Quantcast
Channel: رائے - ایکسپریس اردو
Viewing all 22412 articles
Browse latest View live

ٹوٹ جاتی ہیں رگیں خود سے لڑتے لڑتے

$
0
0

سال2003 میں ایرانی فوج کے ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں 276 فوجی اور عملے کے ارکان جاں بحق ہو گئے تھے، جب کہ جولائی سال 2009 میں شمالی ایران میں ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ایک سو ساٹھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ جنوری2011 میں ایران کے مسافر بردار ہوائی جہاز کے حادثے میں کم از کم 70 افراد جاں بحق ہوئے۔

2008 میں ایران کو جب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اسرائیل ایرانی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے تو ایرانی جنگی طیارے عام پروازوں کو نشانہ بنا دیا کرتے تھے اس ڈر کے ساتھ کہ اسرائیل عام طیاروں کے بھیس میں ان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اب فضائی حادثات کی عالمی خبروں کے بجائے اجمالی طور پر صرف بھارت کا ذکر کرتے ہیں کہ بھارت میں روزانہ اوسطاََ 1235 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، جس میں روزانہ کے حساب سے 388 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

اب فضا و زمین کے بعد زیر زمین حادثات کی مثال بیان کرتا ہوں، تاریخ کا بدترین زلزلہ چین میں 23 جنوری1556 کو آیا تھا جس میں 8 لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔12 جنوری 2010 ہیٹی میں کم از کم 3  لاکھ افراد ہلاک اور3 لاکھ زخمی ہوئے۔ انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پر آنے والے زلزلے میں2 لاکھ 27 ہزار 898 افراد ہلاک جب کہ17لاکھ بے گھر ہوئے۔

اس کے علاوہ بھی زلزلوں میں ہلاک ہونے والوں کی لاتعداد تفصیلات ہیں۔ سیلاب کے نتیجے میں جاں بحق اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ سب قدرتی حادثات ہیں جس میں انسان چاہے کتنی بھی کوشش کر لے لیکن قدرت کے متعین کردہ اصولوں و قوانین سے بالاتر کوئی بھی نہیں ہو سکتا اور ان حادثات کا ذمے دار کسی کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اب انسانوں کے ہاتھوں انسانوں اور انسانیت کی تباہی کی مختصراََ روداد بھی پڑھ لیجیے۔ جنگ عظیم اول کا آغاز آسٹریا کے شہزادے فرڈیننڈ کے ہلاک کیے جانے کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران ایک کروڑ فوجی ہلاک جب کہ دو کروڑ دس لاکھ افراد زخمی اور معذور ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ میں 61 ممالک نے میں حصہ لیا، چالیس ممالک کی سرزمین متاثر ہوئی اور پانچ کروڑ کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے، سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا جس میں دو کروڑ روسی مارے گئے۔ اسی جنگ میں ایٹم بم کا استعمال بھی ہوا۔ ایران عراق کی جنگ میں ہزار ہا افراد جاں بحق ہوئے اور مالی نقصانات کا تخمینہ اربوں ڈالر ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیق کے مطابق عراقی جنگ میں 2005سے اب تک نو لاکھ سے زائد افراد عراقی شہری تشدد، بم پھٹنے، فائرنگ اور بمباری سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 2003 میں عراقی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک لاکھ دو ہزار چھ سو عراقی جاں بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں تشدد کے واقعات میں دو لاکھ، چالیس ہزار شامی باشندے جن میں بارہ ہزار بچے بھی شامل ہیں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان، افغانستان میں دہشتگردی کے ہاتھوں 2001 سے گزشتہ سال تک ایک لاکھ 49 ہزار افراد جاں بحق اور ایک لاکھ 62 ہزار زخمی ہوئے۔

پاکستان میں دہشت گردی سے پچاس ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے، جوہری جنگ کی روک تھام کی خاطر انجمن کے مطابق امریکا کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں کل 13 لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، عراق میں جاں بحق افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔

تھوڑی توجہ عراق کے انصرام و انتظام کی بھی لے لی جائے جہاں ایرانی مداخلت اور عراق کے وزیر اعظم نور المالکی کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا اور مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کی نتیجے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کے نا قابل بیان واقعات اور معصوم لوگوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یمن میں حوثی قبائل کے ساتھ ملکر جابرانہ قبضہ کیا اور فرقہ واریت کو انتہا پر پہنچایا گیا۔

آج عراق، شام، یمن، الجزائر میں فرقوں کے نام پر جس طرح معصوم لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اس نے تو داعش کے مظالم کو بھی شرما دیا ہے۔ اس عالم میں جب کہ اسلامی ممالک میں فرقہ واریت کے نام اور حکومتوں پر فرقوں کے نام پر قبضے کی جنگ جاری ہے۔ اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں پرورش پانے والی داعش کی جانب سے اسلامی شعائر کی پامالی شدت کے ساتھ جاری ہے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ ان فرقہ وارنہ پالیسیوں اور مخصوص عناصر کی آشیر باد کے سبب لاکھوں شامی باشندے اپنا ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے اور اسمگلروں کے ہاتھوں چڑھ کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مغربی ممالک اسلامو فوبیا کے باوجود مسلمانوں کو پناہ دے رہے ہیں جب کہ مسلمانوں کی پناہ کے حوالے سے بھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلامی ممالک ان شامی مسلمانوں کو پناہ کیوں نہیں دیتے۔ پاکستان جیسے غریب ممالک ان کے پناہ کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے ہیں اس کے باوجود عالمی قوانین اور انسانی ہمدردی کے تحت لاکھوں انسانوں کو چھوٹے ممالک نے پناہ دے رکھی ہے۔ حالانکہ ان پر جنگ مسلط کرنے والے اولاََ مغربی ممالک ہی ہیں جس نے کبھی کیمیاوی ہتھیاروں کی آڑ لی تو کبھی اسامہ کا بہانہ بنایا تو کبھی کیا جواز تراشا ۔

سانحہ منیٰ پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے قبل بھی جم غفیر کی وجہ سے بد نظمی کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور مختلف حالات میں سعودی حکومت کی جانب سے بہتر سے بہتر کوشش کی جاتی رہی ہے اور اس کی گواہی سعودی سے حج کرنے والے حجاج ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ سانحہ منی کو بھی لے کر جہاں نام نہاد دانشور، لکھاری اپنے خیالات کا پرچار غیر ملکی ایجنڈے کے تحت اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ انھیں حجاز مقدس کو متنازعہ بنانا ہے اور انھیں یہ ایجنڈا مخصوص عناصر نے دیا ہوتا ہے۔

اسی طرح سانحہ منی پر سیاست کرنے والوں نے یہ سوچے بغیر کہ اس سے اسلام کے خلاف کس قدر جگ ہنسائی ہو گی، عظیم سانحے پر سیاست شروع کر دی ہے۔ کالم کی ابتدا میں صرف چند واقعات لکھنے کا واحد مقصد یہی تھا کہ ہمیں اس بات کو ضرور سوچنا چاہیے کہ قدرتی آفات ایک سانحہ ہوتا ہے، اگر وہ آسمانی، زمینی یا زیر زمیں، اس سے انسان کسی طور نہیں بچ سکتا لیکن مستقبل میں احتیاط ضرور کر سکتا ہے۔

سانحہ منی میں صرف پاکستانیوں کے لاپتہ ہونے کے خبریں میڈیا میں گردش کرتی رہیں۔ یقینی طور پر اس لاپراوہی، سستی اور کوتاہی کے ذمے دار وزارت مذہبی امور و حج مشن ہے، لیکن اس پر بھی ہمیں سیاست سے اس لیے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا معاملہ نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب کے اپنے قوانین ہیں اور اس کے مطابق وہ عمل کرتی ہے۔ غیر ملکی پروپیگنڈوں میں سعودی شہزادے کے لیے راستے بلاک کرنے سمیت حج کے بہانے رقم کے لالچ سمیت متعدد بیانات منظر عام پر صرف اس لیے لائے گئے تا کہ امت مسلمہ میں انتشار پیدا ہو سکے اور فرقہ واریت کو فروغ دیا جا سکے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حجاج کرام کسی سیاسی جلسے میں نہیں بلکہ اللہ تعالی کے حضور اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔ اللہ تعالی کے گھر میں اپنے گناہوں کی بخشش اور امت مسلمہ کے اتحاد اور امت میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کے خلاف یکجہتی کا عظیم مظاہرہ حج ہوتا ہے جسے دیکھ کر منکرین اسلام کے دل دہل جاتے ہیں اسی لیے اسلام کے خلاف ان کی سازشیں مزید تیز ہو جاتی ہیں۔ نام نہاد دانشور بن کر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے۔

The post ٹوٹ جاتی ہیں رگیں خود سے لڑتے لڑتے appeared first on ایکسپریس اردو.


سیاسی اور فوجی مقبولیت

$
0
0

سابق صدر پرویز مشرف کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مدت میں ابھی ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہے اور مختلف جائزوں کے مطابق جنرل راحیل شریف کو اس وقت تقریباً 83 فی صد عوام کی حمایت اور مقبولیت حاصل ہے جب کہ وزیر اعظم نواز شریف سمیت ملک کے کسی بھی سیاست دان کو جنرل راحیل جیسی مقبولیت حاصل نہیں اور وہ ملک میں مقبولیت کی معراج پر ہیں۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دبئی میں کہا ہے کہ جنرل راحیل کی مقبولیت سے کسی کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے اور ابھی ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات جس سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کی ہے۔

ان کی ملک میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خورشید شاہ نے یہ بھی کہا کہ کسی جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی باتوں سے جنرل کی عزت متاثر ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سابق پی پی حکومت اور سابق صدر آصف زرداری نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر کے ان کی عزت خراب کی تھی، جنرل کیانی کے لیے تاثر تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے حامی تھے اور وہ پی پی پی اور سابق صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں تھے اور ان سے حکومت کو کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔

اس لیے پی پی حکومت نے انھیں بے ضرر سمجھ کر مزید تین سال آرمی چیف برقرار رکھا تھا تو اس وقت خورشید شاہ نے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا تھا اور وفاقی وزیر ہوتے ہوئے کابینہ صدر یا وزیر اعظم کو مشورہ نہیں دیا تھا کہ پی پی حکومت جنرل کیانی کی عزت برقرار رہنے دے تا کہ جنرل کی عزت متاثر ہونے سے بچانے کے لیے انھیں توسیع نہ دے مگر پی پی دور میں ان کی توسیع کی گئی تھی اور جنرل کیانی اپنی کوئی مقبولیت بھی ملک میں قائم نہ کر سکے تھے۔

سید خورشید شاہ نے اب کہا ہے کہ نہیں لگتا کہ جنرل راحیل اپنی مدت کی تکمیل کے بعد مزید توسیع کے خواہش مند ہوں گے۔ خورشید شاہ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ جنرل راحیل فوجی ہیں اور کوئی فوجی جنرل اپنی مدت ملازمت میں توسیع کا برملا کبھی اظہار نہیں کرتا اور حکومت کسی جنرل کو توسیع دینا اپنے مفاد میں سمجھے تو اسے توسیع دے دیتی ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید بھی جنرل راحیل کی توسیع پر اظہار خیال کرتے آ رہے ہیں اور وہ فوجی صدر کے دور میں وزیر بھی رہے ہیں اور فوج کے کھلم کھلا حامی بھی ہیں مگر انھوں نے بھی خورشید شاہ جیسی باتیں نہیں کہیں، خورشید شاہ کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ جنرل راحیل کی مدت میں توسیع کے حامی نہیں ہیں اور پیپلز پارٹی دکھاوے کے لیے پاک فوج کی حامی ہے مگر وہ کسی ایسے جنرل کی حامی نہیں ہے جسے وہ اپنے لیے نقصان دہ سمجھتی ہو۔ پی پی کو جنرل کیانی جیسا جنرل ہی سوٹ کرتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں سابق وزیر اعظم گیلانی سمجھتے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں جب کہ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی تو خواہش ہو گی کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر نہ ہوں اور دونوں میں دوریاں رہیں تا کہ پی پی رہنما اپنی بدعنوانیوں پر حکومتی کارروائی سے ہی محفوظ رہیں۔ پی پی کے بعض رہنما کس خوف کے تحت ملک سے باہر ہیں اور کہتے ہیں کہ کرپشن کے الزام میں پی پی رہنماؤں کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے وہ وزیر اعظم نواز شریف کی رضامندی سے ہی ہو رہی ہے جو پی پی سے انتقام لے رہے ہیں۔

ملک میں عام تاثر یہ ہے کہسندھ میں کرپشن کے الزامات میں جو کارروائی ہو رہی ہے اسے روکنا نہ حکومت کے بس میں ہے اور نہ حکومت اس کی حامی ہے، حکومت کو یہ بھی خوف ہے کہ کسی بھی وقت (ن) لیگ کے کرپٹ رہنماؤں کو بھی گرفت میںلیا جاسکتا ہے۔ عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ اب (ن) لیگ کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو۔

نواز شریف ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے تھے اور اب وہ اپنی سیاست کو اپنے محسن جنرل ضیا الحق کی پالیسی سے دور لے جا چکے ہیں حالانکہ ان کی سیاست بھی جنرلوں ہی کی مرہون منت تھی۔

شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں جنرل راحیل شریف اپنی مدت میں توسیع چاہیں گے اور نہ وزیر اعظم نواز شریف انھیں مزید تین سال آرمی چیف توسیع دیں گے۔ شیخ رشید کی اس بات کی واقعی اہمیت ہے کیوں کہ ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے سمیت رینجرز جو کارروائیاں کر رہے ہیں ان کے پیچھے حکومت نہیں بلکہ کوئی اور ہے اور ایکسپریس کے اینکر آفتاب اقبال کی تحریر کے مطابق آرمی چیف کے ہاتھ کا ڈنڈا مضبوط بھی ہے اور سب سے نمایاں بھی اور ہر جگہ یہی ڈنڈا نظر بھی آتا ہے مگر ہر جگہ نام حکومت کا لیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم اگرچہ جنرلوں ہی کی دریافت ہیں مگر وزیر اعظم بننے کے بعد گزشتہ دونوں حکومتوں میں ان کی فوج سے کم ہی بنی ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے جنرل ضیا الدین بٹ کو پسند کر کے ان کے تقرر کی کوشش کی تھی جو جنرل پرویز مشرف نے ناکام بنا کر انھیں معزول بھی کر دیا تھا۔

جنرل راحیل کو دھرنے والوں نے اکسانے کی کوشش تو بہت کی تھی مگر وہ سیاست سے دور ہی رہے اور آج وہ نہ صرف عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہیں بلکہ حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ وہ اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔

The post سیاسی اور فوجی مقبولیت appeared first on ایکسپریس اردو.

درست رہنمائی روشن مستقبل کی کنجی

$
0
0

اگر آج کسی بھی طالب علم سے پوچھا جائے کہ وہ تعلیم کیوں حاصل کر رہا ہے؟ تو جواب ہوگا بہتر مستقبل اور شاندارکیریئر کے لیے۔

اگلا سوال اگر یہ ہو کہ وہ کس شعبے میں اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے تو شاید ہر طالب علم صحیح طور پر اس کا جواب نہ دے پائے۔

ہمارے ہاں اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن سرکاری یا نجی طور پر ایسا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں صحیح اور بروقت رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ اس کمی کے باعث نوجوانوں کی کثیر تعداد فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لیے ملازمت اورکیریئر کی تلاش میں گھومتی رہتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی طور پر ایسے سینٹر اور ادارے قائم کیے جائیں جہاں سے خواہش مند نوجوانوں کو کیریئر بلڈنگ کے سلسلے میں مکمل اور مسلسل رہنمائی مل سکے۔ بیرونی ممالک میں تو اس مقصد کے لیے باقاعدہ کیریئرگائیڈنس کلینکس قائم ہیں۔ کیریئر ڈاکٹر ملاقاتی، حضرات، ضرورت مند طلبا اور والدین کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ امیدواروں کا ذہنی رجحان اور صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی بنیاد پر ان کی Career Planning کی جاتی ہے Career Guidance کے فقدان کے باعث ہمارے یہاں بعض شعبوں میں افرادی قوت اورکھپت میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔

بے روزگاری اور غیر محفوظ مستقبل کا احساس نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دے رہا ہے۔ صحیح وقت پر صحیح Career Planning اور کیریئر Counselling نہ ہونے کے باعث کیفیت یہ ہے کہ جس شعبے میں پہلے ہی بے روزگار ہیں اسی شعبے میں مزید نوجوان ڈگریاں لے کر آرہے ہیں ابھی تازہ مثال اس کی میں یہ دوں پچھلے اتوار ہمارا فارم ہاؤس پر پکنک منانے کا پروگرام بنا مگر میری بھانجی نہیں آئی پوچھا کہ بھئی! کیوں نہیں آئی تو پتہ چلا اتوار والے دن اس کو چھ آپریشن کرنے ہیں ابھی نئی نئی سرجن بنی ہے تو سینئر ڈاکٹر اتوار کو چھٹی کرتے ہیں، تو اس نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھٹی کو چھوڑ کر آپریشن کرنا مناسب سمجھا اگر اس معزز پیشے کا یہ حال ہے تو باقی شعبوں کے کیا حالات ہوں گے جب کہ بعض شعبوں میں امیدوار کم اور اسامیاں زیادہ ہیں اگر نوجوانوں میں کر گزرنے کا جذبہ ہو تو راستے بہت ہیں۔

آپ ٹی وی کی مثال لے لیجیے کئی نامور ڈاکٹر ہوسٹنگ کر رہے ہیں یا ڈراموں میں آرہے ہیں۔ پچھلے دنوں خاندان کے کچھ بچوں سے ملاقات ہوئی پوچھا بھئی! انٹر کے بعد آپ کیا Subject لوگے تو کچھ نے کہا Media Science ۔ میں نے پوچھا تو اس میں ابھی آپ مجھ سے فیض احمد فیض کی غزل کے معنی اور تشریح کیوں پوچھ رہی تھیں اگر یہ Subject میڈیا سے متعلق ہے تو بچوں کو اس کے آگے کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں معلوم کہ آگے ان کا فیوچر کیا ہوگا۔

ہمارا سرمایہ نوجوان ہیں لیکن آج ان کی صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی صحیح سمت میں ان کی رہنمائی کی جا رہی ہے بس ایک اندھی اور روایتی بھیڑ چال ہے جو جاری ہے۔ جس کی کوئی بھی منزل نہیں سوائے وقت اور سرمایہ کے زیاں کے کالجوں میں انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے پہلے سال میں داخلے کے وقت بلکہ یونیورسٹی میں بھی داخلوں کے وقت فارم بھرنے سے لے کر مضامین کے انتخاب تک کئی طلبا پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

صحیح اور بروقت رہنمائی نہ ملنے کے باعث جلد بازی میں بعض طلبا غلط مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

ہمارے نوجوان بغیر پلاننگ اور رہنمائی کے دوسروں کی تقلید میں کسی بھی شعبے کا انتخاب کرلیتے ہیں۔

The post درست رہنمائی روشن مستقبل کی کنجی appeared first on ایکسپریس اردو.

گرم ہوتا ہوا سیاسی ماحول

$
0
0

جوں جوں لاہور اور لودھراں کے ضمنی اور سندھ و پنجاب میں بلدیاتی الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں ملک کے اندر سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے۔ اُدھر گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے نے جس میں لاہور کے حلقہ 122 اور 125 میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن قدرے مضبوط دکھائی گئی ہے نے خان صاحب کو کچھ زیادہ ہی مضطرب اور بے چین کر دیا ہے۔

اُنہیں خطرہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اِن میں سے کسی بھی حلقے میں اُن کی پارٹی کو شکست ہوتی ہے تو گزشتہ سال سے اُٹھائے جانے والے اُن کے دھاندلی والے موقف کو بڑا دھچکا پہنچے گا اور جو اُن کے لیے عوام کے سامنے خجالت اور شرمندگی کا باعث بنے گا۔ لہذا وہ اِس معرکے کو ہر حال اور ہر قیمت میں جیتنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے وہ بذاتِ خود انتخابی مہم چلانے پر بضد اور مصر ہیں۔ حلقہ 122 میں اُن کی جانب سے جس اُمیدوار کو نامزد کیا گیا ہے اُس کی دیانتداری اور ایمانداری پر خود اُن کی پارٹی کے اندر بھی مختلف آراء موجود ہیں۔

علیم خان کو پارٹی کے سب سے معزز رکن جسٹس وجیہہ الدین صاحب نے بھی تحریکِ انصاف کی داخلی انتخابات میں مبینہ بدعنوانیوں کے سبب کارروائی کرنے کا حکم صادر کیا تھا، جسے خان صاحب نے یکسر مسترد اور نظر انداز کر کے اُنہیں حلقہ 122 میں نامزد کر کے اُن پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اِن حالات میں جسٹس وجیہہ الدین جیسے باکردار اور اُصول پسند شخص کے لیے اپنے فیصلے سے واپس ہونا یقینا ناممکن اور مشکل معلوم ہوتا ہے۔

وہ اگر جوں کا توں پارٹی میں رہتے ہوئے خان صاحب کی مرضی و منشاء کے آگے سرینڈر کر جاتے ہیں تو یہ اُن کی اعلیٰ و ارفع شخصیت کی توہین کے مترادف ہو گا یا پھر وہ اعلانِ بغاوت بلند کر کے خود کو مخدوم جاوید ہاشمی کی صف میں کھڑا کر کے باغی کہلوانا پسند کرتے ہیں یہ اُن کی اگلی حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔ فی الحال وہ حلقہ 122 کے انتخابی معرکے کے نتائج تک خاموشی ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیے ہوئے ہیں۔ اگر علیم خان جیت جاتے ہیں تو وہ شاید اِسی خاموشی پر اکتفا کرتے ہوئے خان صاحب سے سمجھوتہ کر لیں گے بصورتِ دیگر اِس رہنما کی شکست پر وہ اپنے اُصولی موقف پرمزید کھل کر رائے دینے کی پوزیشن میں ہونگے۔

خان صاحب الیکشن کمیشن کے اِس نوٹیفیکشن پر جس میں ممبرانِ پارلیمنٹ پر انتخابی مہم چلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اِس لیے برہم ہیں کیونکہ یہ اُن کی ساری سیاسی مہم جوئی کی زندگی اور موت کا معاملہ بن گیا ہے۔ الیکشن2013ء میں ہونے والی انتظامی خامیوں اور غلطیوں کو جسے وہ دھاندلی کا نام دیتے ہیں صرف اِسی حلقے میں جیت کر ہی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ درست اور صحیح کہتے تھے ورنہ ہار جانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے موقف کو مزید تقویت ملے گی اور خان صاحب کے لیے اگلے دو تین برس سیاست کرنا مشکل ہو جائے گا۔

وہ جس جارحانہ اور محاذ آرائی کی سیاست پر عمل پیرا ہیں اِس حلقے میں جیت کر ہی وہ اِسے مزید آگے بڑھا پائیں گے اور شاید اِ سی مقصد کے حصول کے لیے وہ الیکشن کمیشن پر دو طرف سے حملہ آور ہونے جا رہے ہیں۔ ایک اُس نوٹیفکیشن کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر قیمت پر علیم خان کے لیے انتخابی مہم چلا کر اور دوسرا الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفیٰ کے لیے 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک زبر دست جلسہ کر کے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنا ہے۔

اگلے لائحہ عمل کو ابھی تک اِس لیے افشاء نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ خود سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا استعفیٰ کا مطالبہ اُسی طرح غیر آئینی اور غیرقانونی ہے جس طرح وہ دھرنے والے دنوں میں وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کو اپنا جمہوری حق سمجھ بیٹھے تھے۔

اِن ممبران کے استعفے کے لیے ہمارے دستور میں مکمل طریقہ کار درج ہے جس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہی کہلائے گا۔ اب وہ 4 اکتوبر کو لاہور میں اپنی سیاسی پوزیشن دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کر پائیں گے کہ اُنہیں اِن ممبران کے استعفے کا بہانہ کر کے ضمنی انتخابات سمیت صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن سے فرار اختیار کرنا ہے یا پھر اِن ہی ممبران کے رہتے ہوئے عوامی عدالت میں جا کر اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہے۔

اُدھر پاکستان پیپلز پارٹی بھی شکست و ریخت کے مراحل سے خود کو باہر نکالنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اُسے ایک طرف عوام کی جانب سے انتہائی بے رخی اور عدم پذیرائی کا سامنا ہے اور دوسری جانب اپنے سابقہ کرتوتوں کی وجہ سے احتسابی گرفت کا ڈر اور خوف۔ ابھی تو اُس کی چند چھوٹے چھوٹے کارندوں پر ضربِ عضب کی ہلکی سی چوٹ پڑی ہے اور انتہائی بد حواسی اور پریشانی کے عالم میں اُس کے رہنما کبھی ملک کے معتبر اداروں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور کبھی حکومت ِ وقت کو دھمکا اور للکار رہے ہوتے ہیں۔

اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کا ووٹر اُن سے مایوس اور نااُمید ہو کر تحریکِ انصاف کی طرف متوجہ ہو چکا ہے لیکن وہ پھر بھی مسلم لیگ (ن) ہی کو اپنا حریف اور دشمن قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف صف آرا ہونے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے تو اُن کی اولین کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اگلے بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کیا جائے کیونکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نوشتہ دیوار بن کر اُنہیں اِس معرکے میں اُترنے سے ہراساں کیے ہوئے ہے اور وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا اِن انتخابات میں حصہ لیا جائے یا پھر تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیٹ ایڈجسمنٹ کی جائے۔

تنِ تنہا تو وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کی پوزیشن میں قطعا ًنہیں ہیں۔ اِس مقصد کے لیے گرچہ وہ تحریک ِ انصاف سے ڈیل کرنے کا سوچ بچار کر رہی ہے مگر خان صاحب کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ ایک ایسی پارٹی سے انتخابی سمجھوتہ اور مک مکا کر لیں جسے وہ کرپشن اور مالی بد عنوانی اور نون لیگ کے ساتھ مک مکا کا الزام دیکر اپنی ساری سیاست چمکاتے رہے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) تمام کٹھن اور مشکل حالات کے باوجود اپنے اقتدار کے تقریباً ڈھائی سال گزار لینے کے بعد بھی اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دراصل خان صاحب کی سیاست جس میں وہ صرف میاں صاحب ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت مستحکم کرنے کا سبب بنتی رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اب صرف دو ہی سیاسی قوتیں موجود ہیں ایک مسلم لیگ (ن) اور ایک اُس کی مخالف قوت۔ اب اِس مخالف گروہ میں کون کون شامل ہوتا ہے اور اُن کا ووٹ بینک کیا کیا گل کھلاتا ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا لیکن فی الحال زمینی حقائق اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اپنے ایک کمزور اُمیدوار کی وجہ سے حلقہ 122 میں شدید مشکلات سے دوچار ہے اور خان صاحب اِس صورتِ حال سے انتہائی مضطرب اور پریشان ہیں۔

اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ با نفسِ نفیس خود میدان میں اتر کر ساری انتخابی مہم اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا عندیہ دیتے ہیں تو کبھی مسلم لیگ کی پری پول دھاندلی کا شور مچا کر قبل از وقت ہی اپنی شکست کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی ماحول میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی گرما گرمی خطرناک حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ خطرناک حالات شاید پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف دونوں ہی کو سوٹ کرتے ہیں۔

تحریک انصاف تو شروع ہی سے اِس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح ایسے حالا ت پیدا کر دیے جائیں کہ میاں صاحب حکومت کرنے کے قابل نہ رہیں اور وہ اپنی ڈیڑھ سالہ مہم جوئی میں سرخرو ہو جائے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں اپنی بڑھتی ہوئی ناقدری اور حالیہ احتسابی عمل سے بچنے کے لیے کسی بھی ایسے ابتر حالات کی یقینا خواہش مند ہو گی ۔

جس میں افراتفری اور عدم استحکام کی وجہ سے مجوزہ بلدیاتی الیکشن ممکن نہ ہو پائیں اور وہ موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت سے باہر نکل کر خود کو مظلوم اور بے گناہ ثابت کرتی پھرے۔ دونوں فریق اپنی اِن خواہشات کے سبب ایک دوسرے سے ذہنی طور پر مکمل ہم آہنگ اور ہم سخن ہیں لیکن بس دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ آنے والے حالات اُن کی خواہشوں کو قالب میں ڈھالنے کا سبب بنتے ہیں بھی یا نہیں یا پھر کسی غیبی سمت سے آنیوالی کوئی شٹ اپ کال اُن کے سارے ارمانوں کا خون کر کے رکھ دے گی۔

The post گرم ہوتا ہوا سیاسی ماحول appeared first on ایکسپریس اردو.

ایم کیو ایم کا پالیسی بیان

$
0
0

92کے آپریشن میں ہزاروں کارکن بیرون ملک گئے۔ بھارت جانے والوں نے اجازت لی نہ پارٹی پالیسی کا حصہ ہے۔ بھارت جانے والوں کی تربیت وغیرہ کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔اسٹیبلشمنٹ تلخیاں بھلا کر زخموں پر مرہم رکھے۔ایم کیوایم کل بھی ایک محب وطن جماعت تھی اور آج بھی ہے۔

ایم کیو ایم نے ایک پالیسی بیان میں اپنے کارکنوں پر ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کے الزامات کی وضاحت کی ہے۔اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم نے گزشتہ مہینے اپنے اِن کارکنوں کے بارے میں تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جن پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے الزامات ہیں۔کراچی کی صورتحال 90کی دہائی سے خراب ہے۔

ایم کیو ایم اردو بولنے والی برادری کی نمایندہ جماعت کی حیثیت سے ابھری مگر اس کی مقبولیت کے ساتھ شہرکے حالات خراب ہوتے گئے،کراچی اوراندرون سندھ کے باسیوں کو مختلف نوعیت کے لسانی فسادات کو برداشت کرنا پڑا۔کراچی اور حیدرآباد میں پہلے ایم کیو ایم کے مخالف سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، پھر ایم کیو ایم کے کارکن نشانہ بننے لگے۔

90 میں سندھ میں آپریشن ہوا۔اندرون سندھ ڈاکو اس آپریشن کا نشانہ بنے، کراچی میں ایم کیوایم کے دفاتر پر چھاپے پڑے ۔ایم کیوایم حقیقی قائم ہوئی اور شہر میں لڑائی ہوئی۔اس لڑائی میں کتنے لوگ مارے گئے، یہ اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں مگر حقیقی کے مرکزی رہنماؤں میں آفاق احمد اور عامر خان ہی زندہ بچے مگر شہر میں حقیقی بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوا۔ بے نظیر بھٹو حکومت کے دوسرے دور میں میجر جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابرکی نگرانی میں آپریشن ہوا۔ اس آپریشن کے اثرات نوازشریف کے دوسرے دور تک جاری رہے ۔

جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم کیوایم اور پرویز مشرف میں مفاہمت ہوگئی۔ شہر میں امن رہا مگر سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ مکمل طور پر نہ رک سکا۔حتیٰ کہ ایم کیو ایم اور اس کی ذیلی تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) کے کئی رہنما اِس دوران نامعلوم افرادکی گولیوں کا نشانہ بنے۔

92آپریشن میں متحرک کردار ادا کرنے والے پولیس افسر بھی قتل ہوئے۔ پولیس قتل کی کسی واردات کا سراغ نہ لگا سکی۔ آصف زرداری نے ایوان صدرکا اقتدار سنبھالا تو ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں سے مفاہمت کی۔ ایم کیو ایم صوبائی اور مرکزی حکومت میں شامل ہو گئی مگر کراچی کے حالات بہتر نہیں ہوئے۔ نادرن بائی پاس، نیشنل ہائی وے اور سپرہائی وے کے درمیانی علاقے کی زمینوں پر قبضے کی جنگ کراچی میں داخل ہوگئی۔ اس کی شکل پھر لسانی ہوگئی اور سیاسی کارکنوں اور مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اس دوران طالبان نے کراچی کے مضافاتی علاقوں پر قبضہ کیا اور لیاری مکمل طور پر گینگ وارکی زد میں آگیا۔ لیاری گینگ وار میں ملوث گروپوں نے شہر میں بھتہ وصول کرنے ،اغواء برائے تاوان اورکرائے کے قاتل فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے لیا۔ یوں تو کراچی کے سارے علاقے امن و امان سے متاثر ہوئے مگر ضلع وسطی اور ضلع شرقی میں صورتحال زیادہ خراب رہی۔خاص طور پرعزیزآباد، دستگیر، ناظم آباد، لیاقت آباد میں کئی مذہبی، سیاسی کارکن،اساتذہ و مذہبی رہنما  اس خوف ناک دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

پولیس، رینجرز، سول وعسکری خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے اپنی بریفنگ میں یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ ضلع وسطی اور ضلع شرقی ایم کیوایم کے مضبوط گڑھ ہیں۔ خاص طور پر ان علاقوں میں ایم کیو ایم کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے پھر ان علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کیوں ہو رہی ہے آخر کارگرفتار ہونے والے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بھارت میں ٹریننگ کے اعتراضات کی خبریں شایع ہونے لگیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما ٹاک شوز میں ان الزامات کی تردید کرنے اور ان بیانات کو پولیس کے تھرڈ ڈگری تشدد کا نتیجہ قرار دیتے تھے مگر اس سال کے شروع میں ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے ٹارگٹ کلرزکی گرفتاریوں کے الزامات اور کارکنوں کی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل اورقائد تحریک کی تقاریر پرپابندی کے بعد نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ شاید ایم کیو ایم میں خود یہ احساس پیدا ہوا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کارکنوں سے چھٹکارا ضروری ہے۔

کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن کی بناء پر ایم کیو ایم کی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اب بھی سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔اس نے مشکل صورتحال میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھاہے۔گزشتہ دنوں عزیزآباد کا ضمنی الیکشن اس کی واضح مثال ہے ۔

بلدیاتی انتخابات ایم کیوایم کا امتحان ہے۔ ایم کیو ایم کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین نے احتجاجاً استعفے دے دیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مصالحتی مشن کا مرحلہ مکمل کرچکے ہیں۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان فوری طور پر مذاکرات شروع ہونے چاہئیں۔ ان مذاکرات میں صوبائی حکومت کو بھی شریک کرنا چاہیے۔

ان مذاکرات میں ایم کیو ایم کے اراکین کی اسمبلیوں میں واپسی کے ساتھ اس لائحہ عمل پر اتفاق ہونا چاہیے جس کے باعث ایم کیو ایم اپنی صفوں میں شامل مجرموں کی تطہیرکرے اور اس عمل میں حکومت ایم کیو ایم کی مددکرے ۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کو ایک کھلے ڈھانچے کے ساتھ جدید سیاسی اور جمہوری جماعت میں تبدیل ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم قومی دھارے میں شامل ہوکر نہ صرف سیاسی نظام کو مستحکم کرے بلکہ کراچی کے شہریوں کی امنگوں کو پورا کرے۔ یہی راستہ کراچی، سندھ اورملک کے مفاد میں ہے۔

The post ایم کیو ایم کا پالیسی بیان appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت!!!

$
0
0

ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 12لاکھ طوائفیں موجود ہیں جن کا ذریعہ آمدن آج بھی ناچ گانا ہے، اس رپورٹ پر مجھے خاصا تعجب ہوا کہ ان 12لاکھ طوائفوں کا 2، 4کروڑ لوگوں سے تو واسطہ رہتا ہو گا، ان کے بارے میں تو کوئی رپورٹ نہیں ہے نہ انھیں کسی نے رپورٹ کیا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی ’’نام‘‘ دیا گیا ہے۔ یعنی ناچنے گانے والیوں کو ہم طوائفیں، کوٹھے والیاں اور نا جانے کیا کیا کہتے اور کس کس نام سے پکارتے ہیں مگر جو ان کے جسموں سے کھیلتے اور انھیں اپنی آنکھوں کی تحسین بناتے ہیں انھیں کوئی نام نہیں دیتے۔

اسی طرح ہم اسٹیج ڈرامے میں پرفارم کرنے والوں کو میراثی کہہ کر ان کے فن کی تضحیک ضرور کرتے ہیں مگر انھیں دیکھنے والوں اور ان کے آگے پیسہ لٹانے والوں کو کوئی نام نہیں دیتے۔ ہم کوڑا اُٹھانے والوں کو بڑے انہماک سے ’’چُوڑا‘‘ کہہ دیتے ہیں لیکن گند ڈالنے والوں کو کوئی نام نہیں ملتا، یہ معاشرتی تفریق ہی محرومیوں کو جنم دیتی ہے۔

اس معاشرتی نظام کو بگاڑنے کا کوئی ایک ذمے دار نہیں بلکہ ہم سب ذمے دار ہیں۔آپ عیدین پر ہی دیکھ لیں ۔ دنیا بھر میں مذہبی و قومی تہواروں پر حکومتیں پرکشش پیکیجز کا اعلان کرتی ہیں اور کاروباری حضرات بھی عوام کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں لیکن پاکستان میں رمضان ہو یا عیدین یہاں ہر چیز کے بھاؤ دوگنے ہوجاتے ہیں۔ حکومت اور تاجر سبھی ’’چھریاں‘‘ تیز کرنے لگ جاتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنی چیز مہنگی ہوگی اتنے ہی خریدار بھی زیادہ ہوں گے۔ ہمارے ملک کے ہر طبقہ کے ’’بیوپاری‘‘ بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر عوام کو قیمتیں ’’محسوس‘‘ نہیں ہو رہیں تو ہمیں کیا، جتنا منافع مل جائے اتنا ہی کم ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آپ کسی چیز میں دلچسپی کا اظہار ہی نہ کریں تو وہ چیز خود بخود سستی ہو جائے گی مگر ایسا کرے کون؟ حالیہ عیدِ قرباں میں 30 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ تھے اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ اپنے گلی محلے سے آپ کا گزر ہوا ہو گا تو یقیناََ آپ کو ہر دوسرے گھر میں ’’قربانی‘‘ بندھی ہوئی نظر آئی ہوگی۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ’’استطاعت‘‘ رکھتے ہیں۔

میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ حالانکہ میں کون ہوتا ہوں قصائیوں و نیم قصائیوں کی دہاڑیاں ’’برباد‘‘ کرنے والا۔ میں ورطہ حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں اس لیے ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ ہے، اس نے انھی پیسوں میں سے گھر کا کچن چلانا ہے، بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرنی ہے۔

دودھ والے کو پیسے دینے ہیں، اپنا روز مرہ کی سواری کا خرچ چلانا ہے وغیرہ اور جب کوئی تہوار آتا ہے جیسے عیدین وغیرہ تو پورے خاندان کے لیے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں یعنی 50ہزار روپے کا اضافی خرچہ اسے برداشت کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے 30سے 50 ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے کم تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی جج، کوئی بیوروکریٹ یا کوئی مجسٹریٹ جس کی تنخواہ لاکھ روپے بھی ہوگی وہ بتائے اس تنخواہ اور مہنگائی میں کیسے قربانی کا جانور خرید کر سنت ابراہیمیؑ ادا کر سکتا ہے؟

ہمارے حالات تو بقول شاعر یہ ہیں کہ
وہ جن کا شجرِ انا آندھیوں میں بھی نہ گرا
بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ پل پڑے

میں یہ نہیں کہتا کہ ہر قربانی ہی ’’مشکوک‘‘ ہے (خاکم بدہن) لیکن اتنی سوچ ضرور آتی ہے کہ کرپشن یا جھوٹ سے کمایا ہوا پیسا، قربانی کیا کسی بھی نیک و حلال کام میں نہیں لگتا بلکہ اُلٹا گناہ ہوتا ہے۔

یا یوں سمجھ لیجیے کہ کرپشن کے پیسے سے کی گئی نیکی رائیگاں جاتی ہے اور قربانی بھی ایک نیکی و اسلامی فریضہ ہے اگر اس میں کرپشن کا پیسہ لگا تو ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہو سکتا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہر قربانی کرپشن کے پیسے سے ہی ہو رہی ہے لیکن ہمیں ’’خود احتسابی‘‘ کا عمل شروع کرنا چاہیے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح سے کرپشن میں ملوث ہیں خواہ وہ معمولی قسم کی ہو، اور ان 80فیصد لوگوں میں ہمارا نام بھی کہیں نہ کہیں ہوگا، کیوں کہ ہم بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں اور یہ سسٹم حکومت، عوام، کرپشن اور اداروں کے سرکل سے چل رہا ہے۔

میں نے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کی بات کی، یقین جانیے یہ اس لیے مہنگے ہیں کہ ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے، کسی سے کپڑا خریدو تو وہ مہنگے داموں دے گا، سلائی کرانے جاؤ وہ منہ مانگے دام وصول کرے گا، یعنی کوئی ایک فرد، ادارہ یا گروہ سسٹم میں نہیں ہے اگر یہی چیزیں سسٹم میں موجود ہوں تو نہ تو کبھی کوئی قربانی کے جانور مہنگے داموں خرید سکتا ہے اور نہ کبھی کوئی قصائی اضافی پیسے وصول کر سکتا ہے، نہ کوئی رمضان میں گھی، کھجوریں، بیسن وغیرہ مہنگا کر سکتا ہے اور نہ بچوں کے گارمنٹس کوئی مہنگا کر سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کے سرکل کو توڑا جائے، اور یہ سرکل اسی وقت ٹوٹتا ہے جب آپ اس سرکل سے نکل جائیں، اسی طرح آپ کو دیکھ کر کوئی دوسرا بھی نکل جائے۔ لیکن اگر آپ خود ہی پہل نہیں کریں گے اور اس کرپٹ سسٹم میں اپنے آپ کو دھکیل دیں گے اور اس کا حصہ بن جائیں گے تو آپ بھی وہی لکیر کے فقیر ہوں گے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا ہو لیکن اگلی کلاس میں داخلے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو تو ایسے میں باپ نے سفارش ڈھونڈی یا رشوت دی اور داخلہ کرا دیا۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا ہے جس سے شاندار عمارت وجود میں آنی ہے۔ اس کی بنیاد میں ایک اینٹ سفارش اور رشوت کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔

تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی پیسے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر وہ شخص حکومت کے ایک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔ اب ایسے شخص کا کیا وژن ہو گا جو خود کو ’’کرپشن کے سرکل‘‘ سے ہی نہ نکال سکا۔ اب تو وہ نئے آنے والوں سے بھی پیسوں کی ڈیمانڈ کرے گا،،، یعنی اس سسٹم نے ایک قابل شخص کو رشوت خور اور نہ جانے کیا کیا بنا دیا۔۔۔!!!

ہماری ’’قربانی‘‘ میں رزق حلال کا عنصر ہونا چاہیے، صرف جانور خرید کر دکھاؤے کے لیے اس کی ’’بلی‘‘ چڑھا دینے سے اللہ راضی نہیں ہوتا، اور نہ ضمیر ہی مطمئن ہوتا ہے۔

ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے۔ 30ہزار روپے والا بھی اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ ٹیکسوں کی ادائیگی کی صورت میں حکومت کو ریٹرن کرتا ہے اور ایک بڑا کاروباری شخص جو حقیقتاََ ٹیکس چور ہے وہ بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے، چند ہزار افراد کے بجائے اس ملک میں سبھی ٹیکس چور ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

ہمارے حکمران کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی کرپشن کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں احتساب کاکوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی یہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود ہے، اس کرپشن زدہ معاشرے میں اگر کوئی حقیقی معنوں میں پریشان ہے تو وہ ایمان دار آدمی ہے، ایسے میں دل چاہتا ہے کہ سسٹم میں تبدیلی ضروری ہے اور یہ سسٹم صرف خود احتسابی کے عمل اور ’’کرپشن کے سرکل‘‘ کو توڑنے ہی سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقات نے خود احتسابی کی مشق کرنی ہے لہذا لگتا یہی ہے کہ اس شفق پر نئے ستارے ہی جگمگائیں گے، بقول مرزا غالب

زمانہ عہد میں ہے اس کے محوآرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

The post اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت!!! appeared first on ایکسپریس اردو.

کھال بچی سو لاکھوں پائے

$
0
0

ایک زمانہ جانتا ہے، اور تو اور پاکستانی عوام بھی جانتے ہیں جو نہ ’’جاننے اور پہچانے‘‘ کے معاملے میں عالمی ریکارڈ ہولڈر ہیں کہ عادتیں اور علتیں کبھی نہیں چھوٹتیں، خاص طور پر بری عادتیں اور بری علتیں تو قبر تک لاحق رہتی ہیں حالانکہ رحمان بابا نے ہر دو بہنوں یعنی علت اور عادت میں اچھا خاصا اختلاف بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علت ممکن ہے چھوٹ بھی جائے لیکن عادت؟

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

علت کو عام طور پر اردو میں ’’لت‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہمیشہ ’’بری‘‘ کی دم لگائی جاتی ہے حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’لت اور لیڈر‘‘ کبھی اچھے ہو ہی نہیں سکتے۔ ’’بری لت‘‘ لکھنا اور بولنا ایسا ہے جیسے کوئی کوہ قاف کا پہاڑ، بحر ہند کا سمندر یا آگ کا دریا کہے۔

احمد بخاری مرحوم ہمارے ایک صحافی ساتھی تھے، وہ ہمیشہ ہمیں ٹوکتے رہتے اگر ہم کسی کو ذلیل آدمی یا شریف آدمی کہتے ان کا کہنا تھا کہ جو ذلیل ہے وہ آدمی نہیں اور جو آدمی ہے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا جس طرح آدمی کے ساتھ شریف لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی، بات کہاں پھسل گئی، دراصل ہم اپنی ایک علت یا عادت کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں جو ہمیں بری طرح چمٹی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی دیوار پر اپلوں کو دیکھ کر عام آدمی تو صرف نظرے خوش گزرے ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں جب کہ ہم وہیں کھڑے ہو کر یہ سوچنا شروع کر دیتے کہ گائے نے اتنا اوپر جا کر یہ کام کیسے کیا ہو گا اور کیا یہ دیوار پہلے زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور گائے گزرنے کے بعد کھڑی کی گئی ہو گی۔

اب دیکھیں نا عید سے پہلے ہر جگہ کھالوں کے تذکرے اور کھالوں کے صحیح ’’حق داروں‘‘ کا جو میلہ لگا ہوا تھا وہ اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی بارونق تھا کیوں کہ اس سلسلے میں جو رجسٹرڈ اور سند یافتہ فقرے مروج ہیں وہ تو تھے ہی لیکن اب کے کچھ نئے نئے فقرے بھی مژدہ ہائے جان فزا سنا رہے تھے مثلاً یہ بات ہمیں پہلی مرتبہ پتہ چلی کہ قربانی اور کھال الگ الگ ہوتے ہیں، قربانی اللہ کے لیے ہوتی ہے اور کھال ۔۔۔۔۔ آگے جو بھی نام لگا لیجیے ہم دینی عالم نہیں ہیں ورنہ یہ مسئلہ ضرور اٹھاتے کہ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں لیکن یہاں قربانی میں باقاعدہ شراکت کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔

یعنی قربانی کا واحد مالک صرف اللہ نہیں بلکہ اس کے دوسرے شیئر ہولڈر بھی ہیں، خیر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کھالوں کے اس معاملے میں کسی اور کی کھال پر کوئی پسو یا کان پر کوئی جوں نہیں رینگی لیکن برا ہو ہماری علت کا کہ ’’اچانک‘‘ تحقیق کی کھجلی ہونے لگی، رگ تحقیق تو اس وقت پھڑکنے لگی اور دل مچلنے لگا کہ تھوڑا سا ’’کھال‘‘ اور کھالوں کے حق داروں کے بارے میں کچھ ہو جائے لیکن بڑی مشکل سے خود کو عید تک روکے رکھا ؎

بس کہ روکا میں نے غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا

اور اس لیے روکا کہ ہمیں اپنی پتلی کھال بڑی عزیز ہے جو دنیا کے سب سے بڑے قصائی حکومت پاکستان اور اس کے چیلے چانٹوں یعنی سرکاری محکموں کے بار بار اتارنے چھیلنے اور کھنیچنے کی وجہ سے پہلے ہی کاغذی ہو رہی تھی، خدا نخواستہ اگر ہم کھالوں اور کھالوں کے حق داروں کے بارے میں کچھ لکھتے تو خطرہ تھا کہ اپنی پتلی کھال خطرے میں پڑ جائے۔

جس ماہر قصائی اور اس کے چیلے چانٹوں کے بارے میں ہم نے بتایا ہے وہ نہ صرف ستر سالہ تجربہ رکھتے ہیں بلکہ ’’عالمی کھال کھنیچ‘‘ آئی ایم ایف کا پاکستان میں نائب بھی ہے اور کھال اتارنے کھنیچنے اور چھیلنے میں اس درجہ کمال کی مہارت رکھتا ہے کہ صاحب حال کو بھی بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس کی کھال کب کی کھنیچی جا چکی ہے اور وہ ؎

چیک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری ’’کھال‘‘ کو اب حاجت رفو کیا ہے

ہمیں یاد ہے ہمارے پڑوس میں ایک بکرا قصائی تھا۔ وہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد الٹا لٹکا دیتا تھا اور اس کی ٹانگ میں سوراخ کر کے ایک نلکی کے ذریعے ہوا بھرا دیتا تھا جس کی وجہ سے اکثر کھال خودبخود محض ہاتھ سے کھنیچ کر الگ ہونے لگتی تھی۔ ایسا ہی ایک اور شخص گلی میں ابلی ہوئی ’’اروی‘‘ بیچتا تھا۔ وہ اروی کو اتنا ابال لیتا تھا کہ ایک طرف سے دبانے پر اروی (کچالو) خود ہی اپنی کھال چھوڑ کر پلیٹ میں گر جاتی تھی ، یہ کچالو یا اروی والا طریقہ آج کل بجلی، گیس اور پٹرولیم کے محکمے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ لوگ خود ہی دوڑ دوڑ کر ’’بل‘‘ کی صورت میں اپنی کھال اتار کر پہنچا دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عید سے پہلے ہم نے کھال کے موضوع کو نہیں چھیڑا کہ

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو اپنی ’’کھال‘‘ عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

لیکن اب کھالوں کے شکاری دکان اپنی بڑھا چکے ہیں بلکہ ’’تقسیم‘‘ کے ضروری کام میں حصہ بقدر جثہ میں مصروف ہوں گے، اس لیے کھال کھچوائی کھال اترائی اور کھال بٹوری پر کچھ لکھنے میں کچھ زیادہ خطرہ نہیں ہے، شاید آپ اس ’’خطرے‘‘ کو ہمارا وہم سمجھیں لیکن ایک مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ ہم نے بلا سوچے سمجھے کھالوں کی اس شکار گاہ میں قدم رکھ دیا تھا اور پھر ہماری کھال کے لالے پڑ گئے، بڑی مشکل سے اپنی کھال بچانے میں کامیاب ہوئے تھے ورنہ پھر روتے پھرتے کہ

کھال کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

ہوا یوں کہ ہم نے ایک عید پر ایک نئی کھال پارٹی کی آپسی بات چیت جنہوں نے کسی نامعلوم مقام پر مجاہدین کے لیے کھالوں کا چکر چلایا، پھر ایک نے نئی موٹر سائیکل خریدی، دوسرا فریج گھر لے آیا اور تیسرے نے شادی کے اخراجات نکالے، یہ دیکھ کر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی کھال کھچائی کے اس دھندے میں شامل ہو جائیں لیکن صرف ارادے سے کیا ہوتا ہے سب سے پہلا مسئلہ تو ’’کھالوں کے حق داروں‘‘ کا پیش آیا۔ ادھر ادھر دیکھا تو تقریباً ہر ویکنسی پُر نظر آئی، مدرسوں، مسجدوں، یتیم خانوں، بیواؤں، مفت شفا خانوں وغیرہ ہر شاخ پر کوئی نہ کوئی بیٹھا ہوا نظر آیا، بڑی سوچ بچار کے بعد کینسر کے علاج میں ایک روشنی کی کرن دکھائی دی لیکن جب ہاتھ ڈالا تو کئی بچھوؤں نے کاٹ ڈالا، اب کیا کیا جائے ایسے کون سے حق دار بچے ہوئے ہیں پھر اچانک ذہن میں ایک جھمکا ہوا، دنیا جہاں کی فلاح و بہبود کے لیے درجنوں تنظیمیں بنی ہوئی ہیں لیکن بے چارے بوڑھوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، نام کا سوچا تو سب سے بہتر نام متاثرین اولاد ۔۔۔۔ یا اولاد زدگان کا نظر آیا، ایسی تنظیم بنانا ہمارے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کیوں کہ دو چار بوڑھے اولاد زدگان تو پہلے ہی سے ہمارے پاس تھے جو ہماری ہی طرح متاثرین تھے، ہم جانتے تھے کہ بوڑھوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اگر آپ کے ذہن میں بیٹے اور بہوؤں کا اتیارچار آ رہا ہے تو اسے جھٹک دیجیے کیوں کہ ایسا کون سا بوڑھا ہے جو اولاد گزیدہ نہ ہو اور اس کا کوئی علاج بھی نہیں لیکن اس کے بعد بوڑھوں کا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ بے چاروں کو کوئی سننے والا نہیں ملتا، روٹی، کپڑا اور مکان اگر نہیں ہے تو پھر بھی گزارہ ہو جاتا ہے کہ بے چارے بوڑھے کھائیں گے کیا پئیں گے کیا اور دھوئیں گے کیا ۔۔۔ لیکن ان کی کوئی سننے والا نہ ہو یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، بے چارے غبارے کی طرح پھولے ہوئے رہتے ہیں لیکن مجال ہے جو کوئی ان کی بات پر کان دھرے، جہاں کہیں کسی جمگھٹے میں کسی بوڑھے کا نزول ہوا لوگ یوں تتر بتر ہو جاتے ہیں جیسے چیل کو دیکھ کر چوزے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں، چنانچہ طے کیا کہ اگر کھالوں سے کچھ میسر آئے تو دو چار آدمی ایسے رکھ لیں گے جو ان کی باتیں سننے کی نوکری کر لیں۔ خیال اچھا تھا ہر بوڑھا کانوں کے لیے ترسا ہوا تھا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری تنظیم اچھی خاصی پرہجوم ہو گئی، ہمیں امید تھی کہ کان نہ سہی کھال تو ہمیں دے ہی دیں گے لیکن جب کھالوں کے لیے نکلے تو

جو میں نکلا، گڈی لے کے
رستے میں ۔۔۔ سڑک پر
ایک موڑ آیا میں وہی دل چھوڑ آیا

پہلی ہی کھال پر دیکھا تو کچھ لوگ آپس میں مشت و گریبان ہو رہے ہیں وہ تو اچھا ہوا کہ ہجوم بہت تھا ورنہ فریقین کے ہاتھوں چھریاں اور کلہاڑیاں بھی لگ چکی تھیں، تنازعہ اس کھال پر تھا جو ابھی اتری بھی نہیں تھی لیکن ہم فریقین کا نام نہیں بتائیں گے کیوں کہ قربانی کی کھالیں نہ سہی کم از کم اپنی کھال کو بچانا تو ہمارا فرض ہے۔

The post کھال بچی سو لاکھوں پائے appeared first on ایکسپریس اردو.

آؤ ! دونوں ساتھ چلیں

$
0
0

کوئی دن نہیں جاتا جب اخبار، ٹیلی وژن اور ریڈیو سے وہ خبریں اور تبصرے نشر نہ ہوتے ہوں جن میں پاکستان اور ہندوستان نے ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات عائد نہ کیے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دونوں ملکوں کے لوگ جو تمام گلے شکوے کے باوجود صرف 68 برس پہلے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، پشاور سے کولکتہ تک سفر کرتے تھے، جن کے درمیان ادب اور ادیب مشترک تھے، اب عزیزوں اوردوستوں سے ملنا تو درکنار مختلف زیارات کے لیے ترستے ہیں۔ رسائل اور جرائد کا ،اعلیٰ ادبی کتابوں کا ایک دوسرے تک پہنچنا لگ بھگ ناممکن ہوچکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کو دعائیں دیں کہ اس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ موسیقی سن سکتے ہیں اور خواہش کرسکتے ہیں کہ کاش کوئی دن ایسا بھی ہو جب اپنی دشمنیاں بھول کر ہم انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے مل سکیں۔

چند دنوں پہلے جب لندن کے سائنس میوزیم سے سائنس دانوں اور صحافیوں کے ایک منتخب اجتماع میں دنیا کی پہلی خلانورد خاتون ویلنٹینا تر شکووانے پریس کانفرنس سے خطاب کیا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس سے کہیں زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ آج بھی روس اور مغرب کے درمیان جس قدر تناؤ اور سیاسی اختلافات ہیں، ان سب کے باوجود گزشتہ 5 برسوں کے دوران لندن کے سائنس میوزیم کے ڈائریکٹر ایان بلاخ فورڈ اور دوسروں نے تمام سیاسی پیچیدگیوں کے علاوہ روس اور برطانیہ کی نوکر شاہی کی اڑچنوں کے باوجود اس سائنسی نمائش کو ممکن بنایا جو لندن میں 18 ستمبر 2015 کو شروع ہوئی اور 13 مارچ 2016 ، تک جاری رہے گی۔ اس نمائش میں خلائی تسخیر کے حوالے سے روسیوں کی کامیابیوں کی تشہیرکی گئی ہے۔

لندن سائنس میوزیم کے ڈائریکٹر ایان کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی میں سوویت یونین اور روسیوں نے بنی نوع انسان کو تسخیرکائنات کی جن کامیابیوں سے ہمکنارکیا، وہ اس وقت ناقابل تصور تھیں۔ امریکا اور مغرب کے دوسرے تمام ملک خلائی تسخیرکی دوڑ میں بہت پیچھے تھے۔روسیوں نے دنیا میں خلائی دورکا آغاز کیا اوران کی کامیابیاں ساری دنیا کے انسانوں کی فتوحات تھیں۔ ایان کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش رہی کہ ہم اہل مغرب، روسیوں کو خلا میں ان کی بے مثال زقند پر داد دیں اور اس کا اعتراف کریں کہ بعد میں امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں نے اس شعبے میں جتنی کامیابیاں حاصل کیں اس کی ابتداء روسیوں نے کی تھی۔

یہ ایان کا ایک بہت مشکل خواب تھا جس کی تعبیر اسے 5 برس کی جدوجہد کے بعد ملی ہے۔ ایان نے خلانوردی کے دورکا آغاز جو سوویت یونین نے کیا تھا۔ اس کے لیے روس سے صرف خلائی جہاز اور دوسرا سازوسامان جس کی تعداد 150 ہے، ہی اکٹھا، نہیںکیا بلکہ 1963 میں دنیا کی ہیروئن ویلنٹیناکو لندن آنے اور اس شاندار سائنسی نمائش کا افتتاح کرنے کی دعوت دی۔

آج ہمارے لوگوں کی اکثریت ویلنٹینا سے واقف نہیں لیکن جب وہ خلا میں 48 گھنٹے گزار کر زمین پر واپس آئی تو وہ خلا میں جانے والی پہلی عورت تھی جس نے اپنی محنت ، ہمت اور حوصلے سے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ ایک فیکٹری میں کام کرنے والی کارکن جسے اپنے فارغ اوقات میں اس کاشوق تھا کہ وہ اسکائی ڈائیونگ کرے۔ سوویت یونین میں جب خلامیں بھیجی جانے والی 6 عورتوں کا انتخاب ہوا تو وہ ان میں سے ایک تھی۔

اپنی کامیاب پرواز کے بعد وہ جب واپس آئی تو ماسکو کے ریڈاسکوائر میں سوویت رہنما نکیتا خروشچیف کے برابرکھڑی تھی اور خروشچیف نے اپنے مخصوص انداز میں اتراتے ہوئے کہا تھا کہ بورژوازی ہمیشہ عورتوں کو صنف نازک قرار دیتی ہے ۔ مغرب والو! دیکھ لو کہ میرے برابر میں ایک سوویت عورت کھڑی ہے جس نے امریکی خلا نوردوں بتادیا ہے کہ وہ کون ہے۔‘‘

63 کے وہ دن اب خواب وخیال ہوچکے لیکن 17 ستمبر کو لندن سائنس میوزیم میں صحافیوں کے سامنے بیٹھی ہوئی 78 سالہ ویلنٹینا کی آنکھوں میں خواب ابھی زندہ ہیں۔ اپنی 70 ویں سالگرہ پر اس نے روسی صدر پیوٹن سے اس خواہش کا اظہارکیا تھا کہ وہ مریخ کے سفر پر جانا چاہتی ہے خواہ اس سے زندہ واپس نہ آسکے اور 8 برس بعد لندن میں پریس کانفرنس کے اختتام پر اس نے اس نمائش کے کرتا دھرتا ایان سے کہا،آؤ ایان ہم دونوں خلا میں ساتھ چلیں۔ یہ روسی اور برطانوی اشتراک و تعاون کا سب سے بڑا ثبوت ہوگا۔ یہ وہ جملہ تھا جس پر زوردار تالیاں بجیں۔ ان کے سامنے 1963 کی وہ عالمی ہیروئن تھی کہ جب اس کے خلائی جہاز نے زمین کی کشش کو پارکیا تو اس نے چیخ کر کہا تھا کہ اے آسمان! میرے سامنے سرجھکا ! میں تیری طرف آرہی ہوں۔

صحافی ویلنٹینا کا یہ بیان سانس روکے سنتے رہے کہ جب خلاسے واپسی کا سفر شروع ہونے کا وقت آیا تو اچانک اس پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ انجینئروں سے بھیانک غلطی ہوئی ہے اور انھوں نے واپسی کا سفر نیچے کی طرف پروگرام کرنے کے بجائے اوپر کی طرف جانے کے لیے پروگرام کردیا ہے۔ اس نے ایمرجنسی میں یہ اطلاع زمینی اسٹیشن کودی۔ انھوں نے اپنی اس فاشی غلطی کو دورکرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ویلنٹینا خلائے بسیط میں تنہا تھی اور جانتی تھی کہ اگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں تو وہ کبھی زمین پر نہیں پہنچ سکے گی۔ آخرکار اس کا واپسی کا سفر شروع ہوا جو 27 ہزارکلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے تھا۔ اس کا کیپسول اس رفتار کی وجہ سے جھلس کر کوئلے کی طرح سیاہ ہوگیا اور آخری 4 میل اس نے کیپسول سے نکل کر پیرا شوٹ کے ذریعے طے کیے۔ اس کاکہنا ہے کہ اگر مجھے اسکائی ڈائیونگ سے جنون کی حد تک عشق نہ ہوتا تو میرے لیے زندہ بچ جانا ممکن نہ تھا۔اس کے کیپسول میں اس کا سامان رکھنے والوں سے ایک اور غلطی بھی ہوئی تھی ۔ وہ اس کا ٹوتھ برش رکھنا بھول گئے تھے۔

یہ جانتے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے پوچھا کہ پھر آپ نے تین دن کس طرح گزارے۔ پہلے تو اس نے بات ٹالنی چاہی لیکن پھر اس نے کہا یہ کوئی ایسی بڑی مشکل تو نہ تھی ۔ میرے پاس ٹوتھ پیسٹ تھا، پانی تھا اور میری انگلیاں تھیں۔ اس جواب پر بھی ایک قہقہہ پڑا۔

بی بی سی کی خصوصی نمایندہ پلاب گھوش سے ایک خصوصی ملاقات میں اس نے کہا کہ عورتوں نے دنیا کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ خلا میں میرا جانا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ دنیا کی ترقی میں عورتوں کی حصے داری جاری ہے اور رہے گی۔دنیا کی پہلی خلانورد خاتون ویلنٹینا ترشکووا کو اس کی 70 ویں سالگرہ پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنی رہائش گا پر بلایا اور اس کے اعزاز میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا جس میں اسے مبارکباد دینے کے لیے منتخب روسی سائنسدان‘ سیاستدان اور ادیب موجود تھے۔ ان لوگوں کے سامنے ویلنٹینا نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں مریخ کے سفر پر جانا چاہتی ہوں خواہ اس سے واپس نہ آسکوں۔

لندن کے سائنس میوزیم میں ہونے والی یہ نمائش جو برطانوی سائنس دانوں ، دانشوروں اور عوام کی جانب سے خلا نوردی میں روسیوں کی بے مثال پہل کاری کو ایک شاندارخراج تحسین ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے سے جھگڑتے رہیں، جنگجوئی کے پرستار ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دیتے رہیں لیکن اگر دانشور ، ادیب ، صحافی اور عوام ایک دوسرے کی کامیابیوں پر ناز کریں تو آخر کار جنگ جوئی پسپا ہوتی ہے اور لندن سائنس میوزیم میں ہونے والی نمائشیں اپنی جگہ بنالیتی ہیں۔

جی چاہتا ہے کبھی ایسا بھی ہو کہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ صرف نصرت فتح علی، مہیش بھٹ اور راحت فتح علی کا ہی آناجانا نہ ہو، ہمارے ادیب ، دانشور، مصور اور سائنس دان بھی یکجا ہوکر اپنی فتوحات کا جشن مناسکیں۔ ہم جودنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، ہم کیوں نہیں اپنی صلاحیتوں کو یکجا کرکے دنیا تسخیر کرسکتے ہیں؟ویلنٹینا تر شکووا کی ’’آؤ ہم دونوں ساتھ چلیں ‘‘ کی خواہش پر عمل کرکے ہم اپنے خطے کو بہت خوبصورت بناسکتے ہیں۔

The post آؤ ! دونوں ساتھ چلیں appeared first on ایکسپریس اردو.


دوسرا لاہور

$
0
0

عیدالفطر کے برعکس عیدالاضحی مسلسل تین دن جاری رہتی ہے۔ ان تین دنوں میں کاروبار حیات قریب قریب بند رہتا ہے۔ صرف قربانی اور قصائی سرگرم رہتے ہیں۔ یہ قربانی بکرے سے لے کر اونٹ تک کی ہوتی ہے اور اس دفعہ ٹی وی کیمرے کی برکت سے میں نے پہلی دفعہ ایک اونٹ کو نہتے انسانوں کے قابو میں دیکھا ہے اس حد تک کہ ان انسانوں نے اونٹ کو رسیوں میں جکڑ کر اس کی جان لے لی ہے۔

وہ تڑپا بہت اپنا پورا زور لگا دیا مگر وہ اپنی جان نہ بچا سکا اور نہ جانے کتنے گھروں کے چولہوں پر اسے بھون دیا گیا۔ کچھ ایسا ہی حال ان منہ زور اور بھاری بھرکم بیلوں کا ہوا۔ مضبوط اور اونچے لمبے اونٹوں اور بیلوں کی قربانی کا مضمون واحد ہے۔ جہاں تک چھوٹے چھوٹے بکروں کا تعلق ہے وہ طاقت ور انسانوں کے ہاتھوں میں ہی حلال ہو گئے۔

ان کو قابو میں لانے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہ پڑی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کے وقت قدرت نے ان کی جگہ دنبہ رکھ دیا تھا۔ اب دنبے زیادہ دستیاب نہیں ہیں لیکن ان کی جگہ بکروں کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں آپ سب کا دیکھا بھالا ہے لیکن مجھے کالم تو لکھنا ہی ہے، میں کیا کروں روٹی روزگار کا مسئلہ ہے۔

عیدالاضحیٰ میں قربانی کا ذکر ایک عام سی بات ہے۔ اصل میں آپ کا یہ کالم نگار اس لاہور شہر کی افسردگی کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو کبھی پورے برصغیر میں سیاسی اور تہذیبی زندگی کی اپنی مثال آپ تھا لیکن اب یہ نہ سیاسی رہا ہے نہ اس میں کلچرل اور تہذیبی شگفتگی موجود ہے۔

ایک پرانے لاہوری نے ایک بار مجھے بتایا کہ آزادی سے پہلے ہمارے انگریز حکمران کرسمس کا تہوار کلکتہ میں مناتے تھے یا لاہور میں۔ کلکتہ سے ان کی ہندوستان پر قبضہ کی سامراجی یادیں وابستہ تھیں اور لاہور میں لاہور تھا اپنی مثال آپ ایک شہر، اس شہر میں پردیسی حکمرانوں کے لیے بہت کچھ تھا اور وہ اس شہر میں اپنی تعیناتی پر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔

ایک انگریز اپنے ہندوستانی دوست سے کہنے لگا کہ جس انگریز نے رات کو رضائی اوڑھ لی اور کمبل کو پرے کر دیا وہ عمر بھر رضائی میں ہی سردیاں گزارتا رہا اور جس کسی نے صبح ناشتے میں پراٹھا کھا لیا ہو وہ کہیں بھی گیا پراٹھے کی لذت کو یاد کرتا رہا۔ یہ رضائی اور پراٹھا لاہور کا تحفہ ہے لیکن ان کو پسند کرنے والے چلے گئے اور اپنے پیچھے مصنوعی لاہوری چھوڑ گئے جو اب پرانے لاہور میں رہنا پسند نہیں کرتے اور نہ جانے لاہور شہر کے آس پاس دور قریب میں نئی آبادیاں بسالی ہیں جن کا ڈاک پتہ تو لاہور کا ہے مگر جن کے گھر بار لاہور کے نہیں ہیں اور نہ ہی اب ان پرانے گھروں میں کوئی رہنا پسند کرتا ہے۔

یہاں کاروبار کیا جاتا ہے اور سرشام یہاں کے تاجر اپنے نئے مصنوعی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر کیونکہ پرانے لاہور میں اب تک موٹر سائیکل ہی کامیاب سواری ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ لاہور کو اس کے لاہوری بھی چھوڑ رہے ہیں اور سیاستدان وقت پڑنے پر یہاں کسی کھلی جگہ پر کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور اپنی پارٹی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں بلکہ اب تو اونچے درجے کے لیڈر اندرون شہر کے گلی کوچوں میں بہت کم ہی آتے جاتے ہیں اور اپنے کارکنوں سے کام چلاتے ہیں۔ کھلے لاہور کے کسی پر فضا بنگلے میں رہنے والا لیڈر یہاں کا رخ نہیں کرتا۔ کہاں ایک کھلی فضا میں خوبصورت درختوں میں گھرا ہوا خوبصورت گھر اور کہاں اندرون لاہور کی متعفن گلیاں۔

شروع شروع میں پرانے لاہور میں آبادی سے متصل چند سیمنا گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ بھاٹی دروازے میں بھاٹی چوک میں تین چار سینما تھے۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشن کے قریب بھی ایک مشہور سینما تھا لیکن اب یہ سب پرانے سینما رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں بلکہ ہو چکے ہیں اور باہر کی آبادیوں میں نئے سینما گھر بن رہے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہی ہے ہر قدیم کی جگہ جدید لے رہا ہے اور جدید زمانے کے لوگ انھی جدید سینماؤں سے دل بہلاتے ہیں اور خوش ہیں۔

لاہور کی تاریخ میں پہلی بار ٹیلی وژن ایک نئے انداز میں داخل ہوا ہے وہ سینما بھی ہے اور تھیٹر بھی اس میں خبریں بھی ہیں اور ڈرامے بھی ہیں، موسیقی بھی ہے اور معروف فنکاروں سے ملاقاتیں بھی جن کے ساتھ ٹی وی کے کارکن طویل انٹرویو کرتے ہیں اور سامعین کی پیاس بجھاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی نے دنیا ہی بدل دی ہے۔ ٹی وی کی موجودگی میں اب پرانے لاہور والے اپنا ذوق بدل نہ لیں تو کیا کریں۔ درست کہ ٹی وی باہر کے کھلے لاہور کی طرح اندرون لاہور بھی گرجتا برستا ہے لیکن ٹی وی کی اسکرین جس دنیا کا نظارہ کراتی ہے وہ اندرون شہر نہیں ہے۔ شہر سے باہر نکلیں تو وہ دکھائی دیتی ہے۔

اب تو لاہور کا کلاسکی بازار انار کلی بھی بدل چکا ہے۔ یہاں کے خریدار اب وہ نہیں جو زیادہ اندرون شہر کے گلی کوچوں سے نکل کر اس قریبی بازار میں آتے تھے اور اس کا ایک پھیرا ہی ہر شوق پورا کر دیتا تھا۔ آج کے انار کلی بازار میں یوں تو سب کچھ ہے مگر ماضی والی بات نہیں ہے۔ یہ انارکلی ایک بدلا ہوا بازار ہے جس کا سامان فروخت اور جس کے گاہک اب رفتہ رفتہ بدلتے جا رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کبھی اس کا نام ہی باقی رہ جائے، اس میں سے انار کلی نکل کر ادھر ادھر ہو جائے کسی دوسری دیوار میں۔

The post دوسرا لاہور appeared first on ایکسپریس اردو.

پیرس… ایک قبر اور ایک تصویر

$
0
0

پیرس میں دوسرے روز صبح ناشتے پر غالب اقبال (سفیرِ پاکستان) نے پوچھا’’آج کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘میں نے کہا ’’آج کے ٹارگٹ ہیںیک قبر اور ایک تصویر‘‘!۔ فرانس میں بہت لوگوں سے مختلف موقعوں پر پوچھاکہ ’’پچھلے پانچ سو سالوں میں فرانس کاسب سے بڑا آدمی کون تھا؟‘‘ سب کا ایک ہی جواب تھا،نپولین۔ نپولین بونا پارٹ ایک اولولعزم جرنیل اور ایک عظیم مدّبرتھا، جدید فرانس پر جس کے انمٹ نقوش ہیں، اسی لیے اس کے نام سے یہاں ہر شخص واقف ہے ۔

نپولین سولہ سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوکر ملٹری اکیڈیمی چلا گیا وہاں سے تربیّت مکمل کی تو انقلاب کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔وہ فوج سے چھٹی لے کر انقلابی تحریک میں شامل ہوگیا۔ انقلابِ فرانس کے دوران وہ بڑی تیزی سے ترقّی کے زینے طے کرتا ہوا بریگیڈیئر جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ 1795میںبادشاہ کے حامیوں کی ایک بڑی بغاوت ناکام بنانے کے صلے میں اسے میجر جنرل بنادیا گیا۔ 1799میںنپولین نے فرانس کی انقلابی حکومت کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

اقتدار ملتے ہی وہ پورے یورپ پر قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگا۔ وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک، انتہائی بلند حوصلہ، صاحبِ تدبیر اور جنگی منصوبہ ساز تھا۔ اس نے آسٹریا سمیت کئی سلطنتوں کو شکست دیکر اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ 1804 میں کیتھیڈرل آف نوٹرے ڈم کی پُر شِکوہ عمارت (جسکی بلندی کو میں ایک روزپہلے چھُو آیا تھا) میں ایک شاندار تقریب میں شہنشاہ کا ٹائیٹل اختیار کیا۔ جنگِ اہرام میں مصر کے مملوک حکمرانوں کو شکست دی مگربرطانیہ کی برتر بحریہ کے ہاتھوں شکست کھائی مگر ہمت نہیں ہاری اور اسی سال اس نے آسٹریا اور روس کو شکست دیکر رومن ایمپائر کا خاتمہ کردیا۔ نپولین کے ہاں مایوسی اور ناامیدی کا داخلہ بند تھا وہ کبھی شکست سے بددل نہیں ہوا۔

1812 کی گرمیوں میں اس نے چھ لاکھ فوج کے ساتھ روس پر حملہ کردیا۔ ماسکو کے محاصرے کے دوران ہی حملہ آور فوج کو سرد موسم نے آلیا، موسم کی شدّت کے ہاتھوں اسے ناکام لوٹنا پڑا اور چھ لاکھ میں سے صرف ایک لاکھ فوج کو زندہ بجا کر واپس لاسکا۔ 1813میں وہ پھر یورپ سے پنجہ آزما ہوا اور مارچ 1814میں ایک بہت بڑی جنگ (Battle of Nations)میں روس، جرمنی، آسٹریا اور سویڈن کی اتحادی افواج نے فرانسیسی فوج کو شکست دیکر پیرس پر قبضہ کرلیا۔

نپولین کو اٹلی کے ایک جزیرے البا میں نظر بند کردیا گیا مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ وہاں سے فرار ہوگیا اور ایک ہزار جانثاروں کے ہمراہ فرانس پہنچا جہاں اس کا ہیرو اور نجات دھندہ کے طور پر استقبال ہوا، اس کی عدم موجودگی میں بننے والا بادشاہ لوئیسxviiiبھاگ گیا اور شہنشاہیت کا تاج پھر نپولین کے سر پر سج گیا۔ جون 1815 میں اس نے بیلجئم کو روند ڈالابرطانوی اور جرمن افواج نے مزاحمت کی جرمن افواج نے شکست کھائی، مگر برسلز کے قریب واٹرلو کے مقام پر برطانیہ اور جرمنی کی مشترکہ افواج نے نپولین کو شکست دے دی۔۔۔ اور اسے گرفتار کرکے ایک دوردراز جزیرے ہیلینا میں نظر بند کردیا گیااور وہیں وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔

1840 میں اس کی میّت پیرس لائی گئی اورانولید میں اس کی قبر تعمیر کی گئی راقم سیکڑوںسیاّحوں کے ساتھ جس کے سامنے کھڑا تھا اور اس کی بے مثال ہمّت اور پہاڑوں کی طرح مضبوط ارادے کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔یہ صحیح ہے کہ نپولین کی پسندیدہ جگہ میدانِ جنگ تھی مگروہ ایک مدّبر اور ریفارمر بھی تھا۔اس نے قانونی اور تعلیمی شعبوں میں بڑی دوررس اصلاحات کیں اس کی قانونی اصلاحات Napoleonic Codeکے نام سے ابھی تک نافذ ہیں۔ انولید سے باہر نکلے تو چمکتی دھوپ میں چہکتی ہوئی ایک گوری کہنے لگی “I hope you must be enjoying the lovely sunny day” میں نے کہا “ناں بی بی ناں! گرمی توں چَلّے تے اَسی ایتھے آئے ساں ” (نہیں بی بی! دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے تو ہم یہاں آئے تھے)۔

میرا اگلا ٹھکانہ مشہور میوزیم Louvre ( لُوو) تھا جہاںپہنچا تو نوّے فیصد سیّاح ایک ہی سیکشن اور ایک ہی گیلری کیطرف رواں دواں تھے۔ جہاں دیوار پر ایک خاتون کا پورٹریٹ آویزاں ہے وہ آدھے جسم کا پورٹریٹ ۔جو آج سے پانچ سو سال پہلے ایک اطالوی آرٹسٹ لیونارڈوونسی نے چار سال کی محنت اور ریاضت سے بنایا تھا۔ یورپ کی بڑی آرٹ گیلریوں میں خواتین کے زیادہ تر پورٹریٹ اور میورول برہنہ ہیں جب کہ یہ تصویر برہنگی سے پاک ہے مگر دنیا کے تمام نامور آرٹسٹوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے بہتر پینٹنگ آج تک تخلیق نہیں ہوئی۔

اس تصویر کو اور بھی کئی اعزاز حاصل ہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سب سے زیادہ سیّاح آتے ہیں۔ یہ وہ پینٹنگ ہے جس پر دنیا کی مختلف زبانوں میں سب سے زیادہ مضامین اور گیت لکھے گئے۔ اور یہی وہ تصویر ہے جس کی سب سے زیادہ نقّالی کی گئی ہے۔ یہ فلورنس (اٹلی) کے رہائشی اورریشم کے خوشحال تاجر فرانسسکو جیوکونڈو کی بیوی لیزا گیرار ڈینی کی تصویر ہے جس کی سب سے نمایاںخوبی پراسراریت ہے۔

اس کی پراسرار مسکراہٹ!! فرانسسکو اپنے دوسرے بیٹے آندریا کی پیدائش پر یہ تصویر اپنے نئے گھر میں آویزاں کرنا چاہتا تھا۔لیونارڈو کے کئی ہمعصروں کا خیال ہے کہ اس نے پورٹریٹ بنانے کا آغاز 1503میں کیا تھا ۔ اس پر چار سال تک کام کیا مگر پھر بھی تصویر مکمل نہ ہوئی تو لیونارڈو نے اسے چھوڑ دیا۔ 1516میں فرانس کے بادشاہ فرانکوٹیس اوّل نے لیونارڈو کو اپنے محل میں پینٹنگز بنانے کے لیے مدعو کیا، تو مصوّریہ پینٹنگ بھی ساتھ ہی لے گیا اور اس پر باقیماندہ کام فرانس جاکر کیا۔

لیونارڈو کے انتقال کے بعد اس کی بہت سی پینٹنگز اس کے شاگرد سالائی کے حصّے میں آئیں ۔ بادشاہ نے اس سے یہ پینٹنگ خرید لی اور اسے اپنے محل میں آویزاں کیا جہاں وہ لوئیس xivکے زمانے تک شاہی محل کی زینت بنی رہی اس کے بعد آنے والے بادشاہ نے یہ پینٹنگ قصرِ وارسیلز میں منتقل کردی۔ انقلابِ فرانس کے بعد یہ پینٹنگ مشہور عجائب گھر Louvre(لُوو) میں منتقل کردی گئی۔ اس سے پہلے یہ کچھ عرصے کے لیے شہنشاہِ فرانس نپولین بوناپارٹ کے بیڈروم کا حصّہ بھی رہی۔ جنگوں کے دوران حفاظتی نقطہء نظر سے اس تصویر کو مختلف جگہوں پر رکھا گیا۔

21اگست1911 کو یہ پینٹنگ چوری ہوگئی جسکا الزام فرانس کے مشہور شاعر جوئی لالے اپا لینئرپر لگا۔ شہرہ ء آفاق مصوّر پکاسو کو بھی پولیس نے اس مقدّمے میں دھرلیا۔جوئی اور پکاسو کچھ عرصہ زیرِ تفتیش رہے مگر پھر (غالباً کچھ دے دلاکر) وہ پولیس کی حراست سے آزاد ہوئے۔ بعد میں پولیس نے چوری کا یہ کیس ڈھونڈنکالا ۔ میوزیم ہی کے ایک ملازم ونسینرو پیروگیا نے یہ تصویر اس خیا ل سے چرائی تھی کہ یہ اٹلی کی ملکیت ہے اس لیے یہ اٹلی ہی کے میوزیم میں ہونی چاہیے۔

پیروگیاگرفتار ہو امگر اس کی حُبّ الوطنی کے باعث اٹلی میں اس کی بہت تعریف وتحسین ہوئی اس لیے اسے صرف چھ مہینے کی قید کے بعد رہا کردیا گیااور مونا لیزا کی تصویر دوبارہ پیرس کے میوزیم لُوو میں آویزاں کردی گئی ۔ راقم مونالیزا کی مشہور ِعالم تصویرکے سامنے کھڑ ا تھااور اس بے مثل فن پارے کو بار بار دیکھ کر ذہن میں مشرق کے بے مثل شاعر کے الفاظ گھومنے لگے کہ

نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نَغمہ ہے سودائے خا م خونِ جگر کے بغیر

اس دوران فون پر بار بار گھنٹی بجتی رہی اور غالب یاد کراتا رہا کہ ’’آپکا میزبان ہوٹل میںکافی دیر سے انتظار کررہا ہے ـ‘‘۔ لُوو کی گیلریوں میں کھوجانے کے باعث میں لیٹ ہوچکا تھا اس لیے بھاگم بھاگ سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا،جلدی سے غُسل کیااورغالب اقبال کی معیّت میںہوٹل پہنچے جہاں محمود بھٹی نے بڑی گرم جوشی سے ہمارا خیرمقدم کیا۔ محمود بھٹی کئی سال پہلے جی سی لاہور چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا۔آج وہ یورپ میں پاکستان کا کامیاب ترین بزنس مین ہے۔

جس نے فیشن ڈیزائننگ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا اور چوٹی کے برینڈز کو مات دے دی چھیالیس ملکوں میں اس کے برینڈز کا میابی سے چل رہے ہیں اس کی Sucess story پر فرانس میں فلمیں بن چکی ہیں۔ فرانس کے مقتدر ترین افراد اس کے ذاتی دوست ہیں۔ ہمارے ملک کا ہر حکمران پیرس میں محمود بھٹی کے گھر جاتا ہے اور اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

محمود بھٹی سے میں نے دوباتیں کیں۔ ایک سوال تھا اور ایک مشورہ۔ اپنی کامیابی کے راز کے بارے میںسوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا ’’میں اتنا غریب تھا کہ داتا صاحب سے روٹی کھاتا تھا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری ،بے پناہ محنت کی اور مسلسل کررہا ہوں۔ بارش ہو یاطوفان میں صبح چھ بجے اپنے دفتر میں ضرور پہنچتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’مجھے نہ آپکی دولت سے غرض ہے اورنہ آپکی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا شوق‘‘۔ کہنے لگا ’’وہ تو میں اچھی طرح جانتا ہوں‘‘۔

میں نے کہا ’’برسوں پہلے جس ملک کا پاسپورٹ لے کر آپ تلاشِ رزق کے لیے نکلے تھے اس کا احسان کبھی نہ بھولنا۔۔آپ کی دولت اور آپکے تعلقات پر آپ کے ملک پاکستان کا بھی حق ہے‘‘ ۔اس نے واضح طور پر کہا ’’ مجھے اس کا پوری طرح احساس ہے ۔ آج جو کچھ ہوں اﷲکے فضل وکرم اور ملک کی وجہ سے ہوں ‘‘۔ یورپ میں امیر ترین پاکستانی کے جواب نے مجھے مسّرت لبریز کردیا۔

The post پیرس… ایک قبر اور ایک تصویر appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر شخص اپنا احتساب کرے!

$
0
0

خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کیمطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔ خود کو جانچنا، اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کرنا اور اپنے ہر عمل کا خود حساب رکھنا ’’خود احتسابی‘‘ کہلاتا ہے۔

یہ عمل انسان میں اپنے اندر پیدا ہونیوالے منفی و مثبت رجحانات کا تعین کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور یہ صلاحیت انسان کو اپنا اخلاق و کردار سنوارنے کے قابل بناتی ہے۔ خود احتسابی کی بدولت انسان اپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو برآمد کرتا ہے۔ یہ بات چڑھتے سورج کی طرح ظاہر ہے کہ دنیا میں وہی اقوام اور افراد بلند مراتب حاصل کرتے ہیں، جو ہمیشہ اپنا احتساب کرتے رہیں۔ جن قوموں اور افراد نے ترقی کی ہے۔

ان کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کا احتساب کر کے آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ دنیا ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے، جنہوں نے اپنا وقت دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے گزارنے کے بجائے اپنی ذات کا احتساب کیا، سابقہ خامیوں سے نجات حاصل کر کے بہتری کا سفر جاری رکھا اور خود کو ذمے دار سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے وقف کیا۔انسان جتنی بار اپنا احتساب کرتا ہے، اتنی بار ہی اس کے کام میں مزید بہتری آتی ہے۔ جو لوگ خود احتسابی کو اپنا وطیرہ بنا لیں، وہ ہمیشہ کامران ٹھہرتے ہیں۔

مشہور ہے ’’یونان کے ایک مصور نے ایک تصویر بنائی، جس میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لٹکا دیا۔ جو بھی تصویر کو دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے ’’تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔‘‘ مصور نے اپنی تعریف پر واہ واہ کرنے کی بجائے تصویر میں اپنی غلطی کو ڈھونڈا اور کہنے لگا ’’اس کا مطلب ہے۔

میری تصویر میں کچھ خامی رہ گئی ہے۔ آدمی کو بنانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، ورنہ چڑیاں اگر آدمی کو بھی اصل سمجھتیں تو اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔‘‘ مصور نے وہ تصویر اتاری اور پہلی سے بھی بہتر دوسری تصویر بنائی۔ اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا۔ انگور کا خوشہ دوبارہ اس قدر شان دار بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں، مگر اب انھیں چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، جو آدمی انگور کا خوشہ لیے ہوئے تھا۔

اس کی آنکھوں میں اس قدر غصہ بھرا تھا کہ چڑیاں اسے دیکھتے ہی ڈر کر اڑ جاتیں..! ! اب مصور بہت خوش تھا، کیونکہ اس نے پہلی تصویر میں خود ہی اپنی خامی کی نشاندہی کی اور اس کی اصلاح کر کے پہلے سے شاندار تصویر بنائی تھی اور یہ کامیابی اسے خود احتسابی کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔اگر زندگی کی روانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہر ناکامی میں کہیں نہ کہیں اپنی کوتاہی پوشیدہ ہوتی ہے، جسے خود احتسابی کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے نقصانات کے بعد خود کا احتساب کر کے بڑے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔

جو لوگ کبھی اپنا احتساب نہیں کرتے اور ہمیشہ ہر معاملے میں دوسروں کو ہی قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو کامیابی مشکل ہی ملتی ہے۔ آج حالات پر تبصرہ کرنا، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو برا بھلا کہنا اور معاشرے کی خامیوں اور محرومیوں پر بحث مباحثہ کرنا بحیثیت مجموعی ہم سب کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔

ایک بڑی تعداد ڈرائینگ رومز، چائے خانوں، دفاتر، تقریبات اور سوشل میڈیا پر گھنٹوں گھنٹوں اجتماعی المیوں اور بے حسی کی داستانیں دہراتے ہوئے گزار دیتی ہے۔ ہم نقائص کی تشخیص کرنے کے بعد اْن کی بہتری کے لیے کام کرنے کے بجائے اپنی عمر محض نقطہ چینی کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

ہم میں سے اکثریت اپنی صلاحیتوں کو اسی طرح خرچ کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرے کے شب و روز جوں کے توں ہیں، کیونکہ کوئی بھی اپنا احتساب کر کے خود کو بدلنے پر تیار نہیں ہے، بلکہ ہر کوئی دوسروں کو بدلنے کی فکر میں ہے۔ ہر کوئی دوسروں کو غلط ثابت کرنے پرتلا ہوا ہے، حالانکہ دوسروں کی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنا کر سارا دن اپنا دماغ کھپانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہر فرد اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور اپنا احتساب کرے، کیونکہ معاشرے میں تبدیلی خود سے شروع ہوتی ہے اور خود میں جو تبدیلی انسان خود لا سکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں لا سکتا۔

انسان خود کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ جس طرح آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اسی طرح انسان خود سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اسی لیے ہر فرد اپنی ذات کے متعلق اپنے دل سے سوال کرے، تو اپنے آئینۂ دل میں اپنی ذات کا عکس واضح نظر آئے گا۔ خود احتسابی کا عمل خود سے شروع ہو کر خود پر ختم ہوتا ہے۔ خود احتسابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بارے میں گاہے بگاہے خود سے رائے دریافت کریں، اپنے ہر عمل اور اپنے ہر عمل سے پیدا شدہ نتائج کا خود جائزہ لیں۔

بہت سے سماجی، معاشی، اقتصادی، اجتماعی و انفرادی مسائل صرف لاپرواہی کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں، خود احتسابی سے ہم ایسے تمام معاشرتی مسائل سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں بہت سے مسائل کو ہم خود جنم دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں اور ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں، یہ تمام مسائل ملک کے خراب نظام کا نتیجہ ہیں۔ حالانکہ یہ نظام بھی ہم سب نے خود بنایا ہے۔ اپنی ذمے داریوں سے پہلوتہی، کام چوری، رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ڈیوٹی میں غفلت اور اس قسم کے نجانے کتنے کام ہم خود کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم بہت سی خرابیاں ہماری اپنی ہیں۔ سو دوسروں کو بدلنے کے بجائے خود کا احتساب کریں اور خود کو بدلیں۔

خود احتسابی ہر فرد کا دینی، قومی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی فریضہ ہے، اس ضمن میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ عام شہری سے اعلیٰ منتخب حکمران، ماتحت عدالت کے اہل کاروں سے عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان، سیاسی جماعت کے گلی کوچے کے کارکن سے پارٹی کے سربراہ تک سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے۔

جن معاشروں میں خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہاں لاقانونیت، افراتفری، بد امنی، بے ضابطگی، بے قاعدگی، بد عنوانی اور انارکی فروغ پاتی ہے۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب بھی خود احتسابی سے دوری ہے۔ ایک مثالی معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے ہمیں خود کا احتساب کرنا ہو گا۔

اگرچہ خود احتسابی کا عمل اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ختم ہونے والا عمل ہے، لیکن جب ہر فرد یہ عمل کرتا ہے تو اس عمل سے پیدا ہونے والے نتائج و ثمرات کا دائرہ اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوتا ہوا پورے معاشرے تک وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا آئیں سب مل کر خود احتسابی کے عمل سے اپنی شخصیت میں وہ نکھار پیدا کریں، جو ہماری ذات اور گھر سے ہوتا ہوا پورے انسانی معاشرے تک وسعت اختیار کر جائے اور ہم ایک مثالی معاشرہ تعمیر کر سکیں۔

The post ہر شخص اپنا احتساب کرے! appeared first on ایکسپریس اردو.

بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ تر کچھ بھی نہیں… (آخری حصہ)

$
0
0

پاکستان میں اولڈ ہومز کے قیام کے حوالے سے بڑھتا ہوا رجحان اگرچہ بہت سے بے گھر افراد کے لیے اُمید کا روشن چراغ ہے، جو فلاحی اداروں کی جانب سے بڑی تیزی سے جلایا جا رہا ہے، مگر یہ عمل ہماری خاندانی زندگی کے توڑنے میں بنیادی کردار بھی ادا کرے گا۔

یہ عمل بظاہر بہت پر کشش ہے خصوصاََ ان افراد کے لیے جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، مگر، ایسے فلاحی اداروں کی طرف سے مجبور افراد کے لیے بنائے گئے آشیانے بہت سے خاندانی آشیانوں کے ٹوٹ جانے کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ اس سہولت سے آہستہ آہستہ ایسے لوگ ناجائز فائدہ اُٹھانے لگیں گے جو اپنی سطحی خواہشوں اور مغربی ممالک کی بظاہر چکا چوند کر دینے والے طرزِ زندگی سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اس لیے فلاحی ادارے اور ریاستی ادارے اپنے سماج کے پسِ منظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان بزرگوں کو ان کے اپنے ہی خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے زندگی کی سہولیات فراہم کر دیں تو اس سے ہمارے سماج کا خاندانی نظام جو ہماری ثقافت کی خوبصورتی ہے، کو بھی بچایا جا سکتا ہے اور بے سہارا اور مجبور افراد کی مدد بھی کی جا سکتی ہے۔

سسٹم یا کوئی بھی نظام جو کسی سماج کی برسوں کی عملی سرگرمی کا نتیجہ ہوتا ہے، مقامیت سے جڑا ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اسی سماج کے لیے افادیت رکھتا ہے صرف اس کو بروئے کار لانیوالے اہل ہونے چاہیے۔ اس کو اپنے لیے کس طرح سے بدلتے وقت کی قدروں کی مناسبت سے مفید بنایا جا سکتا ہے اس پر غور و  فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ا پنی مقامی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے معاشروں کے طرزِ زندگی کو تجریدی سطح پر اپنانے سے سماج حقیقی ترقی نہیں کیا کرتے۔ مغربی معاشروں میں سرمایہ داری نظام اور ان کی ترقی کے نام پر جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں انھوں نے انسانی جسم کو تو سہولتوں سے فیضیاب کیا ہے مگر انسانی دل و دماغ کو پر سکون کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ دماغی امراض کا شکار افراد مغربی معاشروں میں ہیں اور اب پھر سے کسی خیال یا عقیدے کی ڈور تھامنے کو بے قرار ہیں جو ان کے افراد کو ایک خاندان کے بندھن میں باندھ سکے، مگر ہمارے ہاں کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمارا خاندانی سسٹم ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، جب کہ اصل مسئلہ ہمارے ملک میں بے روزگاری ہے اور بد عنوانی ہے، جس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے برطانیہ میں چائلڈ کیئر اور اولڈ ہومز کے قیام میں آنے کے بعد اس نظام نے سب سے زیادہ نقصان مقامی باشندوں کا کیا ہے۔ برطانوی ایک طرف تو اپنے سماج میں سب سے زیادہ اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ کیسے ان کے بزرگوں کی روزمرہ زندگی آسان بنائی جا سکے،  تو دوسری طرف نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے لیے بہت سی پرائیویٹ کمپنیوں کی خدمات بھاری قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں، جن کے عوض برطانوی بزرگوں اور بچوں کو گھروں کے نام پر کوئی چھت تو میسر ہوتی ہے مگر گھروں میں ملنے والے رشتوں کا پیار اور ایک انسان کی کوئی قدر ہونے کا خوبصو رت احساس نہیں ملتا۔ جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سے لوگ احساسِ تنہائی کا شکار ہو کر خود کشی کا سوچنے لگتے ہیں۔ یہاں نوجوان نسل بائی پولر کا سب سے زیادہ شکار ہے، ایسے افراد خود کشی کے احساسات سے بھرے رہتے ہیں۔

ان حالات میں دوسرے ممالک سے آنیوالے افراد جن کی پرورش پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش یا چین جیسی ریاستوں میں ہوئی ہوتی ہے، جدید سماج کی سہولتوں سے بھی مستفید ہوتے ہیں مگر اپنے سماجی پس منظر کا مضبوط حوالہ کسی حد تک یہاں بھی اپنائے رکھنے کے لیے جی جان سے محنت کرتے ہیں، تا کہ اپنے رسم و رواج اور اخلاقی معیارات کے مطابق ان کے گھرانے کے افراد اسی طرح یہاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ کسی انسان کو اپنے سماج کی خوبیوں کا ادراک دوسرے سماج میں زیادہ جلدی ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ پاکستان سے باہر آ بسے، پاکستان ان کے اندر جا بسا، مگر کسی بھی معاشرے کے مقامی باشندے اپنے معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک جلدی نہیں کر پاتے۔ اسی لیے برطانیہ کے بھی مقامی افراد محنت کرنے کی بجائے برطانوی حکومت کی پا لیسیوں سے مستفید ہونے کے لیے اور کچھ اپنی ا پنی پرائیوسی برقرار رکھنے کے لیے اپنے بچوں کو کیئر ہومز کے حوالے کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بزرگوں کو بھی اسی طرح اولڈ ہومز میں رکھنا کوئی معیوب نہیں سمجھتے۔ اس طرح سے بچے، بڑے اور بزرگ سب اپنے اپنے خانوں میں’ آزاد‘، مگر تنہائی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔

جس کے نتیجے میں یہاں پر قومی اعداد و شمار کے ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک فرد ذہنی مرض کا شکار ہو چکا ہے۔ بہت سے افراد اس لیے ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان سے بات کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ گھر کے ہر فرد کے مختلف اوقاتِ کار اور تفریحات ہیں۔ اس لیے ذہنی امراض میں مبتلا  افراد کی دماغی حالت کو بہتر بنانے کے لیے برطانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں talking therapy centres  کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ جہاں پر جا کر یہ لوگ صرف باتیں کرتے ہیں اور ہر گھنٹہ بات کرنے کی فیس ادا کرتے ہیں۔ کتنے بد قسمت ہیں یہ لوگ اور کتنے بد قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جن کے گھروں میں بزرگ ہیں اور وہ ان سے نالاں ہیں، جن کے آنچل میں رشتوں کے پھول بندھے ہیں مگر وہ ان کی مہکار کو محسوس نہیں کرتے۔

جن کے آنگن میں دادا، دادی، نانا، نانی، ماں باپ جیسی گھنی چھاؤں ہے مگر وہ  شجرِ سایہ دار کو کاٹ دینے کے لیے بے چین پھرتے ہیں۔ ہمارے سماج میں رہنے والے اپنے ہی خاندان کے افراد سے تنگ لوگوں کے لیے یہ بات سوچنے کی ہے کہ آپ کے بزرگ اور آپ کے گھر کے افراد آپ کی صحت مند زندگی کی اَن دیکھی ضمانت ہیں جس کا آپ کو ادراک نہیں اور شاید اسی لیے بہت سے لوگ اس کی  قدر بھی نہیں کرتے۔ برطانیہ کا دانشور طبقہ اس مسئلے پر غور و فکر کر رہا ہے کہ کس طرح سے خاندانی نظام کی بحالی ہو سکے اور سرمایہ داری بھی پنپتی رہے، جب کہ ہمارے ہاں کچھ دانشور اس بات پر بضد ہیں کہ ’’خاندانی نظام ہمارے ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘‘ اور اس کے لیے دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک ایک فرد پر کتنے کتنے افراد کی پرورش کا بوجھ ہوتا ہے۔

خاندانی نظام ہماری خوبصورتی بھی ہے اور مضبوطی بھی اس کو تباہ کر دینے سے معاشرے کی ترقی ہو نہ ہو مگر آزاد منڈی میں بطورِ جنس بکنے کے لیے انسان اور انسانیت کی تذلیل کی راہیں ضرور کھل جائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندانی نظام میں بہت سے رشتے خواتین کا استحصال کرتے ہیں مگر اس کا حل ان رشتوں کا مٹ جانا نہیں ہے، بلکہ ان کو آگہی کی روشنی فراہم کرنا ہے۔ یہ کام بھی خواتین ہی کر سکتی ہیں جن کی آغوش میں یہ رشتے پروان چڑھتے ہیں ان کے بیٹوں کی صور ت اور جو بعد میں کسی بھائی، کسی شوہر، کسی چچا، تایا، باپ یا دادا کا روپ دھارتے ہیں۔ خواتین بطورِ ماں ان رشتوں میں اپنے خاندان کو یکجا رکھنے کے لیے نفرتوں کی بجائے محبتوں کے بیچ بو سکتی ہیں۔

ورنہ انفرادی حقوق کے حصول کی کوشش میں خاندان کا شیرازہ بکھر جانے کے امکانات اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کہ سرمایہ دار، مردوں کی بجائے خواتین کے لیے ملازمتوں کی فراہمی کو آسان بنا کر ان کا گھروں سے باہر نکلنا پر کشش بنا دیتے ہیں۔ خاندان میں ہونیوالے کسی استحصال سے بچنے کے لیے خواتین بآسانی سرمایہ دار کا شکار ہو جائیں گی اور خواتین کو اس بات کا ادراک تک نہ ہو سکے گا کہ جس آنچل کو انھوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے پرچم بنایا تھا اسے ا ن کے اپنی ہی محنت کے پسینے اور خون سے جلنے والا چراغ بنا کر سرمایہ دار  انھی کے گھروں کو آگ لگا دیں گے، اور پھر ہمارے سماج میں میں بھی ایسی کئی لڑکیاں دکھائی دیں گی جن کی آنکھوں میں اشک انفرادیت کے سرد موسموں میں برفٖ کی ساخت میں ڈھل جائیں گے اور اگر کسی محبت اور احساس کی گرمی سے پگھل بھی جائیں تو ان کو دیکھنے اور سمیٹنے والا کسی رشتے کی صورت کوئی دستِ مہرباں موجود نہ ہو گا۔

The post بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ تر کچھ بھی نہیں… (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک نئی مزاحمت کو طاقت دینی ہو گی

$
0
0

پاکستان میں حکمرانی کے بحران کو جدید خطوط پر حل کرنے، شفافیت اور جوابدہی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں قومی سطح پر ایک نئی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ یہ مزاحمت محض جذباتی بنیادوں یا انتشار سمیت پرتشدد عمل کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں ایک پرامن جدوجہد کو نئے سرے سے منظم کرنا ہو گا۔

کیونکہ پاکستان کا موجودہ طرز حکمرانی کا ماڈل بدبودار اور اپنی افادیت کھو چکا ہے۔یہ نظام مخصوص طاقتور گروہوں کے مفادات کو تقویت دے کر عام اور کمزور آدمی کا سب سے زیادہ معاشی اور سیاسی استحصال کرتا ہے۔ یہ نظام جو جمہوری کہلواتا ہے اسے ایک پرائیویٹ کمپنی کے طور پر چلایا جا رہا ہے جس کی بنیاد عوامی فلاح و بہبود نہیں محض منافع کمانا ہے۔

بنیادی طور پر عام آدمی کے سامنے چند بڑے مسائل توجہ طلب ہوتے ہیں۔ ان میں معاشی خوشحالی، انصاف ، تعلیم ، صحت ، سیکیورٹی ، روزگار ، سازگار ماحول ، ترقی کے مواقع سمیت روزمرہ کے بنیادی نوعیت کے مسائل سرفہرست ہوتے ہیں۔ لوگوں کی کسی بھی طرح کے نظاموں سے محبت، لگن، شوق اور کمٹمنٹ سمیت اس کو قبول کرنے کی وجہ بھی ان ہی بنیادی مسائل کے حل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارا نظام بری طرز حکمرانی کی کئی سنگین شکلوں کو ظاہر کرتا ہے جو لوگوں میں ریاست ، حکومت اور اس کے بنائے گئے نظام پر عدم اعتماد کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس نظام اور اس کے ثمرات سے مطمئن کم اور غیر مطمئن زیادہ نظر آتے ہیں۔

عام لوگوں کو بالادست طبقات کے مقابلے میں زیادہ توقعات اپنی حکومت اور اس سے وابستہ انتظامی اداروں سے ہوتی ہے۔ جہاں حکومت اور اس کے ادارے فعال اور شفافیت پر یقین رکھتے ہونگے وہاں صورتحال لوگوں کے مفادات کے قریب ہوتی ہے۔ کمزور افراد کا سب سے بڑا انحصار ہی اداروں کی خود مختاری اور اس کی فعالیت پر ہوتا ہے۔ جہاں ادارے مضبوط نہ ہوں اور وہ حکمران سمیت بالادست قوتوں کے آلۂ کار بن جائیں تو وہاں لوگوں کا اور زیادہ استحصال ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جہاں طاقتور طبقات کا مقصد لوگوں کا استحصال کر کے اپنی مفاداتی سیاست کو آگے بڑھانا ہوتا ہے ، کیا ان کے خلاف کوئی مضبوط دیوار بنائی جا سکتی ہے۔ یقیناً اس کا جواب مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ایسا نظام جو جکڑا ہوا ہو اور وہ لوگوں کی آزادی اور حقوق کو سلب کرتا ہو وہاں مزاحمتی عمل کو طاقت دینا اور اس کے متحرک اور فعال کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک فکری مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ انتخابات میں پانچ برس بعد آپ ووٹ کی مدد سے اپنی مرضی کا نظام لا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک منصفانہ نظام میں ووٹ کا حق اپنی مرضی کی قیادت کو چننے کا حق دیتا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں ووٹ کا تقدس کمزور اور طاقتور قوتوں کا اپنا نظام مضبوط ہو وہاں محض ووٹ ڈالنا بھی ایک نمائشی عمل بن جاتا ہے۔ انتخابات کا تسلسل اہمیت کا حامل ہے اور اس سے خرابیوں کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن یہ منطق کہ ووٹ ڈالنے کے بعد اب آپ پانچ برس خاموش ہو کر گھر بیٹھ جائیں درست حکمت عملی نہیں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد ہی جب حکومت تشکیل پاتی ہے تو ووٹر کا اصل امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ووٹر کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مختلف طور طریقوں سے منتخب قیادت کو اپنے اور مسائل کے ہونے کا احساس دلائے ، دباؤ ڈالے، ان کو ان کے جذباتی وعدے یاد دلائے ، ان کی حکمرانی کے طور طریقوں کی نگرانی کر کے خرابیوں پر آواز اٹھائے اور افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جمہوریت یقینا ایک خاص مدت کے لیے حکومت کو ایک مینڈیٹ دیتی ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ اپنی مدت تک کسی کو جوابدہ نہیں۔ لوگوں کو ان کی حکمرانی پر سوالات اٹھانے چاہیے اور اپنے تحفظات پیش کر کے عملی طور پر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے عمل کو مضبوط کرنا چاہیے۔

سیاست کا ایک بنیادی اصول ہوتا ہے کہ وہ کسی اصول پر چلنے کے بجائے اپنے مخصوص مفادات کے تحت کام کرتی ہے۔ اس میں وہی طبقہ کامیاب ہوتا ہے جو اپنی دباؤ کی سیاست کی مدد سے اس نظام میں اپنے اور کمزور طبقات کے لیے بھی جگہ پیدا کرتا ہے۔ یہ جنگ کسی بھی صورت میں انفرادی محاذ پر زیادہ کامیابی سے نہیں جیتی جا سکتی۔

اس کے لیے اپنے سمیت دیگر لوگوں کو بھی منظم کر کے اپنی اجتماعی طاقت کو آگے بڑھانا ہو گا۔ یہ طاقت سیاسی اقربا پروری سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی کارکنوں سمیت معاشرے میں بہتر تبدیلی کے عناصر کو عملی طور پر شفاف سسٹم کی جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ اس لیے اہم ہے کہ یہاں سسٹم کو ڈھال بنا کر طاقتور طبقات محض اپنی طاقت کی جنگ میں ہمیں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں اچھی حکمرانی کی جنگ طبقاتی سیاست کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ وہ عناصر جو معاشرے میں واقعی تبدیلی چاہتے ہیں وہ بھی طبقاتی سیاست کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہمیں یہ سوال بنیادی طور پر دوبارہ اپنے قومی ایجنڈے اور سیاست کی بنیاد بنانا ہو گا کہ ہماری ریاست ، حکومت اور بالادست طبقات کن طبقات کی ترقی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

ہمیں جذباتی سیاست سے باہر نکل کر تلخ حقائق کو خود بھی سمجھنا ہو گا اور دوسروں کو بھی سمجھانا ہو گا کہ ہم ترقی اور خوشحالی کے نام پر کہاں جا رہے ہیں۔ ان جذباتی سیاست دانوں، قومی رہنماؤں اور دانشور طبقات کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہو گا کہ وہ لوگوں کو محض جذباتی باتوں سے گمراہ نہ کریں۔ حقیقی معنوں میں یہ جذباتی گمراہی سے آگے جا کر لوگوں میں اور زیادہ مایوسی اور اہل سیاست پر جھوٹے ہونے کے الزام کو تقویت دیتی ہے۔

پاکستان میں عام آدمی ، عورت ، مزارع ، بچے، معذور افراد ، مزدور ، کسان اور بالخصوص دیہات اور شہروں میں رہنے والے وہ طبقات جو انتہائی کسمپرسی اور غربت کی حالت میں جی رہے ہیں، ان کی حالت زار سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کا نوجوان طبقہ جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں تعلیمی ڈگریاں لے کر کھڑا ہے ، لیکن ان کا کوئی ہاتھ پکڑنے کو تیار نہیں۔ اگرچہ حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی ترجیحات میں عام اور غریب طبقہ پیش پیش ہے۔ لیکن یہ محض دعوے ہیں ، حقائق کافی تلخ ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں حکمرانوں اور عام افراد کی ترجیحات میں واضح فرق ہو گا وہاں ایک مضبوط ریاست کا عمل بھی کمزور ہو گا۔ ایسی ریاست کو عمومی طور پر خسارے کی ریاست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

اس نظام جس سے ہم نالاں ہیں میں رہ کر بھی ایک جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اندر کے تعصبات ، پسند و ناپسند ، شخصیت پرستی، مفاداتی سیاست اور اپنے آپ کو حکمران اور ریاست کی ہونے والی سیاست سے لاتعلقی کے عمل کو ختم کرنا ہو گا ۔ ہم سیاسی جماعتوں کے اندھے جیالے، متوالے اور پروانے بننے کے بجائے اپنی آنکھیں کھول کر سیاست، سیاسی جماعتوں، قیادتوں کے اندر موجود کھوکھلے پن کو سمجھیں کہ وہ ان کو سیاست اور جمہوریت کے نام پر کیسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔

لوگوں کے بے وقوف بننے کا عمل محض سیاست دانوں تک محدود نہیں ، بلکہ بیوروکریسی بھی تبدیلی کے نام پر ہمارا استحصال کرتی رہی ہے۔ ہمیں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان تعلق یا سماجی معاہدے کے بنیادی سوالات کو اپنی فکر کی بنیاد بنانا ہو گا ۔

ہماری اشرافیہ اور سیاست میں موجود اچھی شہرت کے حامل لوگوں کو ایک نئی سیاسی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانا ہو گا۔ یہ کام روایتی سیاست اور اس حالیہ مروجہ طریقہ کار سے ممکن نہیں ہو گا۔ روایتی سیاست اور اس کا سماجی، معاشی عمل اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔

ہمیں اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے کے رجحان کو قومی سیاست کا محور بنانا ہو گا۔ اہل سیاست اور بالادست طبقات کے سامنے یہ سوال بھی اٹھانا ہو گا کہ ان کے ذہن میں جو ترقی اور خوشحالی کا ماڈل ہے اس کا روڈ میپ اور ہوم ورک کہاں ہے۔ عام اور کمزور طبقات کو حکمرانی کے نظام میں حکمرانوں کی charity and begging کے ماڈل نہیں ، بلکہ ایک مضبوط اور شفافیت پر مبنی سسٹم درکار ہے۔ لوگوں کو فرد کی حکمرانی سے نکال کر اگر ہم نے سسٹم کی حکمرانی کو اپنی منزل بنا لیا تو کامیابی کے امکانات کو اجتماعی طور پر نئی جہت دی جا سکتی ہے۔

The post ایک نئی مزاحمت کو طاقت دینی ہو گی appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی مزار، مجاورین اور معتقدین

$
0
0

اپنی اپنی مرضی اپنا اپنا خیال اور اپنی اپنی پسند ہے ورنہ ہمارے اپنے خیال تک اس ملک میں جس کا نام پہلے خداداد پاکستان اور اب اللہ داد پاکستان ہے سیاست کو سیاست کہنا بہت بڑی تہمت اور الزام ہے، یہ ایسا لگے گا جیسے کسی چور اچکے، غنڈے، بدمعاش، حاجی صوفی یا بزرگوار کو کہا جائے بلکہ ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ خود سیاست سے جائز یا ناجائز کوئی بھی تعلق رکھنے والوں کو خود یعنی ’’سوموٹو‘‘ ایکشن لے کر یہ نام تیاگ دینا چاہیے اور اخباروں میں اشتہار دینا چاہیے کہ آیندہ ہمیں اس نام سے ہرگز پکارا اور لکھا نہ جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہو، احتیاط کی اشد ضرورت اس لیے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ مجھے یوں ہی کالو کالو کہتے ہیں ورنہ میرا اصل نام تو ’’کوا‘‘ ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ سیاست میں تو کچھ پارٹیاں ہوتی ہیں ان کے کچھ نظریات اور اصول ہوتے ہیں کچھ پروگرام ہوتے ہیں، منشور ہوتے ہیں لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے صرف چند مزارات ہیں یا پیر دستگیر ہیں اور پھر ان کے ’’مجاورین‘‘ ہیں اور اندھے بہرے گونگے معتقدین (کارکن) ہیں، کون سی پارٹی ہے جس کے پاس بزرگوں یا شہداء کے ایک دو مزار یا ’’زندہ پیر‘‘ نہیں ہیں۔ زندہ پیر بھی ایک طرح سے ویٹنگ لسٹ مزاریں ہی ہوتی ہیں لیکن مزاروں والی پارٹیوں جیسی بات کہاں؟ جن کے پاس جتنے زیادہ مزار ہوتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ کامیاب اور متمول رہتی ہیں۔

پارٹیاں کہنے پر معافی چاہتے ہیں اصل نام تو ان کا ’’سلسلہ فلانیہ و فلانیہ‘‘ ہونا چاہیے کیوں کہ جن مزاروں کو یہ آج کل کیش کر رہے ہیں انھوں نے زندگی میں بھی اپنے لیے جنت اور اولادوں کے لیے بہت سارا دھن کمایا ہوا ہے اور مرنے کے بعد آرام سے لیٹے ’’اوور ٹائم‘‘ لگا رہے ہیں۔ کسی زمانے میں ہمارا ایک دوست تھا جو ایک بہت بڑے مزار شریف کی مقدس اولادوں میں سے تھا، خاندان بہت بڑا تھا اس لیے سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کو باقاعدہ تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ہمیں اپنے گاؤں لے گیا وہ دن ان کے خاندان کا تھا ہم نے مزار شریف پر نوٹوں کے ڈھیر دیکھے تو جل کر بولے، دادا اس کو کہتے ہیں جو مر کر بھی کمائے چلا جا رہا ہے، ایک وہ ہمارے دادا تو ہمارے لیے زندگی میں بھی کچھ نہیں کر پائے تھے۔

اب سیاست میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے ہر کسی کے پاس ایک یا ایک سے زیادہ مزارات ہیں اور ان کی کمائیاں پیٹ بھر کر کھا رہے ہیں، اب مسلم لیگ کو لیجیے ان کے پاس چھوٹے بڑے مزار تو بے شمار ہیں لیکن دو نہایت ہی بڑے اور کماؤ مزار تو مشہور و عام ہیں، ایک مزار پاکستان کا ہے جسے پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہی ہاتھوں شہادت کے مرتبے پر فائز کیا گیا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس کا گلا پیدا ہوتے ہی نہیں گھونٹا گیا تھا بلکہ بعد میں خلیج بنگال میں ڈبو کر شہید کیا گیا تھا۔

بہرحال شہادت اور تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن برکات کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے کیونکہ ان کی سبز پوش اولادیں آج بھی اس ملک میں ’’سادات‘‘ ہونے کی دعوے دار ہیں، لیکن ان کی تعداد بڑھ گئی یا کوئی اور وجہ ہو گئی کہ ایک مزار پر ان کا گزارہ نہیں ہو سکا چنانچہ دوسرا مزار قائد کا بنایا تاکہ بوقت ضرورت کام آئے، اس بزرگ کے ساتھ تو ان کی عقیدت اتنی زیادہ ہے کہ جن لوگوں نے ایک میل دور سے بھی ان کا دیدار کیا تھا اسے آج کل ’’ممتاز مسلم لیگی راہ نما‘‘ کا خطاب حاصل ہے۔

ہمیں یاد ہے پشاور میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے وہ اکثر ہمارے دفتر آتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ ہم ان پر مضمون لکھیں کیونکہ جن دنوں قائداعظم اسلامیہ کالج آئے تھے تو میں نے بھی ان سے ہاتھ ملایا تھا اور پھر وہ بڑی عقیدت کے ساتھ اپنے مرحوم صاحب کی مناقب بیان کرنے لگتے بلکہ ایک بیگم صاحبہ تو صرف اس وجہ سے ممتاز مسلم لیگی لیڈرہ یا ممتاز مسلم لیگی راہ نمائین ہیں کہ ان کے شوہر نے شادی سے پہلے قائداعظم کا کننگم پارک میں لائیو دیدار کیا تھا بلکہ ان کے اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ درمیان میں صرف دو سو گز کا فاصلہ رہ گیا۔

دو چار سال بعد اس کی شادی مذکورہ بیگم صاحبہ سے ہو گئی اور آٹھ دس سال بعد جب وہ ان کی تاب نہ لا کر اگلے جہان سدھار گئے تو موصوفہ وراثت کی بنیاد پر ممتاز مسلم لیگی رہنمائین بن گئیں مزار پاکستان اور دیگر قائدین کے مزار کے متولیوں اور مجاوروں کے قصے تو بے شمار ہیں جو الگ سے ایک کتاب کے متقاضی ہیں لیکن جو بات طے شدہ ہے کہ ان سبز پوشوں کا صرف جھنڈا ہی سبز نہیں ہے بلکہ ان کے قدم بھی سبز ہیں اور یہ سبز قدم جب سے ان سرزمین پر پڑے ہیں اس میں برکات ہی برکات کا دور دورہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ برکات آفات سماوی اور ارضی میں ہوتی ہیں کیوں کہ یہ خود بھی آفات ارضی و سماوی سے کم نہیں ہیں غالب نے ان ہی کے لیے کہا ہے کہ

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ان سبز پوش، سبز قدم اور سبزہ کار فرقے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہاں رقص کرنا ممنوع نہیں بلکہ کار ثواب ہے جس طرح قونیہ کے درویش یا مادھو لال حسین کے ملنگ رقص کو عبادت سمجھتے ہیں اسی طرح ان کے نزدیک بھی رقص کرنا ثواب دارین ہے لیکن یہ رقص ہر وقت اور ہر جگہ نہیں کیا جاتا بلکہ جو بھی ’’باوردی‘‘ بزرگ سریر آرائے سلطنت ہوتا ہے یہ یہاں وہاں کے سوراخوں سے نکل کر اس کے گرد بھنگڑا ڈال دیتے ہیں اور دین و دنیا دونوں کی سعادت پاتے ہیں۔

دوسرا سب سے بڑا مجاورین مزارات کا سلسلہ سبز کی جگہ، چتکبرا یا سہ رنگا کا سلسلہ کہلاتا ہے اصل میں تو یہ سلسلہ بھی اسی سبز سلسلے سے نکلا ہے کیوں کہ ان کے سب سے اولین بزرگ اس وقت ایوب خان کے ساتھ کنونشن لیگ کے خلیفہ تھے جسے سیاست میں جنرل سیکریٹری کہا جاتا ہے اور اپنے عقیدے میں اتنے پرجوش تھے کہ اپنے پیر و مرشد ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع کا ڈی سی کنونشن لیگ کا صدر ہونا چاہیے، لیکن پھر اچانک اس پر ’’اوپر‘‘ سے ’’القاء‘‘ ہوئی بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ القاء بہت دور دراز کے ایک شہر کے سفید آستانے کی طرف سے ہوئی تھی بہرحال جو کچھ بھی تھا اس نے فوراً اپنا الگ فرقہ بنا لیا جس کے تین رنگ تھے حالاں کہ اسے کہا گیا کہ

سہ رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا

لیکن اس نے کہا کہ دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں برے، بہت برے اور بہت ہی برے اور مجھے ان سب کو صراط مستقیم پر چلانا ہے چنانچہ اس نے چن چن کر ان لوگوں کو جمع کیا جو خلق خدا کی روٹی، کپڑا اور مکان چھینے ہوئے تھے اور عوام کو طلسم ہوشربا دکھایا کہ ان سے روٹی کپڑا اور مکان لے کر تم کو دیں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ پروگرام کم از کم قیامت کے دوسرے دن تک کا وقت چاہتا تھا اور اس کا اپنا وقت ختم ہو گیا تھا، شہادت کی گھڑی آپہنچی … اور حیات کے بجائے اس نے ممات کو چن کر اپنے پس ماندگان کو ایک عدد مزار دینے کا فیصلہ کیا، کچھ خاندان پیدائشی طور پر مبارک ہوتے ہیں خاص طور پر مزارات تو کسی کسی کے نصیب میں ہوتے ہیں ورنہ کوشش تو بہت کرتے ہیں لیکن

ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں

ان دو سلسلوں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے بڑے سلسلے ہیں جو مزارات کا دیا کھاتے ہیں۔

The post سیاسی مزار، مجاورین اور معتقدین appeared first on ایکسپریس اردو.

بذلہ سنجی اور حاضر جوابی

$
0
0

24 ستمبر کا کالم دو حصوں پر مشتمل تھا۔ جن قارئین نے اس تشنگی کو محسوس کیا، اپنی ای میل اور SMS سے اس جانب توجہ دلائی ان سب کا بہت بہت شکریہ۔ لیجیے کالم کا بقیہ حصہ حاضر ہے۔

امیر تیمور کے دربار میں قیدیوں میں شامل ایک اندھی عورت کو پیش کیا گیا اور تیمور نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا۔

’’میرا نام دولت ہے۔‘‘

تیمور لنگ نام سن کر ہنسا اور بولا ’’کیا دولت اندھی بھی ہوتی ہے؟‘‘

عورت نے نڈر ہوکر برجستہ جواب دیا ’’اگر اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے کے گھرکیوں آتی؟‘‘

ایک بار برطانیہ کے وزیر اعظم لائڈ جارج پارلیمنٹ میں تقریرکر رہے تھے، تقریر کے دوران جوش خطابت میں بولتے چلے گئے ’’ہم ڈنمارک اور ناروے کی آزادی کے لیے لڑیں گے۔ ہم عوام کی خاطر سوئٹزرلینڈ کی آزادی کے لیے بھی لڑیں گے۔‘‘ انھوں نے اس طرح کئی ممالک کے نام گنوا دیے۔ حزب اختلاف کے سربراہ نے طولانی تقریر سے جھلا کرکہا ’’اور ہم جہنم کی آزادی کے لیے بھی لڑیں گے۔‘‘

’’ضرور۔۔۔ضرور۔‘‘ لائڈ جارج مسکراتے ہوئے اسی لہجے میں بولے۔’’ہر شخص کو اپنے وطن کی آزادی کی فکر ہونی چاہیے۔‘‘

لائڈ جارج برطانیہ کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی طیش اور غصے میں نہیں آتے تھے اور توازن برقرار رکھتے تھے۔ الیکشن کا زمانہ تھا۔ انتخابی جلسے عروج پر تھے۔ لائڈ جارج بھی اپنی انتخابی مہم زورشور سے چلا رہا تھا۔ ایک دن وہ کسی جلسے میں لوگوں سے خطاب کر رہا تھا کہ دوران تقریر ایک عورت جو لائڈ سے سخت نفرت کرتی تھی اچانک کھڑی ہوگئی اور جارج کو مخاطب کرکے بولی ’’سنو! اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو تمہیں زہر دے دیتی۔‘‘ ظاہر ہے یہ فقرہ لائڈ جارج ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کو مشتعل کر دینے کو کافی تھا جو جارج کو پسند کرتے تھے۔

جلسے میں سناٹا چھاگیا اور یوں لگا کہ اب برہم ہوکر لائڈ کیا جواب دیتا ہے۔ لیکن لائڈ جارج نے مسکرا کر اس خاتون کو مخاطب کیا اور شگفتگی سے بولا ’’محترم خاتون! اگر میں تمہارا شوہر ہوتا تو اس زہرکو خوشی سے پی جاتا۔‘‘ لائڈ جارج کے اس فقرے نے تمام حاضرین کو اس کا طرف دار بنا دیا اور وہ اپنی خوش مزاجی اور حاضر جوابی کی بنا پر بہت زیادہ ووٹ لے کرکامیاب ہوا۔

ایک امریکی سیاح شملہ کانفرنس کے دوران قائد اعظم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ وہاں آکر اسے پتا چلا کہ محمد علی جناح آدھی آدھی رات تک اپنے کمرے میں بیٹھے کام کرتے رہتے ہیں۔ دوران ملاقات اس نے قائد اعظم سے پوچھا کہ ’’کانگریس کے تمام لیڈر اس وقت سو چکے ہیں، لیکن آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔‘‘

قائد نے مسکرا کر جواب دیا ’’جی ہاں! کانگریس کے لیڈر اس لیے سو رہے ہیں کہ ان کی قوم جاگتی ہے۔ اور مجھے اس لیے جاگنا پڑتا ہے کہ میری قوم سو رہی ہے۔‘‘

ایک بار قائد اعظم سے کسی صاحب نے پوچھا ’’آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘ قائد اعظم نے جواب میں الٹا انھی حضرت سے سوال کر ڈالا ’’حضرت محمد مصطفیٰؐ مذہباً کیا تھے؟‘‘ اس شخص نے کہا ’’مسلمان۔‘‘

قائد اعظم نے جواب دیا ’’میں بھی مسلمان ہوں۔‘‘

شاہ ایڈورڈ ہفتم کی ولی عہدی کا زمانہ تھا،انھوں نے اپنی والدہ ملکہ وکٹوریہ کو ایک خط لکھ کر ان سے پانچ پونڈ طلب کیے۔ ملکہ نے رقم بھیجنے کے بجائے ایک لمبا چوڑا خط بیٹے کو لکھا جس میں فضول خرچی اورکفایت شعاری کا فرق اور فائدے بتائے گئے تھے۔ ایک ہفتے بعد ولی عہد نے ماں کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ اب اسے پانچ پونڈ کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ملکہ کا خط بیس پونڈ میں فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلی ہے۔

ایک بار نواب مرزا داغ دہلوی کے گھر ان کے ایک شاگرد مستجاب خاں خلیق ملنے کے لیے آئے تو دیکھا کہ استاد مغرب کی نماز پڑھ رہے ہیں، وہ واپس جانے کے لیے مڑے تو داغ نے سلام پھیرا اور قریب بیٹھے ہوئے نوح ناروی سے کہا ’’انھیں بلایے!‘‘ وہ آئے تو کہنے لگے ’’آکر واپس جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی، میں نماز پڑھ رہا تھا، لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا۔‘‘

سر شیخ عبدالقادر بھی بلا کے حاضر جواب تھے، ایک بار لندن میں پنڈت نہرو کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا،اس میں دیگر معزز مہمانوں کے ساتھ ڈیوک آف ونڈسر اور شیخ عبدالقادر بھی مدعو تھے۔ کھانا شروع ہوا تو ڈیوک آف ونڈسر نے چھری اور کانٹے سے کھانا کھاتے ہوئے سر عبدالقادر پہ چوٹ کی۔’’سر عبدالقادر! تمہارے مسلمان اب بھی ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں؟‘‘ سر عبدالقادر فوراً بولے ’’جی ہاں جناب! بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عیسیٰ کھایا کرتے تھے۔‘‘

ایک مرتبہ مولانا محمد علی جوہر عربی لباس پہن کر ایک اجلاس میں شریک ہونے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات سردار ولبھ بھائی پٹیل سے ہوئی۔ سردار صاحب نے مولانا کا تعارف ایک انگریز سے کروایا، انگریز نے مولانا کے عربی لباس کو بغور دیکھا اورکہا ’’آپ تو اس لباس میں پورے عرب معلوم ہو رہے ہیں۔‘‘ اس پر مولانا نے برجستہ کہا ’’میں چودہ برس تک انگریزی لباس پہنتا رہا لیکن کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ ’’آپ انگریز معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ آج میں نے اپنا مذہبی لباس پہنا تو آپ کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی؟‘‘

ایران کا بادشاہ نوشیروان اور اس کا وزیر اعظم بزرجمہر کسی ویرانے میں درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ بزرجمہر کو خدا نے جانوروں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ اسی درخت پر دو الّو آکر بیٹھ گئے اور آپس میں بولنے لگے، جب کافی دیر تک وہ درخت پہ بیٹھے بولتے رہے تو نوشیروان نے بزرچمہر سے پوچھا کہ ’’یہ پرندے کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘

اس نے کہا ’’یہ دونوں آپس میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں،لیکن بیٹی کا باپ لڑکے کے باپ سے دس ویران بستیاں مانگ رہا ہے۔‘‘ نوشیروان نے پوچھا ’’پھر؟آگے کہو ۔‘‘

بزرجمہر نے کہا ’’وہ بات گستاخی کی ہے، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔‘‘

نوشیروان نے جان بخشی کا وعدہ کیا تو وزیر نے کہا۔’’دوسرا اُلّو کہہ رہا ہے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے، جب تک نوشیروان اس ملک کا بادشاہ ہے، اجڑی بستیوں کی کیا کمی ہے۔ تم دس مانگ رہے ہو میں سو دینے کو تیار ہوں۔‘‘

نوشیروان یہ سن کر لرزگیا، پرندوں کی بات کو غیبی تنبیہہ سمجھا اوراس دن سے ایسا بدلا اورعدل و انصاف کا بول بالا کیا کہ ’’عادل‘‘ اس کے نام کا حصہ بن گیا اور تاریخ میں ’’نوشیروان عادل‘‘ کے نام سے امر ہوگیا۔ اس کی وفات 579 عیسوی میں ضرور ہوئی، لیکن تا ابد نیک نامی محض عدل و انصاف اور رعایا کی خیر خواہی کی بدولت نصیب ہوئی۔

سوال یہ ہے کہ آج کوئی پاکستانی حکمراں نہ خدا سے ڈرتا ہے، نہ عذاب الٰہی سے، جہاں تک دانش مند وزیروں کی بات ہے تو ان کی نسل بھی بزرجمہر کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ کیا آج کے دور میں کوئی وزیر، کوئی اینکر کوئی میزبان، کوئی تجزیہ کار، کوئی کالم نویس، کوئی رکن اسمبلی موجودہ لیڈروں کے سامنے حق بات کہنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں کہ پہلے بادشاہوں کے ظلم اور بے انصافیوں سے بستیاں ویران ہوجاتی تھیں۔

اب یہ انسانی بستیاں، بم دھماکوں، ڈینگی بخار، کانگو وائرس، جعلی ادویات، ملاوٹ شدہ غذاؤں، مذہبی انتہا پسندی، غلاظت، گندگی اور تعصب کے ذریعے ایک خودکار نظام کے تحت تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔ عذاب الٰہی کی پیشن گوئی کرنے والی بے شمار علامتیں ہیں، لیکن انھیں سمجھنے اور سمجھانے والا کوئی بزرجمہر نہیں، اور نہ ہی نوشیروان جیسا خوف خدا سے لرز اور ڈر کر ظلم و بے انصافی سے توبہ کرنے والا بادشاہ موجود ہے جو ’’عادل‘‘ کہلایا اب جو ہیں وہ ان طاغوتی قوتوں کے نرغے میں ہیں جنھوں نے سب کو ’’مایا جال‘‘ میں پھنسایا ہوا ہے۔

The post بذلہ سنجی اور حاضر جوابی appeared first on ایکسپریس اردو.


کسی بہتر حکمران کی تلاش

$
0
0

شروع دن سے ہی انسانوں کی بستیوں میں جب کوئی سردار اپنے منصب سے گر جاتا تھا تو عام لوگ اس کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیتے اور جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہوتا وہ حکومت پر قبضہ کر لیتا یوں قصہ ختم۔ ہمارے خطے میں تموچن یعنی چنگیز خان سے لے کر ماؤزے تنگ تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور پاکستان میں ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہم نے یہی دیکھا کہ جس کے پاس طاقت ہوتی اور حکمرانی کا شوق بھی ہوا، اس نے پاکستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔

یہ حکمراں یا تو اپنی کسی بہت ہی بڑی غلطی اور عوام کے لیے ناقابل برداشت حکمرانی کی وجہ سے یا پھر اپنی کسی بھاری حکومتی نالائقی کے جرم میں اپنے سے زیادہ طاقت ور کے ہتھے چڑھ گیا۔ اقتدار کے اس ہیرپھیر میں کتنے آئے اور گئے یہ کھیل انسانی آبادیوں میں اب تک جاری ہے اور جب تک کوئی حکومت اچھی حکومت ثابت نہیں ہو گی وہ ڈانواں ڈول ہی رہے گی کیونکہ عوام میں سے تو کوئی حکمران بنتا نہیں البتہ جن لوگوں نے حکمرانی کا لطف لینا ہوتا ہے وہ عوام کو خاموش کر دیتے ہیں اور وقت کے حکمران کو خوف زدہ کر کے یا اس پر کسی طرح جبر کر کے اسے زیر کر لیتے ہیں اور یوں ایک نئی حکومت عوام پر مسلط ہو جاتی ہے جو پھر کبھی کسی ایسے ہی چکر میں عوام کی جان چھوڑتی ہے یا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تخت سے گر جاتی ہے۔

ہمارے ہاں فوجی اور سویلین حکومتیں کسی معروف اور مروجہ سیاسی ادل بدل سے آتی جاتی نہیں ایک طاقت ور نے کمزور کو گرا دیا بلکہ بعض نے تو کمزور کو زندگی سے ہی محروم کر دیا کیونکہ اس کے پاس طاقت تھی اور اسے اپنے مخالف سے خطرہ تھا ایسے لاعلاج کو ختم کرنا ہی اس کا علاج تھا۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر سیاسی اضطراب سے بھر گئی ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں سے خوش یا ناخوش نہیں ہیں بلکہ وہ صرف انھی حکمرانوں کی اصلاح چاہتے ہیں کہ وہ ایک پسندیدہ حکومت میں بدل جائیں اور اگر کوئی عوامی فلاح وبہبود کا منصوبہ رکھتے ہیں تو اسے مکمل کر لیں یا پھر اگر وہ محض حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو عوام اب اس بے عملی کو شاید زیادہ برداشت نہ کریں اور وہ اس میں بے قصور ٹھہریں گے۔

یہ درست کہ عوام نے موجودہ حکمرانوں کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے تھے تاکہ انھیں ایک اچھی حکومت مل سکے لیکن عوام مایوس ہیں اور وہ مایوس رہنا نہیں چاہتے، ان کے پاس متبادل موجود ہے۔

ہمارے گاؤں کے جن بزرگوں نے سکھوں کی حکومت بنتے دیکھی تھی وہ کہا کرتے تھے کہ حکومتوں کی تبدیلی بڑے دکھ دیتی ہے۔ پھر ہمارے بزرگوں نے انگریزوں کی حکومت بھی دیکھی جو ان کے سامنے ان کے مسلمان حکمرانوں کو قتل کر کے قائم ہوئی پھر یہ حکومت بھی وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت میں بدل گئی۔

پاکستان کے اندر حکومتوں کی تبدیلی مسلسل جاری ہے اور موجودہ حکومت بھی کسی تبدیلی یعنی اب دروازوں پر دستک دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی روایت کے مطابق کوئی فوجی حکمرانی سنبھالتا ہے یا الیکشن کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی زندگی سخت ابتری کا شکار ہے اور سیاسی جماعتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

پاکستان میں یہ بھی ہوا ہے کہ ایک فوجی حکمران اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس نے فوراً یہ اعلان کیا کہ وہ اتنی مدت میں الیکشن کرائے گا اور اقتدار نئے لوگوں کے سپرد کر دے گا لیکن چونکہ نیت ایسی نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے وہ کہتا کہ میں نے جب حالات کا جائزہ لیا تو ستیاناس نہیں سوا ستیاناس دکھائی دیا۔ اب اس ابتری میں ملک کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے فی الحال کچھ اصلاحات اور پھر الیکشن وغیرہ۔

پاکستانی عوام اب صرف سوچ ہی نہیں رہے وہ اپنی سوچ کو عملی رنگ دینے کے خواہاں بھی ہیں لیکن ان کا کوئی سیاسی لیڈر موجود نہیں جو ان کی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل کا سامان کر سکے۔ اس لیے وہ اپنے پاکستانی اسٹائل میں فوج میں سے کوئی لیڈر تلاش کر رہے ہیں لیکن کون جانتا ہے کہ فوج سے آنے والا لیڈر ان کی کس حد تک داد رسی کر سکے گا یا وہ خود اپنی دادرسی میں مصروف ہو جائے گا۔ پاکستان کی بڑی فوج کا سپہ سالار کوئی عام آدمی نہیں ہوتا۔ وہ ایک بڑی فوج کی سربراہی کرتا ہے اور ایک جاندار قوم کی قیادت جو کسی مقصد کو سامنے رکھ کر متحرک کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی قوم اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں لیکن یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ اس پر ایک طاقت ور فوج حملہ آور ہوئی اور حملہ آور کی طاقت زیادہ ہوا کرتی ہے کہ اسے کچھ فتح کرنا ہوتا ہے مگر رات کے کسی پہر ہونے والا یہ طاقت ور حملہ اس قوم اور اس کی فوج نے ناکام کردیا۔

اس لیے پاکستانی فوج کا سپہ سالار کوئی عام سا فوجی نہیں ہوتا اس لیے قوم اگر ماضی کی طرح آج بھی کسی فوجی کی تلاش میں ہے تو وہ بے قصور ہے۔

یوں سمجھیں کہ وہ اپنی نجات کی تلاش میں ہے اور غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ یہ مشہور مثل لیڈر کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی قوم پر صادق آتی ہے جو اپنی مایوسی اور دیوانگی کے کسی مقام پر کسی کو تلاش کر رہی ہے۔ ہمارے دشمن ہمیں اب ایک آزاد اور خودمختار ملک نہیں سمجھتے۔ یہ صورت حال ہمیں ہر حال میں بدلنی ہے اور ہمیمں ایک معقول حکومت درکار ہے جو آج کے حکمران بھی نافذ کر سکتے ہیں، بڑی آسانی کے ساتھ۔

The post کسی بہتر حکمران کی تلاش appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاسی بصیرت اور تدبر کے تقاضے

$
0
0

دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں ہوگا جو مختلف مسائل کا شکار نہ ہو لیکن جس ملک کی قیادت سیاسی بصیرت کی حامل ہوتی ہے وہ لکڑی لے کر ایک ساتھ سارے مسائل کے پیچھے دوڑ نہیں لگاتی بلکہ وہ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس کے اہم قومی مسائل کیا ہیں، قومی مسائل کے تعین کے بعد پھر ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے، ترجیحات کے تعین کے بعد ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک موثر اسٹریٹجی بنائی جاتی ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع اور موثر فورس بنائی جاتی ہے۔

اس کے بعد اسی سارے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مانیٹرنگ سسٹم ترتیب دیا جاتا ہے تب جاکر کہیں اہم قومی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ممکن ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں 68 سالوں سے جو جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں برسر اقتدار رہیں وہ ان حوالوں سے اس قدر نااہل تھیں کہ وہ قومی مسائل کا حقیقی معنوں میں تعین بھی نہ کرسکیں یہ محض نااہلی نہیں ہے بلکہ ان کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اس بدنظمی یا بددیانتی کی وجہ یہی بتائی جاتی رہی کہ حکومتوں کی اولین ترجیح ذاتی اور جماعتی مفادات رہے جس کی وجہ لوٹ مار کا کلچر اس قدر عام اور مستحکم ہوگیا کہ یہ ہمارے قومی مسائل میں سر فہرست آگیا۔ اگر کوئی عوام دوست حکومت آتی تو بلاشبہ اس کی پہلی ترجیح لوٹ مار کے اس نظام کا خاتمہ ہوتا۔

بدقسمتی سے اس دوران ایک ایسا مسئلہ سامنے آگیا جو ہماری قومی بقا ہی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گیا اور یہ مسئلہ بہت کم عرصے میں پھیل کر انسانی تہذیب کی بقا کا عالمی مسئلہ بن گیا اور یہ مسئلہ ہے مذہبی انتہا پسندی عرف دہشت گردی کا۔ مذہبی انتہا پسندوں نے اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان پر قبضے کو اپنا ہدف بنالیا ہ۔

ے اس قومی بقا کے لیے خطرہ بننے والے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری مقتدر قوتوں نے ضرب عضب کے نام سے ایک بھرپور آپریشن شروع کیا جس کا دائرہ عمومی طور پر شمالی وزیرستان رہا اور بلاشبہ اس علاقے میں دہشت گردی کی بڑی حد تک کمر توڑ دی گئی، لیکن بدقسمتی سے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کہ یہ طاقتیں اپنے کارندوں کو سارے ملک میں پھیلا رہی ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی وزیرستان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے اور ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوتی رہی۔

جب کوئی قوم اپنے سب سے بڑے قومی مسئلے کا تعین کرلیتی ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی توجہ اس مسئلے سے ہٹنے نہ پائے۔ ہم نے ابتدا میں اس بات کی نشان دہی کردی تھی کہ ذاتی اور جماعتی مفادات ہمارا 68 سالہ پرانا اہم قومی مسئلہ رہے ہیں جب یہ مسئلہ بڑھ کر کھلی اور اربوں کھربوں کی لوٹ مارکی شکل اختیار کرگیا تو اس کا شمار قومی مسائل کی فہرست میں ہونے لگا بلکہ یہ مسئلہ قومی مسائل میں سرفہرست آگیا۔ کوئی بھی مخلص حکومت اس مسئلے سے پہلوتہی نہیں کرسکتی کیونکہ ملک کے 20 کروڑ عوام لوٹ مار کے اس بدترین کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہماری مقتدرہ نے بجا طور پر اس کلچر کی بیخ کنی کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں لیکن ان اقدامات کو ایک صوبے تک محدود کرنے کی وجہ سے  کرپٹ عناصر کو بامعنی اعتراض کا موقع مل گیا اور غیر جانبدار حلقے بھی اس امتیازی پالیسی کے خلاف زبان کھولنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ مقتدرہ کی ایسی غلطی تھی جس کا فائدہ کرپٹ عناصر اٹھانے لگے اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف انسانی تاریخ کی بدترین جنگ کے دوران ایک نیا اور مشکل محاذ کھولنا مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟ بدقسمتی سے اس حوالے سے بھی یہ ہوا کہ کرپشن کے خلاف اقدامات بھی عمومی طور پر صرف ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئے جس کی وجہ سے کرپٹ مافیا کو چیخنے چلانے کا موقع مل گیا۔ اب اس بیماری کا منطقی علاج یہی ہوسکتا ہے کہ کرپشن کے خلاف آپریشن کو پورے ملک تک پھیلادیا جائے۔

اگر ایسا کیا گیا تو ملک کی تمام کرپٹ طاقتیں خود کو اس آپریشن سے بچانے کے لیے نہ صرف متحد ہوجائیں بلکہ اس آپریشن کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر افرادی اور مالی طاقت لگا دیں گی۔ کیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ تاریخی جنگ اس سے متاثر نہیں ہوگی؟

اربوں کھربوں کی اس اعلیٰ سطحی کرپشن نے اگرچہ  پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اس کے تین بڑے نقصانات ایسے ہیں جو ہمارے قومی مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں پہلا یہ کہ اس وبا سے ملکی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی ہے، خواہ اس حوالے سے کتنی خوش خبریاں سنائی جائیں اور زرمبادلہ میں اضافے کی نوید دی جائے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کھربوں روپوں کی اس بے لگام کرپشن کی وجہ سے منطقی طور پر غریب طبقات کی مشکلات میں اس حد تک اضافہ ہوگیا کہ اس کی اولین اور واحد ترجیح دو وقت کی روٹی بن گئی اس کے علاوہ وہ کسی سیاسی سماجی اور معاشی مسئلے پر سوچنے کے قابل ہی نہ رہا۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری سیاسی زندگی کرپشن سے لت پت ہوگئی جس میں بہتری کے لیے لمبا عرصہ اور سخت جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔

یہ تین بڑے نقصانات اپنی جگہ لیکن جس مسئلے کی ہم نے نشان دہی کی ہے کہ دہشت گردی کی خوفناک جنگ نے ہر مسئلے کو فی الوقت غیر اہم بنا دیا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کا سلسلہ جاری ہے ، اٹک میں شجاع خانزادہ کی خودکش حملے میں ہلاکت اور دہشت گردی کی کئی علاقائی وارداتوں کے علاوہ بڈھ بیر ایئربیس پر اس قدر منظم اور نقصان رساں حملہ کہ جس میں 33 فوجی وسویلین شہید ہوگئے۔

یہ ایسی گمبھیر اور نازک صورت حال ہے کہ اس سے ادھورے غیر منظم اور غیر منصوبہ بند طریقوں سے ہرگز نہیں نمٹا جاسکتا بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے سیاسی بصیرت، منصوبہ بندی اور ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔  اس مرحلے پر سیاسی افراتفری پیدا ہوئی اور ’’مشترکہ مفادات‘‘ رکھنے والی سیاسی طاقتیں متحد ہوگئیں تو ایسی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدف متاثر ہوجائے گا جس کا تعلق قومی بقا اور تہذیبی بقا سے ہے، بلکہ قوم ملک ایک ایسے انتشار کا شکار ہوسکتے ہیں جس کا ازالہ ممکن نہیں رہے گا۔

The post سیاسی بصیرت اور تدبر کے تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.

تعلیم: تب اور اب

$
0
0

ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں 40لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ سندھ جہاں اس وقت کل47,394 سرکاری اسکولوں میں صرف10 فیصد ہائی اسکول ہیں، باقی پرائمری اسکول ۔ سندھ کے سابق وزیر تعلیم نثار کھوڑو سندھ اسمبلی کے فلور پر اعتراف کرچکے ہیں کہ پورے سندھ میں تقریباً8ہزار اسکول مختلف وجوہات کی بنا پر بند پڑے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر اسکول مقامی زمینداروں کے گودام یا اوطاق بنے ہوئے ہیں جب کہ اساتذہ کی اکثریت جو سفارش اور رشوت دے کر ملازم ہوئی ہے، بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے مقامی سیاسی رہنماؤں کے ذاتی ملازمین کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

جو اسکول کام کررہے ہیں، ان میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ کہیں کمروں میں فرنیچر نہیں ہے اور کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کہیں بیت الخلا نہیں، تو کہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بیشتر اسکولوں کی چہار دیواری یا تو ہے نہیں اگر ہے تو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہر ایرے غیرے کا داخلہ عام سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ سر شام اسکولوں کی عمارتیں منشیات کے عادی افراد کے علاوہ دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔

اساتذہ کی طویل غیر حاضریاں معمول کی بات ہیں۔2013کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہر سال پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں میں سے بمشکل15فیصد بچے ہائی اسکول کی پہلی منزل یعنی چھٹے درجہ تک پہنچتے ہیں۔ اسکول چھوڑنے کا رجحان ان پانچ برسوں میں مزید تیز ہوجاتا ہے۔ میٹرک تک چھٹی جماعت میں داخل ہونے والوں کی 20 فیصد تعداد پہنچ پاتی ہے جس کا 60 فیصد میٹرک کا امتحان پاس کر پاتی ہے۔

اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کی ابتر صورتحال کا بنیادی سبب تو بلاشبہ حکومت کی عدم دلچسپی ہے جس نے دیگر عوامل کو جنم دیا ہے ، لیکن معاشی مسئلہ سب سے اہم ہے۔2010میں ہم نے کراچی کی کچی بستیوں کے علاوہ اندرون سندھ مختلف گوٹھوں میں تعلیم سے عدم دلچسپی کے بارے میں لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ وہ تمام خاندان جن کی ماہانہ آمدنی10 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے، ان سے تعلق رکھنے والے90فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی مالی حالت سرکاری اسکولوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کی حالت نہایت ابتر ہے جہاں تعلیم کے علاوہ ہر برائی پنپ رہی ہے۔ اگر پیٹ کاٹ کر تعلیم دلائی بھی جائے تو میٹرک کے بعد یہ توقع نہیں کہ جاسکتی کہ بچے کو ملازمت مل سکے گی یا نہیں۔ اس لیے والدین بچے کو میٹرک کرانے کے بجائے موٹر مکینک کے پاس بٹھا دینے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سے کم از کم ان کا بچہ چند ماہ کے اندر 50سے100روپے یومیہ گھر لانے لگتا ہے، جو ان کی گھریلو آمدنی میں ایک نمایاں اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔

بہت سے غریب گھرانے اپنے بچوں کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مدرسے میں داخل کرانے کے بعد وہ اپنے بچے کے تعلیمی اخراجات کے علاوہ اس کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کے اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد اسے باعزت روزگار بھی مل جائے گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر انھیں یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا عالم دین بن کر آخرت میں ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ یہ وہ تصورات ہیں، جو عام طور پر غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں میں پائے جاتے ہیں۔

لیکن اگر تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کبھی بھی اولین ترجیح نہیں رہی ہے۔7سو برس کے دوران کسی مسلمان حکمران نے اعلیٰ معیار کا کوئی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دوران جو مکتب، مدرسے اور جامعات قائم ہوئیں ، وہ سب ہی نجی شعبے میں مخیر اور علم دوست احباب اپنے وسائل سے چلارہے تھے۔ یہی کچھ معاملہ ہندوؤں کا تھا، جن کی تعلیم کی ذمے داری دھرم شالوں نے اٹھا رکھی تھی۔

حکومتِ وقت ان اداروں کے معیار، پڑھائے جانے والے نصاب اور دیگر معاملات سے قطعی بے خبر ہوا کرتی تھی۔ انگریز کے آنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ابتداً کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں لی۔1813 میں حکومت برطانیہ نے ان ہندوستانی علاقوں میں جو کمپنی کی عملداری میں آگئے تھے، تعلیم کے فروغ کے لیے ایک لاکھ روپے سالانہ کی گرانٹ منظور کی۔

مگر 20 برس تک یہی بحث چلتی رہی کہ یہ رقم کہاں خرچ کی جائے؟ کیا اس سے روایتی تعلیمی اداروں کی مدد کی جائے یا جدید عصری تعلیم کو ہندوستان میں متعارف کرایا جائے؟1835میں لارڈ میکالے نے پارلیمنٹ میں سفارشات پیش کیں جس میں اس نے ہندوستان میں دی جانے والی تعلیم کو ناقص، فرسودہ اور جدید تقاضوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے پورے ہندوستان کے لیے جدید عصری تعلیم اور عربی اور سنسکرت کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی۔

لارڈ میکالے کی سفارشات پر 1858کے بعد عمل درآمد شروع ہوا جب کمپنی کی جگہ ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر اثرآگیا۔ لیکن یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1757میں بنگال کی فتح کے بعد کمپنی بہادر نے بھی بنگال اور بہار کے بیشتر گاؤں میں کئی ہزار اسکول قائم کیے جن میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔

یہی عمل پھر 1858کے بعد پورے ہندوستان میں شروع کیا گیا۔ تقریباً ہر گاؤں میں ایک پرائمری اسکول، بڑے گاؤں یا دوتین گاؤں کے بیچ والے گاؤں میں ایک مڈل اسکول، ہر تحصیل میں ایک ہائی اسکول اور ڈویژن (کمشنری)کی سطح پر انٹرمیڈیٹ کالج قائم کیے۔ 1900کے آنے تک تقریباً65ہزار کے قریب ہندوستانی میٹرک ہوچکے تھے۔1947میں جس وقت انگریز نے ہندوستان چھوڑا، تو اس وقت تک 21یونیورسٹیوں اور 496ڈگری کالجوں میں تدریسی عمل جاری تھا۔ انگریزی دور میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام صوبائی حکومتیں چلاتی تھیں جب کہ پرائمری اسکولوں کی دیکھ بھال میونسپل نظام کے تحت ہوتی تھی۔

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی23 برسوں کے دوران حکومت نے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی تعمیر میں کسی حد تک دلچسپی لی ۔ اس نے پبلک سیکٹر کے علاوہ نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کرے ۔ اسکولوں اور کالجوں کی عمارت اور اساتذہ کی اہلیت کے حوالے سے حکومت برطانیہ نے جو معیارات قائم کیے تھے۔

ان پر عمل بھی کیا۔ لیکن بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جہاں پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کو نقصان پہنچا وہیں تعلیم کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ آپ پورے مغربی پاکستان کے تعلیمی بورڈز کے نتائج کے گوشوارے نکال کر دیکھ لیجیے،1980 تک ملک کے ہر بورڈ میں پوزیشنز سرکاری اسکولوں سے آتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو مرحوم کی تعلیم کو قومیانے کی پالیسی کو جس انداز میں ختم کیا، اس نے پاکستان میں تعلیمی نظام کو شدید نقصان سے دوچار کردیا۔

آج ملک میں چار نظام تعلیم رائج ہیں۔ اول، اشرافیہ کے تعلیمی ادارے، جو کیمبرج سسٹم سے منسلک ہیں۔ دوئم، مڈل کلاس کے انگریزی میڈیم اسکولز جو سرکاری تعلیمی بورڈ یا کسی اور بورڈ سے منسلک ہیں۔ سوئم، سرکاری تعلیمی ادارے، جو کرپشن، بدعنوانی اور سرکاری عدم توجہی کا شکار ہیں اور جہاں تعلیم کے سوا سب کچھ میسر ہے۔ چہارم، دینی مدارس، مگر یہ مدارس بھی فقہہ اور مسلک کی بنیاد پر قائم ہیں اور ان کے امتحانی بورڈز بھی الگ الگ ہیں۔

2000 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائرایجوکیشن کمیشن(HEC) قائم ہوا جس نے نجی شعبے میں جامعات کے قیام کی اجازت دینا شروع کی۔ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں بنگلوں میں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔ یہاں پھر کچھHEC کی مہربانی اور کچھ سفارش و رشوت کی کارفرمائی کہ یہ تعلیمی ادارے منفعت بخش کاروبار بن گئے اور لوٹ کھسوٹ ان کا معیار ٹھہرا۔ ان میں سے بیشتر یونیورسٹیاں بھاری داموں ڈگریاں بھی فروخت کر رہی ہیں۔

اب ایک ایسی صورتحال میں جب حکومت تعلیم کی فراہمی سے بے نیاز ہوجائے، تو علم برائے فروخت ہی ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جن کی جیبوں میں چند سکے ہیں، وہ اپنے بچوں کو نجی شعبے میں تعلیم دلوا رہے ہیں یا بیرون ملک بھیج رہے ہیں، لیکن ایک غریب مزدور اور ہاری، جو سرکاری اسکول میں اپنے بچے کو تعلیم دلاکر افسر بنانے کا خواب دیکھتا ہے اس کا یہ خواب دور غلامی میں تو شرمندہ تعبیر ہوجاتا تھا مگر اس آزاد دور میں ایسا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ ان68برسوں کے دوران ہم نے نہ صرف نئے ادارے نہیں بنائے، بلکہ انگریز سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو بھی حسب توفیق تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مستقبل سازی جیسی اصطلاحات ہمارے لیے بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں صرف سندھ ہی پر کیا موقوف، پورے ملک میں تعلیم بدترین ابتری کا شکار ہے۔ خاص طور پر غریب کے بچے کے لیے حصول علم کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اراکین مل کر آئین آرٹیکل 25A نکال دیں، کیونکہ اس شق کا بظاہرکوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔

The post تعلیم: تب اور اب appeared first on ایکسپریس اردو.

افغان بحران: جنرل راحیل کی صائب تجویز

$
0
0

بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مفاہمتی عمل آگے بڑھانا ہوگا، مسئلہ افغانستان کے تمام فریق مفاہمتی عمل کو بحال کریں، پاکستان تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے، ضرب عضب کے کامیاب خاتمے کے لیے پاک افغان سرحد کی بہتر مینجمنٹ اور اسے محفوظ بنانا ضروری ہے، مشکلات کے باوجود افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی جانب سے کیے جانے والے ’’ٹویٹس‘‘ کے مطابق آرمی چیف نے ان خیالات کا اظہار جرمنی کے شہر میونخ میں امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کی جانب سے منعقد کردہ ’’ایشیا سلامتی کانفرنس‘‘ سے خطاب کے دوران کیا۔جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو سراہا اور خطے میں امن واستحکام کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔

حقیقت میں ایشیا سلامتی کانفرنس کا انعقاد 2002 سے ایک اہم عالمی سیکیورٹی فورم پر پیش کردہ حقائق ، رپورٹوں اور ٹھوس سفارشات کی شکل میں کامیابی سے جاری ہے اور اب تک ہونے والے اجتماعات میں پاکستان ، چین، امریکا، جرمنی، فرانس، روس ، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، جاپان، انڈونیشیا، ویت نام، بنگلہ دیش ، کمبوڈیا، کوریا ، برونائی سمیت متعدد ملکوں کے سربراہان مملکت ، وزرائے اعظم ، عسکری شخصیات، سیاسی مفکر، دانشور اور سول سوسائٹی کے اہم افراد نے شرکت کی ہے۔

جنرل راحیل شریف پیر کو ایک روزہ سرکاری دورہ پر جرمنی (میونخ) پہنچے۔ موجودہ میونخ کانفرنس میں علاقائی امن اور سلامتی کے موضوع پر بحث و مباحثہ ہوا جس میں جنرل راحیل شریف نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مسلسل عدم استحکام رہنے سے علاقے کی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود امن اور مفاہمت کا عمل افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

انھوں نے افغانستان کے مسئلے کے تمام فریقین پر مفاہمتی عمل کی بحالی کے لیے زور دیا اور کہا کہ پاکستان کی سماجی و اقتصادی فضا پر اندرونی و بیرونی عدم استحکام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اندرونی استحکام کی بحالی کی کوششوں کے نتیجے میں ہمارے اور تمام خطے کے لیے اقتصادی مواقعے سامنے آئے ہیں۔ فوجی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور اس آپریشن کے کامیاب خاتمے کے لیے پاک افغان سرحد کی بہتر مینجمنٹ کرنی ہوگی اور اسے محفوظ بنانا ہوگا۔

جنرل راحیل نے ایک ایسے بحرانی اور مخدوش افغانی منظر نامے میں مسئلہ افغانستان کے تمام فریقوں کو مفاہمتی عمل کی بحالی کی دعوت دی ہے جب خود افغانستان کی داخلی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال اور عسکری افراط و تفریط ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ طالبان نے قندوز پر قبضہ کرلیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغان فورسز کی کارروائی شروع ہوگئی ہے اور متعدد عمارتوں کا قبضہ چھڑا لیا گیا ہے، صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے طالبان کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، طالبان شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں، ادھر طالبان ذرایع کا دعویٰ ہے کہ وہ ایئر پورٹ کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں، دریں اثنا امریکا کے موقر روزنامے نیو یارک ٹائمز نے قندوز پر قبضہ کو بحران میں شدت سے تعبیر کیا ہے جب کہ پنٹاگان کے پریس سیکریٹری پیٹر کک نے اسے ’’سیٹ بیک‘‘ قرار دیا ہے۔

اخبار کے مطابق افغان فورسز قندوز کو طالبان سے آزاد کرانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ،ادھر ایک افغان سیاسی تجزیہ کار اور تاریخ دان ہیلینا ملک یار نے افغان سیاسی و عسکری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس اندیشہ کا اظہار کیا ہے کہ شہریوں کو ’’بیداری‘‘ مہم کے نام پر مسلح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ملک 1990 کی انارکی میں داخل ہوسکتا ہے، انھوں نے صوبہ فریاب کے بعض مکینوں کی شکایات کے حوالے سے انکشاف کیا کہ مسلح ملیشیا لوٹ مار ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، تشدد اور لڑکیوں سے بدسلوکی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان فورسز کی قندوز واقعہ کے تناظر میں پسپائی پر عالمی عسکری ماہرین سخت حیرت زدہ رہ گئے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اتنی توانا اور امریکی تربیت پانے والی فوج، اسپیشل سیکیورٹی اسکواڈ ، بے رحم ملیشیا ، مقامی پولیس کے 28 ہزار جوان طالبانی حملہ کے خلاف جوابی کارروائی میں کیسے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ۔

بلاشبہ اس حملے میں طالبان کی جارحیت اور پیش قدمی افغان عسکری تیاریوں کا پول کھول گئی جس سے خطے میں ایک بار پھر بدامنی کا دور دورہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔جب کہ افغان فورسز کو اس بات کا بھی ادراک نہیں ہوا کہ طالبان گذشتہ سال سے قندوز پر مسلسل حملے کررہے تھے، اس کا تدارک کرنا افغان حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی ، مگر کیا کہیے کہ افغان حکام کو پاکستان کے خلاف بے بنیاد ، خود ساختہ الزاماتی مشاغل سے فرصت ہوتی اور پاکستان پر بار بار بہتان تراشنے کا عمل رک جاتا تو اس جانب توجہ دی جاسکتی تھی۔

تاہم اب بھی افغان قیادت کو ہمارا یہ صائب مشورہ ہے کہ وہ برادرانہ تاریخی رشتوں، سیاسی تعلقات، خطے میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کے اہم مقاصد کے حصول میں اشتراک عمل کو یقینی بنائے۔ جنرل راحیل کا یہی پیغام ہے کہ مشکلات کے باوجود پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ ایک مجفوظ و پرامن افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ قندوز پر حملہ افغان صورتحال میں تھرتھلی مچنے کے مصداق ہے، یہ اضطراب انگیز طالبانی کارروائی ہے جس کے خطے سمیت غیر معمولی عالمی اثرات و مضمرات ہو سکتے ہیں، یہی وقت ہے کہ افغان معاشرہ دہشت گردی کے عفریت اور بربادی کی داستان بننے سے محفوظ ہوسکتا ہے، اسے پاک افغان تعلقات کی حالیہ سیاسی و عسکری کوششوں ، یکجہتی ، امن کے قیام اور ترقی و آسودگی کے مشترکہ خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنانا ہے۔

شمالی شہر قندوز وہ طالبانی ہدف ہے جس پر انھوں نے 2001 ء میں قبضہ کیا تھا۔ طالبان اس پر اکتفا نہیں کریں گے، وہ ہولناک پیشقدمی جاری رکھیں گے، افغان فورسز کو ان کا راستہ روکنا ہوگا ، امریکا کا پھر سے اس آتش افغان میں کود پڑنے کا خطرہ بھی ٹالا نہیں جاسکتا۔ حالات گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں چنانچہ ان تمام مطلوب طالبان رہنماؤں اور کمانڈروں کو پاکستان کے حوالہ کرنا ہوگا جو اس کے معزز مہمان ہوتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کراتے ہیں ۔

ادھر افغانستان کے نائب صدر جنرل رشید دوستم ، اور عطا نور سمیت دیگر با اثر لارڈز کی مقامی ملیشیا کو از سر نو مسلح کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، جب کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے صائب بات کی کہ ایک پرامن افغانستان سے علاقائی رابطوں کو استوار کرنے کی راہ کھلے گی، پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد سے خطے کے سب ممالک مستفید ہونگے، تاہم پاکستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ انتہا پسندی کی لعنت کو ختم کیا جائے۔ ان کے اس دور رس پیغام کا ادراک وقت کا تقاضا ہے۔

The post افغان بحران: جنرل راحیل کی صائب تجویز appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی نرگسیت کا بھیانک انجام

$
0
0

خطے میں بالادستی اور سپر پاور بننا بھارت کا پرانا خواب ہے، اس سلسلے میں تمام حربے بروئے کار لائے گئے، سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے، لیکن ہوا کیا، سارے کیے دھرے پر پانی پھرگیا ، سارے خواب چکنا چورہوگئے بھارت کے ۔ نیویارک میں متحدہ متفقہ گروپ (یو ایف سی) کے وزارتی سطح کے ایک اجلاس میں رکن ممالک نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان میں کسی توسیع کی مخالفت کا اعادہ کیا۔ یو ایف سی کا موقف تھا کہ نئے مستقل ارکان کی شمولیت سے اہم مقاصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوگی جو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے اجتماعی مفاد میں نہ ہوگی۔

تکبر،رعونت ،خود پرستی اور نرگسیت کا شکار بھارتی اسٹیبلشمنٹ ،حکمرانوں اورفوج کی سوچ نے بھارت کو آج ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے ، جہاں وہ اقوام عالم میں تنہا ہوچکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے لیے شائننگ انڈیا کے نعرے کو آگے بڑھایا، تبدیلی کی امید پر غریب عوام نے انھیں راج سنگھاسن تک پہنچایا، وہ وزیراعظم بننے کے بعد کوئی چمتکار تو نہ دکھا پائے، ماسوائے ہندوتوا، بندے ماترم کے ترانے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ اور ایک جنگی جنون پیدا کرنے کے ۔ سری لنکا، نیپال، افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سب ہی بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ’را‘ کی منفی سرگرمیوں کا ہدف ہیں ، سب کا جینا اجیرن بنا رکھا ہے بھارت نے ۔چین جیسی مستحکم سپرپاور سے بھی بھارت جنگ کرچکا ہے۔

مہا بھارت جیسے خواب سراب کے پیچھے خوار ہونا ہی نصیب میں لکھا ہے ،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جبلت خودنمائی کی انتہا پرسفارتی آداب کو بالائے طاق رکھا اور تصویر بنوانے کے شوق میں فیس بک کے بانی کو زبردستی کھینچ کر اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے پائے گئے ، جگ ہنسائی اور رسوائی ملی اس عمل کے نتیجے میں۔دنیا بدل گئی، لیکن بھارت کی سوچ فرسودہ ہی رہی۔ مودی تو ویسے بھی بظاہر اجلی شیروانی پر سے مسلمانوں کے خون کے دھبے صاف نہیں کرسکتے۔

ان کو جو مینڈیٹ ملا تھا اس کو وہ بھارت کو کٹرہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔دنیا کے ممالک اوران کے حکمران اتنے نادان بھی نہیں ہیں کہ ان کی نظروں سے بھارت کے سیاہ کارنامے پوشیدہ ہوں، پاکستان کو دولخت کرنے پر مودی فخر کا اظہارکر کے ’ایوارڈ‘ بھی وصول کرچکے ہیں ۔پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے قبل ازیں بھارت جا کر جو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ، اسے اگر مودی تھام لیتے تو آج ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب آچکا ہوتا ۔لیکن اب تو نریندر مودی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے ہیں اور دور سے ہاتھ ہلا رہے ہیں ۔

کونسی خارجہ پالیسی ہے یہ، کونسے چلن ہیں زمانے کے ساتھ چلنے کے، ایک طرف ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ سے نہتے پاکستانیوں کی شہادت کے معاملات ہیں تو دوسری جانب مسئلہ کشمیر پر ہٹ دھرمی اور غاصبانہ قبضے کی سوچ ہے سات لاکھ فوج کی موجودگی اور مظالم بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہرکو دبا نہیں سکے،آج بھی کشمیر کی فضا میں سبزہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں ۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ اموروقومی سلامتی سرتاج عزیزنے او آئی سی کے رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرکے عوام کو حق خود ارادیت دینے کے بجائے ان کی آواز دبا رہا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت منفی سوچ ، روش اور رویے بدلے جب ہی وہ اقوام عالم میں کوئی مقام بنا سکتا ہے ورنہ رسوائی ہی رسوائی ہے۔

The post بھارتی نرگسیت کا بھیانک انجام appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 22412 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>