے، لیکن جس کی ادا حاکم وقت کو بھاجائے تو اس کی ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ صلاحیتیں تو سب میں ہوتی ہیں لیکن کامیابی اور خوشحالی ان میں مزید نکھار پیدا کردیتی ہے۔ یہ نکھار اعتماد بن کر مزید کامیابیاں دلاجاتا ہے۔

عمران خان جب اپنے کرکٹ کے دور عروج پر تھے تو انھوں نے کہاکہ ہماری ٹیم نصرت فتح علی جیسے عظیم گلوکارکی مداح ہے۔ شباب کیرانوی کی نظرکرم جس طرح اداکار غلام محی الدین پر پڑ گئی، اسی طرح سرفراز نوازکو توصیف احمد بھاگئے۔ آسٹریلیا کی ٹیم کو پاکستان آنا تھا اور وہ آف اسپین پرکمزور تھے۔ کسی نے سرفراز سے توصیف کو ملوایا اور وہ انھیں ٹیم منیجر مشتاق محمد کے پاس لے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ فائیو اسٹار ہوٹل میں ظہیرعباس کے ساتھ ٹھہر جائیں۔ توصیف کو یہ سب کچھ خواب محسوس ہورہا تھا۔اسی طرح ایک یتیم بچہ ہوٹل میں بیراگیری کرتا تھا۔ ایک جرمن جوڑا آیا تو انھیں وہ بچہ سمجھ میں آگیا، ہوٹل کے مالک سے کہاکہ ہم بے اولاد ہیں اور یہ بچہ ہمیں دے دو، اسے کہا اعتراض ہوسکتا تھا۔ اس جرمن جوڑے نے اس یتیم اور بے آسرا شخص کو اپنی اولاد کی طرح رکھا۔ اسے لکھانے پڑھانے کے علاوہ ایک ہنرسکھادیا۔ وہ شخص ٹیکسٹائل انڈسٹری میں رنگوں کو ملانے کا ہنر جانتا تھا جو آج بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے یوں وہ بچہ ایک کامیاب اور خوشحال آدمی بن گیا ورنہ اس کے نصیب میں ہوٹل کی بیرا گیری ہوتی۔ اگر وہ جرمن جوڑا اسے دیکھ نہ لیتا۔

نواز شریف پر ضیا الحق، بھٹو پر اسکندر مرزا وایوب خان، نہرو پرگاندھی جی کی نظر، نظرکرم بن گئی۔ بڑے اورکامیاب شخص کی شفقت وعنایت دوسرے لوگوں کو منظر سے ہٹاکر اس شخص کو منظر عام پر لے آتی ہے کہ وہ خوش قسمت ہوتا ہے۔ بعض اوقات معاملات اس سے ہٹ کر بھی ہوتے ہیں۔ خیر چھوڑیں! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خوش نصیب وکامیاب شخص کسی عام شخص کو ذرا سا دھکیل دے یا پُش کردے تو وہ عزت، دولت وشہرت کی بلندیوں کو چھولیتا ہے۔ دعا کریں کہ قدرت آپ پر مہربان ہو اور آپ بغیرکسی خوشامد کے کسی باوسائل شخص کی گڈ بک میں آجائیں اور وہ آپ کو کردے۔ “Push”۔

The post PUSH appeared first on ایکسپریس اردو.

سرحدیں کھول دو، پناہ گزینوں کو آنے دو

$
0
0

رنگ، نسل، زبان، ملک و ملت، مذہب، ذات پات، فرقوں، مسلکوں کے حوالوں سے بٹی ہوئی اس دنیا میں اگرکہیں سے انسان دوستی محبت خلوص بھائی چارے کی آواز سنائی دیتی ہے تو احساس ہوتا ہے، امید بندھتی ہے کہ انسان مرا نہیں ابھی زندہ ہے۔ مغربی ملکوں کے عوام بھی پسماندہ ملکوں کے عوام کی طرح مختلف مسائل میں گھرے ہیں۔ سیکڑوں سال کی جد وجہد کے بعد اگرچہ ان ملکوں کے عوام کا معیار زندگی ہم سے کچھ بہتر ہوا ہے لیکن ان ملکوں کے عوام بھی ابھی تک ایک آسودہ اور خوشحال زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہم بغیر حقائق کو سمجھے مغرب سے نفرت کرتے ہیں، بلا شبہ مغرب میں بھی قومی دولت مٹھی بھر انسان نما سانپوں کے ہی قبضے میں ہے اور مذہب و ملت کے نام پر عوام میں نفرتیں پھیلانے والے عوام کو ایک دوسرے کا خون بہانے کی ترغیب فراہم کرنے والے عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے والے موجود ہیں لیکن نفرتوں، تعصبات، تنگ نظریوں کے ان اندھیروں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو انسانیت کا سرمایہ ہیں۔

پچھلے ایک طویل عرصے سے دنیا کے مختلف ملکوں سے ان ہی آزار کے شکار لاکھوں عوام ترک وطن کرکے مختلف ملکوں میں پناہ کی تلاش میں ایک انتہائی پر خطر سفرکے مسافر بن رہے ہیں، سیکڑوں، ہزاروں سالوں سے اپنی دھرتی ماں کے سینے پرگزارہ کرنے والے ان معصوم لوگوں کو مختلف ناموں، مختلف زبان بولنے والوں، مختلف عقائد کو ماننے والے شیطانوں نے ان معصوم لوگوں پر زندگی اس قدر تنگ کردی کہ یہ لوگ بے سرو سامانی میں اپنا وطن، اپنا گھر بار، اپنے اجداد کی قبریں چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں انتہائی خطرناک سفر کے مسافر بنے ہوئے ہیں۔ ان مسافروں میں اب تک ہزاروں مسافر سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، کشتیوں کے ڈوبنے سے بڑوں کے ساتھ ساتھ معصوم بچے بھی ڈوب گئے، ایسے بد قسمت بچوں کی لاشیں جب ساحلوں پر ملیں تو انھیں دیکھ کر انسانوں کی روح لرزگئی انسان کا انسان پر سے اعتماد اٹھ گیا، ننھے فرشتوں کی لاشیں دیکھ کر لوگوں نے دل تھام لیے۔

ایسی صورت حال میں کئی یورپی ملکوں میں پناہ گزینوں کی حمایت میں ’’یوم عمل‘‘ منایا گیا۔ ڈنمارک، جرمنی، پولینڈ، سویڈن وغیرہ کے شہروں میں ہزاروں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر ’’سرحدیں کھول دو، پناہ گزینوں کو آنے دو‘‘ لکھا تھا۔ ابھی ابھی یونان میں کشتی ڈوبنے سے 34 تارکین وطن ہلاک ہوئے، آسٹریا میں پھولوں سے لدے ایک ٹرک میں42 تارکین وطن پھولوں کے نیچے چھپے بیٹھے تھے اب تک لاکھوں تارکین وطن مغربی ملکوں میں پہنچ چکے ہیں، ہم جیسے اعلیٰ اقدار کے حامل لوگ تارکین وطن کے نام سے منہ چڑاتے ہیں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملک و ملت کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نفرت سکھاتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تارکین وطن کی غیر منصوبہ بند آمد کے مضمرات اور المیوں کا ادراک رکھتے ہیں جرمن، برطانیہ، فرانس، ڈنمارک، پولینڈ، سویڈن سمیت کئی مغربی ملکوں میں عوام تارکین وطن کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں اور یہ حکومتیں اعلانات کررہی ہیں کہ وہ مزید بیس ہزار، پچیس ہزار، تیس ہزار تارکین وطن کو قبول کریںگے اور ان کی رہائش کا انتظام کریںگے۔

اس پس منظر میں جب میں 1947 کے المیے پر غور کرتا ہوں جس میں 22 لاکھ بے گناہ انسان انتہائی بے دردی سے قتل کردیے گئے، کروڑوں کو ’’مہاجر‘‘ بننا پڑا، میں جب افغان مہاجرین کے حال پر غور کرتا ہوں جب میں 20 لاکھ بنگالی تارکین وطن کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مشرق اور مغرب کے تارکین وطن کا فرق میری نظروں میں آجاتا ہے۔ مغرب کے حکمران طبقات میں بہت ساری کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن ان میں اخلاق کی اتنی رمق باقی ہے کہ وہ مہاجرین کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرتے، مغرب کا کلچر خواہ کتنا بڑا سہی لیکن وہاں جرائم پیشہ لوگوں کو اتنی چھوٹ حاصل نہیں جتنی پسماندہ ملکوں کے جرائم پیشہ لوگوں کو حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والے تارکین وطن کی اکثریت جرائم سے دور رہتی ہے اور محنت، مشقت اور ایمانداری سے اپنی روزی کماتی ہے۔

بلا شبہ مجھے مغربی ملکوں کے عوام اور حکومتوں کی اس اعلیٰ ظرفی انسانیت دوستی کا احترام ہے لیکن میرے ذہن میں بہر حال ایک بات کانٹے کی طرح چھبتی ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کا استقبال انھیں اپنے ملکوں میں آباد کرنے سے مہاجرین اور تارکین وطن کا روز بروز بڑھتا ہوا سیلاب رک جائے گا؟ کیا غیر ملکی تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں جگہ دینے سے مہاجرین اور تارکین وطن کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں جنگوں، خون خرابوں، خوف ودہشت کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے، پسماندہ ایشیائی ملکوں سے جو لوگ ترک وطن کرکے مغربی ملکوں میں جارہے ہیں ان میں مختلف مذاہب، مختلف زبانوں، مختلف نسلوں، مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ یہ ایک ایک کشتی ہی میں بیٹھ کر سفر کررہے ہیں، منزل مقصود تک پہنچ رہے ہیں یا ہلاک ہورہے ہیں کیوں کہ یہ تمام تر تعصبات، تمام تر امتیازات، تمام تر تحفظات، تمام تر اختلافات سے بالاتر ہوگئے ہیں۔ کیا اپنے اپنے ملکوں میں رہنے والے ان تمام تر بد بختیوں سے آزاد نہیں ہوسکتے اگر ایسا ہو تو پھر کسی کو نہ ترک وطن کی ضرورت رہے گی نہ مہاجر بننے کی۔

رنگ، نسل، زبان، مذہب، عقائد وغیرہ کے حوالے سے انسانوں میں جو گندگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کیا وہ خود بخود پیدا ہوتی ہے؟ جی نہیں بلکہ یہ زہر وہ سانپ انسانوں میں پھیلاتے ہیں جو رنگ نسل زبان مذہب وغیرہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، کہا جارہاہے کہ جو لوگ ترک وطن کررہے ہیں ان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں عرب ملکوں میں شام عراق وغیرہ سرفہرست ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے بڑے حصے پر داعش نے قبضہ کرلیا ہے اور جن جن ملکوں کے علاقوں پر داعش کا قبضہ ہے ان ملکوں سے سب سے زیادہ ترک وطن کا سلسلہ جاری ہے، داعش کا مطلب اسلامک اسٹیٹ ہے اور داعش ساری دنیا میں اسلام نافذ کرنا چاہتی ہے، پھر داعش کے زیر قبضہ مسلم ملکوں سے مسلمانوں کا ترک وطن کیوں جاری ہے؟

The post سرحدیں کھول دو، پناہ گزینوں کو آنے دو appeared first on ایکسپریس اردو.

ذخیرہ

$
0
0

مشک اور شعر کی خوشبو تہہ خانے کے صندوق میں بھی ہو تو بھی اپنا پتہ دیتی ہے۔ مجھے جب محبی جسٹس سید جمشید علی کی کتاب ’’تلاش‘‘ ملی اور اس کے نیچے بریکٹ میں تحریر ہے ’’ہم قافیہ وہم ردیف اشعار کا مجموعہ‘‘ تو میں حیرت و خجالت میں ڈوب گیا کہ تین دہائیوں کے قرب و تعلق کے باوجود کیوں معلوم نہ ہو سکا کہ شاہ جی شعر بھی کہتے ہیں۔ شعرکی آمد کے بعد شاعر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب تک وہ اسے کسی کو سنا نہ لے سانس لینا بھی محال ہوتا ہے۔ لیکن میں شاہ جی کو فون کرنے سے پہلے میں نے جسٹس سید جمشید علی سابق جج سپریم کورٹ کی کتاب کا تعارف پڑھا تو بات سمجھ میں آ ئی کہ میں جو انھیں سخن فہم کے طور پر بخوبی جانتا ہوں وہی سچ ہے کیونکہ شاعر یعنی سخن ور ہونے کا تو ان کا کبھی دعویٰ ہی نہیں تھا۔ اس کتاب کا محرک وہ ایک شعر کو بیان کرتے ہیں جو انھوں نے شیخ محمد اکرم سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کو ایک شعری نشست میں پڑھتے سنا۔ شعر یوں ہے

ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ

شاہ جی نے اتنا خوبصورت شعر سن کر پوری غزل کی بابت شیخ اکرم سے دریافت کیا تو وہ شاعر کا نام نہ کھوج سکے۔ شاعر کی تلاش میں جمشید صاحب نے ہم قافیہ اور ہم ردیف شعروں کا تعاقب شروع کر دیا اور جو بھی اس قبیل کا اچھا شعر نظر سے گزرتا وہ اسے اپنی ڈائری میں درج کرتے چلے گئے۔ ان کی مشکل جسٹس انوار الحق صاحب نے حل کر دی جب انھوں نے ظہیر کاشمیری کا ایک اور شعر سنا دیا  ؎

رات بھر بیٹھے رہے دیدہ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ

اس کتاب کے 220 صفحات میں اگرچہ جمشید صاحب کا اپنا لکھا ہوا صرف دو صفحوں کا ’’تعارف‘‘ ہے اور باقی معروف شعرا کے کسی جگہ تین اور کہیں چھ ’’ہم قافیہ وہم ردیف‘‘ شعر موجود ہیں لیکن سال ہا سال کی کاوش محنت اور لگن نے ’’تلاش‘‘ کو دیدہ و دل کی خوش کن ضیافت اور علمی و ادبی مرقع بنا دیا ہے۔ میں اس ذخیرے میں سے کچھ اشعار اس کالم میں اور کچھ آیندہ درج کروں گا ۔ اب شعر پڑھئے اور سر دھنئے؎

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا        (غالب)

ہوائے تند میں ٹہرا نہ آشیاں اپنا
چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا   (یاس یگانہ چنگیزی)

دل میں کس قدر ہے درد اس کو کیا یقیں آئے
داغ بے نمود اپنا زخم بے نشاں اپنا (داغ)

گھر ہے اب قفس فانی گھر کبھی چمن بھی تھا
ہاں کبھی وطن بھی تھا اب وطن کہاں اپنا (فانی)

وہ چمن جسے ہم نے خون دل سے سینچا تھا
اس پہ حق جتاتی ہیں آج بجلیاں اپنا         (جالب)

رنجش ہی سہی دل میں دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ   (احمد فراز)

جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ (طالب پانی پتی)

یہ کس نے کہا ہے مری تقدیر بنا دے
آ اپنے ہی ہاتھوں سے مٹانے کے لیے آ (حسرت جے پوری)

جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مدمقابل نہیں رہا        (تابش)

شمع کے ساتھ تو جلتے ہیں پتنگے دو پل
کون ساتھی ہے مرے عالم تنہائی کا        (عدم)

…………

محشر میں ہو نا دم وہ خدا یہ نہ دکھائے
آنکھوں کو کبھی اس کی پشیماں نہیں دیکھا (داغ)

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
اس شوخ کی زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا (اصغر گونڈوی)

اللہ رے مجبوری آداب محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا (جگر)

…………

بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا (غالب)

کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی
یہ کون حضرت آتش کا ہم زباں نکلا      (یاس یگانہ)

میں نکلتا تری محفل سے اکیلا اے کاش
غم یہ ہے ساتھ مرے غیر کا ارماں نکلا   (سالک)

چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا (بزم اکبر آبادی)

The post ذخیرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک تقابلی جائزہ

$
0
0

اگر کسی ریاست کی سمت کا اس کے قیام کے ابتدائی ایام میں تعین ہوجائے تو پھر اس کے لیے ترقی کی منازل طے کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا ایک اہم Case Study ہے۔ یہ ملک جو زیادہ تر تارک الوطن افراد پر مشتمل ہے،جہاں ہر ریاست میں یورپ کے مختلف ممالک کے آکر آباد ہونے والے مختلف النوع اور مختلف النسل لوگ آباد ہوئے اورجن کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا کٹھن مرحلہ تھا۔ چند صاحب بصیرت اہل دانش کی کاوشوں کے سبب انھیںایک وفاقی دستورکے ذریعے ایک ایسے بندھن میں پرویا،جوایک سپر پاور کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

ان عظیم ہستیوں میں جارج واشنگٹن سمیت کئی اہم نام شامل ہیں ،لیکن بنجامن فرینکلن ایک منفرد حیثیت کی حامل شخصیت کے مالک تھے۔وہ بیک وقت ایک سیاسی مدبر، سفارتکار، صحافی ، مصنف، سائنسدان اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن تھے۔ انھیں بجاطورپر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں میں شمارکیاجاسکتاہے،کیونکہ انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ابتدائی طورپر 13ریاستوں کے نمایندوں نے ایک وفاقی آئین پر دستخط کرکے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی ۔ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ان کی کوششوں اور کاوشوں کا مطالعہ آج68 برس گذرجانے کے باوجودہمارے معاشرے کے لیے سمت کا تعین کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

جس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تشکیل کے لیے کوششیں جاری تھیں، ایسا محسوس ہورہاتھا کہ مختلف ریاستوں سے آئے نمایندگان کسی ایک موقف پر رضا مند ہونے کو تیار نہیں۔ وفاقی ریاست کی تشکیل کا وہ خواب جو اس خطے کے دیدہ وروں نے دیکھا تھا،شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ایسے میں 80سالہ جہاندیدہ بینجمن فرینکلن،جو ان دنوں خاصے علیل تھے، اپنی نشست سے اٹھے اور انھوں نے ایک پرجوش مگر مدلل تقریر کی۔ انھوں نے ریاستوں نمایندگان سے سوال کیاکہ کیا کبھی آپ نے اس پہلوپر غورکیا ہے کہ آپ کے سامنے رکھی یہ میز کیسے بنی ہے؟بڑھئی نے کسی ایک تختہ کو نہیں چھیلا ہے۔ بلکہ برابر بٹھانے کے لیے دونوں تختوں کو اس وقت تک چھیلاہے جب تک ان کی سطحیں ہموار ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ نہیں گئیں اور ان کے درمیان کوئی رخنہ باقی نہیں رہا۔ آپ کو بھی اس میز کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے اپنے بہت سے مطالبات سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اگرایک آزاد ریاست قائم کرنے کے متمنی ہیں توآپ میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ قربان کرناہوگا۔ اس لیے آئیے اس میز کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ان مطالبات سے ازخود دستبردار ہوجائیں جو وفاق کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔

مسٹر فرینکلن کی اس تقریر کا نمایندگان پر گہر اثرا ہوا اور وہ ایک آئینی مسودے پربالآخر متفق ہوگئے۔ یوں اس دستاویز پر 17ستمبر1787کو دیگر نمایندگان کے علاوہ بینجمن فرینکلن نے بھی دستخط کیے۔ اس آئینی مسودے کی منظوری کے بعد وہ مسلسل صاحب فراش رہنے لگے اور بالآخر آئین کی منظوری کے تین برس بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موت کا سوگ نئی اور پرانی دونوں دنیاؤں میں یکساں طور پر منایا گیا۔ان کی کاوشوں کے نتیجے میں تشکیل پانے والا وفاقی آئین،جس میں ابتداً13ریاستیں شامل تھیں،آج50 ریاستوںپر مشتمل ہے۔ سوا دو سو برس سے یہ آئین دنیا کی اس فیڈریشن کی اساسی دستاویزہے، جو گزشتہ 70برس سے عالمی طاقت اور23 برس سے عالمی قوت واحدہ ہے۔

اگر آئین کی منظوری کے بعد سے اب تک کی امریکی تاریخ کا جائزہ لیں تو جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ وہاںسیاستدانوں اور منصوبہ ساز حلقوں نے کبھی ماورائے آئین اقدامات کی جرأت نہیں کی۔کبھی سرزد ہوجانے والی غلطیوں کی غلط تاویلات یا جوازپیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔آئین میں ترمیم واضافے کے لیے ہمیشہ مجاز فورم یعنی پارلیمنٹ کواستعمال کیا۔انتخابات کے لیے ایک صدی قبل جو کلیہ طے کیاگیا، اس پر آج تک عمل ہوتا ہے۔ یعنی ہر Leap Yearکے اکتوبرکے تیسرے ہفتے میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں۔ چھ ہفتے نئے صدرکو وائٹ ہاؤس میںمختلف قومی اور عالمی امور پر بریفنگ اور تربیت دی جاتی ہے۔ جنوری کے تیسرے ہفتے میں نیاصدر حلف اٹھالیتا ہے۔ایک شخص صرف دو مدتوں کے لیے امریکی صدر بن سکتا ہے، تیسری مدت کے لیے نہیں۔

پاکستان میں روز اول سے جمہوریت کشی کی روایت ڈال دی گئی۔معروف سماجی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کی تحقیق کے مطابق پارلیمانی روایات کے مطابق نوابزادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ لیکن اختیارواقتدار کا اصل سرچشمہ سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی تھے۔ کابینہ کی میٹنگ میں کیے جانے والے فیصلوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی، جب تک کہ چوہدری محمد علی اور ان کے پسندیدہ سیکریٹریوں کا ایک ٹولہ ان فیصلوں سے متفق نہ ہوجائے۔اس دور کے بعض واقفان حال لکھتے ہیں کہ اکثر مواقعے پر لیاقت علی خان کو یہ کہتے سنا گیاکہ کابینہ میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی سے پوچھ لو کہ انھیںوہ منصوبہ منظور بھی ہے یا نہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورتحال سے تنگ آکر انھوں نے دو مرتبہ استعفیٰ بھی دیا۔غالباً یہ صورتحال آج تک جاری ہے۔ بظاہرمیاں نواز شریف ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں، لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔

اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرنا ضروری ہے۔ بھٹو مرحوم لکھتے ہیں کہ PNAکی تحریک اپنے زوروں پر تھی کہ ایک روز رفیع رضا میرے دفتر آئے۔ وہ کچھ گھبرائے ہوئے سے تھے۔ کہنے لگے کہSir, the govt. has turned against us۔میںنے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ رفیع رضا We are the govt. I am your PM and you are my advisor What you are saying?۔ رفیع رضا نے چند لمحموں کی خاموشی کے بعد ہچکچاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔No, Sir, the govt is somewhere else۔ بھٹو لکھتے ہیں کہ آج اس کال کوٹھڑی میں مجھے اندازہ ہورہاہے کہ واقعی میرے وزیر اعظم ہونے کے باوجودThe govt. was somewhere else۔

ہمیں محض تنقید کے بجائے اس صورتحال کے پیدا ہونے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو سول یا ملٹری اسٹبلشمنٹ کومعاملات اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبورکرتے ہیں؟عرض یہ ہے کہ میں نواز شریف لیاقت علی خان کی طرح ایک شریف انسان ہیں۔ مگر دونوں میں ایک قدر مشترک ہے،وہ یہ کہ نہ لیاقت علی خان میںکوئی گہرا سیاسی ویژن تھا اور نہ میاں صاحب میں ہے۔نہ شہیدملت ملکی معاملات ومسائل کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے اور نہ ہی میاں صاحب میں یہ صلاحیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بھی وزرت عظمیٰ پرمحض نمائشی طورپر فائزرہے اور یہ بھی اسی منصب پردکھاوے کے لیے فائز ہیں۔مگر ملکی سلامتی اور بقاء کی خاطراس دور میںبھی مجبوراً فیصلے کہیں اورکیے جارہے تھے یا آج بھی کہیں اورکیے جارہے ہیں۔

اب جہاں تک بھٹو صاحب والامعاملہ ہے تو اس حوالے سے دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ اول ،ابتدائی دنوں میں جو روایت پڑگئی تھی، وہ خاصی مضبوط تھی،جس کا فوری ٹوٹنا ممکن نہیں تھا۔حالانکہ بھٹو مرحوم نے اس سلسلے میں خاصی کوششیں کیں۔دوئم، خود بھٹومرحوم سے بھی بعض فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔دوئم، انھوں نے اپنی فطری حلیف جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)اور جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے اور اسے مضبوط کرنے کے بجائے اسی اسٹبلشمنٹ پر تکیہ کیا جو تاریخی طورپر سیاسی عمل کوکمزور کرنے کا باعث تھی۔سوئم، بلوچستان میں فوجی آپریشن ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھا، جس نے بھٹو مرحوم کو سیاسی طورپر تنہا کردیا۔ چہارم، بعض مذہبی حلقوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے یہ کی کہ کچھ ایسے فیصلے کیے جو جمہوری اقدارسے متصادم تھے۔ اس عمل نے اہل دانش اور متوشش حلقوں میں ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ہمیں جس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکاکے بہت سے معاملات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔امریکا نے ایک وفاقی جمہوری عمل تیار کرکے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرکے اپنی ریاست کو دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہ پر لگادیا۔ مگر ہم نے ان تمام اصول و ضوابط و فراموش کردیا، جن پر بانی پاکستان متحدہ ہندوستان میں مسلسل اصرار کرتے رہے تھے، یعنی صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔اگر 1947میں پاکستان کو بھی کوئی بنجامن فرینکلن مل جاتا، جو دستور ساز اسمبلی پراپنی بھاری بھرکم شخصیت کا دباؤ ڈال کر اسے دستور سازی پر مجبور کردیتا تو شاید آج ہم نظم حکمرانی کے اس بحران کا شکار نہ ہوتے جس سے مسلسل گذررہے ہیں۔

The post ایک تقابلی جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی

$
0
0

اس بار بھی عید آئی اور آ کر چلی گئی! وہی اُکتاہٹ، وہی خالی پن، وہی بوجھل طبیعت، جس میں اس بار کچھ مزید اضافہ ہوا،بالکل ویسے ہی جیسے گھریلو اخراجات اور یاروں کی خرافات ہر آئے سال دگنا ہوجاتی ہیں۔ اب وہ عیدیں کہاں، جو ہم عہدِ طفولیت اور لڑکپن میں کھا، ہنڈا چکے ہیں، اب تو محض ایک رسمِ دُنیا رہ گئی ہے جسے نباہنے کا سلیقہ بھی لوگوں کو نہیں رہا۔ وقت اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ زندگی کے خدوخال ہی درہم برہم ہوگئے ہیں۔ مشینی روش اور میکانکی سوچ نے انسانی معاشرت کو بے حسی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، ہرکوئی ہنگامۂ حیات میں اس طرح گم ہے کہ اسے اپنے آس پاس کھڑے رشتوں کی خبر تک نہیں۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب لوگ دیہاتوں اور شہروں میں عید کو ایک اجتماعی عوامی تہوار کے طور پر مناتے تھے، گلیوں اور بازاروں میں میلے سجا کرتے تھے، ہر طرف گہماگہمی اور جشن کا سماں ہوتا تھا، لوگ اپنے عزیزواقارب، یاروں دوستوں ،حتیٰ کہ اجنبیوں کو بھی عید ملتے تھے تو ان کی گرمجوشی دیدنی ہوتی تھی، گفتگو میں اپنائیت، ہمدردی اور خلوص کی جھلک نمایاں ہوتی تھی، ملنے ملانے کے لیے لوگوں کے گھروں میں جانا مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ حالت ہے کہ لوگ مسجدوں میں بھی ایک دوسرے سے گلے ملنے سے کتراتے ہیں،نمازِ عید کا سلام کیا پھیرا کہ اک دوجے سے منہ ہی پھیر لیا اور اپنے اپنے گھروں میں جا گھسے۔

عید کے روز باہر کی دنیا یوں سنسان نظر آتی ہے جیسے شہر میں کوئی رہتا ہی نہ ہو،باہر تو باہر گھروں کے اندر بھی لوگ اتنی خاموشی سے عید کا دن نکالتے ہیں کہ پڑوسیوں کو بھی معلوم نہیں پڑتا، آج کل لوگ عید مناتے کہاں ہیں گزارتے ہیں، اور عملی طور پرتو عیدویسے بھی ایک دن تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے، وہ بھی صرف سہ پہرتک،اس کے بعد تو اس کی رعنائیاں یوں ماند پڑجاتی ہیں جیسے ڈوبتے سورج کی لالی!ٹروُ مروُ یعنی عید دوئم اور سوئم کی اہمیت تو تقریباً ختم ہوکر ہی رہ گئی ہے، دیکھا جائے تو عید کا اصل مفہوم ہی فوت ہو گیاہے۔ ہم عید کیوں مناتے ہیں اور کس نیت کے تحت مناتے ہیں ہمیں تو اس سے بھی سروکار نہیں رہا، ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ عید آئی ہے، نئے نئے ملبوسات زیب تن کرو، کھٹے، میٹھے، نمکین کھانے پکاؤ اور کھا پی کر جشن مناؤ اور بس!

عیدالفطر کا دن جسم وروح کے احتساب اور مال واسباب کے فطرے سے یادگار ہے تو عیدالاضحی ایک عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے مگر ترقی کی دوڑ نے مسلمانوں کو اسقدر متاثر کیا ہے کہ وہ ان ایام کو صرف ہلے گُلے سے تعبیر کرتے ہیں اور میٹھی عید ہویا نمکین، کسی کے دل میں مٹھاس رہ گئی ہے نہ کرارہ پن! بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خلوصِ دل سے کسی کو گلے مل کر خوش نہیں ہوتا۔کسی کی کیا بات کریں ہمارا تو خود کا یہ حال ہے کہ نمازِ عید پڑھ کر ایک رسمی سی آؤ بھگت کے بعد خواب گاہ کا دروازہ اندر سے بڑھایا اور تکیے میں منہ ٹھونس کر اوندھے بل یوں پڑے کہ جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ منہ کا ذائقہ باسی ہوچکا ہے اور زلفِ عید کی خوشبو ہوا سے محو ہوچکی ہے،عیدِ قربان پر ہمیں گھر سے باہر نکلنا اس لیے بھی پسند نہیں کہ گوشت اور لہو کی بیزار سی مہک سانسوں میں ایک ایسی متلی طاری کردیتی ہے جس سے دماغ سُندھ ہوجاتا ہے، پھر جابہ جا ہُمکتی غلاظتیں تو سانسوں اور نظروں کو روح سے کھینچ کر رکھ دیتی ہیں۔

ہم پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیںیہ تو اچھی طرح ذہن نشین ہے کہ قربانی کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے مگر ہم یہ بات بالکل ہی فراموش کرچکے ہیں کہ صفائی بھی نصف ایمان ہے اور یہ کہ جب تک ہم کامل صفائی کا ضابطہ نہیں اپنائیں گے ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، اور جب تک ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوگا ہم مسلمان کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں ہونگے۔ عام حالات میں توہم بڑی نفاست کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہر چیز میں مین میخ نکالتے ہیں اور صفائی کا پہاڑہ پڑھتے نہیں تھکتے کیونکہ اس سے ہماری نجی صحت وطبیعت کا تعلق ہوتا ہے مگر معاملہ جب دوسروں سے متعلق ہوتو ہم ساری اخلاقیات بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ایسی ایسی غلاظت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے ہمارے گردونواح کا ماحول بیمار ہوجاتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال عیدالاضحی پر آٹھ سے دس کروڑ جانوروں کی قربانی ہوتی ہے، اتنی کثیر تعداد میں جانور سال بھر میں بھی ذبح نہیں ہوتے جتنے اس عید کے تین دنوں میں ہوتے ہیں، کھیتوں کھلیانوں، سڑکوں، گلیوں اور کھلے پلاٹوں میں لوگ ایک مذہبی جذبے کے تحت قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں اور گوشت بنوا کر گھروں کو لے جاتے ہیں مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ذبیحوں کی آلائشیں وہیں چھوڑ جاتے ہیں جو کئی کئی دنوں تک وہیں سڑاند مارتی رہتی ہیں، ان میں پڑنے والا بیکٹیریا مکھیوں اور دیگر حشرات کے سہارے پھلوں، سبزیوں، برتنوں اوردوسرے کئی ذرایع سے علاقہ مکینوں کے گھروں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے اور ہیضہ، اسہال، معدے، جلد اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان آلائشوں سے جو تعفن اور بدبو پھیلتی ہے اس سے جلد،سانس، گلے، سینے اور آنکھوں کی انفیکشن عام سی بات ہے، گھروں کے سامنے اور دائیں بائیں پڑی آلائشیںشہر کے مکینوں اور راہ چلتے لوگوں پر سانس کا قافیہ تنگ کر دیتی ہیں،کئی لوگوں نے تویہ بھی معمول بنالیا ہے کہ وہ قربانی کرتے ہی جانوروں کی غلاظتیں اٹھا کر گندے نالوں اور گٹروں میں پھینک دیتے ہیں جس سے ماحول ومنظر اور بھی قبیح وکریہہ ہوجاتا ہے اور اس سے وبائی امراض کو بھی مہمیز ملتی ہے۔

بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کی بودوباش کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں صفائی کا پہلو ناقابلِ بیان ہے۔ ہمارے گھروں، گلی کوچوں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اندر سے کتنے غلیظ ہیں! کسی آدمی کی نفاست کا پیمانہ دیکھنا ہوتو اس کے کچن اور غسل خانے کی صفائی پر ایک نظر ڈال لیجیے آپ کو اس کی نفاست کا اندازہ ہو جائے گا۔ وہ لوگ کچن کیا صاف کرینگے جو کھانا بناتے اور کھاتے وقت ہاتھ تک نہیں دھوتے؟ وہ لوگ غسل خانے کیا صاف رکھیں گے جو ہفتوں مہینوں تک خود غسل نہیں کرتے؟ معاف کیجئے گا! ہمارا یہ خیال سب کے لیے نہیں ہے مگر اکثریت توہم میں ویسی ہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ہمارے ہاں غلیظوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ ایک غلیظ تو وہ ہیں جو تن من اور گھر بار سے ہر لحاظ سے گندے ہیں، یعنی نہ تو انھیں خود کی صفائی کا کچھ خیال ہے نہ اہل وعیال کی نفاست کا، ان کے گھروں میں بھی کوڑا کرکٹ پڑا رہتا ہے اور دروازوں پر بھی۔

دوسری قسم غلیظوں کی وہ ہے جو اپنے گھروں کی صفائی کا بیحد خیال رکھتے ہیں اور اپنے گھروں کی گندگی اکٹھی کر کے پڑوسیوں کے دروازوں پر پھینک دیتے ہیں یا پھر گھر کے آس پاس کوئی لاوارث گوشہ تلاش کر لیتے ہیں جس میں باقی محلے داروں کو بھی رُوڑی بنانے کاموقع مل جاتا ہے۔ تیسری قسم غلیظوں کی وہ ہے جو مہنگے مہنگے سوٹ پہنے لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر بازاروں کا رُخ کرتے ہیں اور گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے آدھا شہر کھا جاتے ہیں اور ہڈیاں، چھلکے، خالی ڈبے اور بوتلیں کھڑی اور چلتی گاڑیوں سے باہر پھینکتے رہتے ہیں، یہ کام وہ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور گھر واپس پہنچنے تک پوش علاقوں کی خوبصورت سڑکوں، پارکوں اور ہوٹلوں کی پارکنگز وغیرہ پر اپنی بے مثال تہذیب کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، یہ انھی لوگوں کے رشتہ دار ہیں جو بسوں، ویگنوں اور تانگوں پر بیٹھ کر مونگ پھلی، کیلے اور گنڈیریاں کھاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم لوگ مہذب کب ہونگے؟ ہمیں تہذیب کون سکھائے گا؟ ہم انسان کب بنیں گے؟ ہماری جان ذلت سے کب چھوٹے گی؟ اور، ہمیں عظمت کب نصیب ہوگی؟ آج ہم غربت اور امارت کے دوکناروں پر زندگی گزار رہے ہیں مگر امیر وغریب دونوں کی معاشرت و ذہنیت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ آخر اس معاشرے کی تربیت کون کریگا؟ وہ تربیت گاہیں کہاں ہیں جہاں انسان بننے کے لیے اس وحشی سماج کو بھیجا جائے؟ بدقسمتی سے اب تو اربابِ نشاط کے بالاخانے بھی اُجڑچکے ہیں جہاں تربیت لینے کے لیے ہم اپنی بگڑی نسلوں کو بھیج سکیں۔ ہم کیسے سدھریں گے کہ اصل غلاظت تو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ عیدالاضحی پر جوگندگی ہمارے گھروں کے باہر جا بہ جا گلتی سڑتی اور ہواؤں کو مسموم کرتی نظر آتی ہیں وہ قربانی کے جانوروں کی نہیں بلکہ وہ تہذیب کی گندگی ہے جو ہمارے اذہان میں بھری پڑی ہے۔بقولِ ساحر:

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے اجداد نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
محوِ حیرت ہیں کہ کب جانے وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم غیر کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے

صفائی بظاہرتو ایک معاشرتی المیہ نظر آتاہے مگر اصل میںیہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔اس خوفناک اجتماعی ذہنیت نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے اس کے سدِباب کے لیے باقاعدہ کوئی قانون سازی نہیں کی، نہ ہی مرکز نے اس تناظر میں کسی قسم کی آگاہی مہم کا کوئی اہتمام کیا ہے۔ لاہور میں ہر گلی کے نکڑ پر کوڑادان بھی رکھے گئے ہیں اور ہرسڑک پر سویپریونٹ بھی کام کررہے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی کہیں صفائی نظر نہیں آتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں صفائی کے بارے میں آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ عوام میں اس بات کا شعور تک نہیں کہ ہمارے اردگرد کی ستھرائی ہمیں لاکھوں کروڑوں خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہمیں یہ کام بچوں کی تربیت سے شروع کرنا ہوگا، اسکولوں اور کالجوں تک اس مہم کو پھیلانا ہو گا تاکہ بچوں کو بھی آگاہی ہوکہ صفائی معاشرے کے لیے کتنا اہم پہلو ہے۔

تمام شہریوں کو چاہیے کہ انفرادی طور پر اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں تاکہ ہم ایک صحتمند ماحول میں سانس لے سکیں۔ لوگوں کو جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ دماغی نفاست کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صفائی نہ صرف اپنے لیے ضروری ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ جو لوگ گندگی میں سانس لینے کے عادی ہوچکے ہیں ان تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ وہ معاشرے کا اَٹوٹ اَنگ ہیں اور اگر وہ مکدّر ماحول پر ردعمل نہیں دکھائیں گے تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے ہمسائے اور ناطے دار بھی آہستہ آہستہ اسی بے حسی میں مبتلا ہوتے جائینگے، جیسا کہ وہ ہو چکے ہیں۔ صرف قربانی کردینا ہی ہماری ذمے داری نہیں بلکہ قربانی کی غیرضروری باقیات کو صحیح طریقے سے تلف کرنا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ قانون ایک پابندی کا نام ہے اور سزا اس قانون پر عمل کروانے کا ہتھیار ہے مگر ہمارے معاشرے میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں۔

معاشرے میں گندگی پھیلانے کو مذہبی اور اخلاقی جرم کے ساتھ ساتھ قومی جرم بھی قرار دیا جانا ضروری ہے جس کے لیے باقاعدہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانے لاگو ہونے چاہئیں۔ ان تمام مصائب سے جان بخشی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر ضلع میں یونین کونسل لیول پر مذبح خانے تعمیر کرے اور ہر صاحبِ نصاب کا نام رجسٹر کرکے اسے مناسب فیس کے عوض ایک رسید جاری کرے جسے وہ مذبح خانے میں دکھاکر اپنا قربانی کا پیکیج وصول کر سکے، اس طرح شہری بیوپاریوں اور قصابوں کے ہاتھوں لٹنے سے بھی بچ جائینگے اور ملک آلائشوں سے بھی پاک ہوجائے گا۔

The post ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی appeared first on ایکسپریس اردو.


نماز عید پہروں کے بیچ

$
0
0

عجب ثم العجب۔ اس برس یوں بھی ہونا تھا کہ عازمین حج کو جانوں کا ایک نذرانہ فریضہ حج کی ادائیگی سے پہلے دینا پڑا۔ مگر یک نہ شد دو شد‘ دوسرا قیمتی جانوں کا نذرانہ فرائض حج کے دوران دینا پڑا۔ بہر حال مشیت ایزدی میں سخن کی گنجائش نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ہم نے جو مقام حج سے بارہ پتھر دور بیٹھے ہیں نماز عید اطمینان سے پڑھی اگرچہ پہرے میں پڑھی۔ ارے اسی وجہ سے تو اطمینان سے یہ فریضہ ادا کیا۔ پہرہ مسجد کے ارد گرد سخت تھا۔ مسجد میں یوں تو داخل نہیں ہو سکتے تھے کہ منہ اٹھائے بلا روک ٹوک اندر داخل ہوئے۔ وضو کیا۔ صفیں چیر کر اپنے لیے جگہ بنائی اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ویسے آگے تو یوں ہی ہوا کرتا تھا اور تو اور تقسیم سے پہلے ہندوؤں کے ہوتے ہوئے اور ایسے زمانوں میں بھی جب فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر ہوتی تھی یہی طور تھا۔ مسجد میں تب سے بڑھ کر اب خطرے میں ہیں۔کافروں کے ہاتھوں؟ نہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے مسجدیں نرغے میں آ گئیں۔ اس کے صحنوں میں بم پھٹنے لگے۔ ان پر خود کش حملوں کی صورت یلغار ہونے لگی۔ شب رنگ تھا۔ نیت باندھ لی ہے۔ امام کے پیچھے رکوع و سجود میں مصروف ہیں۔ مگر کچھ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ پتہ نہیں برابر میں جو کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، کیا وہ واقعی کوئی نمازی ہے۔ پرانی مثل چلی آتی تھی بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔ اب یہ مثل آؤٹ آف ڈیٹ ہو گئی۔ نئی صورت احوال یوں نمایاں ہوئی کہ بغل میں بم کا گولہ ورد زبان اللہ اللہ۔ تب فریضہ نماز پہرے میں ادا ہونے لگے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیکیورٹی کے مراحل سے گزرو۔ پہرے والے اطمینان کرنا چاہتے ہیں کہ تم سچ مچ نمازی ہو۔

جب پہرہ سخت ہوا تب خود کش حملہ آور کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اندر کیسے جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ وہیں گیٹ پر کھڑے کھڑے بٹن دبایا۔ لیجیے دھماکا ہوا۔ خود جان لے گیا تو کیا ہوا۔ کتنوں کو ساتھ لیتا گیا۔

اب تھوڑا سکون ہے۔ اس مرتبہ ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ نماز عید کے ہنگام کسی مشکوک نمازی کو گیٹ پر روکا گیا۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنا فریضہ ادا کیا۔ خود بھسم ہوا۔ ساتھ میں ارد گرد کے کتنے لوگ جو جلدی جلدی مسجد میں داخل ہو رہے تھے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تو ہم نے اس برس نماز عید نسبتاً سکون سے پڑھی۔ ہاں دور سے ایک خبر آئی۔ ملک یمن سے۔ عید کا دن تھا۔ شاید وہاں بھی خانہ خدا کو وہی خطرہ درپیش تھا جیسا عیدین کے موقعوں پر ہماری مسجدوں کو درپیش ہوتا ہے۔ مگر کام کرنے والوں نے پھر بھی اپنا کام دکھایا۔ خود کش حملہ نہیں ہوا۔ جہاز منڈلاتا ہوا آیااور عین اس ہنگام جب نمازی مسجد کے اندر باہر صفیں باندھے کھڑے تھے بمباری ہوئی۔ کتنے نمازی نماز پڑھتے پڑھتے نماز سے گئے اور زندگی سے گزر گئے؎

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

ادھر امام کعبہ خطبہ حج پڑھ رہے تھے۔ حاجیوں سے مخاطب تھے اور کہہ رہے تھے کہ اسلام اس فعل کو جائز قرار نہیں دیتا کہ مسلمان مسلمان کو قتل کرے۔ مگر ان مسلمان جیالوں کے کانوں تک یہ آواز نہیں پہنچی جو آج کے مبارک دن‘ عید قربان کی سہانی صبح کو اپنے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔

لندن سے ایک عزیز کا فون موصول ہوا۔ دیار غیر میں ہوں۔ سمجھو کہ ایک غیر اسلامی ملک میں عید منا رہا ہوں۔ دوڑا دوڑا مسجد میں گیا ۔کوئی پہرہ نہیں تھا۔ کسی سیکیورٹی والے کی تیز نگاہوں سے پالا نہیں پڑا۔ خود کش حملہ آور اس ملک میں عنقا ہے۔ نماز عید اطمینان سے پڑھی۔

ہم نے اسے بتایا کہ ادھر ہم بھی خیریت سے ہیں۔ نماز پہرے میں البتہ پڑھی۔ مگر فریضہ نماز ادا کر کے خیریت سے گھر آئے۔قصاب بھی جلدی مہیا ہو گیا۔ قربانی کا نرخ بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے جتنی رقم میں بکرا آتا تھا اب اتنی رقم قصاب کو ادا کی جاتی ہے۔ کتنی پھرتی سے وہ قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور جھٹ پٹ گوشت بنا کر یہ جا وہ جا۔ کتنے بکروں کے گلے اس کی چھری کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

قربانی کے گوشت کی قدر اب ہمیں معلوم ہوئی۔کس اطمینان سے ہم بقر عید کے دسترخوان پر بیٹھے گوشت کی ڈشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔کتنے دنوں کے بعد یہ اطمینان میسر آیا ہے کہ ہم حلال گوشت کھا رہے ہیں۔ پچھلے کل تک ہم ہمارا حال یہ تھا کہ گوشت کی ڈش سے مفر بھی نہیں تھا۔ آخر ہم مسلمان ہیں۔ گوشت خوری ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ مگر ایک شک کہ واقعی یہ بکرے ہی کا گوشت ہے یا کسی اور جناور کا ۔ چھوٹے بڑے ہوٹلوں کے پھیرے لگاکر دیکھ لیا۔ مگر کیا کوفتے کباب‘ کیا پلاؤ اور بریانی‘ اور کیا اشٹو کیا قورمہ۔ کھانے رنگا رنگ۔ مگر ایک شک کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ جانے ہم مٹن اور بیف کے نام پر کیا الا بلا کھا رہے ہیں۔ اب اہل چین کی منطق سمجھ میں آئی کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے۔ پیڑ گننے میں کتنی کوڑی کا فائدہ ۔ جناور کوئی بھی ہو۔ اصل شے اس کا گوشت ہے۔

قصہ مختصر۔آگے کے چند دن اطمینان سے گزریں گے۔ قربانی کا گوشت جب تک ہمارے دسترخوان کا ساتھ دے گا، ہم اس اطمینان سے کھائے پئیں گے کہ ہم حلال کھا رہے ہیں۔ فی الحال یہ قربانی کا گوشت ہے۔ اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اس سے آگے شاید اس عید قربان کی قربانیاں رنگ لائیں اور وہ سخت چیکنگ جس کے مراحل سے ہوٹلوں اور مذبحوں کا گزرنا پڑا ہے، وہ اپنا اثر دکھائے اور ہمیں اکل حلال کھانے کو ملے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری قسمت میں کون کونسے ذبیحے لکھے ہیں۔

The post نماز عید پہروں کے بیچ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’روبیضہ‘‘

$
0
0

یوں تو تاریخ تعصبات، ذاتی مفادات اور مطلق العنان حکمرانوں کے زیر اثر تحریر کیا جانے والا وہ قصوں، کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں سچ تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں سیاہ پتھر پر کالی چیونٹی کو ڈھونڈنا۔ ہر کسی کو تاریخ کے افسانوں میں اپنی مرضی کا سچ مل جائے گا اور وہ اس افسانے کو حق اور سچ مان کر اپنی محبت اور نفرت میں اضافہ کرتا پھرے گا۔ اس سب کے باوجود اگر کسی نے سچ ڈھونڈنا ہو، حقیقت سے آگاہ ہونا ہو تو تعصبات کو ذہن سے جھٹک کر خالصتاً سچ جاننے کی نیت سے مطالعہ کرے تو ایک بات طے ہے کہ سچ ملے یا نہ ملے اسے جھوٹ کا مکمل ادراک ضرور ہوجاتا ہے۔ وہ صرف تاریخ مرتب کرنے والے کے مقام، مرتبے، حیثیت، خاندان اور عقیدے کو جان لے اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے تحریر کردہ واقعات کو جانچے تو جھوٹ، ملاوٹ اور من گھڑت افسانہ طرازی کھل کر سامنے آجائے گی۔

یہ تو گزشتہ ادوار کی تحریر کردہ تاریخ کی بات ہے‘ جسے صدیاں بیت گئیں اور اس کا جھوٹ آج تک عام آدمی کی زبان پر جاری ہے۔ نہ عام آدمی کو یہ مہلت میسر ہے کہ تحقیق کے کام پر نکلے اور نہ ہی اس تک یہ سہولت موجود ہے کہ تمام تاریخیں اس کے سامنے ہوں۔ اسے جو مسجد کا مولوی، امام بارگاہ کا ذاکر، اسکول کا استاد، محلے کا نیم خواندہ دانشور، سیاست دان یا کالم نگار بتا دیتا ہے وہ اس پر یقین کرلیتا ہے۔ موجودہ دور کا عام آدمی تو سخت مشکل میں ہے۔ وہ اس دور میں زندہ ہے جس میں صرف اور صرف جھوٹ کی بادشاہی ہے اور کذب کا غلبہ ہے۔ یہ دور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق اور آپ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔ آپ نے فرمایا ’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کا جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا روبیضہ کون؟ فرمایا گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن)

ہم اس دور میں زندہ ہیں جس پر جھوٹ کا غلبہ اور کذب کی حکمرانی ہے۔ یہ دور میڈیا کادور ہے۔ کیا کسی سچے کو جھوٹا، جھوٹے کو سچا، امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار ثابت کرنا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں۔ کیا دنیا بھر میں لوگوں کے اہم معاملات پر روبیضہ فاسق و فاجر لوگ روز گفتگو نہیںکرتے، تجزیہ نہیں پیش کرتے، کیا کوئی سنجیدہ، صاحب کردار، صاحب علم شخص آج کے میڈیا میں باوقار ہے۔ دنیا کا تمام میڈیا جس چکاچوند میں لوگوں کی آنکھیں چندھیائے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی مرضی کا سچ، مرضی کا کلچر اور مرضی کی اطلاع لوگوںتک پہنچے جس سے ایک خاص مقصد کے مطابق نفرت اور محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔

میڈیا ایک تاریخ مرتب کررہا ہے جو گزشتہ تاریخوں سے زیادہ متعصب، جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے۔ لیکن کس خوبصورتی سے وہ اپنے جھوٹ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگوں کو وہی اصل حقیقت اور سچ محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ موجودہ میڈیا نے اپنے اس جھوٹ کو سچ بناکر پوری دنیا پر جنگ، قتل و غارت، بے سکونی اور موت مسلط کی ہے، اس لیے وہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدرمطعون اور قابل نفرت بنادیتا ہے کہ لوگ اصل سچ پر یقین ہی نہیں کرتے۔ جھوٹا کا یہ کاروبار پہلی جنگ عظیم میں تیز رفتاری سے آگے بڑھا، دوسری جنگ عظیم میں اسے اس قدر عروج حاصل ہوا کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد دو امریکی صحافی وہاں کا دورہ کرتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ شایع ہوتی ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی میں کوئی تابکاری اثرات نہیں پائے گئے۔ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کا قول مشہور ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ محسوس ہو۔ لیکن جوں جوں اس میڈیا کو عروج اور ترقی ملتی گئی ‘دھوکے اور فراڈ کا ماحول مزید مستحکم ہوتا گیا۔

میڈیا کی اس متعصب اور جھوٹی تاریخ نویسی کا سب سے بڑا شکار موجودہ دور کا افغانستان، طالبان اور ملا محمد عمر ہے۔ جوں جوں انسان ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے دنیا بھر میں پھیلایا گیا جھوٹ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ایاز وزیر نے میرے پروگرام ’’متبادل‘‘ میں ایک واقعہ سنایا کہ میں وزارت خارجہ میں تعینات تھا تو طالبان کے وزیر خارجہ عبدالوکیل متوکل مجھ سے ملنے آئے۔ اتنے میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے سے فون آیا کہ پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان کو اس وجہ سے چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے کہ ان کی داڑھی نہیں۔ ایاز وزیر نے عبدالوکیل متوکل سے کہا‘ تو انھوں نے فوراً کابل کے طالبان کے انچارج سے گفتگو کی کہ ایسا کوئی حکم نہ ملا محمد عمر نے دیا ہے اور نہ کسی اور قیادت کی جانب سے ایسا ہے‘ تو پھر یہ سب کیا ہے۔ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے گرفتار کرو اور سفارت خانے کے حملے کو عزت و احترام سے چھوڑ کر آؤ اور معافی بھی مانگو۔

اس سچ کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس جھوٹ کا اثر ختم ہوسکتا ہے جو گزشتہ بیس سال سے پھیلایا جارہا ہے۔ میڈیا کی اسی چکا چوند میں ایک صحافی عابد اللہ جان 2001ء سے سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اسے کتابوں کی شکل میں تحریر کررہا ہے۔ اس نے نائن الیون سے چند ماہ قبل افغانستان میں گزارے جہاں اس نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے انٹرویو کیے لیکن کسی اخبار میں انھیں شایع کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے اور نشوونما پانے والے اس صحافی نے اب تک چھ کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس وقت اس کی آخری کتاب کا ترجمہ ’’افغانستان آخری صلیبی جنگ کا نقطۂ آغاز‘‘ میرے سامنے ہے جسے مکتبہ خدام القرآن لاہور نے شایع کیا ہے۔ یہ حیران کن انکشافات سے بھری ہوئی ایک کتاب ہے جس میں اس نے تمام حوالے مغربی میڈیا میں شایع ہونے والی اطلاعات کے دیے ہیں جنھیں جان بوجھ کر دبا دیا گیا تاکہ طالبان کا ایک مسخ شدہ چہرہ دنیا کو دکھا کر ان پر جنگ مسلط ہو۔

ہم سب کے لیے یہ سچ حیران کن ہوگا کیونکہ ہم جھوٹے پراپیگنڈے کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ لکھتا ہے ’’ جس کو بھی طالبان کا صحیح علم ہے وہ جانتا ہے کہ طالبان دور میں سماجی بہبود کی وزارتیں بدخشانی فارسی خواں اقلیت کے ہاتھ میں تھیں، پکتیا ایک پختون اکثریتی صوبہ ہے اس کا گورنر بدخشانی فارسی خوان تھا۔ اسی نسلی اقلیت کو فوج کی انفنٹری ڈویژن کی ذمے داری تھی جس میں شیعوں پر مشتمل ڈویژن بھی تھی جو سنیوں کے شانہ بشانہ طالبان مخالفوں سے لڑتی تھی۔ اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے حوالے دیے اور بتایا کہ کابل یونیورسٹی میں خواتین کی کلاسیں 1999ء میں شروع کی گئیںتھیں۔ قندھار،ہرات اور جلال آباد میں خواتین نرسز کے اسکول کھولے گئے۔ ان کے دور میں خواتین تمام اسپتالوں میں کام کرتی تھیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور اقوام متحدہ نے ان کی تمام امداد بند کردی تھی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ مخلوط تعلیم نافذ کرو۔ پہلی دفعہ 8 مارچ 2000ء کو کابل میں خواتین کا عالمی دنیا منایا گیا جس میں سات سو خواتین جمع ہوئیں وہاں وائس چانسلر نے تقریر میں کہا کہ ہمارے پاس خواتین کی تعلیم کے مسئلے کا حل تو ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ دنیا ہم سے مخلوط تعلیم کا نفاذ چاہتی ہے۔

وہ لکھتا ہے اور تمام مغربی حوالوں سے لکھتا ہے کہ ’’باہم متصادم گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ طالبان نے عصمت دری، لوٹ مار، ڈکیتی اور قتل و غارت جیسے جرائم کا کامیابی سے خاتمہ کیا۔ سب سے بڑی بات افغانستان میں قانون کی حکمرانی تھی۔ اس کے نزدیک طالبان کے جرائم میں سرفہرست موجودہ عالمی نظام سے آزادی، دوسرا ایک کامیاب اسلامی ریاست کا قیام،تیسرا تیل کی صنعت سے وابستہ افراد کے اثرو رسوخ سے انکار، چوتھا کارپوریٹ میڈیا کے مقابل میں میڈیا کا فقدان‘ اہم ترین جرائم تھے۔ کتاب انکشافات کا مجموعہ ہے اور یہ انکشافات عابد اللہ جان نے مغربی میڈیا کی رپورٹوں سے اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انکشاف جنھیں میڈیا کی چکا چوند نے چھپا دیا تھا۔ وہ سچ جو بکھرا ہوا تھا اسے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ورنہ میڈیا تو دنیا بھر میں ان لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو سروںکی فصلیں کاٹ کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس پتلیوں کی طرح رقص کرتے دانشوروں، تجزیہ نگاروں، ادیبوں، شاعروں اور مؤرخوں کی کمی نہیںہے۔ ایسے لوگ تاریخ کے ہر دور میں میسر رہے ہیں۔ ’’روبیضہ‘‘ جن کے ہاتھ میں اہم معاملات پر گفتگو کرنے کا لائسنس میڈیا نے عطا کیا ہے۔

The post ’’روبیضہ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ ترکچھ بھی نہیں…(پہلاحصہ)

$
0
0

برطانیہ میں اپنے تمام تر حقوق سے لیس ایک پندرہ سالہ لڑکی جس کی ماں گزشتہ برس کینسر کی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی اور اس کے باپ نے اپنی گرل فرینڈ کو خوش کرنے کے لیے اس کو اور اس کی بہن کو گھر سے نکال باہرکیا، بڑی بہن بھی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی اور یہ لڑکی اس وقت دربدری کے عذاب موسموں کی لپیٹ میں ہر روز اپنی ماں کو یاد کرکے اشک بہاتی ہے ۔

خوبصورت نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والی یہ گڑیا جس کی آنکھوں میں اشک، بیگانگی اور تنہائی کے سرد موسموں میں برف کی طرح جمے رہتے ہیں، بہت کم کسی سے بات کرتی ہے مگر کل شام اس کو جب اپنائیت کی ذرا سی نرم گرم دھوپ کا احساس مجھ سے ملا تو اس کی آنکھوں میں جمی برف پگھل کر بے اختیار اشکوں میں ڈھلنے لگی۔

اس نے اپنی مری ہوئی ماں کے نام ایک خط لکھ رکھا تھا اور مجھے اپنے غم میں شریک کیا، بہت ضبط کے باوجود باغی اشک اس کی پلکوں کی دہلیز تک آ آ کے رک رہے تھے، اس کے پاس ایک بھی رشتہ ایسا نہیں تھا جو اس کی پلکوں پر اترنیوالے ستاروں کو ہاتھ بڑھا کر اپنی مٹھی میں قید کر لے۔کل شام سے ان اشکوں کی برسات میرے اندر ہو رہی ہے۔کل شام سے مجھے اپنے وطن کی ہر ماں ہرباپ، دادا، دادی، نانا،نانی عظیم تر دکھائی دے رہے ہیں،ہر رشتے کی مہک شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ہرمعاشرے کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں،خوبیوں کی موجودگی کے ادراک کے لیے خامیوں کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔

اس لڑکی کو دیکھ کر مجھے خیال آرہا تھا کہ پاکستان میں عورت کے آنچل میں رشتوں کے کتنے پھول بندھے ہوتے ہیں جن کی مہکار میں بسی زندگی کسی بھی خاندان کے افراد کے لیے کچھ نہ کچھ سہل ہو جاتی ہے، جب کہ برطانیہ میں سب افراد بستے ہیں گھروں میں بازاروں میں دفتروں میں ہر جگہ آپ کو آزاد منڈی کی معیشت کے نتیجے میں منڈی کی دوسری اجناس ہی کی طرح افراد بھی بطورِ جنس دکھائی دیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں 1945 سے ہونے والی ساختیاتی تبدیلی نے اس سماج کی بظاہر ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے عام افراد کے لیے روزگارکے مواقعے بہت زیادہ بڑھ گئے اورعام افراد کے لیے اپنے حقوق کا حصول زیادہ سہل ہوگیا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساختوں کی اس تبدیلی نے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا۔آزاد منڈی کی معیشت نے جب اجناس کی قدرتبدیل کی تو انسانوں کو بھی جو کسی نہ کسی رشتے کی ساخت میں تھے افراد کی ساخت میں ڈھال کر ان کو منڈی کا حصہ بنادیا اور ان کی قدر بھی وہی متعین ہوئی جو منڈی میں دوسری اجناس کی ہوتی ہے۔

حقوق کے حصول کی خواہش نے فرائض کو کوئی بھولی ہوئی داستان بنا دیا، مگر یہ افراد بھول گئے کہ حقوق کے حصول کی خوشی بھی اسی وقت ممکن ہے جب فرائض کی ادائیگی بھی ہو،کیونکہ کوئی بھی حق فرض کے بنا نہیں ہوتا اورکوئی خوشی دیرپا نہیں ہوتی جو صرف ایک فردکی ذات تک محدود رہے۔ خوشی کی درازی عمر ایک انسان سے نہیں بلکہ انسانیت سے وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں صرف حقوق کی جنگ لڑنیوالے اپنے حقوق حاصل کرکے بھی خوشی کو ترستے ہیں،کیونکہ دیرپا خوشی فرض کی ادائیگی سے وابستہ ہوتی ہے جسے آزاد منڈی کی معیشت نے بھلا دیا۔

خاندان ٹوٹ کر افراد کی ساخت میں ڈھل گئے اور آج بظاہر ترقی یافتہ سماج کا انسان جو فقط ایک فرد میں ڈھل چکا ہے، اپنے حق حاصل کرنے کے بعد بے چین و بے قرار پھرتا ہے یہاں انفرادی ترقی کے بہت سے مواقعے بھی ہیں مگر انفرادی زندگی کے لیے بہت سے مسائل بھی ہیں۔ برطانیہ میں خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے جہاں خواتین کو آزادی کے نام پر سرمایہ کاروں نے سستے مزدورکے طور پرمزدوروں کی مجموعی جدوجہد کا زور توڑنے کے لیے لگایا وہیں بہت سی زندگیاں تباہی کے دہانے تک بھی پہنچا دی گئیں۔ بظاہر ترقی یافتہ یہ سماج بہت سے حوالوں سے پسماندگی کی طرف بھی بڑھتا گیا۔

مائیں بچوں کو چھوڑ کر ملازمت پر جانے لگیںاور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دوسری ملازم خواتین ملازمت پر آنے لگیں۔ عجیب منطق ہے اس سرمایہ داری سماج کی کہ خواتین اپنے گھروں سے نکل کر ملازمت کے نام پر دوسرے لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال توکرنے جائیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے یے دوسرے بچوں کی مائیں بطورِ ملازم رکھی جائیں۔ یعنی عورت کو ماں جیسے باوقار رتبے سے اتارکر ایک ایسا مزدور بنادیا گیا جو اپنے ہی خاندان کو توڑنے کے لیے اجرت وصول کرتا ہے۔ اسی لیے تو برطانیہ میں ایک خاندان جب تک ٹکڑوں میں بٹ نہیں جاتا، زندگی کی آسائشوں سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ ان کے اس نظام کو دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے سماج کی خاندانی روایات اور زندگی اور بھی بھلی لگنے لگتی ہے ۔

جہاں پر ہماری مائیں ، دادیاں، نانیاں گھرکی بہوؤں اور بیٹیوں کے لیے کتنا بڑا سہارا ہوتی ہیں ، بنا کسی غرض کے صرف پیارکے احساس سے لبریز غیر محسوس طریقے سے اپنے خاندان کے لیے ہر روزکام کر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں بھی جانا ہوگھر سے باہرکسی خوشی کی تقریب میں یا کسی کی غمگساری میں شریک ہونا ہو،ہماری خواتین کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ بچوں کی حفاظت کے لیے ان کو کس کے حوالے کر کے جائیں ،ہمارے معاشرے میں خاندانی روایات ، سماج کے رسم و رواج کی وجہ سے ہرگھر کے آنگن میں داد، دادی یا نانا، نانی کے پیار کے گھنے شجرِسایہ دارکی چھاؤں کاحصار ہی ان کی حفاظت کے لیے کافی ہوتا ہے۔

مگر افسوس کہ بہت سی خواتین اور بہوئیں یہ بات سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ ان کو یہ سہولتیں ہمارے معاشرے کے خاندانی نظام کے تحت بنا کسی تگ و دو کے میسر ہیں ۔اس لیے ان کو ان کی اہمیت اور خوبصورتی کا اندازا بھی نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنی ساس اور بزرگوں کی شکر گزار ہونے کی بجائے ان سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

The post بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ ترکچھ بھی نہیں…(پہلاحصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا ماضی‘ کیا حال‘ کیا مستقبل؟

$
0
0

گزرے زمانے میں ایسا ہوتا تھا مگر اب وہ دورکہاں؟ ، بس جیسے تیسے وقت گزار رہے ہیں، بزرگوں کی زبانی سنے یہ وہ  جملے ہیں جوکبھی کبھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا ہم دور جدید میں  زیادہ جاہل اور زیادہ جانور نما انسان بن چکے ہیں حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری بھی کی امید ہوتی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ اپنے اوپر خود فاتحہ پڑھیں یا وصیت کریں کہ تمام آنے والے لوگ ہم زندہ اور مردہ دونوں لوگوں پر فاتحہ پڑھ کر نیکیاں کمائیں۔

بات دکھ کی بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ ایک مکمل دین رکھتے ہوئے ہم زمانہ جاہلیت کے بتوں کو توڑ کرآگے بڑھنے والے پھر سے زمانہ جاہلیت میں زندگی گزاریں۔ گویا ہم بہت کچھ پاکر سب کچھ کھونے کو تیار ہیں اور اس کھونے پر فخر کرنے کو بھی تیار ہیں۔ایک مثال ہے کہ جس معاشرے کو تباہ وبرباد کرنا ہو تو اس معاشرے کی یوتھ کو نوجوان نسل کو آزادی بے حساب کی طرف راغب کیا جائے اور آہستہ آہستہ اس کے دل و دماغ میں اس آزادی بے حساب کو اس طرح fix کیا جائے کہ گویا ’’میری زندگی اور میرا طریقہ زندگی ‘‘ یا جیسے چاہو جیو وغیرہ وغیرہ۔ آہستہ آہستہ یہ آزادی ’’بے حساب‘‘ ماڈرن رنگ پکڑتی ہوئی معاشرے کا حصہ بن جائے اور پھر معاشرے کا بگاڑ اور غیر متوازن ضابطہ حیات، پوری حیات کے لیے وبال جان بن جائے۔

اگر ہم موجودہ ترقی یافتہ دور میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو حقیقتیں اتنی تلخ نظر آتی ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانے سے بات نہیں بن سکتی، بلکہ انفرادی طور پر تمام کے تمام معاشرے کے افراد کو اپنی اپنی جگہ جہاد کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے، جہاد خالی جنگ اور فساد کا نام نہیں جیساکہ آج کل ہے بلکہ جہاد ہر اس برائی کو روکنے کی کوشش کا نام ہے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے یا آپ کو اور آپ کے اردگرد کے لوگوں کو نقصان ہونے کا خدشہ ہو۔

جہاد انسان اپنے آپ سے ہی شروع کرے کہ سب سے بڑی ضرورت ہی اپنے آپ سے جہاد کرنا ہے۔ اپنے آپ کو درست سمت میں رکھنا اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنا، اپنے نفس سے لے کر اپنی عقل تک کی تمام کھڑکیوں اور دروازوں کو درست حالت میں رکھنا ضروری ہے۔ گویا آپ کی عمارت درست حالت میں ہوگی تو مکین بھی اچھے بسیں گے اور اگر مکین اچھے بسے ہوتے ہوں تو ماحول خود بخود اچھا ہوجائے گااور اچھی بات ہوتی ہے کہ اگر اچھی چیزکی شروعات ہم اپنے آپ سے کریں گوکہ ذرا مشکل کام ہے۔

ہمارے اور آپ کے بزرگ اپنے اپنے زندگی کے ادوار کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے ہیں کہ آٹھ آنے میں خوب مزے اڑائے، 5 روپے پالیے تو خوب خوب دوستوں یاروں پر بھی خرچ ہوئے اور آج کل بات لاکھوں سے نکل کرکروڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ پیٹ زنبیل ہوگئے ہیں بھرتے ہی نہیں اور بس نہیں چلتا کہ سب کچھ ہضم کرجائیں اور ڈکار بھی نہ لیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ گزرے زمانے اچھے تھے یا موجودہ یا آنے والے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ زمانہ جاہلیت کبھی اچھا نہ ہوگا، طور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے ہی بہتر ہوجاتے ہیں جیسے زندگی کے تجربات انسان کو بہتر بنادیتے ہیں۔

جیسے جیسے انسان کی عمر اور تجربہ بڑھتا ہے ویسے ویسے عقل و شعور کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان پہلے سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے، زمانے کے حاکم، زمانے کے پڑھے لکھے لوگ، ادب، لٹریچرگوکہ ہر بات اور ہر زاویہ، ہر انداز اس زمانے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں رہا جا رہا ہوتا ہے، اگرچہ موجودہ دور میں بہت بہتر ٹیکنالوجی اور سائنس میں ہم سانس لے رہے ہیں اور موجودہ وقت کی بہترین سہولیات حاصل بھی کر رہے ہیں مگر اندر کے اجالے نہ جانے کیوں اندھیروں میں بدل رہے ہیں نہ شاعری میں غالب ہے اور نہ حساب میں الخوارزمی، نہ سائنس میں ابن خلدون۔بس جناب! اب تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب تو صرف پرانی اچھائیوں کو یاد کرنے کا موسم ہے ان انسانوں کو یاد کرنے کا موسم ہے جو بے لوث ہوتے تھے۔ محبت، خلوص اور سچے جذبے ان کی پہچان ہوتے تھے، بے لوث خدمت، کام کا جنون، لگن اور آنکھوں میں سچائیوں کی چمک۔

مصنوعی انداز زندگی نے ہمارا سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے نہ آنکھوں میں چمک ہے اور نہ لبوں پر مسکراہٹ ہے۔ بوٹوکس نے جلد میں چمک بھردی ہے، بڑھاپے کو ذرا دور کردیا ہے، مگر اندر سے اصل پہچانے جانے کا خوف رچ بس گیا ہے اور اصل کو چھپاتے چھپاتے اصل کو پہچانے جانے کے خوف نے بڑھاپے کو دور کردیا مگر ایسا بڑھاپا بھر دیا ہے کہ نہ جوان رہے اور نہ بوڑھے، کمر کو ٹیڑھا کرتے کبھی ناچتے ہوئے اچھل کود کرتے ہوئے بڑھاپے کی طرف جانے والے آخر کب تک جوان رہ سکیں گے؟

اور کیا یہی ضروری ہے کہ گوروں کی طرح جئیں اور گوروں کے رسم و رواج اپنائیں اور اگر اپنائیں تو خود کہاں جائیں۔ سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ انگریزی سیکھیے تاکہ آپ علم کے میدان میں گوروں کا مقابلہ کرسکیں مگر ہم نے سرسید احمد خان کو سنا اور پڑھا ضرور، انگریزی بھی سیکھنی شروع کردی مگر علم کے میدان کو ’’گول‘‘ کرگئے۔

گول گول شیشے والے دھوپ کے چشمے، چست جینز، موسیقی، اداکاری، ریاکاری اور بھی بہت ساری فنکاریاں ہم نے گوروں سے دیکھ لیں بلکہ کہیں تو ان کو مات کردیا چت کردیا اور ان سے کہیں آگے نکل گئے، اپنا آپ بھی بھول گئے اب نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم تو عزت اور محبت کے ساتھ اپنے بزرگوں کو ان کی باتوں کو یاد کرتے ہیں، پر سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں کون یاد کرے گا، اور اگر یاد کرے گا تو عزت و محبت کہاں سے لائے گا؟اب تو یہ حال ہے کہ سب کا ذکر ایک ہی انداز سے ہوتا ہے کسی کو چور اور کسی کو ڈاکو پکارا جاتا ہے۔ جھوٹ کی لت ایسی پڑگئی ہے کہ اب سچ بھی سنتے ہیں تو جھوٹ ہی لگتا ہے۔

مخلص اور بے لوث، بے وقوف سے لگتے ہیں، ہماری باتوں پر سر ہلانے والے جانوروں کو بھی مات دینے والے بن گئے بس فرق طریقہ کار کا رہ گیا ہے نہ اجڑے مکان ڈراتے ہیں اور نہ ہی آسمانی بجلی کا خوف رہتا ہے۔ بس ’’ایک موقع کی تلاش میں‘‘ زمانہ گردش کر رہا ہے کہ داؤ پیچ تو آہی جائیں گے اور شکلوں کا کیا ہے ایک دو انجکشن جھریاں دور کردیں گے اور بوڑھا آدمی بھی جھوم جھوم کے گانے کو تیار۔ خوش نصیبی مکاری کا لبادہ پہنے تیار کھڑی ہے، ’’تم مجھے یاد آتے ہو‘‘ کا جملہ اور ایک مصنوعی مسکراہٹ آدھی نہیں تو کوارٹر زندگی بہتر بناسکتی ہے۔ مالک، مکان اور زمانہ زوال، کب یہ سب گم گشتہ بن جائیں اور گردن ہلانے والے ساکت ہوجائیں۔

وقت تو گزرنے کے لیے ہی ہے ہر پل ٹک ٹک کرتی سوئیاں انجانے راستوں کی طرف گامزن، گھنٹے، دن اور دن مہینے، مہینے سال بن کر حال سے ماضی بن جائیں اور کوئی سنہرا حروف میرے نام کا نہ ہو۔ صرف رفتار ہو۔ کوئی سلجھن نہ ہو، کوئی ہم راز نہ ہو، کوئی نیکی نہ ہو۔چہرے پر لکیر نہ ہو، آنکھوں میں رت جگے نہ ہوں، ہاتھوں میں ہم نہ ہوں تو پھر کیا ماضی کیا حال اور کیا مستقبل؟

اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ ساتھ اگر جدوجہد اور صحیح سمت یکجا ہوجائیں تو آسمانوں تک کی اڑان مشکل نہیں، قرآن کہتا ہے مسخر کرو وہ کچھ جو آسمانوں اور زمینوں میں چھپا ہے، ’’پر ہوتے تو اڑ جاتی میں‘‘ سو موجودہ زمانے میں پر لگانے بھی آسان اور اڑنا بھی آسان۔مگر مشکل ہے زمانے کو سمجھنا اور اس کو نبھانا کوئی سنہرا کام ، کوئی سنہری نیکی، کوئی سنہرا حرف۔ اس لیے کہ میرا ذکر بھی اچھے زمانے میں، مجھے بھی اچھی یاد کی طرح یاد کیا جائے نیکی کی طرح محسوس کیا جائے۔ کسی اچھے زمانے کی اچھائیوں کی طرح جو انسان کے بعد بھی رہ جاتی ہیں، ماضی، حال اور مستقبل میں۔

The post کیا ماضی‘ کیا حال‘ کیا مستقبل؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ دوراپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے

$
0
0

بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہم کئی قسم کے قومی اورمذہبی تہوار مناتے ہیں۔ان قومی و مذہبی تہواروں کا ایک تشخص اور روحانی پس منظر اور ان میں ایک فلسفہ پنہاں ہوتا ہے، لیکن ہم ان تہواروں کی مقصدیت اور روح کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی سوچ اورخواہشات کو مقدم رکھتے ہوئے یہ قومی ومذہبی تہوار ودیگر ایام مناتے ہیں۔

قومی دنوں، نیوایئر، ویلنٹائن ڈے اوربسنت وغیرہ پر ہمارا جو طرز عمل ہوتا ہے وہ شاید دنیا کی کسی اور قوم اور خطے کے لیے نامانوس، ناقابل قبول بلکہ قابل نفرت ہو۔ ہمارے نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر کیمپوں اور گاڑیوں میں رات گئے تک اونچی آواز میں ریکارڈنگ کرکے، ہلہ گلہ اور دھینگا مشتی کرکے ٹریفک جام کرکے ایسا محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہوں۔

نیو ایئر اور دیگر تقریبات میں فاتحانہ انداز میں ہوائی فائرنگ کرکے کئی انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ چاہے پتنگوں کی ڈور پھرنے سے بچے، بڑوں کی گردنیں کٹتی رہیں انھیں تو اپنا شوق وجنون پورا کرنا ہوتا ہے۔اس سلسلے میں اکثر مواقعوں پر انھیں حکومت، انتظامیہ، این جی اوز اور طاقتور اور بااختیار لوگوں کی سرپرستی اور اشتراک حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے خرافات کوکوئی روکنے ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں کرپاتا کہ اس کے دامن پر غیر محب وطن یا قدامت پرست ہونے کا الزام نہ آجائے بلکہ وزیر چیلنج کردیتا ہے کہ بسنت منائی جائے گی صدر پتنگ بھی اڑائیں گے کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔

گزشتہ چند سالوں سے خالصتاً مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جس کی ترویج کی جا رہی ہے اس کا اسلام یا اس کی روح پروری سے دور کا تعلق بھی نظر نہیں آتا ہے۔ رمضان کے مقدس، روح پرور اور بابرکت مہینے میں ایسے تماشے رچائے اور ڈھونگ اپنائے جاتے ہیں جیسے اسلام کی کوئی نئی تشریح دریافت کرکے بیش قیمت خدمت سر انجام دی جا رہی ہو۔ جس کی مثال دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں نہیں ملتی ہے جن میں بیوپاریوں کا مال  بیچنے کا بڑی سلیقہ مندی سے بندوبست کیا جاتا ہے۔ زرق برق میڈیائی مولویوں، شوبز اور کار خیر میں شہرت رکھنے والی شخصیات کو ایسے پروگراموں میں سند قبولیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت کے لیے عام لوگوں کو بڑی تعداد میں شامل کرکے خوب انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا ہے۔

مسلمانوں کی غالب اکثریت ایسے  پروگراموں کی مخالفت توکرتی ہے لیکن بڑی تعداد میں انھیں دیکھ کر اپنی عبادات اور رمضان کی اصل روح سے محروم رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ایسے ڈھونگ رچانے والے طاقتور، بااختیار اور مال و متاع کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہے یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو غلط روایت کی بنیاد ڈال رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جواب طلبی پر پیمرا نے اس سلسلے میں میڈیا کو کچھ ہدایات تو جاری کی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہدایات کس حد تک احاطہ کرتی ہیں اور ان پر کہاں تک عمل ہوتا ہے۔

ملک میں عیدالاضحی  منائی گئی۔ قربانی جو سنت ابراہیمی ہے اس میں صبر، شکر، اطاعت وایثار اور رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اس کی بنیادی روح ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبے کی تعمیرکی اللہ کی کبریائی کے لیے بے خوف وخطر آتش نمرود میں کود گئے، اللہ کے حکم پر ضعیف العمری میں مرادوں سے مانگے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا عمل کیا اور سعادت مند بیٹے نے بھی خود کو اللہ کے حکم کے مطابق قربان ہونے کے لیے پیش کرکے اطاعت ربانی کی لازوال مثال رقم کی ،جس کی اتباع میں یہ سنت ابراہیمی تا قیامت تمام مسلمانوں پر واجب کردی گئی۔ ذی الحج کے ابتدائی دس ایام عبادت کے ہوتے ہیں ان دنوں میں عبادت کو جہاد سے زیادہ اہمیت کا عمل قرار دیا گیا ہے۔

حضور اکرمؐ قربانی کا خاص اہتمام کرتے، بھوکے رہتے اور قربانی کے گوشت سے روزہ کھولتے تھے۔ قربانی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اللہ کو قربانی کے جانور کا خون وگوشت نہیں بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ لیکن ہم اجتماعی طور پر قربانی کی اصل روح سے ناآشنا اور غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس فریضے میں اللہ کی خوشنودی اور قرب کی بجائے خودنمائی، بڑائی، تکبر، دکھاوا، نمود و نمائش اور تفریح طبع کا عنصر غالب آچکا ہے۔ قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہم رشوت ستانی، چور بازاری اور دھوکا دہی اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔جانور فروخت کرنے والے ہوں یا جانوروں کا علاج کرنے والے، قصاب ہوں یا چارہ فروش یا پھر پولیس، بھتہ گیر یا کھالیں لینے والے ہر کوئی دھوکا دہی، فریب، مجبوری اور لاعلمی اور خوف کے ذریعے جانور لینے والوں کی جیبوں کو صاف کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔

جانوروں کو فروخت کرنے والے بے خبر و لاعلم خریداروں کو عیب دار جانور فروخت کردیتے ہیں، نقلی دانتوں کے جانور فروخت کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جنھیں بڑی مہارت سے ایلفی یا اسٹیل وائر کے ذریعے نصب کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کو غیر فطری ماحول میں رکھ کر غیر فطری غذاؤں مثلاً بادام، پستہ، کاجو اور مکھن وغیرہ کھلا کر بڑی خطیر رقوم کے عوض فروخت کیا جاتا ہے ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لوگ جوق در جوق بمعہ اہل و عیال ایسے بڑے جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جہاں پر ان کی نمائش کے لیے لائٹنگ اور دیگر انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کراچی کے ایک علاقے میں کئی دن سے بورڈ لگا ہوا تھا کہ Gabbar Coming Soon پھر اس کی آمد سے ایک دن قبل بورڈ لگایا گیا کہ Gabbar Coming at 8:30 AM اس کے علاوہ اس قسم کے بورڈ بھی آویزاں کیے گئے جن پر تحریر تھا ’’گبر‘‘ نام سے ولن کام سے ہیرو‘‘ ، تیرا کیا بنے گا کالیا‘‘۔ قربانی کے جانوروں کو غیر فطری ماحول میں چھتوں پر بھی پالا جاتا ہے پھر انھیں تشہیری مہم کے ذریعے کرینوں سے نیچے اتارا جاتا ہے۔

کرین میں بے بسی سے لٹکے ان جانوروں کی پشت پر ان کا رکھوالا سوار ہوکر انھیں نیچے اترواتا ہے۔ عوام میڈیا کے ذریعے ان مناظر کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں جانوروں کے نام گبر، مولاجٹ، نوری نتھ، دبنگ اور ایان علی کے ناموں سے منسوب کیے جاتے ہیں کراچی کے بہت سے لوگ سپرہائی وے پر قائم جانوروں کی منڈی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھومنے جاتے ہیں تاکہ وی آئی پی جانوروں کے اسٹالز پر جاکر تشہیری جانوروں کی زیارت کرسکیں ان کے ساتھ اپنی سیلفی بنوالیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر جانور باندھ کر وہاں چارپائیاں کرسیاں اور دریاں وغیرہ بچھا کر غیر ضروری طور پر راستہ بند کرکے نہ صرف اہل محلہ کی پریشانی کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ اس سے ٹریفک میں بھی خلل پڑتا ہے۔

چوری کے کنڈے کی بجلی سے چراغاں کرکے نوجوان اور بچے رات رات بھر جاگ کر قربانی کے جانوروں کی خدمت سے زیادہ ان کی درگت بنانے اور کھیل تماشا لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا اس زمانہ جاہلیت کی یاد نہیں دلاتا جب خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سیٹیاں اور تالیاں بجائی جاتی تھیں، قربانی کا گوشت و خون بیت اللہ کی دیواروں پر رگڑا جاتا تھا۔ جانوروں کو اپنے بڑے بزرگوں اور نامور لوگوں کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا؟ کیا ہم اپنے طرز عمل سے زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ کر اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ ہمارے لیے تو سیدھا سادہ اور عام فہم حکم ہے کہ اللہ تک تمہاری قربانی کا خون وگوشت نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ تقویٰ کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے حرام و حلال کا احساس ختم کردیا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھے چھوٹا موٹا کام کرنے والوں تک حق وسچ کو ترک کرکے جھوٹ و فریب اور مکارانہ کارگزاریوں کے ذریعے اپنی کامیابی و فلاح کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔

اسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑکر دم توڑ رہے ہیں لیکن ہڑتالی مسیحا اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جگنی کی دھن پر رقص کناں ہیں۔ عدالتوں سے انصاف کے متمنی سائلین اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر جوتیاں گھس رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں انصاف کی فراہمی کے ذمے دار وکلا ہڑتال کیے ہوئے بیٹھے ہیں مخیر حضرات کی جانب سے ادا کی گئی زکوٰۃ سے لاکھوں مستحقین کئی ماہ سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ حکومت کے پاس بیت المال کی کمیٹیاں بنانے کے لیے وقت ہے نہ اس کا احساس ہے۔

کیا انصاف پسند اور زندہ قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے جس کی ہم مستقل رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے آخری خطاب میں ایک بڑی فکر انگیز بات کہی ہے کہ ’’جس قوم کے افراد عدل و انصاف کے قائل نہ ہوں۔ وہ خود جھوٹ بولیں، رشتے دار، عزیز، ہمسائے کا حق ماریں اور یہ برائیاں ساری قوم میں سرائیت کر جائیں تو پھر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں اور انصاف کی توقع کرنا، عبث ہے۔ عدل تقویٰ کی بنیاد ہے جہاں عدل ختم ہوجائے وہاں تقویٰ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ کاش ہم اس پہلو پر غور و خوض کرکے اپنے اصلاح احوال کی کوششیں کریں۔

The post یہ دوراپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں این جی اوز کا کردار

$
0
0

ملک میں غیر ملکی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن یعنی این جی اوز کے معاملات کی چھان بین جاری ہے جو ایک قلیل عرصے سے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کا بظاہر مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے مگر بعضوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اوراس کی اساسیت کے برخلاف کام کررہی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان جو اقدامات کر رہی ہیں اور جو خبریں ان این جی اوز کے بابت گردش ہیں آیئے ان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا حقیقت ہے ، کیا فسانہ؟

صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کو 23 غیر ملکی این جی اوز کے معاملات کی تحقیقات اور ان کی رجسٹریشن کے لیے الیکٹرونک سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نظام کے تحت غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے پہلے مرحلے میں ہی اسکریننگ کی جائے گی۔ یہ سفارشات وزیراعظم کی جانب سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کی جانب سے دی گئی ہیں۔

13 جون کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنیوالی بعض بین الاقوامی این جی اوز کے پیچھے امریکا، اسرائیل اور بھارت ہیں۔ کئی ایسی این جی اوز ہیں جو اپنے ایجنڈے کا تعین کیے بغیرکام کر رہی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہاکہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق بعض این جی اوز ملک کے خلاف کام کررہی ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کریں گے اور اس حوالے سے کوئی سفارش یا دباؤ قبول نہیں ہوگا۔ این جی اوز کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں مادر پدر آزادی کی پالیسی چل رہی تھی۔ سالہا سال سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں پرکوئی کارروائی نہیں ہورہی تھی۔ کسی این جی او کا کام اس کے چارٹر کے تحت اگر اسلام آباد میں ہے تو وہ بلوچستان، گلگت بلتستان یا قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل تھی۔

کسی این جی اوز کو ملکی مفادات، ثقافت اور اقدار کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنیوالی مقامی اور غیر ملکی این جی اوز کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے اور اس سلسلے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ تاہم ملک کے قانون اور صرف اپنے چارٹر کے تحت کام کرنیوالی مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کی سپورٹ کریں گے۔ میرا بین الاقوامی این جی اوز اور ان کی حکومتوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اچھی این جی اوز کو پاکستان کے قاعدے اور قانون اور ہمارے مفاد کا احترام کرنا ہوگا۔ بعض این جی اوز گنی اور زیمبیا میں رجسٹرڈ ہیں مگر پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان کی صورتحال پر فوکس کررہی ہیں۔

18 اگست2015 کو حکومت نے دستاویزات کے فقدان اور جاسوسی کے خدشات و الزامات کے تحت این جی اوز کا سختی سے نوٹس لیا۔قبل ازین برسلز اور اسلام آباد سے بیک وقت پاکستان کو غیر ملکی این جی اوز کو کام کرنے کے لیے خصوصی سفارشات اور مطالبات پیش کیے گئے جن میں زور دیا گیا کہ انھیں کام کرنے کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے ، ان ہی دنوں یہ اطلاعات عام ہوئیں کہ وزارت داخلہ نے سیودی چلڈرن نامی این جی اوز کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے روک دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سیودی چلڈرن پر گیارہ جون کو پابندی اور دفاتر کو سیل کرنے کے بعد این جی اوز کے حکام نے مختلف سیاست دانوں اور بیورو کریٹس سے رابطے کرنا شروع کردیے تھے جس کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے این جی او کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے روک دیاگیا۔تاہم بعد ازاں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

اقتصادی امور ڈویژن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں 127 غیر ملکی این جی اوز غیر قانونی طور پر کام کررہی ہیں۔ اس حوالے سے فہرست وزارت داخلہ کو بھجوادی گئی ہے۔ دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان میں بین الاقوامی خیراتی اداروں اور این جی اوز کے خلاف کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ این جی اوز کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔

یہ اطلاعات بھی زیرگردش رہیں کہ پاکستان نے تمام موجودہ غیر ملکی این جی اوز کو 6 ماہ تک ملک میں طے شدہ شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم انھیں 3 ماہ کے اندر اندر از سر نو رجسٹریشن کرانا پڑے گی۔ اے ایف پی کیمطابق دوبارہ رجسٹریشن کے اقدام سے بین الاقوامی این جی اوز کو گرین سگنل ملنے سے پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جائزے کے عمل سے دوبارہ گزرنا لازمی ہوگا ۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ سمیت دیگر معاملات کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کردہ قانون کا مسودہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس وقت تازہ ترین حقیقت یہ ہے کہ این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ کا قانون متعارف کروانے کے لیے مسودہ کافی عرصے سے تیار پڑا ہوا ہے مگر ابھی تک وہ ایکٹ بن کر نافذ العمل نہیں ہوسکا جب کہ نیپال، بنگلہ دیش، روس اور تو اور بھوٹان تک میں آئی این جی اوز کی رجسٹریشن، مانیٹرنگ اور ان کے لیے قواعد و ضوابط کا قانون لاگو ہے۔ مگر پاکستان میں ایک پالیسی کے تحت ان این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ ہورہی ہے اور نہ کوئی قانون ہے۔

اس میں کوئی دو رائے اور شک نہیں ہے کہ عالمی دباؤ بہت سخت ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کام کرنیوالی بین الاقوامی این جی اوز چھ ماہ تک متعلقہ حکام کی اجازت سے کام جاری رکھ سکتی ہیں۔ البتہ ان بین الاقوامی این جی اوز کو تین ماہ کے اندر نئی رجسٹریشن کرانا ہوگی اور قانونی دھارے میں آنا ہوگا۔ کسی بھی این جی اوز کو ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔یاد رہے کہ سیودی چلڈرن یو ایس اے کی مدد کی وجہ سے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن مارا گیا تھا۔ ایکسپریس کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق جن این جی اوز کے خلاف وزارت داخلہ کی جانب سے حتمی فیصلے کا انتظار ہے ۔

میڈیا کو دستیاب اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں نے ملک اور آرمی چیف کو رپورٹ کیا تھا کہ کئی انٹرنیشنل این جی اوز ملک میں فساد کا سبب بن رہی ہیں، ان میں سے کئی ایک این جی اوز کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کو شکایت تھیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اقتصادی حوالے سے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ بلوچستان، کراچی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کرنے والی این جی اوز میں سے کئی ایک پر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔ ذرایع کے مطابق سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرف سے ملک میں غیر ملکی اداروں کو کھلی چھوٹ دینے کا معاملہ ختم کردیاجائے گا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ملک دشمن این جی اوز نئے ناموں سے سرگرم ہونے لگی ہیں ان میں سیودی چلڈرن نے ’’دی چلڈرن فرسٹ‘‘ اور ’’یو ایس ایڈ‘‘ نے ’’دی کری ایٹو‘‘ کی شناخت اختیار کرلی، غیر ملکی ادارے قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھی این جی اوز کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ایسٹ تیمور کی انڈونیشیا اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی میں بھی این جی اوز ہی کا ہاتھ تھا ہمیں ان پر پوری نظر رکھنا ہوگی اور کسی عالمی قوت کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

The post پاکستان میں این جی اوز کا کردار appeared first on ایکسپریس اردو.

وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کامطالبہ

$
0
0

دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی مخلصانہ کوششیں اور دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی بھرپور جنگ جاری ہے۔ پاکستان نے عالمی امن کے قیام کی خاطر اس جنگ میں اپنے ہزاروں بیٹے قربان کردیے ہیں۔ ذاتی خزانے سے اربوں ڈالر کے جو اخراجات کیے گئے ہیں، وہ انتہائی قیمتی جانی نقصانات کے علاوہ ہیں۔ یقینا ان بھاری اخراجات سے پاکستان کی معیشت کو زک اور ضعف پہنچا ہے لیکن پُرامن مستقبل کی خاطر یہ قربانی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو کامل تحفظ فراہم کرنے کے لیے پاکستان اکیلے ہی یہ جنگ لڑ رہا ہے۔

پاکستان کے جانی و مالی نقصانات پر بھارت کی بانچھیں کھِل رہی ہیں اور اس کی طرف سے پاکستان کے خلاف دائیں بائیں سے شیطانیاں اور شرارتیں بھی جاری ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتا کہ آخر کار اسے اپنے مفسدانہ اقدامات کا ایک روز اقوامِ عالم کے سامنے جواب بھی دینا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ اس کا عدم تعاون اس کے اپنے دامن کو آگے لگانے کا باعث بن جائے کہ واقعی معنوں میں وہ آگ سے کھیل رہا ہے اور اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ یہ آگ اسے کبھی گزند نہیں پہنچائے گی۔

دنیا کے بہت سے انصاف پسند ممالک کھلے الفاظ میں دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کی کھلی اور غیر مبہم جنگ کی ستائش کررہے ہیں اور یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی سخت تگ و دَو اور مخلصانہ اقدامات سے دہشتگردی کا عالمی خونریز گراف بہت نیچے گرا ہے، دہشتگردوں کے ٹھکانے و محفوظ پناہ گاہیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور ان کا معاشی ناطقہ سختی سے بند کیا جارہا ہے۔

ایسے پیش منظر میں پاکستان کے وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا ایک مطالبہ بجا طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ مطالبہ اگرچہ نیا نہیں ہے لیکن اس کا اعادہ بھی ازبس ضروری تھا۔ جناب پرویز رشید نے کہا: ’’پاکستان نے دنیا کو دہشت گردی سے تحفظ دیا، اب دنیا ’’ڈومور‘‘ کرے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان کے پڑوسی ممالک دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں۔‘‘ پاکستان کے پڑوس میں چار ممالک لگتے ہیں۔ وزیرِاطلاعات نے اگرچہ ان میں سے کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن ہم سب پاکستانی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پڑوسی ممالک کون ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا مسلسل باعث بنے ہوئے ہیں اور جو دہشت گردوں کو ٹھکانے، پیسہ، اسلحہ اور تربیت فراہم کررہے ہیں۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت گذشتہ ڈھائی تین برسوں سے ذاتی حیثیت میں اور سفارتی سطح پر مسلسل کوشش کرتی آرہی ہے کہ ان پڑوسی ممالک کو راہِ راست پر لایا جائے یعنی قیامِ امن میں تعاون کرنے پر رضامند کیا جاسکے یعنی انھیں دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے سے باز رکھا جاسکے لیکن بدقسمتی سے ان پڑوسی ممالک نے پاکستان، اس کے عوام اور اس کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا رکھا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اپنے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو لے کر افغانستان بھی گئے تاکہ معاملات سدھارے جاسکیں۔ صدرِ افغانستان جناب اشرف غنی کے بیانات حوصلہ افزا بھی سامنے آنے لگے لیکن پھر افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ نے رنگ دکھانا شروع کیا اور پاکستان کے بارے میں افغان تیور بدلنے لگے۔ اٹھارہ ستمبر کو بڈھ بیر کا سانحہ، جس میں پاکستان فورسز کے 29 جوان جامِ شہادت نوش کر گئے، میں افغانستان کا ہاتھ صاف نظر آیا۔

یہ دستِ ستم دراصل بالواسطہ بھارت کا ہاتھ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراطلاعات جناب پرویز رشید اور وزیراعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز بالترتیب جب یہ کہتے ہیں کہ وقت آنے پر افغانستان کو بڈھ بیر کے شواہد دیں گے اور یہ کہ بڈھ بیر ائیربیس کیمپ پر حملہ کرنے والے فون پر مسلسل کابل سے رابطے میں تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ’’بعض‘‘ ہمسائے اپنی گندی اور امن دشمن حرکتوں سے باز نہیں آرہے۔ پاکستان مگر پوری استقامت اور پامردی کے ساتھ ان خونخوار اور شرانگیز ہتھکنڈوں کے خلاف کھڑا ہے۔

ان غلیظ، پاکستان دشمن اور دہشت گردانہ حرکتوں سے ان ممالک کو باز رکھنے کے لیے عالمی قوتوں کو عملی طور پر سامنے آنا چاہیے۔ اندازہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراطلاعات جناب پرویز رشید نے اسی پس منظر میں اقوامِ عالم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اب دنیا ڈُومور کرے۔ یہ مطالبہ بالکل بجا اور بروقت ہے۔ اور دنیا کے ڈُومور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف رزم آرا اور جنگ آزما پاکستان کی ممکن ترین مالی امداد بھی کرے، اس کے ساتھ دہشت گردوں کے بارے میں حاصل کردہ انٹیلی جنس معلومات بھی شیئر کرے اور ان ممالک (خصوصاً بھارت اور افغانستان) کو راہ راست پر لانے کی عملی کوششیں کرے جو پاکستان کی راہ کھوٹی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں۔

امریکا بہادر سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں جو اب بھی عسکری طور پر افغانستان میں موجود ہے اور افغان حکومت پر اسے ہر قسم کا مؤثر لیوریج بھی حاصل ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی (NDS) کو پاکستان کے خلاف کردار ادا نہ کرنے کا حکم جاری کرے تو اس کے باوجود NDS کے کرتا دھرتا پاکستان کے خلاف بروئے کار آتے رہیں؟ چنانچہ ہمارے وزیراطلاعات کا یہ مطالبہ امریکا سے بھی ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے حامیوں کے خلاف ’’ڈُومور‘‘ کرے۔ اب پاکستان سے ڈُو مور کا مطالبہ ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان گذشتہ ایک عشرے سے مسلسل دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ اس لیے امریکا سمیت کوئی عالمی قوت جب پاکستان سے ڈُومور کا مطالبہ کرتی ہے تو پاکستانی غصے میں آجاتے ہیں کہ یہ مطالبہ دراصل ان کی توہین ہے۔

امریکا اور اس کی انتظامیہ بھی اس بات سے باخبر ہے؛ چنانچہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کی جو خفیہ ای میلز افشا ہوئی ہیں، ان میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بطور امریکی وزیرخارجہ مسز کلنٹن نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف کوئی مطالبہ کرتے وقت ’’ڈومور‘‘ کے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں کیونکہ پاکستانی حکام اور پاکستانی عوام ان دونوں الفاظ سے طیش میں آجاتے ہیں۔

وزیراطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید کا یہ بیان بھی پاکستان کی مساعی جمیلہ کا آئینہ دار ہے کہ ’’پاکستان نے دنیا کو دہشت گردی سے تحفظ دیا ہے۔‘‘ جی ہاں، پاکستان نے واقعی معنوں میں بھاری قیمت ادا کرکے دنیا کو دہشت گردی سے محفوظ کیا ہے۔ یہ بات محض اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی نہیں ہے۔ جس روز پاکستان کے سبھی اخبارات میں وزیراطلاعات کا مذکورہ بیان شایع ہوا، اسی روز روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں سری لنکا کے ہائی کمشنر کا مفصل انٹرویو شایع ہوا۔

اسلام آباد میں متعین سری لنکن ہائی کمشنر جناب وجیا نتھی سنگھے نے اپنے اس انٹرویو میں نہایت صاف الفاظ میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا: ’’پاکستان تعاون نہ کرتا تو سری لنکا دہشت گردی سے چھٹکارا نہیں پاسکتا تھا۔‘‘ کسی غیر ملکی سفارت کار کی زبانی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کا یہ غیر معمولی اعتراف ہے۔ سری لنکا میں بھی بھارت ہی برسوں دہشت گردوں کو مالی اور اسلحی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ سری لنکا کا سب سے بڑا دہشت گرد بھارتی ریاستوں میں پناہ لیتا رہا ہے۔

یہ محض الزام اور تہمت نہیں ہے۔ بھارت کے سابق وزیرخارجہ کنور نٹور سنگھ کی سوانح حیات ONE  LIFE  IS  NOT  ENOUGH اس امر کی گواہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا کے سب سے بڑے دہشت گرد (پربھا کرن) کو بھارتی ریاست کا ایک وزیراعلیٰ پناہ بھی دیتا رہا ہے اور کروڑوں روپے کی امداد بھی۔ پاکستان کے تعاون سے سری لنکا کو 26 سالہ دہشت گردی سے نجات ملی چنانچہ سری لنکا بجا طور پر پاکستان کا ممنونِ احسان ہے۔ بھارت کو اس کی دلی تکلیف ہے جس کا اظہار وہ گاہے گاہے کرتا رہتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب سری لنکا کی طرح دنیا کا ہر ملک دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب جنگ کی تعریف و تحسین کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

The post وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کامطالبہ appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال

$
0
0

اگرچہ سال 2015 بھی قتل وغارت گری، لوٹ مار اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کوئی بہت اچھا سال نہیں کہا جاسکتا تاہم سال 2014 نے تو وطن عزیزکو غم وآلام کے ہجر بیکراں میں غرق کردیا تھا اوراس کا اختتام بھی پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے انسانیت سوز حملے کے ساتھ ہوا تھا جس میں تقریباً 150 قیمتی جانیں ضایع ہوگئی تھیں جن میں غالب اکثریت معصوم اور پیارے پیارے بچوں پر مشتمل تھیں، اس اندوہناک حملے کے نتیجے میں سزائے موت پر عائد پابندی اٹھانی پڑی جو 2008 سے لاگو تھی۔

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق یہ کثیر تعداد 8000 ہے، ان میں سے 231 گزشتہ سال کے اختتام تک اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے، اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے لیے پارلیمان نے 21 ویں آئینی ترمیمی بل کی 6 جنوری کو باقاعدہ منظوری دے دی۔

ہمارے کریمنل جسٹس کے نظام میں بعض خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے اور انصاف میں تاخیر کو انصاف نہ ملنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ Justice Delayed is Justice Denied یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2014 میں اس صورتحال کا نہایت تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔

سال 2014 کے دوران دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل وغارت گری اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میڈیا پر چھائے رہے، اس سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے 144 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے حوالے سے پنجاب میں کوٹ رادھاکشن کا واقعہ سب سے نمایاں رہا، اس لحاظ سے مذہبی عدم برداشت کا رجحان انتہائی قابل ذکر ہے، یہ صورتحال مذہبی رواداری کی متقاضی ہے جس کا ہمارا دین اسلام اس میں خاص طور پر درس دیتا ہے بقول شاعر:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

عفو و درگزر ہمارے پیارے دین اسلام کا طرۂ امتیاز رہا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالموں کے لیے باعث رحمت ہیں۔

سال 2014 میڈیا کے لیے بھی بہت ناساز گار تھا۔ اس سال کے دوران 14 صحافی اور میڈیا کارکن جاں بحق ہوئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے جب کہ مختلف لوگوں کو وقتاً فوقتاً قتل کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔

اس سال پاکستان کو میڈیا کے لیے سب سے خطرناک ملک بھی قرار دیا گیا جس سے وطن عزیز کی جگ ہنسائی اور دنیا بھر میں بہت بدنامی بھی ہوئی۔ سیکیورٹی کے اعتبار سے بے یقینی کے حالات، دہشتگردی کے خدشات اور نامساعد اور نا موافق سیاسی اثرات کے باعث میڈیا ہاؤسز کو سیلف سنسر شپ کا سہارا بھی لینا پڑا۔ سیاسی دھرنوں کے کرتا دھرتاؤں نے بھی میڈیا کے عملے کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا اور زدوکوب بھی کیا۔ میڈیا کے غیض وغضب کا ہدف بننے کے لحاظ سے سال 2014 بڑا ہی منحوس سال تھا۔ اس قسم کی ناپسندیدہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں متاثر ہوئی۔

اسی سال کے دوران خیبر پختونخوا میں مسلح تصادم کی کارروائیوں اور آرمی آپریشن کے نتیجے میں کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ۔ شمالی وزیرستان کا علاقہ بھی اسی طرح متاثر ہوا، اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر بے گھر ہونے والوں کا سنگین انسانی مسئلہ پیدا کردیا، یہ مسئلہ اس وجہ سے مزید پیچیدہ ہوگیا کہ بعض قبائلی عمائدین نے یہ فیصلہ صادرکردیا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے گھرانوں کی خواتین کو امدادی خوراک جمع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

بعض پر تشدد واقعات میں امدادی سامان وصول کرنے والوں کی قطاروں میں شامل خواتین کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی، افسوس کہ کسی نے یہ احساس بھی نہ کیا کہ ان خواتین میں شامل بیواؤں اور مردوں کے سہارے سے محروم عورتوں پر کیا گزرے گی اور ان کا کون پرسان حال ہوگا؟

اس سال کے دوران دھرنوں اور ریلیوں کی وجہ سے بھی زندگی کے معمولات بہت بری طرح سے متاثر ہوئے اور سیاسی جماعت کے کارکنان اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور مڈ بھیڑوں کے نتیجے میں بھی جانی اور مالی نقصان ہوا، بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کے تحت پر امن مظاہروں میں شرکت رضاکارانہ ہونی چاہیے جب کہ دھرنوں اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس میں کرائے کے لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ظاہر کرکے اس کی اثر پذیری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاسکے۔

ایچ آر سی پی (HRCP) کی رپورٹ برائے سال 2014 خواتین اور بچوں کے حقوق کی محرومی کے حوالے سے بھی بڑی مایوس کن اور حوصلہ شکن رہی، اس کے علاوہ ماؤں کے عدم تحفظ کے اعتبار سے بھی دنیا کے 178 ممالک میں پاکستان کا نمبر 147 رہا، پاکستان میں زچاؤں کی اموات کی شرح بھی انتہائی تشویشناک ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو جنم دینے والی ایک لاکھ ماؤں میں سے 276 زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔

بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری 41 فی صد خواتین کو ماہرین زچگی کی سہولت تک میسر نہیں ہے جس کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے عمل کے دوران ماؤں کی ہلاکت ایک عام سی بات ہے، ہندی زبان میں عورت کو ابلا کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں کمزور یا طاقت سے محروم۔ سو ہمارے معاشرے میں بے چاری عورت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا طرح طرح سے استحصال کیا جاتا ہے، ہلاکت بنام غیرت، زنا بالجبر، تیزاب پھینکنے اور گھریلو خواتین کے ساتھ مارپیٹ اور حیوانی تشدد کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہورہاہے حالانکہ ہمارا میڈیا مردوں کی جانب سے خواتین پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف بڑی جرأت مندی کے ساتھ علم احتجاج مسلسل بلند کررہاہے۔

ہمارا صحت کا نظام بھی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پست ہے جس کا بنیادی سبب ہماری دقیانوسی شرح اور فرسودگی ہے چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ سال 2014 میں پاکستان میں پولیوکے 306 کیس رپورٹ ہوئے اور وطن عزیز کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو بھی جھیلنا پڑا، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ہلاکت میں کمی کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا پاکستان اس کے حصول میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا جوکہ بڑی شرمندگی اور سبکی کی بات ہے۔

وطن عزیز کا شمار دنیا کے بڑے خوراک پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کے لحاظ سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔

صحت ہی نہیں تعلیم کے میدان میں بھی وطن عزیز کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے اگرچہ حکومت کی کوشش ہے کہ پانچ تا سولہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کی جائے لیکن پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جو 5.5 ملین کے لگ بھگ ہے، فرسودہ روایات کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہمارے معاشرے میں تعلیم کے لحاظ سے ہماری لڑکیوں کے ساتھ انتہائی بے جا اور ظالمانہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری بیٹیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے حکومت اور میڈیا کو اس سلسلے میں کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی شعور کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بیدار کیا جاسکے۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ سال 2014 کے دوران ہی پاکستان کی شان ملالہ یوسفزئی نے نوبیل امن انعام بھی حاصل کیا اور Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 جیسے قوانین بھی منظور کیے گئے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر والے بچوں کی شادی پر پابندی عائد کردی گئی ہے، صوبہ بلوچستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون مجریہ 2014 بھی اس سال کی انتہائی قابل ذکر پیشرفت ہے۔

The post پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال appeared first on ایکسپریس اردو.

عالمی یوم امن

$
0
0

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 ستمبر کو یوم امن منایا گیا، عام طور پر اس قسم کے عالمی مسائل پر جو دن منائے جاتے ہیں وہ محض رسمی کارروائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امن آج کا نہیں بلکہ ہر دور کا مسئلہ رہا ہے، امن کا حزب اختلاف ہمیشہ جنگ رہا ہے اور جنگ کا پیٹرن اگرچہ ہر دور میں مختلف رہا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہر دور میں انسانی جانوں کا اتلاف تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ ماضی میں خاص طور پر ملوکیت اور شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے دور میں جنگوں کی اصل وجہ ملک گیری یعنی دوسروں کے ملکوں پر قبضہ رہی ہے اور عام طور پر طاقتور ملک کمزور ملکوں کے خلاف جنگ کرتے رہے ہیں۔

جسے ہم جنگل کے قانون کا نام بھی دے سکتے ہیں، ماضی کے ملازمین کے دورکی جنگیں ہوں یا حال کے ترقی یافتہ دورکی جنگیں ہوں، فریقین کی طرف سے لڑنے والی طاقتیں افواج ہی ہوتی تھیں اور بدقسمتی یہ ہے بلکہ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ افواج خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے کیوں نہ ہو غریب طبقات ہی پر مشتمل ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں یعنی اس کا واضح مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ جنگیں غریبوں کے خلاف غریبوں کی جنگیں رہی ہیں جب کہ ان جنگوں کے قائدین کا تعلق عموماً بالادست طبقات سے رہا ہے۔

جس طرح جنگیں ہردورکی ضرورت رہیں اسی طرح امن بھی ہردورکی ضرورت رہا ہے۔ دور سلاطین میں جنگوں کی بڑی وجہ بہ ظاہرکمزور ملکوں پر قبضہ نظر آتا ہے لیکن دراصل اس قسم کے قبضوں کا اصل مقصد وسائل اور دولت پر قبضہ ہی رہا ہے ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا مقصد نوآبادیوں پر اور عالمی منڈیوں پر قبضہ بتایا جاتا ہے لیکن اس مبینہ مقصد کے پس منظر پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جنگ خواہ کسی دورکی ہو اس کا بنیادی مقصد کسی نہ کسی شکل میں وسائل اور دولت پر قبضہ ہی رہا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہی ہے کہ وسائل اور دولت کے حصول کی اس جنگ میں فریقین کی طرف سے فوج کے نام پر غریب طبقات ہی کو استعمال کیا گیا یہ عمل آج بھی جاری ہے بس جنگوں کی قیادت تبدیل ہوتی رہی ہے۔

جنگ کے ساتھ ہمیشہ امن ملزوم رہا ہے کہا جاتا ہے امن کی اہمیت وہی جانتا ہے جو جنگوں سے گزرا ہے۔ بدقسمتی سے بیسویں صدی دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں بدترین صدی کی حیثیت رکھتی ہے اس صدی میں ویت نام، کوریا، عراق اور افغانستان کی خونریز جنگیں ہی نہیں ہوئیں بلکہ وہ دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں جن میں انسان لاکھوں کی تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مارے گئے۔ امن کی خواہش ہر انسان کا تہذیبی سرمایہ ہے دنیا کا ہر شخص امن چاہتا ہے 21 ستمبر کو ہر سال دنیا بھر میں یوم امن منانے کا مقصد بھی دنیا بھر میں امن کا قیام ہے لیکن تسلسل سے منائے جانے والے اس یوم امن کے باوجود دنیا امن سے کیوں محروم ہے؟یہ ایک ایسا منطقی سوال ہے ۔

جس کے جواب کے لیے جنگوں کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ان کا مذہب امن اور محبت کی ہدایت کرتا ہے۔ اس دعوے کو جھٹلایا تو نہیں جاسکتا لیکن سوال ذہن میں یہی آتا ہے کہ صلیبی جنگوں کی وجہ کیا تھی؟ 1947 میں دنیا کی تاریخ کی جو بدترین خونریزی ہوئی جس میں 22 لاکھ انسان مارے گئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ 70 سال سے فلسطین میں جو خونریزی ہو رہی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ 66 سال سے کشمیر میں جو قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے اس کا سبب کیا ہے؟ اگرچہ ان سارے سوالوں کا جواب مذہبی منافرت ہی آتا ہے لیکن مذہب خدا کو سمجھنے کا ایک وسیلہ ہے تو خدا سر تا پا محبت کا نام ہے پھر اس وسیلے یعنی مذہب کو انسان نے نفرت کا ذریعہ کیوں بنالیا ہے؟

انسان کو ایک دوسرے سے محبت کرنے کے جتنے جواز چاہئیں نفرت کرنے کے لیے بھی اس کے پاس اس سے زیادہ بہانے موجود ہوتے ہیں مثلاً رنگ نسل ذات پات دین دھرم وغیرہ وغیرہ ہر دور میں ایسے انسان موجود رہے ہیں جو انسانوں کے درمیان نفرت اور تعصب کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔کیا کسی دور میں بھی نفرت اور تعصبات کا کوئی مثبت پہلو سامنے آیا ہے؟جب اس کا جواب ہمیشہ نفی ہی میں آتا رہا ہے توکیا نفرتوں تعصبات کی حمایت کی جاسکتی ہے؟ ہم نے یہاں امن کی خواہش کے حوالے سے امن دشمنی کے چند اسباب کی مثال دی ہے ورنہ امن دشمنی کی ادنیٰ سے لے کر ’’اعلیٰ سطح‘‘ تک اتنی وجوہات ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔

ہم نے بارہا انھیں کالموں میں اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ جدید اور مہذب دنیا میں امن دشمن طاقتیں بہت مضبوط ہیں، اس حوالے سے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جنگ کا ایک اہم رکن ہتھیار ہیں۔ ہتھیار آسمان سے نہیں ٹپکتے بلکہ بنائے جاتے ہیں ،کیا ایک چھوٹے سے چھوٹے ہتھیار سے لے کر ایٹم بم جیسے سب بڑے ہتھیاروں کا مقصد انسان کی جان لینے کے علاوہ کچھ اور ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ساری دنیا ہتھیاروں سے کیوں اٹی پڑی ہوئی ہے؟ ساری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ دنیا میں ہتھیاروں کی صنعت اس قدر وسیع کیوں ہے؟امن کی خواہش کرنے والے اور دنیا بھر کو یوم امن کی ترغیب فراہم کرنے والے مغربی ملک ہتھیاروں کی صنعت کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کرتے؟

کیا عالمی سطح پر یوم امن منانے کا ڈرامہ کرنے والے ترقی یافتہ مغربی ملک اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ امن صرف خواہشوں سے قائم نہیں ہوتا بلکہ امن کے قیام کے لیے جنگ کے ہر سبب کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ جن میں سے ایک بڑا سبب ہتھیاروں کی صنعت ہے جس سے اربوں کھربوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں۔ کیا اس صنعت کو امن کے خواہش مند بند کرسکتے ہیں؟ نہیں کیوں کہ یہ حصول دولت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور حصول دولت ماضی کی سلاطینی جنگوں کا بھی بڑا مقصد رہا ہے اور موجودہ جمہوری حکومتوں کا بھی ایک بڑا مقصد ہے۔ پھر امن کہاں سے آئے گا؟

The post عالمی یوم امن appeared first on ایکسپریس اردو.

تھانیدار نے بھی قربانی دی

$
0
0

گستاخی بلکہ بدتمیزی معاف کہ میں پاکستانیوں کی تازہ ترین پسند کے گوشت کا ذکر نہیں کر رہا اور اس کی جگہ حلال اور بابرکت گوشت کا ذکر کر رہا ہوں اور کھا بھی یہی رہا ہوں۔گدھے کتے اور سور، یہ سب جہاں بھی ہیں آزاد پھر رہے ہیں اور فی الحال پاکستانیوں کی نظرہوس سے بچے ہوئے ہیں لیکن قربانی کی عید گزرتے ہی ان سب کی شامت آ جائے گی۔

ان کا گوشت اور کھال تک برآمد ہو گی۔ پتہ نہیں ہماری قوم کو کیا مار پڑی ہے کہ دو اڑھائی سال سے اس نے حلال وحرام کی تمیز بھی ترک کر دی ہے بلکہ اس حلال وحرام کو ایک ذریعہ روزگار بنا لیا ہے۔ دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور حرام وحلال کی تمیز کرتے ہیں بلکہ یہ تمیز ہمارے خمیر میں ہے لیکن پاکستان کیا پورے برصغیر کی تاریخ میں ایسا وقت پہلی بار آیا ہے اور عام مسلمان حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔

بہرکیف یہ غیرمعمولی ناگوار باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی، میں اس بار ایک عرصہ بعد عید پر لاہور میں ہوں اور عیدقربان کو بھرپور انداز میں مناتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ مسلمان ایک سستے بکرے سے لے کر بلند وبالا اونٹ تک کی گردن پر چھری پھیر رہے ہیں اور ثواب لوٹ رہے ہیں۔ ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ گیٹ کے باہر ہجوم جمع ہو گیا، گوشت کی تلاش میں۔ غلطی یہ ہو گئی کہ بکروں کو گیراج کی چھت پر لگی ہوئی کنڈیوں میں لٹکا دیا گیا جو دور سے دکھائی دے رہا تھا۔

اگرچہ بہت جلدی میں کام کرنے والے قصابوں نے ان بکروں کو جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن ان کے ٹکڑے اتنے نہیں تھے کہ گھر کے باہر جمع ہجوم کو خوش کر سکتے چنانچہ مکمل خاموشی اختیار کی گئی اور خواتین خاموشی سے اپنے کام میں لگ گئیں۔ ان دنوں اخباروں نے عید سے قبل مضامین چھاپ دیے اور شرعی آداب اور قانون کے مطابق قربانی کر دی گئی۔ ہمارے حکمران تو حسب معمول عید کے موقع پر ملک سے باہر چلے گئے کہ ان کی شریعت میں مسائل قدرے مختلف انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔

بہرکیف اللہ ان کی نیتوں کے مطابق ان کی قربانی کو قبول فرمائے اور انھیں اصلی پل صراط پر سے بخیریت گزار دے، اس دنیا کی پل صراط جو ان حکمرانوں کو درپیش ہے۔ دعا ہے کہ وہ اس پر سے بھی بہ عافیت گزر جائیں اور اپنے ساتھ قوم اور ملک کو بھی سلامتی کے ساتھ ہر مشکل راستے اور پل صراطوں سے گزار دیں۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کہ یہ حکمران بدکردار اور برے نہیں ہیں تو کیا ان کے گرد وپیش میں غلط لوگ جمع ہو گئے ہیں یا ان کی پالیسیاں ناقص ہیں۔ مثلاً بھارت کے ساتھ دوستی کی پالیسی بہرحال پاکستانیوں کو قبول نہیں ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن باعزت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔

اس سال ٹیلی ویژن نے بھی خوب عید منائی، ہر چینل نے حسب توفیق پررونق پروگرام پیش کیے اور مجروں میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں مصروف رہے۔ میں نے ایک چینل پر عابدہ پروین کا پروگرام بھی دیکھا۔ انھوں نے ایک غزل بھی سنائی:

جب سے تم نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

عابدہ کی آواز اور شاعر کا کلام دونوں نے رنگ باندھ دیا اور عید لوٹ لی لیکن جناب عید تو ایک اور صاحب نے لوٹی ہے۔ وہ گجرات کے ایک پولیس افسر تھے، نہ تو وہ گجرات کے چوہدری تھے نہ وہ میاں افضل حیات کی طرح جدی پشتی رئیس تھے اور نہ ہی ہمارے گجرات کے سپہ سالار کی طرح نشان حیدر بھائی کے برخوردار تھے۔

یہ تینوں بڑے اعزاز جن کے پاس تھے انھوں نے عید پر قربانی ضرور دی ہو گی مگر خاموشی اور شائستگی کے ساتھ جیسے کہ یہ سنت ابراہیمی ادا کرنی چاہیے لیکن میں جس گجراتی کا ذکر کر رہا ہوں وہ گجرات کا جم پل تھا یا نہیں گجرات میں تعینات ضرور تھا۔ یہ ایک تھانیدار تھا جس نے تھانیداری کے انداز میں وج گج کر قربانی دی۔

ہم آپ نے بڑا کمال کیا ہو گا جو دو تین بکرے ذبح کر دیے ہوں گے اور بس لیکن اس تھانیدار نے پہلے تو ایک ریوڑ سے بکرا خریدنے کی کوشش کی لیکن گستاخ چرواہے نے قیمت میں رعایت دینے سے انکار کر دیا مگر اس احمق نے یہ نہ سوچا کہ وہ کس کو انکار کر رہا ہے چنانچہ اس چرواہے کو اس کی سزا یہ ملی کہ تھایندار صاحب نے اس کے بکرے بکریاں قریب کی ریل کی پٹڑی پر دھکیل دیں اور وہ بڑی تعداد میں ریل کی پٹڑی پر چڑھ گئیں اور پھر اوپر سے ریل گاڑی آ گئی چنانچہ چالیس پچاس بکرے بکریاں ریل گاڑی کے بھاری پہیوں کے نیچے آ کر کچلی گئیں۔

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تھانیدار صاحب کی جس بکرے پر نظر تھی وہ انھیں زندہ مل گیا یا پٹڑی پر چڑھ گیا۔ لگتا یہی ہے کہ اس مرگ انبوہ میں یہ بھی دوسرے بھائی بہنوں کے ساتھ بوٹی بوٹی ہو گیا۔ ہم نے ٹی وی پر ان بکروں کو قطار اندر قطار مرا ہوا دیکھا جو حرام موت مر گئے۔ ذبح بھی نہیں کیے جا سکے چنانچہ ایک تو قیامت صغرا مکہ مکرمہ میں حاجیوں پر گزر گئی دوسری ان بے زبان مویشیوں پر۔ قدرت کو نہ جانے کیا منظور ہے اور وہ اپنے بندوں کو کیا سزا دینا چاہتی ہے۔ میں پنجاب میں اس قربانی کو تھانیدار کی قربانی کہوں گا کیونکہ ایسی قربانی آج سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔

The post تھانیدار نے بھی قربانی دی appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک آنجہانی سینما کی یاد میں

$
0
0

پچھلے ہفتے ( اکیس ستمبر ) میرے پسندیدہ نشاط سینما کی تیسری خاموش برسی تھی۔دو ہزار بارہ میں جب یو ٹیوب پر ایک اشتعال انگیز فلم کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں موجود کچھ شر پسند نشاط سینما پر آتش گیر مواد پھینک رہے تھے تو انھیں کسی نے نہ بتایا کہ یہ سینما نہیں کراچی کی تاریخ کا ایک قیمتی وزیٹنگ کارڈ ہے۔ یو ٹیوب پر چلنے والی فلم کے غصے میں پشاور کے چھ اور کراچی کے ایک سینما کو نذرِ آتش کردینا ایسا ہی تھا جیسے کمہار پے بس نہ چلے تو گدھے کے کان اینٹھ دو یا’’ ڈگیا کھوتے توں تے غصہ کمہیار تے‘‘

نشاط سینما کا ڈھانچہ آج بھی ایم اے جناح روڈ پر ایستادہ ہے۔ وہ کسے یہ کہانی سنائے کہ اس کی پیدائش تقسیم سے پہلے ہوئی اور اس کا نام کرشنا سینما رکھا گیا جب کہ اس کی جڑواں بہن رادھا ( سینما ) سڑک پار سے بھائی کو تکتی رہتی۔

تقسیم کے بعد جب کرشنا اور رادھا کے والدین بھارت چلے گئے تو نئے مسلمان مالکوں نے رادھا کو ناز اور کرشنا کو نشاط کا نام دے دیا۔پچیس دسمبر انیس سو سینتالیس کو محترمہ فاطمہ جناح نے نشاط سینما کا افتتاح کیا اور فلم ’’ ڈولی ’’ بھی دیکھی ( انیس سو باسٹھ میں محترمہ نے اداکار محمد علی کی پہلی فلم ’’ چراغ جلتا رہا ’’ کا پریمئر شو بھی ڈائریکٹر فضل کریم فضلی کے ہمراہ یہیںدیکھا )۔نشاط سینما نہیں بہت کچھ تھا ۔ یہاں سب سے پہلے فلیٹ اسکرین ٹیکناولوجی متعارف ہوئی۔پہلی سینما اسکوپ اسکرین اور پہلا ڈجیٹل سراؤنڈ ساؤنڈ سسٹم یہاں نصب ہوا۔چنانچہ کراچی کے تماشائیوں کی پہلی کوشش یہ ہوتی کہ کسی طرح نشاط کا ٹکٹ مل جائے۔ انگریزی فلموں کے ٹکٹ بھی اسی طرح بلیک ہوتے جیسے اردو کے۔ سونے کاایک دانت چمکائے چھ چھ فٹ کے مکرانی بلوچ پلاسٹک کا پائپ لہراتے بار بار ٹوٹتی لائن سیدھی کراتے رہتے۔ وقت بدلا تو نہ ویسے دیوانے تماشائی رہے اور نہ وہ سنہری دانت والے بلوچ۔

نشاط کی سڑک پار براجمان فلمی بہن ناز زیادہ سیانی نکلی اور اس نے بدلے وقت میں خود کو شاپنگ پلازہ میں ڈھال لیا مگر نشاط بدستور اپنی فلمی کمٹمنٹ پر قائم رہا اور بالاخر اکیس ستمبر دو ہزار بارہ کو جان دے دی۔

پاکستان فلم انڈسٹری کی کہانی بھی نشاط سے ملتی جلتی ہے مگر انڈسٹری زیادہ سخت جان نکلی کیونکہ اس نے تیس برس کے اچھے دن بھی دیکھ رکھے تھے۔ستر کی دھائی تک یہ فلم انڈسٹری کم اور کہکشاں زیادہ تھی۔اس کہکشاں سے ہزاروں گھروں کا چولہا جلتا تھا۔یہ کہکشاں نہ ہوتی تو نثار بزمی ، سہیل رانا ، ایم اشرف ، رشید عطرے ، بابا چشتی ، خواجہ خورشید انور ، ماسٹر عبداللہ ، روبن گھوش ، تنویر نقوی ، کلیم عثمانی ، سیف الدین سیف ، نور جہاں ، مہدی حسن ، احمد رشدی ، رونا لیلی ، مالا ، ناہید اختر ، روبینہ بدر ، سنتوش کمار ، محمد علی ، وحید مراد ، ندیم ، شاہد ، لالہ سدھیر ، اسلم پرویز ، آغا طالش ، سلطان راہی ، مصطفیٰ قریشی ، بدر منیر ، رنگیلا ، منور ظریف ، لہری ، صبیحہ ، مسرت نذیر ، زیبا ، شمیم آرا ، شبنم ، رانی ، آسیہ ، فردوس ، نیلو ، سنگیتا ، بابرہ شریف ، انجمن ، شوکت حسین رضوی ، ضیا سرحدی ، سعید رضوی ، نذرالسلام ، ریاض شاہد ، حسن طارق ، ایس سلیمان ، پرویز ملک ، شباب کیرانوی ، لقمان ، حسن عسکری ، جے سی آنند ، آغا جی اے گل ، الیاس رشیدی وغیرہ وغیرہ کو کون جانتا اور یہ اپنا جینئیس کہاں دکھاتے پھرتے۔

جو حجام زیادہ فلمی رسالے خریدتا اس کی دکان پر گاہکوں کا زیادہ رش ہوتا۔اداکارائیں پرستاروں کے ہجوم سے بچنے کے لیے برقعہ پہن کر ہی شاپنگ کے لیے نکل پاتیں۔اخبارات میں ہر ہفتے دو ہفتے بعد خبر چھپتی کہ فلانے قصبے میں ایک دل برداشتہ عاشق نے خودکشی کرلی۔اس کی جیب سے فلاں اداکارہ کی تصویر برآمد ہوئی۔ فلمی اسکینڈلز آج کل کے کرپشن اسکینڈلز سے زیادہ چٹپٹے تھے۔

سنسر بورڈ میں بھی پروفیشنلز کا تناسب نسبتاً زیادہ تھا۔جب حسن طارق کی فلم تہذیب کو سنسر بورڈ پریویو کر رہا تھا تو ایک سرکاری افلاطون یہ کوڑی لایا کہ’’ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو نئی تہذیب کے آثار دیکھو ’’ والے گانے میں سے مصر کا نام نکالا جائے کیونکہ انور سادات کی حکومت سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔اس پر کسی نے فقرہ چست کیا کہ تعلقات خراب ہوں نہ ہوں مگر آپ ہمارا دماغ ضرور خراب کر دیں گے۔ اگلے پریویو میں سرکاری افلاطون نے شرکت سے معذرت کرلی اور باقی ارکان نے سکھ کا سانس لیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دھچکا تو فلمی صنعت برداشت کر گئی مگر اگلا دھچکا نہ سہہ سکی۔جب ضیا الحق نے حکومت سنبھالی تو اس وقت تک پاکستان کے طول و عرض میں ساڑھے سات سو کے لگ بھگ سینما اسکرینز تھے۔صرف کراچی میں ہی سینما اسکرینز کی تعداد سو سے زائد تھی۔پھر یہ وقت بھی آیا کہ کراچی میں صرف دس قابلِ ذکر اسکرینز بچے۔ باقی کو مارکیٹیں کھا گئیں۔ ہر سال سو سے اوپر اردو ، پنجابی ، پشتو اور سندھی فلمیں بن رہی تھیں جب کہ ہالی وڈ کی ایکشن فلموں کی بھی مسلسل مانگ تھی۔ جب ضیا حکومت نے بھٹو صاحب سے جسمانی نجات پالی اور سیاست کو گھنگرو باندھ دیے تو توجہ کا اگلا مرکز دیگر سماجی برائیاں بنیں۔رومانٹک فلموں پر سنسر زیادہ سخت ہوگیا ، انٹرٹینمنٹ ٹیکس بڑھا دیا گیا مگر وڈیو پائریسی سے درگذر ہونے لگا۔چنانچہ انیس سو انہتر میں اگر اٹھانوے فلمیں بنیں تو اگلے برس اٹھاون اور سن دو ہزار میں بس دو۔۔

انیس سو انہتر میں مولا جٹ کی ریلیز سے فلم انڈسٹری گنڈاسہ دور میں داخل ہوگئی۔رومانس کے مقابلے میں تشدد ضیا رجیم کے لیے زیادہ قابلِ قبول تھا لہذا نرم و نازک فلمی کہانی کو بڑک کھا گئی اور مردانہ پنجابی اور گرم پشتو فلموں کی تعداد بڑھتی اور روایتی اردو فلم گھٹتی چلی گئی۔ پشتو فلموں کی مارکیٹ کو بہت بڑا سہارا افغان پناہ گزینوں نے دیا اور پھر پشتو انڈسٹری نے پنجابی فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔آخر ایک اکیلا شان شاہد اور سید نور پنجابی فلموں کا کتنا بوجھ اٹھاتا؟

نئی صدی کے شروع میں اکا دکا فلموں کی ریلیز سے یہ تو معلوم ہوتا تھا کہ زندگی کی رمق باقی ہے مگر یہ گمان کسی کو بھی نہ تھا کہ بالی وڈ کے جگرناٹ کے آگے پاکستانی فلمی صنعت کے مردے میں صور پھونکا جا سکے گا۔سن دو ہزار ایک میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ کراچی میں بین الاقوامی کارا فلم فیسٹیول ہونے لگا تاکہ پاکستان کے فلمی ماضی سے بیگانہ نئی نسل کو فلمسازی و فلم بینی کی طرف راغب کیا جاسکے۔ مگر یہ فیسٹیول بھی مالی بحران اور عمومی سماجی اکتاہٹ کے سبب زندگی کی سات بہاریں ہی دیکھ سکا۔مقامی سوتے خشک ہونے لگے تو پاکستانی ٹیلنٹ ممبئی میں قدر پانے لگا۔آغاز نصرت فتح علی خان سے ہوا اور بات راحت فتح علی خاں ، عاطف اسلم اور علی ظفر سے ہوتی ہواتی میرا تک پہنچ گئی۔

اور پھر ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اچانک مقامی فلمی صنعت کو کمک وہاں سے ملی جہاں سے کوئی امید نہ تھی۔مشرف حکومت نے اپنے تمام تر لبرل پن کے باوجود فلمی صنعت کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی البتہ میڈیا کے گھوڑے کو ریاستی تانگے کے جوئے سے رہائی دے دی۔چنانچہ میڈیا ہاؤسز نے ٹی وی سیریلز میں سرمایہ کاری کرتے کرتے اچانک کچھ پیسہ کمرشل فلم سازی کی حوصلہ افزائی پر بھی لگانا شروع کردیا۔اب تو ماشااللہ فوج کا محکمہ تعلقاتِ عامہ بھی سیریلز اور کمرشل فلموں میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔

پچھلے بیس برس میں پاکستان میں بھلے فلم سازی کا قحط رہا ہو لیکن نئی تکنیک و ٹیکنالوجی میں دلچسپی کے سبب ایک ٹیلنٹ پول بہرحال پنپتا رہا۔چنانچہ دو ہزار سات میں پرانے پاکستانی سینما کے جسد سے جدید سیمنا کی روح نے ’’ خدا کے لیے ’’ کی شکل میں انگڑائی لی۔اور آج حالت یہ ہے کہ صرف نو برس کے دوران دو پاکستانی کمرشل فلموں ( زندہ بھاگ اور مور ) نے آسکر کی نامزدگی حاصل کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ریلیز کا مزہ بھی پہلی بار چکھا۔اس وقت ایک پوری کی پوری نئی نسل نئے پاکستانی سینما سے جڑ چکی ہے۔

اگرچہ سینما کا ٹکٹ غریب آدمی کی دسترس سے نکل چکا اور جدید ملٹی اسکرینز مہنگے سینماؤں میں متوسط طبقے کا بول بالا ہے لیکن جس رفتار سے فلمی صنعت زوال پذیر ہوئی اس سے دگنی رفتار سے بحال ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہی ہے۔توقع ہے کہ دو ہزار بیس تک بہت سے شہروں اور قصبات میں مزید سو سے زائد جدید اسکرینز تعمیر ہوجائیں گی۔ پھر سے کوئی شہابِ ثاقب نہ ٹکرایا تو اگلے پانچ برس میں سیاست کا مستقبل تو معلوم نہیں البتہ فلم کا مستقبل یقیناً روشن لگتا ہے۔شک ہو تو ’’ منٹو’’ جا کے دیکھ لیں۔

مگر نشاط سینما کب بحال ہوگا ؟

The post ایک آنجہانی سینما کی یاد میں appeared first on ایکسپریس اردو.

مٹی کی تاثیر

$
0
0

کرمان آج کے ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، یہ جنوب مشرق میں واقع ہے، پورے صوبے کی آبادی تیس لاکھ ہے، یہ پرامن، خوش حال اور مطمئن لوگوں کا صوبہ ہے، کرمان شہر صوبے کا دارالحکومت اور بڑا شہر ہے، یہ شہر دو ہزار سال کی تاریخ کا امین ہے، شاہراہ ریشم شہر کو چوم کر آگے بڑھتی ہے، مارکو پولو نے یہ شہر اور یہ صوبہ یورپ میں متعارف کرایا، وہ 1250ء سے 1260ء کے درمیان کرمان سے گزرا، شہر اور شہر کے لوگوں سے متاثر ہوا اور اپنی کتاب میں بڑی محبت سے ان کا ذکر کیا، کرمان اس وقت ملک ہوتا تھا، ملک پر بادشاہت تھی، بادشاہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔

کرمان کے دائیں بائیں سات ایرانی سلطنتیں تھیں، ساتوں ریاستوں میں اس وقت جنگیں چل رہی تھیں، صرف کرمان میں امن تھا، مارکو پولو نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں کرمان کے بادشاہ کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا، مارکو پولو نے لکھا، کرمان کے لوگ معزز، پرامن اور سادہ تھے، وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، کرمان کے بادشاہ نے ایک دن اپنے مشیر جمع کیے اور ان سے پوچھا ’’ میں حیران ہوں، ہمارے لوگ پرامن، صلح جو اور ایمان دار ہیں جب کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے لوگ مکار، خونخوار اور جھگڑالو ہیں، یہ ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

ہمارے ہمسائے ہم سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟‘‘ ایک مشیر نے جواب دیا ’’ یہ مٹی کا فرق ہے، ان کی مٹی ہماری مٹی سے مختلف ہے‘‘ بادشاہ نے اس رائے کو جانچنے کا فیصلہ کیا، اصفہان کرمان کے ہمسائے میں واقع ہے، یہ ملک ہمہ وقت جنگوںکا شکار رہتا تھا، اصفہان کے لوگ تند خو، لڑاکے، ظالم اور جنگ جو بھی تھے، کرمان کے بادشاہ نے اپنے سفیر اصفہان بھجوائے، انھیں ہدایت کی، یہ اصفہان کے سات مختلف مقامات کی مٹی بوریوں میں بھریں اور کرمان لے آئیں۔

سفیر گئے اور اصفہان کی مٹی کرمان لے آئے، بادشاہ نے وہ مٹی محل کے سات کمروں میں بچھائی اور اس پر قالین بچھا دیے، بادشاہ نے اس کے بعد شاندار ضیافت کا اہتمام کیا، مہمان آئے، بادشاہ نے انھیں ان سات کمروں میں بٹھا دیا، کھانا شروع ہوا اور کرمان کے وہ سردار جن کی شرافت، نرمی اور برداشت کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ چند لمحوں میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو گئے، وہ ایک دوسرے کے گلے تک کاٹنے پر تل گئے، بادشاہ مشیر کی آبزرویشن کا قائل ہو گیا، وہ مان گیا ’’مٹی انسان کے مزاج پر اثر کرتی ہے‘‘۔

ہم اگر چند لمحوں کے لیے مارکوپولو کے اس واقعے کو سچ مان لیں اور تاریخ اور دنیا کو مٹی کے ریفرنس سے دیکھیں تو ہمیں اسلامی دنیا کے مسائل، افراتفری، ہنگاموں اور قتل و غارت گری کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی اور ہم یورپ، امریکا اور مشرق بعید کی ترقی کی وجوہات بھی سمجھ جائیں گے، آپ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو تاریخ کے ہر دور میں مکہ شہر میں شدت، انا اور سختی ملے گی جب کہ آپ اگر مکہ سے ساڑھے چارسو کلومیٹر دور مدینہ چلے جائیں تو آپ کو اس شہر کا امن، سکون، وسعت اور مہمان نوازی حیران کر دے گی۔

مکہ اور مدینہ دونوں ایک ہی ملک کے شہر ہیں لیکن دونوں میں اتنا فرق کیوں؟ ہم یقینا رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ ؓ  کو اس کی وجہ قرار دیں گے، یہ درست بھی ہے کیونکہ جس زمین نے نبی اکرم ؐ کے قدم چومے ہوں اس کی تاثیر نے بہرحال تبدیل ہونا ہی تھا، یہ ہمارے رسولؐ کا اعجاز تھا لیکن سوال یہ ہے نبی اکرم ؐ نے مدینہ میں صرف دس سال گزارے جب کہ آپؐ نے حیات مبارکہ کے 53 سال مکہ میں بسر کیے، آپؐ کی ولادت بھی مدینہ کے بجائے مکہ میں ہوئی تھی، خلفائے راشدین کی زندگیوں کا بڑا حصہ بھی اسی شہر میں گزرا تھا اور ہزاروں صحابہ کرامؓ بھی مکہ ہی میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں جوان ہوئے لیکن اس کے باوجود مکہ اور مدینہ کی فضاؤں میں فرق ہے۔

کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب کے لیے کرمان کے بادشاہ کا واقعہ دوبارہ پڑھیں اور آپ اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام ملکوں، خطوں اور شہروں کی تاریخ بھی دیکھیں جن میں اس وقت جنگیں چل رہی ہیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ تمام شہر، یہ تمام خطے اور یہ تمام ملک تاریخ کے تمام ادوار میں جنگوں، افراتفری اور قتل و غارت گری کا شکار رہے، یہ شہر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی جنگوں کا شکار تھے، اسلامی دور میں بھی جنگوں کا شکار رہے اور آج بھی افراتفری اور قتل و غارت گری کا نشانہ ہیں، آپ لبنان، فلسطین اور یوروشلم کی تاریخ دیکھ لیں، آپ شام، یمن، مصر، عراق اور ایران کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور آپ پاکستان اور بھارت کے ان علاقوں کا پروفائل بھی نکال لیں جہاں آج لڑائیاں چل رہی ہیں۔

آپ کو وجہ سمجھ آ جائے گی، آپ اس کے بعد یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد آج یورپ کے ان ملکوں، ان خطوں اور ان علاقوں میں ایک بار پھر افراتفری نظر آئے گی جو ہزاروں سال میدان جنگ یا جنگوں کی وجہ رہے، آپ یونان کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد یونان کی موجودہ صورتحال دیکھیں، آپ رومن ہسٹری پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ اٹلی کو دیکھیں اور آپ اسپین، جرمنی اور آسٹریا کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ صورتحال کا تجزیہ کریں، آپ کو مستقبل، حال اور ماضی تینوں میز پر رکھے نظر آئیں گے۔

آپ اس کے بعد اس نقطہ نظر سے امریکا اور روس کو بھی دیکھیں، آپ کو ان دونوں ملکوں کے متحارب خطوں اور ان خطوں کے لوگوں کی نفسیات بھی سمجھ آ جائے گی، آپ کو آج بھی امریکا کے ان شہروں میں لاء اینڈ آرڈر، قتل و غارت گری اور لوٹ مار دکھائی دے گی جن میں مایا سولائزیشن، ریڈ انڈینز اور گوروں کے دور میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور آپ کو آج بھی روس کے ان علاقوں میں آگ، بارود اور لاشیں نظر آئیں گی جن میں ماضی میں جنگیں ہوتی تھیں، یہ کیا ہے؟ یہ مٹی کا اثر ہے اور آپ اگر چند لمحوں کے لیے اس اثر کو حقیقت مان لیں تو آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا ’’پاکستانی اپنے ائیرپورٹس پر دوسرے مسافروں کو کہنیاں اور ٹھڈے کیوں مارتے ہیں اور یہ یورپی ائیر پورٹس پر اترتے ہی چپ چاپ لائن میں کیوں لگ جاتے ہیں؟‘‘ اور آپ یہ بھی جان لیں گے حج کے دوران ہر سال مکہ میں بھگدڑ کیوں مچتی ہے؟ لوگ کیوں مرتے ہیں؟ آپ بس چند لمحوں کے لیے کرمان کے بادشاہ کا فلسفہ مان لیں۔

آپ بس چند لمحوں کے لیے مکہ مکرمہ کی تاریخ پڑھ لیں، آپ جان جائیں گے مکہ کی مٹی میں سختی بھی ہے اور شدت بھی۔ یہ سخت مٹی ہے، اس مٹی نے فتح مکہ تک نبی اکرم ؐ کو نبی نہیں مانا تھا، اس مٹی کی شدت دیکھ کر نبی اکرم ؐ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ ہجرت فرما گئے مگر مٹی کو قرار نہ آیا اور یہ مسلمانوں کے خلاف مدینہ کی طرف لشکر بھجواتی رہی، یہ اس شہر کی مٹی کی شدت تھی جس کی وجہ سے شاید نبی اکرم ؐ فتح مکہ کے بعد واپس مدینہ لوٹ گئے اور یہ بھی اس شہر کی مٹی کی شدت ہے جس کے ہاتھوں ہر سال حاجی تکلیف بھی اٹھاتے ہیں، زخمی بھی ہوتے ہیں اور شہید بھی۔ مکہ مکرمہ کی مٹی میں شدت اور تکلیف دونوں ہیں چنانچہ ہم مسلمان اگر سہولت اور آسانی کے ساتھ حج کرنا چاہتے ہیں۔

ہم اگر اپنے آپ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان 800 لوگوں جیسے انجام سے بچانا چاہتے ہیں جو 2015ء میں حج کی تکمیل سے پہلے منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حبس اور بھگدڑ کے ہاتھوں شہادت پا گئے تو پھر ہمیں کچھ اصول، کچھ ضابطے اور کچھ نظام وضع کرنا ہوں گے، یہ نظام، یہ ضابطے اور یہ اصول مٹی کی شدت تبدیل نہیں کر سکیں گے لیکن یہ حاجیوں کا حج ضرور آسان بنا دیں گے، یہ ہزاروں جانیں ضرور بچا لیں گے، میری سعودی عرب کی حکومت سے درخواست ہے، یہ تخمینہ لگائے منیٰ میں ایک وقت میں کتنے حاجی رمی کر سکتے ہیں، یہ اس تخمینے کے بعد حاجیوں کے مختلف گروپوں کو وقت الاٹ کر دے، ہر گروپ صرف اپنے مقررہ وقت پر رمی کے لیے کیمپ سے نکلے، رمی کے راستے میں آٹو میٹک بیریئر لگا دیے جائیں۔

یہ بیریئر سیکیورٹی گیٹس کی طرح ہوں، آپ ان میں صرف داخل ہو سکیں، واپس نہ آ سکیں، آپ مشین میں کارڈ ڈالیں، بیریئر کھلے اور آپ رمی کے پل پر چڑھ جائیں، یہ بیریئر پل پر ہر آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں، آپ ان کے ذریعے تعداد بھی مانیٹر کر لیں گے اور لوگ بھی ڈسپلن میں رہیں گے، آپ اس سلسلے میں ویٹی کن سٹی اور آرلینڈو (امریکا) کے ڈزنی ورلڈ کا سسٹم بھی دیکھ سکتے ہیں، ڈزنی ورلڈ میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ آتے ہیں لیکن وہاں کسی قسم کی افراتفری نہیں مچتی، کیوں؟ ان کا بیریئر سسٹم۔ یہ سسٹم ہر پارک میں صرف اتنے لوگوں کو داخل ہونے دیتا ہے جتنی اس میں گنجائش ہوتی ہے، رمی کے مقام پر سایہ بھی نہیں اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے وہاں آکسیجن بھی کم ہو جاتی ہے۔

سعودی حکومت شیاطین کے مقامات تک سائے کا بندوبست کر دے، راستے میں آکسیجن بھی پھینکی جائے، حاجیوں کے لیے پانی کی بوتل بھی لازمی قرار دے دی جائے، حاجی اس وقت تک پل پر نہ چڑھ سکیں جب تک ان کے ہاتھ میں پانی کی بوتل نہ ہو، حاجیوں کے لیے ٹریننگ بھی ضروری قرار دے دی جائے، حکومتیں ملک بھر میں پرائیویٹ ٹریننگ کمپنیاں بنوائیں،یہ کمپنیاں اپنے اپنے شہر کے عازمین کو ٹریننگ دیں، حاجیوں کے پاس جب تک ٹریننگ کا کارڈ نہ ہو، انھیں اس وقت تک جہاز پر سوار نہ ہونے دیا جائے۔

میری حکومت پاکستان سے بھی درخواست ہے، آپ نادرا کی مدد سے ایسی ’’چپ‘‘ تیار کروائیں جس میں حاجی سے متعلقہ تمام معلومات موجود ہوں، یہ چپ ’’ربڑ بین‘‘ کے ذریعے حاجی کے بازو پر کہنی سے اوپر اس جگہ باندھ دی جائے جہاں وضو کا پانی نہیں جاتا، یہ چپ ہر قسم کے حادثے کے بعد وزارت حج، پاکستانی سفارت خانے اور حج گروپ کی مدد بھی کرے گی اور حاجیوں کے لواحقین بھی اس پریشانی سے بچ جائیں گے جس میں یہ اس وقت مبتلا ہیں، منیٰ کے حادثے کو پانچ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک68 لوگ مسنگ ہیں۔

یہ بے چارے زخمی حالت میں کسی اسپتال میں پڑے ہوں گے یا پھر کسی مردہ خانے میں۔ زخمی عربی نہیں جانتے ہوں گے اور شہید کے جسم پر احرام کے سوا کوئی نشانی نہیں ہو گی چنانچہ پہچان کیسے ہو گی اور آخر میں ان مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست ہے جو ایک بار حج کر چکے ہیں، مسلمان پر صرف ایک بار حج فرض ہے، آپ یہ فرض ادا کر چکے ہیں، آپ اب دوسرے مسلمان بھائیوں کے فرض میں رکاوٹ نہ بنیں، اللہ رکاوٹ بننے اور تکلیف دینے والوں کو پسند نہیں کرتا، ایسا نہ ہو، آپ کے پاؤں، آپ کی کہنی سے حج کے دوران دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچ جائے اور آپ زندگی بھر کی نیکیوں سے محروم ہو جائیں۔

The post مٹی کی تاثیر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22369 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>